نومبر۲۰۰۷

فہرست مضامین

ایفاے عہد‘ ایک مومنانہ صفت

ڈاکٹر محمد جسیم الدین | نومبر۲۰۰۷ | تزکیہ و تربیت

Responsive image Responsive image

جب کوئی قوم اللہ کی کتاب اور نبی کی تعلیم کو ترک کردیتی ہے تو طرح طرح کی برائیوں میں ملوث ہوجاتی ہے۔ قومِ یہود نے جب اللہ تعالیٰ کی کتاب کو اور موسیٰ علیہ السلام کی دعوت کو چھوڑ دیا اور اپنے نفس کی پیروی کرنے لگی تو طرح طرح کی برائیوں میں مبتلا ہوگئی‘ جس کی بڑی تفصیل قرآن و حدیث میں بیان کی گئی ہے۔ اسی طرح جب قومِ نصاریٰ نے اللہ کی کتاب انجیل اور عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیمات کو ترک کردیا تو ان کے اندر بھی برائیاں رونما ہونے لگیں۔

اُمت مسلمہ جسے دنیا کی امامت عطا کی گئی تھی‘ اس نے قرآن و حدیث کا مطالعہ‘ اس میں غوروفکر اور اس پر عمل کرنا چھوڑ دیا تو اس کے اندر بھی بہت سی برائیاں دَر آئیں۔ ان برائیوں میں ایک بڑی برائی وعدے کا پابند نہ ہونا اور ایفاے عہد کا پاس و لحاظ نہ کرنا بھی ہے۔ سورۂ بنی اسرائیل کی آیت نمبر ۳۴ اور ۳۵ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو اچھے کام کرنے کی تلقین کی ہے اور کچھ کام کرنے سے منع کرتے ہوئے وعدے کو پورا کرنے اور عہدوپیمان کا پاس و لحاظ کرنے کا تاکیدی حکم دیا ہے‘ اور یہ بھی فرمایا ہے کہ ہروعدے اور عہدوپیمان کے بارے میں قیامت کے دن سوال ہوگا کہ اسے پورا کیا گیا کہ نہیں؟ یہ وعدہ اللہ تعالیٰ سے کیا گیا ہو یا اس کے بندوں سے کیا گیا ہو‘ہر وعدے کے بارے میں پرسش ہوگی(بنی اسرائیل ۱۷: ۳۴-۳۵)۔ یہی بات سورۂ بقرہ میں ایک دوسرے انداز میں اللہ تعالیٰ نے بیان کی ہے۔ مومن کی چند صفات کا ذکر کرتے ہوئے اسے مومن کی ایک صفت قرار دیا ہے: ’’اور جب وعدہ کرتے ہیں تو اسے پورا کرتے ہیں‘‘۔ (البقرہ ۲:۱۷۷)

  •  عھدوپیمان: وعدے دو طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک وعدہ وہ ہے جس کا تعلق اللہ سے ہے۔ بندہ ہونے کی بنا پر اپنے خالق سے اس کی بندگی کا وعدہ ہم نے کیا ہے کہ ہم صرف آپ کی بندگی کریں گے‘ آپ کے شکرگزار بنیں گے اور آپ ہی سے مدد اور استعانت طلب کریں گے: ’’ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں‘‘۔ (الفاتحہ ۱:۴)

دوسرے وعدے کا تعلق ایک بندے کا اللہ کے دوسرے بندوں سے ہے۔ ہم روز مرہ کی زندگی میں ایک دوسرے سے وعدہ کرتے ہیں اور عہدوپیمان باندھتے ہیں۔ ان وعدوں کو نبھانے کا بھی اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے: ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو‘ بندشوں کی پوری پابندی کرو‘‘(المائدہ ۵:۱)۔ ’’اللہ تعالیٰ نے تم کو جو نعمت عطا کی ہے اس کا خیال رکھو اور اس پختہ عہدوپیمان کہ نہ بھولو جو اس نے تم سے لیا ہے‘ یعنی تمھارا یہ قول کہ ہم نے سنا اور اطاعت قبول کی‘ اللہ سے ڈرو‘ اللہ دلوں کے راز تک جانتا ہے‘‘۔ (المائدہ ۵:۷)

