نومبر۲۰۰۷

فہرست مضامین

جدیدیت، سائنس اور الہامی دانش کا مسئلہ

طارق جان | نومبر۲۰۰۷ | اسلام اور مغرب

Responsive image Responsive image

کچھ عرصہ سے بعض انگریزی اخبارات میں سوچی سمجھی سازش کے تحت قرآن کو نعوذباللہ‘ ماضی کی ایک روایتی دانش،مسلمانوں کے ماضی کو ایک خیالی دنیا (یوٹوپیا) اوراسلام کی طرف ہماری آرزوے مراجعت کو ’پتھر کے دور‘ کی طرف پلٹنے کے مترادف گردانا جارہا ہے۔ یہ بھی کہا جارہا ہے مذہب اور سائنس میں کوئی ازلی تصادم ہے۔ درج ذیل مضمون میں انھی مقدمات پر ایک نظر ڈالی گئی ہے۔

جدیدیت کیا ہے؟ یہ اصرار کرناکہ جدیدیت (modernity) اور مغربیت لازم وملزوم ہیں اور کسی معاشرے کے جدید بننے کے لیے ضروری ہے کہ وہ مغربیت کو اپنائے‘ دراصل ایک پیچیدہ سوال کوسادگی سے پیش کرنا ہے۔ ایسی روش نہ صرف بدنیتی پر مبنی ہے بلکہ اپنے اندر خطرناک سیاسی مضمرات بھی سموئے ہوئے ہے۔ میں اسے بدنیت روش اس لیے کہتا ہوں کہ اس سے مسلمانوں کی ’بیماری‘ کے لیے مغرب کے تجویز کردہ نسخے کی بُو آتی ہے۔ کیلی فورنیا میں ’ورلڈ افیرز کونسل‘ کے سامنے سابق وزیراعظم برطانیہ ٹونی بلیئر کی تقریر میں مغربی اقدار کے ذریعے سے مسلم عوام کی تبدیلیِ قلب کی بات کی گئی ہے۔ اہل مغرب اچھی طرح جانتے ہیں کہ مسلمانوں کی اسلام سے وابستگی انھیں مغربی تسلط کے خلاف مزاحمتی جذبہ عطا کرتی ہے۔ اور یہ کہ وہ اسی صورت میں مغرب کے سامنے سرتسلیم خم کریں گے کہ ان کے وجود سے اسلام کو نکال کراُنھیں نیا روپ اور نیا وجود دے دیا جائے۔

اسی طرح یہ دعویٰ کرنا بھی حددرجہ سادگی اور بھولپن ہوگا کہ دنیا نے صرف موجودہ عہد میں ہی جدیدیت دیکھی ہے۔ درحقیقت ہر عہد کی اپنی ایک جدیدیت ہوتی ہے جس کا تعلق انسانی حالات کی بہتری سے ہے‘ جو حکومتی کارکردگی اور مستعدی کو یقینی بنانے سے لے کر پیداوار کے ذرائع میں بڑھوتری مواصلاتی نظام کی ترقی پر محیط ہے۔ کوئی بھی معاشرہ جو ان نتائج کو حاصل کرلیتا ہے جدید معاشرے سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ مذہب اور تاریخ کے بندھنوں سے آزاد خودی اور ذات (self) کے وہ نظریات‘ جو نفس انسانی کو ہر چیز کے بارے میں مختارکل اور فیصلہ کن صفات کا حامل قرار دیتے ہیں ،محض انھیں جدیدیت کے اجزاے ترکیبی نہیں قرار دیا جاسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ معاشرتی عقائد و اقدار خواہ کچھ بھی ہوں‘ ہر عہد کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ سماجی اور تاریخی تقاضوں کے جواب میںدلیل اور عقل کوبروے کار لائے۔ لیکن اظہار عقل یا دلیل (reason) کے روبہ عمل ہونے کے لیے یہ ضروری نہیں کہ وہ تمام ورثے کے انہدام کی حد تک پہنچ جائے۔ کیونکہ یہ وہ نقطہ ہے جہاں اس کا تعلق زندگی سے باقی نہیںرہتا۔

