۲۰۰۷فروری

فہرست مضامین

روشن خیال اعتدال پسندی نشا.َتِ ثانیہ کے پس منظر میں

محمد رضا خاں | ۲۰۰۷فروری | اسلام اور مغرب

Responsive image Responsive image

آج ہمارے ملک میں روشن خیال اعتدال پسندی کے نام سے سرکاری سرپرستی میں بیرونی قوتوں کی اشیرباد ‘ حوصلہ افزائی اور ہرطرح کی معاونت سے موجودہ معاشرے کو بالکل سیکولر معاشرے میںتبدیل کرنے کی جو مہم جاری ہے‘ اسے سمجھنے کے لیے یورپ کی نشا.َتِ ثانیہ کی تحریک کے پس منظر اور اثرات پر غور کرنا چاہیے۔ وہاں عیسائیت کی اصلاح کرنے کے لیے ایک نئی دنیا تخلیق کی گئی‘ یہاں بھی اسلام کی ’اصلاح‘ کرنے کے لیے یہی کچھ کرنا پیشِ نظر ہے۔

جدید یورپ کے پس پردہ جو فکری تبدیلی ہے اسے ہم نشا.َتِ ثانیہ کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔ اس لفظ کا استعمال ۱۹ویں صدی کے نصف آخر میں سوئٹزرلینڈ کے تاریخ داں جیکب برک ہارڈ نے پہلی مرتبہ ۱۸۶۰ء میں اپنی کتاب Die Kulter Der Renaissance in Italian میں کیا‘ یعنی ۱۹ویں صدی تک خود یورپی عوام بھی نشا.َتِ ثانیہ کے موجودہ مفہوم سے ناآشنا تھے۔ نشا.َتِ ثانیہ تاریخِ یورپ میں ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس کے بعد کا یورپ ماضی کے یورپ سے قطعی مختلف ہوگیا‘ اس حد تک کہ نئے یورپ کے تمام ادارے‘ بشمول کلیسا‘  مذہب‘ سیاست‘ معیشت‘ اخلاقیات‘ خاندانی رسم و رواج اور سائنس سبھی کچھ بدل گئے۔ انفرادی و سماجی  رویّے شکست وریخت سے دوچار ہوگئے۔ اس فکر کے اثرات پوری دنیا میں پھیل گئے یہاں تک کہ نشا.َتِ ثانیہ کے بطن میں پوشیدہ افکار آہستہ آہستہ مذہبی فکر میں نفوذ کرتے چلے گئے جس کے نتیجے میں عیسائیت اپنی ہیئت و ماہیت کے لحاظ سے تبدیلی کے عمل سے دوچار ہوگئی۔ ۱۶ویں صدی تک یہ تبدیلیاں واضح اور منظم رخ اختیار کرچکی تھیں۔

مذہبی پیشوا‘ پوپ اور کلیسا بے شمار اخلاقی خرابیوں کی آماج گاہ بن چکے تھے۔ وقف زمینوں سے حاصل ہونے والی آمدنی کلیسا کی روایت و اخلاقیات کو ڈھا رہی تھی۔ معافی ناموں کی فروخت کا کاروبار ہو رہا تھا۔ پوپ اپنی روحانی عظمت کو قائم رکھنے کے لیے حکومتوں کو لڑانے میں اپنا کردار ادا کر رہے تھے۔ مختلف ممالک میں کلیسائوں کے پادری بھی پوپ کی مرضی سے متعین کیے جاتے۔ زرعی زمینوں پر ٹیکس بھی پوپ کی منشا کے مطابق عائد کیا جاتا۔ مذہبی پیشوائوں کے ناجائز بچے  ’پوپ کے بھتیجے‘ کلیسا کی اخلاقی زبوں حالی کی تصویر پیش کر رہے تھے۔ یہی پس منظر تحریکِ اصلاحِ مذہب کا سبب قرار دیا جاتا ہے۔