  •  عھد الست: اللہ تعالیٰ سے کیے ہوئے وعدے کی ایک نوعیت تو وہ ہے جو ہم لوگوں نے عالمِ ارواح میں کیا ہے۔ یہ وعدہ قرآن میں عہدالست کے نام سے بیان ہوا ہے۔ عالمِ ارواح  میں اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کی پشت سے قیامت تک پیدا ہونے والے انسانوں کی ارواح کو جسم و جان دے کر ان سے شعوری عہد لیا۔ اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوںکو خود ان پر گواہ بناکر پوچھا کہ کیا میں تمھارا رب نہیں ہوں؟ تو سب لوگوں نے کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ ہمارے رب ہیں۔’’اور اے نبیؐ! لوگوں کو یاد دلا دو‘ وہ وقت جب کہ تمھارے رب نے بنی آدم ؑکی پشتوں سے ان کی نسل کو نکالا تھا اور انھیں خود ان کے اُوپر گواہ بناتے ہوئے پوچھا تھا کیا میں تمھارارب نہیں ہوں؟ انھوں نے کہا: ضرور آپ ہی ہمارے رب ہیں‘ اور ہم اس پر گواہی دیتے ہیں‘ یہ ہم نے اس لیے کیا کہ کہیں تم قیامت کے روز یہ نہ کہہ دو کہ ہم تو اس سے پہلے بے خبر تھے‘‘۔ (الاعراف ۷:۱۷۲)
  •  ایمان اور عھد: اللہ تعالیٰ سے وعدے کی دوسری نوعیت وہ ہے جو ہم لوگوں نے ایمان کا اقرار کرکے کیا ہے۔ اللہ اور اس کے بھیجے ہوئے رسول کی دعوت کا اقرار دراصل وہ عہدوپیمان ہے جس میں ہم اپنی جان اور مال کو اللہ کے ہاتھوں جنت کے بدلے میں بیچ چکے ہیں۔ اب ہماری جان اور ہمارا مال اللہ کی تحویل میں ہے۔ ہماری جان اور ہمارا مال سب اللہ کے حکم کے تابع ہے۔ اس زندگی کا ایک ایک لمحہ اللہ کی اطاعت اور فرماں برداری میں گزرے گا۔ ہماری یہ زندگی اللہ تعالیٰ کی ایک امانت ہے اور اس امانت کے ہم امین ہیں۔ اس عہدوپیمان کا تقاضا ہے کہ یہ زندگی ہم اہلِ امانت‘ یعنی اللہ کے حوالے کردیں۔ جو مال اور جملہ صلاحیتیں ہمیں دی گئی ہیں ان پر ہمارا کوئی تصرف نہیں اور یہ بھی ہم اللہ کے حوالے کردیں۔ دراصل شعوری ایمان کا اعلان تجدید عہدالست بھی ہے اور اپنے آپ میں ایک نیا عہدوپیمان بھی ہے۔ ’’حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے مومنوں سے ان کے نفس اور ان کے مال جنت کے بدلے خرید لیے ہیں۔ وہ اللہ کی راہ میں لڑتے اور مارتے اور مرتے ہیں۔ ان سے جنت کا وعدہ اللہ کے ذمے پختہ وعدہ ہے تورات اور انجیل اور قرآن میں۔ کون ہے جو اللہ سے بڑھ کر اپنے وعدے کو پوراکرنے والا ہو؟‘‘ (التوبہ ۹:۱۱۱)

اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو بار بار یاد دہانی کرائی ہے کہ جو وعدہ اور عہدوپیمان تم نے اپنے خالق حقیقی سے کیا ہے‘ اس کو پورا کرو اور وعدہ خلافی مت کرو۔ قرآن میں یہ یاددہانی بار بار مختلف انداز میں کرائی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے رسولوں کے ذریعے بھی اس کی یاد دہانی کراتا رہاہے:

اللہ کے عہد کو پورا کرو‘ جب کہ تم نے اس سے کوئی عہد باندھا ہو‘ اور اپنی قسمیں پختہ کرنے کے بعد توڑ نہ ڈالو‘ جب کہ تم اللہ کو اپنے اُوپر گواہ بناچکے ہو۔ اللہ تمھارے سب اعمال سے باخبر ہے۔(النحل ۱۶:۹۱)

اے بنی اسرائیل! ذرا خیال کرو میری اس نعمت کا جو میں نے تم کو عطا کی تھی‘ میرے ساتھ تمھارا جو عہد تھا اسے تم پورا کرو تو میراجو عہد تمھارے ساتھ تھااسے میں پورا کروں اور مجھ سے ہی تم ڈرو‘ اور میں نے جو کتاب بھیجی ہے اس پر ایمان لائو۔ یہ اس کتاب کی تائید میں ہے جو تمھارے پاس پہلے سے موجود تھی‘ لہٰذا سب سے پہلے تم ہی اس کے منکر نہ بن جائو۔ تھوڑی سی قیمت پر میری آیات کو نہ بیچ ڈالو اور میرے غضب سے بچو۔(البقرہ ۲:۴۰)