سائنس اور روحانی اقدار

اسی طرح یہ بھی کوئی صحیح سائنس فہمی نہیں ہوگی اور نہ زندگی سے متعلق مسائل کے بارے میں مذہبی رویے کی صحیح توضیح ہی ہوگی اگر یہ سمجھ لیا جائے کہ سائنس توصرف ایجابی اور حسابی عمل (empiricism) ہے جس کا اخلاقی وروحانی اقدار سے کوئی رشتہ نہیں ہوتا اور مذہب محض غیرعقلی توہمات ہیں جو انسان کی ترقی میں حائل ہیں۔

تھامس ایس کوہن (Thomas S. Kuhn) نے اپنی تحسین یافتہ تحریر The Structure of Scientific Revolution (سائنسی انقلاب کا ہیکل ترکیبی)میں آزاد منشوں اور لادینوں کی اس متشددانہ فکر کا تارو پور بکھیر کر رکھ دیا ہے۔

اس لیے اخلاقی اقدار کو نظرانداز کرکے سائنسی علوم کو اختصاصی یا استثنائی مقام دینا اور سمجھنا کہ جیسے یہ انسانوں اور ان کے احوال سے کوئی بالا مجموعۂ خیالات وفکر ہیں بذات خود سیکولر متشددانہ سوچ ہے جسے علمی اورعقلی معیارات باطل قرار دیتے ہیں۔

شاید اسی لیے البرٹ آئن سٹائن سے متعلق یہ واقعہ پڑھ کر ہمیں کوئی اچنبھانھیں ہوتا۔ بقول ڈاکٹر برائین سوِم (Brian Swimme) جو بذات خود ایک سائنس دان ہے :

آئن سٹائن بارہا مایوسی کاشکار ہوا کیونکہ وہ تخلیق کائنات کے ضمن میں اپناایک ذاتی تجربہ دوسروں کو سمجھانے میں ناکام رہا۔ جب اس سے پوچھا گیا کہ اسے کس چیز کی تلاش ہے؟ تو اس کاجواب تھا: ’’میں جاننا چاہتا ہوں کہ ذاتِ قدیم [اللہ] سوچتی کیسے ہے؟ باقی تو تفصیل ہے۔

جیساکہ سائنس دان فریڈہائل (Fred Hoyle) نے اپنے گہرے مشاہدے کی بنیاد پر یہ بات کہی:

مجھے ہمیشہ یہ بات بڑی عجیب لگی کہ جہاں سائنس دانوں کی اکثریت دین و مذہب سے پرہیز کرتی ہے، فی الاصل ان کے تصورات پر مذہب کا اثر اور غلبہ علماے دینیات سے بھی زیادہ دیکھنے کو ملا ہے۔

اسی طرح الہامی مذہب اور سائنس کو ایک دوسرے کے مقابل صف آرا دکھانا اب علمی اور سائنسی حلقوں میں ایک فرسودہ اور ازکار رفتہ بات سمجھی جانے لگی ہے۔ کیونکہ تصادم اورکش مکش کا   یہ تصورر ان کی حقیقی روح سے مطابقت نہیں رکھتا۔ ان دونوں کی ایک مختلف النوع تاریخ ہے‘ یعنی کبھی تو ان میں عمل داری (territory) کے سوال پر کشیدگی اور تنائو کی کیفیت نظر آتی ہے اور کبھی دونوں ساجھی بن کر ہاتھ میں ہاتھ دے کر ساتھ چل رہے ہوتے ہیں۔

اصول و نظریات کے ٹکرائو کا تصادم ماڈل (Conflict model) جو وائٹ (White) اور ڈریپر (Draper) نے صدی بھر پہلے وضع کیا تھا، اور جسے لبرل لادین حضرات مذہب پر پھبتیاں کسنے کے لیے اکثر حوالے کے طور پر پیش کرتے رہے ہیں، اس کا اعتبار قریب قریب ختم ہوچکا ہے۔ اس کے مقابلے میں ایسا بیش بہا تحقیقی موادموجود ہے جو یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ مغرب میں سائنسی علوم کی نمود اور ترویج میں ان مذہبی تعلیمی اداروں کا بڑا ہاتھ ہے جو چر چ (کلیسا) کے قائم کردہ تھے۔ ان میں یسوعی فرقہ اور متکلمین (Jesuits and Scholastics) نمایاں گروہ ہیں‘ جب کہ اسلامی دنیا میں دینی مدارس (روایتی اسکولوں) نے مربوط فنون کے وہ علما اور حکما پیدا کیے جو بہ یک وقت دینیات، کارگاہ فطرت اور سماجی علوم میں یگانۂ روزگار تھے۔ خود نظام سرمایہ داری، جو جدیدیت کی جان ہے، اپنی ترقی اور ارتقا کے لیے پروٹسٹنٹ ضوابط اخلاق کی ممنون ہے۔ اس موضوع پر معروف جرمن ماہر عمرانیات میکس ویبر (Max Weber) کی کتاب ایک جان دار تحریر ہے۔

جدید یت کا منفی رُخ

آج کی دنیا کے لیے سائنس کی جو بھی اہمیت ہو اور انسانی احوال کی بہتری اور مادی نمو میں اس کا جو بھی کردار رہا ہو، اس نے ساتھ ہی مسائل کا ایک انباربھی کھڑا کر دیا ہے جو مسلسل اور مستقل بنیادوں پر حل طلب ہیں۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں یہ مسائل ابھی چنداں نمایاں نظر نہیں آتے لیکن صنعتی مغرب کو اسی سائنس کے ہاتھوں نت نئی مصیبتوں کا سامنا ہے جو جدیدیت کا مخصوص تحفہ ہیں۔ ٹکنالوجی نے انسان کو شرفِ انسانی سے محروم کر دیا ہے۔ اس کو قدرتی سادہ ماحول سے نکال کر مشینی اختراعات (gadegetry) کی دنیا میں اُلجھا دیا ہے جس نے ایک ایسے ذہنی رویے کو جنم دیا ہے جو بقول پروفیسر تارنس (Tarnas) ہر مسئلے کا حل ٹکنالوجی میں ’حقیقی وجودی محرکات کی قیمت‘ پر تلاش کرتا ہے۔جدیدیت نے فضائی آلودگی، ماحولیاتی نظم (ecosystems) اور اوزون (Ozone) تہہ کی بربادی کے مسائل بھی پیدا کر دیے ہیں۔ سماجی حوالوں سے بھی جدیدیت کے اثرات و نتائج ہولناک ہیں۔ جرائم کی شرح کبھی اس بلند سطح پر نہ تھی جیسی آج ہے۔ شراب نوشی، نشہ بازی، بے مہار جنسی طرزعمل، غیر شادی شدہ مائوں اور ناجائز اولاد کی بھرمار،   جنسی امراض خبیثہ، برہنگی کا رواج (nudity) اورنفسیاتی امراض___ یہ سب اس دور جدید کے شاخسانے ہیں۔

اور تو اور جنگوں میں انسانوں کا قتل عام نئی حدود کو چھو رہا ہے۔ اب فرد سے فرد کا دُوبدُو مقابلہ نہیں ہوتا جہاں عمل اور ردعمل کا فیصلہ انفرادی انسانی سطح پر ہوتا تھا۔ جہاں فتح و شکست کو ذاتی تجربے کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔ جب قاتل اور مقتول آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھتے اور لڑائی اور مقابلے کے ہر پہلو کو شجاعت، انتقام، نجات، پچھتاوے اور المیے سے بھرپور انسانی ڈرامے کے روپ میںپڑھ سکتے تھے۔ جدیدیت نے اس جنگ کوبھی غیر انسانی کر دیا ۔ اب انسان قتل نہیں کیے جاتے بلکہ دور پار سے چلائے گئے عام بربادی کے ہتھیاروں کے ذریعے پوری کی پوری آبادیاں ہلاک کر دی جاتی ہیں جو اپنے پیچھے ریڈیائی لہروں سے آلودہ پانی کے ذخائر اور مسخ شدہ لاشوں کے ڈھیرچھوڑ جاتے ہیں۔  یقینا یہ سب کچھ جدیدیت کا کوئی خوب صورت روپ نہیں دکھاتا۔

