اسرائیل اور اس کے حواریوں کے لیے حماس کی نمایاں کامیابیوں کا صدمہ ایک ناسور بن چکا ہے۔ فلسطینی عوام کی واضح اکثریت کی منتخب حکومت کا تختہ اُلٹنے کے باوجود وہ حماس کے خوف سے نجات نہیں پاسکے۔ آئے روز کوئی نہ کوئی سازش تیار کی جارہی ہے۔ اب ایک قابلِ بقا و استمرار (sustainable state)فلسطینی ریاست کے قیام کے دعوے کے تحت نومبر ۲۰۰۷ء میں منعقد ہونے والی واشنگٹن کانفرنس___ حقیقت میں یہ ایک ایسا سراب ہے جو صدر بش نے فلسطینیوں‘ عربوں‘ مسلمانوں اور ساری دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے تیار کیا ہے۔ صدر بش نے بڑی ہوشیاری‘ چالاکی اور چال بازی کے ساتھ فلسطینی مسئلے کو حل کرنے کی سعودی تجویز‘ سابق وزیراعظم برطانیہ ٹونی بلیئر اور عالمی چار رکنی کمیٹی جو امریکا‘ یورپی یونین‘ روس اور اقوام متحدہ سے مل کر بنی ہے___ ان تینوں کو موت کی نیند سلانے کی نیت سے یہ سازش تیار کی ہے۔ اس کانفرنس کی ناکامی پہلے ہی سے معلوم ہے اور ہدف بھی یہی ہے‘ تاکہ ناکامی کا سارا الزام فلسطینیوں کے سرمنڈھ کر اسرائیل کو اپنے جارحانہ اور مجرمانہ منصوبوں کو پورا کرنے کا کھلا لائسنس دیا جاسکے۔
اس عالمی کانفرنس میں شام کو دعوت نامہ نہ بھیجنا بھی اس نیت کی حقیقت عیاں کرتا ہے کہ اس ناکام مگر امریکی‘ یورپین اور اسرائیلی نقطۂ نظر سے ’’کامیاب ___ بہت ہی کامیاب، عالمی پیمانے پر عالمی برادری کے معیار پر کامیاب‘‘ کانفرنس کو ناکام کرنے کی مسلسل کوششوں کا الزام شام پر بھی تھونپا جاسکے اور پھر اس پر حملہ آور ہونے کے لیے اسرائیل کو جواز فراہم کیا جائے۔ اس حملے کی تیاری کے لیے اسرائیلی ہوائی جہازوں نے شمال مشرقی شام میں دید الزور پر حملہ کر کے اپنی ریہرسل کرلی ہے اور اس میں وہ کامیاب ہونے کا دعویٰ بھی کرچکے ہیں۔ یقینا آگے بڑھ کر لبنان میں حزب اللہ‘فلسطین میں حماس‘ غزہ اور غزہ حماس اور آخرکار ایران اس کا اصل اور آخری ہدف ہوگا۔
اسرائیل اپنے جارحانہ اور توسیع پسندانہ عزائم کے بارے میں کوئی لچک نہیں رکھتا۔ وہ اپنے مبنی برظلم موقف کے بارے میں ٹس سے مس نہیں ہو رہا۔ بنیادی حساس موضوعات کو وہ چھیڑنا ہی نہیں چاہتا ہے اور فلسطینیوں سے وہی مطالبہ کر رہا ہے جو امریکا‘ برطانیہ اور یورپ اور اسرائیل نواز عالمی لابی بھی ہمیشہ سے دہراتی ہے ___ امن ‘ امن اور امن۔ صرف اسرائیل ہی کے لیے امن‘ اور ہلاکت‘ تباہی اور بدامنی اور قتل و غارت گری صرف اور صرف فلسطینیوں کے لیے۔
یہ عجیب و غریب اور ظالمانہ مساوات جو یہودی صہیونی ذہن کی خاص پیداوار ہے اور جسے یورپ اور بعد میں امریکا نے بحیثیت ملک و قوم اور نظامِ حیات اپنا لیا اور سینے سے لگالیا ہے‘ اس حد کو پہنچ چکا ہے کہ چار رکنی کمیٹی میں اقوامِ متحدہ کے نمایندے کو کہنا پڑا کہ اقوام متحدہ کو اس کمیٹی کی رکنیت سے مستعفی ہوجانا چاہیے‘ کیونکہ یہ کمیٹی فلسطین پر عائد کردہ اسرائیلی‘ امریکی‘ برطانوی‘ یورپی پابندیوں کو ختم کرانے میں ناکام رہی ہے(بی بی سی نیوز‘ ۱۵ اکتوبر ۲۰۰۷ء)۔ اقوامِ متحدہ جو امریکا‘ یورپ اور روس کے بعد باقی دنیا کی اس کمیٹی میں نمایندہ تھی‘ کے نمایندے کا یہ بیان اس امر کی کھلی دلیل ہے کہ یہ ایک ایسا یک طرفہ ڈراما ہے جس کے سارے کردار اسرائیل اور اسرائیلی ہی ہیں۔ اس میں کسی اور کی کوئی گنجایش نہیں۔
اللہ تعالیٰ اَسْرَعُ مَکْرًا ہے‘ یعنی اللہ اپنی چال چلنے میں سب سے تیز ہے۔ اس لیے اس نے اپنی قدرت‘ حکمت اور مصلحت سے غزہ کی پٹی میں حماس کو غالب کر کے اسرائیل‘ امریکا‘ برطانیہ‘ یورپ اور دیگر اسرائیلی ہم نوائوں کے سینے میں ایک زہریلا خنجر گھونپا ہے۔ سب ہی جانتے ہیں کہ جو حق‘ اہلِ حق کے لیے زندگی کا باعث ہوتا ہے‘ وہی حق‘ حق کے دشمنوں کے حق میں زہرہلاہل ہوتا ہے۔ شمال میں حزب اللہ اور جنوب مشرق میں حماس کے نرغے میں پھنسی ہوئی اسرائیلی ریاست‘ اور اس کے ساتھ یہ سب کے سب ظالم اورمجرم ملک اور قومیں درحقیقت اپنی اپنی موت کی تیاریوں میں لگی ہوئی ہیں کیونکہ اہلِ حق کو ختم کرنے کے زعم میں ان شاء اللہ ایک روز یہ خود صفحۂ ہستی سے مٹ جائیں گی۔ عاد و ثمود‘ فرعون و ہامان اس کی زندہ مثالیں ہیں۔
گذشتہ برس حزب اللہ کے کمزور اور ناتواں ہاتھوں سے اسرائیل‘ امریکا‘ برطانیہ وغیرہ کی شرمناک شکست اللہ تعالیٰ کی چالوں کی ایک کڑی تھی۔ اب یہ ظالم قومیں اپنے پیروں سے خود چل کر واشنگٹن کے اندھے کنوئیں میں اپنی مرضی سے چھلانگ لگا رہی ہیں۔ یہ قوموں کی اجتماعی خودکشی ہے جو عذابِ خداوندی کی بہترین مثال ہے۔
یہ صرف اور صرف کُنْ فَیَکُوْنُ کا کھیل ہے اور کچھ نہیں۔ وَّمَا ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ بِعَزِیْزٍ (ابراھیم ۱۴:۲۰) ’’ایسا کرنا اللہ کے لیے کچھ بھی دشوار نہیں ہے‘‘۔