تحریک پاکستان کے دوران میں قائد اعظم محمد علی جناح اور دیگر زعمانے پاکستان کی مسلم ریاست کی تعمیروتشکیل میں اسلام کے ابدی اصولوں سے رہنمائی لینے اور قرآن و سنت کو اس مملکت کا دستور بنانے سے متعلق بیانات و اعلانات کے باوجود مجوزہ اسلامی ریاست کی وضع و ہیئت اور خط و خال واضح نہ کیے جاسکے۔ ایک بھرپور جدوجہد، بعض مؤثر مسلم علما اور سیاسی لیڈروں کی جانب سے مزاحمت اور چاروں طرف سے شدید مخالفتوں کا سامنا کرتے ہوئے مجوزہ ریاست کے دستور اور اس کے سیاسی نظام العمل کی تدوین کی طرف سیاسی قیادت خاطر خواہ توجہ نہ دے سکی۔ چنانچہ عوام تو کجا خواص پر بھی ایک اسلامی مملکت کے دستور اور اس کے سیاسی نظام کا نقشہ واضح نہ ہوسکا، بلکہ اس معاملے میں بعض ذہنوں میں فکری ابہام پایا جاتا تھا۔ جے ونڈرؤ سویٹ مین نے اس وقت پاکستان میں ریاست کی تشکیل کے بارے میں پائے جانے والے اس فکری الجھاؤ کے بارے میں لکھا ہے:
…there is wide interest in rethinking and reshaping the form of the state, nevertheless there is, for the most part, no clear definition of what an Islamic State in fact is.
[مملکت پاکستان] کی تشکیل و تعمیرنو کے بارے میں بہت وسیع حلقوں میں دلچسپی پائی جاتی ہے، لیکن ایک حقیقی اسلامی ریاست کے خط و خال کیاہوں، اس سے بہت سے حلقے شناسا نہیں ۔
اسلامی دستور سے متعلق فکری ابہام کے بارے اشتیاق حسین قریشی کا بیان ملاحظہ ہو:
What is an Islamic constitution?? Than, if we take up the question of an Islamic constitution, what do we mean by it?? Are we thinking of the principles on which an Islamic polity should be based, or of the corpus of the rulings and principles built up by the jurists of Islam and based on the analogy of the Caliphate as it existed in its primeval and classical forms, or of the constitutions of such modern nation states as call themselves Muslim?? There is so much confusion in the minds of the Muslim peoples themselves on these questions.
اسلامی دستور سے کیا مراد ہے؟ کس نوع کے دستور کو اسلامی کہا جائے؟ جب ہم اسلامی دستور کی بات کرتے ہیں تو اس سے ہماری مراد کیا ہوتی ہے؟ کیا اس سے ہماری مراد ایسے اصول و ضوابط ہیں، جن پر ایک اسلامی نظام مملکت و حکومت کو استوار ہونا چاہیے یا پھر اس سے مراد وہ فقہی و قانونی ذخیرہ مراد ہے، جو ہمارے فقہا نے زمانۂ قدیم کے نظامِ خلافت کے اَطوار و اوضاع پر قیاس کرتے ہوئے وضع کیا یا اسے دورِ جدید کی مسلمان ریاستوں کے دساتیر پر استوار ہونا چاہیے؟ اس بارے میں مسلمانوں کے ذہنوں میں خاصا ابہام پایا جاتا ہے۔
اسلامی دستور اور اسلام کے سیاسی و معاشی اور تعلیمی و معاشرتی نظام کا خاکہ مرتب کرنے کے لیے آزادی سے قبل جو چند ایک اقدامات اٹھائے گئے تھے، وہ نتیجہ خیز ثابت نہ ہوئے۔ اس سلسلے میں ایک اہم قدم ’صوبہ جات متحدہ‘ (UP) مسلم لیگ نے اٹھایا تھا۔ جس نے [غالباً] ۱۹۳۹ء کے اواخر میں نواب محمد اسماعیل خان (۱۸۸۶-۱۹۵۸ء) کی صدارت میں یہ تحریک منظور کی کہ منتخب علما کی ایک مجلس سے ایک مستند ومفصل ’نظام نامہ حکومتِ اسلامی‘ مرتب کرایا جائے۔ چنانچہ نواب سر محمداحمد سعید خان چھتاری (۱۸۸۸ء-۱۹۸۲ء) کی صدارت میں چند علما و اہل دانش پر مشتمل ایک کمیٹی مقرر کی گئی، جس کے ارکان میں سید ابوالاعلیٰ مودودی(۱۹۰۳ء- ۱۹۷۹ء)، مولانا آزاد سبحانی (۱۸۸۲-۱۹۵۷ء) مولانا شبیر احمد عثمانی (۱۸۸۵ء-۱۹۴۹ء)، مولانا عبدالحامد بدایونی (۱۹۰۰- ۱۹۷۰ء)، ڈاکٹر ذاکر حسین (۱۸۹۷ء-۱۹۶۹ء) اور مولانا عبدالماجد دریابادی (۱۸۹۲-۱۹۷۸ء) وغیرہ شامل تھے۔ علّامہ سید سلیمان ندوی (۱۸۸۴-۱۹۵۳ء) کو اس کمیٹی کا داعی (کنوینر) مقرر کیا گیا۔
