طارق جان


اپنی کتاب Engaging Secularism - limits of a Promise میں مَیں نے سیکولرزم کے اجزائے ترکیبی بیان کرتے ہوئے یہ بات کہی تھی کہ یہ فکری فتنہ، اُمورِ دُنیا سے متعلق نہیں ہے بلکہ اپنے جوہر اور روح میں الحاد ہے، جو جمہوری نظامِ معاشرت میں اپنے کرخت خدوخال کے ساتھ مصنوعی مسکراہٹیں بکھیرتا دبے پائوں چلا آتا ہے، تاکہ انسانی جبلت میں خداپرستی کی رگِ مدافعت  مشتعل نہ ہوپائے اور اس طرح معاشرے کو اپنے ڈھب پر آہستہ آہستہ لے آئے۔

بعض اہل علم نے اس موقف پر ردِعمل دیتے ہوئے کہا کہ ’’سیکولرزم ، خدا کی حقیقت مطلق کو چیلنج نہیں کرتا اور نہ اس کی نفی کرتا ہے، بلکہ یہ تو محض دُنیاوی اُمور کے انتظام و انصرام سے متعلق ایک فکروعمل کا نام ہے‘‘۔ ایسے افراد سیکولرزم کے اجزائے ترکیبی کی نوعیت اور مقتضیات سے لاعلم تھے۔

تووہ عناصر ترکیب کیا تھے جن کی طرف میں اشارہ کر رہا تھا؟

وہ تھے: انسانیت پرستی، ارتقائیت، عقلیت ، ایجابیت اور سائنسیت۔ یہاں پر ان چاروں فکری اجزا کا مختصر الفاظ میں ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں تاکہ ان کی نوعیت کا تعین ہوسکے۔

  • انسانیت پرستی (Humanism): انسان ہی زندگی کے ہرمعاملے میں فکروعمل کا محور ہے، اور وہ اپنے فیصلوں میں کسی مذہبی یا الہامی توجیہ کا محتاج اور پابند نہیں۔
  • ارتقائیت  (Evolutionism): کائنات ہو یا اس کا مکین انسان، وہ کسی مافوق الفطرت ہستی کی تخلیق نہیں ہے۔ اس کا ماخذ محض ایک چھوٹا سا خلیہ ہے، جو سادگی سے پیچیدہ شکل اختیار کرتا چلا گیا، اور یہ اب بھی خود بخود ارتقائی عمل سے گزر رہا ہے جس کے نتیجے میں مذہبی بھول بھلیوں سے نکل کر مابعد الطبیعیاتی تصورات سے جان چھڑا کر سائنس کے سائے میں آگیا ہے۔
  • عقلیت (Rationalism): اگرچہ علم کے ماخذ مختلف ہوسکتے ہیں لیکن آخرکار یہ انسانی عقل ہے، جو منطق اور دلیل کے ذریعے صحیح علم تک رسائی حاصل کرتی ہے، جب کہ عقیدہ اور ایمان اس کی راہ میں رکاوٹ پیدا کرتے ہیں۔
  • ایجابیت (Positivism):جو چیز مشاہدے اور تجربے سے ثابت نہیں، وہ قابلِ بھروسا نہیں۔ مذہبی عقائد انسانیت کا بچپن ہیں، جب کہ اس کی بلوغت انسانی فکر کو مافوق الفطرت تصورات اور توہمات سے آزاد کرنا ہے تاکہ مشاہدے اور تجربے سے اخذ شدہ نتائج اس کی رہنمائی کرسکیں۔
  • سائنسیت (Scienticism): سائنسی سوچ ہی علم اور سچائی کا مستند ذریعہ ہے۔ الہامی و مذہبی علوم پر مبنی دعوے سچائی سے مطابقت نہیں رکھتے۔

ان سارے نظریات اور فلسفہ ہائے حیات میں سے کوئی بھی، خدا کے مطلق وجود کو تسلیم کرنے کی طرف نہیں جاتا۔ یہ سب اپنی فطرت اور اپنی روح میں الحادی ہیں۔

اسی لیے جن ممالک میں بھی سیکولرلزم یا لبرل ازم موجود ہے، وہاں الحاد روز افزوں پھل پھول رہا ہے، مثلاً بعض ماہرین سماجیات کے مطابق فرانس میں ۴۰ فی صد ملحدین ہیں۔ جاپان میں ۸۷ فی صد، برطانیہ ویلز وغیرہ میں ۷۳ فی صد ، جرمنی میں ۶۴ فی صد اور امریکا میں ۴۳ فی صد ملحدین ہیں (یہ حتمی اعداد و شمار نہیں ہیں)۔ خود پاکستان میں ملحدین کی تعداد ۷فی صد کہی جارہی ہے۔ ادب بالخصوص شاعری، الحادی اشاعت کا ایک مؤثر وسیلہ ہے جس کی بہت سی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں، جیسے:

یہ جو تکتا ہے آسماں کی طرف
کوئی رہتا ہے آسماں میں کیا؟

جون ایلیا

غرض الحادی فکر میں بنیادی اہمیت اس برتر و اعلیٰ ہستی کی نفی ہے، جو وجہ تخلیق عالم ہے۔ اس فکر کا یہ دعویٰ ہے کہ اس کائنات کا مکین انسان خود بخود کسی ارتقائی عمل سے وجود میں آیا ہے۔ ملحدین کی سب سے بڑی دلیل ہے کہ اگر خدا موجود ہے تو اس سے پہلے کیا تھا، یعنی خدا کا بھی کوئی موجد ہے یا نہیں؟الحاد پرستوں کی یہ سوچ بھی ہے کہ خدا اپنی جگہ کوئی وجود نہیں رکھتا اور نہ وہ اپنے آپ میں موجود ہے۔ یہاں پر اس فکر اور اس کے مقابل موحدین، خدا پرستوںکے موقف کو ایک مختصر مکالمے کی شکل میں پیش کر رہا ہوں تاکہ بات واضح ہوسکے۔

 موّحدین (خدا پرست): اگر آپ کے موقف کو تسلیم کر لیا جائے کہ خدا نہیں ہے اور نہ یہ عالم کائنات اس نے بنایا ہے، تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ سب کیسے ہوا ؟

ملحدین (منکرینِ خدا): یہ سب مادے کی کرشمہ سازی ہے، وہی ابتداءہے، وہی حال ہے اور وہی انتہا ہے۔ مطلب یہ کہ مادہ موجود ہے اور موجد ہے، وہی عالم کائنات کا باعث ہے اور وہی تغیر پذیر ارتقائی عمل کا محرک ہے۔

 موّحدین :آپ اندھے بہرے مادے کو شعور کا اعلیٰ مقام دے رہے ہیں۔ شعور تو اپنی جگہ روحانی خصوصیات کا حامل امر ہے۔ آپ دو متضاد چیزوں کو ملا رہے ہیں۔ چلیے ،تھوڑی دیر کے لیے مان لیتے ہیں کہ مادہ سب چیزوں پر حاوی ہے اور یہ بھی مان لیتے ہیں کہ مادے کے وجود سے بالاتر کوئی تخلیقی قوت نہیں، تو پھر اس کا مطلب یہ ہوگا کہ آپ مادے کو شعور کا درجہ دے رہے ہیں، حالانکہ شعور اور مادیت دونوں فی نفسہٖ متضاد وجود ہیں۔

ملحدین : نہیں، اس بات میں خدا کا وجود کہاں سے آ گیا؟ ہمارا موقف یہ ہے کہ مادہ ہی آخری ’سبب‘ (cause) ہے اور قطعی طور پر خود ہی موجود ہے ۔

 موّحدین  :یہ سوچ تو کئی گتھیوں میں اُلجھی ہوئی ہے ۔ اگر آپ سبب ( cause) اور علل (effect) کی بات کر رہے ہیں،تو یہ کبھی ختم نہ ہونے والی مراجعت (Hegelian regress) ہے، جس کی کوئی حد نہیں اور نہ اپنی جگہ یہ معقول سوال ہوگا کہ ’’اس سے پہلے کچھ نہیں تھا‘‘۔

ملحدین  : یہ سوال تو ا ُٹھے گا۔

 موّحدین : اسی سوال کا آپ جواب دیں کہ مادے سے پہلے کیا تھا ؟ مسئلہ یہ ہے کہ جب آپ ’سبب‘ اور’ علل‘ کی بات کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ’سبب‘ حرکت میں آ کر نتیجہ پیدا کرتا ہے۔ لیکن یہ بات نامکمل ہے ۔ کیا ’سبب‘ ،’ساکن‘(static) حالت سے خود بخود متحرک ہوگیا،یا اس کے پیچھے کوئی قوت محرکہ تھی جس نے اس میں جان پیدا کی اور یہ چل پڑا؟

ملحدین : بالکل،’ سبب‘ خود بخود حرکت میں آیا اور اس سے جو نتیجہ ( effect) پیدا ہوا، وہی ’سبب ‘سب کچھ بن گیا۔

 موّحدین :یعنی ’سبب‘ ، ’مادے‘ سے جدا کوئی شے نہیں بلکہ یہ سب کچھ مادہ ہی ہے۔

ملحدین : جی ہاں! ایسا ہی ہے، در اصل مادے کے پیچھے قوا نین فطرت (Natural Laws) ہیں، جو عالم کائنات کو چلا رہے ہیں۔

 موّحدین : چلیے صاحب، کم از کم پتہ چلا کہ یہ کھیل طبعی قوانین کا ہے ۔ اگر ایسا ہے تو آپ کی منطق کے مطابق طبعی قوانین، وجودِ کائنات کا باعث بنے، اس لیے لازماً پہلے سے موجود تھے۔

ملحدین : ایسا ہی ہے۔

 موّحدین : یہ بڑی حیرت کی بات ہے کہ طبعی قوانین، طبعی مادے کی غیر موجودگی میں بھی حرکت پذیر تھے۔ کیا طبعی قوانین کے بغیر کائنات وجود میں آسکتی ہے؟ یعنی مادہ تو عالم میں موجود ہو، مگر وہ طبعی قوانین سے ناآشنا ہو۔ حالانکہ دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم اور ملزوم ہیں۔ دوسرے لفظوں میں طبعی مادہ ہوگا تو طبعی قوانین ہوں گے۔ اسی طرح بتایئے کہ طبعی قوانین کی نوعیت کیا ہے؟ کیا یہ بھی حادثاتی وجود رکھتے ہیں؟ کیا یہ ساکن ہیں ،بے ترتیب اور نظم سے عاری وجود رکھتے ہیں؟ اگر ایسا نہیں ہے تو کیا پھر ان کے پیچھے کوئی مربوط، منضبط اور تخلیقی ذہن کار فرما ہے؟

ملحدین  :اس کے بارے زیادہ نہیں کہا جا سکتا۔

 موّحدین : کمال ہے، خدا سے متعلق تصورات کو تو آپ سائنسی عقل سے ماورا بے بنیاد مفروضہ قرار دیتے ہیں ، لیکن خود آپ کی ساری گفتگو مفروضوں پر مبنی ہے۔ جو اعتراض آ پ کو خدا کے وجود پر ہیں، وہی اعتراضات آپ کے تصورات پر لگائے جا سکتے ہیں ۔مثلاً: آپ کے نزدیک حتمی سبب (cause ) مادہ ہے، تو بتائیے وہ مادہ کیسے وجود میں آیا ؟ مادے سے پہلے کیا تھا؟ اس کا کیا کوئی جوا ز اور استدلال ہے؟ پھر طبعی قوانین کیسے مادی موجودات سے پہلے موجود تھے؟ یہ بھی مفروضہ سے زیادہ حقیقت نہیں۔بلاشبہہ، خدا کی ہستی کا اقرار کر نا، ہمارے ایمان وعقیدے کا معاملہ ہے، لیکن یہ بھی ماننا پڑے گا کہ خدا کے وجود کے بارے میں بے شمار شواہد موجود ہیں ۔

اس مکالمے میں الحادی دلائل پر نظر ڈالیں تو سوائے ہٹ دھرمی میں اس انکار کے کہ خدا ایک مفروضہ ہے، نہ کوئی شواہد ہیں نہ کوئی مؤثر دلائل ۔اگرچہ ملحدین میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو اپنے آپ کو انسان دوست (Humanist) اور Agnostic (لاادری) کہہ کر اپنا الحاد چھپاتے ہیں،مگر انھی میں پروفیسر آئزک اسیموو (م:۱۹۹۲ء - Isaac Asimov) کی سطح کے بعض دانش ور تسلیم کرتے ہیں کہ اُن کا الحاد ایک جذباتی رویہ ہے، جس کا عقل سے کوئی تعلق نہیں، کیونکہ وہ خدا کی عدم موجودگی کو ثابت نہیں کرسکتے اور نہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ خدا جیسی ہستی موجود نہیں ہے۔

کچھ عرصہ سے بعض انگریزی اخبارات میں سوچی سمجھی سازش کے تحت قرآن کو نعوذباللہ‘ ماضی کی ایک روایتی دانش،مسلمانوں کے ماضی کو ایک خیالی دنیا (یوٹوپیا) اوراسلام کی طرف ہماری آرزوے مراجعت کو ’پتھر کے دور‘ کی طرف پلٹنے کے مترادف گردانا جارہا ہے۔ یہ بھی کہا جارہا ہے مذہب اور سائنس میں کوئی ازلی تصادم ہے۔ درج ذیل مضمون میں انھی مقدمات پر ایک نظر ڈالی گئی ہے۔

جدیدیت کیا ہے؟ یہ اصرار کرناکہ جدیدیت (modernity) اور مغربیت لازم وملزوم ہیں اور کسی معاشرے کے جدید بننے کے لیے ضروری ہے کہ وہ مغربیت کو اپنائے‘ دراصل ایک پیچیدہ سوال کوسادگی سے پیش کرنا ہے۔ ایسی روش نہ صرف بدنیتی پر مبنی ہے بلکہ اپنے اندر خطرناک سیاسی مضمرات بھی سموئے ہوئے ہے۔ میں اسے بدنیت روش اس لیے کہتا ہوں کہ اس سے مسلمانوں کی ’بیماری‘ کے لیے مغرب کے تجویز کردہ نسخے کی بُو آتی ہے۔ کیلی فورنیا میں ’ورلڈ افیرز کونسل‘ کے سامنے سابق وزیراعظم برطانیہ ٹونی بلیئر کی تقریر میں مغربی اقدار کے ذریعے سے مسلم عوام کی تبدیلیِ قلب کی بات کی گئی ہے۔ اہل مغرب اچھی طرح جانتے ہیں کہ مسلمانوں کی اسلام سے وابستگی انھیں مغربی تسلط کے خلاف مزاحمتی جذبہ عطا کرتی ہے۔ اور یہ کہ وہ اسی صورت میں مغرب کے سامنے سرتسلیم خم کریں گے کہ ان کے وجود سے اسلام کو نکال کراُنھیں نیا روپ اور نیا وجود دے دیا جائے۔

اسی طرح یہ دعویٰ کرنا بھی حددرجہ سادگی اور بھولپن ہوگا کہ دنیا نے صرف موجودہ عہد میں ہی جدیدیت دیکھی ہے۔ درحقیقت ہر عہد کی اپنی ایک جدیدیت ہوتی ہے جس کا تعلق انسانی حالات کی بہتری سے ہے‘ جو حکومتی کارکردگی اور مستعدی کو یقینی بنانے سے لے کر پیداوار کے ذرائع میں بڑھوتری مواصلاتی نظام کی ترقی پر محیط ہے۔ کوئی بھی معاشرہ جو ان نتائج کو حاصل کرلیتا ہے جدید معاشرے سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ مذہب اور تاریخ کے بندھنوں سے آزاد خودی اور ذات (self) کے وہ نظریات‘ جو نفس انسانی کو ہر چیز کے بارے میں مختارکل اور فیصلہ کن صفات کا حامل قرار دیتے ہیں ،محض انھیں جدیدیت کے اجزاے ترکیبی نہیں قرار دیا جاسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ معاشرتی عقائد و اقدار خواہ کچھ بھی ہوں‘ ہر عہد کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ سماجی اور تاریخی تقاضوں کے جواب میںدلیل اور عقل کوبروے کار لائے۔ لیکن اظہار عقل یا دلیل (reason) کے روبہ عمل ہونے کے لیے یہ ضروری نہیں کہ وہ تمام ورثے کے انہدام کی حد تک پہنچ جائے۔ کیونکہ یہ وہ نقطہ ہے جہاں اس کا تعلق زندگی سے باقی نہیںرہتا۔

سائنس اور روحانی اقدار

اسی طرح یہ بھی کوئی صحیح سائنس فہمی نہیں ہوگی اور نہ زندگی سے متعلق مسائل کے بارے میں مذہبی رویے کی صحیح توضیح ہی ہوگی اگر یہ سمجھ لیا جائے کہ سائنس توصرف ایجابی اور حسابی عمل (empiricism) ہے جس کا اخلاقی وروحانی اقدار سے کوئی رشتہ نہیں ہوتا اور مذہب محض غیرعقلی توہمات ہیں جو انسان کی ترقی میں حائل ہیں۔

تھامس ایس کوہن (Thomas S. Kuhn) نے اپنی تحسین یافتہ تحریر The Structure of Scientific Revolution (سائنسی انقلاب کا ہیکل ترکیبی)میں آزاد منشوں اور لادینوں کی اس متشددانہ فکر کا تارو پور بکھیر کر رکھ دیا ہے۔

اس لیے اخلاقی اقدار کو نظرانداز کرکے سائنسی علوم کو اختصاصی یا استثنائی مقام دینا اور سمجھنا کہ جیسے یہ انسانوں اور ان کے احوال سے کوئی بالا مجموعۂ خیالات وفکر ہیں بذات خود سیکولر متشددانہ سوچ ہے جسے علمی اورعقلی معیارات باطل قرار دیتے ہیں۔

