۲۰۰۷فروری

فہرست مضامین

عزیمت و استقامت کی ایمان افروز داستان

زکی الطریفی | ۲۰۰۷فروری | دعوت و تحریک

Responsive image Responsive image

ترجمہ: محمد عفان منصورپوری

ایک روسی تاجر الیکٹرانک سامانوںکی تجارت کے عنوان سے روس کی غریب نوجوان لڑکیوں کو ایک عرب ملک میں لایا کرتا تھا اور یہاں آکر انھیں بدکاری کے مذموم پیشے میںلگانے کی کوشش کرتا تھا۔ ایک مرتبہ وہ چند لڑکیوںکو لے کر آیا اور اُن کے سامنے اپنا منصوبہ پیش کیا تو اُن میں سے ایک باغیرت لڑکی نے اس پیش کش کو سختی سے ٹھکرا دیا۔ اس بدفطرت تاجر نے لڑکی کے تیور دیکھ کر اُسے ڈرایا دھمکایا اور یہ کہا کہ اگر تو اس بدعملی پر راضی نہیں ہوتی تو میں اِس اجنبی ملک میں تجھے اکیلا چھوڑدوں گا اور تو گم ہوکر رہ جائے گی۔ لڑکی نے تاجر کے ناپاک ارادوں کو بھانپ لیا اور یہ دھمکی سنتے ہی بڑی برق رفتاری کے ساتھ اُس نے کسی طرح تاجر کے ہاتھ سے اپنا پاسپورٹ چھینا اور دوڑتی ہوئی شاہراہ عام پر آگئی۔ اُس کے پاس سواے ان کپڑوں کے جس سے اُس نے اپنا جسم چھپا رکھا تھا کچھ نہیں تھا۔ اسے اپنے ضائع ہونے کا احساس ستا رہا تھا اور وہ فیصلہ نہیں کر پا رہی تھی کہ کہاں جائے؟

اس کے فلسطینی شوہر نے ہمیں اگلا قصہ اس طرح بتایا: میں اپنی والدہ اور دو بہنوں کے ساتھ اسی راستے کے قریب سے گزر رہا تھا جہاں وہ لڑکی حیران و پریشان کھڑی تھی۔ وہ ہمیں دیکھ کر تیزی سے ہماری طرف لپکی اور جب اسے معلوم ہوا کہ ہم انگریزی میں گفتگو سمجھ سکتے ہیں تو اُس کی باچھیں کھل. ِگئیں اور اُس نے اپنے اُوپر گزری ہوئی داستان سنا ڈالی۔ اُس کی مظلومیت کی داستان سن کر ہم نے اسے پناہ دینے کا ارادہ کرلیا۔ میں نے اس کے گھروالوں سے رابطے کی کوشش کی لیکن ناکام رہا۔ میری بہنوں نے اُس کے ساتھ ایسا اچھا معاملہ کیا کہ گویا وہ ان کی تیسری بہن ہو۔    ہم نے اُس کے سامنے مذہب اسلام کا تعارف اور اس کی خوبیاں بیان کرنی شروع کیں لیکن وہ سختی سے تردید کرتی رہی۔ اسی دوران ہمیں معلوم ہوا کہ وہ ایک ایسے متعصب خاندان سے تعلق رکھتی ہے جو اسلام اور مسلمانوں کو بہت ناپسند کرتا ہے۔ میں نے اس سلسلے میں اپنی بہن کی بھرپور مدد کی۔ بعض موقعوں پرگفتگو میں شریک بھی ہوا۔ پھر ایک دن اُس کے لیے اسلام کے تعارف کے سلسلے میں انگریزی زبان کا ایک رسالہ لے کر آیا۔

اسلامی کتب خانہ کے ذمے دار جو اس قصے کے گواہ ہیں‘ کہتے ہیں: جب یہ آدمی میرے کتب خانے میں آیا تو اُس کے ساتھ چار عورتیں تھیں۔ تین تو اُن میں برقع پوش تھیں لیکن ایک برقع میں نہیں تھی اور اُس کا سر بھی کھلا ہوا تھا۔ میں اُس کا چہرہ دیکھ کر سمجھ گیا کہ یہ کوئی روسی عورت ہے۔ اُس عورت نے اسلام قبول کرنے کی خواہش ظاہر کی تو میں نے اُس سے کہا کہ وہ بعض دینی کتابوں کا پہلے اچھی طرح مطالعہ کرلے۔ اس لیے کہ یہاں کے ذمہ داران اسلام میں داخل ہونے سے پہلے پوچھ گچھ کرتے ہیں۔ بہرحال جو کچھ میں نے اُسے دیا‘ اُس نے پڑھا۔ پھر وہ آدمی کے ساتھ آئی اور امتحان میں کامیاب ہوگئی۔ جب وہ اپنے اسلام کا اعلان کرچکی تو میں نے اس آدمی کو چند عورتوں کا حوالہ دیا کہ اُن میں سے کسی ایک سے اس لڑکی کو قرآن کریم پڑھوا دیا جائے۔

کچھ دنوں کے بعد وہ آدمی مجھ سے ملاقات کے لیے اپنی بیوی کے ساتھ آیا (اب وہ  روسی دوشیزہ اس کی شریکِ حیات بن چکی تھی)۔ وہ بہت خوش تھا اور اس بات پر باری تعالیٰ کا شکرگزار و رطب اللسان تھا کہ ہرچیز اس کے ارادے سے بہتر میسر ہوئی۔ اس مرتبہ اُس عورت کو دیکھ کر جس چیز نے مجھے حیران کردیا وہ یہ تھی کہ اس بار وہ مکمل طور پر برقع میں چھپی  .ُ  ہوئی تھی‘ اپنی ساس اور نندوں سے بھی زیادہ۔ اس کے جسم کا کوئی عضو ظاہر نہیں ہو رہا تھا۔

 اُس کے شوہر نے اس کے برقع اُوڑھنے کی تفصیل مجھے یوں بتائی: شادی کے بعد ہم دونوں بعض ضروری چیزوں کو خریدنے کے لیے بازار گئے۔ وہاں میری بیوی کی نظر ایک ایسی برقع پوش پر پڑی جس کے جسم کا کوئی عضو ظاہر نہیں ہو رہا تھا۔ اُس نے اُس عورت کا سراپا دیکھ کر مجھ سے ازراہِ تعجب سوال کیا‘ یہ اس طرح کیوں اپنے جسم کو چھپائے ہوئے ہے؟ کیا اس میں کوئی عیب ہے؟ میں نے اسے بتایا کہ یہ عورت اپنے عمل سے اللہ رب العزت کی مکمل خوش نودی حاصل کرنا چاہتی ہے۔ اُس وقت میری بیوی نے مجھے بتایا کہ میں جب بھی کسی بازار میں داخل ہوتی ہوں تو لوگ اس طرح ٹکٹکی باندھ کر مجھے دیکھتے ہیں کہ ڈر محسوس ہونے لگتا ہے۔ اُس نے کہا: اس کا مطلب یہ ہے کہ میرا چہرہ فتنوں کو وجود بخشتا ہے اس لیے اس کو ڈھانپنا ضروری ہے۔ صرف میرا شوہر میرا چہرہ دیکھ سکتا ہے۔ اب میں اس بازار سے بغیر برقع لیے نہیں جائوں گی۔چنانچہ برقع خریدا گیا اور اس نے فوراً پہن لیا۔

چند ماہ کے بعد وہ دونوں غائب ہوگئے۔ لوگ ایک دوسرے سے اُس فلسطینی اور اُس کی بیوی کے بارے میں پوچھنے لگے کہ اُن دونوں کاکیا ہوا؟ وہ کہاں چلے گئے؟ اُن کے بارے میں کچھ معلومات نہ ہوسکیں۔ یہاں تک کہ چھے یا سات ماہ کے بعد ایک دن وہ آدمی دکھائی دیا اور اُس نے اپنی داستان سنائی: میری بیوی کے پاسپورٹ کی مدت ختم ہوگئی تھی۔ اس کے لیے ضروری تھا کہ جہاں سے پاسپورٹ بنا ہے وہیںسے تجدید کروائی جائے۔ اس نے باپردہ سفر کا ارادہ کیا۔ میںنے اُسے ڈرایابھی کہ اس طرح برقع پہن کر سفر کرنے میںبڑی مشکلات اور دشواریاں برداشت کرنی پڑیں گی۔ اُس نے شدت کے ساتھ اس تجویز کو مسترد کردیا اور جہنم کا ایندھن بننے والے گنہگار کافروں کے سامنے سر جھکانے پر راضی نہ ہوئی۔ وہ تو صرف اللہ کے لیے سر جھکا سکتی تھی۔

جب ہم ہوائی جہاز میں داخل ہوئے تو لوگوں نے ہمیں گھور گھور کر دیکھا۔ پھر ایئرہوسٹس نے کھانا اوراس کے ساتھ شراب تقسیم کی جس کا مسافروں پر فوری اثر ہوا۔ وہ لوگ ہمارا مذاق اُڑانے لگے۔ زور زور سے ٹھٹھے لگانے لگے۔ لیکن میری بیوی اُن کی پروا کیے بغیر زیر لب مسکراتی رہی بلکہ وہ تو اِن کی باتوں کا ترجمہ کرکے مجھے بتا رہی تھی۔ میرے دل میں تو تیر چبھ رہے تھے لیکن اُس نے مجھے تسلی دیتے ہوئے کہا کہ: ’’یہ طعنے جو ہم سن رہے ہیں‘ ان مشقتوں کے سامنے جو حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اٹھائی ہیں کوئی حیثیت نہیں رکھتے‘‘۔

ہوائی جہاز ہمیں لے کر اُس شہر میں اُتر گیاجہاں ہمیں جانا تھا۔ میں تو یہ سمجھ رہا تھا کہ ہم سیدھے بیوی کے گھر جائیں گے اور جب تک کام نہ ہوجائے وہیں ٹھیریں گے۔ لیکن میری بیوی کے سوچنے کا انداز دوسرا تھا۔ اُس نے کہا : ’’میراخاندان انتہائی متعصب ہے۔ میں ابھی ان کے پاس نہیں جانا چاہتی ہوں۔ پہلے ہم ایک کمرہ کرایے پر لے کر اُس میں رہیں گے۔ پھر نیا پاسپورٹ لینے کی کارروائی پوری کریں گے۔ پھر اپنے گھر والوں سے ملاقات کے لیے جائیں گے‘ یہ ہمارا پروگرام ہے‘‘۔ اگلے دن ہم پاسپورٹ آفس آگئے۔ ذمہ دار افسر نے ہم سے پرانا پاسپورٹ اور تصویر مانگی۔میری بیوی نے اُسے وہ تصویر دی جس میں صرف اُس کا چہرہ ظاہر ہو رہا تھا اور بقیہ اعضا چھپے ہوئے تھے۔ افسر نے دوسری تصویر مانگی جس میں اس کا چہرہ‘ گردن اور بال وغیرہ دکھائی دے رہے ہوں۔ میری بیوی نے اُس کی بات نہیں مانی۔ اس پر ہمیں ایک افسر دوسرے کے پاس بھیجتا رہا۔ یہاں تک کہ ہم چیف افسر کے سامنے پہنچ گئے۔ وہ ایک عورت تھی جو ہم سے بڑی بدخلقی کے ساتھ پیش آئی۔ اُس نے کہا: ’’تمھاری اس مشکل کو ماسکو دفتر میں بیٹھے ہوئے سکریٹری جنرل کے علاوہ کوئی نہیں حل کرسکتا‘‘۔ میری بیوی نے فوراً میری طرف متوجہ ہوکر کہا: ’’چلیے ہم ماسکو چلتے ہیں‘‘۔ میں نے اُسے مطمئن کرنے کی کوشش کی کہ تمھاری تصویر چند ملازمین ہی تو دیکھیں گے۔ اس لیے تمھارا یہ کام مجھے زائد از ضرورت لگ رہا ہے۔ پھر تمھارے اس پاسپورٹ کو اگلی مدت سے پہلے کون دیکھے گا؟ اُس نے مجھے جواب دیا: ’’یہ بات محال اور ناممکن ہے کہ میں تصویر میں اپنے سر کو  کھلا رکھوں‘ جب کہ میں اللہ کے دین کے بارے میں جانتی ہوں۔ اگر آپ میرے ساتھ نہیں جانا چاہتے تو میں تنہا چلی جائوں گی تاکہ اپنی وسعت کے بقدر قانونِ اسلامی کے دائرے میں رہ کر کام کرسکوں‘‘۔