اور جب بات کہو انصاف کی کہو‘ خواہ معاملہ اپنے رشتہ دار ہی کا کیوں نہ ہو اور اللہ کے عہد کو پورا کرو۔ ان باتوں کی ہدایت اللہ تعالیٰ نے تمھیں کی ہے‘ شاید کہ تم نصیحت قبول کرو۔ (الانعام ۶:۱۵۲)

  •  روز مرہ زندگی میں عھد و پیمان: روز مرہ کی زندگی میں بھی ہم لوگ ایک دوسرے سے عہدوپیمان باندھتے ہیں۔ ان کا پورا کرنا اسی طرح ضروری ہے جس طرح اللہ سے کیے ہوئے وعدوں کو پورا کرنا ضروری ہے: ’’اور ان کا طرزِعمل یہ ہوتا ہے کہ اللہ کے ساتھ اپنے عہد کو پورا کرتے ہیں۔ انھیں مضبوط باندھنے کے بعد توڑ نہیں ڈالتے‘‘ (الرعد۱۳: ۲۰)۔ ان وعدوں کو پورا کرنے کا احساس ہمارے اندر کم ہی پایا جاتا ہے۔ کتنے وعدے ہم لوگ روزانہ کرتے ہیں اورانھیں پورا نہیں کرتے۔ ان کے پورا نہ کرنے پر ہمارے اندر پشیمانی بھی نہیں پائی جاتی۔ آپس کے لین دین میں ہم ایک دوسرے سے بہت سے وعدے کرتے ہیں اور انھیں پورا نہیں کرتے۔ کسی سے قرض لیا اور وعدہ کرلیا کہ دو مہینے بعد لی ہوئی رقم واپس کردیں گے۔ قرض کی رقم لے کر بھول گئے۔ اس کی رقم بھی وقت پر واپس نہیں کی اور نہ معذرت چاہی کہ وعدہ خلافی ہوگئی۔ کسی سے وعدہ کیا کہ ہم فلاں جگہ فلاں وقت پر آپ سے ملاقات کریں گے اور مقررہ وقت پر نہیں آئے‘ جب کہ فریق ثانی وقت مقررہ پر انتظار کی گھڑیاں گن رہا ہے۔ اکثر وعدہ خلافی ہم جان بوجھ کر کرتے ہیں‘ اس لیے کہ ہمارے اندر وعدے کی اہمیت کا احساس ختم ہوچکا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو‘ تم کیوں وہ بات کہتے ہو جو کرتے نہیں ہو۔ اللہ کے نزدیک یہ سخت ناپسندیدہ حرکت ہے کہ تم کہو وہ بات جو کرتے نہیں ہو۔ اللہ کو تو پسند وہ لوگ ہیں جو اس کی راہ میں صف بستہ ہو کر لڑتے ہیں گویا کہ وہ ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں‘‘۔ (الصف ۶۱:۲-۳)

ہم سے ہر وعدے کے متعلق قیامت میں پوچھا جائے گا۔ اس لیے وعدہ شعور کے ساتھ کیا جائے کہ پورا کرسکتے ہیں یا نہیں۔ موقع اور مصلحت اپنی مشغولیت اور اوقاتِ کار کا لحاظ کرکے وعدہ کیا جاناچاہیے اور وعدے کو حتی الامکان نبھانے کی کوشش کرنی چاہیے اِلا.ّ یہ کہ کوئی شرعی عذر پیش آجائے۔ اگر شرعی عذر یا ناگزیر مجبوری پیش آجائے تو پہلے خبر کردینی چاہیے کہ فلاں کام کا وعدہ   ہم نے کیا تھا لیکن یہ مجبوری آگئی ہے‘ اس لیے وعدہ پورا کرنے کی گنجایش نہیں ہے۔ اگر پہلے خبر کرنے کا موقع نہ ہو تو بعد میں معذرت کی درخواست کی جائے اور بعد میں اس وعدے کو پورا کرنے کی کوشش کی جائے۔ ہروقت یہ خیال رہے کہ زبان سے ہرنکلی ہوئی بات لکھ لی گئی ہے اور اس کے متعلق قیامت کے دن پوچھ گچھ ہوگی۔

