رمزی براؤد


 یہ مختصر مضمون اس حقیقت کی نشان دہی کرتا ہےکہ دُنیا کی طاقتوں نے اہلِ فلسطین پر جو مجرمانہ خاموشی اختیار کی تھی اوربالخصوص مسلم ممالک کی حکمران قیادتوں نے اس ضمن میں ظالم طاقتوں کے خلاف بظاہر احتجاجی مگر فی نفسہٖ اعانتِ مجرمانہ کا رویہ اختیار کیا تھا، اسے اللہ کے بھروسے پر فلسطینیوںنے اپنی جدوجہد اور قربانیوں سے ناکام بنا کر مسلسل آگے بڑھنے کا راستہ بنایا۔ یہی ماڈل اہل کشمیر کو اپنانا ہے، جس پر بلاشبہہ وہ کام تو کر رہے ہیں، مگربہت زیادہ کام کی ضرورت ہے۔ پاکستان، جس کی یہ ذمہ داری تھی اس کی حکومتیں اس میدان میں اپنی قرار واقعی ذمہ داری ادا نہیں کرسکیں۔ اس لیے لازم ہے کہ کشمیری بھائی اپنی عملی اور سیاسی جدوجہد کے ساتھ ابلاغی محاذ پر سرگرم ہوں۔ (ادارہ)

دُنیا بھر میں فلسطینی اور فلسطینیوں کے حامی کس کے خلاف لڑرہے ہیں، اور اسرائیل کے حامی کس کے لیے لڑ رہے ہیں؟ اس مسئلے کی حقیقت یہ جملہ واضح کر رہا ہے: ’’ہمیں یہ اطلاع دیتے ہوئے خوشی ہورہی ہے کہ چیلسیا اور ویسٹ منسٹر ہسپتال نے غزہ کے بچوں کے بنائے ہوئے آرٹ کے فن پاروں کو نمایش سے ہٹا دیا ہے‘‘۔

یہ اسرائیل کے حامی وکیلوں کے گروپ ’یوکے لائرز فار اسرائیل‘ کے ہوم پیج پر شائع ہونے والی ایک خبر کا خلاصہ ہے۔ یہ اس گروپ کا ہی کارنامہ قرار دیا جارہا ہے کہ جس نے مغربی لندن کے ایک ہسپتال کی انتظامیہ کو غزہ کے پناہ گزین بچوں کے تخلیق کردہ آرٹ کے چند فن پاروں کو ہسپتال سے ہٹانے کے لیے کامیابی سے قائل کیا۔

بچوں کے فن پاروں کو ہٹانے کی اپنی مہم کے پیچھے چھپی منطق کی وضاحت کرتے ہوئے، اس گروپ کے ترجمان نے کہا: ’’ہسپتال میں یہودی مریض اس نمایش سے اپنے آپ کو ہدف اور تنقید کا نشانہ سمجھتے تھے‘‘۔ یاد رہے، آرٹ کے چند فن پاروں میں مشرقی یروشلم میں گنبد صخرا کی نمایندگی، فلسطینی پرچم اور دیگر علامتیں تھیں جن سے شاید ہی کسی کو نشانہ بنایا جاسکتا ہو۔ وکلا گروپ کے مذکورہ بالا مضمون میں بعدازاں ترمیم کرکے اس کا جارحانہ خلاصہ ہٹا دیا گیا، حالانکہ یہ اب بھی سوشل میڈیا کے ذریعے سب لوگوں کو میسر ہے۔

یہ کہانی جتنی مضحکہ خیز لگتی ہے، حقیقت میں یہ اسرائیل اور اس کے اتحادیوں کی طرف سے دُنیابھر میں شروع کی گئی فلسطین مخالف مہم کا نچوڑ بھی ہے۔ جہاں تک فلسطینیوں کا تعلق ہے، وہ بین الاقوامی قانون میں تسلیم شدہ بنیادی انسانی حقوق، آزادی اور خودمختاری کے لیے لڑ رہے ہیں، جب کہ اسرائیل نواز کیمپ فلسطینیوں کی ہرچیز کے مکمل خاتمے کے لیے لڑ رہا ہے۔

