جب کوئی قوم اللہ کی کتاب اور نبی کی تعلیم کو ترک کردیتی ہے تو طرح طرح کی برائیوں میں ملوث ہوجاتی ہے۔ قومِ یہود نے جب اللہ تعالیٰ کی کتاب کو اور موسیٰ علیہ السلام کی دعوت کو چھوڑ دیا اور اپنے نفس کی پیروی کرنے لگی تو طرح طرح کی برائیوں میں مبتلا ہوگئی‘ جس کی بڑی تفصیل قرآن و حدیث میں بیان کی گئی ہے۔ اسی طرح جب قومِ نصاریٰ نے اللہ کی کتاب انجیل اور عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیمات کو ترک کردیا تو ان کے اندر بھی برائیاں رونما ہونے لگیں۔
اُمت مسلمہ جسے دنیا کی امامت عطا کی گئی تھی‘ اس نے قرآن و حدیث کا مطالعہ‘ اس میں غوروفکر اور اس پر عمل کرنا چھوڑ دیا تو اس کے اندر بھی بہت سی برائیاں دَر آئیں۔ ان برائیوں میں ایک بڑی برائی وعدے کا پابند نہ ہونا اور ایفاے عہد کا پاس و لحاظ نہ کرنا بھی ہے۔ سورۂ بنی اسرائیل کی آیت نمبر ۳۴ اور ۳۵ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو اچھے کام کرنے کی تلقین کی ہے اور کچھ کام کرنے سے منع کرتے ہوئے وعدے کو پورا کرنے اور عہدوپیمان کا پاس و لحاظ کرنے کا تاکیدی حکم دیا ہے‘ اور یہ بھی فرمایا ہے کہ ہروعدے اور عہدوپیمان کے بارے میں قیامت کے دن سوال ہوگا کہ اسے پورا کیا گیا کہ نہیں؟ یہ وعدہ اللہ تعالیٰ سے کیا گیا ہو یا اس کے بندوں سے کیا گیا ہو‘ہر وعدے کے بارے میں پرسش ہوگی(بنی اسرائیل ۱۷: ۳۴-۳۵)۔ یہی بات سورۂ بقرہ میں ایک دوسرے انداز میں اللہ تعالیٰ نے بیان کی ہے۔ مومن کی چند صفات کا ذکر کرتے ہوئے اسے مومن کی ایک صفت قرار دیا ہے: ’’اور جب وعدہ کرتے ہیں تو اسے پورا کرتے ہیں‘‘۔ (البقرہ ۲:۱۷۷)
دوسرے وعدے کا تعلق ایک بندے کا اللہ کے دوسرے بندوں سے ہے۔ ہم روز مرہ کی زندگی میں ایک دوسرے سے وعدہ کرتے ہیں اور عہدوپیمان باندھتے ہیں۔ ان وعدوں کو نبھانے کا بھی اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے: ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو‘ بندشوں کی پوری پابندی کرو‘‘(المائدہ ۵:۱)۔ ’’اللہ تعالیٰ نے تم کو جو نعمت عطا کی ہے اس کا خیال رکھو اور اس پختہ عہدوپیمان کہ نہ بھولو جو اس نے تم سے لیا ہے‘ یعنی تمھارا یہ قول کہ ہم نے سنا اور اطاعت قبول کی‘ اللہ سے ڈرو‘ اللہ دلوں کے راز تک جانتا ہے‘‘۔ (المائدہ ۵:۷)
اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو بار بار یاد دہانی کرائی ہے کہ جو وعدہ اور عہدوپیمان تم نے اپنے خالق حقیقی سے کیا ہے‘ اس کو پورا کرو اور وعدہ خلافی مت کرو۔ قرآن میں یہ یاددہانی بار بار مختلف انداز میں کرائی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے رسولوں کے ذریعے بھی اس کی یاد دہانی کراتا رہاہے:
اللہ کے عہد کو پورا کرو‘ جب کہ تم نے اس سے کوئی عہد باندھا ہو‘ اور اپنی قسمیں پختہ کرنے کے بعد توڑ نہ ڈالو‘ جب کہ تم اللہ کو اپنے اُوپر گواہ بناچکے ہو۔ اللہ تمھارے سب اعمال سے باخبر ہے۔(النحل ۱۶:۹۱)
