قوم اس سانحے پر دل گرفتہ تھی‘ اور خود فوج سے نسبت رکھنے والے دردمند افراد بھی شرمندہ تھے کہ شمالی وزیرستان میں ڈھائی سو فوجی افسروں اور جوانوں کے ایک پورے دستے (garrison) کو ایک گولی چلائے بغیر‘ قبائلی جوانوں نے زیرحراست لے لیا۔ یہ مغوی فوجی تقریباً دو ماہ سے قبائل کے قبضے میں ہیں اور اپنی رہائی کے لیے تڑپ رہے ہیں۔ مشرقی پاکستان میں افواجِ پاکستان کے ہتھیار ڈالنے کے بعد‘ اتنی بڑی تعداد میں فوجیوں کے ہتھیار ڈالنے (سرنڈر) کا یہ دوسرا واقعہ ہے۔ اس پر جنرل پرویز مشرف نے ایوانِ صدر کے پُرتکلف ماحول میں جس پر اقبال کا یہ شعر صادق آتا ہے ؎
ترے صوفے ہیں افرنگی‘ ترے قالین ہیں ایرانی
لہو مجھ کو رُلاتی ہے جوانوں کی تن آسانی
جرنیلی شان سے جنگی حکمتِ عملی کی کتاب کا ورق کھولتے ہوئے فرمایا کہ ان کو پہلے مورچے لگانے چاہییں تھے اور پھر قبائل سے بات چیت کرنا چاہیے تھی اور چونکہ انھوں نے یہ ’پروفیشنل‘ راستہ اختیار نہیں کیا‘ اس لیے ۱۸ فوجی گاڑیوں کا یہ قافلہ جس میں بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق ایک چوتھائی حصہ سامانِ رسد اور تین چوتھائی اسلحے پر مشتمل تھا‘ قبائل کی گرفت میں آگیا۔ جنرل صاحب کا یہ تجزیہ ممکن ہے کتابی اعتبار سے درست ہو‘ لیکن کیا فی الحقیقت پیشہ ورانہ رویے سے محرومی صرف اس ایک دستے کا معاملہ ہے یا جنرل پرویز مشرف کے دورِاقتدار میں جو سب سے اندوہناک سانحہ رونما ہوا ہے‘ اس کا تعلق فوج کے پیشہ ورانہ کردار کی کمزوری ہی سے ہے۔
فوج کو فی الحقیقت پیشہ ورانہ مہارت کے اعلیٰ ترین معیار کا پیکر ہونا چاہیے لیکن جس فوج کو سیاست میں زبردستی کھینچ کر لایا گیا ہو‘ جو ہمہ وقتی سربراہ کی خدمات سے محروم ہو‘ جس کے اعلیٰ صلاحیت رکھنے والے سیکڑوں افراد کو سول انتظامیہ میں گھسیٹ لیا گیا ہو‘ جس کو کاروباری معاملات میں اتنا الجھا دیا گیا ہو کہ ایک تازہ تحقیقی کتاب Military Inc. کے مطابق ۲۰۰ ارب روپے سے زیادہ کے کاروبار میں افواج‘ یا ان سے وابستہ ادارے ملوث ہیں‘ اور فوج Mili-Bisکی شکل اختیار کرتی جارہی ہے‘ اس سے کسی پیشہ ورانہ مہارت کی توقع کی جاسکتی ہے؟
گستاخی معاف‘ فوج میں پروفیشنلزم پیدا ہوتا ہے فوجی مقاصد‘ آداب اور جان دینے کے کلچر سے مکمل وابستگی کے ماحول میں۔ اگر ماحول سیاسی کھیل میں کھلاڑی بننے اور دنیا بنانے کا ہو تو پھر جان کی بازی لگانے والی کیفیت کیسے پیدا ہو۔ اگر توجہ کا مرکز سیاست میں الجھنا‘ مادی‘ معاشی اور کاروباری معاملات میں ملوث ہونا اور کیریر بنانا اور زمینوں کی ہوس بن جائیں تو پھر پروفیشنلزم کہاں سے پیدا ہو۔ اگر فوجی قیادت ہی نہیں‘ جوانوں کو دوسروں کی حفاظت کی جگہ خود اپنی حفاظت کی فکر ہو تو پھر ملک کی حفاظت کا خدا حافظ اور فوجی پروفیشنلزم قصہ پارینہ بن جاتے ہیں۔