اصلاح مذہب کے علم بردار لوتھر (۱۴۸۴ء-۱۵۴۶ء)‘ ایراسمس (۱۴۶۶ء-۱۵۳۶ء)‘ زونگلی (۱۴۸۴ء-۱۵۳۱ء) اور کالون (۱۵۰۹ء-۱۵۶۴ء) تھے۔ اگر ان افراد کے لیے حسنِ ظن سے کام لیا جائے تو بھی تاریخ شاہد ہے کہ ایک ’مخصوص طبقہ‘ اصلاحِ مذہب کا خواہاں نہ تھا بلکہ  اس تحریک کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کرنا چاہتا تھا۔ مذہبی فکر کو دیوار سے لگانے میں بھی اس تحریک کا کردار خاصا اہم نظر آتا ہے باوجود اس کے کہ یہ تحریک اصلاحِ مذہب کا نعرہ لے کر  اٹھی تھی۔ مقاصد کے اعتبار سے یہ تحریک عیسائیت کو اس کی ’اصل‘ فراہم کرنا چاہتی تھی مگر اس کا  انجام کار انتشارِ عیسائیت کی صورت میں برآمد ہوا۔ صرف یہی نہیں بلکہ عیسائیت اپنی اصل سے مزید دُور ہوگئی۔ پروٹسٹنٹ فرقے کا ظہور اس تحریک کا نتیجہ تھا مگر عقائد کے اعتبار سے یہ فرقہ بھی اپنی اصل سے اتنا ہی دُور تھا جتنا رومن کیتھولک بلکہ شاید کچھ زیادہ ہی۔ اگرچہ عیسائیت میں خرابیوں نے جنم ضرور لیا تھا مگر ان کی اصلاح کر کے انھیں دُور کیا جاسکتا تھا۔ آخر کیا وجہ تھی کہ اصلاح کے نام پر مذہب کو ہی منہدم کرنے کی کوشش کی گئی۔ آخر ایسا کیوں ہوا کہ معاشرے کے ہر ادارے سے مذہب کا خاتمہ کرکے انھیں سیکولر اداروں میں تبدیل کیا گیا اور پھر مذہب کو صرف ذہنی عقائد اور ذاتی معاملے تک محدود کردیا گیا۔ مذہب اور معاشرتی اداروں میں مشرق و مغرب کا بُعد پیدا کردیا گیا۔ جس طرح کسی بھی فکر کو زندگی عطا کرنے کے لیے اسے اداروں کے ذریعے معاشرے پر منطبق کرنا ضروری ہوتا ہے‘ بالکل اسی طرح کسی بھی فکر کو محدود اور کمزور کرنے کے لیے اداروں سے اس کے رشتے کو منقطع کرنا ضروری ہوتا ہے۔ یہی کچھ صورت حال نشا.َتِ ثانیہ میں بھی نظر آتی ہے جس کے ذریعے معاشرتی اداروں سے مذہبی فکر کا خاتمہ کرکے انھیں سیکولر بنیادوں پر استوار کیا گیا۔

نشا.َتِ ثانیہ کے اغراض و مقاصد کی تفصیل میں جانے سے پہلے ان طریقوں کو سمجھنا ضروری ہے کہ جن سے مسلح ہوکر اس فکر نے یورپ پر کاری وار کیا اور ایک نئے یورپ کے خدوخال متعین کیے۔ اس فکر کو برپا کرنے میں دو تحریکوں‘ تحریکِ عقلیت اور تحریکِ انسانیت نے یورپ کی تاریخ و جغرافیہ دونوں ہی کو تبدیل کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔

  •  عقلیت (Rationalism): اس سے مراد دنیا اور فکر کی اساس عقل کو قرار دینا ہے۔ نفسیات‘ جمالیات اور اخلاقیات کی تشریح عقل کی بنیادوں پر کی جاتی ہے۔ دینیات میں عقل سے مراد صرف ان عقائد کو تسلیم کرنا ہے جو سائنس اور فلسفے کے مطابق ہوں۔ عقلیت پسند وحی کو بطور ماخذِ علم مسترد کرتے ہیں۔ (Dictionary of Sociology ‘ Nicholas Abererombie) (کشاف اصطلاحات فلسفہ‘ پروفیسر اے سی قادر‘ اِکرام رانا)
  •  تحریکِ انسانیت (Humanism): اس میں اساسی اہمیت اس دنیا میں انسان کی فلاح اور مسرت کو دی جاتی ہے۔ یورپی نشا.َتِ ثانیہ میں روایتی کلیسائی سختی کے خلاف فکری بغاوت جس میں کلاسیکی علم سے شغف اور دنیا کی لذتوں سے محظوظ ہونے پر اصرار ہے۔ ۲۰ویں صدی کی مادی اور انسانیت دوست فکر میں مافوق الفطرت عناصر سے انکار اور اس بات کا ادعا کہ اعلیٰ ترین خیر اس دنیا میں انسان کی بھلائی کا حصول ہے اور اس کے لیے سائنس‘ جمہوریت اور عقل کی رہنمائی لازمی ہے۔بجاے خدا کے‘ انسان اس تحریک کا مرکزی نقطہ ہے۔(ایضاً)

درج بالا تعریفات عقلیت اور تحریکِ انسانیت کے ضمیر میں پوشیدہ ان اغراض و مقاصد کا مکمل احاطہ کرتی ہیں‘ جن کے لیے نشا.َتِ ثانیہ کی تحریک برپا کی گئی۔ تاریخ یورپ کو اکثر انگریز مصنفین درجہ ذیل چار حصوں میں تقسیم کرتے ہیں:

۱- پانچویں صدی قبل مسیح تا پانچویں صدی عیسوی: یونانی اوررومی دور۔

۲- چھٹی صدی عیسوی تا ۱۵ویں صدی عیسوی: ازمنہ وسطی‘ دورِ عیسوی‘ دورِ جہالت۔

۳- ۱۵ویں صدی عیسوی تا۱۶ویں صدی عیسوی: تحریکِ اصلاح مذہب‘ دورِ تنویریت تا روشن خیالی (enlightenment)‘ نشا.َتِ ثانیہ۔

۴- ۱۷ویں صدی عیسوی تا ۲۰ویں صدی عیسوی: دورِ عقلیت و سائنس‘ دورِ جدید۔

درج بالا تقسیم کے صرف ناموں پر ہی غور کیا جائے تو یہ حقیقت آشکار ہوجاتی ہے کہ یہ نام اپنے اندر ایک خاص فکر رکھتے ہیں‘ مثلاً دورِ عیسوی کو دورِ جہالت کا نام دیا جاتا ہے‘ یعنی عیسائیت اور جہالت ہم معنی قرار پاتے ہیں۔ دورِ عیسائیت میں یورپ نے جو کچھ بھی حاصل کیا اسے جہالت سے تعبیر کیا جاتا ہے‘ یعنی شعوری طور پر یہ فکر راسخ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ جہاں بھی مذہب کی روشنی غلبہ حاصل کرے گی اس کا انجام ایک ہی صورت میں برآمد ہوگا یعنی ’جہالت‘۔ تیسرے دور کو تحریکِ اصلاح‘ نشا.َتِ ثانیہ اور روشن خیالی کا نام دیا جاتا ہے‘ یعنی روشنی کا دور‘ جب کہ اس عہد میں عیسائیت کی بنیادوں کو منہدم کردیا گیا۔ لوتھر‘ ایراسمس‘ کالون اور زونگلی نے عیسائیت کی عمارت کو ڈھانے میں خاص کردار ادا کیا۔ انھوں نے پوپ کے اختیارات کو چیلنج کیا اور مذہبی تشریح کا حق عام لوگوں کو منتقل کردیا جس کے تحت اب ہرشخص اپنی فہم و فراست کے مطابق انجیل کی تشریح کرسکتا تھا۔ کلیسا کی طرف سے متعین کردہ مذہبی تشریح عام لوگوں کے لیے لازمی نہیں رہی۔ نتائج کے اعتبار سے یہ ایک مہلک عمل تھا جس کا نتیجہ انتشار عیسائیت کی صورت میں برآمد ہوا۔

یہ بات بھی غورطلب ہے کہ یونانی فلسفہ جو رفتہ رفتہ عیسائیت کی فکری دنیا میں نفوذ کرتا چلا جارہا تھا‘ اس کے نتائج بھی عیسائیت کے لیے سخت نقصان دہ ثابت ہو رہے تھے۔ عیسائی لبادے میں ملبوس یہ یونانی خیالات جب حالات و زمانے کا ساتھ نہ نبھا سکے تو انھیں متروک کرنا پڑا جس کی زد عیسائیت پر پڑی‘ مثلاً کوپرنیکس نے جب یہ اعلان کیا کہ زمین سورج کے گرد گھوم رہی ہے تو   اس پر شدید اعتراض کیا گیا اور اسے معتوب ٹھیرایا گیا۔ کوپرنیکس کا یہ اعلان یونانی فلسفے کا انکار تھا نہ کہ عیسائیت کا‘ مگر چونکہ یونانی فلسفہ اور عیسائیت لازم و ملزوم کی حیثیت اختیار کرچکے تھے‘ لہٰذا   روشن خیال کے دور میں عیسائیت اپنی بنیادوں سے محروم ہوتی چلی گئی۔

عیسائیت کے بعد اس دورِ روشن خیالی کو اب اسلام پر منطبق کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ آج یہی نشا.َتِ ثانیہ جدیدیت کا روپ دھار کر اسلام کے ساتھ نبردآزما ہے جس کا بنیادی مقصد اسلام کو ضابطۂ حیات کی حیثیت سے مشکوک قرار دینا ہے۔ پس منظر اپنے پیش منظر کو خود متعین کرتا ہے۔ نشا.َتِ ثانیہ کا پس منظر یورپ کے معاشرتی اداروں سے مذہبی افکار کا خاتمہ کرکے انھیں مکمل سیکولر بنیادوں پر استوار کرنا تھا‘ جب کہ اس کا پیش منظر مسلم دنیا کے معاشرتی اداروں سیاست‘ معیشت‘ تعلیم‘ اخلاقیات‘ خاندانی روایات اور ابلاغیات سے مذہبی فکر کو علیحدہ کرکے انھیں سیکولر بنیادوں پر استوار کرنا اور عیسائیت کی طرح اسلام کو بھی فرد کا ذاتی معاملہ قرار دے کر اسے انفرادیت تک محدود قرار دینا ہے۔ ایک ایسا اسلام جو عقیدے اور رسوم کے در و دیوار میں مقید رہے۔ چنانچہ اخبارات اور ٹی وی چینلوں کے ذریعے ایسے موضوعات پر بحث کرائی جاتی ہے جن کے بارے میں قوم واضح اور متعین راے رکھتی ہے۔