ہم ماسکو چلے گئے۔ وہاں بھی ہمارے ساتھ وہی چیز پیش آئی جو اب تک پیش آرہی تھی۔ یہاں کا ذمہ دار بھی بہت بُرا آدمی تھا۔ اُس نے میری بیوی سے پوچھا کہ ’’میرے سامنے کون اِس بات کو ثابت کرسکتا ہے کہ یہ تمھاری تصویر ہے؟‘‘۔ اُس نے بھی یہی کہا کہ وہ اُس کے سامنے اپنا چہرہ اور سر کھولے لیکن میری بیوی نے اصرار کیا کہ وہ یہ کام صرف کسی عورت ملازمہ کے سامنے کرسکتی ہے ۔ یہ سن کر اُس کا غصّہ بھڑک گیا۔ اُس نے پاسپورٹ اور تصویر کو اپنی دراز میں بند کرلیا اور کہا کہ جب تک تم ہماری مطلوبہ تصویر پیش نہیںکردیتیں‘ نہ ہم تمھارا پرانا پاسپورٹ واپس کریں گے اور نہ نیا جاری کریں گے۔ میں نے پھر بیوی کو مطمئن کرنے کی کوشش کی لیکن کوئی فائدہ نہ ہوا۔ میں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ طاقت کے بقدر ہی انسان کو مکلف بناتے ہیں۔ اُس نے مجھے جواب دیا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے:

وَمَنْ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّہٗ مَخْرَجًا o وَّیَرْزُقْہُ مِنْ حَیْثُ لاَ یَحْتَسِبُ ط وَمَنْ یَّتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ فَھُوَ حَسْبُہٗ ط  اِنَّ اللّٰہَ بَالِغُ اَمْرِہٖ ط  قَدْ جَعَلَ اللّٰہُ لِکُلِّ شَیْئٍ قَدْرًا o (الطلاق ۶۵:۲-۳) جو کوئی اللہ سے ڈرتے ہوئے کام کرے گا‘ اللہ اس کے لیے مشکلات سے نکلنے کا کوئی راستہ پیدا کردے گا اور اسے ایسے راستے سے رزق دے گا جدھر اس کا گمان بھی نہ جاتا ہو۔ جواللہ پر بھروسا کرے اس کے لیے وہ کافی ہے۔ اللہ اپنا کام پورا کرکے رہتا ہے۔ اللہ نے ہر چیز کے لیے ایک تقدیر مقرر کر رکھی ہے۔

افسر کھڑا ہوا اور ہمیں دفتر سے باہر نکال دیا۔ بیوی سے اِسی موضوع پر بات چیت چلتی رہی۔ ہم میں سے ہر ایک اپنا نقطۂ نظر پیش کرتا اور دوسرے کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتا یہاں تک کہ رات ہوگئی۔ ہم نے کچھ کھانا کھایا‘ پھر میں سونے کے ارادے سے لیٹ گیا۔ لیکن میری بیوی نے مجھے یہ کہتے ہوئے اُٹھا دیا کہ ’’اے میرے پیارے شوہر! ہم اِس وقت اس حالت میں ہیں کہ ہمیں اللہ کی طرف نماز اور دُعا کے ذریعے متوجہ ہونا چاہیے‘ اس لیے اُٹھ جائو‘‘۔ میں اُٹھ گیا اور جتنا ہوسکا نماز پڑھی‘ پھر لیٹ گیا۔ لیکن وہ اللہ کی بندی پوری رات عبادت میں مشغول رہی یہاں تک کہ مجھے فجر کی نماز پڑھنے کے لیے بیدار کیا۔

اس کے بعد اُس نے پاسپورٹ آفس بات کی اور مجھ سے کہا: چلیے۔ میں نے کہا: تصویر کا کیا ہوگا؟ اُس نے کہا چل کر دیکھتے ہیں۔ اللہ کی رحمت سے نااُمید مت ہو۔ ہم لوگ چلے گئے۔ ابھی ہم دفتر میں داخل ہی ہوئے تھے کہ ملازم نے ہمیں آواز دی اور میری بیوی کے بارے میں پوچھا۔ کیا یہ فلاں نام کی عورت ہے؟ اُس نے اثبات میں سرہلایا۔ملازم نے کہا: لو یہ تمھارا پاسپورٹ ہے‘ کل رات سے تیار رکھا ہے۔ پاسپورٹ مکمل تھا جیسا کہ وہ چاہتی تھی۔ ہم نے فیس دی اور پاسپورٹ وصول کرلیا۔ نکلتے ہوئے اُس نے مجھ سے کہا کہ میں آپ سے نہیں کہتی تھی کہ جو تقویٰ اختیار کرتا ہے اللہ اس کے لیے راہ نکالتا ہے۔ ان الفاظ نے میرے دل پر گہرا اثر چھوڑا۔ میری زندگی میں اس طرح کا واقعہ پہلے کبھی پیش نہیں آیا تھا۔

ملازم نے ہم سے یہ بھی کہا تھا کہ پاسپورٹ کی تصدیق اس شہر سے کرانی ہوگی جو میری بیوی کی جاے پیدایش ہے۔ ہم نے گھروالوں سے ملاقات کے لیے یہ موقع غنیمت جانا۔ ہم نے وہاں پہنچ کر ایک کمرہ کرایے پر لیا‘ پھر پاسپورٹ کی تصدیق کروائی‘ پھر بیوی کے گھر والوں سے ملنے کے لیے گئے۔

جب بیوی کے بھائی نے دروازہ کھولا تو وہ اپنی بہن کو دیکھ کر بڑا خوش ہوا‘ لیکن ساتھ ساتھ اُس کو برقع میں ملبوس دیکھ کر متحیر بھی ہوا۔ میری بیوی ہنستی ہوئی اور اپنے بھائی سے معانقہ کرتی ہوئی داخل ہوئی۔ میں بھی اُس کے پیچھے پیچھے گھر میں داخل ہوگیا۔ پھر وہ دونوں بہن بھائی ایک دوسرے کمرے میں چلے گئے۔ گھر بالکل سادہ تھا اور فقروفاقے کے آثار نمایاں تھے۔

وہ سب لوگ دوسرے کمرے میں روسی زبان میں بات چیت کر رہے تھے۔ جو کچھ کہا جا رہا تھا وہ میری سمجھ سے بالاتر تھا لیکن مجھے یہ احساس ہوا کہ آوازیں بلند ہو رہی ہیں۔ پھر میں نے اس کمرے میں ایک زوردار چیخ سنی۔ یکایک تین نوجوان اور اُن کے ساتھ ایک عمررسیدہ آدمی مارنے کے لیے مجھ پر ٹوٹ پڑے۔ بجاے اس کے کہ داماد ہونے کی وجہ سے وہ میرا استقبال کرتے‘ انھوں نے میری اتنی پٹائی کی کہ میں یہ سوچنے لگا کہ شاید یہ میری زندگی کے آخری لمحات ہیں اور میرے لیے سواے اس کے کوئی راستہ نہیں تھا کہ میں بھاگ جائوں۔ میں نے دروازہ کھولا اور دوڑتا ہوا سڑک پر آگیا۔ وہ لوگ میرا پیچھا کر رہے تھے یہاں تک کہ میں پیدل چلنے والے لوگوں میں شا مل ہوگیا اور اُن کی آنکھوں سے اوجھل ہوگیا۔ میں جہاں ٹھیرا ہوا تھا وہاں چلا گیا۔ یہ جگہ میرے سسرال سے دُور نہیں تھی۔ میری پیشانی اور ناک پر پٹائی کے اثرات واضح تھے۔ منہ سے مستقل خون جاری تھا اور کپڑے پھٹ چکے تھے۔ میں نے دل ہی دل میں سوچا: میں تو بچ گیا لیکن میری بیوی کااب کیا حال ہوگا؟ میں تو اب اُس کے بغیر نہیں رہ سکتا۔ میں تو اسے بہت چاہتا ہوں‘ ہوسکتا ہے کہ ختم ہوگئی ہو؟ ہوسکتا ہے مجھے چھوڑ دے؟ ہوسکتاہے کہ اسلام سے مرتد ہوجائے؟ یقینا شیطان اس موقع پر بڑے وسوسے پیدا کر رہا ہوگا۔ افکاروخیالات میرے دماغ میں گردش کرتے رہے یہاں تک کہ میں سمجھنے لگاکہ میری بیوی مجھ سے جدا ہوگئی۔