اے بنی اسرائیل! ذرا خیال کرو میری اس نعمت کا جو میں نے تم کو عطا کی تھی‘ میرے ساتھ تمھارا جو عہد تھا اسے تم پورا کرو تو میراجو عہد تمھارے ساتھ تھااسے میں پورا کروں اور مجھ سے ہی تم ڈرو‘ اور میں نے جو کتاب بھیجی ہے اس پر ایمان لائو۔ یہ اس کتاب کی تائید میں ہے جو تمھارے پاس پہلے سے موجود تھی‘ لہٰذا سب سے پہلے تم ہی اس کے منکر نہ بن جائو۔ تھوڑی سی قیمت پر میری آیات کو نہ بیچ ڈالو اور میرے غضب سے بچو۔(البقرہ ۲:۴۰)
اور جب بات کہو انصاف کی کہو‘ خواہ معاملہ اپنے رشتہ دار ہی کا کیوں نہ ہو اور اللہ کے عہد کو پورا کرو۔ ان باتوں کی ہدایت اللہ تعالیٰ نے تمھیں کی ہے‘ شاید کہ تم نصیحت قبول کرو۔ (الانعام ۶:۱۵۲)
ہم سے ہر وعدے کے متعلق قیامت میں پوچھا جائے گا۔ اس لیے وعدہ شعور کے ساتھ کیا جائے کہ پورا کرسکتے ہیں یا نہیں۔ موقع اور مصلحت اپنی مشغولیت اور اوقاتِ کار کا لحاظ کرکے وعدہ کیا جاناچاہیے اور وعدے کو حتی الامکان نبھانے کی کوشش کرنی چاہیے اِلا.ّ یہ کہ کوئی شرعی عذر پیش آجائے۔ اگر شرعی عذر یا ناگزیر مجبوری پیش آجائے تو پہلے خبر کردینی چاہیے کہ فلاں کام کا وعدہ ہم نے کیا تھا لیکن یہ مجبوری آگئی ہے‘ اس لیے وعدہ پورا کرنے کی گنجایش نہیں ہے۔ اگر پہلے خبر کرنے کا موقع نہ ہو تو بعد میں معذرت کی درخواست کی جائے اور بعد میں اس وعدے کو پورا کرنے کی کوشش کی جائے۔ ہروقت یہ خیال رہے کہ زبان سے ہرنکلی ہوئی بات لکھ لی گئی ہے اور اس کے متعلق قیامت کے دن پوچھ گچھ ہوگی۔
کوئی لفظ اس کی زبان سے نہیں نکلتا کہ اسے محفوظ کرنے کے لیے ایک حاضرباش نگراں موجود نہ ہو۔ (قٓ ۵۰:۱۸)
عہد کی پابندی کرو‘بے شک عہد کے بارے میں تم کو جواب دہی کرنی ہوگی۔ (بنی اسرائیل ۱۷:۳۴)
ان لوگوں نے اس سے پہلے اللہ سے عہد کیا تھا کہ یہ پیٹھ نہ پھیریں گے‘ اور اللہ سے کیے ہوئے عہد کی بازپرس تو ہونی ہی تھی۔(الاحزاب ۳۳:۱۵)
آخر کیوں ان سے بازپرس نہ ہوگی؟جو بھی اپنے عہد کو پورا کرے گا اور برائی سے بچ کر رہے گا تو اللہ کا محبوب بنے گا‘ کیونکہ پرہیزگار لوگ اللہ کو پسند ہیں۔ (اٰل عمرٰن ۳:۷۶)
سورۂ رعد میں اللہ تعالیٰ نے جنت میں داخل ہونے والوں کی چند صفات کا تذکرہ کیا ہے جس میں پہلی صفت یہ بیان کی ہے کہ وہ لوگ جنت میں جائیں گے اور آخرت کا گھر انھی لوگوں کے لیے ہے جو وعدے کو پوراکرتے ہیں اور وعدہ خلافی نہیں کرتے۔’’اور ان کا طرزِعمل یہ ہوتا ہے کہ اللہ کے ساتھ اپنے عہد کو پورا کرتے ہیں‘ اسے مضبوط باندھنے کے بعد توڑ نہیں ڈالتے۔ ان کی روش یہ ہوتی ہے کہ اللہ نے جن جن روابط کو برقرار رکھنے کا حکم دیا ہے اسے برقرار رکھتے ہیں‘ اپنے رب سے ڈرتے ہیں اور اس بات کا خوف رکھتے ہیں کہ کہیں ان سے بری طرح حساب نہ لیا جائے۔ ان کا حال یہ ہوتا ہے کہ اپنے رب کی رضا کے لیے صبر سے کام لیتے ہیں‘ نماز قائم کرتے ہیں‘ ہمارے دیے ہوئے رزق میں سے علانیہ اور پوشیدہ خرچ کرتے ہیں اور برائی کو بھلائی سے دفع کرتے ہیں۔ آخرت کا گھر انھی لوگوں کے لیے ہے‘ یعنی ایسے باغ جو ان کی ابدی قیام گاہ ہوں گے۔ وہ خود بھی اس میں داخل ہوں گے اور ان کے آباواجداد اور ان کی بیویوں اور ان کی اولاد میں سے جو لوگ صالح ہیں وہ بھی ان کے ساتھ وہاں جائیں گے۔ ملائکہ ہر طرف سے ان کے استقبال کے لیے آئیں گے‘ اور ان سے کہیں گے ’’تم پر سلامتی ہے، تم نے دنیا میں جس طرح صبر سے کام لیا‘اس کی بدولت آج تم اس کے مستحق ہوئے‘‘۔ (الرعد ۱۳:۲۰-۲۴)
سورۂ مائدہ میں اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے عہدوپیمان کا تذکرہ کرتے ہوئے یہ کہا ہے کہ میں تمھارے ساتھ ہوں۔ عہدوپیمان کے ساتھ کچھ فرائض کی پابندی کریں تو ہم انھیں ایسی جنت میں داخل کردیں گے جس کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی۔ ’’اللہ نے بنی اسرائیل سے پختہ عہد لیا تھا اور ان میں ۱۲ نقیب مقرر کیے تھے اور ان سے کہا تھا کہ: ’’میں تمھارے ساتھ ہوں‘ اگر تم نے نماز قائم رکھی اور زکوٰۃ دی اور میرے رسولوں کو مانا اور ان کی مدد کی اور اپنے خدا کو اچھا قرض دیتے رہے‘ تو یقین رکھو کہ میں تمھاری برائیاں تم سے زائل کردوں گا اور تم کو ایسے باغوں میں داخل کروں گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی‘ مگر اس کے بعد جس نے تم میں سے کفر کی روش اختیار کی تو درحقیقت اس نے سواء السبیل گم کردی‘‘۔ پھر یہ ان کا اپنے عہد کو توڑ ڈالنا تھا جس کی وجہ سے ہم نے ان کو اپنی رحمت سے دُور پھینک دیا اور ان کے دل سخت کردیے۔ اب ان کا حال یہ ہے کہ الفاظ کا اُلٹ پھیر کرکے بات کو کہیں سے کہیں لے جاتے ہیں‘ جو تعلیم انھیں دی گئی تھی اس کا بڑا حصہ بھول چکے ہیں‘ اور آئے دن تمھیں ان کی کسی نہ کسی خیانت کا پتا چلتا رہتا ہے۔ اب ان میں سے بہت کم لوگ اس عیب سے بچے ہوئے ہیں۔ (پس جب یہ اس حال کو پہنچ چکے ہیں جو شرارتیں بھی یہ کریں وہ ان سے عین متوقع ہیں) لہٰذا انھیں معاف کرو اور ان کی حرکات سے چشم پوشی کرتے رہو‘ اللہ ان لوگوں کو پسند کرتا ہے جو احسان کی روش اختیار کرتے ہیں‘‘۔ (المائدہ ۵: ۱۲-۱۳)
یہی بات سورۂ آل عمران میں دوسرے انداز سے دہرائی گئی ہے کہ عہدواقرار کرنے کے بعد اس کو توڑنے والے فاسق ہیں۔’’وہ تم سے ہرگز یہ نہ کہے گا کہ فرشتوں کو یا پیغمبروں کو اپنا رب بنائو۔ کیا یہ ممکن ہے کہ ایک نبی تمھیں کفر کا حکم دے‘ جب کہ تم مسلم ہو؟ یاد کرو‘ اللہ نے پیغمبروں سے عہد لیا تھا کہ آج میں نے تمھیں کتاب اور حکمت اور دانش سے نوازا ہے‘ کل اگر کوئی دوسرا رسول تمھارے پاس اسی تعلیم کی تصدیق کرتا ہوا آئے جو پہلے سے تمھارے پاس موجود ہے‘ تو تم کو اس پر ایمان لانا ہوگا اور اس کی مدد کرنی ہوگی۔ یہ ارشاد فرما کر اللہ نے پوچھا: کیا تم اس کااقرار کرتے ہو اور اس پر میری طرف سے عہد کی بھاری ذمہ داری اٹھاتے ہو؟ انھوں نے کہا: ہاں‘ ہم اقرار کرتے ہیں۔ اللہ نے فرمایا: اچھا تو گواہ رہو اور میں بھی تمھارے ساتھ گواہ ہوں‘۔ اس کے بعد جو اپنے عہد سے پھر جائے وہی فاسق ہے‘‘۔(اٰل عمرٰن ۳:۸۰-۸۱)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خطاب میں اکثر یہ فرمایا ہے کہ ’’جس کے اندر عہد کی پابندی کا احساس نہیں اس کا ایمان نہیں‘ اور جس کے اندر امانت کی پاس داری نہیں اس کا دین نہیں‘‘۔ (مسنداحمد)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ وعدہ کا پورا نہ کرنا منافق کی نشانی ہے۔
حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’منافق کی نشانیاں تین ہیں: جب بات کرے تو جھوٹ بولے‘ جب وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے اور جب اس کے سپرد کوئی امانت کی جائے تو اس میں خیانت کرے‘‘۔ (بخاری و مسلم)
حضرت عبداللہ ابن عمرؓ سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’چار خصلتیں ایسی ہیں کہ جس شخص کے اندر پائی جاتی ہیں وہ خالص منافق ہوتا ہے اور جس کسی میں ان میں سے ایک خصلت پائی جائے‘ اس کے اندر نفاق کی ایک خصلت موجود ہوتی ہے‘ جب تک کہ اس خصلت کو ترک نہ کردے۔ جب اس کے پاس کوئی امانت رکھی جائے تو خیانت کرے‘ جب بات کرے تو جھوٹ بولے‘ جب عہد کرے تو اسے توڑ دے اور جب جھگڑا کرے تو بے ہودہ بکے‘‘۔ (بخاری)
مندرجہ بالا گفتگو سے یہ بات واضح ہوگئی ہوگی کہ قرآن و حدیث میں وعدے کی اہمیت مسلّم ہے۔ ہروعدے کے متعلق اللہ تعالیٰ کے یہاں پوچھ گچھ ہوگی۔ وعدہ پورا کرنے والوں کو اللہ پسند کرتا ہے اور ان کے لیے آخرت کا بہترین وعدہ ہے۔ وعدہ پورا کرنے والوں کے لیے جنت کی بشارت ہے اور دوسرے انعام و اکرام کا وعدہ ہے۔ اس کے برعکس وعدہ پورا نہ کرنے والوں سے اللہ ناراض ہوتا ہے اور وہ لوگ فاسق ہیں۔ وعدہ پورا نہ کرنے والوں پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہے۔ وعدہ پورا نہ کرنے والوں کے لیے سزا کی وعید ہے اور وہ لوگ جہنم میں جائیں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے منافقت کی نشانی قرار دیا ہے۔ ہم میں سے کون مسلمان جنت میں جانا نہیں چاہے گا اور جہنم سے بچنا نہیں چاہے گا۔ ہرمسلمان کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ جہنم سے بچا لیا جائے اور جنت میں داخل کردیا جائے۔ اگر ہم اس خواہش کی تکمیل چاہتے ہیں تو یقینا چاہیے کہ ہم لوگ وعدوں کی سختی سے پابندی کریں۔ اللہ تعالیٰ سے دعاہے کہ وہ ہمیں وعدوں کی پابندی کی توفیق عطا فرمائے اور وعدوں کی پابندی کرنے والوں کو انعام و اکرام سے اور جنت سے نوازے۔ آمین!
