صدرجارج بش کا دعویٰ ہے کہ جن افراد اور اقوام کو وہ ’دہشت گرد‘ قرار دے کر افغانستان اور عراق میں خون کی ہولی کھیل رہے ہیں اور پوری دنیا میں خوف و ہراس‘ قانون شکنی اور انصاف سے محرومی کی فضا قائم کیے ہوئے ہیں‘ وہ آزادی‘ حقوق انسانی‘ رواداری اور شرافت کی ان اقدار اور تصورات کے مخالف بلکہ دشمن ہیں جن کا امریکا علَم بردار ہے۔ اس دعوے کو اقوامِ عالم نے کبھی بھی درخورِاعتنا نہیں سمجھا اور دنیا بھر میں امریکا اور اس کی موجودہ قیادت کے خلاف غم و غصے بلکہ نفرت کا جو طوفان اُمڈ آیا ہے‘ وہ عوام الناس کے اصل جذبات اور احساسات کا ترجمان اور امریکا کے بارے میں ان کی بے لاگ راے کا مظہر ہے۔ گذشتہ چار ہفتوں میں عراق اور امریکا میں تین ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں جن سے امریکی قیادت کا اصل چہرہ اور دہرا کردار ایک بار پھر کھل کر سب کے سامنے آگیا ہے اور خود امریکی دانش ور اور باضمیر صحافی بھی ان پر چیخ اُٹھے ہیں۔
پہلا واقعہ ۱۶ستمبر ۲۰۰۷ء کو بغداد میں رونما ہوا جس میں عراق میں امریکا کی ایک نجی سیکورٹی کمپنی بلیک واٹر (Black Water) کے محافظوں نے ۱۷معصوم عراقی شہریوں کو چشم زدن میں بھون ڈالا جس پر عراقی عوام ہی نہیں‘ امریکا کی سرپرستی میں کام کرنے والی عراقی حکومت بھی چیخ اُٹھی اورساری دنیا میں ایک کہرام برپا ہوگیا۔واضح رہے کہ یہ کوئی منفرد واقعہ نہیں___ جب سے امریکا نے عراق پر فوج کشی (۲۰۰۳ء )کی ہے‘ وہاں امریکا اور اس کے اتحادیوںکے ڈیڑھ لاکھ فوجیوں کے علاوہ امریکا کی نجی سیکورٹی کمپنیوں کے تقریباً ایک لاکھ محافظ تعینات ہیں جن کو عراق ہی کے نہیں‘ ہرملکی اور بین الاقوامی قانون اور ضابطے سے مستثنا اور بالا رکھا گیا ہے‘ اور عراق میں امریکا کے پہلے منتظم اعلیٰ (administrator) پال بریمر سوم نے باقاعدہ ایک حکم نامے (order 17 transitional administrative laws) کے ذریعے تمام امریکی فوجی اور نیم فوجی کارندوں کو ان کے تمام اعمال و اقدامات کے بارے میں مکمل تحفظ دیا تھا۔ یہ اس تحفظ کا کرشمہ ہے کہ یہ محافظ جس کو چاہتے ہیں‘ ہلاک کر دیتے ہیں‘ جس علاقے پر چاہیں گولہ باری کرسکتے ہیں‘ جس شخص کو چاہیں گرفتار کرسکتے ہیں___اور امریکی فوجیوں کے مقابلے میں‘ جن کے اپنے مظالم کچھ کم نہیں ہیں‘ یہ نجی سیکورٹی گارڈز کہیں زیادہ قتل و خون اور بہیمیت کا بازار گرم کیے ہوئے ہیں۔