شاید اسی لیے البرٹ آئن سٹائن سے متعلق یہ واقعہ پڑھ کر ہمیں کوئی اچنبھانھیں ہوتا۔ بقول ڈاکٹر برائین سوِم (Brian Swimme) جو بذات خود ایک سائنس دان ہے :

آئن سٹائن بارہا مایوسی کاشکار ہوا کیونکہ وہ تخلیق کائنات کے ضمن میں اپناایک ذاتی تجربہ دوسروں کو سمجھانے میں ناکام رہا۔ جب اس سے پوچھا گیا کہ اسے کس چیز کی تلاش ہے؟ تو اس کاجواب تھا: ’’میں جاننا چاہتا ہوں کہ ذاتِ قدیم [اللہ] سوچتی کیسے ہے؟ باقی تو تفصیل ہے۔

جیساکہ سائنس دان فریڈہائل (Fred Hoyle) نے اپنے گہرے مشاہدے کی بنیاد پر یہ بات کہی:

مجھے ہمیشہ یہ بات بڑی عجیب لگی کہ جہاں سائنس دانوں کی اکثریت دین و مذہب سے پرہیز کرتی ہے، فی الاصل ان کے تصورات پر مذہب کا اثر اور غلبہ علماے دینیات سے بھی زیادہ دیکھنے کو ملا ہے۔

اسی طرح الہامی مذہب اور سائنس کو ایک دوسرے کے مقابل صف آرا دکھانا اب علمی اور سائنسی حلقوں میں ایک فرسودہ اور ازکار رفتہ بات سمجھی جانے لگی ہے۔ کیونکہ تصادم اورکش مکش کا   یہ تصورر ان کی حقیقی روح سے مطابقت نہیں رکھتا۔ ان دونوں کی ایک مختلف النوع تاریخ ہے‘ یعنی کبھی تو ان میں عمل داری (territory) کے سوال پر کشیدگی اور تنائو کی کیفیت نظر آتی ہے اور کبھی دونوں ساجھی بن کر ہاتھ میں ہاتھ دے کر ساتھ چل رہے ہوتے ہیں۔

اصول و نظریات کے ٹکرائو کا تصادم ماڈل (Conflict model) جو وائٹ (White) اور ڈریپر (Draper) نے صدی بھر پہلے وضع کیا تھا، اور جسے لبرل لادین حضرات مذہب پر پھبتیاں کسنے کے لیے اکثر حوالے کے طور پر پیش کرتے رہے ہیں، اس کا اعتبار قریب قریب ختم ہوچکا ہے۔ اس کے مقابلے میں ایسا بیش بہا تحقیقی موادموجود ہے جو یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ مغرب میں سائنسی علوم کی نمود اور ترویج میں ان مذہبی تعلیمی اداروں کا بڑا ہاتھ ہے جو چر چ (کلیسا) کے قائم کردہ تھے۔ ان میں یسوعی فرقہ اور متکلمین (Jesuits and Scholastics) نمایاں گروہ ہیں‘ جب کہ اسلامی دنیا میں دینی مدارس (روایتی اسکولوں) نے مربوط فنون کے وہ علما اور حکما پیدا کیے جو بہ یک وقت دینیات، کارگاہ فطرت اور سماجی علوم میں یگانۂ روزگار تھے۔ خود نظام سرمایہ داری، جو جدیدیت کی جان ہے، اپنی ترقی اور ارتقا کے لیے پروٹسٹنٹ ضوابط اخلاق کی ممنون ہے۔ اس موضوع پر معروف جرمن ماہر عمرانیات میکس ویبر (Max Weber) کی کتاب ایک جان دار تحریر ہے۔

جدید یت کا منفی رُخ

آج کی دنیا کے لیے سائنس کی جو بھی اہمیت ہو اور انسانی احوال کی بہتری اور مادی نمو میں اس کا جو بھی کردار رہا ہو، اس نے ساتھ ہی مسائل کا ایک انباربھی کھڑا کر دیا ہے جو مسلسل اور مستقل بنیادوں پر حل طلب ہیں۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں یہ مسائل ابھی چنداں نمایاں نظر نہیں آتے لیکن صنعتی مغرب کو اسی سائنس کے ہاتھوں نت نئی مصیبتوں کا سامنا ہے جو جدیدیت کا مخصوص تحفہ ہیں۔ ٹکنالوجی نے انسان کو شرفِ انسانی سے محروم کر دیا ہے۔ اس کو قدرتی سادہ ماحول سے نکال کر مشینی اختراعات (gadegetry) کی دنیا میں اُلجھا دیا ہے جس نے ایک ایسے ذہنی رویے کو جنم دیا ہے جو بقول پروفیسر تارنس (Tarnas) ہر مسئلے کا حل ٹکنالوجی میں ’حقیقی وجودی محرکات کی قیمت‘ پر تلاش کرتا ہے۔جدیدیت نے فضائی آلودگی، ماحولیاتی نظم (ecosystems) اور اوزون (Ozone) تہہ کی بربادی کے مسائل بھی پیدا کر دیے ہیں۔ سماجی حوالوں سے بھی جدیدیت کے اثرات و نتائج ہولناک ہیں۔ جرائم کی شرح کبھی اس بلند سطح پر نہ تھی جیسی آج ہے۔ شراب نوشی، نشہ بازی، بے مہار جنسی طرزعمل، غیر شادی شدہ مائوں اور ناجائز اولاد کی بھرمار،   جنسی امراض خبیثہ، برہنگی کا رواج (nudity) اورنفسیاتی امراض___ یہ سب اس دور جدید کے شاخسانے ہیں۔

اور تو اور جنگوں میں انسانوں کا قتل عام نئی حدود کو چھو رہا ہے۔ اب فرد سے فرد کا دُوبدُو مقابلہ نہیں ہوتا جہاں عمل اور ردعمل کا فیصلہ انفرادی انسانی سطح پر ہوتا تھا۔ جہاں فتح و شکست کو ذاتی تجربے کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔ جب قاتل اور مقتول آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھتے اور لڑائی اور مقابلے کے ہر پہلو کو شجاعت، انتقام، نجات، پچھتاوے اور المیے سے بھرپور انسانی ڈرامے کے روپ میںپڑھ سکتے تھے۔ جدیدیت نے اس جنگ کوبھی غیر انسانی کر دیا ۔ اب انسان قتل نہیں کیے جاتے بلکہ دور پار سے چلائے گئے عام بربادی کے ہتھیاروں کے ذریعے پوری کی پوری آبادیاں ہلاک کر دی جاتی ہیں جو اپنے پیچھے ریڈیائی لہروں سے آلودہ پانی کے ذخائر اور مسخ شدہ لاشوں کے ڈھیرچھوڑ جاتے ہیں۔  یقینا یہ سب کچھ جدیدیت کا کوئی خوب صورت روپ نہیں دکھاتا۔

جدیدیت سے متعلق ڈاکٹر پپِن (Pippin) کا تجزیہ ایک ایسا مواخذہ ہے جس میں جدیدیت اور اس کے نتائج و عواقب کے متعلق مغربی سوسائٹی کے اندیشوں کا نچوڑ سامنے آ جاتا ہے۔ وہ کہتا ہے: ’’جدیدیت نے ہم سے ایک ایسی ثقافت کا وعدہ کیا تھا جس کے زیرسایہ لوگ خوف سے آزاد، معقول، مائل بہ جستجو اور خودکفیل ہوں گے۔ لیکن بدرجۂ آخر ہمیں ایک ریوڑ نما سوسائٹی ملی جس کے افراد حیران و سرگرداں، ڈرپورک، مقلّد اور روایت پسند ’بھیڑیں‘ ہیں___ یک قطبی‘ پیش پاافتادہ اور لش پش ثقافت‘‘۔ ڈنکن ولیمز (Duncan Williams) کا خیال ہے کہ مغربی دنیا اور اس کی تہذیب و ثقافت ’’تشدد اور انسانیت سوز بہیمیت سے لبریز ہوچکے ہیں‘‘۔

اس چیز نے مشہور برطانوی مورخ ٹائین بی (Toynbee) کو جدیدیت اور مغرب کے مستقبل کے بارے میں پریشان کر دیا تھا۔ اس میں حیرت کی کوئی بات نہ تھی کیونکہ اسے جو کچھ نظر آرہا تھا وہ روزِ روشن کی طرح عیاں تھا۔ اپنی موت سے کچھ پہلے اس نے لکھا: ’’دنیا کی تباہی کا مستقبل قریب میں واقع ہونا جسے انبیا و رسل نے وجدانی طور پر مشاہدہ کیا، اُس کے قدموں کی چاپ اب سنائی دینے لگی ہے۔ آج اس منتہا کا قریب الوقوع ہونا محض ایمان بالغیب کی بات نہیں بلکہ مشاہدے اور تجربے کی بنیاد پر ایک مانی ہوئی حقیقت اور شدنی واقعہ ہے‘‘۔

میکس ویبر تو یہاں تک کہہ گیا ہے کہ ’جدیدیت: افسرشاہی عقلیت پسندی کا آہنی پنجرہ ہے‘ جس نے ہمارے اس جدید دور کی زندگی کے ہر پہلو کو گرفت میں لیا ہوا ہے۔ ویبر کا خیال ہے کہ یہ آہنی پنجرہ اس قابل نہیں کہ اس میں محبوس رہ کر زندگی گزاری جائے۔ اس کا اندازہ ہے کہ مستقبل میں ’’اس بے بہا ترقی کے اختتام پر بالکل نئے مصلحین اور مبلغین سامنے آئیں گے۔    یا پھرپرانے تصورات اور نظریات کو دوبارہ ایک عظیم حیات نو ملے گی ‘‘۔

مذھب کا تخلیقی کردار

اسلام جیسے الہامی ادیان و مذاہب نے کبھی مادی ترقی کی مخالفت نہیں کی۔ فی الحقیقت اسلام ایک ہمہ گیر اور ہمہ جہت ترقیاتی ماڈل کا علم بردار ہے۔ اور اس نے انسانی زندگی میں مادی بہتری اور خوش حالی لانے کے لیے ہمیشہ سائنسی ترقی میں مدد دی۔ قرآن بنیادی طور پر سائنس کی کتاب نہیں لیکن اس نے فطرت (nature) اور اس کے طریق عمل کے بارے میں جو بھی خبر دی ہے وہ سچ ثابت ہوئی۔

کوپر نیکائی انقلاب (Copernican Revolution)، نے اپنے لازم اثر اور نتیجے کے طور پر انسان کی اصل پوزیشن بدل کر رکھ دی کہ وہ اشرف المخلوقات نہیں بلکہ لاتعداد سیاروں اور سیاروں سے مزین بے کراں کائنات کی سطح پر محض ایک حقیر مخلوق ہے۔ یہ نظریہ اب نئے تصورات اور انکشافات کے سامنے اپنا علمی دبدبہ اور وقار کھو بیٹھا ہے۔ جدید فلکیاتی دریافتوں پر مبنی تازہ ترین تصور یہ ہے کہ ہماری زمین اس مسلسل پھیلتی کائنات کے عین مرکز میں واقع ہے۔ یہی بات ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ کائنات پھیل کر جتنی بھی وسیع ہو جائے، نسل انسانی سے آباد یہ زمینی کرّہ ہمیشہ اس کے مرکز میں رہے گا۔ انسان کی یہ صلاحیت کہ نظم کائنات اس کی ذہنی گرفت میں ہے اس کی غیرمعمولی خصوصیت کا ایک اور پرکشش اور جاذب نظر پہلو ہے۔ ڈاکٹر پال ڈیویز (Paul Davies) جیسے سائنس دان یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ انسان میں یہ حیرت انگیز صلاحیت کیوں اور کیسے موجود ہے کہ وہ کائنات کے رازوں کا متلاشی رہاہے اور انھیں منکشف کرتا رہتا ہے۔ اس کا یہی مطلب بنتا ہے کہ انسان اور کائنات میں اس کے مقام و مرتبے کی ایک خاص اہمیت ہے۔ قرآن انسان کے اسی شرف اور تکریم کے لیے توصیفی کلمات ادا کرتے ہوئے اس کی ذہنی، جذباتی اور اخلاقی ترکیب کی بہترین تشکیل کو ’احسن تقویم‘ قرار دیتا ہے۔

اسی طرح پھیلتی بڑھتی کائنات کا تصورسائنسی دنیا میں ایک نسبتاً تازہ خیال ہے۔ اس سے پہلے مسلسل وسعت پذیر کائنات کی بات آئن سٹائن جیسے لوگوں کو بھی پریشان کر رہی تھی۔ شاید یہ بات سن کر لوگوں کو اچنبھا ہو کہ اپنے ’عمومی نظریۂ اضافیت‘ (General Therory of Relativity) کے ساتھ ساتھ ہی آئن سٹائن نے ۲۲ نومبر ۱۹۱۴ء کو یہ بھی معلوم کر لیا تھا کہ کائنات کی وسعت پذیری کا حسابی امکان موجود ہے۔ چونکہ اس کا یہ اکتشاف اس وقت کے سائنسی عقائد کے خلاف جا رہا تھا، اس نے ’کائنات غیر مبدلات‘ (cosmological constants) کی حسابی اصطلاح کی آڑ میں اپنی نئی دریافت کو دنیا سے چھپالیا مبادا اس سے اس وقت تک کے قائم نظریات کہیں تحلیل نہ ہوجائیں۔

لیکن چھے برس بعد ہبل (Hubble's)کی رصدگاہ نے وسعت پذیر کائنات کی تصدیق کردی جسے آئن سٹائن نے ابتداء.ً  نظرانداز کرنے کی کوشش کی تھی۔ کیا واقعی کائنات کی وسعت پذیری ایک   نیا تصور تھا؟ جی ہاں، لیکن صرف سائنس کے لیے‘ قرآن کے لیے نہیں جس نے صدیوں پہلے کہہ دیا تھا:

وَالسَّمَآئَ بَنَیْنٰھَا بِاَیْدٍ وَّ اِنّاَ لَمُوْسِعُوْنَ o (الذاریٰت ۵۱:۴۷)

آسمان کو ہم نے اپنے زور سے بنایا ہے اور ہم (اس کی پوری قدرت رکھتے ہیں اور) اُسے وسعت دیتے جارہے ہیں۔

قرآن میں چاند کا اس انداز سے (بھی) ذکر موجودہے کہ یہ ایک جداگانہ وجود ہے اور یہ (محض) سورج کے انعکاس سے ہی منور نہیں جو سائنس کا اب تک کا مسلّمہ نظریہ تھا۔ آج نئی فلکیاتی دریافتیں بتاتی ہیں کہ اس کی تنویر (روشنی) خود اس کے اپنے وجود سے ہے۔ بہ قول ڈاکٹر سوِم   (Swimme) چاند کوئی ’’منجمد تودہ نہیں ہے___ بلکہ ایک اہم واقعہ (event) ہے جو موجوداتِ عالم میں ہر لمحہ تھرتھرا رہا ہے‘‘۔

مذہبی عقیدہ کس طرح کائنات کی صحیح تصویر کشی تک رہنمائی کرتا ہے۔اس کی ایک نمایاں مثال پروفیسر عبدالسلام کے تحقیقی مقالے ’حسنِ توازن کے تصورات اور مادے کا بنیادی نظریہ‘  (Symmetry concepts and the fundamental Theory of matter) میں دیکھی جاسکتی ہے۔ پروفیسر موصوف کے کام کو ان نظریات کا حصہ مانا جاتا ہے جنھوں نے ۲۰ویں صدی کی بہت سی دریافتوں اور ترقیات کی اساس مہیا کی۔ اپنے شان دارتحقیقی کام میں پروفیسر عبدالسلام نے دکھایا ہے کہ کائنات اور اس کے اجزا میں اعتدال اور تناسب ہے جس نے اسے توازن کا حسن عطا کیا ہے۔ اپنے مقالے کا لب لباب اور نچوڑ وہ قرآن کے درج ذیل الفاظ میں بیان کرتے ہیں:

مَا تَرٰی فِیْ خَلْقِ الرَّحْمٰنِ مِنْ تَفٰوُتٍ فَارْجِعْ الْبَصَرَ ھَلْ تَرٰی مِنْ فُطُوْرٍ o ثُمَّ ارْجِعْ الْبَصَرَ کَرَّتَیْنِ یَنْقَلِبْ اِلَیْکَ الْبَصَرُ خَاسِئًا وَّھُوَ حَسِیْرٌ o (الملک ۶۷: ۳-۴) تم رحمن کی تخلیق میں کس قسم کی بے ربطی نہ پائو گے۔ پھر پلٹ کر دیکھو، کہیں تمھیں کوئی خلل نظر آتا ہے؟ بار بار نگاہ دوڑائو۔ تمھاری نگاہ تھک کر نامراد پلٹ آئے گی)۔

ڈاکٹر عبدالسلام کا تحقیقی کام جس کے لیے انھیں نوبل انعام ملا، فطرت میں موجود کمزور اور برق مقناطیسی(electromagnetic) قوتوں کے اتحاد و اتصال کو ثابت کرتا ہے کہ یہ دراصل ایک ہی قوت کے دو پہلو ہیں۔ یہ خیال انھیں اصلاً الہامی تصور توحید اور تخلیق کی وحدت سے حاصل ہوا جس کا ظہور ایک ذات واحد ___ خالق کائنات ___ سے ہوا ہے۔

