۲۰۰۷فروری

فہرست مضامین

کتاب نما

| ۲۰۰۷فروری | کتاب نما

Responsive image Responsive image

رُوح قرآن، کینتھ کریگ۔ مترجم: نیاز احمد صوفی۔ ناشر: علم و عرفان پبلشرز‘ ۳۴- اُردو بازار‘ لاہور‘ فون: ۷۳۵۲۳۳۲۔ صفحات: ۲۳۲۔ قیمت: ۲۰۰ روپے۔

قرآن جہاں مسلمانوں کے لیے سب سے مقدس اور اہم ترین کتاب ہے وہاں غیرمسلم مفکرین اور مستشرقین نے بھی اس کتاب میں بھرپور دل چسپی لی ہے۔ ستمبر ۱۹۷۲ء میں گون ولے‘ سائیوسی کالج‘ کیمبرج‘ برطانیہ کے جناب کینتھ کریگ کی قرآن کے موضوع پر The Mind of the Quranکے عنوان سے کتاب منصہ شہود پر آئی جس کا اُردو ترجمہ محترم نیازاحمد صوفی نے   کیا ہے۔ یہ کتاب مصنف کی ایک اور کاوش ’وقوعِ قرآن‘ کے ساتھ جوڑ کر پڑھنے کے لیے ہے۔  ان کاکہنا ہے کہ ’’قرآن کے ان گہرے فکری تصورات کو توجہ سے سمجھنے کی کوشش کی جائے جو آج کے جدید دور میں ہماری رہنمائی کرسکتے ہیں‘‘۔

فاضل مصنف نے نہایت فلسفیانہ انداز میں یہ کتاب تحریر کی ہے اور قرآن کے حوالے سے ایک غیرمسلم کے ذہن میں جو کچھ ہوسکتا ہے وہ سب اس کتاب میں واضح طور پر جھلکتا دکھائی دیتا ہے۔ جس تحقیق اور وسعت ِ مطالعہ کے ساتھ یہ کتاب رقم کی گئی ہے اس سے فاضل مصنف کی   محنت‘ خلوص اور احترام واضح طور پر ایک قاری کے سامنے آتا ہے۔ کتاب کے بہت سے مندرجات سے اختلاف کی واضح گنجایش موجود ہے‘ تاہم ایک غیرمسلم کی ذہنی سطح کی بلندی کا اعتراف بھی ازحد ضروری ہے۔ فاضل مصنف نے جن موضوعات پر بحث کی ہے وہ بھی دل چسپی سے خالی نہیں‘ مثلاً حفظِ قرآن کے لحاظ سے مفہوم اور اہمیت‘ تجوید کا فن‘ محکمات اور متشابہات پر بحث‘ تفاسیر کی روایت‘ انسان کی پریشانی‘ مغفرت کی گزارش‘ لا الٰہ الا اللہ‘ زمین کی تقدیس‘ خدا کے دیدار کی خواہش‘ ہدایت نامہ اور ہدایت کے عنوانات کے تحت نہایت عالمانہ بحث کی گئی ہے۔ مذہب اور سائنس‘ سیکولرازم‘ قرآن کے ساتھ آج کے مسلمانوں کا رویہ جیسے موضوعات بھی شاملِ کتاب ہیں‘ تاہم فاضل مصنف کا جھکائو صوفی ازم کی طرف محسوس ہوتا ہے۔ شاید اس کا ترجمہ بھی اسی لیے ایک صوفی صاحب نے کیا ہے۔ مجموعی طور پر قرآنیات سے دل چسپی رکھنے والوں کے لیے یہ ایک فکرانگیز کتاب ہے‘ نیز بین المذاہب مکالمہ کرنے والوں کو اس کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے۔ (محمدالیاس انصاری)


علوم الحدیث ‘ فنی فکری اور تاریخی مطالعہ، مؤلف: ڈاکٹرعبدالرؤف ظفر۔ ناشر: نشریات‘ ۴۰-اُردوبازار‘ لاہور۔ صفحات: ۹۸۹۔ قیمت: ۵۰۰ روپے۔

