بھارت میں روز بروز حالات اس قدر خراب ہو رہے ہیں، جس سے بھارت میں بسنے والا ہرمسلمان مضطرب اور ذہنی تنائو کا شکار ہے۔ آئے دن ایسے خطرناک مسائل کا سامنا ہوتا ہے کہ ایک افسوس ناک واقعے پر کچھ لکھتے ہوئے، سیاہی خشک نہیں ہوتی، کہ دوسرا اُس سے بھی بڑھ کر الم ناک واقعہ سامنے آجاتا ہے۔ ایسے صبح و شام میں کسی تبصرہ نگار کے لیے جم کر بات کرنے کی ہمت ہی ٹوٹ جاتی ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ یہ سب ایک ترتیب اور متعین مذموم مقصد کے لیے کیا جارہا ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل آف انڈیا کے سربراہ ارکار پٹیل نے مدھیہ پردیش کی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’’مسلمانوں کی املاک کو کھرگون انتظامیہ نےغیر قانونی طور پر منہدم کیا ہے‘‘۔
پتھر بازی کو ایک ہتھیار کے طور پر برتنے کی ہندستان میں پرانی روایت ہے۔ اگست ۱۹۴۷ء کے بعد بھارت میں ہونے والے ۱۴ ہزار بڑے مسلم کش فسادات میں اکثر یہی پتھرائو والا ہتھیار استعمال کیا جاتا ہے۔ ہندو مذہبی جلوس اور یاتراؤں کو پہلے پولیس و انتظامیہ مسلم علاقوں سے گزرنے کی اجازت دیتی ہیں، پھر چند بدمعاشوں کو مسلمانوں کےسادہ لباس میں ملبوس کرا کے ان جلوسوں پر کچھ پتھر پھینکوائے جاتے ہیں، اور ساتھ ہی اس کا الزام مسلمانوں کے سر تھوپ دیا جاتا ہے ۔ نعرے بازی ، آتش زنی، قتل و خون ریزی، لُوٹ مار، مسلم عورتوں کی بے حُرمتی___ فساد شروع ہوجاتا ہے ۔ آزاد بھارت کی تاریخ میں اس طرح مسلط کردہ فسادات کے نتیجے میں لاکھوں مسلمان ہلاک کیے جاچکے ہیں۔
یوں پتھراؤ یا پتھر بازی کا بہانہ کرکےفساد بھڑکائے جاتے ہیں ۔ فسادی غنڈے پولیس کی مدد، سرپرستی اور تائید سےمسلمانوں کے قتل، ریپ اور انھی کی املاک کو نذرِ آتش کرنے میں معاون بن کر یک طرفہ کارروائی کرتے ہیں، اور پھر انھی متاثرہ مسلمانوں کے نوجوان طبقے کو فسادی قرار دے کر گرفتاریاں عمل میں لائی جاتی ہیں۔ بظاہر ’توازن‘ رکھنے کے لیے ہندو آبادی سے پکڑے چند لوگ بہت جلد باعزّت بری ہوجاتے ہیں، مگر مسلمان نوجوان جیلوں میں گلتے سڑتے رہتے ہیں۔
آنجہانی جنرل بپن راؤت ۲۰۱۷ء سے کشمیری مائوں کو بار بار متنبہ کرتے رہے کہ ’’اپنے بچوں کو روکے رکھو ورنہ جو پتھر اُٹھائے گا وہ کچل دیا جائے گا‘‘۔ اس کے بعد پتھرائو کے الزام میں گرفتار کم عمر بچوں کی بڑی تعداد کشمیر میں ہے۔ ان بچوں پر جیل میں کیا گزرتی ہے، اس باب میں کوئی نہیں لکھتا۔
مذہبی جلوسوں میں ہزاروں غنڈے تلوار،خنجر،لاٹھیاں، سلاخیں، آتشیں اسلحہ و کیمیکل بھری بوتلوں کے ساتھ مسلم بستیوں اور گھروں پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ ’مرتا کیا نہ کرتا‘ کے مصداق اپنی اور اپنے گھر کی عورتوں، بزرگوںکی مدافعت میں بے ساختہ پتھراؤ کے ذریعے حملہ آوروں سے محفوظ رہنے کی آخری کوششیں کی جاتی ہیں، جو ایک انسان کی بقا کاآخری حق ہے۔ اب اسے بھی چھینا جارہا ہے۔
مظفر نگر۲۰۱۳ء اور پھر ۲۰۲۰ء کے دہلی کے فسادات کے دوران ہزاروں حملہ آوروں کی یلغار سے بچنے اور چھتوں سے مدافعت کے لیے جب مسلمانوں نے اپنی چھتوں پر کچھ پتھر اکٹھے کیے تو ان جمع شدہ پتھروں کی ویڈیو فوٹیج لے کرUAPA ایکٹ کے تحت ’ملک سے غداری‘ جیسے خطرناک قوانین میں مسلمانوں کے خلاف مقدمات درج کر دیئے گئے اور جن کے گھر والے فسادات میں ہلاک ہوئے، ان پر بھی سخت ترین مقدمات درج کیے گئے۔۲۰۲۰ء کے دہلی فساد میں ہندوئوں کے بالمقابل ۴۳ مسلم شہید ہوئے۔ پھرمسلمانوں کی بڑی تعدادبھی دو،دو سال سے جیلوں میں پتھراؤ کے گھناؤنے الزام کے تحت سڑ رہی ہے، نہ سماعت اور نہ رہائی!