چنانچہ سائنس کی مخالفت تو دُور کی بات ہے، مذہبی عقائد کا کردارتو تخلیقی عوامل کارہا ہے۔ جب بھی انھوں نے دیکھا کہ سائنس کائناتی سچائی کی تلاش میں غلط نتائج پر پہنچ رہی ہے تو انھوں نے اس کی لغزشوں کی تصحیح کی۔ آج تک کوئی ایسی قابل قبول شہادت سامنے نہیں آئی جس سے ثابت ہوتا ہو کہ دین و مذہب سائنسی طرز فکر و عمل کی ضد ہیں۔ اِکّا دکّا واقعات جیسے ۱۹۷۰ء کی دہائی میں کسی سعودی مسلمان نے ٹیلی ویژن توڑ دیا‘ یا برسوں پہلے کچھ ’علما‘ نے لائوڈ اسپیکروں کے استعمال کی ممانعت کا فتویٰ دیا، یہ قطعاً ثابت نہیں کرتے، نہ ان کی یہ شرح و تعبیر جائز ہے کہ سائنس کی کوئی منظم مخالفت ہوئی۔ پھر ایسی خطائوں کو صرف علماے دین سے جوڑ دینا بھی غلط ہے۔ ایک شاذ قول یا واقعے کو اجتماعی رویہ اور اصول و کلیہ قرار دینا بجاے خود غیر سائنسی رویہ ہے جو اِن اصحاب کو تو بالکل نہیں جچتا جو واضح حقائق کو نظرانداز کرتے ہوئے سائنسی حجت کا مقدمہ لڑتے پھرتے ہیں۔

اور اگر بالفرض ٹیلی ویژن کی بھی دین دار حلقوں کی جانب سے مخالفت کی بھی گئی تھی تو یہ کسی مشینی ایجاد کی مخالفت نہیں تھی بلکہ اس کے ممکنہ تہذیبی اثرات تھے جنھیں وہ وقت سے پہلے دیکھ رہے تھے۔

آج اکیسویں صدی میں ٹیلی ویژن کے مضر اثرات بذات خود ایک حقیقت ہیں اور پچھلے دوعشروں میں ان پر متعدد نوعیت کا تخلیقی کام ہوا ہے جو ہمیں بتاتا ہے کہ اس سے یادداشت کُند ہوجاتی ہے، عرصہ توجہ (attention span) مختصر ہو جاتا ہے، تحریر پڑھنے میں تکلیف ہوتی ہے اورمسلسل بیٹھنے سے جسمانی ساخت میں بگاڑ پیدا ہو جاتا ہے۔ مارشل میکلوہن (Marshal Mcluhan) کے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا سے متعلق مطالعے اپنی تخلیقی جدت اور گہرائی کے حوالے سے غیر متنازع ہیں۔ وہ جب ٹیلی ویژن کو ’ابلہ وبے مغز (idiot) باکس‘ کا نام دیتا ہے تو بالکل حیرت نہیں ہوتی۔

اسی طرح یہ باور کرنا اور کراتے رہنا کہ ہماری ساری کوتاہیاں اور کمزوریاں ان علما کی وجہ سے ہیں‘ ایک سنگین غلط بیانی ہے۔ مثلاً اس کا تو یہ مطلب بنتا ہے کہ پاکستان پریہی علماے دین حضرات حکمران رہے ہیں، ہماری سول سروس کو یہی بزرگ چلا  رہے ہیں، ہمارے تعلیمی ادارے انھی کے ہاتھوں میں ہیں اور آزادی کے بعد کی چھے عشروں کے دوران ہماری قومی پالیسیاں یہی علما طے کرتے رہے ہیں۔ یہ جو آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے‘ کیا اس کے ذمہ دار یہی مولوی حضرات ہیں؟ ایسا اخذ کردہ نتیجہ قطعاً غیر سائنسی ہوگا۔ بالخصوص جب یہ رویہ ان لوگوں کا ہو جو راگ تو سائنس کا الاپتے ہیں لیکن سامنے کے حقائق سے منہ موڑتے ہیں۔ ایسی روش خود عقلی سوچ کی تذلیل ہے، سنجیدہ بحث و مباحث میں پامال خیالات اورتراکیب نہیں چلتیں۔ اگر ماضی کی پالیسیوں کے لیے کسی کو موردِ الزام ٹھیرانا ہی ہے تو انگلی چار وناچار پڑھے لکھے مغربی نقالوں کی طرف ہی اُٹھے گی جنھوں نے اپنے آپ کو بڑا جدیدیت پرست سمجھا اور جتایا لیکن ایک اچھی حکمرانی کی ابجد سے بھی ناآشنا نکلے۔

جدیدیت بذات خود کوئی شے نھیں

اسی طرح قرآن پاک کو ’استہزاء.ً موصولہ دانش‘ (received wisdom) قرار دینا ایک ناقابل معافی جسارت ہے۔ قرآن اس لحاظ سے تو موصولہ ہے کہ وہ ایک الہامی کتاب ہے لیکن اسے اس معنی میں موصولہ کہنا جیسے وہ کوئی قدیم اور فرسودہ رسومات وعقائد کا مجموعہ ہو جو مسلمانوں کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ڈالتا ہے‘ صریح کذب بیانی ہے۔ یہ قرآن کااعجاز ہے کہ وہ منکرین پر اپنا مدّعا ظاہر نہیں کرتا بلکہ ان کے انکار میں اضافہ کرتا ہے۔ یہ صرف ان لوگوں پر اپنے معانی و مفہوم ظاہر کرتا ہے جو اس کے مضامین اور خبروں پر غور کرنے کے لیے سنجیدہ ہوں اور جن کا اللہ رب العزت اور یوم الحساب پر پختہ ایمان ہو۔

یہ سب کہنے کے باوجودیہ پوچھا جاسکتا ہے کہ کیا مسلمان جدیدیت سے نفرت کرتے ہیں؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ مسلمان جدیدیت سے نفرت نہیں کرتے۔ بات صرف اتنی ہے کہ وہ جدیدیت کے لادین اور مادہ پرست مندرجات کو ہضم نہیں کر پاتے۔مثلاً جدیدیت کے حوالے سے سیمویل ہن ٹنگٹن (Samuel Huntington) ہی کو لے لیں، اس کے نزدیک مغربی تہذیب عیسائیت ،تکثیریت (pluralism)‘ انفرادیت پسندی (individualism) اور قانون کی حکمرانی سے بن پاتی ہے۔ عیسائیت اس کے نزدیک مغربی تہذیب کا اولین جزو ہے۔

جدیدیت بذات خود کوئی شے نہیں بلکہ اس کے نزدیک یہ اس وقت وجود میں آتی ہے جب مغربی تہذیب کے چاروں عناصر باہم مربوط ہوتے ہیں۔ باالفاظ دیگر جدیدیت مذکورہ    چار بنیادی عناصر سے مرکب ہے۔

جدیدیت کا جو نسخہ ہن ٹنگٹن نے تجویز کیا ہے اسلام کے لیے اس میں کوئی مسئلہ نہیں۔ کیونکہ عیسائیت کا عقیدۂ تثلیث اگربیچ میں سے نکال دیں تو باقی تصورات اور موضو عات سب اسلامی ہیں۔ اگر جدیدیت سے مراد جدت پسندی اور نئے تخلیقی اُفق ہیں یا اس سے مراد حسنِ کارکردگی ہے جس سے معاشرے کی پیداواری صلاحیت بڑھے، یا یہ کہ جدیدیت سے مراد انتظام و انصرام کے  وہ مختلف النوع نظام ہیں کہ جن سے یہ اہداف حاصل ہوسکیں تو پھر اسلام کو اس سے کوئی ضد نہیں۔ اسی طرح جدیدیت اگر سائنس کو افزودگی اور نمو کا انجن سمجھتی ہے یا خالص عقلیت کا تقاضا کرتی ہے  تو اسلام کو یہ بھی قبول ہے۔ شرط صرف ایک ہے کہ جدیدیت اُس الہامی دائرے کے اندر رہ کر   یہ ساری تگ و تاز کرے، جس کااحترام ایک مسلمان معاشرہ لازمی قرار دیتاہے۔

لیکن اسلام جدیدیت کے بے مہار اسراف و تبذیرکو، یا ایسی حدود ناآشنا انفرادیت کو جو سوسائٹی کی ترجیحات سے اغماض برتتی ہے، قبول کرنے پر آمادہ نہیں۔ اسی طرح سوقیانہ بازاری پن اور بہیمانہ نفس پرستی کی علَم بردار مغربی تاجرانہ ثقافت کو بھی اسلام ناقابل برداشت سمجھتا ہے۔ مسلمان معاشرے میں یہ ناہنجار بالکل بار نہیں پاتا‘ اس لیے مردود ہے۔

 

بیسویں صدی عیسوی اپنی ہنگامہ خیزی کے اعتبار سے تاریخ انسانی میں ایک منفرد مقام رکھتی ہے۔ مغربی دنیا میں گذشتہ دو صدیوں کے دوران میں آنے والی پے در پے تبدیلیاں مجتمع ہو کر ایک نئے منظر کی تشکیل کر رہی تھیں‘ جس کے تخلیقی تلاطم سے پیدا ہونے والے ارتعاش نے دنیا کے دور دراز علاقوں تک اپنے اثرات پھیلا دیے تھے۔ اسی عرصے میں مسلمانوں کی قوت و عظمت کی آخری نشانی‘ یعنی سلطنت عثمانیہ جس کا سکّہ کسی زمانے میں مشرق وسطیٰ سے لے کر شمالی افریقہ اور بلقان تک    چلتا تھا‘ یہ تھکی ہاری سلطنت حالت اضطرار میں بے رحم اقوام مغرب سے زندگی کی مہلت مانگ رہی تھی‘ جو اسے دینے پر تیار نہیں تھیں۔

جنوبی ایشیا کی سرزمین اس سے پہلے ہی مسلم اقتدار کے عروج کا خاتمہ دیکھنے کے بعد برطانوی استعماری نظامِ حکومت میں کچھ عرصہ گزار چکی تھی۔ سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ جیسے حسّاس طبیعت کے شخص کے لیے یہ ایک نہایت دلخراش تجربہ تھا اور ہر گزرنے والا دن ان کے درد و کرب میں اضافہ کردیتا تھا۔ یہ تبدیلی اپنے جوہر میں محض اسلامی اقتدار سے برطانوی اقتدار میں تبدیلی نہ تھی‘ بلکہ ایک ایسی تبدیلی تھی جس کے نتیجے میں یہاں کا معاشرتی اور سیاسی بلکہ اخلاقی نظام تک درہم برہم ہو کر رہ گیا تھا۔ یہ غیرملکی افکار و خیالات کی ایک یلغار تھی جو مسلم معاشرے کی بنیادوں کو کھوکھلا کیے جا رہی تھی۔   یہ صورت حال اس حقیقت کے سبب اور بھی خراب ہو گئی تھی کہ انگریزوں نے ہندوؤں کو اپنا ایک  فطری دوست سمجھنا شروع کر دیا تھا‘ اور ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی ہند کے بعد جنوب مشرقی ایشیا کی صورت حال کو ان دونوں فریقوں نے مسلمانوں کو سیاسی اور اقتصادی لحاظ سے مٹانے کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیا تھا۔ مسلمانوں کی طاقت کے خاتمے‘ ان کی اخلاقی رہنمائی کرنے والی قیادت سے محرومی اور آخرکار ان کی تہذیب کی تباہی نے ان کو ایک عجب افسردگی سے دوچار کر دیا تھا۔۱؎

سید مودودیؒ سمجھتے تھے کہ مسلم ممالک پر مغربی استعمار کا فوجی قبضہ ایک عارضی چیز ہے اور یہ زیادہ دیر تک برقرار نہ رہ سکے گا۔ ان کی نظروں میں اصل خطرہ مغربی فکر سے تھا جو عیسائیت کے رہے سہے اثر سے آزاد ہونے کے بعد اب مسلمانوں کو اپنے پنجے میں جکڑنے کی تیاری کر رہی تھی۔ مغرب کی استعماری دنیا کے لیے یہ بات نہایت اہم تھی کہ مسلمانوں کی طاقت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے بعد ان کے دل و دماغ کو بھی فتح کیا جائے۔ سید مودودیؒ نے اس صورت حال میں مضمر خطرے کو محسوس کیا اور اس پر تین مختلف صورتوں میں پیش بندی کی: ایک یہ کہ انھوں نے مغربی طرزِ فکر کا خود گہرا مطالعہ کیا۔ دوسرے‘ انھوں نے دلائل سے اسلام کی برتری اور فوقیت ثابت کی‘ اور تیسرے یہ کہ مسلمانوں کا حوصلہ‘ امنگ اور اعتماد بحال ہو۔

اگرچہ سید مودودیؒ کسی یونی ورسٹی وغیرہ میں رسمی تعلیم حاصل کرنے سے محروم رہے تھے‘ لیکن انھوں نے اپنے طور انگریزی زبان سیکھنے کے لیے سخت جدوجہد کی اور پھر حملہ آور تہذیب و ثقافت کے قالب سے آگاہی حاصل کرنے کے لیے جس قدر مطالعہ وہ کر سکتے تھے‘ انھوں نے کیا۔ ۱۹۳۰ء کے عشرے سے بہت پہلے‘ جب سید مودودی کے عروج کا آغاز تھا‘ مغرب نے مذہب کو خیر باد کہہ کر سائنس کی غلامی کا طوق اپنے گلے میں ڈال لیا تھا۔ اب دنیا (مغربیوں کے نزدیک): خدا کی قدرت کاملہ سے ’’آزاد‘‘ ہو چکی تھی‘ جسے الہامی علم کی ضرورت نہیں تھی‘ بلکہ انسانی حواس کے ذریعے حاصل ہونے والا علم ہی اس کا واحد ذریعہ تھا‘ جسے ’’میکانکی مادیت‘‘ کہا جا سکتا ہے۔ آئن سٹائن اور پلانک کے غیر مادی نظریات کو اس مادہ پرستانہ سوچ میں اپنی جگہ بنانے میں ابھی کچھ وقت درکار تھا۔

یہ وہ زمانہ تھا جب دنیا میں ہر طرف ڈارون‘ مارکس اور فرائیڈ کے نظریات اور ان کی تعبیرات چھائی ہوئی تھیں۔ ان تین مغربی مفکرین نے اس عقیدے کو پاش پاش کر دیا تھا کہ انسان اشرف المخلوقات ہے اور یہ کہ دنیا میں اس کی موجودگی کا ایک مقصد ہے۔ نظریۂ ارتقا کے قائلین نے اس تصور کو یہ کہہ کر رد کر دیا کہ یہ محض ایک دھوکا ہے جس کا سبب انسان کی کائنات میں اپنے آپ کو مرکزی حیثیت دینے کی خواہش ہے۔ قادر مطلق کے تشکیل کردہ ایک منظم منصوبے کی نفی کرتے ہوئے انھوں نے زندگی کے مفہوم میں سے روحانی عنصر کا خاتمہ کر دیا۔ فرائیڈ‘ جس نے انسانی شعور پر غور و فکر کیا تھا‘ اس نتیجے پر پہنچا کہ یہ محض انسان کے لاشعور پر قابض وحشی قوتوں کے باہمی تصادم کے نتیجے میں پیدا ہونے والا ایک نازک سا ضمنی مظہر ہے۔ چنانچہ انسان کے ’’ذی عقل‘‘ ہونے کا وہ تصور بھی ختم ہو گیا جس کا اٹھارھویں صدی میں برپا ہونے والی ’’روشن خیالی کی تحریک‘‘ میں بہت ڈھنڈورا پیٹا گیا تھا۔ ان سب پر مستزاد جدید علم افلاک کی یہ دریافت تھی کہ زمین کی حیثیت پوری کائنات میں ایک بہت ہی چھوٹے سے سیارے کی ہے‘ جس کے باعث اس کی حیثیت اور بھی کم ہو کر رہ گئی۔ پھر ان تینوں فلسفیوں نے نہ صرف انسان کو اس کے شرف سے محروم کیا بلکہ یہ سوال بھی اٹھایا: ’’آخر ’انسانیت‘ ہے کس چیز کا نام‘‘؟ کیونکہ ان کی نظر میں‘ اس کرۂ ارضی پر زندگی گزارنے والے بہت سے دوسرے جانوروں کی طرح انسان بھی محض ایک جانور ہی تو ہے۔ مختصر یہ کہ مغرب میں دنیا اور انسان کے بارے میں جو تصور ابھر رہا تھا‘ وہ خوفناک حد تک اسلام کی سبھی بنیادی تعلیمات سے متصادم تھا۔ چنانچہ سید مودودیؒ نے اپنی توجہ عقلیت‘ ایجابیت‘ ڈاروینی ارتقا اور کارل مارکس کی بیان کردہ اشتراکیت پر مرکوز کر دی۔

  • عقلیت یا غلامانہ ذہنیت: اس سے پہلے کہ سید مودودیؒ، ڈارون اور دوسرے مغربی مفکرین کے نظریات کو چیلنج کرتے‘ انھوں نے خود مسلمانوں کے پڑھے لکھے طبقے کی سوچ کی سطحیت واضح کرنا ضروری سمجھا۔ وہ سوچ کہ جس نے مغرب کی برتری تسلیم کر لی تھی۔ چنانچہ آپ لکھتے ہیں:

جہاں ان ]مسلمانوں[ کو سیاسی استقلال اور خود مختاری حاصل بھی ہے وہاں وہ ذہنی غلامی سے آزاد نہیں ہیں۔ ان کے مدرسے‘ ان کے دفتر‘ ان کے بازار‘ ان کی انجمنیں‘ ان کے گھر‘ حتیٰ کہ ان کے جسم تک زبانِ حال سے شہادت دے رہے ہیں کہ ان پر مغرب کی تہذیب‘ مغرب کے افکار‘ مغرب کے علوم و فنون حکمران ہیں۔ وہ مغرب کے دماغ سے سوچتے ہیں‘ مغرب کی آنکھوں سے دیکھتے ہیں‘ مغرب کی بنائی ہوئی راہوں پر چلتے ہیں‘ خواہ ان کو اس کا شعور ہو یا نہ ہو۔ بہرصورت یہ مفروضہ ان کے دماغوں پر مسلط ہے کہ  حق وہ ہے جس کو مغرب حق سمجھتا ہے ‘اور باطل وہ ہے جس کو مغرب نے باطل قرار دیا ہے۔ حق‘ صداقت‘ تہذیب‘ اخلاق‘ انسانیت اور شائستگی کا معیار ان کے نزدیک وہی ہے جو مغرب نے مقرر کر رکھا ہے‘ اپنے دین و ایمان‘ اپنے افکار و تخیلات‘ اپنی تہذیب و شائستگی‘ اپنے اخلاق و آداب ‘سب کو وہ اسی معیار پر جانچتے ہیں‘‘۔(سیدابوالاعلیٰ مودودی‘ تنقیحات‘ ص ۶)

بالیقین مسلمانوں کی غلامانہ ذہنیت پر یہ ایک زبردست گرفت تھی۔ تعلیم یافتہ مسلمان جس ’عقلیت‘ کا کثرت سے پرچار کرتے رہتے تھے‘ حقیقت میں مغرب کی نقالی تھی جس میں حقیقت کے عکس یا تجزیے کو بہت کم عمل دخل تھا۔ لیکن قبل اس کے کہ یہ لوگ دفاع پر مجبور ہوتے‘ سید مودودی ؒان پر واضح کر دینا چاہتے تھے کہ عام مغربی مفکرین بھی اتنے عقلیت پسند نہیں ہیں‘ جتنا وہ ظاہر کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں آپ نے لکھا: ’’جدید تحریک کے علم برداروں نے لازم سمجھا کہ خدا‘ یا کسی فوق الطبیعت (Super Natural) ہستی کو فرض کیے بغیر کائنات کے معمے کو حل کرنے کی کوشش کریں اور ہر اس طریقے کو خلافِ حکمت (unscientific) قرار دیں‘ جس میں خدا کا وجود فرض کر کے مسائلِ کائنات پر نظر کی گئی ہو۔ لہٰذا کوئی تعجب کی بات نہیں کہ نئے دور کے اہلِ حکمت فلاسفہ میں خدا اور روح یا روحانیت اور ما بعدالطبیعی امور کے خلاف ایک تعصب پیدا ہوا‘ جو عقل و استدلال کا نہیں بلکہ سراسر جذباتیت کا نتیجہ تھا۔ وہ خدا کا انکار اس لیے نہیں کرتے تھے کہ دلائل و براہین سے اس کا عدم وجود اور عدم وجوب ثابت ہو گیا تھا‘ بلکہ اس سے اس لیے بیزار تھے کہ وہ ان کی آزاد خیالی کے مخالفین کا معبود تھا۔ بعد کی پانچ صدیوں میں ان کی عقل و فکر اور ان کی علمی جدوجہد نے جتنا کام کیا‘ اس کی بنیاد میں یہی غیرعقلی جذبہ کار فرما رہا‘‘۔(ایضاً‘ ص ۹-۱۰)

اپنے مضمون ’’عقلیت کا فریب ‘‘میں سید مودودی ؒنے مزید گہرائی میں جا کر بات کی ہے:

عقلیت (Rationalism) اور فطریت (Naturalism) ‘یہ دو چیزیں ہیں جن کا اشتہار گذشتہ دو صدیوںسے مغربی تہذیب بڑے زور و شور سے دے رہی ہے۔ اشتہار کی طاقت سے کون انکار کر سکتا ہے؟ جس چیز کو پیہم اور مسلسل اور بکثرت نگاہوں کے سامنے لایا جائے اور کانوں پر مسلط کیا جائے‘ اس کے اثر سے انسان اپنے دل اور دماغ کو کہاں تک بچاتا رہے گا۔ بالآخر اشتہار کے زور سے دنیا نے یہ بھی تسلیم کر لیا کہ مغربی علوم اور مغربی تمدن کی بنیاد سراسرعقلیت اور فطریت پر ہے۔ حالانکہ مغربی تہذیب کے تنقیدی مطالعے سے یہ حقیقت بالکل عیاں ہو جاتی ہے کہ اس کی بنیاد نہ عقلیت پر ہے نہ اصول فطرت کی متابعت پر‘ اس کے برعکس اس کا پورا ڈھچر] ڈھانچہ[  حِس‘ خواہش اور ضرورت پر قائم ہے۔ اور مغربی نشات جدیدہ دراصل عقل اور فطرت کے خلاف ایک بغاوت تھی۔ اس نے معقولات کو توڑ کر محسوسات اور مادیت کی طرف رجوع کیا۔ عقل کے بجاے حِس پر اعتماد کیا‘ عقلی ہدایات اور منطقی استدلال اور فطری وجدان کو رد کر کے محسوس مادی نتائج کو اصلی اور حقیقی معیار قرار دیا۔ فطرت کی رہنمائی کو مردود ٹھیرا کر خواہش اور ضرورت کو اپنا رہنما بنایا۔ ہر اس چیز کو بے اصل سمجھا جو ناپ اور تول میں نہ آ سکتی ہو۔ ہر اس چیز کو ہیچ اور ناقابلِ اعتنا قرار دیا جس پر کوئی محسوس مادی منفعت مرتب نہ ہوتی ہو‘‘۔(ایضاً‘ ص ۱۰۳)

سید مودودیؒ کے نزدیک فکرِانسانی پر قائم افادیت کی کسوٹی‘ جو حقیقت کو محسوسیت‘ وزن اور حساب کتاب سے مشروط کرتی ہے سوائے ایجابیت کے اور کچھ نہ تھی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایسی تمام اشیا جو مشاہدے اور تجربے سے ماورا ہیں‘ افادیت کے پیمانے میں ان کے وجود یا عدم وجود کی کوئی اہمیت نہیں ہے‘ نہ وہ قابل یقین ہیں‘ کیونکہ ان کا شمار خلافِ عقل چیزوں میں ہوتا ہے۔ چونکہ  صورت حال یہ تھی‘ لہٰذا سید مودودیؒ نے مادی فوائد کے بنیادی تصور کو موضوع بحث بنایا‘کیونکہ مغربی تعلیم یافتہ مسلمانوں نے خود اسلامی احکام کو بھی افادیت کے پیمانے پر پرکھنا شروع کر دیا تھا:

’’اصطلاحاً عقلی اور مادی فوائد محض ایک اضافی نوعیت کی چیز ہیں‘ لہٰذا‘ ان کی اہمیت ٹھیک ٹھیک متعین نہیں کی جا سکتی۔ ایک شخص کسی چیز کو مفید قرار دے سکتا ہے‘ جب کہ دوسروں کے نزدیک ممکن ہے کہ وہی چیز نقصان دہ ہو۔ ممکن ہے کہ کوئی تیسرا شخص اسی چیز کو جزوی طور پر مفید مگر کم اہم بتائے‘ اور کسی اور چیز کو منافع بخش بتائے۔ کسی چیز کی مادی افادیت کا فیصلہ کرنے میں اختلافات کا امکان اور بھی زیادہ ہے‘ کیونکہ ہر شخص مادی فائدے کو اپنے نقطۂ نظر سے دیکھتا ہے۔ کوئی تو ایسا ہو گا جو فوری نفع حاصل کرنے کے لیے بے تاب ہو اور نقصان سے بچنے کا متمنی ہو۔ لازمی بات ہے کہ اس شخص کی پسند‘ نا پسند ان لوگوں سے مختلف ہو گی جن کی نظر اس نفع کی حقیقی افادیت پر ہو گی۔ اسی طرح بعض چیزیں کبھی فائدہ مند ثابت ہوتی ہیں اور کبھی نقصان دہ۔ کوئی آدمی ایسی چیز کو حاصل کرنے کی صورت میں ہونے والے عارضی نقصان کو برداشت کرنے پر اس لیے تیار ہو سکتا ہے کہ وہ اس کے طویل المدت فوائد حاصل کرنے کا خواہش مند ہے۔ اس کے برعکس ایسے لوگ بھی ہوں گے جو اس کے نقصان کے سبب اس سے بچیں گے‘ جو انھیں اس کے فائدے کی نسبت کہیں بڑا نظر آتا ہے۔ مزیدبرآں‘ خود عقلی اور مادی فوائد میں بھی باہم اختلاف ہو سکتا ہے۔ مثال کے طور پر تجربے کی رو سے کوئی چیز ضرر رساں معلوم ہوتی ہے‘ لیکن عقل ہمیں سمجھاتی ہے کہ مستقبل میں یہ چیز زیادہ بڑے فوائد کا باعث بن سکتی ہے۔ اسی طرح تجربے سے جس چیز کا مفید ہونا ثابت ہوتا ہے‘ ممکن ہے ہمارا عقلیت پسند دماغ اسے مسترد کرنے پر تلا ہوا ہو۔ اشیا کی اسی درجے کی موضوعیت (subjectivity) کے  پیشِ نظر لوگوں کے نزدیک کسی چیز کی قدر میں کمی بیشی ہو سکتی ہے‘‘۔(ایضاً‘ ص ۸۱-۱۱۲)

سید مودودیؒ، اسلامی معاشرے میں عقلیت کی طرف نئے نئے راغب ہونے اور اسے ایک سائنسی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے‘ یا حد سے زیادہ اہمیت دینے والوں کی سطحیت کو اس طرح طشت از بام کر دینا چاہتے تھے کہ اس میں تعصب اور جذبات کا عمل دخل نہ ہو:

ایک طرف عقل و فطرت سے یہ انحراف ہے‘ دوسری طرف عقلیت و فطریت کا دعویٰ ہے اور عقل کے دیوالیہ پن کا حال یہ ہے کہ وہ اس اجتماع ضدّین کو محسوس تک نہیں کرتی --- تعلیم اور تہذیب ِفکر کا کم سے کم اتنا فائدہ تو ہر انسان کو حاصل ہونا چاہیے کہ اس کے خیالات میں الجھاؤ باقی نہ رہے‘ افکار میں پراگندگی نہ ہو۔ وہ صاف اور سیدھا طریق فکر اختیار کر سکے‘ تناقض اور خلط مبحث جیسی صریح غلطیوں سے بچ سکے۔ لیکن مستثنیات کو چھوڑ کر ہم اپنے عام تعلیم یافتہ حضرات کو دماغی تربیت کے ان ابتدائی ثمرات سے بھی محروم پاتے ہیں۔ ان میں اتنی تمیز بھی تو نہیں ہوتی کہ کسی مسئلے پر بحث کرنے سے پہلے اپنی صحیح حیثیت متعین کر لیں۔ پھر اس حیثیت کے عقلی لوازم کو سمجھیں اور ان کو ملحوظ رکھ کر ایسا طریق استدلال اختیار کریں جو اس حیثیت سے مناسبت رکھتا ہو۔ ان سے گفتگو کیجیے یا ان کی تحریریں دیکھیے‘ پہلی ہی نظر میں آپ کو محسوس ہو جائے گا کہ ان کے خیالات میں سخت الجھاؤ ہے --- اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ موجودہ تہذیب اور اس کے اثر سے موجودہ تعلیم کا میلان زیادہ تر حسیات اور مادیات کی طرف ہے۔ وہ خواہشات کو بیدار کردیتی ہے‘ اور ضروریات کے احساس کو بھی ابھار دیتی ہے‘ محسوسات کی اہمیت بھی دلوں میں بٹھا دیتی ہے مگر عقل اور ذہن کی تربیت نہیں کرتی --- اور صحیح عقلی طریق پر کسی مسئلے کو سلجھانے یا کسی امر میں رائے قائم کرنے کی صلاحیت ان میں پیدا ہی نہیں ہوتی۔ اس  غیر ’معقول عقلیت‘ کا اظہار سب سے زیادہ ان مسائل میں ہوتا ہے   جو مذہب سے تعلق رکھتے ہیں‘کیونکہ یہی وہ مسائل ہیں جن کے روحانی‘ اخلاقی اور اجتماعی و عمرانی مبادی مغرب کے نظریات سے ہر ہر نقطے پر متصادم ہوتے ہیں۔(ایضاً‘ ص ۱۰۵-۱۰۶)

سید مودودیؒ کا مؤقف حقیقت سے قریب تر تھا۔ استدلال سے کام لینا انسان کا امتیازی وصف ہے اگرچہ اس کے کچھ فطری مسائل بھی ہیں۔ پہلی بات یہ کہ یہ عمل ایک مخصوص سماجی ماحول ہی میں ممکن ہے۔ یہ ایک ایسے انسانی ظرف میں پرورش پاتا ہے جس کی ساخت نفسیاتی و دنیاوی ((psycho-temporal ہے۔ چنانچہ انسان پر اثر انداز ہونے والے امور اس کے طرز استدلال کو بھی متاثر کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں‘ ہر قضیے کا فیصلہ بھی محض استدلال کے ذریعے نہیں کیا جاسکتا۔ اس کا نفوذ اور عمل‘ خط مستقیم میں نہیں ہوتا۔ بسااوقات یہ پیچیدہ بھول بھلیوں میں پھنس جاتا ہے‘ جن سے نکلنے کا امکان کم ہی ہوتا ہے۔

سید مودودی ؒ اس بات کو غیردانش مندانہ قرار دیتے ہیں کہ کوئی شخص کسی عقیدے کو قبول کرنے کے بعد اسی کے برحق ہونے پر شکوک و شبہات کا اظہار کرے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ اس عقیدے کے مسلمہ اصولوں پر بحث نہیں کر سکتا‘ یا کسی کے سامنے اس کے جواز پر استدلال نہیں کر سکتا۔ بے شک اسے یہ سب کچھ کرنے کا حق حاصل ہے‘ لیکن جب وہ اس عقیدے کو قبول کر لیتا ہے تو اسے اس پر شرح صدر ہونا چاہیے۔ کسی حکم کے بارے میں وجۂ جواز مانگنے میں تو کوئی مضائقہ نہیں‘ تاہم یہ بات عقلی اور عملی لحاظ سے انتہائی معیوب ہو گی کہ اسلام کے ہر ہر حکم پر عمل درآمد کے لیے وضاحت طلب کی جائے۔ سید مودودیؒ اس نکتے کو تہذیبی سیاق و سباق میں رکھتے ہوئے اس پر بحث یوں کرتے ہیں:

انسان جس نظام میں داخل ہوتا ہے‘ اس ابتدائی اور بنیادی مفروضے کے ساتھ داخل ہوتا ہے کہ وہ اس نظام کے اقتدار اعلیٰ پر کلّی حیثیت سے اعتقاد رکھتا ہے اور اس کی حکمرانی کو تسلیم کرتا ہے۔ اب جس وقت تک وہ اس نظام کا جز ہے‘ اس کا فرض ہے کہ اقتدار اعلیٰ کی اطاعت کرے خواہ کسی جزئی حکم پر اس کو اطمینان ہو یا نہ ہو۔ مجرمانہ حیثیت سے کسی حکم کی خلاف ورزی کرنا امر دیگر ہے۔ ایک شخص جزئیات میں نافرمانی کر کے بھی ایک نظام میں شامل رہ سکتا ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص کسی چھوٹے سے چھوٹے جز میں بھی اپنے ذاتی اطمینان کو اطاعت کے لیے شرط قرار دیتا ہے تو در اصل وہ اقتدار اعلیٰ کی حکومت تسلیم کرنے سے انکار کرتا ہے اور یہ صریح بغاوت ہے۔ حکومت میں یہ طرز عمل اختیار کیا جائے گا تو اس پر بغاوت کا مقدمہ قائم کر دیا جائے گا۔ فوج میں اس کا کورٹ مارشل ہو گا۔ مدرسے اور کالج میں فوری اخراج کی کارروائی کی جائے گی۔ مذہب میں اس پرکفر کا حکم جاری ہو گا۔ اس لیے کہ اس نوع کی طلبِ حجت کا حق کسی نظام کے اندر رہ کر کسی شخص کو نہیں دیا جا سکتا۔ ایسے طالب حجت کا صحیح مقام اندر نہیں باہر ہے۔ پہلے وہ باہر نکل جائے‘ پھر جو چاہے اعتراض کرے‘‘۔(ایضاً‘ص ۱۰۷-۱۰۸)

عقلیت پرست مسلمانوں کا پول کھولنے کے لیے‘ جس کا ان کی جانب سے بہت ڈھنڈورا پیٹا جاتا تھا‘ سید مودودی ایک عقلی آزمایش تجویز کرتے ہیں: ’’آپ کسی مذہبی تعلیم یافتہ شخص سے کسی مذہبی مسئلے پر گفتگو کیجیے اور اس کی ذہنی کیفیت کا امتحان لینے کے لیے اس سے مسلمان ہونے کا اقرار کرالیجیے۔ پھر اس کے سامنے مجرد حکم شریعت بیان کر کے سند پیش کیجیے۔ وہ فوراً اپنے شانے ہلائے گا اور بڑے عقل پرستانہ انداز میں کہے گا کہ یہ ملائیت ہے‘ میرے سامنے عقلی دلیل لاؤ۔ اگر تمھارے پاس معقولات نہیں‘ صرف منقولات ہی منقولات ہیں تو میں تمھاری بات نہیں مان سکتا۔ بس انھی چند فقروں سے یہ راز فاش ہو جائے گا کہ اس شخص کو عقلیت کی ہوا بھی چھو کر نہیں گزری ہے۔ اس غریب کو برسوں کی تعلیم و تربیت علمی کے بعد اتنا بھی معلوم نہ ہو سکا کہ طالب حجت کے عقلی لوازم کیا ہیں اور طالب ِحجت کی صحیح پوزیشن کیا ہوتی ہے‘‘۔(ایضاً‘ ص ۱۰۶)

ایک دلیل بڑی کثرت سے دی جاتی رہی ہے کہ انسانی ذہن کے افق پر فکرِ جدید کے طلوع ہونے کے بعد اب مذہب ایک ازکار رفتہ (outdated) چیز بن گیا ہے۔ بہ طرز فیشن یہ بھی کہا گیا کہ علم تو بس وہی ہے جو آدمی اپنے حواس کے ذریعے سے حاصل کرے کیونکہ اس کی ناپ تول کی جاسکتی ہے۔ اس قسم کے تصورات پر انھوں نے تین اطراف سے ضرب لگائی۔ اول یہ کہ انھوں نے  علمِ جدید کے احتمالی یا تصوراتی ہونے کے امکان کی طرف اشارہ کر کے اس کی اصلی ہیئت آشکار کی۔ دوم یہ کہ انھوں نے اس دعوے کا لغوا اور مہمل ہونا ثابت کیا کہ اب عقیدے کی جگہ تجربی طریقوں نے لے لی ہے۔ تیسرے ‘انھوں نے ثابت کیا کہ آج کے زمانے میں بھی لوگ غیر مرئی وجود پر یقین رکھتے ہیں۔ لادین (سیکولر) عناصر کے دلائل کی حقیقت کو کھولتے ہوئے وہ فرماتے ہیں:

علوم جدیدہ اور اکتشافات حاضرہ سے مرعوب ہو کر مذہب کی طرف ایک ترمیم طلب نگاہ ڈالنا تو صرف ان لوگوں کا شیوہ ہے جن کے دل میں یہ تخیل گھر کر گیا ہے کہ نئی چیز علم و اکتشاف ہے‘ اور زمانے کا ساتھ دینے کے لیے اس کو قبول کر لینا یا اس پر ایمان لے آنا ضروری ہے‘ خواہ اس کی حیثیت محض قیاسی و نظری ہو اور خواہ اس کو انھوں نے گہری علمی بصیرت کے ساتھ نقد صحیح کی کسوٹی پر پرکھا بھی نہ ہو۔ ایسے ہی لوگوںمیں ’’عمل و خیال کی نئی طرحیں‘‘ ڈالنے کا شوق پیدا ہو گیا ہے۔ حالانکہ وہ یہ بھی نہیں جانتے کہ عمل و خیال کی  نئی طرحیں کیوں کر پڑتی ہیں‘ اور کون سی طرحیں عاقلانہ ہوتی ہیں اور کون سی محض طفلانہ‘‘۔ (ایضاً‘ ص ۱۲۰‘ ۱۲۱‘ ۱۲۳)

  • ڈاروینی ارتقا -- عقیدہ یا سائنس: ڈارون کا نظریہ منظر عام پر آنے سے پہلے مغرب نے کائنات کی وسعت کے بارے میں ایک نیا تصور وضع کر لیا تھا۔ مسیحیت اگرچہ اب بھی ایک قوت تھی مگر فطرت کے اسرار کو سمجھنے کے معاملے میں اسے پہلے جو فیصلہ کن برتری حاصل تھی‘ اب اس کا خاتمہ ہو چکا تھا۔ ڈیکارٹ اور نیوٹن کے پیش کردہ نظریات نے اپنے لادین اثرات ظاہر کرنا شروع کر دیے تھے۔ ڈارون کے نزدیک اب وقت آ گیا تھا کہ مذہبی روایات سے مکمل علیحدگی کو مؤثر بنایا جائے اور کائنات کی تشریح‘ توافق اور فطری انتخاب کے اصولوں پر کی جائے۔ اس عمل کے نتیجے میں ایک نیا نمونہ ابھر کر سامنے آیا۔ اگلی صدی کے لیے سائنسی برادری نے ڈارون کو اپنا بُت بنا لیا۔

ڈارون کی زندگی میں‘ اور اس کے بعد بھی‘ بہت کم لوگ اس کے نظریے سے اختلاف کرنے کی جرأت کرپائے تھے۔ جو کرتے تھے‘ ان کی خوب مٹی پلید کی جاتی تھی۔ آخر ۱۹۵۸ء میں‘ جب فرانسیسی ماہرین حیاتیات نے ’فرانسیسی دائرۃالمعارف‘ (Encyclopedie Francaise) کی پانچویں جلد میں نظریہ ارتقا پر سخت تنقید کی‘ تو پہلی مرتبہ ڈارون پرستوں کو اپنا موقف خطرے میں محسوس ہوا۔ اب تک انھوں نے حیاتیات کا سہارا لے رکھا تھا‘ خصوصاً خوردبینی سطح پر‘ لیکن جب کلاڈ برنارڈ سے لے کر لیوسین کیونو (Lucein Cuenot) تک نے یہ کہا کہ ’’نظریہ ارتقا نا ممکن ہے‘‘ تو ڈارون کے غبارے سے ہوا نکل گئی۔ اس سے بھی بڑھ کر ان ماہرین حیاتیات نے اس نظریے کو محض ایک عقیدہ (dogma) قرار دے دیا۔ انھوں نے کہا: ’’نظریہ ارتقا ایک ایسا عقیدہ ہے‘ جس کے مبلغین اگرچہ اب خود اس پرایمان نہیں رکھتے‘ لیکن لوگوں کے سامنے اسے پیش کیے جا رہے ہیں۔ جس معاملے کی تشریح کرنے کی اس نظریے نے جسارت کی ہے‘ اب اس پر اتنی بات ہو چکی ہے کہ ممکن ہے آنے والی نسل کے سائنس دان اپنی تحقیق کسی اور زاویے سے کریں‘‘۔۲؎

۱۹۳۰ء کے عشرے میں ایک طالب علم کے سوال کا جواب دیتے ہوئے جو ڈاروینی ارتقا کی ہیبت سے مرعوب ہو کر اپنے ایمان کو متزلزل ہوتا محسوس کر رہا تھا‘ سید مودودیؒ نے ڈارون پر مختصر تنقیدی نوٹ لکھا۔ مسئلے کے قلب میں اترتے ہوئے نظریے اور قانون کے فرق کو اس طرح واضح کیا: ’’نظریے اور واقعے کا فرق کسی تعلیم یافتہ آدمی سے پوشیدہ نہیں ہوسکتا۔ اور یہ بھی آپ سمجھ سکتے ہیں کہ آدمی کے لیے اپنے ایمان پر نظرثانی کرنے کا سوال اگر کبھی پیدا ہو سکتا ہے تو صرف اس صورت میں‘ جب کہ وہ چیز جس پر وہ ایمان رکھتا ہے‘ کسی ایسی چیز سے ٹکرا جائے جو ثابت شدہ واقعہ ہو۔ ورنہ جو ایمان قیاسات و نظریات کی ٹکر بھی نہ سہہ سکے وہ ایمان  تو نہیں‘ محض ایک حسنِ ظن ہے جو نری افواہوں پر بدگمانی میں تبدیل ہو جاتا ہے‘‘۔(سید ابوالاعلیٰ مودودی‘تفہیمات‘ دوم‘ ص ۲۷۸)

ایک اﷲ کی ربوبیت پر کامل ایمان رکھنے والے فرد کی حیثیت سے سید مودودیؒ اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ زندگی میں پائی جانی والی پیچیدگی اور تنوع جو یک خلوی جانداروں سے لے کر ایک کامل انسان تک میں پایا جاتا ہے‘ کسی حادثاتی یا الل ٹپ عمل کا نتیجہ نہیں‘ بلکہ اس کے اندر ایک غیر معمولی نظم پایا جاتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ: کائنات ایک اعلیٰ ترین دماغ کی تخلیق ہے‘ جس نے مختلف جانداروں میں سے ہر ایک کو اس کے لیے درکار سازگار ماحول میں نشوو نما دی اور پھر رفتہ رفتہ انھی جانداروں سے امتیازی خصوصیات رکھنے والی انواع (species) کو فروغ دیا۔ اگر اﷲ تعالیٰ کے منصوبے میں کچھ انواع کا وجود غیر ضروری ہو گیا تو اس نے انھیں بتدریج معدوم کر دیا۔ اس کے برعکس ڈارون کے پیروکار‘ فطرت کو ایک ایسی عینک سے دیکھتے تھے جو بے خدا ذہنیت کے رنگ میں رنگی ہوتی تھی۔ اس عینک سے دیکھتے ہوئے انھیں جو کچھ نظر آتا تھا وہ یہ تھا کہ زمین پر زندگی جوہری ذرات (atoms) کے خود بخود ترتیب پانے کی صلاحیت کی مرہون منت ہے۔ سید مودودیؒ کے نزدیک ڈارون ازم ایسے ذہن کے لیے بآسانی قابل قبول تھا: ’’یورپ نے جو اس وقت اپنے الحاد کو پاؤں کے بغیر چلا رہا تھا‘ لپک کر یہ لکڑی کے پاؤں ہاتھوں ہاتھ لیے اور نہ صرف اپنے سائنس کے تمام شعبوں میں‘ بلکہ اپنے فلسفہ و اخلاق اور اپنے علوم عمران تک میں ان کو نیچے سے نصب کر لیا۔ حالانکہ علمی اور عقلی حیثیت سے اس توجیہہ میں اتنے جھول تھے اور ہیں کہ مشکل ہی سے کوئی صاف دماغ کا آدمی اس کو‘          منظر (phenomena) کی ممکن توجیہات میں سے ایک قابل لحاظ توجیہہ قرار دے سکتا ہے‘‘۔(ایضاً‘ ص۲۸۰)

ڈارون خود یہ بات تسلیم کرتا تھا کہ اس کا نظریہ عمل ارتقا زندگی کی درمیانی کڑیوں کی    توجیہہ سے قاصر ہے۔ اس کے سب سے بڑے حامی جولین ہکسلے نے اس کی کتاب اصل الانواع    (The Origin Of the Species) کو ایک عظیم کتاب قرار دیا تھا۔ اس نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھاکہ درمیانی کڑیاں لازماً موجود ہوں گی۔ ہکسلے کے مندرجہ ذیل الفاظ مذہبی ایقان کی کیفیت سے سرشار دکھائی دیتے ہیں:

Hence we ought not to expect at the present time to meet with numerous transitional varieties in each region, though they must have existed there, and may be embedded there in a fossil condition. If my theory be true, linking closely   together all the species of the same group, must assuredly have existed.

اس کتاب کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ عمدہ طریقے سے منتخب کردہ شہادتوں کا ایک وسیع ذخیرہ فراہم کرتی ہے --- جس میں [مصنف] ثابت کرتا ہے کہ زمین پر پائے جانے والے حیوانات اور پودے اپنی موجودہ شکلوں میں فرداً فرداً پیدا نہیں کیے جا سکتے تھے‘ بلکہ لازمی طور پر اپنے سے پہلے پائی جانے والی شکلوں سے تبدیلی کے ایک سست رفتار عمل کے ذریعے لازماً ارتقا پذیر ہوئے ہوں گے۔

ڈارون اپنے نظریے کی خامیوں سے آگاہ تھا۔ اس کی کتاب کا چھٹا باب جس کا عنوان ’’نظریۂ ارتقا کی مشکلات‘‘ ہے‘ دوسری باتوں کے علاوہ زندگی کی درمیانی کڑیوں کی عدم موجودگی کا بھی ذکر کرتا ہے۔ اپنے ناقدین کے اعتراضات کو دہرانے کے بعد وہ یہ سوال کرتا ہے کہ اگر انواع ایک دقیق تدریجی عمل کے ذریعے دوسری انواع سے نکلی ہیں تو ہمیں جگہ جگہ زندگی کی درمیانی کڑیاں کیوں نظر نہیں آتیں؟ وہ ان مشکلات کو اپنے نظریے کے حق میں مہلک قرار دیتا ہے۔ بہرحال اس سلسلے میں اس کا موقف یہ ہے کہ تحجّراتی (fossil) ریکارڈ ابھی نامکمل ہے: ’’چنانچہ ہمیں فی الوقت  ہر علاقے میں زندگی کی بے شمار درمیانی کڑیاں (missing links) دیکھنے کی توقع نہیں کرنی چاہیے۔ اگرچہ یہ اقسام وہاں رہی ضرور ہوں گی اور فوسل کی شکل میں زمین میں دفن ہو چکی ہوں گی‘‘ (ص۱۵۸)۔ پھر صفحہ ۱۶۳ پر بھی وہ اسی قسم کا ایک اور بیان دیتا ہے: ’’اگر میرا نظریہ درست ہے اور ایک ہی گروپ کی تمام انواع میں قریبی تعلق پایا جاتا ہے تو یہ لازمی ہے کہ زندگی کی درمیانی کڑیاں رہی ہوںگی‘‘۔۳؎ سید مودودیؒ نے اس نظریے میں ’’لازماً ہوا ہو گا‘‘ (must have evolved) جیسے جملوں پر انحصار کرنے کو ایک غیر سائنسی رویہ قرار دیا۔

  • تاریخ کے بارے میں ہیگل اور مارکس کا نقطۂ نظر: سید مودودیؒ، تہذیب جدید پر اس وجہ سے تنقید کرتے ہیں کہ ان کے نزدیک اس نے بنی نوع انسان کے مسائل میں     بے تحاشا اضافہ کر دیا ہے جن کی جڑیں ہیگل کی تاریخ نگاری میں پیوست ہیں۔ کارل مارکس نے ہیگل کے پیش کردہ ’’جدلی عمل‘‘ (Dialectical Process) کے تصور کی بنیاد پر تاریخ کی مادی تعبیر کی عمارت کھڑی کر کے انسانی مصائب میں مزید اضافہ کیا۔ ہیگل کی وہ تاریخ نگاری‘ جسے سید مرحوم اس قدر تنقید کا نشانہ بناتے ہیں‘ اصل میں ہے کیا؟ اپنے مخصوص مجمل انداز میں‘ جو انھیں دوسروں سے ممتاز کرتا ہے‘ سید مودودی‘ ہیگل کے فلسفے کو حسب ذیل الفاظ میں سمیٹتے ہیں:

انسانی تہذیب و تمدن کا ارتقا دراصل اضداد کے ظہور‘ تصادم اور امتزاج سے واقع ہوتا ہے اور تاریخ کا ہر دور ایک وحدت‘ ایک کل‘ یا اگر استعارہ کی زبان میں کہنا چاہیں تو کہہ سکتے ہیں کہ گویا ایک زندہ نظام جسمانی ہوتا ہے۔ اس دور میں انسان کے سیاسی‘ معاشی‘ تمدنی و اخلاقی‘ علمی و عقلی اور مذہبی تصورات ایک خاص مرتبے پر ہوتے ہیں۔ ان سب کے اندر ایک مناسبت‘ ایک ہم آہنگ کلیت ہوتی ہے۔ وہ گویا اس زندہ وجود ‘ یا اس عصری وحدت کے مختلف پہلو یا رخ ہوتے ہیں‘ اور ان سب میں اس پورے دور کی روح طاری و ساری ہوتی ہے۔جب ایک بڑا دور اپنی روح کو انتہائی مدارج تک ترقی دے چکتا ہے‘ اور اس دور کو چلانے والے اصول‘ نظریات اور افکار انسانی تہذیب و تمدن کو اپنی قوت و استعداد کی آخری حد تک پہنچا دیتے ہیں‘ تب خود اسی دور کی آغوش سے پرورش پا کر اس کا ایک دشمن ظاہر ہوتا ہے‘ یعنی کچھ نئے افکار‘ نئے رجحانات‘ نئے نظریات اور نئے اصول جو خود اسی روبہ زوال دور کے طبیعی تقاضے سے پیدا ہوتے ہیں اور پرانے افکار سے لڑنا شروع کر دیتے ہیں۔

کچھ مدت تک قدیم اور جدید میں کش مکش جاری رہتی ہے۔ بالآخر کسرو انکسار کے بعد قدیم و جدید میں امتزاج ہو جاتا ہے۔ کچھ قدیم عناصر اور کچھ جدید عناصر کی آمیزش سے ایک نئی عصری تہذیب وجود میں آتی ہے۔ اور اسی طرح تاریخ کا ایک دوسرا دور شروع ہوجاتا ہے۔

اس عمل ارتقا کو ہیگل اپنی اصطلاح میں ’جدلی عمل‘ (Dialectic Process) کہتا ہے۔ اس کے نزدیک عرصۂ تاریخ یا میدانِ دہر میں گویا ایک مسلسل منطقی مناظرہ و مجادلہ ہورہا ہے۔ پہلے ایک دعویٰ (thesis) سامنے آتا ہے۔ پھر اس کے مقابلے میں جواب دعویٰ (antithesis) پیش ہوتا ہے۔ پھر ایک طویل جھگڑے کے بعد عقلِ کُل یا روح کُل ان کے درمیان صلح کراتی ہے‘ یعنی کچھ باتیں اِس کی اور کچھ اُس کی قبول کر کے ایک مرکب (synthesis) بنا دیتی ہے۔ آگے چل کر یہ مرکب خود ایک دعویٰ بن جاتا ہے۔ پھر اس کا جوابِ دعویٰ مقابلے میں آتا ہے اور پھر ان کے درمیان لڑائی کے بعد مصالحت ہوتی ہے اور ایک نیا مرکب بنتا ہے‘‘۔(تفہیمات‘ دوم‘ ص ۲۶۴)