اب میں کیا کروں؟ کیا بیوی کے گھر جائوں؟ لیکن یہ تو محال ہے اس لیے کہ اِن ممالک میں انسانی زندگی کی کوئی قیمت نہیں۔ ہوسکتا ہے کہ یہ لوگ کسی کرایے کے آدمی کو کچھ رقم دے کر مجھے قتل کروا دیں۔ اس لیے کمرے میں رہنا ہی ضروری ہے۔ پوری رات میں اسی طرح کے افکاروپریشان خیالات میںمبتلا رہا۔ صبح کو میں نے کپڑے بدلے اور کمرے سے باہر نکلا تاکہ بیوی کے کچھ حال و احوال معلوم ہوسکیں۔ دُور سے کھڑا ہوکر اس کے گھر کو دیکھتا رہا۔ تھوڑی دیر بعد گھر سے وہی چار آدمی نکلے۔ تین نوجوان اور ایک عمررسیدہ‘ جنھوں نے میری پٹائی کی تھی۔ دروازہ بند ہونے سے پہلے میں نے اپنی بیوی کو دیکھنے کی کوشش کی لیکن اُس پر نظر نہ پڑسکی۔ کچھ دیر بعد یہ لوگ واپس آگئے اور میں سڑک پر گھنٹوں بے فائدہ ٹہلتا رہا۔ تین دن اسی طرح گزر گئے۔ اب میری اُمید دم توڑ رہی تھی اور میں دل ہی دل میں یہ سوچنے لگا کہ یا تو میری بیوی مجھے ناپسند کرنے لگی ہے یا اُسے مارڈالا گیا ہے۔ لیکن اُس کی موت پر یقین اس وجہ سے نہیں ہو رہا تھا کہ اگر وہ مرجاتی تو اُس کے گھر میں خلاف معمول چیزیں دیکھنے کو ضرور ملتیں‘ مثلاً تعزیت کرنے والے اعزہ و اقربا کا آنا جانا اور دیگر لوازمات۔ لیکن یہ سب کچھ نہیں تھا‘ اس لیے میں نے سمجھ لیا کہ وہ ابھی زندہ ہے۔

چوتھے دن جب وہ چاروں آدمی اپنے کاموں پر نکل گئے تو گھر کا دروازہ کھلا اور میری بیوی اپنے دائیں بائیں کسی کی تلاش و جستجو کرتے ہوئے دکھائی دی۔ اُس کا چہرہ پوری طرح سرخ اور خون آلود تھا۔ جب میں اس کے قریب گیا تو اُسے دیکھ کر میرے حواس باختہ ہوگئے۔ ایک پرانے معمولی کپڑے سے اُس نے اپنا جسم ڈھانپ رکھا تھا۔ ہاتھ اور پیر میں بیڑیاں پڑی ہوئی تھیں۔ میںنے بڑی ہمدردی کے ساتھ اور ترس کھاتے ہوئے اُسے دیکھا اور میں اپنے آپ پر قابو نہ رکھ سکا‘ یہاں تک کہ میں رونے لگا۔