فسادیوں کے مسلم مخالف نعروں اور ہنگامہ آرائی میں ہوسکتا ہے کہیں مسلمانوں نے اپنی مزاحمت میں پتھر پھینکے ہوں۔ اتنی بڑی کھلے عام اور منظم یلغار کے جواب میں بے ساختہ چندپتھر پھینکنا کیا اتنا بڑا جرم ہوگیا کہ کھر گون میں ریاست کی پوری مشنری حرکت میں آگئی اور پولیس بندوبست کے ساتھ مقامی انتظامیہ نے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کی سربراہی میں مسلمانوں کے ۱۷مکانات اور ۲۹ دکانوں کو بلڈوزر کے ذریعے مٹی کے ڈھیر میں تبدیل کر دیا کہ یہ مسلمان پتھرائو کر رہے تھے۔ بے شرمی کا عالم دیکھیے کہ مدھیہ پردیش کے چیف منسٹر شیو راج سنگھ چوہان اوروزیر داخلہ نروتم مشرا برملا کہہ رہے ہیں کہ ’’جن لوگوں نے پتھر بازی کی ہے ہم ایک ایک کوسخت سزا دیں گے اور ان کی جائیدادوں کو بلڈوزر سے ڈھیر کرکے بطور جرمانہ بلڈوزوروں کا کرایہ بھی لیں گے، وغیرہ۔ NDTV کے اینکر نے وزیر داخلہ نروتم مشرا سے انٹرویو میں اصرار کرکے پوچھا کہ ’’یہ انتقامی کارروائی آپ کس قانون کے تحت کررہے ہیں؟‘‘ جواب میں بار بار نروتم مشرا دُہراتے رہے کہ ’’ہم سب کچھ قانون کےمطابق کررہے ہیں‘‘وغیرہ۔
سپریم کورٹ کے ممتاز وکیل پرشانت بھوشن سے سوال کیا گیا کہ ’’کیا قانون میں اس طرح کے انتقام لینے کی کوئی گنجائش ہے؟‘‘ انھوں نے برملا کہا کہ یہ سراسر منصوبہ بند پیمانے پر سرکاری غنڈا گردی اور قانون کی خلاف ورزی ہے ۔ جب تک کسی مقدمے میں کارروائی سے عدالت میں یہ ثابت نہیں ہوتا کہ فلاں ملزم نے پتھراؤ کیا تھا، اس وقت تک کوئی بھی کارروائی کرنے کا حکومت یا پولیس اور انتظامیہ کو اختیار حاصل نہیں ‘‘۔
کسی غیرقانونی گھر بار کو منہدم کرنے سے پہلے انتظامیہ پر لازم ہے کہ نوٹس دے کر پہلے مقدمہ دائر کرے۔ یہ عدالت کا کام ہے کہ مقدمے کی نوعیت کے اعتبار سے فیصلہ دے اور پھر جس کے خلاف فیصلہ دیا جائے گا، اس کے خلاف اعلیٰ عدالتوں میں عرضی داخل کرنے کا پورا اختیار ہوتا ہے ۔مگر یہاں تو بستیوں کی بستیاں ڈھائے جارہی ہیں اور مسلمانوں کے گھر بار مسمار کرنے کے لیے مفروضے گھڑے جاتے ہیں۔ اپریل کے دوسرے ہفتے میں ہماچل پردیش میں مسلمانوںکی ایک پوری بستی اس الزام کے تحت زمین کے ساتھ برابر کر دی گئی کہ وہ ریلوے کی زمین پر قابض تھے۔ اس طرح ہزاروں خاندانوں کے گھرزمین بوس کردیئے گئے۔
بھارت میں پتھراؤ سے جائیدادوں کو زمین بوس کرنے کا ایک نیا وحشیانہ طریق کار دنیا کے سامنے ہے۔گذشتہ چند برسوں سےتجرباتی طور پر پہلے یہ عمل کشمیر میں اورپھر آسام میں بڑے پیمانے پر کیا گیاتھا۔ ہندو بریگیڈ نے دیکھ لیا کہ مسلمان بے بس اور کمزورہیں اور ہم جو چاہیں کریں، کوئی ہمارے خلاف آواز اٹھانے کی ہمت نہیں رکھتا ۔ حقوق کو پامال کرنے والے وہ خودساختہ منصف درندے جو راتوں رات بدترین یلغار کرتے ہوئے مسلمانوں کی بستیوں کو ڈھیر بناتے ہیں، وہ کون سی مہذب سوسائٹی کا حصہ ہیں اور اس طریق کار کی کون اجازت دے سکتا ہے؟ یہ کون سی جمہوریت ہے؟
