اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کے مطابق پارلیمنٹ کا ممبر بننے کے لیے سخت شرائط کا مقصد یہ ہے کہ ہم میں سے بہترین لوگ ہی پارلیمنٹ کے رکن بن کر ملک و قوم کے مستقبل کا فیصلہ کریں۔ چوں کہ انھی ممبران پارلیمنٹ سے وزیراعظم، وزرائے اعلیٰ اور وزیر منتخب ہوتے ہیں، اس لیے آئین کے آرٹیکل ۶۲،۶۳ کے ذریعے یقینی بنانے کا اہتمام کیا گیا ہے کہ ہمارا حکمراں طبقہ، ہمارے پالیسی میکرز ایمان دار ہوں، بہترین کردار کے مالک ہوں، باعمل مسلمان ہوں، اسلام کے بارے میں کافی علم رکھتے ہوں اور بڑے گناہوں کی وجہ سے نہ جانے جاتے ہوں، وغیرہ وغیرہ۔
تاہم، یہ افسوس کا مقام ہے کہ آئین کی ان دفعات پر عمل نہیں ہوتا۔ جس کے نتیجے میں ہرقسم کے لوگ پارلیمنٹ میں آکر ہم پر حکمران بن کے مسلط ہو جاتے ہیں۔ پھر ان آئینی شقوں کی خلاف ورزی پر کبھی کسی نے یہ سوال نہیں اُٹھایا کہ اُن تمام افراد اور اداروں کے خلاف آرٹیکل ۶ لگایا جائے،جو آئین کے اس حصے پر عمل درآمد میں دلچسپی نہیں لیتے۔اس سلسلے میں سب سے اہم ذمہ داری الیکشن کمیشن آف پاکستان اور ہماری اعلیٰ عدلیہ کی ہے، جن کو آئین کی ان شقوں پر مکمل عمل درآمد یقینی بنانا چاہیے۔ اگر ان شقوں پر عمل ہو تو چاہے کوئی بھی سیاسی جماعت اقتدار میں آجائے، ہمارے ممبران پارلیمنٹ اور حکمران صرف اور صرف اچھے کردار کے مالک، سچے ، ایمان دار اور باعمل مسلمان ہی ہوسکتے ہیں۔ افسوس کہ ایسا ہوتا نہیں۔ اور اسی وجہ سے آج ہم اس حال کوپہنچے ہیں۔
فروری۲۰۲۳ء کے اواخر میں، ’’۹۰دن کے اندر الیکشن‘‘ منعقد کرنے کے سوال پر ’سوموٹوکیس‘ کو سنتے ہوئے چیف جسٹس آف پاکستان نے فرمایا: ’’آئین پاکستان آج عدالت کے دروازہ پر دستک دے رہا ہے‘‘۔ یہ بیان پڑھ کر میں یہ سوچ رہا تھا کہ اگر ۹۰دن کے اندر الیکشن کرانے کی آئینی شق کی خلاف ورزی کے خطرے کو محسوس کرکے عزّت مآب چیف جسٹس صاحب کو عدالت کے دروازے پر آئین کی دستک سنائی دی ہے، تو اسی آئین کی اسلامی شقوں بشمول آرٹیکل ۶۲،۶۳کی کھلم کھلا خلاف ورزی پر یہ دستک کیوں سنائی نہیں دیتی؟
آئین کے آرٹیکل ۳۱ کے مطابق، ریاست اور اس کے تمام اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ پاکستان میں رہنے والے مسلمانوں کو اسلامی تعلیمات کے مطابق ماحول فراہم کریں، لیکن ہمارا ماحول اور ہمارے فیصلے مغرب کی تقلید میں زیادہ نظر آرہے ہیں اور اُن پر کوئی بولتا بھی نہیں۔ آئین میں کتنی ہی شقیں ایسی ہیں جن پر کوئی عمل نہیں ہورہا بلکہ اُن کی خلاف ورزی ہورہی ہے، لیکن صرف چند شقوں سے متعلق ہمارے حکمراں اور سیاست دان، آئین کی پاسداری کی بات کرتے ہیں، اور عدالتوں کے دروازے پر دستک دیتے ہیں۔
چند روز قبل ایک سینئر صحافی نے لکھا تھا کہ ’’آرٹیکل ۶۲،۶۳ کا اطلاق پارلیمنٹ کے اراکین سے کہیں زیادہ اعلیٰ عدلیہ کے ججوں پر ہونا چاہیے‘‘۔ یقیناً یہ تجویز بہت اہم ہے۔ اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کی تعیناتی کے لیے اس نوعیت کی کوئی شرائط موجود نہیں۔ان معزز ججوں کی تعیناتی صوابدیدی انتخاب کی بنیاد پر ہوتی ہے۔ علمِ قانون میں کمال کے ساتھ ایمان داری، سچائی، بہترین کردار کی شرائط واقعی ہر جج کے لیے لازم ہونی چاہیے۔ ججوں کا کردار، اُن کی ایمان داری، اُن کی سچائی اور انصاف پسندی ایسی ہونی چاہیے کہ کوئی اُن پر انگلی نہ اٹھا سکے۔لیکن ہمارے ججوں پر طرح طرح کے الزامات لگتے ہیں۔ اُن کے فیصلوں سے انصاف کے بجائے ناانصافی اور طاقت ور کی حمایت کی بُو آتی ہے اور اس میں کیا شک اُنھوں نے بار بارآئین کو کچلنے والوں کا ساتھ دیا۔ آرٹیکل ۶۲،۶۳کو اُن کی روح کے مطابق اور ہرشک و شبہے سے بالا ہوکر لاگو کرنے کے بجائے انھیں اپنی پسند کی بنیاد پر چند ایک سیاست دانوں کے حق یا اُن کے خلاف استعمال کیا۔ اس میں کوئی شک نہیں اگر مجموعی طور پر ہمارے جج واقعی عدل و انصاف کے اعلیٰ معیار کو برقرار رکھیں تو دوسرے تمام ادارےبھی صحیح کام کریں گے، اور سب کو انصاف ملے گا۔ اس مقصد کے لیے خود عدلیہ کو ایک اعلیٰ ترین معیار قائم کرنا چاہیے اور ججوں کی تعیناتی کے نظام کی بنیاد ایسے میرٹ پر رکھی جائے کہ جج کی ایمان داری، سچائی اور انصاف پسندی پر کوئی انگلی نہ اُٹھا سکے۔