یہ کمیٹی ’مجلس نظام اسلامی‘کہلاتی تھی۔ مجلس کے داعی سیّد سلیمان ندوی نے مولانا ابوالبرکات عبدالرؤف دانا پوری (۱۸۸۴-۱۹۴۸ء)، ڈاکٹر سید ظفرالحسن (۱۸۷۹ء-۱۹۴۹ء)، صدر شعبۂ فلسفہ، علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی، مولانا مناظر احسن گیلانی (۱۸۹۲-۱۹۵۶ء) اور مولانا شبیر احمد عثمانی کو خطوط لکھے اور ان کو اسلامی دستور کا خاکہ مرتب کرنے کی غرض سے تجاویز پیش کرنے کا کہا۔
سید صاحب نے جن اصحاب علم و نظر کو خطوط لکھے تھے، ان میں سے صرف چار افراد، مولانا عبدالماجد دریابادی، سید ابوالاعلیٰ مودودی، ڈاکٹر ذاکر حسین اور مولانا آزاد سبحانی نے دستوری خاکے مرتب کرکے ارسال کیے۔ ان خاکوں کی مدد سے مولانا محمد اسحاق سندیلوی نے ایک مسودہ ۱۹۴۵ء میں تیار کیا جو سید سلیمان ندوی اور نواب محمد احمد سعید چھتاری کی دلچسپی اور خواہش کے باوجود ۱۹۵۷ء سے قبل چھپ کر منظر عام پر نہ آسکا۔
پاکستان کی مسلم ریاست کے لیے مرتب کیے گئے، اس اسلامی دستور و سیاسی نظام نامہ سے منسوب کتاب اسلام کا سیاسی نظام پر سید مودودی نے ان الفاظ میں تبصرہ کیا:
زیر نظر کتاب [میں] …اصل مسئلہ کی تحقیق بہت حد تک صحیح ہے، لیکن سائنٹی فک نہیں ہے… ایک بڑی خامی یہ نظر آتی ہے کہ اسلامی اسٹیٹ کے نظام اور دستور العمل پر کس قدر تفصیلی نگاہ [تو] ڈالی گئی ہے، لیکن ہر پہلو تشنہ، غیر مرتّب اور غیر مدلّل ہے۔ تیسری کمی یہ ہے کہ اصطلاحات کے استعمال اور طرز بیان میں علم السّیاست کی زبان سے کافی مدد نہیں لی گئی ہے، اس کا لحاظ بہت ضروری ہے۔ مجموعی طور پر کتاب اچھی، پر از معلومات اور قابل مطالعہ ہے۔
اس سلسلے میں دوسرا اہم اقدام جو تحریک پاکستان کے دنوں میں مستقبل کی مجوزہ مسلم ریاست ’پاکستان‘ کے لیے خالص اسلامی نقطۂ نظر سے معاشرتی، تعلیمی، معاشی اور دستوری و سیاسی نظام مرتب و مدوّن کرنے کے لیے مسلم لیگ کی طرف سے اٹھایا گیا، وہ اس کے سالانہ اجلاس منعقدہ کراچی (دسمبر ۱۹۴۳ء) میں ایک ’پلاننگ کمیٹی‘ کا قیام تھا۔ تاہم، اس کمیٹی کی ترکیب و تشکیل اور اس کی کارگزاری کبھی سامنے نہ آسکی۔ اس سے قبل مسلم لیگ کے تیسویں اجلاس منعقدہ ۲۴-۲۶؍اپریل ۱۹۴۳ء ، بمقام دہلی، کے موقع پر آل انڈیا مسلم لیگ کونسل کے اجلاس میں قرار پایا تھا کہ چند مستند ماہرین اسلام کی ایک مجلس ’مجلس تعمیر ملّی‘ قائم کی جائے، جو قرآن شریف کو سامنے رکھ کر قومی زندگی کے مسائل پر نظر ڈالے اور ایک اسلامی ریاست کا خاکہ بنائے لیکن یہ مجلس قائم نہ ہوسکی تھی۔
آل انڈیا مسلم لیگ کی کمیٹی آف رائٹرز (مسلم لیگ کے رکن اور حامی دانش وروں کی کمیٹی) نے بھی ۱۹۴۶ء میں مجوزہ مسلم مملکت پاکستان کو مستقبل میں درپیش مسائل کے جائزے، اس کے سیاسی نظام کی تدوین اور اس کی صنعتی و اقتصادی اور تعلیمی ترقی کا لائحہ عمل مرتب کرنے کی سعی کی تھی اور مختلف اُمور و مسائل پر کتابچے (۱۲ عدد) شائع کیے تھے۔ اس کمیٹی کے ایک ممتاز رکن ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی (۱۹۰۲-۱۹۸۱ء)، جو بعد میں وزیر تعلیم اور کراچی یونی ورسٹی کے وائس چانسلر بھی ہوئے، انھوں نے اپنے کتابچے The Future Development of Islamic Polity میں پاکستان کی ریاست و حکومت کی تعمیروتشکیل میں اسلام کے کردار و حیثیت کی وضاحت کی سعی کی تھی۔ تاہم، ڈاکٹر قریشی اس ضمن میں کوئی مربوط اسکیم پیش نہ کرسکے۔ خالد بن سعید کی رائے ہے کہ اس کتابچے میں کوئی گہرائی موجود نہ تھی اور شاید یہ بڑی عجلت میں لکھا گیا تھا۔
آل انڈیا مسلم لیگ کے علاوہ آل انڈیا سنّی کانفرنس (بریلوی مکتب فکر کے علما کی تنظیم، قائم:۱۹۲۵ء) نے اپنے اجلاس بنارس (۲۷-۳۰؍اپریل ۱۹۴۶ء) میں اسلامی حکومت کے لیے ایک مکمل و مفصل لائحہ عمل مرتب کرنے کے لیے جو کمیٹی قائم کی تھیاس کی کارگزاری بھی منظرعام پر نہ آسکی۔ البتہ آل انڈیا سنی کانفرنس نے ۱۳، اکابر علما پر مشتمل ’اسلامی حکومت کے مکمل لائحہ عمل‘ مرتب کرنے کے لیے جو کمیٹی تشکیل دی تھی، اس کے ایک سربرآوردہ رکن مولانا سید محمد نعیم الدین مراد آبادی(۱۸۸۳-۱۹۴۸ء) نے ۱۹۴۸ء میں اسلامی دستور کے خاکہ کے لیے چند دفعات مرتب کی تھیں۔
یہ مجوزہ دستوری خاکہ ایک حقیقی شورائی اسلامی حکومت کی بنیاد بننے کی صلاحیت نہیں رکھتا تھا۔ اس میں امیر کو مطلق العنان کی سی حیثیت تجویز کی گئی تھی۔
اسلامی دستور کی تدوین میں تاخیر کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ اہل علم و فکر کو بھی یہ کام دِقّت طلب دکھائی دیتا تھا۔ یوپی مسلم لیگ کی طرف سے اسلامی دستور کی تدوین کے لیے قائم کی گئی، ’مجلس نظام اسلامی‘ کے صدر سید سلیمان ندوی نے اس مجلس کے ایک رکن مولانا عبدالماجد دریا بادی کے نام ایک خط (۹جنوری ۱۹۴۰ء) میں لکھا:آپ کے ذہن میں سیاسیاتِ اسلامی کا جو نقشہ ہو، اس کو قلم بند فرما کر عنایت فرمائیں۔ کام بڑا مشکل معلوم ہوتا ہے۔
یہ مشکلات کس نوعیت کی تھیں؟ اس کی نشان دہی اسلام کے نظام سیاست و حکومت کی توضیح و تشریح کرنے والے دو ممتاز علما مولانا حامد الانصاری غازی اور سید ابوالاعلیٰ مودودی نے کی ہے۔ مولانا حامد الانصاری کی رائے میں مشکل یہ تھی کہ صدیاں گزرنے کے باوجود اسلام کے نظام حکومت کا کوئی مکمل خاکہ مرتب نہیں کیا گیا۔ مسلمانوں نے سالہاسال سے اجتماعی میدان کو دوسری طاقتوں کے ہاتھ میں چھوڑ رکھا تھا۔
علمی دائرہ میں الہٰیات کی درس و تدریس علما کا نصب العین تھا۔ اس کے لیے انھوں نے قابل تعریف کوشش کی، لیکن ان کے افکارو اعمال کی جولانگاہ میں اجتماعیات کو وہ درجہ حاصل نہ ہوسکا جو پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے جانشینوں (خلفائے راشدین) کے جہادِ حق سے حاصل ہوا تھا۔
خلافت راشدہ ؓکے بعد مسلمانوں کے دور حکومت نے فرماںروائی کا جو نقشہ تیار کیا، اس نے اسلامیت کی حقیقت پر پردہ ڈال دیا۔ علما کو جزئی قوانین کا وسیع میدان ملا، جس میں انھوں نے شاندار، قابل تعریف اور یاد گار کارنامے کرکے دکھائے۔ لیکن اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ حکومت و سلطنت کے متعلق خلافت نبوی اور ریاستِ عامہ کے جو اصول و احکام تھے، وہ آنکھوں سے اوجھل اور علم و تحقیق کی دسترس سے باہر ہوگئے۔ یہاں تک کہ صدیوں سے اس طرف کافی توجہ کرنے کا موقع نہیں ملا۔ چنانچہ اس زمانے تک کسی کتب خانہ میں کوئی کتاب ایسی نہیں، جس کو گزشتہ چند صدیوں کے مطالبہ کے جواب میں پیش کیا جائے اور جس کو اسلام کے مکمل دستور حکومت کا نام دیا جاسکے۔
جہاں تک اسلامی دستور کے مآخذ (قرآن مجید، سنت ِرسولؐ ، تعامل خلفائے راشدین، اجماع اور مجتہدین امت کے فیصلے) کا تعلق ہے تو بلاشبہہ یہ سب تحریری شکل میں موجود تھے، تاہم ان مآخذ سے قواعد اخذ کرکے ان کو دستور کی شکل دینے میں چند مشکلات اور دِقّتیں حائل تھیں۔ سید ابوالاعلیٰ مودودی نے ان مشکلات کا جائزہ ان الفاظ میں پیش کیا:
۱- اصطلاحات کی اجنبیت: سب سے پہلی دقّت زبان کی ہے۔ قرآن، حدیث اور فقہ میں احکام کو بیان کرنے کے لیے جو اصطلاحات استعمال ہوتی ہیں، وہ اب بالعموم لوگوں کے ناقابل فہم ہوگئی ہیں، کیونکہ ایک مدت دراز سے ہمارے ہاں اسلام کا سیاسی نظام معطل ہوچکا ہے، اور ان اصطلاحوں کا چلن نہیں رہا ہے۔قرآنِ مجید میں بہت سے الفاظ ایسے ہیں، جن کی ہم روز تلاوت کرتے ہیں، مگر یہ نہیں جانتے کہ یہ دستوری اصطلاحات [بھی] ہیں، مثلاً: سلطان، ملک، حکم، امر، ولایت وغیرہ۔
