اسرائیل کا اصرار ہے کہ ’’فلسطینیوں کی طرف سے کیے جانے والے حالیہ حملے ایک خاص علاقے جنین پناہ گزین کیمپ سے منسوب ہیں، جو شمالی مغربی کنارے میں واقع ہے‘‘۔ دراصل یہ زور دے کر اسرائیلی حکومت جنین میں ایک اور جان لیوا ملٹری آپریشن کا حکم دینا چاہتی ہے، تاکہ وہ یہ تاثر دے سکے کہ صورتِ حال قابو میں ہے۔ درحقیقت ۹؍اپریل ۲۰۲۲ء کو اسرائیلی فوجیوں نے جنین پر دھاوا بول دیا، جس کے نتیجے میں ایک فلسطینی ہلاک ہوگیا اور دیگر دس افراد زخمی ہوگئے۔ تاہم، اسرائیل کا مسئلہ جنین سے کہیں زیادہ بڑا ہے۔
اگر ہم واقعات کا جائزہ لیں جو ۲۲مارچ سے جنوبی شہر بیرالصباح میں خنجروں کے حملوں سے شروع ہوئے تھے، جس کے نتیجے میں چار افراد ہلاک ہوئے تھے اور ان کا خاتمہ تل ابیب میں تین اسرائیلیوں بشمول دو آرمی افسران کی ہلاکت سے ہوا تھا، تو ہم واضح طور پر اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ ان حملوں کا باہم ربط ہے۔فلسطینیوں کا اسرائیل کے تشدد کے جواب میں اس طرح کا فوری حملہ کم ہی دیکھنے میں آیا ہے۔ بیرالصباح کے علاوہ تمام حملوں میں آتشیں اسلحہ استعمال کیا گیا تھا۔ گولیاں چلانے والے بہت ماہر تھے اور وہ بڑے اطمینان سے اپنا کام کر رہے تھے جیساکہ کچھ ویڈیوز اور اسرائیلی عینی شاہدوں کے بیانات سے پتا چلتا ہے۔
۲۷مارچ ۲۰۲۲ء کو ہدیرا پر حملہ اس کی مثال ہے، جو دو بھائیوں نے کیا تھا، جن کے نام ایمان اور ابراہیم تھے اور ان کا تعلق اسرائیل کے اندر واقع عرب بستی اُم الفہم سے تھا۔ اسرائیلی میڈیا نے حملہ آوروں کی مہارت کا تذکرہ کیا تھا جو اسلحہ سے مسلح تھے۔ اسرائیلی نیوز ایجنسی تازپٹ (Tazpit) پریس کے مطابق حملہ آوروں کے پاس ۳۰ہزار ڈالر سے زیادہ مالیت کا اسلحہ تھا۔
دوسرے انتفاضہ (۰۵-۲۰۰۰ء) میں جس طرح سے فلسطینیوں نے مقبوضہ علاقوں میں اسرائیلی مظالم کے خلاف حملے کیے تھے، اس کے برعکس موجودہ حملوں میں عموماً واضح ہدف کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ پولیس اورملٹری اہل کاروں کو ڈھونڈا جاتا ہے۔ یہ واضح طور پر اسرائیل کی سیکورٹی کی ناکام حکمت عملی اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کی ناقص کارکردگی کو ظاہر کرتا ہے۔ بنی بارک حملہ میں جو ۲۹مارچ کو ہوا، ایک اسرائیلی خاتون نے جو وہاں موجود تھی، صحافیوں کو بتایا کہ ’’مسلح حملہ آوروں نے ہمیں کہا کہ وہ اس جگہ سے ہٹ جائیں کیونکہ وہ عورتوں اور بچوں کو ہدف نہیں بنانا چاہتے‘‘۔
بیرالصباح حملے کے بارے میں اسرائیلی حکام نے اسے داعش کی کارروائی قرار دیا ہے، مگر اس الزام نے جلد اہمیت کھو دی،اس لیے کہ یہ بات واضح ہے کہ فلسطینی حملہ آوروں کی دیگر جماعتوں سے سیاسی وابستگی ہے، یا جیساکہ بنی بارک معاملے میں کوئی واضح وابستگی سامنے نہیں آئی۔
تل ابیب حملے کے بعد اسرائیلی میڈیا نے سرکاری ذرائع کے حوالے سے مبینہ طور پر بتایا کہ دو حملہ آوروں میں سے ایک حملہ آور نزدیکی عمارت میں سے پکڑا گیا ہے۔ یہ بات حقیقت پر مبنی نہ تھی، اس لیے کہ صرف ایک ہی حملہ آور تھا اور وہ بھی چند گھنٹوں بعد ایک دوسرے شہر میں مارا گیا۔