قرآن نے مومن کی ایک نمایاں صفت یہ بتائی ہے کہ وہ لغویات سے پرہیز کرتے ہیں اور اس سے حتی الامکان دُور رہتے ہیں۔ سورۂ مومنون میں اللہ تعالیٰ نے فوز و فلاح پانے والے اپنے بندوں کی چند صفات کا ذکر کرتے ہوئے نماز کے بعد جس صفت کا ذکر کیا ہے وہ یہ ہے کہ فلاح پانے والے مومنین لغو سے پرہیز کرتے ہیں:
قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ o الَّذِیْنَ ھُمْ فِیْ صَلَاتِھِمْ خٰشِعُوْنَo وَالَّذِیْنَ ھُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَo (المومنون ۲۳:۱-۳) یقینا فلاح پائی ہے ایمان لانے والوں نے جو اپنی نماز میں خشوع اختیار کرتے ہیں‘ لغویات سے دُور رہتے ہیں۔
گویا لغویات سے پرہیز اور اس سے بچنا مومن کی ایک نمایاں صفت ہے اور یہ فلاح پانے کی ایک سبیل ہے۔ اس کے لیے ہم لوگوں کو یہ ضرور جاننا چاہیے کہ ’لغو‘ کیا ہے؟
مولانا امین احسن اصلاحی ؒ نے ’لغو‘ کی وضاحت کچھ اس طرح کی ہے: ’’لغو سے مراد ہر وہ قول وفعل ہے جو زندگی کے اصل مقصود___ رضاے الٰہی___ سے غافل کرنے والا ہو۔ قطع نظر اس سے کہ وہ مباح ہے یا غیرمباح۔ جس نماز کے اندر خشوع ہو اُس کا اثر زندگی پر لازماً یہ پڑتا ہے فضول‘ غیرضروری‘ لایعنی‘ بے مقصد چیزوںسے احتراز کرنے لگتا ہے۔ اس کو ہر وقت یہ فکر دامن گیر رہتی ہے کہ اگر میں نے کوئی فضول قسم کی حرکت کی تو اپنے عالم الغیب مالک کو ایک روز منہ دکھانا ہے اور اس چیز کی شب و روز میں کم از کم پانچ بار اس کو یاد دہانی ہوتی رہتی ہے۔ ظاہر ہے کہ جس شخص کا ضمیر اتنا بیدار اور حسّاس ہو کہ غیرضروری حرکت سے اس کی طبیعت انقباض محسوس کرے وہ کسی بڑی بے حیائی کا مرتکب کبھی مشکل ہی سے ہوگا‘‘۔ (تدبرقرآن‘ ج ۴‘ ص ۴۳۴-۴۳۵)
مفتی محمد شفیعؒ نے ’لغو‘ کی تفسیر معارف القرآن میں اس طرح کی ہے: ’’لغو کے معنی فضول کلام یا کام جس میں کوئی دینی فائدہ نہ ہو۔ لغو کا اعلیٰ درجہ معصیت اور گناہ ہے جس میں فائدۂ دینی نہ ہونے کے ساتھ دینی ضرر و نقصان ہے۔ اس سے پرہیز واجب ہے‘ اور ادنیٰ درجہ یہ ہے کہ نہ مفید ہو نہ مضر‘ اس کا ترک کم از کم اولیٰ اور موجب مدح ہے۔ حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: من حسن اسلام المرأ ترکہ مالا یعنیہ ، یعنی انسان کا اسلام جب اچھا ہوسکتا ہے‘ جب کہ وہ بے فائدہ چیزوں کو چھوڑ دے۔ اسی لیے آیت میں اس کو مومن کامل کی خاص صفت قرار دیا ہے‘‘۔ (معارف القرآن‘ ج ۶‘ ص ۲۹۶)
مولانا عبدالرحمن کیلانیؒ نے ’لغو‘ کی تفسیر ان الفاظ میں کی ہے: ’’لغو سے مراد فضول اور بے کار مشغلے اور کھیل بھی ہوسکتے ہیں۔ یعنی وہ لوگ اگر تفریح طبع کے لیے یا جسمانی کسرت کے طور پر کھیلتے ہیں تو ایسے کھیل نہیں کھیلتے جن میں محض وقت کا ضیاع ہو بلکہ ایسے کھیل کھیلتے ہیں جن سے کوئی دینی فائدہ بھی حاصل ہوتا ہو‘ جیسے جہاد کی غرض سے تیراکی‘ نیزہ بازی‘ تیراندازی اور نشانہ بازی وغیرہ۔ اور لغو سے مراد بے ہودہ اور فضول باتیں بھی ہوسکتی ہیں‘ جیسے فضول گپیں‘ غیبت‘ بکواس‘ تمسخر‘ فحش گفتگو اور فحش قسم کے گانے وغیرہ۔ ان باتوں سے وہ صرف خود ہی پرہیز نہیں کرتے بلکہ جہاں ایسی سوسائٹی ہو وہاں سے اُٹھ کر چلے جاتے ہیں اور ان کے ساتھ رہنا قطعاً گوارا نہیں کرتے۔ (تیسیرالقرآن‘ ج ۳‘ ص ۱۸۶-۱۸۷)