۲- قدیم فقہی لٹریچر کی نامانوس ترتیب: دوسری دقت یہ ہے کہ ہمارے فقہی لٹریچر میں دستوری مسائل کہیں الگ ابواب کے تحت یکجا بیان نہیں کیے گئے ہیں، بلکہ دستور اور قوانین ایک دوسرے کے ساتھ خلط ملط ہیں۔ پھر ان کی زبان اور اصطلاحات آج کل کی رائج اصطلاحوں سے اس قدر مختلف ہیں کہ جب تک کوئی شخص قانون کے مختلف شعبوں، اور ان کے مختلف مسائل پر کافی بصیرت نہ رکھتا ہو، اور پھر عربی زبان سے بھی بخوبی واقف نہ ہو، اس کو یہ پتہ نہیں چل سکتا کہ کہاں قانونِ ملکی کے درمیان قانونِ بین الاقوام کا کوئی مسئلہ آگیا ہے، اور کہاں پرسنل لا کے درمیان دستوری قانون کے مسئلے پر روشنی ڈال دی گئی ہے۔ پچھلی صدیوں کے دوران میں ہمارے بہترین قانونی دماغوں نے غایت درجہ بیش قیمت ذخیرہ چھوڑا ہے۔ اس چھوڑی ہوئی میراث کو چھان پھٹک کر ایک ایک قانونی شعبے کے مواد کو الگ الگ کرنا اور اسے منقح صورت میں سامنے لانا ایک بڑی دیدہ ریزی کا کام ہے۔
۳- نظام تعلیم کا نقص: تیسری مشکل یہ ہے کہ ہمارے ہاں تعلیم ایک کافی مدت سے بڑی ناقص ہورہی ہے۔ جو لوگ ہمارے ہاں دینی علوم پڑھتے ہیں، وہ موجودہ زمانے کے علم السیاست اور اس کے مسائل اور دستوری قانون اور اس سے تعلق رکھنے والے معاملات سے بے گانہ ہیں۔ ان کے لیے اس وقت کے سیاسی و دستوری مسائل کو آج کل کی زبان اور اصطلاحوں میں سمجھنا اور پھر ان کے بارے میں اسلام کے اصول و احکام کو وضاحت کے ساتھ بیان کرنا مشکل ہوتا ہے۔ دوسری طرف ہمارے جدید تعلیم یافتہ لوگ ہیں، جو زندگی کے جدید مسائل سے تو واقف ہیں، مگر وہ دستور اور سیاست اور قانون کے متعلق جو کچھ جانتے ہیں، مغربی تعلیمات اور مغرب کے عملی نمونوں ہی کے ذریعے سے جانتے ہیں۔ قرآن اور سنت اور اسلامی روایات کے بارے میں ان کی معلومات بہت محدود ہیں۔ یہ ایک بہت بڑی پیچیدگی ہے، جو ایک صحیح اسلامی دستور کی تدوین میں حارج ہورہی ہے۔
غرض یہ کہ اس وقت وہ مذہبی طبقہ جو اسلامی نظام کی فکری اساس کے لیے قرآن و حدیث سے حوالے پیش کرسکتا تھا وہ تو موجود تھا، عوام میں اس نظام کے لیے جذبہ اور خواہش بھی موجود تھی لیکن وہ طبقہ جو دور جدید کے لیے اسلامی نظام کی عملی، آئینی، سیاسی و معاشی اور انتظامی صورت متعین کرسکتا، وہ نہ ہونے کے برابر تھا۔ چنانچہ جب پاکستان وجود میں آیا تو اس وقت نہ تو اسلامی دستور مرتب شدہ حالت میں کہیں موجود تھا اور نہ اس وقت کی سیاسی قیادت ہی کو اس کی فوری ضرورت و اہمیت کا کوئی شعور و ادراک تھا۔ سیاسی قیادت کی غفلت و کوتاہی کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ ’’معاصر دنیا کے تقاضوں اور خود اسلام کی حقیقی تعلیمات کے حوالے سے لیگی قیادت ذہنی افلاس کی گرفت میں تھی اور وہ ان امور و مسائل میں علمی و فکری سطح پر کوئی معقول موقف اختیار کرنے کی اہلیت سے عاری تھی‘‘۔ چنانچہ عوام تو کجا خواص کے ذہنوں میں بھی اسلامی دستور اور نظام حکومت کا کوئی واضح تصور موجود نہ تھا۔
محمد اسد نے اسلامی دستور اور نظام حکومت کے بارے میں خواص و عوام کے ذہنوں میں پائے جانے والے فکری ابہام کے بارے میں لکھا:
At that time, I was Director of the Department of Isamic Reconstruction.... among the problems which preoccupied me most intensely was, naturally enough, the question of the future constitution of Pakistan. The shape which that constitution should have was then, as it is now, by no means clear to everybody. Although the people of our country were, for the most part, imbued with enthusiasm for the idea of a truly Islamic State - that is a state based (in distinction from all other existing political groupments) not on the concept of nationality and race but solely on the ideology of Qur'an and Sunnah - they had as yet no concrete vision of the methods of government and of the institutions, which would give the state a distinctly Islamic character and would, at the same time, fully correspond to the exigencies of the present age. Some elements of the populaton naively took it for grauted that, in order to be genuinely Islamic, the government of Pakistan must be closely modeled on the forms of the early caliphate, with an almost dictatorial position to be accorded to the head of the state, utter conservatism to all social forms (including a more or less complete seclusion of women), and a patriarchal economy, which would dispense with the complicated financial mechanism of the twentieth century and would resolve all the problems of the modern welfare state through the sole instrumentatity of the tax known as Zakat. Other sectors - more realistic but perhaps less interested in Islam as a formative element in social life - visualised a development of Pakistan on lines indistinguishable from those commonly accepted on valid and reasonable to the parliamentary democracies of the moder West, with no more that than a formal reference to the wording of the constitution to Islam as the "religion of the state" and possibly, the establishment of a "Ministry of Religious Affairs" as a concession to the emotions of the overwhelmin majority of the population.
اس زمانے میں [۱۹۴۷-۱۹۴۸ء] جو مسائل میرے دل و دماغ پر حد درجہ چھائے ہوئے تھے، طبعاً ان میں سے ایک مسئلہ پاکستان کے آئندہ دستور کا بھی تھا۔ اس زمانے میں اکثروبیشتر لوگوں پر یہ امر واضح نہ تھا کہ [اسلامی] دستور کی وضع و ہیئت کیا ہونی چاہیے؟ اگرچہ ہمارے ملک [پاکستان] کے باشندوں کی اکثریت حقیقی اسلامی مملکت کے تصور سے سرتاپا متأثر تھی، یعنی چاہتی تھی کہ ایک مملکت نسل و قومیت کے تصورات پر نہیں بلکہ خالصتاً قرآن و سنت کے نظریات پر تعمیر کی جائے۔ تاہم، وہ اپنے ذہنوں میں ایک ایسی مملکت جو عملاً واضح طور پر اسلامی ہو اور ساتھ ہی دور حاضر کے تقاضوں کو ٹھیک ٹھیک طور پر پورا کرسکے، کی حکومت اور اس کے اداروں کے اوضاع و اطوار کے بارے میں کوئی واضح تصوّر نہ رکھتے تھے۔ آبادی کے بعض عناصر سادہ لوحی سے سمجھے بیٹھے تھے کہ حقیقی اسلامی مملکت بننے کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان کا نظام ابتدائی عہد کی خلافت کے عین مطابق ہو۔ رئیس مملکت کو تقریباً وہی کُلّی اختیارات سونپ دیے جائیں۔ ویسا ہی بالکل ابتدائی اسلامی دور کا اقتصادی نظام بیسویں صدی کے پُرپیچ سلسلۂ نظم و نسق مالیات و معیشت کی جگہ لے لے اور یہ کہ دور حاضر کی فلاحی مملکت کے تمام مسائل صرف ایک محصول (Tax) یعنی محصول زکوٰۃ کی بنا پر حل ہوجائیں گے۔ دوسرے طبقے کے لوگ جنھیں اسلام کو اجتماعی زندگی میں ایک کارفرما عامل بنالینے سے کوئی دلچسپی نہ تھی، یہ تصور کیے بیٹھے تھے کہ پاکستان کے سیاسی و دستوری نظام کا نشو و ارتقا ان اصولوں پر ہوگا، جنھیں دور حاضر کے مغرب کی پارلیمانی جمہوریتوں میں مشترکاً درست و معقول مانا جاتا ہے اور ان دونوں میں بجز اس کے کوئی فرق نہ ہوگا کہ ہمارے دستور میں رسماً لکھ دیا جائے گاکہ ’’مملکت کا مذہب اسلام ہے‘‘ اور آبادی کی بہت بڑی اکثریت کے جذبات کا احترام کرتے ہوئے ایک وزارتِ مذہبی امور قائم کردی جائے گی-
