۲۰۰۷فروری

فہرست مضامین

کلام نبویؐ کی کرنیں

مولانا عبد المالک | ۲۰۰۷فروری | فہم حدیث

Responsive image Responsive image

حضرت ابوموسٰی ؓ سے روایت ہے‘ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے! قیامت کے روز ہر معروف (نیکی) اور ہر منکر (برائی) ایک مخلوق کی شکل میں انسانوں کے سامنے کھڑی ہوں گی۔ معروفات اپنے اُوپر عمل پیرا ہونے والوں کو   خوش خبریاں دیں گی اور جنت کے وعدے یاد دلائیں گی‘ اور منکرات اپنے اُوپر عمل پیرا ہونے والوں کو دھکے دیں گی لیکن وہ ان سے چمٹیں گے (ان سے عشق کا مظاہرہ کریں گے)۔ برائی اپنے ساتھ لے کر انھیں دوزخ میں پھینک دے گی اور عشق کا مزا چکھائے گی۔ (مجمع الزوائد‘ ج ۷‘     ص ۳۶۲ بحوالہ مسنداحمد‘ بزاز)

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نیکی اور بدی دونوں کا انجام کھول کر بیان فرما دیا ہے‘ اتمامِ حجت کر دیا ہے۔  کل قیامت کے روز کوئی یہ عذر نہیں کر سکے گا کہ مجھے تو برائی کے اس ہولناک انجام کا پتا نہ تھا‘ ورنہ میں برائی سے عشق نہ کرتا۔ آج موقع ہے‘ توبہ کا دروازہ کھلا ہے‘ باز آنے والے باز آسکتے ہیں۔ کل پکڑ ہوگی‘ کسی بھی قسم کی چیخ و پکار کام نہ دے گی۔ ہے کوئی جو اس بات پر کان دھرے!


حضرت علی بن ربیعہؒ سے روایت ہے‘ مجھے حضرت علیؓ نے اپنے پیچھے سواری پر بٹھایا‘ پھر حرۃ کی جانب چل پڑے۔ پھر آسمان کی طرف سر اٹھایا اور یہ دعا کی: اَللّٰھُمَّ اَغْفِرْلِیْ ذُنُوْبِیْ اِنَّہٗ لَا یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ اَحَدٌ غَیْرُکَ ،’’اے اللہ میرے تمام گناہ اور لغزشیں بخش دیجیے‘ گناہوں کو تیرے سوا کوئی بھی نہیں بخش سکتا‘‘۔ پھر میری طرف مڑ کر دیکھا اور ہنس پڑے۔ میں نے عرض کیا: امیرالمومنین آپ کا اپنے رب سے استغفار کرنا پھر میری طرف مڑ کر دیکھنا اور ہنسنا سمجھ میں نہیں آیا؟ اس کا کیا مطلب ہے؟ حضرت علیؓ نے جواب میں فرمایا: مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پیچھے سوار کیا۔ پھر مجھے حرۃ کی جانب لے کر چل پڑے۔ پھر آسمان کی طرف اپنا سر اٹھایا اور دعا کی اَللّٰھُمَّ اَغْفِرْلِیْ ذُنُوْبِیْ اِنَّہٗ لَا یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ اَحَدٌ غَیْرُکَ ، پھر میری طرف مڑ کر دیکھا اور ہنس پڑے۔ میں نے عرض کیا:یارسولؐ اللہ! آپؐ  کا استغفار کرنا اور میری طرف مڑ کر دیکھنا اور ہنس پڑنا سمجھ میں نہیں آیا‘ اس کا کیا مطلب ہے؟ آپؐ نے فرمایا: میں ہنس پڑا اس لیے کہ میرے رب خوش ہوکر اس بات پر ہنس پڑے کہ میرا بندہ عقیدہ رکھتاہے کہ گناہوں کو اس کے سوا کوئی نہیں بخش سکتا۔ (کنزالعمال ‘ ج۱‘ ص ۲۱۱)