آج کچھ لوگ اسے فلسطینیوں کی ثقافتی نسل کشی یا فلسطینیوں کی نسل کشی کہتے ہیں، جب کہ فلسطینی، اسرائیل کے قیام ہی سے اس اسرائیلی طرزِ عمل سے واقف ہیں۔ درحقیقت اسرائیل اور اس کے سرپرستوں نے جنگ کی حدود کو دُنیا کے کسی بھی حصے میں، خاص طور پر مغربی نصف کرہ تک پھیلا دیا ہے۔ اسرائیل اور یوکے لائرز اور ان کے اتحادیوں کا غیرانسانی سلوک واضح طور پر محسوس کیا جاسکتا ہے، تاہم صرف یہ گروپ نہیں جو اس الزام کا مستحق ہو۔ یہ وکلا اسرائیلی نوآبادیاتی ثقافت کا تسلسل ہیں جوفلسطینی عوام کے وجود کو سیاسی، صہیونی اور نوآبادیاتی نقطۂ نظر کے ساتھ دیکھتے ہیں، جس میں پناہ گزین معصوم بچوں کا فن بھی شامل ہے، اور اسے اسرائیل کے ’وجود کے لیے خطرہ‘ سمجھتے ہیں۔

کسی ملک کے وجود اور کم عمر معصوم بچوں کے فن کے درمیان تعلق مضحکہ خیز لگتا ہے، مگر یہ دیکھا جاسکتا ہے___ لیکن اس کی اپنی ہی عجیب منطق ہے۔ جب تک ان پناہ گزین بچوں میں خود کو فلسطینی کے طور پر پہچاننے کے لیے خود آگاہی ہے، جب تک وہ ایک فلسطینی کے طور پر شمار ہوتے رہیں گے، ان کی پہچان کا کوئی انکار نہیں کرسکے گا۔ اسی مثال کو دیکھیے کہ لندن کے ایک ہسپتال میں مریض اور عملے کے لیے اسرائیل کے مقابلے میں یہ اجتماعی فلسطینی شناخت بھلانا ممکن نہیں۔

فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے لیے فتح کا مطلب دو بالکل مختلف چیزیں ہیں جنھیں یکجا نہیں کیا جاسکتا۔ فلسطینیوں کے لیے فتح کا مطلب فلسطینی عوام کی آزادی اور وہاں سب بسنے والوں کے لیے برابری ہے، مگر اسرائیل کے لیے فلسطینیوں کے مٹانے کے ذریعے ہی فتح حاصل کی جاسکتی ہے۔ ان فلسطینیوں کے وجود کو مٹادینے میں اسرائیل اپنی کامیابی دیکھتا ہے، جو جغرافیائی، تاریخی، ثقافتی اعتبار سے فلسطینی شناخت کا حصہ ہوں۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ چیلسیا اور ویسٹ منسٹر ہسپتال اب فلسطینیوں کی شناخت مٹانے کے اس المناک عمل میں سرگرمی سے شریکِ کار ہیں۔ بالکل اُس طریقے سے جیسے ورجن ایئرلائنز ۲۰۱۸ء میں دبائو کے سامنے جھکی اور جب اس نے اپنے مینو سے ’فلسطینی پکوان‘ ہٹانے کا فیصلہ کیا۔ اس وقت مذکورہ کمپنی کی یہ حرکت فلسطینی- اسرائیلی تنازعے کا ایک عجیب واقعہ لگتی تھی، حالانکہ حقیقت میں یہ کہانی اس تنازعے کی اصل نمایندگی کرتی تھی۔

اسرائیل کے لیے ، فلسطین کی جنگ تین بنیادی اُمور کے گرد گھومتی ہے: زمین کا حصول، فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کرنا، اور تاریخ کو دوبارہ لکھنا۔

