نومبر۲۰۰۷

فہرست مضامین

ازواجِ مطہراتؓ کا اسلوبِ دعوت

نصیر خان | نومبر۲۰۰۷ | تاریخ و سیر

Responsive image Responsive image

صحابہؓ اور صحابیاتؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا براہ راست تربیت یافتہ اوراس امت کا افضل ترین طبقہ ہے۔ان میں بھی ازواجِ مطہراتؓ کوقربتِ نبوی کی وجہ سے خصوصی فضیلت حاصل ہے ۔ان کو اللہ تعالیٰ نے اقامت دین کے لیے بے مثل جدوجہد کے انعام میں رضی اللہ عنہم ورضوعنہ کے شرف سے نوازا۔ہمیں جہاں اپنے تزکیہ وتربیت اور اصلاح معاشرہ کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات اور آپ کی سیرت سے روشنی درکار ہے‘ وہاں ان صاحبِ عزیمت ہستیوں کی روشن زندگیوں سے بھی حرارت مطلوب ہے جنھوں نے دین کی خاطر ہر طرح کی قربانیاں پیش کیں اور اسے دنیا میں پھیلانے کے لیے بہترین اور ہمہ جہت کوششیں کیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ داعی‘ دعوت کے امکانات کو پہچان کرموقع و محل کے لحاظ سے ان کا استعمال کریں۔ زیرنظر مضمون میںازواج مطہراتؓکی زندگیوں سے ایسے ہی موتی چننے کی کوشش کی گئی ہے۔

  •  اپنے عمل سے منکرات کو ختم کرنے کی مثال: صحابیاتؓ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا جذبہ اتنا غالب تھا کہ اس کے مقابلے میں اور کوئی خواہش ،محبت یاجذبہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا تھا۔غم کا موقع ہو تایا خوشی کا،وہ اپنے عمل سے سنت کی پیروی کا درس دیتی تھیں۔جب شام سے حضرت اُم حبیبہ ؓ کے والد حضرت ابو سفیان ؓ کی وفات کی خبر آئی تو تین دن کے بعد آپ ؓنے خوشبو منگواکر لگائی، پھر فرمایا: مجھے اس کی ضرورت نہیں تھی اگر میں نے رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ نہ سنا ہوتا کہ کسی مومن عورت کے لیے جائز نہیں جو اللہ تعالیٰ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتی ہو، کہ اپنی میت پر تین دن سے زیادہ سوگ منائے‘ سواے شوہر کے ،جس کا سوگ چار مہینے دس دن ہے۔(بخاری،ترمذی، ابوداؤد)

اسی طرح جب حضرت زینبؓ بنت جحش کا بھائی فوت ہو گیا تو (تین دن کے بعد)آپ نے خو شبو منگوائی اور لگا کردرج بالا حدیث بیان کی۔اس طرح ان دو جلیل القدر ہستیوں نے پہلے اپنے عمل سے پھر قول سے ایک بُری رسم کی اصلاح کی۔

  •  عوام الناس کے قلوب کی اصلاح: حضرت صفیہؓتلاوت قرآن کے ساتھ رونے کی تاکید کرتی تھیں تاکہ علم کے ساتھ بھر پور روحانی فیض بھی حا صل ہو۔ایک مرتبہ کچھ لوگ آپ کے حجرے میں جمع ہو گئے ۔انھوں نے اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا ،قرآن کریم کی تلاوت کی اور سجدہ کیا۔ جب آپ ؓنے یہ دیکھا تو ان کو آواز دے کر کہا: ’’یہ سجدے اور تلاوت قرآن تو کر رہے ہو لیکن تمھیں رونا کیوں نہیں آتا؟‘‘(حلیۃ الاولیاء و طبقات الاصفیاء)۔ مراد اس بات کی تعلیم تھی کہ عبادات کے ظاہری مراسم روح سے خالی نہیں ہو نے چاہییں۔ جب بات دل میں اتر تی ہے تو تب ہی رونا نصیب ہوتا ہے اور عملی زندگی اس سے متاثر ہوتی ہے۔
  •  مزاجِ نبوت سے واقفیت: حضرت زینبؓ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات اور مزاج سے بخوبی آگاہی حاصل تھی اور مسلمانوں کی تعلیم و تربیت کے لیے اس کا بھر پور طریقے سے استعمال کرتی تھیں۔