’جدلی عمل‘ پر گرفت کرتے ہوئے سید مودودیؒ کہتے ہیں کہ ہیگل کے نزدیک ’جدلی عمل‘ اپنے جوہر میں اجتماعی اور اپنے اثرات میں ہمہ گیر ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ تاریخ کا کوئی بھی دور گویا ایک مجسم اور زندہ اکائی ہے ‘ جب کہ افراد اور انسانی گروہ اس کے اعضا وجوارح ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی اس دور کے اجتماعی مزاج کے اثر سے آزاد نہیں ہو سکتا‘ حتیٰ کہ عظیم تاریخی شخصیات کی حیثیت بھی شطرنج کے مہروں کی سی ہے۔ اس زور آور دریا کے طوفانی بہاؤ میں سے ’’خیالِ مطلق‘‘ (Absolute Idea) شاہانہ انداز میں بلند ہوتا ہے اور ’’دعویٰ‘‘ ، ’’جوابِ دعویٰ‘‘ اور بالآخر ان دونوں کے امتزاج یا ’’تالیف دعاوی‘‘ کا سبب بنتا ہے۔ ہیگل کے تصور کے مطابق اس سارے عمل میں ایک واضح ستم ظریفی موجود ہے۔ ’’خیالِ مطلق‘‘ یا ’’سببِ جہاں‘‘ (World Reason) افراد اور گروہوں کو اس مغالطے کا شکار کرتا ہے کہ وہ تبدیلی کے عمل میں حصہ لے رہے ہیں‘ جس سے وہ اس یقین میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ وہی دراصل اس تاریخی کھیل میں حرکت اور تبدیلی پیدا کرنے والے ہیں۔ لیکن درحقیقت ’’سببِ جہاں‘‘ ان کو اپنی ذات کی تکمیل کے لیے استعمال کرتا ہے۔ اس کے لیے گویا یہ وجود پذیری کا عمل ہے۔

ہیگل کے فلسفہ تاریخ پر بحث کرنے کے بعد سید مودودیؒ اپنے مخصوص اور جامع اسلوب میں مارکس کے خیالات کا خلاصہ بیان کرتے ہیں: ’’کارل مارکس نے ہیگل کے اس فلسفیانہ نظریے میں سے ’جدلی عمل‘ کا خیال تو لے لیا مگر روح یا فکر کا تصور جو ہیگلی فلسفے کی جان تھا‘ اس سے الگ کر دیا۔ فکر کے بجاے اس نے مادی اسباب یا معاشی محرکات کو تاریخی ارتقا کی بنیاد قرار دیا‘‘۔(ایضاً‘ ص ۲۶۵)

سید مودودی ؒکہتے ہیں: مارکس کے اس نقطۂ نظر کے مطابق انسانی قسمتوں کا فیصلہ کرنے والی واحد چیز معیشت ہے۔ کسی بھی دور کی تہذیب‘ اس کے قوانین‘ اخلاقیات‘ مذہب‘ فنون اور فلسفے کی تشکیل اس دور کا معاشی نظام ہی کرتا ہے۔ مارکسی تصور کے مطابق ’جدلی عمل‘ تاریخ میں اپنے اثرات کو اس وقت ظاہر کرتا ہے‘ جب کسی نظام معیشت کے تحت افراد کا ایک طبقہ ذرائع پیداوار پر قبضہ کر لیتا ہے اور دوسرے طبقات کو ذلت آمیز انحصار پر مجبور کر دیتا ہے۔ جب ایسی صورت حال پیدا ہوتی ہے تو کچلے ہوئے طبقے کے لوگ رفتہ رفتہ اپنی حالت سے بے زار ہونا شروع ہو جاتے ہیں‘ اور آخر کار حق ملکیت اور مال و اسباب کی تقسیم کے بارے میں مختلف اصول و ضوابط رکھنے والے ایک ایسے نظام کا مطالبہ شروع کر دیتے ہیں‘ جو ان کے مفادات کو پورا کر سکے۔ کسی مروّجہ سیاسی نظام میں اس قسم کی گروہ بندی کا پھلنا پھولنا دراصل چلتے نظام کے خلاف ’’جوابِ دعوی‘‘ ہوتا ہے۔ جوں جوں اس کش مکش میں شدت آتی جاتی ہے‘ قانون‘ مذہب اور دیگر تصورات اپنے وجود کو خطرے میں پا کر استحصالی نظام کی بقاکے لیے سرگرم  ہوجاتے ہیں۔ نئے ابھرنے والے طبقات جو موجودہ معاشی نظام کی تبدیلی کے لیے کوشاں ہوتے ہیں‘ پہلے سے تسلیم شدہ ’سچائیوں‘ کو مسترد کر کے نئی اقدار کو رواج دینے کی کوشش کرتے ہیں۔

کارل مارکس کے نزدیک تاریخ میں آنے والی تما م تبدیلیوں اور انسانی تمدن کے ارتقا کو ذرائع پیداوار اور ان کی تقسیم کے عمل سے منسوب کیا جا سکتا ہے۔ اس عمل کو جو چیز حرکت میں لاتی ہے‘ وہ طبقاتی جنگ (class war) ہے۔ مارکس کا یہ دعویٰ بھی تھا کہ انسانی تہذیب میں مذہب اور اخلاقیات کی کوئی طے شدہ اقدار نہیں ہیں جنھیں معروضی سچ قرار دیا جا سکے۔ اس کے برخلاف یہ انسانی فطرت ہے کہ پہلے اپنے مادی مفادات کے حصول کے لیے ایک نمونہ (model) منتخب کرے۔ اس کے بعد اس کے جواز و بقا کے لیے ایک نیا مذہب اور اخلاقیات کا ایک نیا فلسفہ ایجاد کرے۔ یہ خود غرضانہ کش مکش فطرت کے عین مطابق ہے۔ مصالحت کے لیے اگر کوئی بنیاد ہو سکتی ہے تو وہ معاشی مفادات کے اشتراک ہی کی صورت میں ہو سکتی ہے۔ جو لوگ ان مشترکہ مفادات کے حق میں نہیں ہوتے وہ ایک نزاع اور تصادم کو دعوت دیتے ہیں۔

سید مودودی ؒنے اس امکان کو یکسر مسترد کر دیا کہ کوئی شخص بیک وقت مومن اور مارکس کا پیروکار بھی ہو سکتا ہے۔ یہ انتہا درجے کا تناقض اور بے حد افسوس ناک صورت حال ہو گی۔ سید مودودیؒ‘ ہیگل کے نظریات کو ۱۰۰ فی صد غلط قرار نہیں دیتے۔ ان کے نزدیک تاریخ کے بارے میں ہیگل کا فلسفہ اس حد تک تو ٹھیک ہے کہ ارتقاے انسانی متضاد نظریات کے تصادم اور اس کے نتیجے میں ہونے والے تصفیے کا مرہون منت ہے۔ لیکن تاریخ کے اس پہلو کی تشریح اس قدر خوب صورتی سے کرنے کے بعد ہیگل ایسے تصورات پیش کرنے لگتا ہے جو بالکل ہی بے بنیاد ہیں۔ مثال کے طور پر ہیگل‘ اﷲ تعالیٰ کو ’’روح عالم‘‘ (World Spirit) سے تعبیر کرتا ہے اور کہتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ اس پردے میں آپ اپنی نمایش کر رہا ہے۔ اپنی ذات کی تکمیل کے لیے کوشاں ہے۔ تاریخ کی شاہراہ پر مارچ کر رہا ہے۔ رہا انسان‘ تو وہ بے چارہ محض خارجی مظہر یا آلہ کار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔سید مودودیؒ ،ہیگل کے جدلی نظریے کے اس پہلو کو خالص فریب نظری قرار دیتے ہیں۔

سید مودودیؒ ہیگلی نظام میں پائے جانے والی ناہمواریوں کو ایک چیستان سے تشبیہ دیتے ہیں اور کہتے ہیں: ’’باوجود یکہ یہ نظریہ اپنے اندر صداقت کی ایک جھلک رکھتا ہے‘ ہمیں اس کے اندر قیاس آرائی (speculation) کا عنصر بہت زیادہ اور تاریخ کے حقیقی واقعات سے استشہاد بہت کم نظر آتا ہے۔ --- اس نے واقعات کے اندر اتر کر یہ تحقیق کرنے کی زحمت نہیں اٹھائی کہ جن اضداد کے درمیان نزاع ہوتی ہے‘ ان کی حقیقی نوعیت کیا ہے‘ پھر ان کے درمیان مصالحت کیوں ہوتی ہے‘ اور اس مصالحت سے جو مرکب بنتا ہے‘ وہ آگے چل کر پھر کیوں اپنے اندر سے اپنا ایک دشمن پیدا کر دیتا ہے۔ اس جدلی عمل کا تفصیلی اور تحلیلی مطالعہ کرنے کے بجائے ہیگل اس پر یوں نگاہ ڈالتا ہے جیسے کوئی پرندہ فضا میں اڑتے ہوئے کسی شہر کا ایک طائرانہ جائزہ لیتا ہو‘‘۔(ایضاً‘ ص ۲۷۰-۲۷۱)

سید مودودیؒ کے خیال میں جہاں ہیگل کے نظریے میں ٹھوس پن مفقود ہے وہاں مارکس کے خیالات سطحی نوعیت کے ہیں: ’’وہ انسان کی فطرت‘ اس کی ساخت اور اس کی ترکیب کو جاننے اور سمجھنے کی کوشش نہیں کرتا۔ وہ باہر کے حیوان کو تو فوراً دیکھ لیتا ہے جسے معاشی ضروریات لاحق ہوتی ہیں مگر اس کے اندر کے انسان کو نہیں دیکھتا جو اس بیرونی رُوبہ کار خول میں رہتا ہے۔ مارکس انسانی فطرت کے مقتضیات سمجھ نہیں پاتا‘ جو بیرونی حیوان کی طبیعت سے بہت مختلف ہیں‘‘۔

سید مودودیؒ کہتے ہیں کہ مارکس کے کام کا یہ پہلو انتہائی کمزور ہے اور اس کے عمرانی تصور کے غیرمتوازن ہونے پر دلالت کرتا ہے۔ مارکس کا خیال ہے کہ نفس انسانی‘ نفس حیوانی کا غلام ہے۔ اس کے قواے ذہنی‘ قوت مشاہدہ‘ قوت تخلیق اور وجدانی ساخت‘ سب کے سب اسی بیرونی حیوان کی خدمت کے لیے وقف ہیں: ’’]مارکس کے نزدیک[ اندر والے انسان نے آج تک اس کے سوا کچھ نہیں کیا‘ نہ وہ آیندہ کرے گا‘ نہ وہ اس کے سوا کچھ کر سکتا ہے کہ بس اپنے آقا‘ یعنی باہر والے حیوان کی خواہشات کے مطابق اخلاق اور قانون کے اصول بنائے‘ مذہب کے تصورات گھڑے‘ اور اپنے لیے زندگی کا راستہ معین کرے -- انسان کی حقیقت کا یہ کتنا ذلیل تصور ہے۔ کتنا پست ہے وہ ذہن جس نے اس تصور کو پیدا کیا اور کتنے پلید ہیں وہ ذہن جو اسے قبول کرتے ہیں‘‘۔(ایضاً‘ ص ۲۷۲)

تاہم سید مودودیؒ نفس انسانی پر حیوانی ہیجانات (impulses) کے اثرات کو یکسر نظرانداز نہیں کرتے‘ بلکہ اس بات کی تردید بھی نہیں کی جا سکتی کہ نفس حیوانی‘ نفس انسانی پر برتری حاصل کرنے کے لیے کوشاں رہتا ہے۔ لیکن سید مودودیؒ کے نزدیک مارکس کا یہ دعویٰ غلط ہے کہ ’نفس حیوانی پر نفس انسانی اثرانداز نہیں ہو سکتا‘۔ تاریخ کے متعلق اس کا مطالعہ بالکل باطل نظر آتا ہے‘ جب وہ یہ کہتا ہے کہ تہذیبوں کا نشوونما محکوم افراد پر منحصر ہے جو انسانیت کے نہیں بلکہ اپنے حیوانی نفس کے تابع ہوتے ہیں۔ سید مرحوم فرماتے ہیں: ’’اگر وہ آزادانہ نگاہ سے دیکھتا‘ تو اسے نظر آتا کہ انسانی تہذیب میں جو کچھ قیمتی اور شریف اور صالح‘ ہے وہ سب ان لوگوں کا عطیہ ہے جنھوں نے حیوانیت کو انسانیت کا تابع اور محکوم بنا کر رکھا تھا‘‘۔(ایضاً‘ ص ۲۷۲)

  • متبادل نقطۂ نظر: دنیا میں انسان کے مقام و مرتبے کے بارے میں موجودہ نظریات کا تنقیدی جائزہ لینے کے بعد ان کے مقابلے پر اسلام کا نقطۂ نظر پیش کرتے ہوئے سید مودودیؒ فرماتے ہیں : قرآنی تعلیمات کے مطابق انسان محض ایک حیاتیاتی وجود نہیں ہے جس میں بھوک‘ جنس‘ طمع‘ خوف اور غصے جیسی صفات کا بسیرا ہے‘ بلکہ اس میں ایک روحانی جوہر بھی ہے جو اخلاقی ارتعاشات کے ساتھ ساتھ گھٹتا بڑھتا ہے۔ انسان دوسرے جانوروں کی طرح جبلت کا محض پابند نہیں ہے‘ بلکہ اسے ذہانت‘ صوابدید اور علم حاصل کرنے اور آزادانہ فیصلے کرنے کی صلاحیتیں بھی عطا کی گئی ہیں۔  اللہ تعالیٰ انسان کو کسی طے شدہ راستے پر چلنے کے لیے مجبور نہیں کرتا‘ نہ وہ انسانی وجود کو مکمل طور پر اپنا پابند بناتا ہے۔ اس کے برخلاف اس نے انسانوں کو جدوجہد کرنے کی صلاحیت سے مالا مال کیا ہے تاکہ وہ زندہ رہنے کے لیے جفاکشی کو اپنا شعار بنائیں‘ اپنی مخفی صلاحیتوں کا ادراک کریں اور جو کچھ وہ چاہتے ہیں اسے اپنی کوشش سے حاصل کریں۔ ایک خودمختار وجود کے طور پر جدوجہد کرنے کی قابلیت ہی کا نام انسان ہے۔(ایضاً‘ ص ۲۷۲-۲۷۳)

اس بیرونی نفسِ حیوانی کو‘ جو ایک سرکش اور غیر مہذب عامل ہے جسے اپنی خواہشات اور شہوات کو پورا کرنے کے علاوہ کسی اور چیز سے غرض نہیں ہوتی-- اللہ تعالیٰ نے دراصل اندرونی انسان کی خدمت پر مامور کیا ہے۔ جب یہ جذبات سے بے قابو ہو جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ نظام کو تلپٹ کر کے نفسِ انسانی کو اپنا ماتحت بنا لیتا ہے‘ تاکہ اس کی ذہنی صلاحیتوں پر تصرف کر کے اس سے اپنے سفلی مطالبات پورے کروا سکے۔ اس کی کوشش ہوتی ہے کہ انسانی صفات ترقی نہ کر سکیں‘ اس کی بصیرت محدود ہو جائے‘ اور اس کے اندر جاہلیت کے جذبات بھڑکتے رہیں۔ انسانی نفسِ لوّامہ‘ نفس حیوانی کو نکیل ڈالنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس سلسلے میں اسے عدل و انصاف‘ زہد و تقویٰ اور صحیح و غلط کی رہنمائی کرنے والا الہامی علم میسر ہے۔ یہاں تک کہ اپنی جبلی خواہشات کی تسکین کے لیے بھی وہ اس علم کی روشنی میں صحیح راستے تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کے مقاصد نفسِ حیوانی کی سفلی خواہشات کے مقابلے میں نہایت بلند ہیں۔ وہ نہ صرف اپنی نظروں میں‘ بلکہ اللہ تعالیٰ کی نظروں میں بھی‘ اچھا بننا چاہتا ہے۔ اس کا وجدان اسے ایک اخلاقی وجود کی حیثیت سے خوب سے خوب تر بننے پر اکساتا رہتا ہے۔

سید مودودیؒ کہتے ہیں کہ انھی وجوہ سے بنی نوعِ انسان کی پوری تاریخ نفسِ انسانی اور اپنے مدمقابل نفسِ حیوانی کے درمیان جاری کش مکش سے عبارت ہے۔ نفسِ انسانی اپنے وجدان کی ترغیبات پر عمل کرنا چاہتا ہے ‘جب کہ نفسِ حیوانی اسے نیچے کی جانب کھینچ کر ایسے راستوں پر چلاتا ہے جو خطرناک ہیں اور خود پرستی‘ اختلافِ رائے‘ شہوت (lust) ‘ اور نا انصافی سے پُر ہیں۔ ایک دفعہ پٹڑی سے اتر جائے تو یہ اپنے آپ کو سنبھالنے کی کوشش کرتا ہے‘ لیکن نفس حیوانی کے زیر اثر اپنے لیے غلط علاج تجویز کر لیتا ہے۔ وہ رہبانیت میں پناہ لیتا ہے‘ نفی ذات کی ریاضتوں کا سہارا لیتا ہے ‘یا پھر معاشرے کی ذمہ داریوں سے فرار کی راہیں ڈھونڈتا ہے۔ لیکن بجاے اس کے کہ نفس ِ حیوانی پر اس کی گرفت مضبوط ہو‘ زندگی سے اس نامطلوب دست برداری کی بدولت وہ دوبارہ غلط راستوں پر چل نکلتا ہے۔ اور اس مرتبہ اس کا حیوانی نفس اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے گمراہ ہو جائے۔

سید مودودی کہتے ہیں: ’’افراط و تفریط کی یہ دونوں طاقتیں ]یعنی رہبانیت اور مادیت[ بار بار اپنا زور لگاتی ہیں جو حیات انسانی کو ادھیڑ دیتی ہیں۔ ہر ایک کے اثر سے کچھ ایسے نظریات‘ اصول اور طریقے پیدا ہوتے ہیں جو ایک عنصر حق کا اور کچھ عناصر باطل کے اپنے اندر رکھتے ہیں۔ کچھ دنوں تک انسان ان مخلوط اصولوں اور طریقوں کا تجربہ کرتا ہے۔ آخرکار اس کی اصلی فطرت‘ جوشعوری یا غیر شعوری طور پر صراط مستقیم کے لیے بے چین رہتی ہے‘ ٹیڑھے راستوں سے بیزار ہو کر ان کے باطل عناصر کو پھینک دیتی ہے اور ان کے صرف وہ حصے انسانی زندگی میں باقی رہ جاتے ہیں جو حق اور راست ہیں‘‘۔

سید مودودیؒ کا ٹیڑھے راستے کا تصور ’’قرآن مجیدکی اصطلاح ’’سواء السبیل‘‘ سے ماخوذ ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ہیگل جس ٹیڑھے راستے کا ذکر کرتا ہے‘ اس کا تصور اس نے کہاں سے لیا؟ کیا اس نے بھی قرآن ہی سے یہ تصور لیا ہے؟ بہرصورت‘ یہ بات دل چسپی سے خالی نہیں کہ اینجلز کے بیانات کے مطابق ہیگل نے بُھول بھلیوں پر مبنی حرکات‘‘ کا ذکر کیا ہے۔ مثال کے طور پر اینجلز کی کتاب Ludwig Feuerbach سے یہ عبارت ملاحظہ کیجیے:

According to Hegel, therefore, the dialectical development apparent in nature and history, i.e.., the causal interconnection of the progressive movement from the lower to the higher, which asserts itself through all zigzag movements and temporary setbacks, is only a miserable copy of the self-independently of any thinking brain.