پہلا کام تو ۱۹۴۷ء کے بعد نسلی قتل و غارت (cleansing) اور فلسطین کی نوآبادیاتی محکومی کے عمل کے ذریعے حاصل کیاجاچکا ہے۔ نیتن یاہو کی موجودہ انتہاپسند حکومت صرف اس عمل کو حتمی شکل دینے کی اُمید کر رہی ہے۔ دوسرا کام تسلسل کے ساتھ نسلی تطہیر سے زیادہ ہمہ پہلو ہے، اور وہ یہ کہ فلسطینیوں کے بارے میں آگاہی اور ان کی اجتماعی شناخت کو ثقافتی نسل کشی کے ذریعے شناخت سے محروم کرنا ہے ۔تیسرے یہ کہ اسرائیل نے کئی برسوں کی جارحیت کے نتیجے میں تاریخ کو دوبارہ لکھنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ لیکن اب اس کام کے برعکس فلسطینیوں اور ان کے اتحادیوں نے استقامت سے سوشل اور ڈیجیٹل میڈیا کی طاقت کے ذریعے اسے چیلنج کرنا شروع کیا ہے۔

فلسطینیوں کو ڈیجیٹل میڈیا کے عروج سے بہت زیادہ فائدہ پہنچاہے، جس نے اسرائیلیوں کے سیاسی اور تاریخی بیانیے کی مرکزیت کو ختم کرنے میں حصہ ڈالا ہے۔ کئی عشروں سے اسرائیل اور فلسطین کی تشکیل کے بارے میں عام فہم مرکزی دھارے کو بڑی حد تک اسرائیل کی طرف سے منظور شدہ بیانیہ کے ذریعے کنٹرول کیا گیا تھا۔ جو لوگ اس بیانیہ سے منحرف ہوئے ان پر حملے کیے جاتے اور ان کے تشخص کو مجروح کردیا جاتا اور ہمیشہ ’سامی دشمنی‘ کا الزام لگایا جاتا۔ اگرچہ اب بھی یہ ہتھکنڈے اسرائیل کے ناقدین پر چلائے جارہے ہیں، لیکن اب ان کے نتائج اتنے مؤثر نہیں ہیں۔

مثال کے طور پر اسرائیل کے لیے یوکے لائرز کی ’خوشی‘ کو بے نقاب کرنے والی ایک ٹویٹ کو ٹویٹر پر آن کی آن میں۲۰ لاکھ لوگوں نے پڑھا اور پھر دُنیا بھر میں لاکھوں مشتعل برطانوی اور سوشل میڈیا صارفین نے ایک مقامی کہانی کو فلسطین اور اسرائیل پر دُنیا بھر میں سب سے زیادہ زیربحث موضوع میں تبدیل کردیا۔ اس طرح بہت سے سوشل میڈیا صارفین نے وکلا کی ’خوشی‘ میں حصہ نہیں لیا، جس کے نتیجے میں گروپ کو اپنے مضمون پر نظرثانی پر مجبور ہونا پڑا۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ ایک ہی دن میں لاکھوں لوگوں کو فلسطین اور اسرائیل پر ایک بالکل نئے موضوع سے متعارف کرایا گیا: ’ثقافت کو مٹانا‘۔ اس طرح لائرز گروپ کی’فتح‘ ایک مکمل شرمندگی اور پسپائی میں بدل گئی ہے۔