جدیدیت سے متعلق ڈاکٹر پپِن (Pippin) کا تجزیہ ایک ایسا مواخذہ ہے جس میں جدیدیت اور اس کے نتائج و عواقب کے متعلق مغربی سوسائٹی کے اندیشوں کا نچوڑ سامنے آ جاتا ہے۔ وہ کہتا ہے: ’’جدیدیت نے ہم سے ایک ایسی ثقافت کا وعدہ کیا تھا جس کے زیرسایہ لوگ خوف سے آزاد، معقول، مائل بہ جستجو اور خودکفیل ہوں گے۔ لیکن بدرجۂ آخر ہمیں ایک ریوڑ نما سوسائٹی ملی جس کے افراد حیران و سرگرداں، ڈرپورک، مقلّد اور روایت پسند ’بھیڑیں‘ ہیں___ یک قطبی‘ پیش پاافتادہ اور لش پش ثقافت‘‘۔ ڈنکن ولیمز (Duncan Williams) کا خیال ہے کہ مغربی دنیا اور اس کی تہذیب و ثقافت ’’تشدد اور انسانیت سوز بہیمیت سے لبریز ہوچکے ہیں‘‘۔

اس چیز نے مشہور برطانوی مورخ ٹائین بی (Toynbee) کو جدیدیت اور مغرب کے مستقبل کے بارے میں پریشان کر دیا تھا۔ اس میں حیرت کی کوئی بات نہ تھی کیونکہ اسے جو کچھ نظر آرہا تھا وہ روزِ روشن کی طرح عیاں تھا۔ اپنی موت سے کچھ پہلے اس نے لکھا: ’’دنیا کی تباہی کا مستقبل قریب میں واقع ہونا جسے انبیا و رسل نے وجدانی طور پر مشاہدہ کیا، اُس کے قدموں کی چاپ اب سنائی دینے لگی ہے۔ آج اس منتہا کا قریب الوقوع ہونا محض ایمان بالغیب کی بات نہیں بلکہ مشاہدے اور تجربے کی بنیاد پر ایک مانی ہوئی حقیقت اور شدنی واقعہ ہے‘‘۔

میکس ویبر تو یہاں تک کہہ گیا ہے کہ ’جدیدیت: افسرشاہی عقلیت پسندی کا آہنی پنجرہ ہے‘ جس نے ہمارے اس جدید دور کی زندگی کے ہر پہلو کو گرفت میں لیا ہوا ہے۔ ویبر کا خیال ہے کہ یہ آہنی پنجرہ اس قابل نہیں کہ اس میں محبوس رہ کر زندگی گزاری جائے۔ اس کا اندازہ ہے کہ مستقبل میں ’’اس بے بہا ترقی کے اختتام پر بالکل نئے مصلحین اور مبلغین سامنے آئیں گے۔    یا پھرپرانے تصورات اور نظریات کو دوبارہ ایک عظیم حیات نو ملے گی ‘‘۔

مذھب کا تخلیقی کردار

اسلام جیسے الہامی ادیان و مذاہب نے کبھی مادی ترقی کی مخالفت نہیں کی۔ فی الحقیقت اسلام ایک ہمہ گیر اور ہمہ جہت ترقیاتی ماڈل کا علم بردار ہے۔ اور اس نے انسانی زندگی میں مادی بہتری اور خوش حالی لانے کے لیے ہمیشہ سائنسی ترقی میں مدد دی۔ قرآن بنیادی طور پر سائنس کی کتاب نہیں لیکن اس نے فطرت (nature) اور اس کے طریق عمل کے بارے میں جو بھی خبر دی ہے وہ سچ ثابت ہوئی۔