اس طرح کے پروگرام کا شعوری مقصد کسی موضوع یا عقیدے سے وابستہ ’متعین اور راسخ‘ راے کو مشکوک قرار دینا ہوتا ہے۔ اس طرح کے پروگرام تسلسل اور تواتر سے پیش کیے جاتے ہیں تاکہ لوگوں کی راسخ راے کو دھیرے دھیرے نامانوس طریقے سے تبدیل کیا جائے۔ مذہبی فکر کو موضوع بحث بنانے کے لیے جن افراد کو بحث و مباحثے کی دعوت دی جاتی ہے ان میں مذہبی فکر سے وابستہ ایسے افراد کو مدعو کیا جاتا ہے جو جدید تعلیم و خیالات سے مکمل واقفیت نہیں رکھتے اور نہ ان میں اپنے موقف کا دفاع کرنے ہی کی اہلیت و صلاحیت ہوتی ہے۔ دوسری طرف سیکولر طبقہ جدید تعلیم سے آراستہ ہوتا ہے اور زمانے کے فکری نشیب و فراز پرگہری نظر رکھتا ہے جس کی بنا پر ان میں قائل کرنے کی بھرپور صلاحیت ہوتی ہے۔ اس طرح غیرمتوازن شخصیات کو تبادلہ خیال کا موقع دیا جاتا ہے اور فیصلہ عوام پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ عوام پس پردہ منصوبہ بندی سے ناواقف ہوتے ہیں لہٰذا جب وہ فیصلہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو انھیں محسوس ہوتا ہے کہ مذہبی فکر کا دفاع کرنے والے اپنے موقف کو دلائل کی روشنی میں پیش کرنے سے قاصر رہے۔ اس طرح سیکولرفکر کے حوالے سے ان کے خیالات میں نرمی پیدا ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ اس نوعیت کے پروگرام تسلسل سے پیش کیے جاتے ہیں تاکہ خیالات میں پیدا شدہ نرمی کو ایک ’راسخ‘ خیال میں تبدیل کیا جاسکے۔ ذیل میں  ٹی وی پروگرام کے چند ’مرکزی خیال‘ آپ کے سامنے پیش کیے جاتے ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ کس طرح راسخ و متعین خیالات کو مشکوک ٹھیرا کر انھیں متروک کرنے کی کوشش کی جارہی ہے:  

  • کیا پاکستان کو قرارداد مقاصد کی اب بھی ضرورت ہے؟ 
  • اسلام میں رقص اور موسیقی کی شرعی حیثیت 
  • کیا قائداعظم سیکولر تھے؟ 
  • حدیث کی شرعی حیثیت 
  • خاندانی منصوبہ بندی‘ خوش حالی کی ضمانت 
  • مخلوط نظام تعلیم وقت کی ضرورت
  • خواتین کی میراتھن ریس 
  • دو قومی نظریہ کیا اب بھی ہماری ضرورت ہے؟ 
  • قائداعظم ملک میں اسلامی نظام کا نفاذ چاہتے تھے یا سیکولر ریاست کے خواہاں تھے 
  • بنک کا سودی نظام۔

سیموئیل پی ہن ٹنگٹن نے تہذیبوں کا تصادم میں مغربی تہذیب کے لیے اصل خطرہ اسلامی تہذیب کو قرار دیا ہے۔ اس ممکنہ خطرے سے نمٹنے کے لیے پیش بندی کی جارہی ہے۔ اسی پیش بندی کے پہلے مرحلے میں مسلم دنیا میں قائم معاشرتی اداروں کو سیکولر بنیادوں پر استوار کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ جدیدیت کے روپ میں انھی عقلیت و انسان دوستی کی تحریکوں کو برپا کیاجارہا ہے جنھوں نے یورپ میں مذہبی اقدار کو تہہ و بالا کردیا تھا۔ مذہبی اقدارو شعائر کا تمسخر اڑایا جارہا ہے۔ ایسے افراد کو میڈیا کے ذریعے عزت و توقیر دی جارہی ہے اور انھیں آئیڈیل بناکر پیش کیا جا رہا ہے جو مادیت اور لذت پرستی ہی کو زندگی کا اصل مقصد قرار دیتے ہیں۔ امریکا میں مقیم پاکستانیوں کے انٹرویو پیش کیے جاتے ہیں جن کی مادی کامیابیاں دوسروں کے لیے نمونہ قرار دی جاتی ہیں۔ اس طرح یہ باور کرایا جاتا ہے کہ زندگی کا اصل مقصد آسایشوں کا حصول ہے اور آسایشوں کا حصول سیکولر معاشروں ہی میں ممکن ہے۔ اس طرح چہار اطراف سے سیکولر خیالات کو مسلم معاشرے میں رائج کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