فلسطینی موقف کی بڑھتی ہوئی مقبولیت اور سوشل میڈیا کے اثرات کی بدولت، اب اسرائیل کی ابتدائی فتوحات کے برعکس اثر ہورہا ہے۔ ایک اور حالیہ مثال ہارورڈ کینیڈی اسکول میں ہیومن رائٹس واچ کے سابق ایگزیکٹو ڈائریکٹر کینتھ روتھ کو فیلوشپ کی پیش کش واپس لینے کا فیصلہ تھا۔ جنوری میں کینتھ روتھ کی فیلوشپ اس کی اسرائیل پر ماضی کی تنقید کی وجہ سے منسوخ کردی گئی تھی۔ ایک بڑی مہم، جو چھوٹی متبادل میڈیا تنظیموں کی طرف سے شروع کی گئی تھی، اس کے نتیجے میں روتھ کو دنوں میں بحال کردیا گیا۔ یہ اور دیگر معاملات یہ ظاہر کرتے ہیں کہ اسرائیل پر تنقید کرنا اب کسی کیریئر اور مستقبل کا اختتام نہیں بن رہا، جیساکہ ماضی میں اکثر ہوتا تھا۔

اسرائیل فلسطین پر اپنے قبضے کو کنٹرول کرنے کے لیے پرانے حربے استعمال کرر ہا ہے مگر رائے عامہ کو گمراہ کرنے میں یہ ناکام رہا ہے کیونکہ وہ روایتی ہتھکنڈے آج کی دُنیا میں کام نہیں کرتے، جہاں معلومات تک رسائی کی مرکزیت ختم کردی گئی ہے اور جہاں کوئی بھی سنسرشپ گفتگو کو کنٹرول نہیں کرسکتی۔

فلسطینیوں کے لیے یہ نئی حقیقت دُنیا بھر میں اپنی حمایت کا دائرہ وسیع کرنے کا ایک نادر موقع ہے۔ اسرائیل کے لیے، مشن ایک غیر یقینی ہے،خاص طور پر جب ابتدائی فتوحات، گھنٹوں کے اندر، ذلّت آمیز شکست میں تبدیل ہوسکتی ہیں۔(عرب نیوز، ۶مارچ ۲۰۲۳ء)

اسرائیل کا اصرار ہے کہ ’’فلسطینیوں کی طرف سے کیے جانے والے حالیہ حملے ایک خاص علاقے جنین پناہ گزین کیمپ سے منسوب ہیں، جو شمالی مغربی کنارے میں واقع ہے‘‘۔ دراصل یہ زور دے کر اسرائیلی حکومت جنین میں ایک اور جان لیوا ملٹری آپریشن کا حکم دینا چاہتی ہے، تاکہ وہ یہ تاثر دے سکے کہ صورتِ حال قابو میں ہے۔ درحقیقت ۹؍اپریل ۲۰۲۲ء کو اسرائیلی فوجیوں نے جنین پر دھاوا بول دیا، جس کے نتیجے میں ایک فلسطینی ہلاک ہوگیا اور دیگر دس افراد زخمی ہوگئے۔ تاہم، اسرائیل کا مسئلہ جنین سے کہیں زیادہ بڑا ہے۔

اگر ہم واقعات کا جائزہ لیں جو ۲۲مارچ سے جنوبی شہر بیرالصباح میں خنجروں کے حملوں سے شروع ہوئے تھے، جس کے نتیجے میں چار افراد ہلاک ہوئے تھے اور ان کا خاتمہ تل ابیب میں تین اسرائیلیوں بشمول دو آرمی افسران کی ہلاکت سے ہوا تھا، تو ہم واضح طور پر اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ ان حملوں کا باہم ربط ہے۔فلسطینیوں کا اسرائیل کے تشدد کے جواب میں اس طرح کا فوری حملہ کم ہی دیکھنے میں آیا ہے۔ بیرالصباح کے علاوہ تمام حملوں میں آتشیں اسلحہ استعمال کیا گیا تھا۔ گولیاں چلانے والے بہت ماہر تھے اور وہ بڑے اطمینان سے اپنا کام کر رہے تھے جیساکہ کچھ ویڈیوز اور اسرائیلی عینی شاہدوں کے بیانات سے پتا چلتا ہے۔