بدقسمتی سے جس فوج کی شہرت (حقیقت جو بھی ہو اور جتنی بھی ہو) یہ ہوجائے کہ اس کے بارے میں دنیا میں کہا جائے کہ سینیر جنرلوں نے مال و جایداد جمع کرنے میں بے نظیر اور ان کے شوہر کوبہت پیچھے چھوڑ دیا ہے (دی گارڈین‘۲۰ اکتوبر ۲۰۰۷ء) تو پھر اس کے افسروں اور سپاہیوں سے کون سے پروفیشنلزم کی توقع کی جائے۔ یہ چیزیں فوج کی پیشہ ورانہ مہارت کو فروغ دیں گی‘ یا اسے اس سے بتدریج دُور کرتی چلی جائیں گی۔ یہ بڑا بنیادی سوال ہے جس کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔
پھر فوج کی پیشہ ورانہ مہارت کا بڑا گہرا تعلق اس امر سے ہے کہ جس آپریشن میں فوج کو لگایا گیا ہے‘ اس کے بارے میںاس کے اور قوم کے جذبات کیا ہیں۔ پیشہ ورانہ مہارت محض کوئی فنی چیز نہیں ہے‘ اس کا تعلق انسان کی پوری شخصیت‘ اس کے محرکات و عزائم اور ان حالات و کوائف سے ہے جن میں کوئی اس سے عملی کام لیتا ہے۔ اگر فوج اور قوم اپنے دل کی گہرائیوں میں یہ سمجھتی ہے کہ دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ کوئی حقیقی جنگ نہیں ہے‘ یہ پاکستان‘ اسلام یا اُمت مسلمہ کی جنگ نہیں ہے بلکہ امریکا کی عالمی ہوسِ اقتدار اور اسلام دشمنی کی جنگ کا حصہ ہے‘ جس میں فوج کو جھونکا جا رہا ہے تو اس فوج میں پیشہ ورانہ مہارت کہاں سے آسکتی ہے۔ آپ کتنے بھی دعوے کریں کہ یہ ہماری اپنی جنگ ہے‘ قوم اور خود فوج کا ذہن اور دل اسے تسلیم نہیں کرتے۔ بلکہ آپ خود باربار کہہ چکے ہیں کہ اگر ہم یہ کام نہ کریں‘ تو امریکا کرے گا۔ آپ کے وزیرخارجہ نے اسی ہفتے کہا ہے کہ اگر ہم قبائلی علاقوں میں کارروائی نہ کریں‘ تو ناٹو کے تیس ممالک کی فوجیں خاموش نہیں بیٹھیں گی‘ جس کے صاف معنی یہ ہیں کہ یہ پاکستان کی نہیں امریکا اور ناٹو کی جنگ ہے۔ جس فوج کے افسر اور جوان ضمیر کی یہ خلش رکھتے ہوں‘ ان میں پیشہ ورانہ رویہ کہاں سے آئے گا؟ آپ نے فوج کو تیار تو کیا تھا بھارت کی فوج کے مقابلے کے لیے اور یہ معرکہ جب بھی ہوا‘ فوج کے جوانوں نے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ لیکن جس فوج کو ایک جانے پہچانے دشمن کے لیے تیار کیا گیا تھا‘ اسے اپنے ہی اہل و عیال کے کشت و خون کے لیے استعمال کیا جائے اور پھر اسے‘ اس کے غیرپیشہ ورانہ رویے کا طعنہ دیا جائے تو اس سے بڑا ستم اور کیا ہوسکتا ہے۔
پھر ایک اور بڑا بنیادی سوال ہے جسے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ ہماری فوج کی ساری تربیت ہی منظم جنگ کے لیے ہوئی ہے۔ منظم اور روایتی جنگ اور گوریلا جنگ میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ جس فوج کی ساری پیشہ ورانہ صلاحیتیں اور تربیت روایتی جنگ کے لیے ہو‘ اسے آپ گوریلا جنگ کے ایک ایسے میدان میں جھونک دیں جس کی نہ اُونچ نیچ سے وہ واقف ہو اور نہ جس کی مخصوص حکمت عملی پر اس کی گرفت ہو اور پھر اس میں پیشہ ورانہ رویے کی کمی کی بات کی جائے‘ تو یہ فوج میں پیشہ ورانہ رویے کی کمی کا مظہر ہے یا پیشہ ورانہ رویے کا درس دینے والوں کے غیرپیشہ ورانہ طرزِعمل کا ثبوت؟مناسب ہوگا اگر اس پس منظر میں خود امریکا اور ناٹو ممالک کے نہایت ہی اعلیٰ پیشہ ورانہ صلاحیت اور تربیت رکھنے والی افواج کی زبوں حالی کو بھی نگاہ میں رکھا جائے۔ امریکا کی فوج کی تربیت اور فنی برتری کے بارے میں تو دو آرا نہیں ہو سکتیں‘ لیکن غیرتربیت یافتہ مجاہدین اور مزاحمت کاروں کے ہاتھوں عراق اور افغانستان میں اور اس سے پہلے ویت نام میں اس کا کیا حشر ہوچکا ہے۔ اسرائیل کی فوج کے پروفیشنلزم کا تو بڑا چرچا ہے مگر لبنان میں حزب اللہ کے غیرفوجی مجاہدین نے جس طرح اسرائیل اور اس کے مددگاروں کو شکست سے دوچار کیا‘ وہ تاریخ کا حصہ ہے۔
امریکا کے سابق کمانڈر کا بیان ۱۴ اکتوبر ۲۰۰۷ء کے امریکی اخبارات میں شائع ہوا ہے اور پوری دنیا میں بشمول پاکستان‘ میڈیا نے اسے بڑی اہمیت دی ہے۔ اس نے عراق میں امریکی افواج کی ناکامی کی پوری ذمہ داری وائٹ ہائوس کی جنگی حکمت عملی پر ڈالی ہے اور اس کے الفاظ یہ ہیں:
امریکا ایک ڈرائونے خواب سے گزر رہا ہے جس کا کوئی اختتام سامنے نہیں ہے۔ ہمارے قومی رہنمائوں نے غیرمعمولی نااہل اسٹرے ٹیجک قیادت کا مظاہرہ کیا ہے۔ بڑے پیمانے پر غلطیوں سے پُر‘ غیرحقیقت پسندانہ حد تک پُرامید جنگی منصوبے سے لے کر انتظامیہ کی جدید ترین حکمت عملی تک‘ یہ انتظامیہ ممکنہ معاشی اور فوجی طاقت کو ہم آہنگ کرنے اور استعمال کرنے میں ناکام رہی ہے۔ موجودہ انتظامیہ‘ کانگریس‘ خفیہ ایجنسیوں خصوصاً اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کو اس عظیم ناکامی کی ذمہ داری کو قبول کرنا چاہیے‘ اور امریکی عوام کو انھیں جواب دہ قرار دینا چاہیے۔ (دی نیشن‘ ۱۴ اکتوبر ۲۰۰۷ء)
جو کچھ وزیرستان میں ہو رہا ہے‘ وہ اس کی کاربن کاپی ہے۔ جو ڈھائی ہزار فوجی حراست میں آئے ہیں‘ وہ جنرل پرویز مشرف کی لہر کا شاخسانہ تھے۔ امریکا کی حکمت عملی کا جو حشر عراق میں ہو رہا ہے‘ وہی جنرل پرویزمشرف کی حکمت عملی کا وزیرستان میں ہونا مقدر ہے۔ جنرل صاحب کی آنکھیں کھلی ہوں یا نہ کھلی ہوں لیکن امریکی کانگریس کی House Armed Services Committee کی جو کارروائی امریکی اخبارات میں ۱۱اکتوبر ۲۰۰۷ء کو شائع ہوئی ہے‘ اس میںاعتراف کیا گیا ہے کہ:
صدرپرویز مشرف سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کچھ زیادہ کرنے کے لیے امریکا کا دبائو معکوس نتائج دے رہا ہے‘ اور قبائلی علاقوں میں انتہا پسندوں کے خلاف جنگ ہاری جاچکی ہے۔
ڈاکٹر مارون وین بام نے جو واشنگٹن کے مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ سے وابستہ ہیں‘ کمیٹی کے سامنے اپنی شہادت میں کہا ہے:
ہم میں سے بیش تر جن کی موجودہ مرحلے میں پاکستان پر نظر ہے‘ یقین رکھتے ہیں کہ پاکستان شمال مغربی صوبے میں انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ ہارچکا ہے۔
جس طرح امریکی جنرل ریکارڈو سان شیز نے کہا ہے کہ پروفیشنلزم کی کمی فوج میں نہیں‘ اس قیادت میں ہے‘ جس نے فوج کو اس آزمایش میں ڈالا ہے اور جواب دہی اس قیادت کی ہونی چاہیے‘ جو اس اسٹرے ٹیجک تباہی کی اصل ذمہ دار ہے ع
ہم الزام ان کو دیتے تھے‘ قصور اپنا نکل آیا