اللہ تعالیٰ ایسے حکمران ہیں جو بندے کی ذرا ذرا سی بات‘ ذرا ذرا سے عمل سے باخبر ہیں۔ ہر وقت دیکھتے‘ سنتے اور جواب دیتے ہیں‘ یہ الگ بات ہے کہ ہمیں اس کے جواب کا علم نہیں ہوتا لیکن انبیا علیہم السلام کو بعض اوقات علم ہوجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اس سے بارہا باخبر کردیتے تھے۔    نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا پر اللہ رب العالمین کا خوش ہوجانا‘ ہنس پڑنا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی اطلاع کر دینا‘ اس کی ایک مثال ہے۔ یہ یقین نہ رکھنے کی کوئی وجہ نہیں کہ آج بھی کوئی بندہ یقین کے ساتھ دعا کرے تو اللہ تعالیٰ اسی طرح اظہار مسرت نہ کرتے ہوں گے۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صحابہ کرامؓ کی محبت کا یہ ایک نمونہ ہے جو حضرت علیؓ نے پیش کیا۔    آپؐ  کے عمل کی پوری کی پوری نقل کی‘ سواری پر سوار ہو کر اپنے پیچھے علی بن ربیعہ کو بٹھایا‘ حرۃ کی طرف گئے‘ حرۃ پہنچ کر دعا کی اور دعا میں اسی عمل کو دہرایا جسے آپؐ  نے دہرایا تھا۔ نبی کریمؐکے  نقش قدم پر چلنا قدم بقدم وہی کچھ کرنا جو آپؐ  نے کیا‘ یہی آپؐ  سے حقیقی محبت ہے۔


حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دن اور رات میں ضروریات اور حاجات پیش آتی رہتی تھیں۔ اس لیے ہم میں سے کم از کم چار پانچ آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب رہتے تھے۔ کبھی بھی آپؐ کو تنہا نہیں چھوڑتے تھے۔ کہتے ہیں‘ میں آپؐ کے پاس آیا‘ اس حال میں‘ کہ آپؐ گھر سے باہر نکل گئے۔ میں آپؐ کے پیچھے پیچھے چل پڑا۔ آپؐ انصار کے سرداروں میں سے ایک سردار کے باغ میں داخل ہوئے‘ نماز پڑھی‘ سجدہ کیا جو بہت طویل ہوگیا۔ میں ڈر گیا کہیں ایسا نہ ہو کہ آپؐ کی روح مبارک قبض کرلی گئی ہو‘ اس ڈر سے میں رو پڑا۔ کہتے ہیں پھر آپؐ نے سر اٹھایا اور مجھے بلایا اورفرمایا: تمھیں کیا ہوا؟ میں نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! آپؐ نے سجدہ طویل فرما دیا تو مجھے ڈر ہوگیا کہ ایسا نہ ہو کہ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کی روح مبارک قبض کرلی ہو‘ اور اس کے بعد میں کبھی بھی آپؐ  کادیدار نہ کرسکوں‘ اس لیے میں رو پڑا۔ آپؐ نے فرمایا: میں نے اپنی اُمت پر اس انعام کے سبب سجدئہ شکر کیا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: جس نے آپؐ  پر ایک دفعہ درود پڑھا میںاس پر درود بھیجوں گا‘ اور جس نے آپؐ  پر سلام بھیجا میں اس پر سلام بھیجوں گا۔ (مجمع الزوائد‘ ج ۱۰‘ ص ۱۶۱‘ بحوالہ سند ابویعلٰی ابن ابی الدنیا‘ایضاً الترغیب‘ ج ۳ ص ۱۵۵)

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی اُمت سے کس قدر محبت ہے اس کا اندازہ کرنے کے لیے یہ واقعہ کافی ہے۔ اُمتی کو انعام ملا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود کے سبب اللہ تعالیٰ اس پرصلوٰۃ و سلام بھیجتے ہیں‘ اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کا شکر ادا کیا۔ ایسے شفیق و کریم نبی کے ساتھ محبت‘ اطاعت اور عشق کس قدر ہونا چاہیے؟ ایسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا حق ہے کہ آپؐ کی محبت‘ آپؐ  کی اطاعت‘ آپؐ  کے دین و نظام سے لگائو ماں باپ اور اولاد اور اپنی جان سے بھی بڑھ کر ہو‘ جیسے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہوسکتا جب تک میں اسے اس کے ماں باپ اور اولاد اور اس کی جان سے زیادہ محبوب نہ ہوں‘‘۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھنے والا فرائض کا پابند‘ منکرات سے اجتناب کرنے اور دین کو غالب کرنے والا ہوگا‘ لیکن وہ شخص جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلق و محبت نہ ہو‘ وہ نبی کریمؐ کو بھولا ہوا ہو‘ آپؐ   پر درود و سلام نہ پیش کرتا ہو تووہ اللہ تعالیٰ‘ اللہ تعالیٰ کے دین اور اللہ والوں کو بھی بھولا ہوا ہوگا اور اسی لیے خائب و خاسر ہوگا۔