۲۷مارچ ۲۰۲۲ء کو ہدیرا پر حملہ اس کی مثال ہے، جو دو بھائیوں نے کیا تھا، جن کے نام ایمان اور ابراہیم تھے اور ان کا تعلق اسرائیل کے اندر واقع عرب بستی اُم الفہم سے تھا۔ اسرائیلی میڈیا نے حملہ آوروں کی مہارت کا تذکرہ کیا تھا جو اسلحہ سے مسلح تھے۔ اسرائیلی نیوز ایجنسی  تازپٹ (Tazpit) پریس کے مطابق حملہ آوروں کے پاس ۳۰ہزار ڈالر سے زیادہ مالیت کا اسلحہ تھا۔

دوسرے انتفاضہ (۰۵-۲۰۰۰ء) میں جس طرح سے فلسطینیوں نے مقبوضہ علاقوں میں اسرائیلی مظالم کے خلاف حملے کیے تھے، اس کے برعکس موجودہ حملوں میں عموماً واضح ہدف کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ پولیس اورملٹری اہل کاروں کو ڈھونڈا جاتا ہے۔ یہ واضح طور پر اسرائیل کی سیکورٹی کی ناکام حکمت عملی اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کی ناقص کارکردگی کو ظاہر کرتا ہے۔ بنی بارک حملہ میں جو ۲۹مارچ کو ہوا، ایک اسرائیلی خاتون نے جو وہاں موجود تھی، صحافیوں کو بتایا کہ ’’مسلح حملہ آوروں نے ہمیں کہا کہ وہ اس جگہ سے ہٹ جائیں کیونکہ وہ عورتوں اور بچوں کو ہدف نہیں بنانا چاہتے‘‘۔

بیرالصباح حملے کے بارے میں اسرائیلی حکام نے اسے داعش کی کارروائی قرار دیا ہے، مگر اس الزام نے جلد اہمیت کھو دی،اس لیے کہ یہ بات واضح ہے کہ فلسطینی حملہ آوروں کی دیگر جماعتوں سے سیاسی وابستگی ہے، یا جیساکہ بنی بارک معاملے میں کوئی واضح وابستگی سامنے نہیں آئی۔

 تل ابیب حملے کے بعد اسرائیلی میڈیا نے سرکاری ذرائع کے حوالے سے مبینہ طور پر بتایا کہ دو حملہ آوروں میں سے ایک حملہ آور نزدیکی عمارت میں سے پکڑا گیا ہے۔ یہ بات حقیقت پر مبنی نہ تھی، اس لیے کہ صرف ایک ہی حملہ آور تھا اور وہ بھی چند گھنٹوں بعد ایک دوسرے شہر میں مارا گیا۔

تل ابیب میں بہت سے فلسطینی ورکروں کو حملہ آوروں کے شبہہ میں تیزی سے گرفتار کرلیا گیا۔ صرف اس لیے کہ وہ عرب دکھائی دیتے تھے۔ درحقیقت ہرواقعے کے بعد بڑے پیمانے پر تشدد ہوتا ہے اور اسرائیلیوں کے مسلح ہجوم گلیوں میں نکل آتے ہیں تاکہ عرب دکھائی دینے والے افراد کو پکڑ لیں اور انھیں بُری طرح تشدد کا نشانہ بنائیں۔

