۱۸ جنوری بھی اب تحریکی زندگی کی یادوں میں ایک گراں لمحہ بن گیا ہے۔ لیجیے محترم بھائی سید فضل معبود بھی رخصت ہوئے! انا للّٰہ وانا الیہ رٰجعون۔
یہ خبر بجلی کی کوند کی طرح دل پر پڑی اور میں ایک لمحے کے لیے سکتے میں آگیا۔ جانتا ہوں کہ موت سب سے بڑی حقیقت ہے۔ بلاشبہہ ہر انسان فانی ہے اور ہم سب اس قافلے کے شریک ہیں۔ منزل تو وہی ہے‘ دنیا تو بس ایک درمیانی مرحلہ ہے لیکن اس سب سے بڑی حقیقت اور تقدیر سے اس ناگزیر ملاقات کو ہم بھولے رہتے ہیں۔ برادر محترم مولانا سید فضل معبود کے لیے فوری دعاے مغفرت کے بعد جو خیال دل و دماغ پر چھایا رہا وہ رفیق اعلیٰ سے ملاقات کے بارے میں اپنی غفلت کا احساس تھا۔ نہ معلوم کیوں ان کے انتقال کی خبر غیرمتوقع لگی اور اس کو اپنی بھول جان کر دل بے چین ہوگیا۔
فضل معبودصاحب سے میری پہلی ملاقات اسلامی جمعیت طلبہ کی نظامت اعلیٰ کے زمانے میں ہوئی۔ سرحد کے دورے پر آیا تو وہ پشاور کی جماعت کے امیر تھے اور جس محبت‘ شفقت اور بے تکلفی سے ملے وہ آج تک دل پر نقش ہے۔ میں نے جن استاد سے قرآن پاک پڑھا ان کا تعلق بھی صوبہ سرحد سے تھا۔ پھر سرحد کے متعدد افراد سے مختلف حیثیتوں سے ملاقات رہی اور تعلقات استوار ہوتے رہے۔ لیکن میں اپنے حقیقی احساسات کے اظہار میں بخل کا مرتکب ہوں گا اگر یہ نہ کہوں کہ وہ پہلے پشتون تھے جن کے بارے میں مجھے یہ احساس ہوا کہ وہ پشتون تہذیب اور روایت کا نمونہ ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے اندر یوپی اور دلّی کی ثقافت کے بھی بہت سے پہلو لیے ہوئے ہیں۔ ڈاکٹر خورشیدالاسلام کا ایک معرکہ آرا مقالہ شبلی نعمانی پر ہے جس کا پہلا جملہ ہے:شبلی وہ پہلے یونانی ہیں جو ہندستان میں پیدا ہوئے۔ میں کوئی ایسی بات کہنے کی جسارت تو نہیں کرسکتا لیکن اپنے اس احساس کا اظہار کیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ سید فضل معبود پشتون اور گنگاجمنا کی ثقافت کا سنگم تھے۔ زبان و بیان اور اظہار و ادا میں وہ دونوں ثقافتوں کا مرقع تھے اور کبھی ان کی زبان سے شین قاف اور تذکیر و تانیث میں کوئی لغزش محسوس نہیں کی۔ گفتگو میں نرمی اور مٹھاس‘ اُردو زبان کے اسرار و رموز کا ادراک‘ نکھرا ادبی ذوق‘ علمی بالیدگی اور ان سب کے ساتھ خلوص اور سادگی۔ فضل معبود کی شخصیت میں بلا کی کشش تھی۔ چھوٹوں کے ساتھ برابری کا معاملہ کرنا اور ان کوعزت دینا کوئی ان سے سیکھے۔
مولانا فضل معبود یکم اپریل ۱۹۱۸ء کو ضلع مردان کے قریب ایک دیہات تہامت پور میں پیدا ہوئے۔ ایم اے تک تعلیم حاصل کی۔ اُردو سے خصوصی شغف تھا اور اس زبان میں ایم اے کیا۔ ترجمان القرآن کے ذریعے مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ سے واقفیت ہوئی اور یہ رشتہ ۱۹۳۸ء میں قائم ہوا۔ ۱۹۴۵ء میں جماعت اسلامی کے دوسرے کل .ُ ہند اجتماع میں جو پٹھان کوٹ میں منعقد ہوا‘ شرکت کی اور اپریل ۱۹۴۵ء میں جماعت کی رکنیت اختیار کی۔ جو عہد اپنے رب سے تجدید ایمان کے ساتھ کیا اسے آخری لمحے تک نبھایا اور ۱۸ جنوری ۲۰۰۷ء کو جان جانِ آفریں کے سپرد کی۔
