شرق اوسط عرب محاورے کے مطابق کسی طاقت ور‘ دیوانے دیو کی ہتھیلی پہ رکھا ہے۔ عراق میں لاکھوں افراد خانہ جنگی کی نذر ہوچکے ہیں اور اس سے زیادہ مہلک اور وسیع تر خون ریزی کی تیاریاں ہیں۔ فلسطین میں صہیونی درندوں کے ہاتھوں نصف صدی سے جاری قتلِ عام سنگین سے سنگین تر ہو نامعلوم حقیقت تھی‘ لیکن اب خود فلسطینی ہاتھ اپنے سینے چھلنی کر رہے ہیں۔ لبنانی چٹانوں پر صہیونی جارحیت سر پٹخ کر رہ گئی تھی‘ لیکن اب خود لبنانی عوام دو واضح اور برسرپیکار گروہوں میں بٹ کر رہ گئے ہیں۔ سوڈان کے خلاف ہر بیرونی حملہ ناکام ہوا‘ جنوبی علیحدگی پسندوں کی کئی عشروں پر پھیلی بغاوت بالآخر معاہدہ کرنے پر مجبور ہوئی لیکن اب دارفور میں لاکھوں ابناے سوڈان باہم مخاصمت اور ملک بدری کی نذر ہوچکے ہیں۔ امریکا اس انسانی المیے کا فائدہ اُٹھا کر علاقے میں اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لیے سوڈان پر فوج کشی کے لیے پر تول رہا ہے۔ صومالیہ میں عشروں پر محیط خانہ جنگی کے بعد اسلامی عدالتوں کے نام سے ایک نظام نے انتظام سنبھالا‘ وسائل اور تجربے سے تہی دامنی کے باوجود‘ عوامی تائید کے ذریعے امن و امان کی نئی تاریخ رقم کی۔ اگر ان کی حکومت باقی رہتی تو شاید پورا صومالیہ بلکہ پورا علاقہ ان کے دائرۂ اثر میں آجاتا‘ لیکن ایتھوپیا کے ذریعے فوج کشی کروا دی گئی۔ پھر امریکی افواج نے خود بم باری کردی اور صومالیہ ایک نئے دورِقتال و جدال میں داخل ہوگیا۔
عسکری و سیاسی کے علاوہ تہذیبی و تعلیمی یلغار بھی اپنے عروج پر ہے۔ دہشت گردی کے خلاف نقشہ جنگ تیار کرتے ہوئے امریکا نے نئے شرق اوسط کا دائرہ پورے عالمِ اسلامی تک پھیلا دیا ہے۔ اب اقصاے افریقہ میں واقع مراکش اور موریتانیا پر بھی شرق اوسط کا فارمولا لاگو ہوتا ہے‘ بنگلہ دیش و ملایشیا میں بھی اسی کا جادو چلتا ہے۔ روشن خیالی کو اس وسیع تر شرق اوسط کا عنوانِ حیات بنایا جارہا ہے۔ اب مراکش میں بھی قانون سازی کرکے مساجد کی تعمیر مشکل تر بنائی جارہی ہے اور تیونس میں بھی سر پہ اسکارف اوڑھنا دقیانوسیت‘ قانون کی خلاف ورزی اور جرم قرار دے دیا گیا ہے۔ اُردن میں کسی خطیب کو سرکاری خطبے کے علاوہ خطبۂ جمعہ دینے سے منع کردیا گیا ہے۔ انھیںپابند کردیا گیا ہے کہ وہ سیاہ پتلون‘ سفیدشرٹ اور سرپہ رومال کے علاوہ کوئی لباس نہ پہنیں۔ ترکی کو تجویز دی گئی ہے کہ وہ اس قرآنی آیت پر پابندی لگادے جس میں کہا گیا ہے کہ اللہ کے نزدیک اصل دین صرف اسلام ہی ہے۔ اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَاللّٰہِ الْاِسْلَام کیونکہ اس سے ان کے بقول غیرمسلموں کی دل آزاری اور ان کے دین کی توہین ہوتی ہے۔ میراتھن دوڑ اور بسنت کے نام سے برپا خرافات‘ صرف پاکستان ہی نہیں ہراسلامی ملک میں کسی نہ کسی میلے‘ جشن کے نام پر یا کھلم کھلا جسم فروشی اور مادرپدر آزادی کی صورت میں فرض قرار دے دی گئی ہیں۔
تقریباً ہر اسلامی ملک اسی دوڑ اور فکر میں مبتلا ہے کہ وہ کسی طرح دوسرے مسلم ممالک سے زیادہ تعلیمی ’اصلاحات‘ کا اعزاز حاصل کرلے۔ ان ’اصلاحات‘ کا لازمی حصہ آیات و احادیث کا حذف کرنا یا ان کی من پسند تعبیر کرنا اور جہاد و دعوت کی تعلیمات کے بجاے جنسی آوارگی کی جانب لے جانے والا لوازمہ شامل کرنا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ یہ ڈھنڈورا بھی مسلسل پیٹا جا رہا ہے کہ امریکا نے اس پورے خطے میں معاشی ترقی اور جمہوری روایات کی ترویج یقینی بنا دی ہے۔ معاشی ترقی کا ثبوت دیتے ہوئے خوش نما اعداد و شمار‘ اربوں ڈالر کی امریکی امداد‘ بے پناہ سرمایہ کاری اور زرمبادلہ کے انباروںکا حوالہ دیا جاتا ہے‘ لیکن ان سب دعووں کے اثرات ہرجگہ بڑھتی ہوئی مہنگائی‘ بے روزگاری اور فقر کے باعث کفر یا پھر خودکشی کی صورت میں ہی سامنے آرہے ہیں۔
رہی جمہوریت تو اس کی اصل تصویر عراق‘ فلسطین اور صومالیہ میں پیش کی جارہی ہے۔ خود امریکی ذرائع ابلاغ دہائی دے رہے ہیں کہ جمہوریت کے نام پر یہ خون ریزی بند کی جائے۔ ۱۷جنوری کا نیویارک ٹائمز ایک روز پہلے اقوام متحدہ کے جاری کردہ اعدادو شمار پیش کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ’’صرف ۲۰۰۶ء میں ۳۴ہزار عراقی شہریوں کا قتلِ عام امریکی منصوبے کی مکمل ناکامی و شکست کا اعلان ہے‘‘۔ یہ اعداد و شمار بھی صرف وہ ہیں جو ہسپتالوں کے ریکارڈ سے لیے گئے‘ وگرنہ صرف ایک سال میں ایک لاکھ سے زائد بے گناہ‘ امریکی جمہوریت کی بھینٹ چڑھا دیے گئے ہیں۔ اب تک امریکی بم باری‘ فائرنگ اور دہشت گردی کی مختلف کارروائیوں میں ساڑھے چھے لاکھ سے زائد جانوں کا ضیاع صرف عراق میں ہوچکا ہے۔ بظاہر تو امریکا بھی اس قتلِ عام اور خانہ جنگی پر تشویش کا اظہار کر رہا ہے۔ قومی اجماع کی حیثیت رکھنے والی بیکر ہملٹن رپورٹ بھی اس کا اعتراف کرتے ہوئے وہاں سے افواج کے انخلا پر زور دیتی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ ساری خون ریزی منصوبے کے عین مطابق ہی ہو رہی ہے۔
