۲۰۰۷فروری

فہرست مضامین

لغو سے پرہیز ایک مومنانہ صفت

ڈاکٹر محمد جسیم الدین | ۲۰۰۷فروری | تزکیہ و تربیت

Responsive image Responsive image

قرآن نے مومن کی ایک نمایاں صفت یہ بتائی ہے کہ وہ لغویات سے پرہیز کرتے ہیں اور اس سے حتی الامکان دُور رہتے ہیں۔ سورۂ مومنون میں اللہ تعالیٰ نے فوز و فلاح پانے والے اپنے بندوں کی چند صفات کا ذکر کرتے ہوئے نماز کے بعد جس صفت کا ذکر کیا ہے وہ یہ ہے کہ فلاح پانے والے مومنین لغو سے پرہیز کرتے ہیں:

قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ o الَّذِیْنَ ھُمْ فِیْ صَلَاتِھِمْ خٰشِعُوْنَo وَالَّذِیْنَ ھُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَo (المومنون ۲۳:۱-۳) یقینا فلاح پائی ہے ایمان لانے والوں نے جو اپنی نماز میں خشوع اختیار کرتے ہیں‘ لغویات سے دُور رہتے ہیں۔

گویا لغویات سے پرہیز اور اس سے بچنا مومن کی ایک نمایاں صفت ہے اور یہ فلاح پانے کی ایک سبیل ہے۔ اس کے لیے ہم لوگوں کو یہ ضرور جاننا چاہیے کہ ’لغو‘ کیا ہے؟

  •  لـغو کا مفھوم: مولانا مودودیؒ نے لغو کی وضاحت اِن الفاظ میں کی ہے: ’’لغو ہراُس بات اور کام کو کہتے ہیں جو فضول‘ لایعنی اور لاحاصل ہو۔ جن باتوں یا کاموں کا کوئی فائدہ نہ ہو‘ جن سے کوئی مفید نتیجہ برآمد نہ ہو‘ جن کی کوئی حقیقی ضرورت نہ ہو‘ جن سے کوئی اچھا مقصد حاصل نہ ہو‘ وہ سب لغویات ہیں‘‘ (تفہیم القرآن‘ ج ۳‘ ص ۲۶۲) ۔پوری آیت کا مطلب جاننے کے لیے ’لغو‘ کے ساتھ ساتھ معرضون کا مطلب بھی جاننا ضروری ہوجاتا ہے۔ مولانا مودودیؒ فرماتے ہیں: معرضون کا ترجمہ ہم نے ’دُور رہتے ہیں‘ کیا ہے۔ مگر اس سے پوری بات ادا نہیں ہوتی۔ آیت کا پورا مطلب یہ ہے کہ وہ لغویات کی طرف توجہ نہیں کرتے۔ ان کی طرف رخ نہیں کرتے۔ اُن میں کوئی دل چسپی نہیں لیتے۔ جہاں ایسی باتیں ہو رہی ہوں یا ایسے کام ہو رہے ہوں وہاں جانے سے پرہیز کرتے ہیں‘ اُن میں حصہ لینے سے اجتناب کرتے ہیں‘ اور اگر کہیں اُن سے سابقہ پیش آہی جائے تو ٹل جاتے ہیں‘ کترا کر نکل جاتے ہیں‘ یا بدرجہ آخر بے تعلق ہو رہتے ہیں‘‘۔(ایضاً‘ ص ۲۶۲)

مولانا امین احسن اصلاحی ؒ نے ’لغو‘ کی وضاحت کچھ اس طرح کی ہے: ’’لغو سے مراد ہر وہ قول وفعل ہے جو زندگی کے اصل مقصود___ رضاے الٰہی___ سے غافل کرنے والا ہو۔ قطع نظر اس سے کہ وہ مباح ہے یا غیرمباح۔ جس نماز کے اندر خشوع ہو اُس کا اثر زندگی پر لازماً یہ پڑتا ہے فضول‘ غیرضروری‘ لایعنی‘ بے مقصد چیزوںسے احتراز کرنے لگتا ہے۔ اس کو ہر وقت یہ فکر دامن گیر رہتی ہے کہ اگر میں نے کوئی فضول قسم کی حرکت کی تو اپنے عالم الغیب مالک کو ایک روز منہ دکھانا ہے اور اس چیز کی شب و روز میں کم از کم پانچ بار اس کو یاد دہانی ہوتی رہتی ہے۔ ظاہر ہے کہ جس شخص کا ضمیر اتنا بیدار اور حسّاس ہو کہ غیرضروری حرکت سے اس کی طبیعت انقباض محسوس کرے وہ کسی بڑی  بے حیائی کا مرتکب کبھی مشکل ہی سے ہوگا‘‘۔ (تدبرقرآن‘ ج ۴‘ ص ۴۳۴-۴۳۵)