مولانا عبدالماجد دریابادیؒ نے اپنی انگریزی تفسیر میں ’لغو‘ کی تشریح اس طرح سے کی ہے: ’لغو‘ ایک ایسا فعل (قول و عمل) ہے جس کا نہ کوئی فائدہ اس دنیا میں ہے اور نہ اس کے بعد آنے والی زندگی میں ‘ اس لیے یہ مسلم کے لیے بے سود ہے۔
مفسرین کی گراں قدر آرا سے یہ بات واضح ہوگئی کہ لغو ایک ایسا قول و فعل ہے جس کا کوئی فائدہ نہ اس دنیا میں اور نہ اس کا کوئی فائدہ آخرت میں ہے‘ بلکہ اس کا نقصان یہ ہے کہ زبان کا بے جا استعمال اور اس کو قابو میں نہ رکھنے کا وبال بھی ہوگا۔ لغو سے ایک دوسرا نقصان تضیع اوقات بھی ہے۔ تیسرا نقصان غیرسنجیدگی اور اصل مقصد سے بے توجہی پیدا ہوتی ہے۔ گویا لغو ایک بے فائدہ اور لاحاصل عمل ہی نہیں ہے بلکہ اس سے سراسر نقصان بھی ہے۔ مومن کوئی بھی ایسا عمل نہیں کرسکتا جو بے سود اور سراسر نقصان کا باعث ہو۔
مومن لغویات سے دُور رہتے ہیں۔ اس کی دو وجوہات ہیں: اوّل یہ کہ اللہ نے منع کیا ہے‘ اور دوسری وجہ یہ کہ جو کام ہم یہاں کر رہے ہیں اور جو بات زبان سے نکال رہے ہیں وہ لکھنے والا لکھ رہا ہے اور اس سارے قول و عمل کا ہمیں اللہ تعالیٰ کو جواب دینا ہوگا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
مَا یَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ اِلاَّ لَدَیْہِ رَقِیْبٌ عَتِیْدٌ o (قٓ ۵۰: ۱۰) کوئی لفظ اس کی زبان سے نہیں نکلتا جسے محفوظ کرنے کے لیے ایک حاضر باش نگراں موجود نہ ہو۔
حضرت ابوہریرہؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو کوئی اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے پڑوسی کو تکلیف نہ پہنچائے‘ اور جو کوئی اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے مہمان کی عزت کرے‘ اور جو کوئی اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اچھی بات زبان سے نکالے ورنہ خاموش رہے۔ (متفق علیہ)
حضرت ابوسریح عدویؓ نے بیان کیا کہ میرے کانوں نے سنا اور میری آنکھوں نے دیکھا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گفتگو فرما رہے تھے تو آپؐ نے فرمایا: جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے پڑوسی کی عزت کرے‘ اور جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے مہمان کی ہرطرح سے عزت کرے۔ پوچھا: یارسولؐ اللہ! دستور کے موافق کب تک ہے؟ فرمایا: ایک دن اور ایک رات اور میزبانی تین دن کی ہے اور جو اس کے بعد ہو وہ اس کے لیے صدقہ ہے۔ اور جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ بھلی بات کہے یا خاموش رہے۔ (متفق علیہ)