کوپر نیکائی انقلاب (Copernican Revolution)، نے اپنے لازم اثر اور نتیجے کے طور پر انسان کی اصل پوزیشن بدل کر رکھ دی کہ وہ اشرف المخلوقات نہیں بلکہ لاتعداد سیاروں اور سیاروں سے مزین بے کراں کائنات کی سطح پر محض ایک حقیر مخلوق ہے۔ یہ نظریہ اب نئے تصورات اور انکشافات کے سامنے اپنا علمی دبدبہ اور وقار کھو بیٹھا ہے۔ جدید فلکیاتی دریافتوں پر مبنی تازہ ترین تصور یہ ہے کہ ہماری زمین اس مسلسل پھیلتی کائنات کے عین مرکز میں واقع ہے۔ یہی بات ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ کائنات پھیل کر جتنی بھی وسیع ہو جائے، نسل انسانی سے آباد یہ زمینی کرّہ ہمیشہ اس کے مرکز میں رہے گا۔ انسان کی یہ صلاحیت کہ نظم کائنات اس کی ذہنی گرفت میں ہے اس کی غیرمعمولی خصوصیت کا ایک اور پرکشش اور جاذب نظر پہلو ہے۔ ڈاکٹر پال ڈیویز (Paul Davies) جیسے سائنس دان یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ انسان میں یہ حیرت انگیز صلاحیت کیوں اور کیسے موجود ہے کہ وہ کائنات کے رازوں کا متلاشی رہاہے اور انھیں منکشف کرتا رہتا ہے۔ اس کا یہی مطلب بنتا ہے کہ انسان اور کائنات میں اس کے مقام و مرتبے کی ایک خاص اہمیت ہے۔ قرآن انسان کے اسی شرف اور تکریم کے لیے توصیفی کلمات ادا کرتے ہوئے اس کی ذہنی، جذباتی اور اخلاقی ترکیب کی بہترین تشکیل کو ’احسن تقویم‘ قرار دیتا ہے۔

اسی طرح پھیلتی بڑھتی کائنات کا تصورسائنسی دنیا میں ایک نسبتاً تازہ خیال ہے۔ اس سے پہلے مسلسل وسعت پذیر کائنات کی بات آئن سٹائن جیسے لوگوں کو بھی پریشان کر رہی تھی۔ شاید یہ بات سن کر لوگوں کو اچنبھا ہو کہ اپنے ’عمومی نظریۂ اضافیت‘ (General Therory of Relativity) کے ساتھ ساتھ ہی آئن سٹائن نے ۲۲ نومبر ۱۹۱۴ء کو یہ بھی معلوم کر لیا تھا کہ کائنات کی وسعت پذیری کا حسابی امکان موجود ہے۔ چونکہ اس کا یہ اکتشاف اس وقت کے سائنسی عقائد کے خلاف جا رہا تھا، اس نے ’کائنات غیر مبدلات‘ (cosmological constants) کی حسابی اصطلاح کی آڑ میں اپنی نئی دریافت کو دنیا سے چھپالیا مبادا اس سے اس وقت تک کے قائم نظریات کہیں تحلیل نہ ہوجائیں۔

لیکن چھے برس بعد ہبل (Hubble's)کی رصدگاہ نے وسعت پذیر کائنات کی تصدیق کردی جسے آئن سٹائن نے ابتداء.ً  نظرانداز کرنے کی کوشش کی تھی۔ کیا واقعی کائنات کی وسعت پذیری ایک   نیا تصور تھا؟ جی ہاں، لیکن صرف سائنس کے لیے‘ قرآن کے لیے نہیں جس نے صدیوں پہلے کہہ دیا تھا:

وَالسَّمَآئَ بَنَیْنٰھَا بِاَیْدٍ وَّ اِنّاَ لَمُوْسِعُوْنَ o (الذاریٰت ۵۱:۴۷)

آسمان کو ہم نے اپنے زور سے بنایا ہے اور ہم (اس کی پوری قدرت رکھتے ہیں اور) اُسے وسعت دیتے جارہے ہیں۔