مفتی محمد شفیعؒ نے ’لغو‘ کی تفسیر معارف القرآن میں اس طرح کی ہے: ’’لغو کے معنی فضول کلام یا کام جس میں کوئی دینی فائدہ نہ ہو۔ لغو کا اعلیٰ درجہ معصیت اور گناہ ہے جس میں فائدۂ دینی نہ ہونے کے ساتھ دینی ضرر و نقصان ہے۔ اس سے پرہیز واجب ہے‘ اور ادنیٰ درجہ یہ ہے کہ نہ مفید ہو نہ مضر‘ اس کا ترک کم از کم اولیٰ اور موجب مدح ہے۔ حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: من حسن اسلام المرأ ترکہ مالا یعنیہ ، یعنی انسان کا اسلام جب اچھا ہوسکتا ہے‘ جب کہ وہ بے فائدہ چیزوں کو چھوڑ دے۔ اسی لیے آیت میں اس کو مومن کامل کی خاص صفت قرار دیا ہے‘‘۔ (معارف القرآن‘ ج ۶‘ ص ۲۹۶)

مولانا عبدالرحمن کیلانیؒ نے ’لغو‘ کی تفسیر ان الفاظ میں کی ہے: ’’لغو سے مراد فضول اور   بے کار مشغلے اور کھیل بھی ہوسکتے ہیں۔ یعنی وہ لوگ اگر تفریح طبع کے لیے یا جسمانی کسرت کے طور پر کھیلتے ہیں تو ایسے کھیل نہیں کھیلتے جن میں محض وقت کا ضیاع ہو بلکہ ایسے کھیل کھیلتے ہیں جن سے کوئی دینی فائدہ بھی حاصل ہوتا ہو‘ جیسے جہاد کی غرض سے تیراکی‘ نیزہ بازی‘ تیراندازی اور نشانہ بازی وغیرہ۔ اور لغو سے مراد بے ہودہ اور فضول باتیں بھی ہوسکتی ہیں‘ جیسے فضول گپیں‘ غیبت‘ بکواس‘ تمسخر‘ فحش گفتگو اور فحش قسم کے گانے وغیرہ۔ ان باتوں سے وہ صرف خود ہی پرہیز نہیں کرتے بلکہ جہاں ایسی سوسائٹی ہو وہاں سے اُٹھ کر چلے جاتے ہیں اور ان کے ساتھ رہنا قطعاً گوارا نہیں کرتے۔ (تیسیرالقرآن‘ ج ۳‘ ص ۱۸۶-۱۸۷)

مولانا عبدالماجد دریابادیؒ نے اپنی انگریزی تفسیر میں ’لغو‘ کی تشریح اس طرح سے کی ہے: ’لغو‘ ایک ایسا فعل (قول و عمل) ہے جس کا نہ کوئی فائدہ اس دنیا میں ہے اور نہ اس کے بعد آنے والی زندگی میں ‘ اس لیے یہ مسلم کے لیے بے سود ہے۔

مفسرین کی گراں قدر آرا سے یہ بات واضح ہوگئی کہ لغو ایک ایسا قول و فعل ہے جس کا کوئی فائدہ نہ اس دنیا میں اور نہ اس کا کوئی فائدہ آخرت میں ہے‘ بلکہ اس کا نقصان یہ ہے کہ زبان کا  بے جا استعمال اور اس کو قابو میں نہ رکھنے کا وبال بھی ہوگا۔ لغو سے ایک دوسرا نقصان تضیع اوقات بھی ہے۔ تیسرا نقصان غیرسنجیدگی اور اصل مقصد سے بے توجہی پیدا ہوتی ہے۔ گویا لغو ایک بے فائدہ اور لاحاصل عمل ہی نہیں ہے بلکہ اس سے سراسر نقصان بھی ہے۔ مومن کوئی بھی ایسا عمل نہیں کرسکتا جو بے سود اور سراسر نقصان کا باعث ہو۔

مومن لغویات سے دُور رہتے ہیں۔ اس کی دو وجوہات ہیں: اوّل یہ کہ اللہ نے منع کیا ہے‘ اور دوسری وجہ یہ کہ جو کام ہم یہاں کر رہے ہیں اور جو بات زبان سے نکال رہے ہیں وہ لکھنے والا لکھ رہا ہے اور اس سارے قول و عمل کا ہمیں اللہ تعالیٰ کو جواب دینا ہوگا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

مَا یَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ اِلاَّ لَدَیْہِ رَقِیْبٌ عَتِیْدٌ o (قٓ ۵۰: ۱۰) کوئی لفظ اس کی زبان سے نہیں نکلتا جسے محفوظ کرنے کے لیے ایک حاضر باش نگراں موجود نہ ہو۔

  •  احادیث کی روشنی میں: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لغو باتوں کے حوالے سے بھی ہدایت فرمائی ہے:

حضرت ابوہریرہؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو کوئی اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے پڑوسی کو تکلیف نہ پہنچائے‘ اور جو کوئی اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے مہمان کی عزت کرے‘ اور جو کوئی اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اچھی بات زبان سے نکالے ورنہ خاموش رہے۔ (متفق علیہ)

حضرت ابوسریح عدویؓ نے بیان کیا کہ میرے کانوں نے سنا اور میری آنکھوں نے دیکھا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گفتگو فرما رہے تھے تو آپؐ نے فرمایا: جو شخص   اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے پڑوسی کی عزت کرے‘ اور جو شخص   اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے مہمان کی ہرطرح سے عزت کرے۔ پوچھا: یارسولؐ اللہ! دستور کے موافق کب تک ہے؟ فرمایا: ایک دن اور ایک رات اور میزبانی تین دن کی ہے اور جو اس کے بعد ہو وہ اس کے لیے صدقہ ہے۔ اور جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ بھلی بات کہے یا خاموش رہے۔ (متفق علیہ)

ان دونوں احادیث میں پڑوسی کی عزت اور اُسے تکلیف نہ پہنچانے‘ مہمانوں کی عزت اور ان کی خاطر و تواضع اور زبان کی حفاظت کا حکم دیا گیا ہے۔ زبان کی حفاظت کے متعلق دو باتیں دونوں احادیث میں کہی گئی ہیں۔ اوّل یہ کہ زبان سے اچھی اور بہتر بات کہی جائے‘ اور دوم یہ کہ بہتر اور اچھی بات نہ کہنا ہو تو خاموش رہے۔ لغو بات زبان سے نکالنے کی کوئی گنجایش اس آدمی کے لیے قطعی نہیں ہے جو اللہ پر اور آخرت کے قائم ہونے اور اس کے حساب و کتاب پر یقین رکھتا ہو۔

مزید احادیث ملاحظہ فرمایئے:

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کا ایک بندہ زبان سے ایک بات بغیر سوچے سمجھے کہ وہ صحیح ہے یا غلط‘ نکالتا ہے اور وہ جہنم کا مستحق ہوجاتا ہے‘ جب کہ اس کے اور جہنم کے بیچ اتنی دُوری تھی جتنی دُوری مشرق کے دونوں کناروں کے درمیان تھی۔ (بخاری)

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کا ایک بندہ زبان سے ایک اچھی بات نکالتا ہے بغیر اس کی اہمیت سمجھتے ہوئے اور اللہ اس کے عوض اس سے خوش ہوجاتا ہے اور اس کے درجات بلند کردیتا ہے۔ اور اللہ کا ایک بندہ بغیر سوچے سمجھے زبان سے ایک خراب بات نکالتا ہے جو اللہ کی ناراضی کا سبب بنتا ہے اور وہ جہنم کا مستحق بن جاتا ہے۔(بخاری)

ان احادیث میں یہ باتیں بتائی گئی ہیں کہ زبان کے‘ بغیر سوچے سمجھے بے جا استعمال سے اللہ کا بندہ جہنم کا مستحق بن سکتا ہے اور زبان سے اچھی بات نکالنے کی بنیاد پر وہ جنت اور درجات کی بلندی کا مستحق بن سکتا ہے۔ لغویات میں زبان کا بے جا استعمال اور اس کی حرمت پامال ہوتی ہے‘ لہٰذا ہمیشہ اس سے اجتناب ضروری ہے۔