کوئی لفظ اس کی زبان سے نہیں نکلتا کہ اسے محفوظ کرنے کے لیے ایک حاضرباش نگراں موجود نہ ہو۔ (قٓ ۵۰:۱۸)

عہد کی پابندی کرو‘بے شک عہد کے بارے میں تم کو جواب دہی کرنی ہوگی۔ (بنی اسرائیل ۱۷:۳۴)

ان لوگوں نے اس سے پہلے اللہ سے عہد کیا تھا کہ یہ پیٹھ نہ پھیریں گے‘ اور اللہ سے کیے ہوئے عہد کی بازپرس تو ہونی ہی تھی۔(الاحزاب ۳۳:۱۵)

  •  ایفاے عھد پر جزا: جو لوگ اللہ سے کیے ہوئے عہدوپیمان کا پاس رکھتے ہیں اور اس کے بندوں سے کیے ہوئے وعدوں کو پورا کرتے ہیں‘ اللہ نے ان کے لیے انعام کا وعدہ کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ جو شخص اپنے عہد کو پوراکرے گا اور اللہ سے ڈرے گا‘ وہ متقی ہے اور اللہ ان سے محبت کرتا ہے۔ یہاں متقی کی دو صفات بتائی گئی ہیں: ایک‘ عہد کو پورا کرتے ہیں‘اور دوسرے‘ اللہ سے ڈرتے ہیں۔ ان دونوں صفتوں سے متصف ہونے والوں سے اللہ محبت کرتا ہے۔

آخر کیوں ان سے بازپرس نہ ہوگی؟جو بھی اپنے عہد کو پورا کرے گا اور برائی سے بچ کر رہے گا تو اللہ کا محبوب بنے گا‘ کیونکہ پرہیزگار لوگ اللہ کو پسند ہیں۔ (اٰل عمرٰن ۳:۷۶)

سورۂ رعد میں اللہ تعالیٰ نے جنت میں داخل ہونے والوں کی چند صفات کا تذکرہ کیا ہے جس میں پہلی صفت یہ بیان کی ہے کہ وہ لوگ جنت میں جائیں گے اور آخرت کا گھر انھی لوگوں کے لیے ہے جو وعدے کو پوراکرتے ہیں اور وعدہ خلافی نہیں کرتے۔’’اور ان کا طرزِعمل یہ ہوتا ہے کہ اللہ کے ساتھ اپنے عہد کو پورا کرتے ہیں‘ اسے مضبوط باندھنے کے بعد توڑ نہیں ڈالتے۔ ان کی روش یہ ہوتی ہے کہ اللہ نے جن جن روابط کو برقرار رکھنے کا حکم دیا ہے اسے برقرار رکھتے ہیں‘ اپنے رب سے ڈرتے ہیں اور اس بات کا خوف رکھتے ہیں کہ کہیں ان سے بری طرح حساب نہ لیا جائے۔ ان کا حال یہ ہوتا ہے کہ اپنے رب کی رضا کے لیے صبر سے کام لیتے ہیں‘ نماز قائم کرتے ہیں‘ ہمارے دیے ہوئے رزق میں سے علانیہ اور پوشیدہ خرچ کرتے ہیں اور برائی کو بھلائی سے  دفع کرتے ہیں۔ آخرت کا گھر انھی لوگوں کے لیے ہے‘ یعنی ایسے باغ جو ان کی ابدی قیام گاہ ہوں گے۔ وہ خود بھی اس میں داخل ہوں گے اور ان کے آباواجداد اور ان کی بیویوں اور ان کی اولاد میں سے جو لوگ صالح ہیں وہ بھی ان کے ساتھ وہاں جائیں گے۔ ملائکہ ہر طرف سے ان کے استقبال کے لیے آئیں گے‘ اور ان سے کہیں گے ’’تم پر سلامتی ہے، تم نے دنیا میں جس طرح صبر سے کام لیا‘اس کی بدولت آج تم اس کے مستحق ہوئے‘‘۔ (الرعد ۱۳:۲۰-۲۴)