حضرت عبداللہؓ سے روایت ہے‘ میں اور میرے والد گھر کے دروازے پر بیٹھے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خچر پر سوار ہوکر تشریف لائے۔ میرے والد نے آپؐ سے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! ہمارے گھر تشریف نہیں لاتے؟ تشریف لائیں‘ کھانا تناول فرمائیں اور برکت کی دعا کریں۔ آپؐ نے درخواست مان لی۔گھر تشریف لائے‘ کھانا کھایا اور برکت کی یہ دعا فرمائی: اَللّٰھُمَّ ارْحَمْھُمْ وَاغْفِرْلَھُمْ وَبَارِکْ لَھُمْ فِیْ رِزْقِھِمْ ، ’’اے اللہ! ان پر رحم فرما‘ ان کی مغفرت فرما اور ان کے لیے ان کے رزق میں برکت عطا فرما‘‘۔ اس کے بعد ہم نے ہمیشہ رزق میں فراخی دیکھی۔ (کنزالعمال‘ ج ۵‘ ص ۲۲‘ بحوالہ ابن عساکر)

رشتے داروں کو ہی نہیں‘ جن سے دین کا رشتہ ہو‘ ان کو اپنے گھر پر دعوت دے کر بلانا اور کھانے میں شریک کرنا اور ان سے دعائیں لینا ایک ایسی نیکی ہے جس کا رواج جتنا زیادہ ہو‘فائدے اتنے ہی زیادہ ہیں۔ حدیث بتاتی ہے کہ دعا کے لیے بلاتکلف درخواست کرنا چاہیے‘ اور مہمان کو اسے قبول کرتے ہوئے برکت کی دعا کرنا چاہیے۔ رزق کی تنگی و کشادگی سو فی صد اللہ کے ہاتھ میں ہے‘ ہمارے نہیں (جیسا ہم سمجھتے ہیں)۔ اگر مدعو کوئی ذی عزت‘ بزرگ اور متقی ہو تو یقینا دعا زیادہ قبول ہوگی‘ برکت بھی زیادہ ہوگی۔


حضرت ابوقتادہ انصاریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری اُمت کے تمام لوگوں کو معافی مل جائے گی مگر مجاہرین (اعلان کرنے والے) کو معافی نہیں ملے گی۔ عرض کیا: یارسولؐ اللہ مجاہرین کون لوگ ہیں؟ آپؐ نے فرمایا: وہ آدمی جو رات کو گناہ کرتا ہو‘ اللہ تعالیٰ اس کی پردہ پوشی کرے۔ صبح کے وقت وہ اٹھے اور خود ہی اپنا پردہ فاش کردے‘ کہے اے فلاں آدمی! میں نے گذشتہ رات یہ برا کام کیا ہے۔ (مجمع الزوائد بحوالہ طبرانی فی الاوسط)

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کی سچائی کا مشاہدہ سر کی آنکھوں سے کیا جاسکتا ہے۔ آج بہت سے ایسے لوگ جو بڑے بڑے مناصب پر فائز ہیں‘ اپنے گناہوں پر سے خود پردہ اٹھاتے ہیں اور کتابیں لکھتے ہیں۔ اس میں اپنے ماں باپ‘ دادا نانی کی بے حیائیوںکا تذکرہ‘ عالمی سطح پر دنیا بھر کے اصحاب شان و شوکت اور عوام و خواص کے سامنے کرتے ہیں۔ ان کتابوں پر رائلٹی لیتے ہیں اور ذرہ برابر بھی شرم محسوس نہیں کرتے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشن گوئی فرمائی کہ ایک ایسا دور آئے گا جب قوم کا لیڈر رذیل ترین اور قبیلے کا قائد فاسق ہوگا(مشکوٰۃ )۔ آج وہی دَور ہے۔

جو مسلمان بے حیائی کی اشاعت پر خاموش تماشائی ہوں‘ وہ بھی بے حیائی کی اشاعت میں مددگار شمار ہوں گے۔ جب بے حیائی کی اشاعت کرنے والوں پر عذاب آئے گا تو اس کی لپیٹ میں خاموش تماشائی بھی آجائیں گے۔ خاموشی کی گنجایش نہیں ہے۔ اس لیے ہر ہر گھر‘ بستی بستی تک پہنچ کر موجودہ نازک صورت حال سے اہلِ وطن کو آگاہ کیا جائے اوربے حیائی کو حکومتی سطح پر فروغ دینے کے سلسلے کو روکا جائے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق سے نوازے۔ آمین!