نشا.َتِ ثانیہ کے اسباب میں سقوطِ قسطنطنیہ‘ امریکا کی دریافت‘ کاغذ اور مشینی طباعت کو اہم قرار دیا جاتا ہے۔ دراصل ان اسباب کو منظرنامے میںرکھ کر اصل سبب سے چشم پوشی کی جاتی ہے۔ قسطنطنیہ کو سلطان محمد فاتح نے ۱۴۵۳ء میں فتح کیا۔ کہا جاتا ہے کہ اس فتح کی وجہ سے تاجرطبقہ اور اصحاب العلم مع اپنی نابعہ روزگار کتابوں کے یورپ منتقل ہوگئے۔ مگر یہاں چند سوالات جنم لیتے ہیں:

۱- ان شخصیات کے پاس علم کے وہ کون سے خزانے تھے جسے وہ مسلمانوں کی دست رس سے بچاکر یورپ لے گئے؟

۲- دارالاسلام میں رہنے سے انھیں کون سے عوامل مانع تھے؟

۳- تاجر طبقے کو مسلم معاشرے میں کن مشکلات کا سامنا تھا؟

یورپ ان سوالوں کا جواب اس طرح پیش کرتا ہے کہ مسلم معاشرہ تنزل کا شکار تھا۔   عقلی علوم کے لیے معاشرے میں کوئی جگہ نہ تھی چنانچہ یہی بہتر تھا کہ یہ نابغہ روزگار شخصیات یورپ منتقل ہوجائیں۔ جہاں کی فضا ان علوم کے لیے سازگار تھی‘ جب کہ یورپ میں اس دور کو جہالت کے دور سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ حقیقی صورت حال کچھ اس طرح تھی کہ یہ نابغہ روزگار شخصیات یونانی علوم کی ماہر تھیں جنھیں دین اسلام شکست فاش دے چکا تھا۔ امام غزالی ۱۰۹۵ء میں تہافۃ الفلاسفہ تحریر فرماکر یونانی علوم کی ہیئت اور ماہیت کو واضح کرچکے تھے۔ چنانچہ یونانی علوم کی یہ ماہر شخصیات دین اسلام سے بے زار ہوکر یورپ منتقل ہونے لگیں جہاں انھیں اس کے واضح آثار نظرآرہے تھے کہ وہ عیسائیت کو شکست فاش دے کر لادینی اقدار کو پروان چڑھا سکتے تھے۔ نقل مکانی کرنے والوں میں تاجرطبقہ بھی تھا جسے مسلم معاشرے میں کھل کھیلنے کی اجازت نہ تھی۔ چنانچہ ان دونوں طبقات نے یونانی علوم کے بطن سے نکلی تحریک عقلیت و انسانیت کے ذریعے عیسائیت کی بیخ کنی شروع کردی۔ ان دنوں یورپی معاشرے میں زرعی اقدار رائج تھیں جو ان تحریکوں سے پیدا ہونے والی نئی اقدار کا ساتھ نہیں دے سکتا تھا۔ چنانچہ زرعی معاشرے کو صنعتی انقلاب کے ذریعے صنعتی معاشرے میں تبدیل کردیا گیا۔ ساتھ ہی جمہوریت کے نفاذ کے ذریعے مذہبی اقدار کا خاتمہ جب کہ صنعتی اقدار اور تاجر طبقے کے مفادات کے حصول کو ممکن بنایا گیا۔

خلافت. ِعثمانیہ کے زوال کے بعد یورپی ممالک نے جن ملکوں پر قبضہ کیا وہاں کے تمام علمی سرمایے کو یورپ منتقل کردیا گیا۔ علمی سرمایے کی اس منتقلی کا اس کے سوا اور کیا سبب ہوسکتا ہے کہ مسلمانوں کا رشتہ ان کی علمی تاریخ سے کاٹ دیا جائے۔ پھر یورپ ہی سے ان کتابوں کی تشریحات اور ترجمے شائع ہوتے ہیں۔ اس عمل کے ذریعے مغربی فکر بھی ان ترجموں اور تشریحات میں داخل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس طرح دو فائدے حاصل ہوتے ہیں۔ اوّل: مغربی فکر ان شخصیات کے ناموں سے بآسانی مسلم معاشرے میں نفوذ کرجاتی ہے۔ دوم: خود ان معروف مسلم شخصیات کی علمی حیثیت بھی مشکوک ہوجاتی ہے اور یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوجاتا ہے کہ ان کے اصل خیالات کیا تھے۔ مسلم دانش وروں پر اُمت کا یہ قرض ہے کہ وہ علم کے اس سرمایے تک براہِ راست رسائی حاصل کریں۔ اس طرح اُمت میں متداول بے شمار فکری غلط فہمیوں کا ازالہ بھی ممکن ہے۔