  •  بندۂ مومن کا طرزِعمل:  اللہ کے صالح بندے تو لغویات سے دُور رہتے ہیں اور جان بوجھ کر کبھی لغویات میں ملوث نہیں ہوتے لیکن تمام تر احتیاط کے باوجود یہ ہوسکتا ہے کہ کبھی ان کا گزر ایسی جگہ سے ہو جہاں لغو ہو رہا ہو‘ یا کسی جگہ ان کی موجودگی میں یک بہ یک لغو ہونے لگے تو ان کا طرزعمل یہ ہوتا ہے کہ ایسی جگہ سے اپنا دامن بچاتے ہوئے‘ اس میں دل چسپی لیے بغیر وہاں سے احسن طریقے سے گزر جاتے ہیں۔ قرآن نے ان کے طرزعمل کو یوں بیان کیا ہے:

وَالَّذِیْنَ لَا یَشْھَدُوْنَ الزُّوْرَ لا وَاِذَا مَرُّوْا بِاللَّغْوِ مَرُّوْا کِرَامًا o (الفرقان ۲۵:۷۲)، (اور رحمن کے بندے وہ ہیں) جو جھوٹ کے گواہ نہیں بنتے اور کسی لغو چیز پر سے اُن کا گزر ہوجائے تو شریف آدمیوں کی طرح گزر جاتے ہیں۔

یہاں بھی ان کی خوبی یہ بتائی گئی ہے کہ کسی ایسی جگہ سے جہاں لغو ہو رہا ہے‘ اس میں دل چسپی لینا تو درکنار‘ وہ ایک نگاہِ غلط انداز ڈالے بغیر وہاں سے شریفانہ گزر جاتے ہیں۔ اوّل تو وہ ایسی جگہ جان بوجھ کر جاتے نہیں مگر ایسی جگہوں سے گزر ہوجائے تو اس میں ملوث ہوئے بغیر شریفانہ انداز سے گزر جاتے ہیں۔ ’’حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کااتفاق سے ایک روزکسی بے ہودہ لغو مجلس پر گزر ہوگیا تو وہاں ٹھیرے نہیں گزرے چلے گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ معلوم ہوا تو فرمایا کہ ابن مسعود کریم ہوگئے اور یہ آیت تلاوت فرمائی جس میں بے ہودہ مجلس سے کریموں شریفوں کی طرح گزر جانے کا حکم ہے۔ (تفسیر ابن کثیر بحوالہ معارف القرآن‘ ج ۶‘ ص ۵۰۷)

دنیا میں ہر طرح کی احتیاط کے باوجود کبھی نہ کبھی لغو سے واسطہ پڑسکتا ہے۔ کوئی ان سے الجھنے کی کوشش کرے اور لغو پر آمادہ ہوجائے تو لغوسننے کے بعد وہ ان لوگوں سے سلام کرتے ہوئے ان سے الگ ہوجاتے ہیں۔ گویا جاہلوں کی جہالت کا جواب جہالت سے نہیں دیتے بلکہ ان سے یہ کہتے ہوئے الگ ہوجاتے ہیں کہ میں جاہلوں کی سی باتیں یا جاہلوں کا سا عمل کرنا نہیں چاہتا۔ آپ کو اپنا عمل مبارک ہو اور ہمیں ہمارا عمل۔ ان کی اس خصوصیت کو اللہ تعالیٰ اپنی کتاب میں اس طرح بیان فرماتا ہے:

وَاِذَا سَمِعُوا اللَّغْوَ اَعْرَضُوْا عَنْہُ وَقَالُوْا لَنَـآ اَعْمَالُنَا وَلَکُمْ اَعْمَالُکُمْز سَلٰمٌ عَلَیْکُمْ ز  لَا نَبْتَغِی الْجٰھِلِیْنَ o (القصص ۲۸:۵۵) اور جب انھوں نے بے ہودہ بات سنی تو یہ کہہ کر اس سے کنارہ کش ہوگئے کہ ’’ہمارے اعمال ہمارے لیے اور تمھارے اعمال تمھارے لیے‘ تم کو سلام ہے‘ ہم جاہلوں کا ساطریقہ اختیار کرنا نہیں چاہتے‘‘۔

ایک طرف تو اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو لغو سے اعراض کرنے کا حکم دیا ہے۔ دوسری طرف نادانستہ طور پر اتفاقاً اگر لغو پر گزر ہوجائے تو مومنوں کی صفت یہ بتائی گئی کہ وہ اس پر سے     شریفانہ انداز سے گزر جاتے ہیں۔ تیسری بات یہ ہے کہ گفتگو کے دوران اگر کوئی جہالت پر اُتر آئے اور لغو و بے ہودگی سے پیش آئے تو اللہ کے صالح بندے اس میں حصہ لینے کے بجاے ان لوگوں کو سلام کرکے یہ سوچتے ہوئے الگ ہوجاتے ہیں کہ ہمیں جاہلوں جیسا رویہ اختیار نہیں کرنا چاہیے۔