ہیگل کے خیال میں فطرت اور تاریخ میں ظاہر ہونے والی جدلّی نشوونما ‘یعنی ادنیٰ سے اعلیٰ کی جانب ترقی پذیر حرکت کاتشبیبیربط باہم جو تمام کج مج حرکات اور عارضی رکاوٹوں میں اپنی موجودگی کا اظہار کرتا ہے‘ اس تصورکی محض ایک منحوس نقل ہے‘ جو ازل سے رواں دواں ہے لیکن کوئی نہیں جانتا کہ اس کی منزل کیا ہے۔ لیکن تمام واقعات و حوادث کسی سوچنے سمجھنے والے ذہن سے آزاد ہیں۔

قرآن مجید اور ہیگل کے موقف میں بہرحال ایک بنیادی نوعیت کا فرق ہے: جہاں ہیگل   پیچ دار حرکات کو کسی معاشرے کے اندر تناقضات پر قابو پانے کی کش مکش کا پرتو قرار دیتا ہے‘ وہاں  قرآن حکیم اس تلوّن مزاجی کو اسلامی اور غیر اسلامی طریق ہاے زندگی کی کش مکش قرار دیتا ہے۔۴؎

  • سیکولرازم اور اس کا خراج:مغربی تہذیب کی عمارت جو اس قسم کے اینٹ مسالے سے تیار ہوئی ہے‘ اسے دیکھتے ہوئے سید مودودیؒ ؒ جیسے صاحب ِفراست لوگوں کے لیے اس میں اچنبھے کی کوئی بات نہ تھی کہ سیکولرازم‘ نیشنلزم اور جمہوریت جیسے مغربی نظاموں کی نمایاں اقدار انسان کے لیے مسائل پیدا کرنے کا باعث بنیں۔ ان کی رائے میں ان تین نظاموں نے مل کر نسلِ انسانی کے اوپر عذاب کی مثلث مسلط کر رکھی ہے۔  سیدمودودیؒ بتاتے ہیں کہ مغرب کا یہ اصرار کہ ان کے سیکولر نظام حکومت میں مذہب کوئی مداخلت نہ کرے‘ یہ دراصل عیسائی پادریوں کے مرتب کردہ علم الٰہیات (Theology) کے خلاف ردِعمل تھا‘ جس نے اس کی آزادی اور نشوونما کو اپنے پنجے میں جکڑ کر سخت ذہنی صدمے سے دوچار کر رکھا تھا۔ وہ بار بار دہرائے جانے والے اس پٹے ہوئے جملے (cliche) کو: ’’مذہب انسان اور خدا کے درمیان ایک ذاتی معاملہ ہے‘‘ تہذیب حاضر کا کلمۂ شہادت قرار دیتے ہیں۔ اس جملے کا مفہوم یہ ہے کہ اگر کسی شخص کا ضمیر خدا کے وجود کی گواہی دیتا ہے تو اسے اختیار ہے کہ وہ اپنی نجی زندگی میں خدا کی عبادت  کرتا پھرے‘ لیکن سیکولر نظام حکومت میں مذہب کو دخیل کرنے کی کوئی کوشش نہ کرے … اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہر قسم کے دنیوی تعلقات‘ خواہ وہ تعلیم سے متعلق ہوں یا تجارت‘ قانون اور سیاست سے تعلق رکھتے ہوں‘ یا پھر بین الاقوامی تعلقات سے بحث کرتے ہوں‘ وہ سب کے سب مذہب کی گرفت سے یکسر آزاد ہوگئے۔ فیصلے اقدار کی بنیاد پر نہیں‘ بلکہ موقع محل کی مناسبت سے کیے جاتے ہیں جن میںاصلاً  نفسِ انسانی‘ ثالث کا کردار ادا کرتا ہے (ایضاً)۔ ان کے نزدیک یہ دکھ کی بات تھی کہ ’’انفرادی زندگی بھی ’’بے خدا‘‘ تعلیم اور لادینی معاشرتی اثرات کے سبب لادینیت کا شکار ہو گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے وجود کی شخصی شہادت اور اس کی عبادت کا علانیہ اظہار بھی اب بالخصوص ان لوگوں کی جانب سے نہیں ہوتا جو اس نئی تہذیب کے اصل محرک اور مبلغ ہیں۔

اللہ تعالیٰ کے وجود کو عوام کے دل و دماغ کی دنیا سے محو کر دینے کے اس لادینی منصوبے کو   وہ غیر منطقی قرار دیتے ہیں: یہ بات ایک ایسی غیر متعلق ہستی کی خواہ مخواہ پرستش کرنا‘ جس کا ہم سے  کوئی واسطہ ہی نہیں ہے‘ عقل و شعور سے عاری بات ہے۔ اگر وہ فی الواقع ہمارا اور اس تمام جہانِ ہست و بود کا خالق‘ مالک اور حاکم ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ اس کی عمل داری محض ایک شخص کی نجی زندگی تک محدودرہے ‘اور جہاں سے انسانوں کے درمیان اجتماعی تعلقات کا آغاز ہو‘ وہاں اس کے اختیارات کی حد ختم ہو جائے۔ یہ حدبندی اگر خدا نے خود کی ہے تو اس کی کوئی سند ہونی چاہیے‘ اور اگر اپنی اجتماعی زندگی میں انسان نے خود ہی اپنے اور خدا کے تعلقات کی حدود مقرر کر لی ہیں پھر یہ    اپنے خالق‘ مالک اور حاکم سے اس کی کھلی بغاوت نہیں تو اور کیا ہے۔ اس بغاوت کے ساتھ یہ دعویٰ کہ ہم اپنی انفرادی زندگی میں خدا کو اور اس کے دین کو مانتے ہیں صرف وہی شخص کر سکتا ہے جس کی عقل ماری گئی ہو‘‘۔(ایضاً)

سید مودودیؒ کے افکار کے مطالعے سے سیکولر ذہن کی یہ غلطی مزید نمایاں ہو کر سامنے آجاتی ہے: کسی صحیح الدماغ شخص کے لیے یہ تسلیم کرنا دشوار ہے کہ ہر شخص اپنی شخصی اور ذاتی حیثیت میں تو خدا کا بندہ ہو‘ لیکن جب بہت سے افراد مل کر ایک معاشرہ کی تشکیل دیں تو وہ سب افراد خدا کی بندگی سے نکل جائیں یعنی انفرادی طور پر تو سب رب کو رب تسلیم کریں‘ لیکن اجتماعی سطح پر اس کی ربوبیت کا انکار کر دیں۔ یہ ایک ایسا تصور ہے جو حواس سے عاری شخص کے ذہن میں ہی آسکتا ہے۔ پھر یہ بات کسی طرح ہماری سمجھ میں نہیں آتی کہ اگر ہمیں خدا کی اور اس کی رہنمائی کی ضرورت نہ اپنی خانگی معاشرت میں ہے‘ نہ محلے اور شہر میں‘ نہ مدرسے اور کالج میں‘ نہ منڈی اور بازار میں‘ نہ پارلیمنٹ اور گورنمنٹ ہائوس میں‘ نہ ہائی کورٹ اور نہ سول سکرٹریٹ میں‘ نہ چھائونی اور پولیس لائن میں اور نہ میدانِ جنگ اور صلح کانفرنس میں‘ تو آخر اس کی ضرورت ہے کہاں؟ کیوں اسے مانا جائے اور خواہ مخواہ اس کی عبادت اور بندگی کی جائے جو زندگی کے کسی معاملے میں بھی ہماری رہنمائی نہیں کرتا‘ یا معاذاللہ کسی معاملے میں بھی اس کی کوئی ہدایت ہمیں معقول اور قابلِ عمل نظر نہیں آتی۔(ایضاً)

زندگی کو انفرادی اور اجتماعی خانوں میں بانٹنے سے لازماً مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ سید مودودی علیہ الرحمہ کا موقف ہے کہ جس چیز کو لوگ ذاتی زندگی کہتے ہیں‘ اس کا کوئی وجود ہی نہیں ہے‘ کیونکہ انسان ایک ایسے ماحول میں آنکھ کھولتا ہے جس میں وہ اجتماعیت سے چھٹکارا حاصل نہیں کرسکتا۔ اس کے والدین انسانی سماجی تعلقات کی بدولت ہی ازدواجی رشتے میں بندھے ہوتے ہیں۔ وہ اپنے ماں باپ کی گود ہی میں دن کی پہلی کرن سے واقف ہوتا ہے اور معاشرے کا حصہ بنتا ہے۔ جب وہ سنِ بلوغت کو پہنچتا ہے تو اپنے آپ کو معاشرے اور اس کے مختلف اداروں میں گھرا ہوا پاتا ہے ۔وہ سوچتا ہے کہ انسانوں کو دوسرے انسانوں سے جوڑنے والے بے شمار روابط اپنی ساخت میں صحت مند ہونے چاہییں کیونکہ یہ ان کی فلاح و بہبود کا نقطۂ آغاز ہے۔ باہمی تعلقات کی ایسی صحت مند اور اعلیٰ اقدار صرف اللہ تعالیٰ کی طرف سے ودیعت کی جا سکتی ہیں۔ سید مودودی لکھتے ہیں: جہاں انسان اللہ کی ہدایت سے بے نیاز ہو کر خود مختار بنا‘ پھر نہ تو کوئی مستقل اصول باقی رہتا ہے اور نہ انصاف اور راستی۔ اس لیے کہ خدا کی رہنمائی سے محروم ہو جانے کے بعد خواہش اور ناقص علم و تجربے کے سوا کوئی چیز ایسی باقی نہیں رہتی جس کی طرف انسان رہنمائی کے لیے رجوع کر سکے۔

یہی بات رسل کرک  (Russell Kirk) نے کئی برس کے بعد ان الفاظ میں کہی:۵؎

The sanction for obedience to norms must come from a source higher than private speculation: Men do not submit long to their creations. Standard, erected out of expediency will be hurled down, soon enough, also out of expediency.

معروف اقدار کی پابندی ایک ایسی ہستی عائد کر سکتی ہے جو ہمارے فہم و شعور سے بالاتر ہو۔ انسان زیادہ طویل عرصے تک اپنی تخلیقات کی اطاعت نہیں کر سکتا۔ مصلحت کی بنیاد پر بنائے گئے معیار بہت جلد مصلحت ہی کی بنا پر روند ڈالے جاتے ہیں‘‘۔

سیکولرازم فرد اور معاشرے دونوں کے لیے جو مسائل کھڑے کرتا ہے‘ سید مودودیؒ ؒ اسے بھی عمدہ طریقے سے بیان کرتے ہیں: جس معاشرے کا نظام لادینی اصول پر چلتا ہے اس میں خواہشات کی بنا پر روز اصول بنتے اور ٹوٹتے ہیں۔ آپ خود دیکھ رہے ہیں کہ انسانی تعلقات کے ایک ایک گوشے میں ظلم‘ ناانصافی‘ بے ایمانی اور آپس کی بے اعتمادی گھُس گئی ہے۔ تمام انسانی معاملات پر انفرادی‘ طبقاتی‘ قومی اورنسلی خود غرضیاں مسلط ہو گئی ہیں۔ دو انسانوں کے تعلق سے لے کر قوموں کے تعلق تک کوئی رابطہ ایسا نہیں رہا جس میں ٹیڑھ نہ آگئی ہو‘ ہر ایک شخص نے‘ ہر ایک گروہ نے‘ ہر ایک طبقے نے ہر ایک قوم اور ملک نے اپنے اپنے دائرہ اختیار میں جہاں تک بھی اس کا بس چلا ہے‘ پوری خود غرضی کے ساتھ اپنے مطلب کے اصول اور قاعدے اور قانون بنا لیے ہیں اور کوئی بھی اس کی پروا نہیں کرتا کہ دوسرے اشخاص‘ گروہوں‘ طبقوں اورقوموں پر اس کا کیا اثر پڑے گا۔ اگر کسی شعبے کو اہمیت اور وقعت دی جاتی ہے تو وہ صرف اور صرف قوت و اختیار ہے جس میں طاقت سے ہی ڈرا جاتا ہے۔ درحقیقت لادینی معاشرے میں انفرادی اور اجتماعی دونوں سطحوں پر کسی کے حدود و تصرف میں صرف اور صرف طاقت کی عمل داری کو ایک منطقی اور فطری اصول کے طور پر قبول کر لیا جاتا ہے۔ پس لادینی معاشرتی نظام کا ماحصل صرف یہ ہے کہ جو بھی اس طرز عمل کو اختیار کرے گا بے لگام‘ غیر ذمہ دار اور بندۂ نفس ہو کر رہے گا خواہ وہ ایک شخص ہو یا ایک گروہ یا ایک ملک اور قوم یا مجموعہ اقوام۔۶؎

قوم پرستی (Nationalism) اور اس سے ملتی جلتی عصبیت (Irredentism) کا آغاز یورپ میں اٹھارھویں صدی کی ابتدا میں ہوا اور یہ دونوں تحریکیں تیزی سے پھلنے پھولنے لگیں کیونکہ گذشتہ صدیوں کے دوران میں آنے والی تبدیلیوں کے سبب بادشاہتوں کی شکست و ریخت شروع ہو چکی تھی۔ سید علیہ الرحمہ نے قوم پرستی کے باعث نوعِ انسانی کو پہنچنے والے ان نقصانات کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ انھوں نے خیال ظاہر کیا کہ قوم پرستی کی ابتدا اِس معصومانہ سوچ سے ہوئی تھی کہ ہر قوم کو اپنے معاملات چلانے کے لیے حکمت عملی خود وضع کرنے کا حق ہونا چاہیے۔ لیکن جب قومیت کا تصور مستحکم ہو گیا تو اس نے خدا کو اجتماعی معاملات سے بے دخل کر دیا اور ’’قومی مفادات‘‘ کو اعلیٰ ترین اخلاقی اقدار کا درجہ دے دیا۔ اس سے یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ سید مودودیؒ قومیت کے تصور کے یکسر خلاف تھے۔ ان کا مقصد صرف یہ تھا کہ قوم پرستی کو خداپرستی کا درجہ نہ دیا جائے۔ ان کا خیال تھا کہ محض قومی مفادات کو اچھے اور برے میں تمیز کرنے والے عالمی اخلاقی معیارات سے بدل دینا خطرناک ہوگا۔

قوم پرستی کا نتیجہ یہ ہوا کہ کوئی بھی چیز خواہ وہ عدل و انصاف کے منافی ہو یا پرانی مذہبی روایات میں گناہ کبیرہ سمجھی جاتی ہو‘ اگر وہ قوم کے لیے نفع بخش ہے تو اسے ایک پسندیدہ فعل سمجھا جائے۔ اسی طرح کوئی بھی امر جو حق و انصاف اور ایمان داری پر مبنی ہو یا جسے کسی زمانے میں اخلاق کی انتہا سمجھا جاتا تھا‘ اگر وہ قوم کے لیے نقصان دہ ہے تو اسے ایک ناپسندیدہ کام قرار دیا جائے۔ اسی طرزِ فکر کا نتیجہ ہے کہ ایک ایسا شخص جو اپنی قوم کی خاطر اپنی جان‘ مال‘ وقت‘ حتیٰ کہ ضمیر اور عقائد تک کو قربان کر ڈالے‘ اسے ایک مثالی شہری سمجھا جائے گا۔