قرآن میں چاند کا اس انداز سے (بھی) ذکر موجودہے کہ یہ ایک جداگانہ وجود ہے اور یہ (محض) سورج کے انعکاس سے ہی منور نہیں جو سائنس کا اب تک کا مسلّمہ نظریہ تھا۔ آج نئی فلکیاتی دریافتیں بتاتی ہیں کہ اس کی تنویر (روشنی) خود اس کے اپنے وجود سے ہے۔ بہ قول ڈاکٹر سوِم   (Swimme) چاند کوئی ’’منجمد تودہ نہیں ہے___ بلکہ ایک اہم واقعہ (event) ہے جو موجوداتِ عالم میں ہر لمحہ تھرتھرا رہا ہے‘‘۔

مذہبی عقیدہ کس طرح کائنات کی صحیح تصویر کشی تک رہنمائی کرتا ہے۔اس کی ایک نمایاں مثال پروفیسر عبدالسلام کے تحقیقی مقالے ’حسنِ توازن کے تصورات اور مادے کا بنیادی نظریہ‘  (Symmetry concepts and the fundamental Theory of matter) میں دیکھی جاسکتی ہے۔ پروفیسر موصوف کے کام کو ان نظریات کا حصہ مانا جاتا ہے جنھوں نے ۲۰ویں صدی کی بہت سی دریافتوں اور ترقیات کی اساس مہیا کی۔ اپنے شان دارتحقیقی کام میں پروفیسر عبدالسلام نے دکھایا ہے کہ کائنات اور اس کے اجزا میں اعتدال اور تناسب ہے جس نے اسے توازن کا حسن عطا کیا ہے۔ اپنے مقالے کا لب لباب اور نچوڑ وہ قرآن کے درج ذیل الفاظ میں بیان کرتے ہیں:

مَا تَرٰی فِیْ خَلْقِ الرَّحْمٰنِ مِنْ تَفٰوُتٍ فَارْجِعْ الْبَصَرَ ھَلْ تَرٰی مِنْ فُطُوْرٍ o ثُمَّ ارْجِعْ الْبَصَرَ کَرَّتَیْنِ یَنْقَلِبْ اِلَیْکَ الْبَصَرُ خَاسِئًا وَّھُوَ حَسِیْرٌ o (الملک ۶۷: ۳-۴) تم رحمن کی تخلیق میں کس قسم کی بے ربطی نہ پائو گے۔ پھر پلٹ کر دیکھو، کہیں تمھیں کوئی خلل نظر آتا ہے؟ بار بار نگاہ دوڑائو۔ تمھاری نگاہ تھک کر نامراد پلٹ آئے گی)۔

ڈاکٹر عبدالسلام کا تحقیقی کام جس کے لیے انھیں نوبل انعام ملا، فطرت میں موجود کمزور اور برق مقناطیسی(electromagnetic) قوتوں کے اتحاد و اتصال کو ثابت کرتا ہے کہ یہ دراصل ایک ہی قوت کے دو پہلو ہیں۔ یہ خیال انھیں اصلاً الہامی تصور توحید اور تخلیق کی وحدت سے حاصل ہوا جس کا ظہور ایک ذات واحد ___ خالق کائنات ___ سے ہوا ہے۔

چنانچہ سائنس کی مخالفت تو دُور کی بات ہے، مذہبی عقائد کا کردارتو تخلیقی عوامل کارہا ہے۔ جب بھی انھوں نے دیکھا کہ سائنس کائناتی سچائی کی تلاش میں غلط نتائج پر پہنچ رہی ہے تو انھوں نے اس کی لغزشوں کی تصحیح کی۔ آج تک کوئی ایسی قابل قبول شہادت سامنے نہیں آئی جس سے ثابت ہوتا ہو کہ دین و مذہب سائنسی طرز فکر و عمل کی ضد ہیں۔ اِکّا دکّا واقعات جیسے ۱۹۷۰ء کی دہائی میں کسی سعودی مسلمان نے ٹیلی ویژن توڑ دیا‘ یا برسوں پہلے کچھ ’علما‘ نے لائوڈ اسپیکروں کے استعمال کی ممانعت کا فتویٰ دیا، یہ قطعاً ثابت نہیں کرتے، نہ ان کی یہ شرح و تعبیر جائز ہے کہ سائنس کی کوئی منظم مخالفت ہوئی۔ پھر ایسی خطائوں کو صرف علماے دین سے جوڑ دینا بھی غلط ہے۔ ایک شاذ قول یا واقعے کو اجتماعی رویہ اور اصول و کلیہ قرار دینا بجاے خود غیر سائنسی رویہ ہے جو اِن اصحاب کو تو بالکل نہیں جچتا جو واضح حقائق کو نظرانداز کرتے ہوئے سائنسی حجت کا مقدمہ لڑتے پھرتے ہیں۔