اسرائیل کے وزیراعظم نے امن و امان کا مظاہرہ کرنے پر زور دینے کے بجائے ۳۰مارچ کو اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ ’’جس کسی کے پاس لائسنس یافتہ بندوق ہے، یہی وقت ہے کہ وہ اسے لے کر آئے‘‘۔ تاہم، اگر اسرائیل کے نزدیک فلسطینیوں کی مزاحمت کا حل مزید اسلحہ ہے، تو فلسطینی ایک عرصے سے امن کے قیام کے خواہش مند ہیں۔مشتعل اسرائیلیوں کا غصہ ٹھنڈا کرنے کے لیے اسرائیلی فوج نے جنین شہر پر متعدد مرتبہ حملہ کیا۔ ہرمرتبہ بہت سےفلسطینی ہلاک اور بہت سے زخمی ہوگئے۔ ان میں ایک پندرہ سالہ نوجوان عماد بھی شامل ہے جو۲۴؍اگست کو اس وقت مارا گیا جب وہ اپنے موبائل فون سے اسرائیلی حملہ آوروں کی فلم بنا رہا تھا۔ ایسا ہی ایک منظر ۱۹؍اپریل کو بھی دیکھنے میں آیا۔تاہم، یہ ایک فضول مشق ہے، اس لیے کہ جنین کے کیمپ میں برسوں سے جاری اسرائیلی ظلم و تشدد کے نتیجے میں ہی مسلح مزاحمت کا صدور ہوا ہے۔ فلسطینی خواہ جنین میں ہوںیا کہیں اور، وہ مزاحمت کر رہے ہیں کیونکہ وہ بنیادی انسانی حقوق سے محروم ہیں اور انتہائی غربت کے عالم میں زندگی گزار رہے ہیں۔ پھر نام نہاد عالمی برادری کے رویے سے مایوس ہیں۔

فلسطینی اتھارٹی کے محمود عباس عوام سے لاتعلق ہیں۔ ان کے بیانات سے اسرائیلی ظلم و تشدد، فوجی قبضہ اور فلسطین میں نسلی امتیاز سے لاتعلقی نظر آتی ہے۔ تاہم، انھوں نے تل ابیب پر حملے کی فوری مذمت کی۔سوال یہ ہے کہ محمود عباس کس استحکام کی بات کر رہے ہیں، جب کہ فلسطینیوں کی مشکلات میں آبادکاروں کی طرف سے بڑھتے ہوئے تشدد، غیرقانونی آبادکاری میں توسیع، زمینوں پر قبضہ، غذائی قلت اور حالیہ پُرتشدد واقعات نے مزید اضافہ کر دیا ہے؟

اسرائیلی حکام اور میڈیا ایک بار پھر جنین ہی کو موردِ الزام ٹھیرا رہے ہیں، جو کہ ایک تنگ اور کثیرآبادی جگہ ہے۔ اس بات سے اسرائیل یہ تاثر دینا چاہتا ہے کہ فلسطینیوں کے مزاحمتی حملے ایک مخصوص جگہ تک محدود ہیں، جو کہ اسرائیل کی سرحد کے قریب ہے۔ جنین کیمپ میں اسرائیلی ملٹری آپریشن اسرائیلی وزیراعظم کے سیاسی ایجنڈے کا حصہ ہے جو قوت کی برتری کا احساس دلاتا ہے لیکن یہ سب ایک عارضی مرحلہ ہے۔ جنین پر حملے سے آیندہ بھی کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ اپریل ۲۰۰۲ء میں بھی اسرائیلی فوج کے ہاتھوں تقریباً مکمل طور پر تباہ ہوجانے کے بعد بھی جنین کیمپ کے مکین ایک بار پھر اپنے قدموں پر کھڑے ہوگئے تھے۔ فلسطینیوں کے مزاحمتی حملے آج زیادہ وسیع علاقے میں پھیل گئے ہیں جن میںنکب، اُم الفہم اور مغربی کنارہ شامل ہیں۔ ان علاقائی حملوں کی بنیاد گذشتہ مئی میں اسرائیلی جنگ سے پڑی اور اس کے نتیجے میں فلسطینی بغاوت جو فلسطین کے ہرحصے میں بشمول اسرائیل میں پائی جانے والی فلسطینی آبادیوں تک میں پھوٹ پڑی ہے۔ دراصل اسرائیل اس مسئلے کو جلداز جلد فوجی قوت کے بل پر حل کرنا چاہتا ہے۔ اگر اسرائیل فلسطینیوں پر فوجی قبضے کے لیے نسلی امتیاز کو گہرا کرے گا تو فلسطینی لازماً اپنی مزاحمت جاری رکھیں گے۔