جماعت اسلامی میں مختلف ذمہ داریوں پر رہے۔۱۹۴۶ء سے ۱۹۶۷ء تک پشاور شہر کے امیر رہے۔ ۱۹۵۰ء میں مرکزی شوریٰ کے رکن بنے اور ۲۰۰۰ء تک شوریٰ میں اپنا کردار ادا کرتے رہے۔ کچھ عرصہ ریلوے کے محکمے میں ملازمت کی۔ ۱۹۵۸ء سے ۱۹۶۴ء تک روزنامہ انجام پشاور کے سب ایڈیٹر رہے۔ تین بار سنت یوسفی پر عمل کرتے ہوئے تحریکِ اسلامی کی خدمت کے صلے میں قیدوبند کی صعوبتیں ہنسی خوشی برداشت کیں۔ اس طرح دو سال سے زیادہ مدت جیل میں گزاری۔ کچھ عرصے مرکزی اُردو سائنس بورڈ کے ڈائرکٹر رہے۔بی ڈی ممبر بھی بنے اور الخدمت کے محاذ سے مریضوں کی دیکھ بھال کی۔ ریڈیو پاکستان سے پشتو اور اُردو میں دینی اور سماجی موضوعات پر تقاریر کا سلسلہ بھی ۱۹۶۰ء سے ۲۰۰۱ء تک جاری رہا۔ غرض اجتماعی زندگی کے ہر شعبے اور میدان میں کچھ نہ کچھ کردار ادا کیا۔
الحمدللہ آج صوبہ سرحد تحریک اسلامی کا بڑا گہوارا ہے اور صوبے کے طول و عرض میں دعوتی ساتھیوں کی فصل بہار ہے۔ لیکن ایک مدت تک میرے لیے صوبہ سرحد نام تھا محترم خان سردار علی خان کا‘ محترم تاج الملوک کا اور سید فضل معبود کا۔ ہر ایک کا اپنا اپنا مقام اور اندازِکار۔ گویا ع
ہر گلے را رنگ و بوئے دیگر است
علمی اور ادبی ذوق‘ تحریکی اخوت اور ہمہ جہت ثقافتی دل چسپی کے اعتبار سے میرا سب سے زیادہ قرب برادرم فضل معبود ہی سے رہا۔ چراغِ راہ کی وجہ سے ایک خصوصی تعلق قائم ہوگیا۔ پھر شوراؤں میں ہمیں مل بیٹھنے اور ایک دوسرے کو سمجھنے اور باہمی استفادہ کرنے کا موقع ملا۔ ۱۹۶۴ء میں لاہور کی جیل میں ایک ہی بیرک میں ہم ساتھ رہے۔ میرے بزرگ ہونے کے باوجود انھوں نے کبھی مجھ سے خوردوں والا معاملہ نہیں کیا۔ محبت کے ساتھ جو احترام انھوں نے دیا‘ اس نے مجھے ان کا گرویدہ کر دیا۔ اسلام سے وفاداری‘ مولانا مودودی سے محبت‘ تحریک کے منہج کے باب میں مکمل یک سوئی‘ دعوت اور تنظیم دونوں میں سلیقہ‘ طبیعت میں بلا کی نفاست‘ معاملات میں کھرا ہونا اور تعلقات میں خلوص کے ساتھ مٹھاس‘ ان کی شخصیت کے ناقابلِ فراموش پہلو تھے۔ تحریک کے سچے مزاج شناس تھے اور ۱۹۵۷ء کے ماچھی گوٹ کے معرکے میں ان کی یک سوئی اور پھر کوٹ لکھپت میں دستور جماعت کی تدوین میں ان کی معاونت‘ مَیں کبھی بھول نہیں سکتا۔
مولانا سید فضل معبود کو رسائل کے پورے پورے ریکارڈ رکھنے کا شوق تھا۔ مجھے ان کی ذاتی لائبریری دیکھنے کا موقع نہیں ملا لیکن مجھے یقین ہے کہ ان کے پاس کتب و رسائل کا بڑا قیمتی ذخیرہ ہوگا۔ فضل معبود صاحب کا حافظہ بھی بہت اچھا تھا اور جب بھی ہمیں وقت ساتھ گزارنے کا موقع ملا ہے احساس ہوا کہ انھیں چھوٹی چھوٹی باتیں بھی خوب یاد رہتی تھیں۔صحت کی خرابی کے باعث آخری زمانے میں مجھے ان سے ملنے کا موقع نہیں ملا جس کا افسوس رہے گا۔
الحمدللہ انھوں نے بھرپور تحریکی زندگی گزاری اور اس پورے عرصے میں پاے استقامت میں کوئی کمزوری نہیں آئی۔ نئے لوگوں کی حوصلہ افزائی بھی کی اور اپنے رب اور تحریکی ساتھیوں سے وفاداری کا معاملہ کیا۔ اللہ تعالیٰ ان کی نیکیوں اور خدمات کو قبول فرمائے‘ بشری کمزوریوں اور کوتاہیوں سے درگزر فرمائے اور انھیں جنت کے اعلیٰ مقامات پر جگہ دے ع
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے