اپنی کتاب Engaging Secularism - limits of a Promise میں مَیں نے سیکولرزم کے اجزائے ترکیبی بیان کرتے ہوئے یہ بات کہی تھی کہ یہ فکری فتنہ، اُمورِ دُنیا سے متعلق نہیں ہے بلکہ اپنے جوہر اور روح میں الحاد ہے، جو جمہوری نظامِ معاشرت میں اپنے کرخت خدوخال کے ساتھ مصنوعی مسکراہٹیں بکھیرتا دبے پائوں چلا آتا ہے، تاکہ انسانی جبلت میں خداپرستی کی رگِ مدافعت مشتعل نہ ہوپائے اور اس طرح معاشرے کو اپنے ڈھب پر آہستہ آہستہ لے آئے۔
بعض اہل علم نے اس موقف پر ردِعمل دیتے ہوئے کہا کہ ’’سیکولرزم ، خدا کی حقیقت مطلق کو چیلنج نہیں کرتا اور نہ اس کی نفی کرتا ہے، بلکہ یہ تو محض دُنیاوی اُمور کے انتظام و انصرام سے متعلق ایک فکروعمل کا نام ہے‘‘۔ ایسے افراد سیکولرزم کے اجزائے ترکیبی کی نوعیت اور مقتضیات سے لاعلم تھے۔
تووہ عناصر ترکیب کیا تھے جن کی طرف میں اشارہ کر رہا تھا؟
وہ تھے: انسانیت پرستی، ارتقائیت، عقلیت ، ایجابیت اور سائنسیت۔ یہاں پر ان چاروں فکری اجزا کا مختصر الفاظ میں ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں تاکہ ان کی نوعیت کا تعین ہوسکے۔
ان سارے نظریات اور فلسفہ ہائے حیات میں سے کوئی بھی، خدا کے مطلق وجود کو تسلیم کرنے کی طرف نہیں جاتا۔ یہ سب اپنی فطرت اور اپنی روح میں الحادی ہیں۔
اسی لیے جن ممالک میں بھی سیکولرلزم یا لبرل ازم موجود ہے، وہاں الحاد روز افزوں پھل پھول رہا ہے، مثلاً بعض ماہرین سماجیات کے مطابق فرانس میں ۴۰ فی صد ملحدین ہیں۔ جاپان میں ۸۷ فی صد، برطانیہ ویلز وغیرہ میں ۷۳ فی صد ، جرمنی میں ۶۴ فی صد اور امریکا میں ۴۳ فی صد ملحدین ہیں (یہ حتمی اعداد و شمار نہیں ہیں)۔ خود پاکستان میں ملحدین کی تعداد ۷فی صد کہی جارہی ہے۔ ادب بالخصوص شاعری، الحادی اشاعت کا ایک مؤثر وسیلہ ہے جس کی بہت سی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں، جیسے:
یہ جو تکتا ہے آسماں کی طرف
کوئی رہتا ہے آسماں میں کیا؟
جون ایلیا
غرض الحادی فکر میں بنیادی اہمیت اس برتر و اعلیٰ ہستی کی نفی ہے، جو وجہ تخلیق عالم ہے۔ اس فکر کا یہ دعویٰ ہے کہ اس کائنات کا مکین انسان خود بخود کسی ارتقائی عمل سے وجود میں آیا ہے۔ ملحدین کی سب سے بڑی دلیل ہے کہ اگر خدا موجود ہے تو اس سے پہلے کیا تھا، یعنی خدا کا بھی کوئی موجد ہے یا نہیں؟الحاد پرستوں کی یہ سوچ بھی ہے کہ خدا اپنی جگہ کوئی وجود نہیں رکھتا اور نہ وہ اپنے آپ میں موجود ہے۔ یہاں پر اس فکر اور اس کے مقابل موحدین، خدا پرستوںکے موقف کو ایک مختصر مکالمے کی شکل میں پیش کر رہا ہوں تاکہ بات واضح ہوسکے۔
موّحدین (خدا پرست): اگر آپ کے موقف کو تسلیم کر لیا جائے کہ خدا نہیں ہے اور نہ یہ عالم کائنات اس نے بنایا ہے، تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ سب کیسے ہوا ؟
ملحدین (منکرینِ خدا): یہ سب مادے کی کرشمہ سازی ہے، وہی ابتداءہے، وہی حال ہے اور وہی انتہا ہے۔ مطلب یہ کہ مادہ موجود ہے اور موجد ہے، وہی عالم کائنات کا باعث ہے اور وہی تغیر پذیر ارتقائی عمل کا محرک ہے۔
موّحدین :آپ اندھے بہرے مادے کو شعور کا اعلیٰ مقام دے رہے ہیں۔ شعور تو اپنی جگہ روحانی خصوصیات کا حامل امر ہے۔ آپ دو متضاد چیزوں کو ملا رہے ہیں۔ چلیے ،تھوڑی دیر کے لیے مان لیتے ہیں کہ مادہ سب چیزوں پر حاوی ہے اور یہ بھی مان لیتے ہیں کہ مادے کے وجود سے بالاتر کوئی تخلیقی قوت نہیں، تو پھر اس کا مطلب یہ ہوگا کہ آپ مادے کو شعور کا درجہ دے رہے ہیں، حالانکہ شعور اور مادیت دونوں فی نفسہٖ متضاد وجود ہیں۔
ملحدین : نہیں، اس بات میں خدا کا وجود کہاں سے آ گیا؟ ہمارا موقف یہ ہے کہ مادہ ہی آخری ’سبب‘ (cause) ہے اور قطعی طور پر خود ہی موجود ہے ۔
موّحدین :یہ سوچ تو کئی گتھیوں میں اُلجھی ہوئی ہے ۔ اگر آپ سبب ( cause) اور علل (effect) کی بات کر رہے ہیں،تو یہ کبھی ختم نہ ہونے والی مراجعت (Hegelian regress) ہے، جس کی کوئی حد نہیں اور نہ اپنی جگہ یہ معقول سوال ہوگا کہ ’’اس سے پہلے کچھ نہیں تھا‘‘۔
ملحدین : یہ سوال تو ا ُٹھے گا۔
موّحدین : اسی سوال کا آپ جواب دیں کہ مادے سے پہلے کیا تھا ؟ مسئلہ یہ ہے کہ جب آپ ’سبب‘ اور’ علل‘ کی بات کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ’سبب‘ حرکت میں آ کر نتیجہ پیدا کرتا ہے۔ لیکن یہ بات نامکمل ہے ۔ کیا ’سبب‘ ،’ساکن‘(static) حالت سے خود بخود متحرک ہوگیا،یا اس کے پیچھے کوئی قوت محرکہ تھی جس نے اس میں جان پیدا کی اور یہ چل پڑا؟
ملحدین : بالکل،’ سبب‘ خود بخود حرکت میں آیا اور اس سے جو نتیجہ ( effect) پیدا ہوا، وہی ’سبب ‘سب کچھ بن گیا۔
موّحدین :یعنی ’سبب‘ ، ’مادے‘ سے جدا کوئی شے نہیں بلکہ یہ سب کچھ مادہ ہی ہے۔
ملحدین : جی ہاں! ایسا ہی ہے، در اصل مادے کے پیچھے قوا نین فطرت (Natural Laws) ہیں، جو عالم کائنات کو چلا رہے ہیں۔
موّحدین : چلیے صاحب، کم از کم پتہ چلا کہ یہ کھیل طبعی قوانین کا ہے ۔ اگر ایسا ہے تو آپ کی منطق کے مطابق طبعی قوانین، وجودِ کائنات کا باعث بنے، اس لیے لازماً پہلے سے موجود تھے۔
ملحدین : ایسا ہی ہے۔
موّحدین : یہ بڑی حیرت کی بات ہے کہ طبعی قوانین، طبعی مادے کی غیر موجودگی میں بھی حرکت پذیر تھے۔ کیا طبعی قوانین کے بغیر کائنات وجود میں آسکتی ہے؟ یعنی مادہ تو عالم میں موجود ہو، مگر وہ طبعی قوانین سے ناآشنا ہو۔ حالانکہ دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم اور ملزوم ہیں۔ دوسرے لفظوں میں طبعی مادہ ہوگا تو طبعی قوانین ہوں گے۔ اسی طرح بتایئے کہ طبعی قوانین کی نوعیت کیا ہے؟ کیا یہ بھی حادثاتی وجود رکھتے ہیں؟ کیا یہ ساکن ہیں ،بے ترتیب اور نظم سے عاری وجود رکھتے ہیں؟ اگر ایسا نہیں ہے تو کیا پھر ان کے پیچھے کوئی مربوط، منضبط اور تخلیقی ذہن کار فرما ہے؟
ملحدین :اس کے بارے زیادہ نہیں کہا جا سکتا۔
موّحدین : کمال ہے، خدا سے متعلق تصورات کو تو آپ سائنسی عقل سے ماورا بے بنیاد مفروضہ قرار دیتے ہیں ، لیکن خود آپ کی ساری گفتگو مفروضوں پر مبنی ہے۔ جو اعتراض آ پ کو خدا کے وجود پر ہیں، وہی اعتراضات آپ کے تصورات پر لگائے جا سکتے ہیں ۔مثلاً: آپ کے نزدیک حتمی سبب (cause ) مادہ ہے، تو بتائیے وہ مادہ کیسے وجود میں آیا ؟ مادے سے پہلے کیا تھا؟ اس کا کیا کوئی جوا ز اور استدلال ہے؟ پھر طبعی قوانین کیسے مادی موجودات سے پہلے موجود تھے؟ یہ بھی مفروضہ سے زیادہ حقیقت نہیں۔بلاشبہہ، خدا کی ہستی کا اقرار کر نا، ہمارے ایمان وعقیدے کا معاملہ ہے، لیکن یہ بھی ماننا پڑے گا کہ خدا کے وجود کے بارے میں بے شمار شواہد موجود ہیں ۔
اس مکالمے میں الحادی دلائل پر نظر ڈالیں تو سوائے ہٹ دھرمی میں اس انکار کے کہ خدا ایک مفروضہ ہے، نہ کوئی شواہد ہیں نہ کوئی مؤثر دلائل ۔اگرچہ ملحدین میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو اپنے آپ کو انسان دوست (Humanist) اور Agnostic (لاادری) کہہ کر اپنا الحاد چھپاتے ہیں،مگر انھی میں پروفیسر آئزک اسیموو (م:۱۹۹۲ء - Isaac Asimov) کی سطح کے بعض دانش ور تسلیم کرتے ہیں کہ اُن کا الحاد ایک جذباتی رویہ ہے، جس کا عقل سے کوئی تعلق نہیں، کیونکہ وہ خدا کی عدم موجودگی کو ثابت نہیں کرسکتے اور نہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ خدا جیسی ہستی موجود نہیں ہے۔