ایک مرتبہ عبد المطلب بن ربیعہؓ اور فضل بن عباسؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو ئے اور درخواست کی کہ ان کو بھی عامل مقرر کیا جائے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی درخواست سن کر کچھ زیادہ دیر کے لیے خاموش ہو گئے ۔چونکہ آپ کومزاج نبوت سے بخوبی واقفیت حاصل تھی، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خاموشی کو سمجھ گئیں اور پردے کے پیچھے سے اشارتاً منع کیا کہ اس کے بارے میں بات چیت نہ کریں (عامل بننے کی درخواست نہ کریں کیو نکہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس مطالبے کو ناپسند کرتے ہیں)۔ (مسلم،سنن ابوداؤد )

  •  خواتین کی اصلاح:حضرت عائشہ ؓ داعیانہ مزاج کی مالک تھیں ۔آپ کا رویہ برائیوں کے ساتھ مصالحانہ نہیں بلکہ ا ن کو جڑ سے اکھاڑنے کا تھا۔آپ اس میں کسی چھوٹے بڑے کی تمیز نہیں کرتی تھیں،برائی جس میں بھی دیکھتیں توفوراً اس کو ٹوکتیںاور اصلاح کرتی تھیں۔ ایک دن آپؓ ، حضرت صفیہؓ اُم طلحہ کے پاس آئیں اور دیکھا کہ ان کی بیٹیاں بغیر چادر کے نماز پڑھ رہی ہیں‘حا لا نکہ وہ بالغ ہو چکی تھیں تو فرمایا: ’’ان میں سے کوئی بغیر چادر کے نماز نہ پڑھے۔ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے حجرے میں تشریف لائے۔ میرے پاس ایک لڑکی تھی(اور اس کے سر پر چادر نہیں تھی)۔آپؐ نے مجھے اپنی تہمد دی اور کہا کہ اس کو پھاڑ کر دو ٹکڑے کرکے ایک ٹکڑا اس کو اور ایک اُم سلمہ ؓ کی گود میں جو لڑکی ہے‘ اس کو دے دو،کیونکہ میرے خیال میں وہ بالغ ہو چکی ہیں۔(مسنداحمد، سنن ابوداؤد)

ایک دفعہ آپؓ کی بھتیجی حفصہ بنت عبدالرحمن آپؓ کے پاس آئی ۔ اس نے باریک اوڑھنی پہن رکھی تھی جس سے اس کا جسم جھلک رہا تھا ۔آپؐ نے اس سے وہ اوڑھنی لے کر پھاڑ ڈالی اور تذکیربالقرآن کرتے ہوئے فرما یا :’’کیا تم نے سو رئہ نور میں اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ احکام نہیں پڑھے ہیں ؟‘‘پھر اس کو ایک موٹی اوڑھنی منگواکر دے دی ۔(موطا)

ایک مرتبہ صفا اور مروہ کے درمیان سعی کر تے ہو ئے ایک عورت کو دیکھا کہ چادر میں صلیب لگا ئی ہوئی ہے تو فو راً منع کر تے ہو ئے فرمایا :’’اپنے کپڑوں سے اس کو اتار دو ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اس قسم کی چیزیں کپڑوں میںدیکھتے تو توڑ دیتے تھے‘‘۔(مسنداحمد)

ایک خاتون نے منت مانی کہ اگر اللہ تعالیٰ اس کو بیماری سے شفا دے تو وہ بیت المقدس جاکر نماز پڑھے گی۔صحت یاب ہونے کے بعد اس نے سفرکی تیاری کی اور جانے سے پہلے حضرت میمونہ ؓ کو سلام کرنے کے لیے حاضر ہوئیں تو آپؓ نے اس کوکہا: ’’تم یہا ں بیٹھو اور جو کھانا میں بنائوں اسے کھائو اور مسجد نبویؐ میں نماز پڑھو،کیونکہ میں نے رسول ا للہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ اس میں ایک نماز پڑھنا اس کے علاوہ کسی مسجد میں ایک ہزار نمازوںسے افضل ہے‘ سواے بیت اللہ کے۔ (مسند احمد)

ایک مرتبہ کچھ عورتیں حاضر خدمت ہوئیں تو آپ ؓ نے ان کو ہدایت کی کہ مجھے مردوں کو ٹوکتے ہوئے شرم آتی ہے، اس لیے اپنے شوہروں کو آگاہ کرو کہ پانی سے طہارت حاصل کیا کریں کیونکہ یہی مسنون طریقہ ہے۔(مسند احمد)

  •  زیرِ اثر لوگوں کی اصلاح: حضرت عائشہ ؓ کے مکان میں ایک کرایہ دار رہتا تھا۔ اس کی نسبت معلوم ہو ا کہ وہ نرد کھیلتا ہے ،سخت برافروختہ ہوئیں اور کہلا بھیجا کہ کہ نرد کی گوٹیوں کو میرے گھر سے باہر نہ پھینک دو گے تو میں تمھیں اپنے گھر سے نکلوا دوں گی۔(بخاری)

اپنے زیر اثر لوگوں کی اصلاح کے لیے اپنے اختیارات کے استعمال کے ذریعے تنبیہ بھی اکثر سود مند ثابت ہوتی ہے۔کیونکہ کہ معاشرے میں لوگ مختلف ذہنی اور نفسیاتی کیفیات کے حامل ہوتے ہیں۔کچھ لوگ تو سیدھی سادی دعوت سے راہ راست پر آجاتے ہیں‘ جب کہ کچھ لوگوں کو سزا کا خوف دلاکر ہی برائیوں سے روکا جاسکتاہے۔

ایک بار حضرت عبد الرحمٰن بن ابی بکرؓ کو دیکھا کہ وضو اچھی طرح نہیں کیا تو فوراً تنبیہ فرمائی: اے عبدالرحمن ! کامل طریقے پر وضو کرو ، کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سناہے کہ ٹخنوں کے لیے آگ ہے( اگر وہ وضو میں خشک رہ جائیں)۔(مسنداحمد)

ایک مرتبہ حضرت ابو سلمہؓ کی اپنے قبیلے والوں کے ساتھ زمین کے بارے میں لڑائی ہوگئی۔ جب وہ حضرت عائشہ ؓکے پاس آئے تو آپ ؓنے ان کو نصیحت کر تے ہو ئے کہا: ابو سلمہؓ !زمین سے بچو، بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے : جس نے ایک بالشت بھر زمین ظلم سے حاصل کی‘ قیامت کے دن ساتوں زمینوں سے اس زمین کے ٹکڑے کے برابر اس آدمی کے گلے میں بطورِسزاطوق بنا کر ڈالی جائے گی۔ (مسلم،بخاری، مسند احمد)

حضرت اُم سلمہ ؓ کی عادت تھی کہ اپنے حلقۂ اثر میں جب بھی کوئی کام اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے طریقوں سے ہٹ کر دیکھتیں ،تو فوراً ٹوک دیتی تھیں۔

ایک دفعہ آپ ؓ کا بھتیجا آپ کے ہاں آیا اور مکان میں دو رکعت نماز پڑھی ۔جب سجدے کے لیے جانے لگا تو مٹی کو ہٹانے کے لیے پھونک ماری۔آپؓ نے دیکھا تو اس کو تنبیہ کر کے فرمایا: پھونک نہ مارو ، کیونکہ میں نے رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یسار نامی ایک لڑکے کو جس نے سجدے میں پھونک ماری تھی، فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اپنے چہرے کو اللہ تعالیٰ کے لیے خاک آلود کرو۔(مسند احمد)

ایک موقع پر جب سلمہؓ بن ہشام کو جماعت میں غیر حاضر پایا تو ان کی بیوی سے دریافت کیا: کیا وجہ ہے میں سلمہ کو نماز باجماعت میں رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کے ساتھ حاضر ہوتے نہیں دیکھتی؟اس کی بیوی نے بتایا کہ چونکہ وہ جنگِ موتہ میں نہیں گئے تھے‘ اس لیے لوگوں کے عار دلانے کی وجہ سے وہ گھر سے نہیں نکلتے۔(ابن ہشام)

اُم الحسین ؒفرماتی ہیں کہ میں حضرت اُم سلمہ ؓ کے پاس تھی کہ کچھ مساکین آئے جن میں عورتیں بھی تھیں۔انھوں نے سوال کیا‘ تو میں نے کہا:یہاں سے چلے جائو۔حضرت اُم سلمہ ؓ نے سنا تو فوراً تنبیہہ کی: ’’ہمیں ایسا کرنے کا حکم نہیں دیا گیا ہے۔ ان میں سے ہر ایک کو اور کچھ نہیں تو ایک کھجور ہی دے کر واپس کرو‘‘۔(الادب المفرد)

نماز دین کا ستون ہے اور مسنون اوقات کا التزام اس کی اقامت میں شامل ہے۔جب دیکھا کہ امرا نمازکے مسنون اوقات کاخیال نہیں رکھتے توان پر تنقید کرتے ہوئے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز ظہر تم لوگوں سے جلد پڑھا کرتے تھے اور تم لوگ نماز عصر آپؐ سے جلد پڑھتے ہو!(ترمذی، مسنداحمد)

ازواج مطہراتؓ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مقابلے میں کسی رشتے ناتے کا کوئی لحاظ نہیں کرتی تھیں ۔ ایک مرتبہ حضرت میمونہؓ کے پاس ان کا کوئی رشتے دار اس حالت میں آیا کہ اس کے منہ سے شراب کی بو آرہی تھی ۔جب آپؓ نے دیکھا تو جھڑک کر فرمایا: تم مسلمانوں کے پاس کیوں نہیں جاتے تاکہ وہ تمھیں کوڑے لگاکر‘ پاک کردیں ؟تم آیندہ میرے گھرمیں کبھی نہ آنا۔(الطبقات الکبریٰ)