عقلیت اور انسانیت کی تحریکوں نے نئے یورپ کے خدوخال متعین کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا تھا۔ چنانچہ ان تحریکوں کے ذریعے حکومتی اہل کاروں کو کلیسا کے خلاف اُبھارا گیا۔ اسے کمزور کرنے کے لیے عصبیتوں‘ قومیتوں اور زبانوں کو فروغ دیا گیا۔ مذہب میں خدا‘ توحید‘ وحی‘ رسالت‘ آخرت کا جو تصور تھا اسے کمزور کرنے کے لیے فلسفہ اور سائنس کو فروغ دیا گیا جو مذہبی عقائد کے بارے شکوک و شبہات کو جنم دیتے ہیں۔ اباحیت پسندوں کو نوازنا‘ علما کی تحقیر‘ مذہبی شعائر کا مذاق‘ معاشرتی اداروں کا سیکولر بنیادوں پر استحکام‘ مذہبی امور کو مشکوک قرار دینے کے لیے قدیم یونانی‘ دہری‘ مشائی اور طبیعی علوم کا فروغ‘ طبعی علوم کی جڑوں سے مذہبی فکر کا خاتمہ ان تمام عوامل کا بنیادی مقصد عیسائیت کی بیخ کنی کے سوا کچھ اور نہ تھا۔ لذت پرستانہ ادب (اپیقیوری لٹریچر )‘ فلسفے اور آرٹ کو عیسائیت میں اس طرح پھیلایا گیا کہ دونوں کو جدا کرنا مشکل امر بن گیا۔ ’’انسان ہی تمام معاملات کی میزان ہے‘‘۔ اس اباحیت پسند نعرے کو بلند کرکے وحی کی اہمیت و حیثیت سے انکار کیا گیا۔ تاجرطبقے نے ان تحریکوں کے پردے میں مکمل آزادی اور فطریت کے خیالات کا اظہار کیا۔ مکمل فطری آزادی کے تحت کسی بھی نوع کے الٰہی احکامات سے انکار لازمی قرار پاتا ہے‘ جب کہ مذہب‘ انسانی فکر‘ خیالات‘ جذبات‘ اعمال اور لائحہ عمل کے لیے ایک متعین آزادی فراہم کرتا ہے۔ لیکن جب مذہب ہی مشکوک ٹھیرا تو انسانی جذبات‘ خیالات و اعمال بھی سرکش گھوڑے کی طرح بے لگام ہوگئے۔ نشا.َتِ ثانیہ کا جائزہ یہ حقیقت کو واضح کرتا ہے کہ اس کا اصل مقابلہ عیسائیت سے تھا۔ مذہبی عقائد کو عقل کی کسوٹی پر پرکھنا اور انھیں مشکوک ٹھیرا کر متروک قرار دینا پیشِ نظر تھا۔ مثلاً اگر عقیدۂ آخرت کو عقل کی کسوٹی پر پرکھا جائے تو عقل پہ حکم صادر کرتی ہے کہ آخرت چونکہ کسی حسی تجربے اور مشاہدے میں نہیں آتی لہٰذا اس پر ایمان ایک مشکوک عمل ہے۔ یورپ کی تاجر برادری ان تحریکوں کو آگے بڑھانے میں ہراول دستے کا کردار ادا کر رہی تھی۔ یہ طبقہ اس کا شدید خواہش مند تھا کہ سیاست‘ اخلاقیات اور معاشرے کی مذہبی بنیادوں کو کھوکھلا کردیا جائے۔ ان مقاصد کے حصول کے لیے معاشرے کو تبدیلی کے عمل سے گزارا گیا۔