  •  مـومن کا انـعام: قرآن کے مطالعے سے پتاچلتا ہے کہ ایک مومن اور صالح بندہ اپنی زندگی میں پوری کوشش کرے کہ وہ لغویات سے دُور رہے لیکن ان ساری کوششوں کے باوجود یہ ہوسکتا ہے کہ کبھی نہ کبھی لغو بات اس کے کانوں میں پڑجائے‘ جیسے فحش گانے‘ فلموں کے مکالمے‘ گالی گلوچ وغیرہ۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے مومنوں کے لیے جنت کے جن انعامات کا ذکر کیا ہے اس میں کئی جگہ یہ بات بھی بتائی ہے کہ جنتی جنت میں لغو بات نہیں سنیں گے۔ گویا لغو سے پرہیز اور مکمل اجتناب زندگی بھر کرنے کی کوشش کرے اور اس کی خواہش دنیا میں نہ پوری ہو تو اللہ ایک جگہ ایسی عطا کرے گا جہاں وہ اللہ کا صالح بندہ لغو باتیں نہیں سنے گا اور لغو فعل سے اس کا کوئی واسطہ نہیں پڑے گا۔ وہ جگہ جنت ہوگی۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:

لاَ یَسْمَعُوْنَ فِیْھَا لَغْوًا وَّلَا کِذّٰبًا (النبا ۷۸:۳۵) وہاں کوئی لغو اور جھوٹی بات وہ نہ سنیں گے۔

لاَ یَسْمَعُوْنَ فِیْھَا لَغْوًا وَّلَا تَاْثِیْمًا o اِلاَّ قِیْلًا سَلٰمًا سَلٰمًاo (الواقعہ ۵۶:۳۵-۳۶) وہاں وہ کوئی بے ہودہ کلام یا گناہ کی بات نہ سنیں گے۔ جو بات بھی ہوگی ٹھیک ٹھیک ہوگی۔

فِیْ جَنَّۃٍ عَالِیَۃٍ o لَّا تَسْمَعُ فِیْھَا لَاغِیَۃً o (الغاشیہ۸۸: ۱۰-۱۱) عالی مقام جنت میں ہوں گے‘ کوئی بے ہودہ بات وہ و ہاں نہ سنیں گے۔

لاَ یَسْمَعُوْنَ فِیْھَا لَغْوًا اِلاَّ سَلٰمًا ط وَلَھُمْ رِزْقُھُمْ فِیْھَا بُکْرَۃً وَّعَشِیًّا o (مریم۱۹: ۶۲) وہاں وہ کوئی بے ہودہ بات نہ سنیں گے۔ وہ جو کچھ بھی سنیں گے ٹھیک ہی سنیں گے اور ان کا رزق پیہم صبح و شام ملتا رہے گا۔

جنت کی ساری نعمتوں کو نہ ہم اس دنیا میں جان سکتے ہیں اور نہ اس کی کسی نعمت کا ادراک ہی کرسکتے ہیں۔ اس کی ساری نعمتوں سے لطف اندوز تووہ خوش نصیب لوگ ہوں گے جو جنت میں جائیں گے۔ حضرت ابوہریرہؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ میں نے اپنے بندوں کے لیے وہ چیزیں تیار کر رکھی ہیں‘ جنھیں نہ آنکھوں نے دیکھا‘      نہ کانوں نے سنا اور نہ کسی انسان کے دل میں اس کا خیال گزرا ہے (متفق علیہ)۔ جنت کی   جن نعمتوں کا تذکرہ قرآن و حدیث میں بیان ہوا ہے اس میں ایک نعمت یہ بھی ہے کہ جنتی جنت میں لغو بات نہیں سنیں گے اور یہ اتنی بڑی نعمت ہے جس کا تذکرہ قرآن میں کئی جگہ ہے۔ لغو سے پرہیز اور اس سے مکمل اجتناب اللہ کی بڑی نعمت ہے۔

اللہ سے دعا ہے کہ اللہ لغو سے پرہیز کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اگر لغو پر گزر ہوجائے تو شریفانہ انداز سے گزر جانے کی توفیق عطا فرمائے۔ لغویات میں ملوث کرنے کی کوشش کی جائے تو سلام کر کے وہاں سے الگ ہونے کی سعادت نصیب کرے‘ اور جنت عطا کرے جہاں لغو کا  کوئی گزر نہیں ہے۔