غرضیکہ اس وقت ضرورت ایسے دستوری خاکے کی تھی جو ایک طرف حقیقی معنی میں اسلامی ہوتا، دوسری طرف عصر حاضر کے تمام عملی تقاضوں کو اس میں پیش نظر رکھا جاتا اور جس میں افراط و تفریط کے مذکورہ دو نظریوں کے درمیان توافق پیدا کیا جاتا۔ اس اہم علمی و فکری ضرورت کو پورا کرنے کے لیے بانی جماعتِ اسلامی سید ابوالاعلیٰ مودودی اور محمد اسد نے قیام پاکستان کے ابتدائی زمانے میں نہایت اہم کردار ادا کیا۔ ان دونوں مفکرین نے اسلام کے سیاسی نظریے کی توضیح و تشریح جدید علم السّیاست کی زبان و اصطلاحات میں کی تاکہ وہ جدید تعلیم یافتہ طبقے کے لیے قابل فہم ہوسکے۔ دونوں نے اسلامی دستور کے بنیادی اُصول کو منقح کرکے پیش کیا اور موجودہ زمانے کے حالات اور تقاضوں کو پیش نظر رکھ کر ان کے عملی طور پر اطلاق و انطباق کی صورتوں کی نقشہ گری بھی کی۔
سید ابوالاعلیٰ مودودی نے تو، جو اقامتِ دین و حکومتِ الٰہیہ کی دعوت لے کر اٹھے تھے، ۱۹۳۹ء سے ہی اسلامی ریاست /حکومتِ الٰہیہ کے نظریے کی توضیح و تشریح اور اس کے عملاً قیام کی دعوت کو اپنی علمی و فکری جدوجہد کا خصوصی میدان بنالیا تھا۔ انھوں نے اپنی تقریروں خصوصاً جدید تعلیم یافتہ افراد کے اجتماعات سے اپنے خطابات میں ’’اسلام کا نظریۂ سیاسی‘‘ (جلسۂ انٹرکالجیٹ مسلم برادرہڈ، لاہور، اکتوبر ۱۹۳۹ء)، ’’اسلامی حکومت کس طرح قائم ہوتی ہے؟‘‘ (اسٹریچی ہال، مسلم یونی ورسٹی، علی گڑھ، ۱۲؍ستمبر ۱۹۴۰ء)، ’’اسلامی قانون اور پاکستان میں اُس کے نفاذ کی عملی تدابیر‘‘ (لاء کالج، پنجاب یونی ورسٹی، لاہور، ۶جنوری و ۱۹فروری۱۹۴۸ء)، ’’اسلام کا سیاسی نظام‘‘ (ریڈیو پاکستان، لاہور، فروری۱۹۴۸ء) اور ’’اسلامی دستور کے بنیادی اُصول‘‘ (کراچی بار ایسوسی ایشن، ۲۴نومبر ۱۹۵۲ء) جیسے موضوعات و مسائل پر تسلسل کے ساتھ اظہارِ خیال کیا۔
مولانا مودودی نے ان تقریروں اور خطبات میں اسلامی ریاست کے بنیادی نظریے اور اُس کے نمایاں خدوخال کو لوگوں کے سامنے کھول کر رکھا تاکہ وہ اس کی نوعیت کو اچھی طرح سمجھ لیں۔ سید مودودی کا مطمح نظر ملک کے جدید تعلیم یافتہ طبقے کو اسلامی ریاست کے نظریے سے محض واقف کرانا ہی نہیں بلکہ انھیں اس کے عملاً قیام کا قائل اور طالب بنانا تھا۔ ۱۹ فروری ۱۹۴۸ء کو لا کالج (پنجاب یونی ورسٹی، لاہور) میں اپنی تقریر میں انھوں نے اسلامی ریاست کے قیام کے حق میں آواز اٹھائی اور ملک کی مجلسِ دستور ساز سے اسلامی دستور کا مطالبہ کیا۔ ان کا مطالبہ یہ تھا کہ مجلس دستور ساز ایک قرارداد کے ذریعے واضح طور پر یہ اعلان کرے کہ:
۱- پاکستان کی بادشاہی [حاکمیت و اقتدارِ اعلیٰ] اللہ تعالیٰ کے لیے ہے اور حکومتِ پاکستان کی حیثیت اس کے سوا نہیں ہے کہ وہ اپنے بادشاہ کی مرضی اس کے ملک میں پوری کرے۔
۲- پاکستان کا بنیادی قانون اسلامی شریعت ہے۔
۳- وہ تمام قوانین جو اسلامی شریعت کے خلاف اب تک جاری رہے ہیں، منسوخ کیے جائیں گے اور آیندہ ایسا قانون نافذ نہ کیا جائے گا جو شریعت کے خلاف ہو۔
۴- حکومتِ پاکستان اپنے اختیارات اُن حدود کے اندر استعمال کرے گی جو شریعت نے مقرر کردی ہیں۔
سید مودودی نے اقامتِ دین کی جدوجہد کے لیے مطالبۂ دستورِ اسلامی کو نقطۂ آغاز کی حیثیت سے منتخب کیا تھا۔ چنانچہ اپریل ۱۹۴۸ء سے انھوں نے اس مطالبہ کے حق میں رائے عامہ کو ہموار کرنے کے لیے ملک گیر مہم کا آغاز کیا۔ سید مودودی کی اس دستوری جدوجہد اور مولانا شبیر احمد عثمانی اور ڈاکٹر عمر حیات ملک جیسے ارکانِ مجلس دستور ساز کی مساعی کے نتیجے میں مجلس دستور ساز نے مارچ ۱۹۴۹ء میں قرار داد مقاصد منظور کی، جسے بعد میں پاکستان کے دستور کے رہنما اصولوں اور اُس کے دیباچہ (Preamble) کی حیثیت حاصل ہوئی۔ مطالبہ دستورِ اسلامی کے حق میں سید مودودی کی عملی سیاسی جدوجہد نے ۱۹۵۶ء کے دستور میں اسلامی اصولوں کو منوانے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔
سید ابوالاعلیٰ مودودی نے اسلام کی سیاسی تعلیمات کی توضیح و تشریح کا جو کارنامہ انجام دیا ہے، بلاشبہہ وہ پاکستان میں اسلامی ریاست کے قیام کی جدوجہد میں سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ بایں ہمہ مملکتِ پاکستان کے لیے اسلامی دستور کے خاکہ کی تدوین کے معاملے میں محمد اسد کو تقدّم و سبقت حاصل ہے۔ محمد اسد نے ۳جون ۱۹۴۷ء کو تقسیم ہند کے منصوبہ کے اعلان کے ساتھ ہی مجلہ عرفات (Arafat) میں اسلام کے نظریۂ ریاست اور اسلامی دستور کے بنیادی اُصول پر بحث کا آغاز کیا تھا۔ قیام پاکستان کے بعد جب وہ محکمۂ احیائے ملتِ اسلامیہ (Department of Islamic Reconstruction)، کے ناظم مقرر ہوئے تو پاکستان کی اسلامی تشکیل کے لائحہ عمل بالخصوص ایک اسلامی دستوری خاکہ کی تدوین ان کی علمی و فکری کارگزاریوں کا ہدف ٹھیرا۔ چنانچہ ایک ایسے وقت میں ،جب کہ اسلامی دستور کا کوئی نمونہ موجود نہ تھا محمد اسد نے اس اہم اور مشکل و دقَّت طلب کام کا از خود بیڑا اٹھایا اور اسلامی دستور اور اسلام کے سیاسی نظام کا ایک مفصل خاکہ مرتب کیا، جسے مارچ ۱۹۴۸ء میں محکمۂ احیائے ملت اسلامیہ کی طرف سے شائع کراکے عوام کے سامنے پیش کیا۔
محمد اسد کو مغرب کے سیاسی نظاموں،دستوری و قانونی اصول و تصورات اور دستوری زبان و اصطلاحات کے علاوہ اسلام کے سیاسی اُصول و مبادی سے بھی گہری واقفیت حاصل تھی۔ چنانچہ انھوں نے قرآن و سنت کی نصوص سے عمومی دستوری اصول اخذ کرکے ان کی توضیح و تشریح جدید علم السّیاست کی زبان و اصطلاحات میں کی تاکہ وہ جدید تعلیم یافتہ طبقے کے لیے قابلِ فہم ہوسکیں۔
محمد اسد نے اس دستوری خاکہ کی تدوین میں صرف قرآن مجید اور سنت رسولؐ کے نصوص کو بنیاد بنایا ہے۔ خلافت راشدہ کے تعامل و نظائر اور فقہاء و مجتہدین امت کے دستوری و سیاسی مسائل میں آراء سے انھوں نے اعتناء نہیں برتا ہے۔ ان کے نزدیک ان دونوں کی تقلید و پیروی امت پر لازم و واجب (binding)نہیں ہے، جب کہ قدیم فقہاء و مجتہدین کے ہاں سے اس بارے میں مناسب رہنمائی بھی نہیں ملتی۔ محمد اسد کی رائے میں دستوری و سیاسی مسائل و معاملات کے بارے میں اسلامی کتب کا جو ذخیرہ اس وقت موجود تھا، اس میں اس مشکل کے لیے رہنمائی کا کوئی سامان نہ تھا۔ کیونکہ گذشتہ صدیوں کے بعض علمائے اسلام نے خصوصاً عباسیوں کے عہد حکومت میں اسلام کے سیاسی قانون پر جو چند کتابیں مرتب کی تھیں، ان میں ان مسائل کے متعلق ان کا طریق فکر و نظر ان کے عہد کے ثقافتی ماحول اور اجتماعی و سیاسی تقاضوں پر مبنی تھا۔ یوں ان کی سعی و نشاط کے نتائج بیسویں صدی کی ایک اسلامی مملکت کی ضرورتوں کا جواب نہیں بن سکتے تھے۔
محمد اسد نے دور حاضر کے مغرب زدہ مسلمان مصنّفین و مفکرین کے دستوری وسیاسی مسائل سے متعلق افکار و خیالات کو بھی توجہ کے لائق نہیں سمجھا۔ ان کی رائے میں ’’دور حاضر میں مغرب سے مرعوب و متأثر مسلمانوں نے عموماً یورپ کے ایسے سیاسی تصوّرات و ادارات اور حکمرانی کے طور طریقے بے تکلفی سے قبول کرلیے اور انھیں دورِ حاضر کی مسلم مملکت کا معیار بنالیا جو اسلامی نظریات کے حقیقی تقاضوں سے بالکل متناقض تھے۔ غرض یہ کہ محمد اسد کی رائے میں ان کے معاصرین یا پیشروؤں کی تصانیف کوئی اطمینان بخش فکری بنیاد مہیا نہیں کرتی تھیں کہ جس پر پاکستان کی نئی مملکت کے دستور کی عمارت قائم کی جاتی۔ دریں صورت انھوں نے قرآن و سنت کی طرف راست طور پر رجوع کرکے ان کے نصوص سے دستوری اصول اخذ کرکے اس مملکت کے سیاسی و حکومتی نظام کا خاکہ مرتب کرنے کی کوشش کی۔ اسد کے الفاظ میں:
Thus, neither the works of our predecessors nor those of our contemporaries could furnish a satisfactory conceptual basis on which the new state of Pakistan should be built up. Only one way remained open to me: to turn to the original sources of Islamic Law, Qur'an and Sunnah, and to work out on their basis the concrete premises of the future constitution of Pakistan independently of all that has been written on the subject of the Islamic State.