سورۂ مائدہ میں اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے عہدوپیمان کا تذکرہ کرتے ہوئے یہ کہا ہے کہ میں تمھارے ساتھ ہوں۔ عہدوپیمان کے ساتھ کچھ فرائض کی پابندی کریں تو ہم انھیں      ایسی جنت میں داخل کردیں گے جس کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی۔ ’’اللہ نے بنی اسرائیل سے پختہ عہد لیا تھا اور ان میں ۱۲ نقیب مقرر کیے تھے اور ان سے کہا تھا کہ: ’’میں تمھارے ساتھ ہوں‘   اگر تم نے نماز قائم رکھی اور زکوٰۃ دی اور میرے رسولوں کو مانا اور ان کی مدد کی اور اپنے خدا کو اچھا قرض دیتے رہے‘ تو یقین رکھو کہ میں تمھاری برائیاں تم سے زائل کردوں گا اور تم کو ایسے باغوں میں داخل کروں گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی‘ مگر اس کے بعد جس نے تم میں سے کفر کی روش اختیار کی تو درحقیقت اس نے سواء السبیل گم کردی‘‘۔ پھر یہ ان کا اپنے عہد کو توڑ ڈالنا تھا جس کی وجہ سے ہم نے ان کو اپنی رحمت سے دُور پھینک دیا اور ان کے دل سخت کردیے۔ اب ان کا حال یہ ہے کہ الفاظ کا اُلٹ پھیر کرکے بات کو کہیں سے کہیں لے جاتے ہیں‘ جو تعلیم انھیں دی گئی تھی اس کا  بڑا حصہ بھول چکے ہیں‘ اور آئے دن تمھیں ان کی کسی نہ کسی خیانت کا پتا چلتا رہتا ہے۔ اب ان میں سے بہت کم لوگ اس عیب سے بچے ہوئے ہیں۔ (پس جب یہ اس حال کو پہنچ چکے ہیں جو شرارتیں بھی یہ کریں وہ ان سے عین متوقع ہیں) لہٰذا انھیں معاف کرو اور ان کی حرکات سے چشم پوشی کرتے رہو‘ اللہ ان لوگوں کو پسند کرتا ہے جو احسان کی روش اختیار کرتے ہیں‘‘۔ (المائدہ ۵: ۱۲-۱۳)

  •  عھد توڑنا فسق ھے: سورۂ اعراف میں عہد کی پاس داری نہ کرنے والوں کے لیے بڑی وعید بیان ہوئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ عہدوپیمان کا اقرار کرنے کے بعد اس سے اعراض کرنے والے فاسق ہیں۔’’ہم نے ان میں سے اکثر میں کوئی پاسِ عہد نہ پایا بلکہ اکثر کو فاسق ہی پایا‘‘۔(الاعراف ۷:۱۰۲)

یہی بات سورۂ آل عمران میں دوسرے انداز سے دہرائی گئی ہے کہ عہدواقرار کرنے کے بعد اس کو توڑنے والے فاسق ہیں۔’’وہ تم سے ہرگز یہ نہ کہے گا کہ فرشتوں کو یا پیغمبروں کو اپنا رب بنائو۔ کیا یہ ممکن ہے کہ ایک نبی تمھیں کفر کا حکم دے‘ جب کہ تم مسلم ہو؟ یاد کرو‘ اللہ نے پیغمبروں سے عہد لیا تھا کہ آج میں نے تمھیں کتاب اور حکمت اور دانش سے نوازا ہے‘ کل اگر کوئی دوسرا رسول تمھارے پاس اسی تعلیم کی تصدیق کرتا ہوا آئے جو پہلے سے تمھارے پاس موجود ہے‘ تو تم کو اس پر ایمان لانا ہوگا اور اس کی مدد کرنی ہوگی۔ یہ ارشاد فرما کر اللہ نے پوچھا: کیا تم اس کااقرار کرتے ہو اور اس پر میری طرف سے عہد کی بھاری ذمہ داری اٹھاتے ہو؟ انھوں نے کہا: ہاں‘ ہم اقرار کرتے ہیں۔ اللہ نے فرمایا: اچھا تو گواہ رہو اور میں بھی تمھارے ساتھ گواہ ہوں‘۔ اس کے بعد جو اپنے عہد سے پھر جائے وہی فاسق ہے‘‘۔(اٰل عمرٰن ۳:۸۰-۸۱)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خطاب میں اکثر یہ فرمایا ہے کہ ’’جس کے اندر عہد کی پابندی کا احساس نہیں اس کا ایمان نہیں‘ اور جس کے اندر امانت کی پاس داری نہیں اس کا دین نہیں‘‘۔ (مسنداحمد)