  •  حاکمِ وقت کو نصیحت: حکام کے سامنے سیدھی اور دو ٹوک بات کہنے کے لیے بڑی جرأت کی ضرورت ہوتی ہے لیکن یہ کام جتنا مشکل ہے اتنا ہی زیادہ باعثِ اجر و فضیلت ہے۔ حضرت عائشہؓ کو صحبت نبوی کی وجہ سے یہ فضیلت بھی بدرجہ کمال حاصل تھی۔ایک دفعہ حضرت امیرمعاویہؓ نے درخواست کی کہ آپؓ ان کو ایک مختصر اور نصیحت آموز خط لکھیں تو آپؓ نے ان کو لکھا: میں نے رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ جو شخص لوگوں کی ناراضی مول لے کر اللہ تعالیٰ کی رضا تلاش کرے گا‘ اللہ تعالیٰ اس کو لوگوں کی تکالیف سے بچانے کے لیے کافی ہو جائے گا‘ اور جو  اللہ تعالیٰ کو ناراض کر کے لوگوں کی رضا چاہے گا تو اللہ تعالیٰ اس کو ان کے سپرد کردے گا‘‘۔(ترمذی)

ایک حاکمِ وقت کے لیے اس خط میں اختصار کے ساتھ جامعیت ، موزونیت او ر جرأت مثالی ہے۔ حضرت معاویہؓ کو ایک دوسرے خط میں آپؓ نے لکھا : جو بندہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی والے اعمال کرے گا‘ وہ اس کی تعریف کرنے والوں کو اس کی مذمت کرنے والا بنا دے گا۔

جب زیاد نے حضرت حجرؓ بن عدی کوبغاوت کے الزام میں حضرت معا ویہؓ کے دربار میں پیش کیا (کیو نکہ وہ اُمراکے ظلم وستم پر نکیر فرما تے تھے ) تو حضرت معاویہؓ نے ان کو قتل کرایا ۔جب حضرت عائشہؓ حضرت معاویہؓ سے ملیں تو ان کو اللہ تعالیٰ سے ڈراتے ہو ئے فرما یا: اے معاویہ ! کیا تمھیں حجر بن عدیؓ اور ان کے ساتھیوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ڈر نہیں ہے۔

  •  مدعو کے فھم و فراست کو اپیل کرنا: حضرت ام حبیبہ ؓسردار قریش ابو سفیان کی بیٹی تھیں۔وہ باوجود قیادت اور سیادت کے فتح مکہ تک اسلام کے خلاف ہر محاذ پر سرگرم رہا۔   فتح مکہ سے پہلے جب وہ مدینہ آیا ہوا تھا‘تو حضرت اُم حبیبہ ؓ نے دوران گفتگو اس کی عقل ودانش سے اپیل کرتے ہوئے کہا: میرے ابا!اللہ تعالیٰ نے مجھے ہدایت سے نوازا ہے اور آپ قریش کے سردار اور بزرگ ہوکر کیونکر اسلام سے محروم رہ گئے ہیں۔ آپ پتھر کی عبادت کرتے ہیں جو نہ سنتاہے اور نہ دیکھتا ہے۔ مراد یہ تھی کہ یہ ایک سردار کی عقل و دانش سے قطعاً میل نہیں کھاتا۔ چنانچہ ابوسفیان نے یہ سن کر کہا: تم بھی عجیب بات کررہی ہو،کیامیں اپنے باپ داد ا کے دین کو چھوڑ کر محمد(صلی اللہ علیہ وسلم ) کی اطاعت کرلوں؟یہ کہہ کر وہاں سے اٹھ کر چلا گیا۔ لیکن تھوڑے عرصے بعد اسلام قبول کرلیا (تاریخ مدینہ)۔بعید نہیں کہ اس کے قبول اسلام کا ایک محرک یہ گفتگو بھی ہو۔

صحابیات کی دعوتی زندگی کو دیکھا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ان کی خدمات زندگی کے تمام پہلوئوں پر مشتمل ہیں۔انھوں نے گھریا معاشرے میں جہاں بھی کوئی کوتاہی دیکھی اس کی اصلاح کی بھرپور کوشش کی اور موقع محل اورمخاطب کا بھی خیال رکھا۔انھوں نے انذار و تبشیر دونوں سے کام لیا اور ہمیشہ امید کا دامن تھامے رکھا۔ دعوت دین کا کام کرنے والے افراد کی کامیابی اسی کا اتباع کرنے میں مضمر ہے۔