اُردو زبان میں علوم الحدیث پر لکھی جانے والی کتب میں یہ ایک غیرمعمولی جامع کتاب ہے‘ جس میں سند کی اہمیت اور مستشرقین کے اسناد پر اعتراضات کے جائزے‘ علوم الحدیث‘ مطالب حدیث کے آداب‘ مقامِ صحابہؓ اور کتب معرفۃ الصحابہ‘ اسماء الرجال اور جرح و تعدیل کا تذکرہ ہے۔ اس کے علاوہ تخریجِ حدیث‘ علم الانساب‘ علم معرفۃ الاسماء والکنیٰ‘ معرفۃ الالقاب‘ علم الطبقات اور نقدِحدیث پر سیرحاصل گفتگو کی گئی ہے۔ اسی طرح تاریخ حدیث کے تحت علمِ حدیث کے ارتقا‘ ابتدائی دور کے معروف مراکز حدیث اور محدثین کی خدمات کے ساتھ ساتھ برعظیم کے مراکزِ حدیث اور مدارس‘ نیز عصرِحاضر کے مراکزِ حدیث کا ذکر بھی شامل ہے۔

حدیث کے حوالے سے مختلف مکاتب فکر کے نظریات کا احاطہ کرتے ہوئے ان کے اعتراضات اور شبہات کا جائزہ لیا گیا ہے۔ اس باب میں فتنہ انکارحدیث‘ برعظیم کے منکرین حدیث اور موجودہ صورت حال کا تذکرہ بھی زیربحث لایا گیاہے۔ تحریک استشراق‘ مستشرقین کے حدیث پر اعتراضات کا جائزہ‘ معروف مستشرقین کے تذکرے سے حدیث پر جدید رجحانات سامنے آتے ہیں۔ آخر میں مولانا امین احسن اصلاحی کا نظریۂ حدیث بھی بیان کیا گیا ہے۔

بحث میں اعتدال کا راستہ اختیار کیا گیا ہے۔ حوالہ جات‘مصادر اور مراجع کتاب کی جامعیت میں مزید اضافے کا باعث ہیں۔ اسلوب تحریر سلیس ہے۔ مؤلف اس وقیع علمی کاوش پر مبارک باد کے مستحق ہیں۔ (محمد احمد زبیری)


رسولؐ اللہ کے مقدس آنسو، ظہورالدین بٹ۔ ادارہ ادبِ اطفال‘ رحمن مارکیٹ‘ غزنی سٹریٹ‘ اُردو بازار‘ لاہور۔ صفحات: ۱۶۰ ۔قیمت: ۱۱۰ روپے۔

نبیؐ رحمت للعالمین دنیا کی وہ واحد ہستی ہیں کہ جن کے بارے میں سب سے زیادہ لکھا اوربولا گیا ہے۔ اُن کی زندگی کا ایک ایک کرشمہ تاریخ کے صفحات پر اس طرح محفوظ ہے کہ ایسی مثال کسی اور شخصیت کے حوالے سے دیکھنے میں نہیں آئی۔ آپؐ کی ذاتِ گرامی کی اتباع اسی صورت میں ممکن تھی کہ جب آپؐ کی زندگی کا ہر پہلو سب کے سامنے ہوتا۔ سیرت نگاری کی اس عظیم اور اہم روایت کی ایک سعادت اب جناب ظہورالدین بٹ کے حصے میں اس طرح آئی ہے کہ انھوں نے حدیث کے عظیم ذخیرئہ کتب سے آپؐ کی ذاتِ مبارکہ کا ایک پہلو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔ فاضل مصنف نے یقینا نہایت محنت سے ۸۷ ایسی احادیث کو اس کتاب میں الگ الگ عنوان کے تحت جمع کیا ہے جن میں آپؐ کے مقدس آنسوئوں کا ذکر ہے۔ صبر کا پیمانہ کب‘کیسے اور کیوں چھلکا اور کس طرح آپؐ کی مبارک آنکھوں میں مقدس آنسو اُمڈے‘ آپؐ کو اپنی اُمت سے کس قدر پیار تھا جس کے باعث اُمت کی فکر آپؐ  کو ہر وقت دامن گیر رہتی تھی اور اُن کی فلاح و مغفرت کے لیے آپؐ  کس طرح رقت آمیز انداز میں رب کے سامنے رویا کرتے تھے۔ اپنے صحابہؓ سے آپؐ کو    کس قدر اُلفت تھی کہ اُن کے دکھ‘ درد اور غم کو اپنا سمجھ کر آپؐ روتے تھے۔ اُن کی جدائی اور اہلِ خانہ کی یادوں کے منظر آپؐ  کو کس طرح رُلاتے تھے___ یہ ہیں وہ موضوعات جن کے تحت مصنف نے احادیث کو تلاش کیا اور جمع کر کے ہمارے سامنے پیش کیا ہے۔ یہ خوب صورت اور مجلد کتاب سیرتؐ کے اس گوشے سے ہمیں بخوبی روشناس کراتی ہے۔ (م - ا - ا )