چیف منسٹر مدھیہ پردیش چوہان سنگھ نے کہا کہ ’’نہ صرف ہم ان کی جائیدادیں مسمار کرکے قرق کریں گےبلکہ مسلمان بستیوں پر اجتماعی بھاری جرمانے بھی عائد کریں گے‘‘۔فلسطین میں اسرائیلی پولیس کا فلسطینیوں کے ساتھ یہی معاملہ ہے۔ بات بات پر قتل، گرفتاری اور غریب معصوم فلسطینی باشندوں کےگھروںکوبلڈوزکردیاجاتاہے۔ ایسالگتا ہے کہ بی جے پی نے اسرائیلی حکومت سے انتقامی کارروائی کے درس حاصل کیے ہیں ۔
چند مٹھی بھر مسلمانوں کی مزاحمت پر بی جے پی ؍ آر ایس ایس غصے میں آپے سے باہر ہورہی ہے ۔ انتقام اور بدلے کے جنون اور پاگل پن میں مبتلاہوچکی ہے ۔ مسلمانوں کی ہمتیں اور حوصلے پست کرنے کے لیے یک طرفہ معاندانہ انتقامی کارروائیاں حکومت کی نگرانی میں ہورہی ہیں۔ زندگی کو بچانے کے لیے مزاحمت کا جو بنیادی حق قانون دیتا ہے، اسے بھی اس لیے چھین لینا چاہتے ہیں کہ ظلم و درندگی اور نسل کشی کا نشانہ بننے اور موقعے پر مارے جانے والے بے قصور مسلمان آہ تک نہ کریں ۔ خود یہ جلتے، کٹتے، مرتے مسلمان اپنی مسلم قیادت سے سوال کر رہے ہیں کہ کس دن کے انتظارمیں آپ حضرات سکوت اختیار کیے ہوئے ہیں؟
بھارت میں مسلم ملّی، مذہبی، سیاسی قیادت کمزور اور غیر مؤثر ہوچکی ہے۔ گذشتہ برس بابری مسجد کے مایوس کن فیصلے، قانون طلاق ثلاثہ، کشمیر کی دفعہ ۳۷۰ اور ۳۵-اےکی برخواستگی کے بعد سے نرسمہا آنند سرسوتی کی مسلمانوں کی نسل کشی ’ بولی بائی ڈیل ‘، پھر ۱۱ مارچ ۲۰۲۲ء کو انتہائی اشتعال انگیز فلم ’کشمیر فائلز‘ کے ریلیز سے لے کر ۱۱؍اپریل ۲۰۲۲ء کو شوبھایاترا تک مسلمانوں کے خلاف جو کچھ ہورہا ہے، اس پر مسلم قائدین، علما کو اتنی توفیق نہیں ہوتی کہ وہ متحدہوکر ایک بڑی پریس کانفرنس سے خطاب کریں، اور مظالم کے خلاف آواز بلند کریں، تاکہ دُنیا کے تمام انسانی حقوق کے فورم اورحکومتوں تک مظلوموں کی آواز پہنچ سکے۔اس دوران میں ایک جماعتی وفد نے راجستھان کے حالیہ فساد زدہ گائوں قرولی کا دورہ کیا۔
مسلمانوں میں اپنے وجود و بقا کا شعور بلند کرنے کی ضرورت ہے ۔ دعوتی اور رفاہی کاموں میں مصروف حضرات کے سامنے تو اب اُمت کے تحفظ و بقا کا مسئلہ آن کھڑا ہوا ہے۔ یک طرفہ مسلط کردہ لڑائی کا ہرسطح پر آغازہوچکا ہے ۔ دین دار، سیکولر اورعام مسلمان طبقے کا یہ فریضہ ہے کہ وہ اپنی جماعتوں ، گروہی، مسلکی اختلافات سے اُونچا اُٹھ کر دستور کے دائرے میں اُمت کے تحفظ و بقا کی جدوجہد میں شامل ہوں۔ دستوری و آئینی حقوق کو پامال ہونے سے بچائیں۔