اور اگر بالفرض ٹیلی ویژن کی بھی دین دار حلقوں کی جانب سے مخالفت کی بھی گئی تھی تو یہ کسی مشینی ایجاد کی مخالفت نہیں تھی بلکہ اس کے ممکنہ تہذیبی اثرات تھے جنھیں وہ وقت سے پہلے دیکھ رہے تھے۔

آج اکیسویں صدی میں ٹیلی ویژن کے مضر اثرات بذات خود ایک حقیقت ہیں اور پچھلے دوعشروں میں ان پر متعدد نوعیت کا تخلیقی کام ہوا ہے جو ہمیں بتاتا ہے کہ اس سے یادداشت کُند ہوجاتی ہے، عرصہ توجہ (attention span) مختصر ہو جاتا ہے، تحریر پڑھنے میں تکلیف ہوتی ہے اورمسلسل بیٹھنے سے جسمانی ساخت میں بگاڑ پیدا ہو جاتا ہے۔ مارشل میکلوہن (Marshal Mcluhan) کے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا سے متعلق مطالعے اپنی تخلیقی جدت اور گہرائی کے حوالے سے غیر متنازع ہیں۔ وہ جب ٹیلی ویژن کو ’ابلہ وبے مغز (idiot) باکس‘ کا نام دیتا ہے تو بالکل حیرت نہیں ہوتی۔

اسی طرح یہ باور کرنا اور کراتے رہنا کہ ہماری ساری کوتاہیاں اور کمزوریاں ان علما کی وجہ سے ہیں‘ ایک سنگین غلط بیانی ہے۔ مثلاً اس کا تو یہ مطلب بنتا ہے کہ پاکستان پریہی علماے دین حضرات حکمران رہے ہیں، ہماری سول سروس کو یہی بزرگ چلا  رہے ہیں، ہمارے تعلیمی ادارے انھی کے ہاتھوں میں ہیں اور آزادی کے بعد کی چھے عشروں کے دوران ہماری قومی پالیسیاں یہی علما طے کرتے رہے ہیں۔ یہ جو آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے‘ کیا اس کے ذمہ دار یہی مولوی حضرات ہیں؟ ایسا اخذ کردہ نتیجہ قطعاً غیر سائنسی ہوگا۔ بالخصوص جب یہ رویہ ان لوگوں کا ہو جو راگ تو سائنس کا الاپتے ہیں لیکن سامنے کے حقائق سے منہ موڑتے ہیں۔ ایسی روش خود عقلی سوچ کی تذلیل ہے، سنجیدہ بحث و مباحث میں پامال خیالات اورتراکیب نہیں چلتیں۔ اگر ماضی کی پالیسیوں کے لیے کسی کو موردِ الزام ٹھیرانا ہی ہے تو انگلی چار وناچار پڑھے لکھے مغربی نقالوں کی طرف ہی اُٹھے گی جنھوں نے اپنے آپ کو بڑا جدیدیت پرست سمجھا اور جتایا لیکن ایک اچھی حکمرانی کی ابجد سے بھی ناآشنا نکلے۔