آغازکار میں پورے فلوجہ کو ملیامیٹ کر دینے جیسی دسیوں کارروائیوں کے باوجود عراقی مزاحمت کا مقابلہ نہ کرسکنے کے بعد‘ امریکا کی پالیسی کا عنوان ہے: ’’لڑائو اور قبضہ کرو‘‘۔ اس امریکی سوچ اور پالیسی کی نشان دہی بہت سی دستاویزات کر رہی ہیں۔ عراق کے پہلے امریکی حکمران پال بریمر کی یادداشتیں بھی اہم ہیں‘ افغانستان اور پھر عراق میں متعین امریکی سفیر زلمے خلیل زاد کی سرگرمیاں اور بیانات ایک کھلی کتاب ہیں۔ لیکن ہم یہاں صرف ایک امریکی عسکری دانش ور کے خیالات کا مختصر جائزہ لیتے ہیں۔ جیمز کرتھ (James Kurth) متعدد امریکی عسکری تعلیمی اداروں میں دفاعی پالیسی‘ خارجہ پالیسی اور عالمی سیاسیات کی تعلیم دیتے ہیں۔ The Real Clash (حقیقی تصادم) کے عنوان سے شائع اس مقالے میں انھوں نے توجہ دلائی تھی کہ تہذیبوں کے تصادم سے زیادہ اہم امر یہ ہے کہ خود امریکی معاشرہ باہم متصادم ہونے والا ہے۔ ایک طرف مغربی تہذیب اور امریکی نسل پرستی پر ایمان رکھنے والے لوگ ہوں گے اور دوسری طرف کثیرثقافتی دنیا پر یقین رکھنے والے گروہ۔ گویا فکرمندی یہ تھی کہ امریکی معاشرے سے کسی بھی ممکنہ باہمی اختلاف کا خاتمہ کیسے ہو۔ امریکی معاشرے کی باہمی یک جہتی اور یک سوئی کے لیے فکرمند جناب جیمز نے ستمبر۲۰۰۵ء میں امریکی رسالے The American Conservative میں ایک اور اہم مقالہ لکھا۔ عنوان تھا: Splitting Islam(اسلام کے ٹکڑے کرنا)۔ ذیلی عنوان تھا: ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ جیتنے کے لیے شیعہ سنی حکمت عملی‘‘۔ امریکی فوجیوں کے قتل‘ عراقی تحریک مزاحمت میں شدت‘ دہشت گرد تنظیموں کے لیے بڑھتی ہوئی ہمدردی اور امریکا کو درپیش عالمی اسلامی خطرے کا ذکر کرتے ہوئے وہ پوچھتے ہیںکہ ’’مرکزی سوال یہ ہے کہ ہمارے لیے راہِ نجات کیا ہے؟‘‘ اس سوال کے جو جوابات مختلف امریکی ذمہ داران یا سیاسی و عسکری حلقوں نے دیے ہیں وہ ان کا حوالہ دیتے ہیں۔ اس ضمن میں وہ خاص طور پر بش انتظامیہ کی راے ان الفاظ میں پیش کرتے ہیں:
وہ صرف امریکا کی خارجہ پالیسی میں تبدیلی لانا نہیں چاہتے تھے‘ بلکہ عمومی طور پر مسلم دنیا بالخصوص شرق اوسط کی ثقافت تبدیل کرنا چاہتے تھے۔ وہ اس دلدل کو خشک کر دینا چاہتے تھے جو اسلامی دہشت گردوں کی تقویت کا باعث تھا۔
لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ یہ تمام پالیسیاں ناکام ہیں اور ناکام رہیں گی۔ پھر وہ اپنا حل پیش کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اسے شاید ایک قدیم طریق تفکیرکہا جائے‘ لیکن راستہ وہی ہے جو ہم نے سردجنگ میں سوویت یونین اور چین کے مقابلے میں اختیار کیا۔ امریکا نے نصف صدی قبل عالمی کمیونسٹ تحریک کے عالمی نظریاتی خطرے کا مقابلہ اسی طرح کیا کہ ان دو بڑی طاقتوں کو تقسیم کیے رکھا۔ اب وقت آگیا ہے کہ عالمی اسلامی تحریک بیداری و مزاحمت کا مقابلہ کرنے کے لیے بھی تقسیم کی یہی پالیسی اختیار کی جائے۔ اس کی وضاحت وہ یوں کرتے ہیں:
تقسیم کرنے کی حکمت عملیاں مسلم دنیا میں پہلے سے موجود اختلافات کو ہوا دینے پر مبنی ہیں۔ خاص طور پر ۱-اعتدال پسند بمقابلہ انتہا پسند ۲-سنی بمقابلہ شیعہ مسلمان۔
اس بات کی وضاحت میں انھوں نے روشن خیالی و بنیاد پرستی کی جنگ میں مغرب میں مقیم مسلمانوں سے پورا استفادہ کرنے کی اہمیت بھی اُجاگر کی ہے‘ لیکن پورے مقالے میں اصل زور شیعہ سنی اختلافات کی آگ پر تیل چھڑکنے ہی پر ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
اس کی معاصر مثال سنی شیعہ اختلاف ہے۔ عراق میں جاری شیعہ سنی تشدد ہمیں روزانہ عراق میں موجود اس اختلاف کی شدت یاد دلاتا ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ اسلام کے ان دو فرقوں میں پایا جانے والا یہ اختلاف‘ بے اعتمادی اور تنازع دوسرے مسلم ممالک‘ خاص طور پر لبنان‘ شام‘ سعودی عرب اور پاکستان میں بھی موجود ہے۔
وہ پوری مسلم دنیا میں پھیلی (ان کے بقول) ۸۳ فی صد سنی آبادی اور ۱۶ فی صد شیعہ آبادی کا تجزیہ کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ شیعہ آبادی کی ایران و عراق میں اکثریت‘ لبنان میں سب سے بڑی اقلیت‘ سعودی عرب کی تیل سے مالامال مشرقی پٹی میں بڑی تعداد اور شام کی علوی آبادی کی اہمیت اب پہلے سے بھی کہیں زیادہ ہے۔ ہمیں ان کے اس احساس سے فائدہ اٹھانا ہوگا کہ وہ مظلوم ہیں اور سنی استبداد کا شکار ہیں۔ شیعہ آبادی ’خلافت‘ کے تصور سے خوف زدہ ہے۔ ان کے نزدیک اس سے مراد اکثریتی سنی آبادی کا تسلط ہے۔ خلافت کا خواب جتنا حقیقت سے قریب دکھائی دے گا شیعہ آبادی اتنا ہی سنی انتہاپسندی کے خلاف مزاحمت کرے گی۔ یہ ایک ایسا خطرناک ٹائم بم ہے جو کسی بھی وقت پھٹ پڑنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
ان کی واضح اور دو ٹوک راے یہ ہے کہ اگر امریکا عراق میں شیعہ اور کرد ملیشیا کو اچھی تربیت اور اچھے ہتھیار فراہم کرے تو وہ عراق کے کرد اور شیعہ علاقوں سے سنی مزاحمت کا مکمل صفایا کردیں گے۔ وہ تسلیم کرتے ہیں کہ ہوسکتا ہے اس پالیسی کے نتیجے میں بالآخر عراق بھی یوگوسلاویہ کی طرح کئی مذہبی ریاستوں میں بٹ کر رہ جائے لیکن بالآخر اسلامی بیداری اور مزاحمت کا خاتمہ بھی ہوجائے گا۔
انھیں نہ شیعوں سے ہمدردی ہے نہ سنیوں سے۔ وہ نہ شیعوں پر بھروسا کرتے ہیںنہ سنیوں پر‘ لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ یہی شیعہ سنی تفریق بالآخر ایران اور ایٹمی پاکستان کا علاج بھی ثابت ہوگی۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’ایران اور دیگر خطوں کے شیعہ امریکا کو اپنا حقیر دشمن ہی سمجھتے رہیں گے۔ وہ کبھی امریکا کے سچے حلیف نہیں ہوسکتے لیکن وہ انتہاپسند سنی تحریکوں کے خلاف امریکا سے تعاون ضرور کرسکتے ہیں۔ ہمارے پاس ایران کے ایٹم بم کا بھی کوئی مؤثر علاج نہیں ہے… بدقسمتی سے پاکستان اور ایران کے انتہاپسند اور روشن خیال دونوں ہی اپنے ملکوں کو ایٹمی طاقت دیکھنا چاہتے ہیں… اس صورت میں شیعہ سنی تقسیم والی پالیسی ہی مؤثر ہوسکتی ہے۔ This provides ample potential for conflict between Iran and Pakistan. (یہ ایران اور پاکستان کے درمیان تنازع کھڑا کرنے کے بھرپور امکانات فراہم کرتے ہیں)۔
عراق‘ فلسطین‘ لبنان اور دیگر مسلم ممالک کے حالات سامنے رکھیں تو اس سوال کا جواب واضح طور پر مل جاتا ہے کہ جیمز کی اس چشم کشا اور پالیسی ساز تحریر کا برسرزمین حقائق پر کتنا اثر ہوا۔ جیمز جو امریکی دفاعی ماہرین میں سے ہزاروں کا استاد ہے‘ اپنی تحریروں میں بڑا سفاک دکھائی دیتاہے۔ لیکن اس کی یہ تکلیف دہ بات بالکل درست ہے کہ ’’شیعہ سنی تقسیم امریکا کو ایجاد نہیں کرنا‘ بالکل اسی طرح جس طرح پہلے چین روس تقسیم ایجاد نہیں کرنا پڑی تھی۔ لیکن امریکا خود کو اس پوزیشن میں ضرور لاسکتاہے کہ وہ پہلے سے موجود اختلافات کو گہرا کرے اور ان سے فائدہ اٹھائے‘‘۔ وہ یہ بھی اعتراف کرتا ہے کہ ’’مسلم دنیا میں سنی اسلامسٹ بھی رہیں گے اور شیعہ اسلامسٹ بھی‘ لیکن ہمیں کرنا یہ ہوگا کہ وہ امریکا کو اپنا سب سے بڑا دشمن سمجھنے کے بجاے ایک دوسرے کو دشمن سمجھنے لگیں‘‘۔
اپریل ۲۰۰۳ء میں صدام حکومت کے خاتمے سے پہلے عراقیوں کو تاثر دیا گیا تھا کہ اصل خطرہ بیرونی نہیں اندرونی ہے۔ امریکی فوجی بعدمیں آئیں گے‘ عراق میں موجود شیعہ آبادی پہلے بغاوت کرے گی۔ دوسری طرف شیعہ آبادی کو تاثر یہ دیا گیا کہ تم پر ہمیشہ اقلیت مسلط رہی ہے۔ اب اس سے انتقام کا وقت آن پہنچا ہے۔ یہی وہ اصل پھندا تھا جس میں بالآخر عراقی عوام کو پھانس لیا گیا ہے۔ یہی وہ حساس ترین حقیقت ہے جس کا بے لاگ جائزہ لیا جانا بھی ضروری ہے اور اس کا تدارک کرنا بھی ناگزیر ہے۔ امریکا نے قبضے کے بعد جو سیاسی و عسکری نظام تشکیل دیا‘ اس کی اساس یہی شیعہ سنی اور کرد کی تقسیم ہے۔ اس نے بوجوہ شیعہ گروہوں کو فوقیت دی۔ اس موقعے پر ایران نے بھی اپنے علاقائی نقشہ کار کو خاموشی سے لیکن بیک وقت جارحانہ اور دفاعی انداز سے مکمل کیا۔ ایران میں موجود ملک بدر عراقی گروہ بڑی تعداد میں عراق واپس چلے گئے۔ دورانِ قیام ایران ان کی فکری و ثقافتی تربیت کے ساتھ ہی ساتھ‘ عسکری استعداد کا بھی اہتمام کیا گیا تھا۔ وہ اس پوری تیاری و استعداد کے ساتھ عراق منتقل ہوگئے۔ امریکا وہاں ایسی ہی عوامی قوت و تائید کا محتاج تھا۔ امریکا اور ایران کے درمیان سنگین اختلافات‘ دشمنی اور دھمکیوں کے تبادلے کے باوجود دونوں ایک دوسرے کو عراق میں برداشت کرنے پر مجبور تھے۔ دونوں کے اپنے اپنے اہداف تھے۔ طویل ایران عراق جنگ اور بڑی عراقی شیعہ آبادی کے تناظر میں ایران کے لیے عراق کی نئی صورت حال بے حد اہم بھی تھی اور مددگار بھی۔ بظاہر یہ ایک بہت بڑا خطرہ تھا کہ وہ شیطان بزرگ جو ایران کے وجود کے درپے ہے اور جو خلیج کے علاوہ افغانستان میں بھی بیٹھا ہے‘ اُوپر ترکی اور وسطی ایشیا میں بھی بیٹھا ہے‘ اب ایران کے عین سر پر آن بیٹھے گا‘ لیکن اسی خطرے سے امکانات کی پو پھوٹ رہی تھی۔ یہاں امریکا کو مزاحمت کا خطرہ بھی برداشت کرنا تھا اور سیاسی جکڑبندیوں کا بھی ایک نیا چیستان اس کا منتظر تھا۔
بے لاگ لیکن دردمندانہ جائزے میں یہ اعتراف بھی جان لیوا حقیقت ہے‘ کہ جہاد کے نام پر وجود میں آنے والی بعض سنی تنظیموں اور خود کو مظلوم سمجھنے اور اب اچانک خود کو حاکم کے لبادے میں دیکھنے والی‘ شیعہ مسلح فورسز سے بہت مہیب اور سنگین غلطیاں ہوئیں۔ ابومصعب الزرقاوی جو امریکیوں سے لڑتے ہوئے تمام مسلم عوام کا ہیرو بن چلا تھا‘ بلااستثنا تمام شیعوں کے قتل کے فتوے جاری کر رہا تھا۔ دوسری طرف شیعہ ملیشیائوں نے بھی سنی آبادی کے علاقوں کے علاقے ویران کرنا شروع کر دیے۔ آنے والا وقت اس حقیقت کا تعین ضرور کرے گا کہ امریکی جیمز کرتھ کا ’نسخۂ کیمیا‘ اس تنازعے میں کہاں کہاں اور کیسے کیسے آزمایا گیا۔ یہ کیوں ہوا کہ عراقی افواج یا پولیس کی وردیاں پہنے عناصر‘ سرکاری گاڑیوں میں آکر ہزاروں سنی اہم افراد کو چن چن کر اغوا کر کے لے گئے اور پھر ان کی لاشیں سڑکوں پر ملیں۔ یہ کیوں ہوا کہ دو شیعہ اماموں کے مقبرے‘ جو صدیوں سے سنی علاقوں ہی میں تھے اور کبھی ان کی طرف کسی نے میلی آنکھ سے نہیں دیکھا تھا‘ امریکی و برطانوی افواج کے وہاں ہوتے ہوئے بموں سے اڑ گئے۔ یہ کیوں ہوا کہ ہزاروں سنی مساجد شہید کر دی گئیں‘ ہزاروں شیعہ مجالسِ عزا لاشوں کے ڈھیروں میں بدل گئیں۔ یہ کیوںممکن نہیں ہوا کہ ایران اپنی تمام تر قوت اور اثرونفوذ استعمال میں لاتا اور عراق میں موجود کسی شیعہ گروہ کو اپنے سنی بھائیوں کے قتل و بربادی میں ملوث نہ ہونے دیتا۔ یہ کیوں ہے کہ امریکی فلک میں گردش کرنے والے پڑوسی عرب ممالک‘ عراق پر قابض امریکی افواج کو نہیں ایرانی نفوذ اور شیعہ اقتدار کو اصل خطرہ قرار دے رہے ہیں۔ وقت ضرور جواب دے گا کہ عراق کے معتدل سنی عناصر کے بقول انھوں نے اٹل حقائق اور ثبوت اپنے ایرانی بھائیوں اور ذمہ داران کے گوش گزار کیے‘ان سے درخواست کی کہ وہ شیعہ سنی تصادم کو روکیں‘ لیکن انھوں نے حقائق کو الزامات قرار دے کر خاموشی اختیار کرلی۔ وقت بتائے گا کہ امریکی سامراجی قوت نے کس طرح عراق کے ہر اہم واقعے سے تقسیم ہی کی فصل اگائی۔
ماضی میں صدام کا کردار بلاشبہہ ظالمانہ تھا لیکن اب اس کامعاملہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھوں میں ہے۔ امریکا کے رویے اور اقدامات نے صدام کو جس ظلم کا نشانہ بنایا ہے اور جس طرح اسے پھانسی پر چڑھایا ہے اس نے اسے مظلوم بنا دیا ہے اور خود صدام نے آخری ایام میں جس سیاسی جراء ت اور ایمان کا مظاہرہ کیا ہے اس نے اسے عراقی عوام‘ اُمت مسلمہ اور ان کے حق پرست انسانوں کی نگاہ میں مظلوم اور ہیرو بنا دیا ہے اور توقع ہے کہ اللہ تعالیٰ اس سے رحم کا معاملہ فرمائیں گے۔ البتہ یہ ایک حقیقت ہے کہ جس طرح امریکا اور عراق میںاس کے حلیفوں نے صدام کو پھانسی دی ہے اس کے نتیجے میں امریکی عزائم اور مفادات کے لیے ’زندہ صدام‘ سے کہیں زیادہ صدام کی روح خطرہ بنے گی اور مزاحمت کی تحریک اس کے خون سے سیراب ہوگی۔
یہ نکتہ بھی اہم ہے کہ صدام کے جرائم میں عراق کے عوام پر مظالم جن میں ہزاروں افراد ہلاک ہوئے‘ ایران پر حملہ جس میں کئی لاکھ جانیں ضائع ہوئیں‘ کویت پر حملہ جس میں کئی لاکھ کویتی اور عراقی لقمہ اجل بنے‘ کردوں پر کیمیاوی ہتھیاروں کا استعمال جس میں کئی ہزار افراد مارے گئے ان سب جرائم کو نظرانداز کر کے بلکہ کردوں کی ہلاکت کے مسئلے کو تو مقدمہ نمبر ۲ کی شکل میں دائر کیے جانے کے باوجود ۱۴۸ شیعوں کے ہلاک کیے جانے والے مقدمے میں صدام کو جلدی میں پھانسی دینے کا کارنامہ انجام دیا گیا جس کی وجوہ پر عراق اور خود امریکا اور یورپ میں بحث ہو رہی ہے۔ اور صاف نظر آتا ہے کہ اصل مقصد صدام کو ہلاک کرنے کے ساتھ شیعہ سنی تنازع کو خانہ جنگی میں نہیں پورے شرق اوسط میں محاذآرائی اور جنگ و جدل کا ذریعہ بناناہے۔ ساتھ ہی یہ پہلو بھی ہے کہ باقی تمام جرائم میں امریکا برابر کا اور کھلاکھلا شریک تھااور مقدمے میں صدام اور اس کے وکلا نے امریکا کے کردار کو مرکزی مضمون بنانے کا عندیہ دیا تھا اس لیے غیرضروری تعجیل کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان ۱۴۸ افراد کی ہلاکت کے مقدمے کو بنیاد بنا کر صدام کو منظر سے ہٹا دیا گیا۔ امریکا کا یہ کھیل اب کھل کر سامنے آگیا ہے اور صدام کی موت امریکی استعمار اور اس کے مقاصد کے خلاف تحریک مزاحمت کو نئی جان دینے کا ذریعہ بنے گی اور صدام کی قبر امریکی اقتدار کے لیے بڑا خطرہ بننے کا امکان رکھتی ہے۔
یہ ایک بلاکم و کاست حقیقت ہے کہ ان سارے مناظر سے شیعہ سنی منافرت کی ایک نئی لہر نے جنم لیا ہے۔ آج عراق میں مذہبی منافرت کا لاوا اُگلتے آتش فشاں کی تباہ کاری‘ پورے عالم اسلام کو اپنی لپیٹ میں لینے کو ہے۔ آج ایران کو ملنے والی امریکی دھمکیوں پر مسلم دنیا کا ردعمل امریکی خوف کے ساتھ ہی ساتھ اسی مذہبی تقسیم سے بھی متاثرہے۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ اگر خدانخواستہ ایران پر واقعی حملہ ہوا تو اس کے بعد پاکستان‘ سعودی عرب اور شام سمیت کئی دیگر ممالک کے خلاف بھی فردِ جرم اور پھانسی کا پھندا تیار ہے‘ المیہ بلکہ سانحہ یہ ہے کہ مسلم دنیا خوابِ غفلت کا شکار ہے۔ حکمرانوں سے کیا شکوہ‘ ان کے نزدیک تو امریکی اقدامات الوہیت کا مقام رکھتے ہیں‘ لیکن کئی علاقوں کے عوام بھی ایران کے خلاف ممکنہ امریکی جارحیت کو شیعہ خطرے کاعلاج قرار دے رہے ہیں۔
یہ الگ بات ہے کہ خود امریکا اپنی مصیبتوں‘ ناکامیوں اور عراقی دلدل میں بری طرح دھنسنے کی وجہ سے اپنی دھمکیوںکو عملی جامہ پہنانے سے قاصر ہے اور فی الحال قاصر رہے گا۔ اس نے عراقی ایٹمی تنصیبات اسرائیل کے ہاتھوں تباہ کروائی تھیں‘ وہ ایران کے خلاف بھی اسرائیلی افواج سے مدد لے سکتا تھا‘ لیکن لبنان میں حزب اللہ کے ہاتھوں اپنی شکست کھانے کے بعد اسرائیلی طویل عرصے تک اپنے زخم چاٹتے رہیں گے۔ اپنی عسکری ساکھ کی فوری بحالی ان کا خواب ہے جو فی الحال شرمندئہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔ ان کے چیف آف آرمی سٹاف دان حالوٹس کا استعفا خود ان کے تجزیہ نگاروں کے بقول ایک آغاز ہے۔ صہیونی روزنامے یدیعوت احرونوت کے الفاظ میں یہ استعفا ’ڈومینو‘ کا کھیل ہے جس میں ایک بلاک گرنے کے بعد اس سے متعلق تمام بلاک خودبخود ایک ایک کرکے ڈھے جاتے ہیں‘ خواہ ان کی تعداد لاکھوں میں ہی کیوں نہ ہو۔ اخبار کے بقول یہ استعفا‘ڈھلوان سے لڑھکتے ہوئے برف کے کسی گولے کی طرح ہے‘ جو ہر آن بڑے سے بڑا ہوتا جاتا ہے اور بالآخر تباہی پھیلا دیتا ہے۔ صہیونی روزنامہ ھآرٹس بھی یہی لکھتا ہے کہ ’’لبنان میں اپنی شکست کا اعتراف کرتے ہوئے چیف آف آرمی سٹاف کا مستعفی ہوجانا‘ اس امر کی واضح دلیل ہے کہ پوری اسرائیلی فوج قابلِ اصلاح ہے‘ اصلاح کا یہ عمل جلد شروع ہونا ضروری ہے۔ حالوٹس نے جنگ میں اپنی ناکامی کا اعتراف توکیا ہے لیکن اس نے ان اسباب کا اعتراف نہیں کیا جن کے باعث اس ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا‘‘۔ یہاں یہ ذکر بھی مفید رہے گا کہ اس وقت صہیونی وزیردفاع‘ وزیراعظم اور صدر سمیت متعدد لیڈر مختلف عسکری و اخلاقی الزامات کی زد میں ہیں۔ کئی مقدمات کی سماعت ہو رہی ہے۔
ایک طرف تو اسرائیل کو اس اندرونی خلفشار اور نفسیاتی‘ اخلاقی اور عسکری ہزیمت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے‘ لیکن دوسری طرف خود فلسطینی عوام کو باہم لڑا دیا گیا ہے۔ ان کی سیاسی تقسیم تو کسی حد تک فطری اور قابلِ قبول تھی‘ لیکن اب انھیں باہم قتل و غارت کی آگ میں جھونکا جارہا ہے۔ جنوری ۲۰۰۶ء کے انتخابات منصفانہ و حقیقی ہونے کا اعتراف خود امریکی و اسرائیلی کر رہے ہیں۔ ان انتخابات میں عالمی مبصرین کے سربراہ سابق امریکی صدر جمی کارٹر تھے۔ حال ہی میں ان سے انٹرویو میں الجزیرہ ٹی وی کی نمایندے وجد وقفی نے سوال کیا: کیا یہ انتخابات منصفانہ تھے؟ اگر تھے تو اب فلسطینیوں کو اپنا فیصلہ تبدیل کرنے پر کیوں مجبور کیا جا رہا ہے؟ جمی کارٹر کا جواب تھا: ’’۱۹۹۶ء میں یاسرعرفات کا صدارتی اور پارلیمانی الیکشن ہوا تو میں مبصر کی حیثیت سے وہاں تھا‘ عرفات کے انتقال اور محمودعباس ابومازن کے انتخاب کے وقت جنوری ۲۰۰۵ء میں دوبارہ وہاں گیا ‘ جنوری ۲۰۰۶ء کے پارلیمانی انتخابات میں بھی مَیں وہاں مبصر تھا۔ یہ انتخابات مکمل طور پر عادلانہ اور شفاف تھے۔ ان میں حماس نے ۴۲ فی صد ووٹ حاصل کیے اور پارلیمنٹ میں بھاری اکثریت حاصل کی۔ میرا خیال ہے کہ دنیا کو یہ نتائج تسلیم کرنا چاہییں۔ انتخابات سے اگلے روز میںرملہ میں محمود عباس سے ملا‘ انھیں قائل کرنا چاہا کہ وہ حماس کی پیش کش قبول کرتے ہوئے قومی حکومت تشکیل دے لیں‘ لیکن انھوں نے میری نصیحت قبول نہیں کی۔ اب بھی میرے خیال میں پہلی ترجیح یہی ہونی چاہیے کہ حماس کے ساتھ مل کر قومی حکومت تشکیل دی جائے‘‘۔
صدر کارٹر نے اپنے انٹرویو میں اس بات کا بھی واضح اعتراف کیا کہ ’’امریکی حکومت حماس حکومت کو گرانا چاہتی ہے اور سمجھتی ہے کہ سخت اقتصادی پابندیوں سے مجبور ہوکر فلسطینی عوام اپنی راے تبدیل کرلیں گے۔ مجھے ان کے اس مفروضے کی صحت کا تو علم نہیں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ یہ ایک غیرقانونی‘ غیرمناسب اور غیراخلاقی عمل ہے۔ کیا آپ ایک پوری قوم کو ضروریاتِ زندگی سے محروم کریں گے کیونکہ اس نے جمہوری عمل میں آزادانہ حصہ لیا اور ووٹ کا استعمال کیا ہے‘‘۔ یہاں یہ امر بھی قابلِ ذکر ہے کہ جمی کارٹر نے حال ہی میں فلسطین: امن‘ نسل پرستی نہیں کے عنوان سے اپنی اکیسویں کتاب لکھی ہے۔ (اس شمارے میں دیکھیے:’مسئلہ فلسطین اور اس کا حل‘، ص ۱۹)