قدیم معاشرے روایت و اقدار کو اداروں میں بدل دیتے تھے یعنی اداروں کا مقصد روایت و اقدار کی نگہداشت اور پرورش تھا۔ تبدیل شدہ جدید معاشرے نے تبدیلی و تغیر کو   اداروں میں منتقل کردیا یعنی اب اداروں کا مقصد ہر نئی فکر کی ترجمانی و نگہبانی تھا۔ نئی فکر مذہب سے براہِ راست متصادم تھی۔ اس طرح تبدیل شدہ معاشرے کے ادارے مذہب کے خلاف سینہ سپر ہوگئے۔ ان اداروں کے ذریعے مذہبی اقدار کا خواہ وہ کسی شکل میں ہوں‘ ابطال کیا گیا‘ ان کے ساتھ تحقیرآمیز رویہ اختیار کیا گیا اور انھیں عہدِ جاہلیت کی نشانیاں قرار دیا گیا۔ اس سلسلے میں    قدیم و جدید فلسفے اور لادینی سائنس سے بھرپور استفادہ کیا گیا۔ مذہب میں موجود خدا کے تصور کو سرمایہ داری‘ لذت پرستی اور مادیت پرستی سے تبدیل کیا گیا۔ چنانچہ یہی مادیت پرستی و لذت پرستی زندگی کا اصل اصول قرار پائے اور انھی کی بنیاد پر زندگی کے اعمال کو تولا اور پرکھا جانے لگا۔ یہی افکار آگے چل کر استحصالیت اور استعماریت کی شکل میں اجاگر ہوئے۔ چنانچہ امریکا پر قبضے کے دوران لاکھوں سرخ ہندی قتل کردیے گئے یہاں تک کہ ان کے قتل کو جائز قراردیا گیا۔ ان فکری تحریکوں کے نتیجے میں اخلاقی زوال مکمل اباحیت کی صورت میں ظاہر ہوا۔ آزاد معیشت نے  صارف کلچر متعارف کرایا جس کی جدید شکل disposableکلچر ہے یعنی استعمال کریں اور پھینکیں۔ اس طرح لذت پرستی اور تسکین زندگی کا محورو مرکز بن گئی۔

اسی لذت پرستی اور مادیت پرستی کے پھیلائو کے لیے نظام سرمایہ داری کو ایک عالم گیر اصول قرار دے کر پوری دنیا پر اس کے نفاذ کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ یورپ‘ امریکا‘ جاپان‘ آسٹریلیا جہاں جہاں سرمایہ داری پھیلی‘ مذہبی اور اخلاقی ادارے کمزور ہوتے چلے گئے۔ ہرفعل اور ہرعمل مباح ہوتا چلا گیا۔ موجودہ WTO اسی نظام کی جدید شکل ہے جہاں لوگوں کی آمدنی تو بڑھے گی مگر اس شرط کے ساتھ کہ انھیں اپنی مذہبی‘ اخلاقی‘ روحانی‘ سماجی اور خاندانی اقدار کو گروی رکھنا پڑے گا۔

موجودہ سائنسی ارتقا سے پہلے نشا.َتِ ثانیہ کے روپ میں عقلیت و انسانیت کی تحریکیں اپنا کام مکمل کرچکی تھیں‘ لہٰذا سائنس نے مذہبی اعتبار سے ٹوٹتے اوربکھرتے معاشرے میں آنکھ کھولی۔ مذہبی گرفت معاشرے پر کمزورپڑچکی تھی چنانچہ سائنس کی بنیادوں کو لادینیت پر استوار کیا گیا‘ بہ الفاظ دیگر لادینیت سائنس کا جزوِ مشترک نظرآتی ہے۔ شعوری طور پر اس خیال کو راسخ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ یورپ میں سائنسی ارتقا اس صورت میں ممکن ہوا جب یورپ مذہبی جکڑبندیوں سے آزاد ہوگیا۔ یعنی سائنس کی آبیاری کے لیے مذہبی تصورات سے چھٹکارا لازمی ہے۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ سائنس کے دائرے میں صرف انھی افکار کو جگہ دی جاتی ہے کہ جو عقل اور حسی تجربے کی کسوٹی پر پرکھے جاسکیں۔ اس طرح وہ تمام تصورات جو عقل اور حسی تجربے سے ماورا ہوں سائنس کے دائرے میں داخل نہیں ہوتے۔ یہ سائنس کی لادینیت ہی ہے کہ گذشتہ چند صدیوں میں جتنے افراد ہلاک ہوئے پوری معلوم تاریخ میں بھی مجموعی طور پر اتنے افراد ہلاک نہیں ہوئے۔ مذہبی اقدار سائنس کو حدود و قیود کی پابندیوں سے جکڑتی ہیں اور اس بات کو ممکن بناتی ہیں کہ اس دو دھاری تلوار کو انسانیت کی فلاح کے لیے استوار کیا جائے نہ کہ نسل کشی کے لیے۔ مگر لادینی سائنس سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی۔

یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ سائنس کی وہ ہزارہا نعمتیں جو مغربی ملکوں سے ہمارے یہاں درآمد ہوتی ہیں‘ یہ ساری نعمتیں مغرب ہمیں اس لیے نہیں دیتا کہ وہ ہم سے ہمدردی رکھتا ہے یا ہمارا مخلص ساتھی ہے بلکہ اس کے پیچھے نظامِ سرمایہ داری ہے۔ پاکستان کے ۱۵ کروڑ عوام دراصل مغربی کمپنیوں کے ۱۵ کروڑ صارف ہیں جنھیں یہ کمپنیاں اپنا سامان فروخت کرکے کئی گنا نفع حاصل کرتی ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں زائد گندم جلا دی جاتی ہے‘ جب کہ آج بھی کروڑوں افراد  بھوک و افلاس کا شکار ہیں۔ اس صورت حال کے برعکس جب ہم مسلمانوں کے عروج کے ہزارسالہ دور پر نظر ڈالتے ہیں تو وہاںمذہب اور سائنس ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے‘ تعاون کرتے آگے بڑھتے نظرآتے ہیں۔ بہیمیت کی جو داستانیں برطانوی‘ فرانسیسی‘ جرمن‘ روسی اور امریکی استحصالی معاشروں نے قائم کیں‘ مسلم معاشرے میں ایسی مثالیں شاذونادر ہی نظر آئیں گی۔ اس فرق کی بنیادی وجہ مسلم معاشرے میں سائنس کا دینی گھرانے میں آنکھ کھولنا تھا جہاں سائنس کے لیے علم و عمل کا ضابطہ متعین تھا۔

مغرب نے بیش بہا ترقی کرکے انسانی مسائل کو کم کرنے کی مثبت سعی کی ہے۔ نت نئی ایجادات نے زندگی کو سہولیات فراہم کی ہیں۔ شرح آمدنی خاطرخواہ حد تک بڑھ گئی ہے۔ مغربی حکومتوں نے فلاحی ریاست کے تصور کے تحت خوراک‘ تعلیم‘ صحت‘ روزگار جیسی بنیادی ضرورتوں کی فراہمی ممکن بنائی ہے۔ بے شمار بیماریوں کے سدِباب کے لیے تجربہ و تحقیق ہوتی رہتی ہے۔ چاند‘ سورج اور کائنات کی تسخیر کو حقیقت کا روپ دیا گیا ہے مگر سائنسی ارتقا اور موجودہ ترقی کے باطن میں خوشنودی خدا‘ فکرآخرت اور انسانیت کی فلاح و بہبود نہیں‘ بلکہ نظام سرمایہ داری‘ دنیا کے وسائل پر قبضہ‘ عقل کی وحی ربانی پر حاکمیت‘ صارف کلچر‘ مادیت و سیکولر افکار کا پھیلائو اور اخلاقی‘ روحانی و مذہبی اقدار کا خاتمہ ہے۔ جدیدیت‘ سرمایہ داری‘ صارف کلچر اور WTO ماضی بعید کی اسی نشا.َتِ ثانیہ کی تجدید نو ہیں۔ انھی عوامل کے ذریعے مسلم معاشرے میں سیکولر فکر کو آگے بڑھایا جا رہا ہے۔

عقلیت و انسانیت جیسی مذہب کش تحریکوں کورواداری و روشن خیالی جیسے دل کش نعروں کے ذریعے فروغ دیا جا رہا ہے۔ عقل کی بنیاد پر مذہبی عقائد کی سائنسی ضابطوں کے تحت تشریح جدید کی جارہی ہے۔ جہاں ایسا ممکن نہیں وہاں تاویلات کے نام پر پُرفتن خیالات کو مذہبی لبادے میں عوام کے سامنے پیش کیا جا رہا ہے۔کیبل کلچر‘ موبائل کلچر‘ کمپیوٹرائزیشن‘ صنعت کاری اور کریڈٹ کارڈ کے ذریعے مادیت پرستی‘ دنیا پرستی اور لذت پرستی کو تقویت دی جارہی ہے۔ آسایشوں اور سہولتوں کی خواہش اور ان کی تکمیل زندگی کا پہلا اور آخری مقصد قرار دی جارہی ہے۔ زندگی    ایک ہی بار ملتی ہے لہٰذا اسے بھرپور طریقے سے انجوائے کرتے ہوئے گزارنا چاہیے‘ اس طرح  مقصدِ زندگی کو سیکولر طوفان میں نظروںسے اوجھل کیا جا رہا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ جدیدیت کی ان تحریکوں کے پس پردہ پوشیدہ افکار کو سامنے لایا جائے‘ ان تحریکوں کے بنیادی  مقاصد اور مغربی تہذیب کے بنیادی خدوخال میں ان کے کردار کو واضح کیا جائے۔ نشا.َتِ ثانیہ    تحریکِ اصلاحِ مذہب‘ صنعتی انقلاب‘ نظام سرمایہ داری‘ صارف کلچر‘ جدید سائنسی ارتقا اور قدیم و جدید فلسفے کے اغراض و مقاصد اور مغرب پر ان کے اثرات کاعمیق نگاہی سے جائزہ لے کر ان کی  ہیئت و ماہیت کو طشت ازبام کیا جائے۔