جدیدیت بذات خود کوئی شے نھیں

اسی طرح قرآن پاک کو ’استہزاء.ً موصولہ دانش‘ (received wisdom) قرار دینا ایک ناقابل معافی جسارت ہے۔ قرآن اس لحاظ سے تو موصولہ ہے کہ وہ ایک الہامی کتاب ہے لیکن اسے اس معنی میں موصولہ کہنا جیسے وہ کوئی قدیم اور فرسودہ رسومات وعقائد کا مجموعہ ہو جو مسلمانوں کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ڈالتا ہے‘ صریح کذب بیانی ہے۔ یہ قرآن کااعجاز ہے کہ وہ منکرین پر اپنا مدّعا ظاہر نہیں کرتا بلکہ ان کے انکار میں اضافہ کرتا ہے۔ یہ صرف ان لوگوں پر اپنے معانی و مفہوم ظاہر کرتا ہے جو اس کے مضامین اور خبروں پر غور کرنے کے لیے سنجیدہ ہوں اور جن کا اللہ رب العزت اور یوم الحساب پر پختہ ایمان ہو۔

یہ سب کہنے کے باوجودیہ پوچھا جاسکتا ہے کہ کیا مسلمان جدیدیت سے نفرت کرتے ہیں؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ مسلمان جدیدیت سے نفرت نہیں کرتے۔ بات صرف اتنی ہے کہ وہ جدیدیت کے لادین اور مادہ پرست مندرجات کو ہضم نہیں کر پاتے۔مثلاً جدیدیت کے حوالے سے سیمویل ہن ٹنگٹن (Samuel Huntington) ہی کو لے لیں، اس کے نزدیک مغربی تہذیب عیسائیت ،تکثیریت (pluralism)‘ انفرادیت پسندی (individualism) اور قانون کی حکمرانی سے بن پاتی ہے۔ عیسائیت اس کے نزدیک مغربی تہذیب کا اولین جزو ہے۔

جدیدیت بذات خود کوئی شے نہیں بلکہ اس کے نزدیک یہ اس وقت وجود میں آتی ہے جب مغربی تہذیب کے چاروں عناصر باہم مربوط ہوتے ہیں۔ باالفاظ دیگر جدیدیت مذکورہ    چار بنیادی عناصر سے مرکب ہے۔

جدیدیت کا جو نسخہ ہن ٹنگٹن نے تجویز کیا ہے اسلام کے لیے اس میں کوئی مسئلہ نہیں۔ کیونکہ عیسائیت کا عقیدۂ تثلیث اگربیچ میں سے نکال دیں تو باقی تصورات اور موضو عات سب اسلامی ہیں۔ اگر جدیدیت سے مراد جدت پسندی اور نئے تخلیقی اُفق ہیں یا اس سے مراد حسنِ کارکردگی ہے جس سے معاشرے کی پیداواری صلاحیت بڑھے، یا یہ کہ جدیدیت سے مراد انتظام و انصرام کے  وہ مختلف النوع نظام ہیں کہ جن سے یہ اہداف حاصل ہوسکیں تو پھر اسلام کو اس سے کوئی ضد نہیں۔ اسی طرح جدیدیت اگر سائنس کو افزودگی اور نمو کا انجن سمجھتی ہے یا خالص عقلیت کا تقاضا کرتی ہے  تو اسلام کو یہ بھی قبول ہے۔ شرط صرف ایک ہے کہ جدیدیت اُس الہامی دائرے کے اندر رہ کر   یہ ساری تگ و تاز کرے، جس کااحترام ایک مسلمان معاشرہ لازمی قرار دیتاہے۔

لیکن اسلام جدیدیت کے بے مہار اسراف و تبذیرکو، یا ایسی حدود ناآشنا انفرادیت کو جو سوسائٹی کی ترجیحات سے اغماض برتتی ہے، قبول کرنے پر آمادہ نہیں۔ اسی طرح سوقیانہ بازاری پن اور بہیمانہ نفس پرستی کی علَم بردار مغربی تاجرانہ ثقافت کو بھی اسلام ناقابل برداشت سمجھتا ہے۔ مسلمان معاشرے میں یہ ناہنجار بالکل بار نہیں پاتا‘ اس لیے مردود ہے۔