یہ ایک امریکی ذمہ دار کی منصفانہ آواز ہے ۔ امریکی معاشرے میں کروڑوں افراد اس آواز کی تائید کرتے اور یہی راے رکھتے ہیں‘ لیکن امریکی انتظامیہ کا سر پُرغرور ظلم و حماقت کی راہ اختیار کرنے پر مصر ہے۔ فلسطینی صدر نے حماس سے مصالحت کا عندیہ دیا بھی تو فوراً واپس لے لیا کیونکہ وزیرخارجہ کونڈالیزا رائس نے ڈانٹ پلا دی تھی۔ اب پھر کونڈالیزا علاقے کا دورہ کرکے گئی ہیں۔ اعلان کیا گیا ہے کہ وہ آیندہ دو ماہ کے دوران میں دو مرتبہ پھر آئیں گی‘ مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے اپریل ۲۰۰۷ء تک ایک نیا فارمولا پیش کیا جائے گا۔ یہ فارمولا کیا ہوگا؟ اس کی تفصیل ہرصاحب ِفہم ابھی سے بتاسکتا ہے۔ آخر امریکی انتظامیہ کے پیش نظر اس کے علاوہ اور کیا ہوگا جس کا مظاہرہ رائس نے اپنے حالیہ دورے میں کیا۔ چھے خلیجی ریاستوں‘ مصر اور اُردن کے وزراے خارجہ کے آٹھ رکنی وفد سے ہنگامی مذاکرات کا نتیجہ کیا تھا؟ لندن سے شائع ہونے والے روزنامے القدس العربی کے بقول اس میں رائس نے صدربش کی طرف سے اعلان شدہ امریکی فوجیوں کی نئی کھیپ آنے کی تفصیل سے آگاہ کیا۔ انھوں نے کہا کہ ان ۲۱ ہزار مزید فوجیوں کی بغداد میں تعیناتی‘ دہشت گردی کے خلاف جنگ کا ایک نیا اور اہم مرحلہ ہے۔ اس کی کامیابی کے لیے آپ ہماری مدد کریں۔ روز بروز بڑھتے جنگی اخراجات میں ہاتھ بٹاتے ہوئے خلیجی ریاستیںمالی مدد کریں‘ جاسوسی معلومات کی فراہمی میں اُردن مدد کرے اور سیاسی پشتیبانی کے لیے مصر مزید فعال ہو۔
ایک غیرسرکاری ادارے کانفلیکٹ فورم کے امریکی ذمہ دار مارک بیری اور برطانوی ذمہ دار السٹر کروک فلسطین میں جاری خانہ جنگی کے بارے میں اپنی رپورٹ میں لکھتے ہیں کہ امریکی انتظامیہ کے اہم فرد ابریمز نے حماس اور الفتح کے درمیان جنگ چھیڑنے کا مفصل منصوبہ تیار کیا ہے۔ اس کے مطابق الفتح کے عناصر کو اسلحہ اور تربیت دے کر غزہ اور مغربی کنارے کی سڑکوں پر اتارا جانا ہے۔ ان کا ہدف حماس کے ذمہ داروں کا قتل اور حماس کے مجاہدین سے دوبدو جنگ ہے۔ یہ منصوبہ حماس کی جیت کے بعد‘ گذشتہ فروری ہی میں تیار کرلیا گیا تھا‘ اس پر عمل درآمد شروع ہوچکا ہے اور اس کی ذمہ داری محمود عباس کے دست راست اور امریکا و اسرائیل کے معتمد ترین شخص محمد دحلان کو سونپی گئی ہے۔
بیری‘ کروک رپورٹ کے مطابق مصر اور اُردن کے ذریعے الفتح کو اسلحے کی بڑی کھیپ دی جاچکی ہے اور صدر کی خصوصی فورسز کی تیاری کے بہانے حماس کا قلع قمع کرنے کی تیاری مکمل ہے۔ لیکن نہ صرف مصر و اُردن بلکہ خود امریکی بھی اس شش و پنج میں مبتلا ہیں کہ کیا اس طرح حماس کی جڑیں کاٹنا ممکن ہوگا؟ کیا وہ مزید مقبول تو نہیں ہوجائے گی۔
امریکی معروف میگزین فارن افیئرز کے جنوری کے شمارے میں مائیکل ہرذوگ (Michael Herzog) اسی تلخ حقیقت کا جائزہ لیتاہے کہ Can Hamas be tamed? اس تفصیلی اور اہم مقالے میں وہ واضح کرتے ہیں کہ جمہوری عمل میں حماس کی شرکت کا کڑوا گھونٹ اس لیے برداشت کیا گیا تھا کہ اس کے بعد سیاسی جماعتوں کو بہت سے عالمی و علاقائی مجبوریوں کے ساتھ سمجھوتا کرنا پڑتا ہے‘ شاید حماس کو بھی اس پر مجبور کیا جاسکے۔ لیکن حماس کے ساتھ ایسا نہیں کیا جاسکا۔ اگرچہ کچھ لوگوں کے خیال میں جمہوری عمل میں شرکت بذاتِ خود ایک سمجھوتا اور اعتدال پسندی کی طرف ایک قدم ہے۔ حماس‘ اخوان‘ حزب اللہ اور مختلف تحریکوں کے تفصیلی تجزیے کے بعد وہ اپنے تئیں یہ حکیمانہ حل پیش کرتے ہیں کہ کم از کم ان تین بنیادی اقدامات کے ذریعے حماس اور دیگر اسلامیانِ عالم کو انتہاپسندی سے دُور رکھا جاسکتا ہے۔
۱- ایسے مستحکم‘ صحت مند اور نسبتاً آزاد سیاسی نظام کا قیام جس میں اسلامسٹ بھی جذب ہوسکیں۔
۲- اسلامسٹوں کے خلاف جھکتا ہوا توازن اقتدار جو انھیں معتدل ضوابط کے مطابق کھیلنے پر مجبور کرے۔
۳- شراکت کار روبہ عمل لانے کے لیے کافی وقت ۔
حماس کے سلسلے میں وہ عالمی برادری کو یہ مشورہ بھی دیتے ہیں کہ وہ اس پر واضح کردیں کہ جمہوری عمل میں اس کی شراکت صرف اسی صورت میں قابلِ قبول ہوگی کہ وہ تشدد کا راستہ چھوڑ دے‘ اس کی مذمت کرے‘ غیرمسلح ہوجائے اور اسرائیل کا حق وجود تسلیم کرلے۔ رہا سوال حماس کو اُکھاڑ پھینکنے اور کچل ڈالنے کا یا اپنے ڈھب پہ لانے کا‘ تووہ واضح کرتا ہے کہ اس کا وقت گزر چکا۔ The time for taming Hamas already have passed.