ایسے معاشرے میں اجتماعی کوششوں کا محور اپنے شہریوں کو یہ تعلیم دینا ہوتا ہے کہ وہ صرف اپنی قوم کی عظمت کی بلندی کے لیے کام کریں: نیکی وہ ہے جو قوم کے لیے مفید ہو‘ خواہ وہ جھوٹ ہو‘ بے ایمانی ہو‘ ظلم ہو‘ یا اور کوئی ایسا فعل ہو جو پرانے مذہب و اخلاق میں بدترین گناہ سمجھا جاتا تھا۔ اور بدی وہ ہے جس سے قوم کے مفاد کو نقصان پہنچے خواہ وہ سچائی ہو‘ انصاف ہو‘ وفاے عہد ہو اور اداے حق ہو یا اور کوئی ایسی چیز جسے کبھی فضائلِ اخلاق میں شمار کیا جاتا تھا۔ افرادِ قوم کی خوبی اور زندگی و بیداری کا پیمانہ یہ ہے کہ قوم کا مفاد ان سے جس قربانی کا مطالبہ کرے‘ خواہ وہ جان و مال اور وقت کی قربانی ہو یا ضمیر و ایمان کی‘ اخلاق و انسانیت کی قربانی ہو یا شرافتِ نفس کی‘ بہرحال وہ اس میں دریغ نہ کریں اور متحد و منظم ہو کر قوم کے بڑھتے ہوئے حوصلوں کو پورا کرنے میں لگے رہیں۔ اجتماعی کوششوں کی غایت اب یہ ہے کہ ہر قوم ایسے افراد کی زیادہ سے زیادہ تعداد بہم پہنچائے اور ان میں ایکا اور نظم پیدا کرے تاکہ وہ دوسری قوموں کے مقابلے میں اپنی قوم کا جھنڈا بلند کریں۔(ایضاً)

عوام کی اقدار ِ اعلیٰ کا جو تصور سیکولرازم نے دیا‘ وہ بھی سید مودودیؒ کی نظروں میں اتنا ہی خطرناک ہے: جمہور کی حاکمیت (Sovereignty of the People) کو ابتداً بادشاہوں اور جاگیرداروں کے اقتدار کی گرفت توڑنے کے لیے پیش کیا گیا تھا‘ اور اس حد تک بات درست تھی کہ ایک شخص یا ایک خاندان یا ایک طبقے کو لاکھوں کروڑوں انسانوں پر اپنی مرضی مسلط کر دینے اور اپنی اغراض کے لیے انھیں استعمال کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ لیکن اس منفی پہلو کے ساتھ اس کا مثبت پہلو یہ تھا کہ ایک ایک ملک اور ایک ایک علاقے کے باشندے اپنے آپ حاکم اور اپنے آپ مالک ہیں۔ اسی مثبت پہلو پر ترقی کر کے جمہوریت نے اب جو شکل اختیار کی ہے وہ یہ ہے کہ ہر قوم اپنی مرضی کی مختارِ کل ہے۔ اس کی مجموعی خواہش (عملاً اس کی اکثریت کی خواہش) کو پابند کرنے والی کوئی چیز نہیں ہے۔(ایضاً)

لیکن اصل مسئلہ اس وقت پیدا ہوا جب قوم پرستی کے ساتھ ساتھ انھوں نے ایک دوسرا خدا بھی بنا لیا۔ سید مودودی کہتے ہیں: اخلاق ہو یا تمدن‘ معاشرت ہو یا سیاست‘ ہر چیز کے لیے برحق اصول وہ ہیں جو قومی خواہش سے طے ہوں‘ اور جن اصولوں کو قوم کی راے عامہ رد کر دے وہ باطل ہیں۔ قانون‘ قوم کی مرضی پر منحصر ہے۔ جو قانون چاہے بنائے اور جس قانون کو چاہے توڑ دے یا بدل دے۔ حکومت قوم کی رضا کے مطابق بننی چاہیے۔ قوم ہی کی رضا کا اسے پابند ہونا چاہیے اور اس کی پوری طاقت قومی خواہش کو پورا کرنے پر صرف ہونی چاہیے۔

پھر سید مودودیؒ ؒ جمہوریت کی تعریف ان الفاظ میں کرتے ہیں: موجودہ تہذیب میں جمہوریت کے معنی ہیں جمہور کی حاکمیت‘ یعنی ایک علاقے کے لوگوں کی مجموعی خواہش کا اپنے علاقے میں مختار مطلق ہونا اور ان کا قانون کے تابع نہ ہونا‘ بلکہ قانون کا ان کی خواہش کے تابع ہونا‘ اور حکومت کی غرض صرف یہ ہونا کہ اس کا نظم اور اس کی طاقت لوگوں کی اجتماعی خواہشات کو پورا کرنے کے کام آئے۔

ان کے خیال میں اسی کے ساتھ عذاب کی مثلث مکمل ہو جاتی ہے: پہلے تو لادینیت نے ان لوگوں کو خدا کے خوف اور اخلاق کے مستقل اصولوں کی گرفت سے آزاد کر کے بے لگام اور غیر ذمہ دار اور بندۂ نفس بنا دیا‘ پھر قوم پرستی نے ان کو شدید قسم کی قومی خود غرضی اور اندھی عصبیت اور قومی غرور کے نشے سے بدمست کر دیا‘ اور اب یہ جمہوریت انھی بے لگام‘ بدمست بندگانِ نفس کی خواہشات کو قانون سازی کے مکمل اختیارات دیتی ہے اور حکومت کا واحد مقصد یہ قرار دیتی ہے کہ اس کی طاقت ہر اس چیز کے حصول میں صَرف ہو جس کی یہ لوگ اجتماعی طور پر خواہش کریں۔

اس بحث کو سمیٹتے ہوئے سید مودودی ایک فطری سوال اٹھاتے ہیں: سوال یہ ہے کہ اس طرح کی خود مختار صاحب ِحاکمیت قوم کا حال آخر ایک طاقت ور بدمعاش کے حال سے کس بات میں مختلف ہو گا۔ جو کچھ ایک بدمعاش فرد خود مختار اور طاقت ور ہو کر چھوٹے پیمانے پر کرے گا وہی تو اس سے بہت زیادہ بڑے پیمانے پر اس طرح کی ایک قوم کرے گی۔ پھر جب دنیا میں صرف ایک ہی قوم ایسی نہ ہو بلکہ ساری متمدن قومیں اسی ڈھنگ پر بے دینی‘ قوم پرستی اور جمہوریت کے اصولوں پر منظم ہوں تو دنیا بھیڑیوں کا میدانِ جنگ نہ بنے گی تو اور کیا بنے گی؟۷؎

مغرب و مشرق میں اقدار کی قدیم دنیا کے تحلیل ہو جانے کے بعد وجود میں آنے والا نیا لادین معاشرہ ایک کھوکھلا معاشرہ تھا‘ جسے نفسانی نظریات کے علاوہ اور کسی چیز کا سہارا میسر نہیں ہے۔ اب وہ چاہے ڈیکارٹ (Descarte) کی ’’یکہ و تنہا انا پرستی‘‘ ہو‘ کانٹ (Kant) کا ’’تخصیص کردہ اصل مافیہ کے اثر سے پاک نفسِ آزاد‘‘ ہو‘ ویبر (Weber) کی ’’طریقیاتی انفرادیت‘‘ ہو‘ جو موجودہ سماجی ساختوں کو افراد کے عقائد اور رویوں کا پرتو قرار دیتی ہے‘ یاپھر کیر کیگارڈ (Kierkegaard) کی ’’جمالیاتی شخصیت‘‘ ہو جو زندگی کے ایک مجموعی لائحہ عمل کی مالک تو ہوتی ہے لیکن جس میں کوئی مافیہ (content) نہیں ہے‘ بلکہ ایک خالی خولی عمل ہے جو کسی اتفاقی عامل (input) کے انتظار میں رہتا ہے۔ لادینی معاشرہ نفس کے بارے میں کم و بیش اس تصور پر متفق ہو گیا‘ کہ یہ ’’جذبات کا معقول مالک اور آقا ہے جو مشین کے جسم میں رہایش پذیر ہے‘‘۔ یہ تصور‘ نفس کے اس تصور سے قطعی طور پر مختلف تھا کہ ’’یہ کائنات اور معاشرے سے متحد نامیاتی اعضا کی دقیق ہم ٖآہنگی کا جزو لازم ہے‘‘۔ جب نفس کو اس کے نامیاتی پس منظر سے جدا کر دیا گیا تو ’’تمام اخلاقی مطالبات کے لیے یہ ایک آخری سہارے‘‘ کی حیثیت اختیار کر گیا۔ لیکن ایک لادین نفس‘ جیسا کہ اسے ہونا چاہیے‘ بے لگام تھا۔ یہ ایک حریص اور لالچی نفس تھا‘ جو پیوستگی‘ اتحاد اور عقل سلیم جیسی صفات کے تقاضوں سے قطعی طور پر ہم آہنگ نہیں تھا۔ عقلیت پرست نفس خود اپنے تیار کردہ جالے (web) میں اُلجھ کر رہ جاتا ہے اور اپنے مغالطوں اور اپنی تحدیدی فطرت کے ہاتھوں اسے لگام ملتی ہے۔

لادین ذہنیت کا مقابلہ کرنے کے لیے سید مودودیؒ ،اعتدال اور میانہ روی کی طرف رجوع کرنے کی تلقین کرتے ہیں‘ کیونکہ خود انسان اپنے لیے کوئی درست راہ منتخب نہیں کر سکتا۔ یہ امر انسان اور اس کی صلاحیتوں کا کوئی خوش کن میزانیہ نہیں ہے۔ لیکن لگتا ہے انسانی تاریخ‘ اس المیے کی تائید کرتی ہے‘ کیونکہ انسان اپنی مجموعی صورتِ حال میں نجات دہندگی کی شاہراہ پر چلنے سے غفلت کا شکار رہتا ہے۔ اس کے مقابلے میں خود پرستی یا ذات کا عشق (narcissism) اوباشیت‘ نا آسودہ حیوانی خواہشات    کا بے لگام اظہار (bohemianism)  (روایات اور اقدار سے) بے گانگی اور نفرت (estrangement) جو ایک ہی مرض کی تین حالتیں ہیں‘ انھوں نے انسانوں کو اچھائی قبول کرنے کی صلاحیت سے محروم کر دیا ہے۔ اس افسوس ناک صورت حال کو سمجھنے کے لیے سید مودودیؒ ہمیں اس حقیقت سے باخبر کرنا چاہتے ہیں کہ ہر مرد اور عورت اپنی ذات میں ایک عالم اصغر ہے‘ جس میں کچھ ذہنی اور طبیعی قوتیں قیام پذیر ہیں۔ اس کی کچھ خواہشات ہیں‘ کچھ جذبات اور ذاتی میلانات ہیں اور ساتھ ہی کچھ روحانی اور جبلی مطالبات بھی ہیں۔ معاشرے کی تشکیل کا عمل بھی‘ جو انسانوں کے میل جول سے وجودمیں آتا ہے‘ پیچیدہ ہے‘ اور جوں جوں تمدن نشوونما پاتا ہے‘ اس پیچیدگی میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ معاشرے میں مادی وسائل کی کثرت کے سبب انفرادی اور معاشرتی سطح پر ان کی ملکیت اور تقسیم کے مسائل جنم لیتے ہیں۔

چونکہ انسان فطری طور پر خامیوں سے پاک نہیں ہے‘ لہٰذا اس کے لیے ماضی پر ایک متوازن نظر ڈالنا اور اس سے سبق حاصل کرتے ہوئے زندگی کا ایک ایسا نظام وضع کرنا ممکن نہیں جو نفسی روحانی (psycho-spiritual) اور مادی‘ ہر دو معنوں میں اس کے لیے ممد و معاون ہو‘ جو اسے اس کی بساط کے مطابق انصاف فراہم کر سکتا اور اس کے اجتماعی معاشیاتی مسائل کو عادلانہ انداز میں حل کر سکتا ہو۔ پھر یہ نظام ایسا بھی ہونا چاہیے‘ جو انفرادی اور معاشرتی دونوں قسم کی ضرورتوں کے لیے مادی وسائل کے استحقاقی استعمال کی ضمانت دے جس سے ایسی صحت مندانہ نشوونما کو فروغ حاصل ہو جو ماحول اور معاشرتی توازن کے لیے نقصان دہ نہ ہو۔ جب انسان قیادت پر قبضہ کر کے خود ہی اپنے مشیر بن جاتے ہیں تو حقیقت کے محض چند پہلو‘ زندگی کی چند ضروریات اور چند ایک حل طلب مسائل ان کی توجہ کا مرکز بن جاتے ہیں۔ تب وہ نادانستہ طور پر دوسرے پہلوئوں کے بارے میں غیر منصفانہ رویہ اختیار کر لیتے ہیں۔ یوں زندگی کا توازن بگڑ جاتا ہے اور یہ ٹیڑھے راستے پر چل نکلتی ہے۔

سید مودودیؒ اپنا راستہ خودمتعین کرنے کی انسانی کوششوں کو بے مقصد اور وقت کا ضیاع قرار دیتے ہیں۔ وہ ان لوگوں سے اختلاف کرتے ہیں جو ’’جدلی عمل‘‘ کو انسانی ترقی کے لیے ایک فطری ارتقائی عمل قرار دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک یہ ارتقا کا کامیاب راستہ نہیں بلکہ تباہی کی جانب لے جانے والی ناہموار سڑک ہے‘ جو انسان کو مصیبت کے ایک گڑھے سے دوسرے گڑھے میں گراتی رہتی ہے۔

سید مودودیؒ لادینی ذہنیت کے فروغ کو ایک عذاب سے تعبیر کرتے ہیں اور اس کا علاج یہ تجویز کرتے ہیں کہ کسی بنیادی مابعد الطبیعی ڈھانچے کی طرف رجوع کیا جائے‘ انسان اور قدرت کے درمیان ایک کائناتی وحدت پر یقین رکھا جائے‘ فرد اور معاشرے کے حقوق کے درمیان توازن قائم کیا جائے‘ اخلاقی صفات سے متصف انسان کی تشکیل کی جائے‘ قومیتوں کی کڑی حدبندیوں کو توڑ دیا جائے اور ایک ایسا عالمی نظام وضع کیا جائے جس میں دنیا کی غریب اور پسی ہوئی اقوام کو مساویانہ مقام اور وقار ملے۔

مسلمانوں کے لیے سید مودودیؒ کا پیغام ہے کہ اپنے نظامِ اقدار کو دوبارہ اس کی خالص شکل میں اپنائیں‘ اور اسلامی اخلاق پر مبنی ایک ریاست قائم کر کے اپنے گھر کی اصلاح کریں‘ جو دوسروں کے لیے ایک شان دار نمونے اور انسانیت کے منقسم طبقات کی باہمی تفہیم کے لیے ایک پُل کا کام دے۔ یہ کام مشکل ضرور ہے‘ لیکن دنیا میں تاریکی جس قدر زیادہ ہو گی‘ روشنی کے لیے انسان کی تڑپ بھی اتنی ہی زیادہ ہو گی۔

حواشی

۱-            برین گارڈنر (Brain Gardner)   The East India Company  (نیویارک: ڈورسیٹ پریس‘ ۱۹۹۰ئ)۔ یہ پورا پیراگراف لائق مطالعہ ہے کیونکہ یہ ہندستان بھر میں بار بار دہرائے جانے والے اس دعوے کو مسمار کرتا ہے کہ انگریزوں نے ہندوئوں اورمسلمانوں کے درمیان برابری کا رویہ اختیار کیا۔ ’’ایلن برو (Ellenborough) کے ارادے امن پسندانہ تھے‘ یا کم از کم وہ ظاہر یہی کرتا تھا‘ لیکن اس کے افعال اور عملی اقدامات جنگجویانہ نوعیت کے تھے۔ ابھی اس نے [ایسٹ انڈیا] کمپنی کو افغانستان میں ہونے والی مکمل ناکامی سے پیدا ہونے والی صورت حال کو سلجھایا ہی تھا کہ سندھ [موجودہ پاکستان] کے مسئلے نے سر اٹھا لیا۔ یہیں سے افغانستان پر سب سے پہلے چڑھائی کرنے والے روانہ ہوئے تھے۔ یہاں کے مقامی امیر مطلق العنان اور ظالم تھے‘ لیکن اپنی آزادی کا بہت خیال رکھتے تھے۔ دریاے سندھ پر جو پنجاب کی شہ رگ تھا‘ ان کامکمل کنٹرول اور زیریں سندھ کا علاقہ زرخیز اور زمینی پیداوار سے مالا مال تھا۔ وہ مسلمان بھی تھے اور ایلن برو کو پورا یقین تھا کہ ہندو‘ انگریزوں کے فطری ساتھی اور مسلمان ان کے قدرتی دشمن ہیں‘‘۔

۲-            دیکھیے: سٹینلے ایل جیکی (Stanley L. Jaki) کی کتاب The Road of Science and The Ways to God (یونی ورسٹی آف شکاگو‘ ۱۹۷۸ئ‘ ص ۲۸۸ - ۲۸۹)

۳-            دیکھیے: چارلس ڈارون‘ The Origin of Species (نیویارک: دی نیو امریکن لائبریری آف ورلڈ لٹریچر‘ ۱۹۵۸ئ)۔ اس بارے میں ہکسلے نے جو بات کہی‘ اس کے لیے اسی کتاب کا صفحہ ’’y‘‘ دیکھیے۔

۴-            دیکھیے: سید ابوالاعلیٰ مودودی ،’’اسلام اور سیکولر ذہنیت‘‘ The Subversive Principles of Western Civilization ترجمہ و تدوین: طارق جان (لیسٹر: اسلامک فائونڈیشن‘ زیرطبع)۔

۵-            رسل کرک‘ Enemies of The Permanent Things-Observations of Abnormality in Literature on Politics (نیو روشیل‘ آرلنگٹن ہائوس‘ ۱۹۶۹ئ‘ ص ۱۷)

۶-            سید ابوالاعلیٰ مودودی،’’اسلام اور سیکولر ذہنیت‘‘ The Subversive Principles of Western Civilization

۷-            دیکھیے: طارق جان‘ Secularism, The New Idolatory, Pakistan Between Secularism and Islam (اسلام آباد: انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز‘ ۱۹۹۸ئ)