اسلام اور تہذیب مغرب کی کش مکش ، ایک تجزیہ ، ایک مطالعہ، ڈاکٹر محمدامین۔ ناشر: بیت الحکمت‘  لاہور۔ملنے کا پتا: کتاب سراے‘ فرسٹ فلور‘ الحمدمارکیٹ‘ غزنی سٹریٹ‘ اُردو بازار‘ لاہور‘ فون: ۷۳۲۰۳۱۸۔ فضلی بک ‘ سپرمارکیٹ‘ اُردو بازار‘ کراچی۔ فون: ۲۲۱۲۹۹۱-۰۲۱۔ صفحات: ۲۱۳۔ قیمت: ۱۳۰ روپے۔

۶۰ کا عشرہ پاکستان میں نظریاتی کش مکش کا زمانہ تھا کہ جب سوشلزم‘ کمیونزم اپنی پوری قوت کے ساتھ اسلام کے ساتھ نبردآزما تھا جس کا مقابلہ اسلام پسندوں نے ڈٹ کر کیا۔ اس وقت جنگ کا ذریعہ کتاب اور رسائل و جرائد تھے۔ ۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کے بعد کا زمانہ ایک بار پھر نظریاتی کش مکش کا زمانہ ہے۔ اب جنگ کا ذریعہ کتاب‘ رسائل و جرائد ہی نہیں ریڈیو‘ ٹی وی‘ انٹرنیٹ وغیرہ سبھی شامل ہیں۔ اسلام پسندوں کے پاس کتاب اور رسائل و جرائد کے ذریعے جواب دینے کے مواقع تو ہیں مگر وہ ریڈیو‘ ٹی وی‘ انٹرنیٹ وغیرہ پر قطعی غیرمؤثر ہیں۔ کیونکہ ٹی وی اور ریڈیو ان کے قبضے میں نہیں ہیں۔ جو نظریاتی کش مکش اسلام اور تہذیبِ مغرب کے درمیان جاری ہے‘ ڈاکٹر محمد امین نے نہایت اختصار مگر جامعیت کے ساتھ اس کا تجزیہ اور مطالعہ پیش کیا ہے۔