اُس نے مجھے سمجھایا اور کہا: ’’میرے پیارے‘ شوہر تین باتیں غور سے سنو: میرے احوال دیکھ کر پریشان مت ہو۔ اس لیے کہ میں اب تک اپنے اسلام پر باقی ہوں اور خدا کی قسم! اس وقت جو تکالیف میں جھیل رہی ہوں یہ اُن مشقتوں کے مقابلے میں جو نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والسلام‘ آپؐ کے صحابہ کرامؓ اور اُن سے پہلے ایمان والوں نے برداشت کی ہیں‘ بال کے برابر بھی حیثیت نہیں رکھتیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ میرے اور میرے گھروالوں کے درمیان تم دخل مت دو۔ تیسری بات یہ ہے کہ اپنی قیام گاہ پر میرا انتظار کرتے رہو۔ اگر اللہ نے چاہا تو میں وہیں تم سے ملوں گی۔   رحمت ِ خداوندی کے طالب رہو اور جتنا ہوسکے رات کے آخری حصے میں جو قبولیت دُعا کے بہترین لمحات ہیں‘ دُعا کرتے رہو‘‘۔

میں اپنے کمرے میں واپس آگیا۔ ایک دن گزرا‘ دوسرا دن گزرا‘ تیسرا دن گزرنے کے قریب تھا کہ کسی نے میرے کمرے کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ میری بیوی نے پُرسکون لہجے میں کہا کہ میں ہوں‘ دروازہ کھولو۔ میں نے جیسے ہی دروازہ کھولا تو اُس نے کہا کہ ہمیں یہاں سے فوراً چلنا چاہیے۔ اُس نے اپنا برقع اُوڑھا جو احتیاطاً وہ اپنے تھیلے میں رکھے رہتی تھی۔ پھر ہم باہر نکلے اور ایک ٹیکسی کو روکا۔ میں نے ڈرائیور سے کہا کہ ایرپورٹ جانا ہے۔ روسی زبان کا یہ لفظ میں نے سیکھ لیا تھا لیکن میری بیوی نے کہا ہم اس شہر کے ایرپورٹ پر نہیں جائیں گے‘ اس لیے کہ گھروالے ہمیں یہاں تلاش کرلیں گے۔ لہٰذا ہمیں کئی شہر عبور کر کے دُور چلے جانا چاہیے۔ اس طرح ہم پانچ شہروں کو پار کرکے ایک ایسے شہر میں پہنچ گئے جہاں ایرپورٹ تھا۔ بہرحال ہم ایرپورٹ پہنچے‘ ٹکٹ خریدے لیکن معلوم ہوا کہ پرواز میں تاخیر ہے۔ اس لیے ایک کمرہ کرایے پر لے لیا تاکہ کچھ آرام کیا جاسکے۔

میں نے اپنی بیوی کے جسم میں کوئی ایسی جگہ تلاش کرنی چاہی جو زخمی اور خون آلود نہ ہو‘ لیکن میں تلاش نہ کرسکا۔ پھر اُس نے اپنے اُوپر بیتی ہوئی داستان مجھے یوں سنائی: سب سے پہلے میرے والد اور تینوں بھائیوں نے لباس کے متعلق دریافت کیا۔ میں نے جواب دیا کہ یہ اسلامی لباس ہے‘ اس لیے کہ میں مسلمان ہوچکی ہوں اور یہ میرے شوہر ہیں جن کے ساتھ میں آئی ہوں۔ شروع میں انھوں نے میری بات پر یقین نہیں کیا۔ پھر میں نے تفصیل کے ساتھ اُن کو پورا واقعہ سنایا اور بتایا کہ کس طرح مجھے اُس تاجر نے رذیل ترین کام پر مجبور کرنا چاہا۔ میری باتیں سن کر اُن سب نے بیک زبان کہا: ’’اگر تو اپنی عزت کو نیلام کردیتی تویہ چیز ہمیں اسلام قبول کرنے کے مقابلے میں قابلِ قبول ہوتی۔ اب جان لے کہ تو اس گھر سے یا تو اپنا مذہب قبول کر کے نکلے گی یا مر کے‘ دوسرا کوئی راستہ نہیں‘‘۔ پھر وہ مجھے باندھنے لگے اور اس حال میں انھوں نے مجھ پر جس طرح ظلم و زیادتی کی‘ تم سن رہے تھے۔ پھر اس کے بعد بھی وہ باری باری میرے پاس آتے اور کوڑے مارتے۔ یہاں تک کہ اُن کے سونے کا وقت ہوجاتا۔ صبح کے وقت گھر پر میری ماں اور ۱۵ سالہ بہن ہوتیں۔ میں اُس رات نہیں سوسکی۔ یہاں تک کہ مجھ پر بے ہوشی طاری ہوگئی۔ پھر قریب تھا کہ میں ہوش میں آجاتی۔ انھوں نے دوبارہ مجھ پر کوڑے مارنے شروع کیے تاآنکہ میں پھربے ہوش ہو گئی۔ اِن حالات میں جب بھی وہ مجھ سے مذہب اسلام کو ترک کرنے کا مطالبہ کرتے‘ میں مسترد کردیتی۔