ان دونوں احادیث میں پڑوسی کی عزت اور اُسے تکلیف نہ پہنچانے‘ مہمانوں کی عزت اور ان کی خاطر و تواضع اور زبان کی حفاظت کا حکم دیا گیا ہے۔ زبان کی حفاظت کے متعلق دو باتیں دونوں احادیث میں کہی گئی ہیں۔ اوّل یہ کہ زبان سے اچھی اور بہتر بات کہی جائے‘ اور دوم یہ کہ بہتر اور اچھی بات نہ کہنا ہو تو خاموش رہے۔ لغو بات زبان سے نکالنے کی کوئی گنجایش اس آدمی کے لیے قطعی نہیں ہے جو اللہ پر اور آخرت کے قائم ہونے اور اس کے حساب و کتاب پر یقین رکھتا ہو۔
مزید احادیث ملاحظہ فرمایئے:
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کا ایک بندہ زبان سے ایک بات بغیر سوچے سمجھے کہ وہ صحیح ہے یا غلط‘ نکالتا ہے اور وہ جہنم کا مستحق ہوجاتا ہے‘ جب کہ اس کے اور جہنم کے بیچ اتنی دُوری تھی جتنی دُوری مشرق کے دونوں کناروں کے درمیان تھی۔ (بخاری)
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کا ایک بندہ زبان سے ایک اچھی بات نکالتا ہے بغیر اس کی اہمیت سمجھتے ہوئے اور اللہ اس کے عوض اس سے خوش ہوجاتا ہے اور اس کے درجات بلند کردیتا ہے۔ اور اللہ کا ایک بندہ بغیر سوچے سمجھے زبان سے ایک خراب بات نکالتا ہے جو اللہ کی ناراضی کا سبب بنتا ہے اور وہ جہنم کا مستحق بن جاتا ہے۔(بخاری)
ان احادیث میں یہ باتیں بتائی گئی ہیں کہ زبان کے‘ بغیر سوچے سمجھے بے جا استعمال سے اللہ کا بندہ جہنم کا مستحق بن سکتا ہے اور زبان سے اچھی بات نکالنے کی بنیاد پر وہ جنت اور درجات کی بلندی کا مستحق بن سکتا ہے۔ لغویات میں زبان کا بے جا استعمال اور اس کی حرمت پامال ہوتی ہے‘ لہٰذا ہمیشہ اس سے اجتناب ضروری ہے۔
وَالَّذِیْنَ لَا یَشْھَدُوْنَ الزُّوْرَ لا وَاِذَا مَرُّوْا بِاللَّغْوِ مَرُّوْا کِرَامًا o (الفرقان ۲۵:۷۲)، (اور رحمن کے بندے وہ ہیں) جو جھوٹ کے گواہ نہیں بنتے اور کسی لغو چیز پر سے اُن کا گزر ہوجائے تو شریف آدمیوں کی طرح گزر جاتے ہیں۔
یہاں بھی ان کی خوبی یہ بتائی گئی ہے کہ کسی ایسی جگہ سے جہاں لغو ہو رہا ہے‘ اس میں دل چسپی لینا تو درکنار‘ وہ ایک نگاہِ غلط انداز ڈالے بغیر وہاں سے شریفانہ گزر جاتے ہیں۔ اوّل تو وہ ایسی جگہ جان بوجھ کر جاتے نہیں مگر ایسی جگہوں سے گزر ہوجائے تو اس میں ملوث ہوئے بغیر شریفانہ انداز سے گزر جاتے ہیں۔ ’’حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کااتفاق سے ایک روزکسی بے ہودہ لغو مجلس پر گزر ہوگیا تو وہاں ٹھیرے نہیں گزرے چلے گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ معلوم ہوا تو فرمایا کہ ابن مسعود کریم ہوگئے اور یہ آیت تلاوت فرمائی جس میں بے ہودہ مجلس سے کریموں شریفوں کی طرح گزر جانے کا حکم ہے۔ (تفسیر ابن کثیر بحوالہ معارف القرآن‘ ج ۶‘ ص ۵۰۷)
دنیا میں ہر طرح کی احتیاط کے باوجود کبھی نہ کبھی لغو سے واسطہ پڑسکتا ہے۔ کوئی ان سے الجھنے کی کوشش کرے اور لغو پر آمادہ ہوجائے تو لغوسننے کے بعد وہ ان لوگوں سے سلام کرتے ہوئے ان سے الگ ہوجاتے ہیں۔ گویا جاہلوں کی جہالت کا جواب جہالت سے نہیں دیتے بلکہ ان سے یہ کہتے ہوئے الگ ہوجاتے ہیں کہ میں جاہلوں کی سی باتیں یا جاہلوں کا سا عمل کرنا نہیں چاہتا۔ آپ کو اپنا عمل مبارک ہو اور ہمیں ہمارا عمل۔ ان کی اس خصوصیت کو اللہ تعالیٰ اپنی کتاب میں اس طرح بیان فرماتا ہے:
وَاِذَا سَمِعُوا اللَّغْوَ اَعْرَضُوْا عَنْہُ وَقَالُوْا لَنَـآ اَعْمَالُنَا وَلَکُمْ اَعْمَالُکُمْز سَلٰمٌ عَلَیْکُمْ ز لَا نَبْتَغِی الْجٰھِلِیْنَ o (القصص ۲۸:۵۵) اور جب انھوں نے بے ہودہ بات سنی تو یہ کہہ کر اس سے کنارہ کش ہوگئے کہ ’’ہمارے اعمال ہمارے لیے اور تمھارے اعمال تمھارے لیے‘ تم کو سلام ہے‘ ہم جاہلوں کا ساطریقہ اختیار کرنا نہیں چاہتے‘‘۔
ایک طرف تو اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو لغو سے اعراض کرنے کا حکم دیا ہے۔ دوسری طرف نادانستہ طور پر اتفاقاً اگر لغو پر گزر ہوجائے تو مومنوں کی صفت یہ بتائی گئی کہ وہ اس پر سے شریفانہ انداز سے گزر جاتے ہیں۔ تیسری بات یہ ہے کہ گفتگو کے دوران اگر کوئی جہالت پر اُتر آئے اور لغو و بے ہودگی سے پیش آئے تو اللہ کے صالح بندے اس میں حصہ لینے کے بجاے ان لوگوں کو سلام کرکے یہ سوچتے ہوئے الگ ہوجاتے ہیں کہ ہمیں جاہلوں جیسا رویہ اختیار نہیں کرنا چاہیے۔
لاَ یَسْمَعُوْنَ فِیْھَا لَغْوًا وَّلَا کِذّٰبًا (النبا ۷۸:۳۵) وہاں کوئی لغو اور جھوٹی بات وہ نہ سنیں گے۔
لاَ یَسْمَعُوْنَ فِیْھَا لَغْوًا وَّلَا تَاْثِیْمًا o اِلاَّ قِیْلًا سَلٰمًا سَلٰمًاo (الواقعہ ۵۶:۳۵-۳۶) وہاں وہ کوئی بے ہودہ کلام یا گناہ کی بات نہ سنیں گے۔ جو بات بھی ہوگی ٹھیک ٹھیک ہوگی۔
فِیْ جَنَّۃٍ عَالِیَۃٍ o لَّا تَسْمَعُ فِیْھَا لَاغِیَۃً o (الغاشیہ۸۸: ۱۰-۱۱) عالی مقام جنت میں ہوں گے‘ کوئی بے ہودہ بات وہ و ہاں نہ سنیں گے۔
لاَ یَسْمَعُوْنَ فِیْھَا لَغْوًا اِلاَّ سَلٰمًا ط وَلَھُمْ رِزْقُھُمْ فِیْھَا بُکْرَۃً وَّعَشِیًّا o (مریم۱۹: ۶۲) وہاں وہ کوئی بے ہودہ بات نہ سنیں گے۔ وہ جو کچھ بھی سنیں گے ٹھیک ہی سنیں گے اور ان کا رزق پیہم صبح و شام ملتا رہے گا۔
جنت کی ساری نعمتوں کو نہ ہم اس دنیا میں جان سکتے ہیں اور نہ اس کی کسی نعمت کا ادراک ہی کرسکتے ہیں۔ اس کی ساری نعمتوں سے لطف اندوز تووہ خوش نصیب لوگ ہوں گے جو جنت میں جائیں گے۔ حضرت ابوہریرہؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ میں نے اپنے بندوں کے لیے وہ چیزیں تیار کر رکھی ہیں‘ جنھیں نہ آنکھوں نے دیکھا‘ نہ کانوں نے سنا اور نہ کسی انسان کے دل میں اس کا خیال گزرا ہے (متفق علیہ)۔ جنت کی جن نعمتوں کا تذکرہ قرآن و حدیث میں بیان ہوا ہے اس میں ایک نعمت یہ بھی ہے کہ جنتی جنت میں لغو بات نہیں سنیں گے اور یہ اتنی بڑی نعمت ہے جس کا تذکرہ قرآن میں کئی جگہ ہے۔ لغو سے پرہیز اور اس سے مکمل اجتناب اللہ کی بڑی نعمت ہے۔
اللہ سے دعا ہے کہ اللہ لغو سے پرہیز کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اگر لغو پر گزر ہوجائے تو شریفانہ انداز سے گزر جانے کی توفیق عطا فرمائے۔ لغویات میں ملوث کرنے کی کوشش کی جائے تو سلام کر کے وہاں سے الگ ہونے کی سعادت نصیب کرے‘ اور جنت عطا کرے جہاں لغو کا کوئی گزر نہیں ہے۔