کتاب دو حصوں پر مشتمل ہے۔ حصہ اوّل میں ’مغربی تہذیب کے بارے میں مسلمانوں کے ممکنہ رویے‘ کے عنوان کے تحت تین رویوں کو زیربحث لایا گیا ہے‘ یعنی آیا’مغربی تہذیب کو     رد کردیا جائے‘ یا ’مغربی تہذیب کو قبول کرلیاجائے‘ یا پھر یہ کہ ’مغربی تہذیب سے مفاہمت کرلی جائے‘۔ اس کے بعد مصنف نے ہررویے کے مؤیدین کے دلائل پیش کرنے کے بعد اپنا نقطۂ نظر پیش کیاہے کہ ہمیں مغربی تہذیب کو رد کر دینا چاہیے کیونکہ اس کی فکری اساسات اور جہانی تصور (world view) ہماری فکری اساسات اور جہانی تصور کے بالکل متضاد ہے۔ اس دنیا میں ہماری کامیابی اور آخرت میں فلاح کا سائنٹی فک اور مجرب نسخہ یہ ہے کہ ہم اپنے نظریۂ حیات (اسلام) سے محکم طور پر وابستہ ہوجائیں اور اس کے تقاضوں کے مطابق زندگی بسر کریں۔ لیکن مغربی تہذیب کو رد کرنے اور اپنے نظریے پر اصرار کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہمیں مغرب سے سیاسی‘ معاشی یا اسلحی جنگ کرنا چاہیے۔ ہرگز نہیں‘ بلکہ ہمیں مغرب کے ساتھ مفاہمت اور مکالمے کا طریقہ اختیار کرنا چاہیے تاکہ ہم کسی کش مکش میں الجھے بغیر اپنے نظریۂ حیات کے مطابق تیزرفتار ترقی کرسکیں۔ اس مفاہمت کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ اگر کسی مسلم ملک پر حملہ ہو تواس کی مزاحمت اور مدافعت نہ کی جائے۔

کتاب کا دوسرا حصہ ’مسلم معاشرے پر مغربی تہذیب کے اثرات - پاکستانی تناظر میں‘ کے عنوان سے ہے جس میں تین طرح سے مباحث کو سمیٹا گیا ہے۔ مبحث اوّل: ’مغربی تہذیب کے اثرات: اسباب و مظاہر‘ مبحث دوم: ’مغربی تہذیب کے اثرات مختلف شعبہ ہاے حیات میں‘ مبحث سوم: ’کچھ علاج اس کا بھی اے چارہ گراں ہے کہ نہیں؟‘

فاضل مصنف نے نہایت عرق ریزی سے اس موضوع کو حوالہ جات سے سجایا ہے۔ اسلامی فکر وتہذیب کا مغربی فکروتہذیب سے جدولی انداز میں سات عنوانات کے تحت خوب صورت انداز میں موازنہ (صفحہ ۲۰‘۲۱) کیا ہے اور اس موضوع پر گہرا اور وسیع مطالعہ کرنے کے خواہش مند حضرات کے لیے صفحہ ۲۳‘ ۲۹ پر اُردو انگریزی کتب کی ایک طویل فہرست بھی درج کر دی ہے جس میں    ۲۳ اُردو ماخذ‘ جب کہ ۴۳ انگریزی کتب و جرائد کے نام درج ہیں۔ صفحہ ۵۲‘ ۵۳ پر مسلم اور مغربی نظریۂ علم کے جدولی موازنے میں پانچ موضوعات کو شامل کیا گیا ہے۔ فاضل مصنف نے قرآن و سنت سے استدلال کے ساتھ ساتھ کلام اقبال سے بھی خوب استفادہ کیا ہے۔ صفحہ ۷۳ پر دنیاوی ترقی کا اسلامی و مغربی ماڈل ایک جدول کی صورت میں موازنے کے لیے پیش کیا ہے۔

مصنف کے بعض افکار سے اختلاف کے باوجود وہ قابلِ مبارک باد ہیں کہ انھوں نے اس اہم ترین مسئلے کوسادہ اور آسان زبان میں نہایت اختصار مگر جامعیت کے ساتھ کتابی صورت میں پیش کیا۔ (م - ا - ا )


چھٹی عرب اسرائیل جنگ، نصرت مرزا۔ ناشر: رابطہ پبلی کیشنز‘ ۷۱۰-یونی شاپنگ سنٹر  ‘ صدر‘ کراچی۔ صفحات:۳۶۸۔ قیمت: ۳۰۰ روپے۔

لبنان‘ لبنانی عوام‘ حزب اللہ اور حسن نصراللہ اُمت مسلمہ کی بالخصوص اور پوری دنیا کی بالعموم توجہ کا مرکز بنے ہیں۔ زیرنظر کتاب ترتیب دے کر مصنف نے حزب اللہ کے ہاتھوں اسرائیل کی شکست کا پردہ چاک کیا ہے۔ کتاب کا انتساب حسن نصراللہ کے نام کیا گیا ہے جو حزب اللہ کے جنرل سیکرٹری ہیں‘ جن کی قیادت میں حزب اللہ اور لبنانی عوام نے اسرائیل کے خلاف ’عوامی جنگ‘ جیتی اور اسرائیل جسے سوپرپاور امریکا کی مکمل آشیرباد حاصل تھی گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوا۔

مصنف نے اس ۳۳ روزہ عوامی جنگ کے لمحہ بہ لمحہ احوال مرتب کر کے ایک اہم خدمت سرانجام دی ہے جو مشرق وسطیٰ میں رونما ہونے والے اس اہم واقعے کے بارے میں جاننے والے شائقین کے لیے گائیڈبک کا درجہ رکھتی ہے۔

کتاب کو چار ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلا باب لبنان پر اسرائیلی حملہ‘ دوسرا باب مصنف کے تجزیے‘ تیسرا باب دورانِ جنگ‘ چوتھا باب مصنف کے خیالات‘ پانچواں باب نئے  مشرق وسطیٰ کی تقسیم پر مشتمل ہے۔ کتاب پڑھ کر نہ صرف تازہ ترین جنگ سے مکمل آگہی حاصل ہوتی ہے بلکہ اس قضیے کا تاریخی پس منظر بھی سامنے آتا ہے۔ مختلف نقشہ جات‘ تصاویر اور معلومات پر   مبنی چارٹس‘ اقوام متحدہ کی قرارداد کا متن‘ لبنان و اسرائیل کا تعارف‘ صہیونی ریاست کا قیام‘     عرب اسرائیل جنگوں پر ایک نظر‘ اعلان بالفور اور دیگر معلومات نے کتاب کی اہمیت دوچند کر دی ہے۔ زیرنظرکتاب لبنان‘ اسرائیل اور حزب اللہ کے بارے میں تاریخی دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے۔(عمران ظہور غازی)


علامہ اقبال اور ان کے ہم عصرمشاہیر، پروفیسر محمدسلیم۔ ناشر: سنگِ میل پبلی کیشنز‘ لوئرمال‘ لاہور۔ صفحات: ۲۰۲۔ قیمت: ۲۰۰ روپے۔

علامہ اقبال ایک نابغۂ روزگار شخصیت تھے۔ انھوں نے نہ صرف اپنے عہد کو متاثر کیا بلکہ آنے والے زمانوں کے لیے بھی‘ شعروشاعری کا ایسا نمونہ چھوڑ گئے جسے پڑھتے ہوئے‘ نہ صرف برعظیم بلکہ ساری دنیا کے انسان اپنے اندر ایک خاص طرح کی حرکت و حرارت‘ جوش و ولولہ اور ایک مثبت اور تعمیری جذبہ محسوس کرتے ہیں___ ہم جیسے اُن کے لاکھوں عامی مداحوں کے علاوہ‘ ان کے بیسیوں نام ور معاصرین نے بھی اُن کی شخصیت اور شاعری سے گہرا تاثر قبول کیا۔

زیرنظر کتاب میں مصنف نے اقبال اور ان کی ۱۱معاصر شخصیتوں (قائداعظم‘ نواب بھوپال‘ مولانا مودودی‘ خلیفہ عبدالحکیم‘ سلیمان ندوی‘ تاثیر‘ ابوالکلام‘ محمدعلی جوہر‘ راس مسعود‘ مسولینی اور نہرو) کے باہمی تعلقات پر روشنی ڈالی ہے۔ ان کے بقول: ’’برصغیر کے معاصر مشاہیر نے کلامِ اقبال اور فکراقبال کو نہایت شان دار الفاظ میں خراجِ عقیدت پیش کیا ہے اور اقبال نے بھی ان شخصیات کے علم و فضل اور ان کی خدمات کا اعتراف کیا ہے‘‘ (دیباچہ)۔ مشاہیر کا‘ اقبال کو خراجِ عقیدت پیش کرنا تو سمجھ میں آتاہے‘ مگر اقبال کیوں کر‘ ان شخصیات کے مدّاح تھے؟ اس لیے کہ اقبال‘ ان کے اندر کوئی نہ کوئی ایسی خوبی دیکھتے تھے‘ جو نہ صرف مسلم معاشرے کی بھلائی اور اُمت مسلمہ کی خیرخواہی کے نقطۂ نظر سے قابلِ تعریف تھی‘ مثلاً اقبال‘ قائداعظم کو ہندی مسلمانوں کا نہایت پُرخلوص‘ قابل اور دیانت دار لیڈر سمجھتے تھے۔ ’علومِ اسلامیہ کی جوے شیر‘ سید سلیمان ندوی اس لیے اقبال کے نزدیک قابلِ احترام تھے کہ وہ قدیم و جدید علوم کا بے نظیر امتزاج تھے۔ بقول اقبال: اس رئیس المصنفین کا وجود علم و فضل کا دریا ہے جس سے سیکڑوں نہریں نکلی ہیں اور ہزاروں سوکھی کھیتیاں سیراب ہوتی ہیں۔ علمی معاملات میں علامہ اکثر انھی سے رجوع کرتے تھے۔ اقبال چاہتے تھے کہ سید سلیمان لاہور منتقل ہوجائیں تاکہ اہلِ پنجاب ان کے علم و فضل سے استفادہ کرسکیں۔ محمدعلی جوہر کی بے باکی‘ طبیعت کا سوزوگداز اور اُمت مسلمہ کے لیے ان کی دردمندی اور جوش و جذبہ علامہ کے نزدیک قابلِ تحسین تھا۔ ان کی وفات پر علامہ اقبال نے فارسی میں ایک نہایت دل گداز مرثیہ لکھا تھا جس کا معروف شعر ہے    ؎

خاکِ قدس او را بہ آغوشِ تمنّا درگرفت
سوے گردوں رفت زاں را ہے کہ پیغمبر گذشت

(بیت المقدس کی سرزمین نے اسے اپنی آغوش تمنّا میں لے لیا اوروہ اس راستے سے آسمانوں کی طرف چلا گیا جہاں سے پیغمبر گزرے تھے۔)

بحیثیت مجموعی سبھی مضامین دل چسپ اور معلومات افزا ہیں۔ پروفیسر محمدسلیم اپنی بات کو سادہ مگر دل نشیں اسلوب میں کہنے کا سلیقہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے ہرمضمون میں متعلقہ کوائف و حقائق مربوط انداز میں یک جا کر دیے ہیں جس سے ان شخصیات کی تصاویر کے ساتھ اقبال سے اُن کے روابط کی نوعیت اور خود اقبال کی وضع داری‘ ملن ساری‘ رکھ رکھائو اور دانش و بینش کی جھلکیاں بھی نظر آتی ہیں۔(رفیع الدین ہاشمی)


اسلام میں خدمت ِ خلق کا تصور، مولانا سید جلال الدین عمری۔ ناشر: اسلامک ریسرچ اکیڈیمی‘ کراچی۔ ملنے کا پتا: مکتبہ معارف اسلامی‘ ڈی-۳۵‘ بلاک ۵‘ فیڈرل بی ایریا‘ کراچی-۷۵۹۵۰۔ صفحات: ۱۷۵۔ قیمت: درج نہیں۔