تل ابیب میں بہت سے فلسطینی ورکروں کو حملہ آوروں کے شبہہ میں تیزی سے گرفتار کرلیا گیا۔ صرف اس لیے کہ وہ عرب دکھائی دیتے تھے۔ درحقیقت ہرواقعے کے بعد بڑے پیمانے پر تشدد ہوتا ہے اور اسرائیلیوں کے مسلح ہجوم گلیوں میں نکل آتے ہیں تاکہ عرب دکھائی دینے والے افراد کو پکڑ لیں اور انھیں بُری طرح تشدد کا نشانہ بنائیں۔
اسرائیل کے وزیراعظم نے امن و امان کا مظاہرہ کرنے پر زور دینے کے بجائے ۳۰مارچ کو اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ ’’جس کسی کے پاس لائسنس یافتہ بندوق ہے، یہی وقت ہے کہ وہ اسے لے کر آئے‘‘۔ تاہم، اگر اسرائیل کے نزدیک فلسطینیوں کی مزاحمت کا حل مزید اسلحہ ہے، تو فلسطینی ایک عرصے سے امن کے قیام کے خواہش مند ہیں۔مشتعل اسرائیلیوں کا غصہ ٹھنڈا کرنے کے لیے اسرائیلی فوج نے جنین شہر پر متعدد مرتبہ حملہ کیا۔ ہرمرتبہ بہت سےفلسطینی ہلاک اور بہت سے زخمی ہوگئے۔ ان میں ایک پندرہ سالہ نوجوان عماد بھی شامل ہے جو۲۴؍اگست کو اس وقت مارا گیا جب وہ اپنے موبائل فون سے اسرائیلی حملہ آوروں کی فلم بنا رہا تھا۔ ایسا ہی ایک منظر ۱۹؍اپریل کو بھی دیکھنے میں آیا۔تاہم، یہ ایک فضول مشق ہے، اس لیے کہ جنین کے کیمپ میں برسوں سے جاری اسرائیلی ظلم و تشدد کے نتیجے میں ہی مسلح مزاحمت کا صدور ہوا ہے۔ فلسطینی خواہ جنین میں ہوںیا کہیں اور، وہ مزاحمت کر رہے ہیں کیونکہ وہ بنیادی انسانی حقوق سے محروم ہیں اور انتہائی غربت کے عالم میں زندگی گزار رہے ہیں۔ پھر نام نہاد عالمی برادری کے رویے سے مایوس ہیں۔
فلسطینی اتھارٹی کے محمود عباس عوام سے لاتعلق ہیں۔ ان کے بیانات سے اسرائیلی ظلم و تشدد، فوجی قبضہ اور فلسطین میں نسلی امتیاز سے لاتعلقی نظر آتی ہے۔ تاہم، انھوں نے تل ابیب پر حملے کی فوری مذمت کی۔سوال یہ ہے کہ محمود عباس کس استحکام کی بات کر رہے ہیں، جب کہ فلسطینیوں کی مشکلات میں آبادکاروں کی طرف سے بڑھتے ہوئے تشدد، غیرقانونی آبادکاری میں توسیع، زمینوں پر قبضہ، غذائی قلت اور حالیہ پُرتشدد واقعات نے مزید اضافہ کر دیا ہے؟
اسرائیلی حکام اور میڈیا ایک بار پھر جنین ہی کو موردِ الزام ٹھیرا رہے ہیں، جو کہ ایک تنگ اور کثیرآبادی جگہ ہے۔ اس بات سے اسرائیل یہ تاثر دینا چاہتا ہے کہ فلسطینیوں کے مزاحمتی حملے ایک مخصوص جگہ تک محدود ہیں، جو کہ اسرائیل کی سرحد کے قریب ہے۔ جنین کیمپ میں اسرائیلی ملٹری آپریشن اسرائیلی وزیراعظم کے سیاسی ایجنڈے کا حصہ ہے جو قوت کی برتری کا احساس دلاتا ہے لیکن یہ سب ایک عارضی مرحلہ ہے۔ جنین پر حملے سے آیندہ بھی کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ اپریل ۲۰۰۲ء میں بھی اسرائیلی فوج کے ہاتھوں تقریباً مکمل طور پر تباہ ہوجانے کے بعد بھی جنین کیمپ کے مکین ایک بار پھر اپنے قدموں پر کھڑے ہوگئے تھے۔ فلسطینیوں کے مزاحمتی حملے آج زیادہ وسیع علاقے میں پھیل گئے ہیں جن میںنکب، اُم الفہم اور مغربی کنارہ شامل ہیں۔ ان علاقائی حملوں کی بنیاد گذشتہ مئی میں اسرائیلی جنگ سے پڑی اور اس کے نتیجے میں فلسطینی بغاوت جو فلسطین کے ہرحصے میں بشمول اسرائیل میں پائی جانے والی فلسطینی آبادیوں تک میں پھوٹ پڑی ہے۔ دراصل اسرائیل اس مسئلے کو جلداز جلد فوجی قوت کے بل پر حل کرنا چاہتا ہے۔ اگر اسرائیل فلسطینیوں پر فوجی قبضے کے لیے نسلی امتیاز کو گہرا کرے گا تو فلسطینی لازماً اپنی مزاحمت جاری رکھیں گے۔