فلسطین میں خانہ جنگی کا عالمی منصوبہ اب ایک کھلا راز ہے لیکن سراسر بدقسمتی ہے کہ بعض فلسطینی رہنما اس کے لیے اپنا ایمان و ضمیر اور قومی مفادات گروی رکھنے کے لیے بھی آمادہ ہیں۔ فلسطینی وزیراعظم اسماعیل ھنیہ ۱۰ ماہ کے دوران پہلی بار چند مسلم ممالک کے دورے پر گئے۔ قطر اور ایران نے ملازمین کی تنخواہ ادا کرنے کے لیے ان کی کچھ مالی امداد کا اعلان کیا‘ لیکن جیسے ہی وطن واپسی کے لیے فلسطینی مصری بارڈر پر پہنچے انھیں روک لیا گیا۔ کئی گھنٹے تک انھیں بے توقیر کرتے رہے اور رات گئے جانے کی اجازت دی۔ ابھی وہیں تھے کہ ان پر براہِ راست فائرنگ کروادی گئی۔ ان کی گاڑی میںسوار ان کا ایک محافظ سر میں گولی لگنے سے موقع پر شہید ہوگیا۔ دسیوں زخمی ہوئے‘ لیکن اللہ تعالیٰ نے انھیں اس قاتلانہ حملے میں محفوظ رکھا۔ پھر حماس کے جہادی بازو عزالدین القسام بریگیڈ کے کیمپ پر حملہ کر دیا گیا۔ غزہ کی سڑکوں پر ہزاروں گولیوں کا تبادلہ کیا گیا۔ بھائی سے بھائی لڑ رہا تھا۔ فلسطینی عوام نے دونوں سے اپیل کر رہے ہیں کہ اصل دشمن کو پہچانیں۔ عوام نے اب بھی غزہ کے مرکزی علاقے میں احتجاجی کیمپ لگایا ہوا ہے جس پر جلی حروف میں لکھا ہے کہ ’’ہوسکتا ہے تم اپنے مقابل کھڑے فلسطینی کو قتل کردو لیکن یاد رکھو اس کے دل کی دھڑکن بھی اقصیٰ…اقصیٰ پکار رہی ہے‘‘۔ ایک فلسطینی ماں نے اپنے دو جوان بیٹوں کو گھر بلایا‘ اتفاق ہے کہ ایک الفتح کا کمانڈر ہے تو دوسرا حماس کا اہم کمانڈر ہے۔ محمودمصلح (حماس) اور جون مصلح (الفتح) اپنی ماں سے ملنے آئے توگھر کے اندر بھی دونوں کے دائیں بائیں مسلح محافظ پہرا دے رہے تھے۔ بالآخر دونوں پکار اُٹھے‘ ٹھیک ہے ہمارے درمیان سیاسی اختلاف ہے لیکن یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم اپنے ’ماں جاے‘ پر گولی چلا دیں۔ بوڑھی ماں کے آنسو چھلک پڑے۔ بے تاب ہوکر اُٹھی سروں پر بوسہ دیا اور کہا: اللّٰہ یبعد عنھما شر الیہود، ’’پروردگار! دونوں کو یہودیوں کے شر سے محفوظ رکھے‘‘۔ ایک ماں نے تو دو کڑیل جوان بیٹوں کو اصل دشمن سے خبردار کرتے ہوئے یک جا کردیا‘ لیکن لاکھوں مائوں کی یہی صدا محمودعباس اوردحلان کیوں نہیں سن رہے۔ دحلان نے خون ریزی کے ان واقعات کے بعد فخریہ بیان دیتے ہوئے کہا: ’’ہم نے دنیا پر ثابت کردیا کہ غزہ حماس کی جاگیر نہیں‘‘۔ گویا حماس کی وسیع تر تائید پر جگر چھلنی ہے اور فکرمندی یہ ہے کہ اسے کیسے کمزور کیا جائے اور کیسے اس کمزوری کو واضح کیا جائے۔
حماس اور اس کی حکومت کمزور کرنے میں ہر کوئی حصہ بقدر جثہ ڈال رہا ہے۔ حماس نے دن رات ایک کر کے اور اُمت کے ایک ایک فرد سے اپیل کر کے سرکاری ملازمین کی تنخواہیں پوری کرنا چاہیں۔ اسماعیل ھنیہ دورے پر آئے تو کچھ پیسے خود بھی جمع کیے‘ ۳کروڑ ۲۴ لاکھ ۹۹ہزار ڈالر جمع تھے۔ دستی لے جانا ممکن نہیں تھا۔ کہا گیا کہ عرب لیگ نے آپ کے لیے اکائونٹ کھولنے کی خصوصی اجازت دی ہے۔ رقم اسی خصوصی اکائونٹ میں جمع کرو ادیں‘ فلسطین پہنچ جائے گی۔ رقم اکائونٹ میں جمع کروا کے اور قاتلانہ حملے سے زندہ بچ کے ھنیہ واپس پہنچے توعرب لیگ کے سیکرٹری جنرل عمرو موسیٰ نے خط بھیج دیا ’’عدالتی پابندیوں کے باعث ہم یہ رقم فلسطین نہیں بھجوا سکتے۔ نہ ہی کوئی انھیں کیش کروا سکتا ہے جب تک کہ عدالتی فیصلہ سامنے نہ آجائے‘‘۔ دبائو کے تمام ہتھکنڈوں کے باوجود حماس اپنے موقف پر ثابت قدم ہے اور اعلان کیا ہے کہ انتخابات قبل از وقت کروانے کی اجازت کسی صورت نہیں دیں گے۔ البتہ قومی حکومت کا راستہ اب بھی کھلا ہے۔ اس سلسلے میں صدر محمود عباس سے براہ راست مذاکرات بھی ہوسکتے ہیں۔