  •  بدعھدی پر وعید: عہدوپیمان کو توڑنے والے اور اس کا لحاظ نہ کرنے والے بدترین لوگ ہیں‘ سیدھی راہ سے بھٹکے ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ انھیں سزا دے گا۔ اللہ تعالیٰ عہد کو توڑنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ اللہ نے بدعہدی کرنے والوں پر لعنت کی ہے اور آخرت میں  بُرے گھر، یعنی جہنم کی وعید سنائی گئی ہے: ’’آلِ فرعون اور اس کے پہلے کی قوموں کے ساتھ جو کچھ پیش آیا وہ اسی ضابطے کے مطابق تھا۔ انھوں نے اپنے رب کی آیات کو جھٹلا یا تب ہم نے ان کے گناہوں کی پاداش میں انھیں ہلاک کیا اور آلِ فرعون کو غرق کردیا۔ یہ سب ظالم لوگ تھے۔ یقینا اللہ کے نزدیک زمین پر چلنے والی مخلوق میں سے بدتر وہ لوگ ہیں جنھوں نے ہم کو ماننے سے انکار کردیا۔ پھر کسی طرح وہ قبول کرنے کو تیارنہیں ہیں۔ ان میںسے وہ لوگ جن کے ساتھ تم نے معاہدہ کیا پھر وہ ہرموقع پر اس کو توڑتے ہیں اور ذرا خدا کا خوف نہیں کرتے (الانفال ۸:۵۴-۵۶)۔  سورئہ رعد میں فرمایا: ’’پس کیا ہی خوب ہے یہ آخرت کا گھر‘ رہے وہ لوگ جو اللہ کے عہد کو مضبوط باندھ لینے کے بعد توڑ ڈالتے ہیں‘ جو ان رابطوں کو کاٹتے ہیں جنھیں اللہ نے جوڑنے کا حکم دیا ہے‘ اور جو زمین پر فساد پھیلاتے ہیں‘ وہ لعنت کے مستحق ہیں اور ان کے لیے آخرت میں بہت بُرا ٹھکانہ ہے‘‘۔(الرعد۱۳:۲۵)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ وعدہ کا پورا نہ کرنا منافق کی نشانی ہے۔

حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’منافق کی نشانیاں تین ہیں: جب بات کرے تو جھوٹ بولے‘ جب وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے اور جب اس کے سپرد کوئی امانت کی جائے تو اس میں خیانت کرے‘‘۔ (بخاری و مسلم)

حضرت عبداللہ ابن عمرؓ سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’چار خصلتیں ایسی ہیں کہ جس شخص کے اندر پائی جاتی ہیں وہ خالص منافق ہوتا ہے اور جس کسی میں ان میں سے ایک خصلت پائی جائے‘ اس کے اندر نفاق کی ایک خصلت موجود ہوتی ہے‘ جب تک کہ اس خصلت کو ترک نہ کردے۔ جب اس کے پاس کوئی امانت رکھی جائے تو خیانت کرے‘ جب بات کرے تو جھوٹ بولے‘ جب عہد کرے تو اسے توڑ دے اور جب جھگڑا کرے تو بے ہودہ بکے‘‘۔ (بخاری)

مندرجہ بالا گفتگو سے یہ بات واضح ہوگئی ہوگی کہ قرآن و حدیث میں وعدے کی اہمیت مسلّم ہے۔ ہروعدے کے متعلق اللہ تعالیٰ کے یہاں پوچھ گچھ ہوگی۔ وعدہ پورا کرنے والوں کو   اللہ پسند کرتا ہے اور ان کے لیے آخرت کا بہترین وعدہ ہے۔ وعدہ پورا کرنے والوں کے لیے جنت کی بشارت ہے اور دوسرے انعام و اکرام کا وعدہ ہے۔ اس کے برعکس وعدہ پورا نہ کرنے والوں سے اللہ ناراض ہوتا ہے اور وہ لوگ فاسق ہیں۔ وعدہ پورا نہ کرنے والوں پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہے۔ وعدہ پورا نہ کرنے والوں کے لیے سزا کی وعید ہے اور وہ لوگ جہنم میں جائیں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے منافقت کی نشانی قرار دیا ہے۔ ہم میں سے کون مسلمان جنت میں جانا نہیں چاہے گا اور جہنم سے بچنا نہیں چاہے گا۔ ہرمسلمان کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ جہنم سے بچا لیا جائے اور جنت میں داخل کردیا جائے۔ اگر ہم اس خواہش کی تکمیل چاہتے ہیں تو یقینا چاہیے کہ ہم لوگ وعدوں کی سختی سے پابندی کریں۔ اللہ تعالیٰ سے دعاہے کہ وہ ہمیں وعدوں کی پابندی کی توفیق    عطا فرمائے اور وعدوں کی پابندی کرنے والوں کو انعام و اکرام سے اور جنت سے نوازے۔ آمین!