غرض یہ کہ ہمارے پیش روؤں کی تصانیف کوئی اطمینان بخش فکری بنیاد مہیا نہیں کرتی تھیں، جس پر پاکستان کی نئی مملکت کی عمارت تعمیر کی جاتی۔ میرے لیے صرف ایک ہی راستہ باقی رہ گیا تھا اور وہ یہ کہ قانونِ اسلام کے بنیادی مآخذ قرآن و سنت کی طرف متوجہ ہوتا۔ اس طرح قدما نے امامت و خلافت (سیاست و حکومت) کے بارے میں جو تصنیفی سرمایہ چھوڑا ہے، اسے ایک طرف رکھتے ہوئے اور آزادانہ غوروفکر سے کام لیتے ہوئے پاکستان کے آیندہ دستور کے لیے مثبت اصول اخذ کرتا، جو اسلامی مملکت کے موضوع پر مرتبہ کتابوں سے بالکل مختلف ہوتے۔
ڈاکٹر منظور الدین احمد کی رائے میں پاکستان کے ابتدائی برسوں میں مختلف اہل علم کی طرف سے جو دستوری خاکے منظر عام پر آئے، ان میں سے محمد اسد کا مرتب کردہ یہ خاکہ زیادہ واضح اور جدید ذہن کے لیے زیادہ قابلِ فہم تھا۔
محمد اسد کے دستوری خاکہ کا ایک قابل ذکر پہلو یہ ہے کہ انھوں نے قرآن و سنت سے دستوری اصول اخذ کرتے ہوئے، معاصر مغربی دستوری و سیاسی نظاموں سے اخذو اکتساب کی راہ بھی نکالی ہے۔ اسلام کے سیاسی اصول اور مغرب کے سیاسی تجربات و اجتہادات میں ایک گونہ تطبیق قائم کرنے کی کوشش کی ہے۔ محمد اسد نے گویا اس دستوری خاکہ میں یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ قرآن و سنت کے اصول و تعلیمات پر قائم رہتے ہوئے کس طرح سے عصرحاضر میں ایک اسلامی ریاست قائم کی جاسکتی ہے۔ محمد اسد نے اس دستوری خاکہ کو، مملکت پاکستان کے سیاسی نظام اور ریاستی اداروں کی اسلامی بنیادوں پر تشکیل و تنظیم کی غرض سے، ایک منشور اور دستور العمل کے طور پر پیش کیا ہے۔
محمد اسد نے اسلامی دستور کا مربوط و مفصل خاکہ پیش کرکے بعض اہل سیاست و اہل دانش کے اس اعتراض کو بے اصل ثابت کردیا کہ ’’اسلام دستور سازی اور نظام حکومت و سیاست کے بارے میں قطعاً کوئی رہنمائی نہیں کرتا، اور نہ اصول و مبادی تجویز کرتا ہے‘‘۔
محمد اسد کا تجویز کردہ دستوری خاکہ نوزائیدہ مملکت کے دستور کو اسلامی خطوط پر استوار کرنے میں ایک مؤثر بنیاد فراہم کرتا تھا، تاہم حکومت وقت کے مصالح اور سیاسی قائدین کی ذاتی اغراض نے ایسا نہیں ہونے دیا۔ محمداسد کو اس بات کا قلق رہا کہ دستور سازی کے سلسلے میں ان کی تجاویز سے فائدہ نہیں اٹھایا گیا۔
تاہم محمد اسد کی یہ کاوش بے اثر نہ رہی اور تحریک پاکستان میں سرگرم عمل علماء اور بعض اہل دانش کی جدوجہد کے نتیجے میں پاکستان کی دستور ساز مجلس نے ۱۹۴۹ء میں مملکت کے دستور کو اسلامی بنیادوں پر استوار کرنے کی غرض سے جو ’قرارداد مقاصد‘ منظور کی تھی یا پھر مختلف مکاتب فکر کے علما نے اسلامی دستور تشکیل دینے کے لیے جنوری ۱۹۵۱ء میں جو بائیس نکاتی دستوری فارمولا مرتب کیا تھا، اس میں کسی حد تک محمد اسد کے دستوری خاکہ کا عکس دیکھا جاسکتا ہے۔(جاری)