حالات ایسے ہیں کہ اچھے بھلے دانا کو بھی متحیر کردیں‘ لیکن حماس مطمئن ہے کہ ’’ہم پر آنے والی ہرآفت ہماری طاقت میں اضافے ہی کا سبب بنی ہے‘‘۔ اب بھی ہماری منزل واضح‘ عزم مصمم‘ تیاری مکمل اور کامیابی کا یقین کامل ہے۔ امریکا کا خیال ہے کہ وہ امریکی اصطلاح کے مطابق ’منظم بحران‘ کھڑے کرکے حکومتوں اور عوام کواپنی اطاعت پر مجبور کرلے گا۔ ہر آنے والا دن اس کی یہ خام خیالی واضح کر رہا ہے۔ اب وہ خودکہتے ہیں کہ ہم مسلم عوام کے دل جیتنے میں ناکام ہورہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی اٹل سنت کے مطابق ان کی ہر شرانگیزی انھی کے گلے پڑ رہی ہے۔ اسْتِکْبَارًا فِی الْاَرْضِ وَ مَکْرَ السَّیِّیِٔ ط وَ لَا یَحِیْقُ الْمَکْرُالسَّیِّیُٔ اِلَّا بِاَھْلِہٖ ط (فاطر۳۵:۴۳) ’’یہ زمین میں اور زیادہ سرکشی کرنے لگے اور بری بری چالیں چلنے لگے‘ حالانکہ بری چالیں اپنے چلنے والوں ہی کو لے بیٹھتی ہیں‘‘۔ امریکا جتنا کیل کانٹا عراق و افغانستان میں لے کر آیا ہے یا اب ایتھوپیا کے راستے صومالیہ لانے کی سوچ رہا ہے اس کے بارے میں تحریک مزاحمت کا اعلان یہ ہے کہ سَیُھْزَمُ الْجَمْعُ وَیُوَلُّوْنَ الدُّبُرَ o (القمر۵۴:۴۵) ’’عنقریب یہ سب لائولشکر ہزیمت اٹھائے گا اور پیٹھ پھیر کر بھاگ جائے گا‘‘۔
اصل سوال مسلم عوام اور حکمرانوں سے ہے۔ کیا وہ زندگی اور بعد موت کامیابی چاہتے ہیں‘ یا وہ بھی طاقت ور دیوانے دیو کے ساتھ ہی تباہ ہو جانا چاہتے ہیں۔ اگر جواب ہاں ہے تو ذلت کا یہی سفر جاری رہے۔ روشن خیالی کے نام پر تحریف دین‘ رب سے بغاوت اور حبیب خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات سے عملی نفرت جاری رہے‘ ایک اللہ کے بجاے دسیوں خدائوں کے سامنے سجدہ ریز رہیں۔ اور تو اور‘ کرزئی جیسے براے نام حکمران کی گھرکیاں بھی برداشت کرتے رہیں‘ گائے اور بچھڑے کے پجاریوں (ہندو اور یہود) کی عیاری سے دیکھتے بھالتے مات کھاتے رہیں‘ اپنے ہی ہاتھوں اپنے بھائیوں کا گلا گھونٹتے رہیں‘ شیعہ سنی‘ روشن خیال بنیاد پرستی‘ مہاجر پختون‘ عرب اور عجم کے تعصبات میں مبتلا رہیں‘ جتنے یوسف ملیں‘ برادرانِ یوسف بن کر انھیں مٹھی بھر ڈالروں کے عوض بیچ ڈالیں۔ اپنے تمام جیل خانوں کو گوانتاناموبے بنا ڈالیں۔ حیا و اخلاق کو سڑکوں پر تارتار کر دیں یا بسنت کی آہنی ڈور سے باندھ کر ہوائوں میں اڑا دیں۔ اپنی نسلوں کے خدابے زار و تارکین دین ہونے پر فخرو مباہات کریں۔ بس پھر دیکھیں عنقریب ہلاکت و تباہی کے کیسے کیسے تمغے عطا ہوتے ہیں۔ لیکن یہ واضح رہے کہ مسلم عوام کی اکثریت خود کو آخرت میں اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوضِ کوثر کی طرف لے جانا چاہتی ہے‘ وہ دنیا میں اس کی شریعت کا علَم بلند کرنے کی راہ اختیار کر رہی ہے۔ ایسا نہ ہوتا تو اب تک آدھے سے زیادہ مسلم دنیا‘ افغانستان و عراق بن چکی ہوتی۔ قرآن عظیم الشان کے بجاے دنیا میں ’امریکی فرقان‘ کی تلاوت ہو رہی ہوتی۔ لبنان‘ فلسطین‘ کشمیر‘ افغانستان اور عراق‘ ہر جگہ جہاد کی کھیتی ویران ہوچکی ہوتی اور امریکیوں کے اپنے سروے کے مطابق ۸۴ فی صد مسلم عوام اس کی اور اس کے غلاموں کی کرتوتوں سے اظہار نفرت نہ کر رہے ہوتے۔
یُرِیْدُوْنَ اَنْ یُّطْفِئُوْا نُوْرَ اللّٰہِ بِاَفْوَاھِھِمْ وَیَاْبَی اللّٰہُ اِلَّآ اَنْ یُّـتِمَّ نُوْرَہٗ وَلَوْ کَرِہَ الْکٰفِرُوْنَ o (التوبہ۹:۳۲)یہ لوگ چاہتے ہیں کہ اللہ کی روشنی کو اپنی پھونکوں سے بجھا دیں مگر اللہ اپنی روشنی کو مکمل کیے بغیر ماننے والا نہیں ہے خواہ کافروں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