پھر میری بہن میرے پاس آئی اور پوچھا کہ آپ نے ہمارے اور ہمارے آبا و اجداد کے مذہب کو کیوں چھوڑ دیا؟ میں نے اُس کو اِس کا جواب دیا اور حتی المقدور اس کی وضاحت کی۔ پھر جب اُس نے اسلام کو سمجھنا شروع کیا اور وہ تمام جھوٹی بنیادیں جس پر وہ ایمان رکھتی تھی‘ واضح ہونا شروع ہوگئیں تو اُس نے مجھ سے کہا: ’’آپ ہی حق پر ہیں۔ یہی وہ دین ہے جس کی اتباع مجھ پر بھی ضروری ہے‘‘۔ اُس نے مجھے اپنے تعاون کی پیش کش کی۔ میں نے اُس سے کہا کہ وہ میرے شوہر سے میری ملاقات کرا دے۔ اُس نے میرے شوہر کو راستے میں چلتے ہوئے دیکھا تھا اورمجھے خبر بھی کی تھی۔ اُس نے میری زنجیر کھول دی۔ پھر دروازہ بھی کھول دیا تاکہ میں شوہر سے بات کرسکوں۔   اس سے زیادہ مدد کرنے پر وہ قادر بھی نہ تھی۔ اس لیے کہ میں تین زنجیروں میں جکڑی ہوئی تھی۔ ایک زنجیر سے میرے ہاتھ‘ دوسری سے پیر اور تیسری سے مجھے ایک ستون سے باندھ رکھا تھا۔ میری بہن کے پاس تیسری زنجیر ہی کی کنجی تھی جس کوحاجت ِ بشری کو پورا کرنے کے وقت وہ کھول دیتی تھی۔

تیسرے دن میری بہن بھی مذہب اسلام میں داخل ہوگئی اور اُس نے یہ عزم کیا کہ وہ مجھے اِن سختیوں سے نجات دلائے گی چاہے اُسے اپنی جان کی قربانی پیش کرنی پڑے۔ بقیہ دونوں زنجیروں کی کنجیاں میرے ایک بھائی کے پاس تھیں۔ ایک دن میری بہن نے والد اور بھائیوں کے سامنے بڑی نشہ آور شراب پیش کی۔ وہ لوگ پیتے ہی مدہوش ہوگئے۔ بہن نے جلدی سے بھائی کی جیب سے کنجی نکالی اور مجھے کھول دیا۔ میں جلدی سے تمھارے پاس آگئی لیکن میں نے اپنی بہن سے یہ کہا کہ وہ اپنے اسلام کو ابھی ظاہر نہ کرے بلکہ مخفی رکھے یہاں تک کہ ہم دیکھ لیں کہ ہم اس کی کیا مدد کرسکتے ہیں۔

شوہر نے یہ کہتے ہوئے قصہ ختم کیا: جب ہم اپنے شہر واپس ہوئے تو سب سے پہلے بیوی کو ہسپتال میں داخل کیا۔ وہ کافی دنوں ہسپتال میں زیرعلاج رہی۔ یہاں تک کہ اسے صحت نصیب ہوئی اور اس کے جسم سے ظلم وستم کے آثار ختم ہوگئے۔ (الرابطہ‘ شمارہ ۴۸۱‘ جمادی الاخریٰ‘ ۱۴۲۷ھ)