عام طور پر فلاحی معاشرے کے لیے آج مغرب کی طرف نظریں اُٹھتی ہیں اور بطورِ مثال مغرب ہی کو پیش کیا جاتا ہے۔ زیرنظر کتاب میں‘ مولانا سید جلال الدین عمری نے جو علمی حلقوں کی ایک معروف شخصیت ہیں‘ اسلام کے سماجی بہبود اور خدمتِ خلق کے جامع تصور کو پیش کرتے ہوئے اس پہلو کو اجاگر کیا ہے کہ دنیا میں صرف اسلام ہی وہ واحد نظریۂ حیات ہے جو بلاامتیاز مذہب و ملّت اور مسلم و غیرمسلم کی تمیز کیے بغیر نوعِ انسانی کی خدمت اور بہبود پر زور دیتا ہے۔ مغرب اپنے تمام تر انسانی حقوق کے دعووں کے علی الرغم سماجی بہبود کے لیے عملاً قومیت اور نسلی تعصب کا شکار ہے‘    نیز انسانی رشتوں کے تقدس اور حرمت کو کھو چکا ہے۔ اسلام اس لحاظ سے بھی برتری رکھتا ہے کہ وہ حکومت کے ساتھ ساتھ فرد کو بھی اپنے مجبور و پس ماندہ بھائیوں کی امداد اور حُسنِ سلوک کا پابند ٹھیراتا ہے۔ اس ضمن میں حقوق و فرائض کا باقاعدہ تعین کیا گیاہے اور اسے قانونی تحفظ بھی دیا گیا ہے۔

کتاب میں خدمت ِ خلق کے مختلف پہلوئوں‘ رفاہی خدمات کے دائرے‘ فرد‘ اداروں اور سماجی تنظیموں کی ذمہ داریوں اور دائرۂ کار کا جائزہ لیا گیا ہے۔ ایک باب میں خدمتِ خلق کے    غلط تصورات اور پائی جانے والی غلط فہمیوں اور بے اعتدالیوں کا تذکرہ بھی ملتا ہے جو اپنی جگہ    بہت اہمیت کا حامل ہے۔ اس بات کو بھی واضح کیا گیا ہے کہ اسلام وقتی امداد کے بجاے مشکلات کے پایدار حل پر زور دیتا ہے‘ نیز خدمتِ خلق کے لیے اخلاص شرطِ لازم ہے۔ یہ شرط سماجی بہبود کے  تصور کو انسانیت کی معراج پر پہنچا دیتی ہے۔ آخر میں حوالہ جاتی کتب کی فہرست کتاب کی جامعیت میں مزید اضافے کا باعث ہے۔ بلاشبہہ مصنف نے موضوع کا حق ادا کردیا ہے اور یہ کتاب   اپنے موضوع پر ایک سند کی حیثیت رکھتی ہے۔ کتاب کا انگریزی ترجمہ The Concept of Social Services in Islam کے نام سے بھی کیا جاچکا ہے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ خدمتِ خلق کے اس تصور کو عام کیا جائے اور حکومتی و عوامی سطح پر منظم انداز میں عوام کی فلاح و بہبود پر توجہ دی جائے تاکہ عملاً اسلام کے حقیقی فیوض و برکات کا مشاہدہ کیا جاسکے۔یہ ہمارے معاشرے کے بڑھتے ہوئے بگاڑ کا ناگزیر تقاضا بھی ہے۔(امجد عباسی)

تعارف کتب

  • گلدستہ، کلیم چغتائی‘ نظرثانی: اسحاق جلالپوری‘ ادارت و تدوین: ڈاکٹر محمدافتخار کھوکھر۔ صفحات: ۶۴۔ قیمت:درج نہیں۔ [دعوہ اکیڈیمی اسلام آباد کا شعبہ بچوں کاادب گلدستہ کے نام سے بچوں کے لیے آڈیو‘ وڈیو‘   ڈاٹ نیٹ اور مجموعۂ مضامین کا اہتمام کرتا ہے۔ اب اس رسالے کی شکل میں میٹرک سے انٹر کی طالبات و طلبہ کے لیے اسلامی خط و کتابت کورس کا آغاز کیا گیا ہے۔ یہ اس کا پہلا یونٹ ہے جس میں قرآن‘ حدیث‘ سیرت‘ فقہ‘  معلومات عامہ وغیرہ کے ۱۹ عنوانات کے تحت بے حد مفید متنوع مضامین ہیں۔ ہر یونٹ کے ساتھ جواب لکھنے    کے لیے سوال نامہ ہے۔ یہ یونٹ ایک اچھا معیاری ماہنامہ بھی ہے۔]