یہ مختصر مضمون اس حقیقت کی نشان دہی کرتا ہےکہ دُنیا کی طاقتوں نے اہلِ فلسطین پر جو مجرمانہ خاموشی اختیار کی تھی اوربالخصوص مسلم ممالک کی حکمران قیادتوں نے اس ضمن میں ظالم طاقتوں کے خلاف بظاہر احتجاجی مگر فی نفسہٖ اعانتِ مجرمانہ کا رویہ اختیار کیا تھا، اسے اللہ کے بھروسے پر فلسطینیوںنے اپنی جدوجہد اور قربانیوں سے ناکام بنا کر مسلسل آگے بڑھنے کا راستہ بنایا۔ یہی ماڈل اہل کشمیر کو اپنانا ہے، جس پر بلاشبہہ وہ کام تو کر رہے ہیں، مگربہت زیادہ کام کی ضرورت ہے۔ پاکستان، جس کی یہ ذمہ داری تھی اس کی حکومتیں اس میدان میں اپنی قرار واقعی ذمہ داری ادا نہیں کرسکیں۔ اس لیے لازم ہے کہ کشمیری بھائی اپنی عملی اور سیاسی جدوجہد کے ساتھ ابلاغی محاذ پر سرگرم ہوں۔ (ادارہ)
دُنیا بھر میں فلسطینی اور فلسطینیوں کے حامی کس کے خلاف لڑرہے ہیں، اور اسرائیل کے حامی کس کے لیے لڑ رہے ہیں؟ اس مسئلے کی حقیقت یہ جملہ واضح کر رہا ہے: ’’ہمیں یہ اطلاع دیتے ہوئے خوشی ہورہی ہے کہ چیلسیا اور ویسٹ منسٹر ہسپتال نے غزہ کے بچوں کے بنائے ہوئے آرٹ کے فن پاروں کو نمایش سے ہٹا دیا ہے‘‘۔
یہ اسرائیل کے حامی وکیلوں کے گروپ ’یوکے لائرز فار اسرائیل‘ کے ہوم پیج پر شائع ہونے والی ایک خبر کا خلاصہ ہے۔ یہ اس گروپ کا ہی کارنامہ قرار دیا جارہا ہے کہ جس نے مغربی لندن کے ایک ہسپتال کی انتظامیہ کو غزہ کے پناہ گزین بچوں کے تخلیق کردہ آرٹ کے چند فن پاروں کو ہسپتال سے ہٹانے کے لیے کامیابی سے قائل کیا۔
بچوں کے فن پاروں کو ہٹانے کی اپنی مہم کے پیچھے چھپی منطق کی وضاحت کرتے ہوئے، اس گروپ کے ترجمان نے کہا: ’’ہسپتال میں یہودی مریض اس نمایش سے اپنے آپ کو ہدف اور تنقید کا نشانہ سمجھتے تھے‘‘۔ یاد رہے، آرٹ کے چند فن پاروں میں مشرقی یروشلم میں گنبد صخرا کی نمایندگی، فلسطینی پرچم اور دیگر علامتیں تھیں جن سے شاید ہی کسی کو نشانہ بنایا جاسکتا ہو۔ وکلا گروپ کے مذکورہ بالا مضمون میں بعدازاں ترمیم کرکے اس کا جارحانہ خلاصہ ہٹا دیا گیا، حالانکہ یہ اب بھی سوشل میڈیا کے ذریعے سب لوگوں کو میسر ہے۔
یہ کہانی جتنی مضحکہ خیز لگتی ہے، حقیقت میں یہ اسرائیل اور اس کے اتحادیوں کی طرف سے دُنیابھر میں شروع کی گئی فلسطین مخالف مہم کا نچوڑ بھی ہے۔ جہاں تک فلسطینیوں کا تعلق ہے، وہ بین الاقوامی قانون میں تسلیم شدہ بنیادی انسانی حقوق، آزادی اور خودمختاری کے لیے لڑ رہے ہیں، جب کہ اسرائیل نواز کیمپ فلسطینیوں کی ہرچیز کے مکمل خاتمے کے لیے لڑ رہا ہے۔
آج کچھ لوگ اسے فلسطینیوں کی ثقافتی نسل کشی یا فلسطینیوں کی نسل کشی کہتے ہیں، جب کہ فلسطینی، اسرائیل کے قیام ہی سے اس اسرائیلی طرزِ عمل سے واقف ہیں۔ درحقیقت اسرائیل اور اس کے سرپرستوں نے جنگ کی حدود کو دُنیا کے کسی بھی حصے میں، خاص طور پر مغربی نصف کرہ تک پھیلا دیا ہے۔ اسرائیل اور یوکے لائرز اور ان کے اتحادیوں کا غیرانسانی سلوک واضح طور پر محسوس کیا جاسکتا ہے، تاہم صرف یہ گروپ نہیں جو اس الزام کا مستحق ہو۔ یہ وکلا اسرائیلی نوآبادیاتی ثقافت کا تسلسل ہیں جوفلسطینی عوام کے وجود کو سیاسی، صہیونی اور نوآبادیاتی نقطۂ نظر کے ساتھ دیکھتے ہیں، جس میں پناہ گزین معصوم بچوں کا فن بھی شامل ہے، اور اسے اسرائیل کے ’وجود کے لیے خطرہ‘ سمجھتے ہیں۔
کسی ملک کے وجود اور کم عمر معصوم بچوں کے فن کے درمیان تعلق مضحکہ خیز لگتا ہے، مگر یہ دیکھا جاسکتا ہے___ لیکن اس کی اپنی ہی عجیب منطق ہے۔ جب تک ان پناہ گزین بچوں میں خود کو فلسطینی کے طور پر پہچاننے کے لیے خود آگاہی ہے، جب تک وہ ایک فلسطینی کے طور پر شمار ہوتے رہیں گے، ان کی پہچان کا کوئی انکار نہیں کرسکے گا۔ اسی مثال کو دیکھیے کہ لندن کے ایک ہسپتال میں مریض اور عملے کے لیے اسرائیل کے مقابلے میں یہ اجتماعی فلسطینی شناخت بھلانا ممکن نہیں۔
فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے لیے فتح کا مطلب دو بالکل مختلف چیزیں ہیں جنھیں یکجا نہیں کیا جاسکتا۔ فلسطینیوں کے لیے فتح کا مطلب فلسطینی عوام کی آزادی اور وہاں سب بسنے والوں کے لیے برابری ہے، مگر اسرائیل کے لیے فلسطینیوں کے مٹانے کے ذریعے ہی فتح حاصل کی جاسکتی ہے۔ ان فلسطینیوں کے وجود کو مٹادینے میں اسرائیل اپنی کامیابی دیکھتا ہے، جو جغرافیائی، تاریخی، ثقافتی اعتبار سے فلسطینی شناخت کا حصہ ہوں۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ چیلسیا اور ویسٹ منسٹر ہسپتال اب فلسطینیوں کی شناخت مٹانے کے اس المناک عمل میں سرگرمی سے شریکِ کار ہیں۔ بالکل اُس طریقے سے جیسے ورجن ایئرلائنز ۲۰۱۸ء میں دبائو کے سامنے جھکی اور جب اس نے اپنے مینو سے ’فلسطینی پکوان‘ ہٹانے کا فیصلہ کیا۔ اس وقت مذکورہ کمپنی کی یہ حرکت فلسطینی- اسرائیلی تنازعے کا ایک عجیب واقعہ لگتی تھی، حالانکہ حقیقت میں یہ کہانی اس تنازعے کی اصل نمایندگی کرتی تھی۔
اسرائیل کے لیے ، فلسطین کی جنگ تین بنیادی اُمور کے گرد گھومتی ہے: زمین کا حصول، فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کرنا، اور تاریخ کو دوبارہ لکھنا۔
پہلا کام تو ۱۹۴۷ء کے بعد نسلی قتل و غارت (cleansing) اور فلسطین کی نوآبادیاتی محکومی کے عمل کے ذریعے حاصل کیاجاچکا ہے۔ نیتن یاہو کی موجودہ انتہاپسند حکومت صرف اس عمل کو حتمی شکل دینے کی اُمید کر رہی ہے۔ دوسرا کام تسلسل کے ساتھ نسلی تطہیر سے زیادہ ہمہ پہلو ہے، اور وہ یہ کہ فلسطینیوں کے بارے میں آگاہی اور ان کی اجتماعی شناخت کو ثقافتی نسل کشی کے ذریعے شناخت سے محروم کرنا ہے ۔تیسرے یہ کہ اسرائیل نے کئی برسوں کی جارحیت کے نتیجے میں تاریخ کو دوبارہ لکھنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ لیکن اب اس کام کے برعکس فلسطینیوں اور ان کے اتحادیوں نے استقامت سے سوشل اور ڈیجیٹل میڈیا کی طاقت کے ذریعے اسے چیلنج کرنا شروع کیا ہے۔
فلسطینیوں کو ڈیجیٹل میڈیا کے عروج سے بہت زیادہ فائدہ پہنچاہے، جس نے اسرائیلیوں کے سیاسی اور تاریخی بیانیے کی مرکزیت کو ختم کرنے میں حصہ ڈالا ہے۔ کئی عشروں سے اسرائیل اور فلسطین کی تشکیل کے بارے میں عام فہم مرکزی دھارے کو بڑی حد تک اسرائیل کی طرف سے منظور شدہ بیانیہ کے ذریعے کنٹرول کیا گیا تھا۔ جو لوگ اس بیانیہ سے منحرف ہوئے ان پر حملے کیے جاتے اور ان کے تشخص کو مجروح کردیا جاتا اور ہمیشہ ’سامی دشمنی‘ کا الزام لگایا جاتا۔ اگرچہ اب بھی یہ ہتھکنڈے اسرائیل کے ناقدین پر چلائے جارہے ہیں، لیکن اب ان کے نتائج اتنے مؤثر نہیں ہیں۔
مثال کے طور پر اسرائیل کے لیے یوکے لائرز کی ’خوشی‘ کو بے نقاب کرنے والی ایک ٹویٹ کو ٹویٹر پر آن کی آن میں۲۰ لاکھ لوگوں نے پڑھا اور پھر دُنیا بھر میں لاکھوں مشتعل برطانوی اور سوشل میڈیا صارفین نے ایک مقامی کہانی کو فلسطین اور اسرائیل پر دُنیا بھر میں سب سے زیادہ زیربحث موضوع میں تبدیل کردیا۔ اس طرح بہت سے سوشل میڈیا صارفین نے وکلا کی ’خوشی‘ میں حصہ نہیں لیا، جس کے نتیجے میں گروپ کو اپنے مضمون پر نظرثانی پر مجبور ہونا پڑا۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ ایک ہی دن میں لاکھوں لوگوں کو فلسطین اور اسرائیل پر ایک بالکل نئے موضوع سے متعارف کرایا گیا: ’ثقافت کو مٹانا‘۔ اس طرح لائرز گروپ کی’فتح‘ ایک مکمل شرمندگی اور پسپائی میں بدل گئی ہے۔
فلسطینی موقف کی بڑھتی ہوئی مقبولیت اور سوشل میڈیا کے اثرات کی بدولت، اب اسرائیل کی ابتدائی فتوحات کے برعکس اثر ہورہا ہے۔ ایک اور حالیہ مثال ہارورڈ کینیڈی اسکول میں ہیومن رائٹس واچ کے سابق ایگزیکٹو ڈائریکٹر کینتھ روتھ کو فیلوشپ کی پیش کش واپس لینے کا فیصلہ تھا۔ جنوری میں کینتھ روتھ کی فیلوشپ اس کی اسرائیل پر ماضی کی تنقید کی وجہ سے منسوخ کردی گئی تھی۔ ایک بڑی مہم، جو چھوٹی متبادل میڈیا تنظیموں کی طرف سے شروع کی گئی تھی، اس کے نتیجے میں روتھ کو دنوں میں بحال کردیا گیا۔ یہ اور دیگر معاملات یہ ظاہر کرتے ہیں کہ اسرائیل پر تنقید کرنا اب کسی کیریئر اور مستقبل کا اختتام نہیں بن رہا، جیساکہ ماضی میں اکثر ہوتا تھا۔
اسرائیل فلسطین پر اپنے قبضے کو کنٹرول کرنے کے لیے پرانے حربے استعمال کرر ہا ہے مگر رائے عامہ کو گمراہ کرنے میں یہ ناکام رہا ہے کیونکہ وہ روایتی ہتھکنڈے آج کی دُنیا میں کام نہیں کرتے، جہاں معلومات تک رسائی کی مرکزیت ختم کردی گئی ہے اور جہاں کوئی بھی سنسرشپ گفتگو کو کنٹرول نہیں کرسکتی۔
فلسطینیوں کے لیے یہ نئی حقیقت دُنیا بھر میں اپنی حمایت کا دائرہ وسیع کرنے کا ایک نادر موقع ہے۔ اسرائیل کے لیے، مشن ایک غیر یقینی ہے،خاص طور پر جب ابتدائی فتوحات، گھنٹوں کے اندر، ذلّت آمیز شکست میں تبدیل ہوسکتی ہیں۔(عرب نیوز، ۶مارچ ۲۰۲۳ء)