لندن کے مشہور ہفت روزے نیو اسٹیٹمین کے شہرۂ آفاق کالم نگار جان پائیلگر (John Pilger) نے جو کئی کتابوں کے مصنف اور اہم ٹی وی دستاویزی فلموں کے پروڈیوسر ہیں‘ بارہا لکھا ہے کہ عراق میں شیعہ سنی فسادات کو انگیخت کرنے اور دونوں فرقوں کے لوگوں کو نہ صرف مارنے بلکہ ایک دوسرے کے خلاف صف آرا کرنے میں ان کا کلیدی کردار ہے۔بلیک واٹر کی طرح کی درجنوں کمپنیاں عراق میں ظلم کا بازار گرم کیے ہوئے ہیں اور ان کو مکمل تحفظ حاصل ہے۔ یہ سب کچھ صدر بش‘ ان کے نائب صدر ڈک چینی‘ اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ اور اس کی سربراہ کونڈولیزارائس کی ناک تلے ہو رہا ہے۔ عراق کے عوام چیخ رہے ہیں‘ عالمی میڈیا اب ان خبروں کو چھاپ رہا ہے مگر آزادی‘ عدل و انصاف‘ حقوقِ انسانی کی علَم برداری کے دعویٰ کرنے والی امریکی قیادت کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی اور وہاں کی عدالتیں‘ جن کی انصاف پسندی کا بڑا غلغلہ ہے‘ اس کا کوئی نوٹس نہیں لیتیں۔
دوسرے واقعے کا تعلق امریکا کی سپریم کورٹ کی بے حسی یا بے بسی سے ہے۔ جس عدالت کا کام سب انسانوں کو انصاف فراہم کرنا ہے اور جس کا دعویٰ امریکا کے دستور کی پہلی ہی دفعہ میں تمام انسانوں کے مساوی مقام کے دعوے کی شکل میں کیاگیا ہے‘ عملاً وہ دہشت گردی کے خلاف قوانین کا سہارا لے کر بے شمار مظلوم اور معصوم انسانوں کو انصاف سے محروم رکھ رہی ہے اور دلیل وہی گھسی پٹی: ’قومی سلامتی ‘کا تحفظ ہے۔
اس واقعے کا مرکزی کردار ایک لبنانی ذی حیثیت مسلمان ہے جو جرمن شہریت حاصل کرچکا تھا اور ۲۰۰۳ء میں اپنے خاندان کے ساتھ مقدونیہ میں چھٹیاں گزار رہا تھا کہ دہشت گردی کے شبہے میں سی آئی اے نے اسے دھر لیا‘ پھر ایک سال تک وہ امریکی خفیہ ایجنسی کے ہاتھوں افغانستان اور البانیا میں خوار ہوتا رہا۔ تشدد اور تعذیب کا نشانہ بنایا گیا اور اس ظلم کے شکنجے میں کسا گیا جسے renditionکہا جاتاہے۔ المصری پر کوئی الزام تک نہیں لگایا جاسکا اور بالآخر اسے اپریل ۲۰۰۴ء میں البانیا سے رہا کردیا گیا۔ اس وقت سے وہ امریکا کی عدالتوں میں ٹھوکریں کھا رہا ہے اور انصاف تلاش کر رہا ہے۔ اکتوبر۲۰۰۷ء میں سپریم کورٹ تک نے اس کی بے گناہی کا اعتراف کیا‘ اس کے باوجود محض تکنیکی وجوہ کی بنا پر اسے کوئی ریلیف نہیں دیا۔ وجہ: ’قومی سیکورٹی‘ اور یہ کہ ریاستی رازوں کے افشا ہونے کے خطرات ہیں۔
انصاف کے اس خون پر انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹربیون تک اپنے ۱۲ اکتوبر ۲۰۰۷ء کے اداریے بعنوان: Supreme Disgrace میں چلّا اٹھا‘ اس نے لکھا:
امریکا کی سپریم کورٹ صرف اپنے فیصلوں سے نہیں بلکہ مقدمات کے انتخاب سے بھی نظامِ عدل کی رہنمائی کرتی ہے‘ یعنی جن کی وہ سماعت کرنا قبول کرے اور جن کی سماعت سے انکار کردے۔ منگل کو اس نے بالکل غلط رخ میں رہنمائی دی۔ عدالت وہ چار ووٹ نہیں لا سکی جن کی ایک بے گناہ لبنانی نژاد جرمن شہری خالدالمصری کے مقدمے پر نظرثانی کے لیے ضرورت تھی۔ جسے بش انتظامیہ کے اخلاقی‘ قانونی اور عملی طور پر غلط دہشت گردی کے پروگرام کے تحت اغوا کیا گیا‘ گرفتار کیا گیا‘ اور ایک خفیہ سمندرپار قیدخانے میں ٹارچر کیا گیا۔
مظلوم خالد المصری کو زیریں وفاقی عدالتوں سے بھی انصاف نہیں ملا جنھوں نے اس کے سول مقدمے کو‘ حکومت کے اس نہایت کمزور دعوے کے آگے جھکتے ہوئے کہ اس مقدمے کو آگے بڑھانے سے قومی سلامتی کے راز خطرے میں پڑجائیں گے‘ خارج کردیا۔
اداریے کا اختتام ان الفاظ پر ہوتا ہے:
مصری کی اپیل کو مسترد کر کے ہائی کورٹ نے ایک بے گناہ شخص کو اس کی غلط قید اور ٹارچر کے لیے کسی قسم کا مداوا فراہم نہیں کیا۔ اس نے دنیا میں امریکا کے مقام کو نقصان پہنچایا اور انتظامیہ کی اپنے افعال کی جواب دہی سے بچنے کی کوششوں میں عدالت کو اعلیٰ درجے کا مددگار بنا دیا۔ یہ ایسے کام نہیں جن پر فخر کیا جائے۔
تیسرے واقعے کا تعلق بھی اسی عدل کشی اور انسانیت کی تذلیل اور تعذیب سے ہے۔ امریکا کا دعویٰ ہے کہ اس نے ٹارچر کو خلافِ قانون قرار دے دیا ہے اور زیرحراست افراد پر تشدد اور تعذیب کے ذریعے اقبال جرم امریکی قانون اور اقدار کے خلاف ہے‘ لیکن عملاً امریکا‘ اس کی افواج‘ نجی محافظ اور سی آئی اے کے تفتیش کار نہ صرف تعذیب کے گھنائونے حربے دن رات استعمال کر رہے ہیں‘ بلکہ اس کارروائی کی باقاعدہ اجازت امریکی صدر نے نائب صدر اور اٹارنی جنرل کی سفارش پر دی ہے جسے ایک خفیہ دستاویز (secret memo) کا درجہ دیا گیا ہے۔ اس شرمناک دستاویز کی رو سے امریکی تفتیش کاروں کو تعذیب کے وہ ذرائع استعمال کرنے کی اجازت دی گئی ہے جو روس میں اسٹالن کے تاریک دور میں استعمال کیے جا رہے تھے۔ اس دستاویز کو کانگریس کی انٹیلی جنس کمیٹی تک سے خفیہ رکھا گیا۔ بھلا ہو نیویارک ٹائمز کا ‘جس نے اکتوبر ۲۰۰۷ء کے دوسرے ہفتے میں اس دستاویز کا راز فاش کردیا اور اس طرح امریکا کی قیادت کا اصل چہرہ خود امریکی صدر کی ہدایات کی مکروہ شکل میں دنیا کے سامنے آگیا۔ ری پبلکن سینیٹر آرلین سپیکٹر تک چیخ اٹھا کہ یہ وحشت ناک انکشاف ہے اور امریکا کے نام نہاد جسٹس ڈیپارٹمنٹ نے ٹارچر کو سندِجواز فراہم کی ہے۔ دی بوسٹن گلوب اور انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹربیون کا مضمون نگار ایچ ڈی ایس گرین وے (H.D.S. Greenway) اپنے مضمون Undermining Americans Value میں اس صورت حال کا یوں اظہار و اعتراف کرتا ہے:
ساری دنیا سے نصف صدی تک خبریں بھیجنے کے دوران میرا یہ تاثر تھا کہ امریکا آزادی‘ انسانی حقوق اور انسان کے عزوشرف کا علَم بردار تھا۔ بش انتظامیہ نے ہم کو اس سنہری معیار سے ہٹا دیا ہے اور یہ عزت بڑی حد تک خاک میں ملا دی ہے۔ ابوغریب اور گوانتانامو کے واقعات نے امریکا کی ساکھ اور اخلاقی مقام کو ختم کردیا ہے جس سے ہمارے دوستوں کو دکھ ہوا ہے‘ اورہمارے دشمنوں کو طاقت ملی ہے۔
گرین وے بڑے دکھ سے کہتا ہے کہ:
سب سے زیادہ حوصلہ شکن انکشاف یہ تھا کہ جس وقت امریکا کے عوام سعودی عرب‘ مصر جیسے اپنے حلیفوں سے جمہوریت اور کھلے پن کا تقاضا کر رہے تھے‘ دوسرے امریکیوں کو___ انتظامیہ کی مرضی اور خوشی سے ___خفیہ کمروں میں بتایا جا رہا تھا کہ قیدیوں کو ’بہترین‘ ٹارچر کس طرح کیا جاسکتا ہے۔ حتیٰ کہ سوویت یونین کے تفتیشی طریقے‘ جو اَب ترک کیے جاچکے ہیں‘ بھی زیرعمل لائے گئے۔
وہ لوگ جو تفتیش سے واقفیت رکھتے ہیں‘ ان کا کہنا ہے کہ جس طرح کا تشدد بش انتظامیہ روا رکھ رہی ہے‘ وہ غیر ضروری ہے اور معکوس نتائج دیتا ہے۔ سوویت یونین کے طریقوں کی نقل کرنے میں مسئلہ یہ ہے کہ سوویت تفتیش کار اکثر مذہبی معلومات حاصل کرنا نہ چاہتے تھے۔ وہ صرف ان کاموں کے اعترافات چاہتے تھے جووہ جانتے تھے کہ قیدیوں نے نہیں کیے‘ خالص سیاسی وجوہات پر پھانسی دینے کے لیے…
ٹارچر پر قومی اور بین الاقوامی پابندیوں کی خلاف ورزی کرنے میں بش انتظامیہ کو طویل مدتی مسئلہ یہ ہے کہ یہ ہمیں اسلامی انتہاپسندی کے خلاف جدوجہد میں سخت نقصان پہنچاتا ہے۔ یہ عالمی ضمیر کو جھنجھوڑ دیتا ہے جس کی وجہ سے مغرب کے لیے مشکل ہوجاتا ہے کہ وہ مسلمانوں کو قائل کریں کہ ہم اسلام کے دشمن نہیں ہیں۔ یہ القاعدہ کے حامیوں کی تعداد میں اضافہ کرتا ہے۔ یہ ان اعتدال پسند مسلمانوں کو روکتا ہے جو بہ صورت دیگر ہمارے ساتھ تعاون کرنا چاہتے ہیں۔ یہ ہماری عالمی حیثیت اور قومی سلامتی کو نقصان پہنچاتا ہے۔ (ہیرالڈ ٹربیون‘ ۱۲ اکتوبر ۲۰۰۷ء)
وہ اقوام جو مہذب ہونے کا دعویٰ کرتی ہیں‘ ان کا المیہ ہی یہ ہے کہ ان کا پورا نظام سیاست و حکمرانی اخلاقی اقدار سے خالی ہے‘ اور اصل مقصد صرف مفادات کا حصول اور قوت کے ذریعے دوسروں کا استحصال ہے جسے آج ’میانہ روی‘ اور ’روشن خیالی‘ کا نام دیا جا رہا ہے۔ وہ ظلم و استحصال کے اس خونیں کھیل کا خوش نما عنوان ہے جس سے انسانیت کو دھوکا نہیں دیاجاسکتا۔ البتہ افسوس کا مقام ہے کہ خود مسلمان ممالک میں ایسے ارباب اقتدار اور اقتدار کے متلاشی بھی کم نہیں جو ایک شرمناک کھیل میں امریکی قیادت کے شریکِ جرم ہیں یا شرکت کے لیے بے چین!