یہ جملہ ’’ملک شدید بحران سے گزر رہا ہے‘‘ اتنی کثرت سے سنتے اور پڑھتے چلے آرہے ہیں کہ اب یہ اپنی معنویت تقریباً کھو چکا ہے، مگر ’’شدید بحران‘‘ کا لفظ بہرحال اپنی جگہ موجود ہے۔
قومی زندگی کے صبح و شام پر نظر ڈالیں تو یہ صاف دکھائی دیتا ہے کہ قوم اور ملک آتش فشاں کے دہانے پر کھڑے ہیں ، اور یہ آتش فشاں کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے۔ حساس دل و دماغ تو زیرزمین زلزلے کی گہری زیریں لہروں کو محسوس کر رہے ہیں، مگر افسوس کہ قومی قیادت اور خود قوم، قریب آتے ہوئے تباہ کن مستقبل سے بالکل بے خبر ہے۔ سطحیت ہر سطح پر حاوی ہے، جذباتیت کا دور دورہ ہے۔ اجتماعی زندگی ہیجان اور انتشار کا شکار ہے، کہ صاحبانِ اقتدار اور اپوزیشن کے بیانات سے کم علمی اورکج فہمی جھلکتی ہے۔ جاہلیت، اسلامی تہذیب کے خرمن کو جلا رہی ہے۔
تاریخ کا یہ سبق یاد رہنا چاہیے کہ ایسے طوفانوں کے نتیجے میں محض حکومتیں تبدیل نہیں ہوا کرتیں بلکہ ماضی کی تہذیبی قدریں اور تعلقات و معاملات کا پورا نظام اپنی جگہ سے ہل کر رہ جاتا ہے جس کے اثرات دیر تک قومی وجودکو چاٹتے رہتے ہیں۔ گویا کہ چند افراد کی نادانی کے نتیجے میں معاشرے کو بہت قربانی دے کر پھر کہیں بہت مشکل سے راستی اور درستی کا سرا ہاتھ آتا ہے۔
قیامِ پاکستان کے ۷۵ویں سال، یہ منظر ایک بدقسمتی ہے۔ تاہم، اس گئی گزری صورتِ حال کے باوجود ملک و ملّت کو سنبھالنے والے دماغ موجود تو ہیں، مگر بڑا المیہ یہ ہے کہ وہ حالات کو دیکھ کر رہنمائی دینے کے لیے آگے بڑھنے میں تذبذب کا شکار ہیں۔
پاکستان کی تعمیروترقی کے لیے فی الحقیقت سب سے بڑا ادارہ سیاسی جماعتوں کا وجود ہے، لیکن افسوس کہ یہی ادارہ سب سے زیادہ بگاڑ اور عاقبت نااندیشی کا شکار رہا ہے۔ پاکستان کے مخصوص علاقائی مسائل کے باعث، پارلیمانی جمہوریت کی صورت میں، ملک کے لیے ایک مفید راستہ تجویز کیا گیا تھا، اور اس پر کم و بیش ہر زمانے میں اتفاق رائے پایا گیا۔ تاہم حکومتوں، انتظامیہ اور مقتدر طبقوں کی جانب سے دانستہ طور پر اچھی تعلیم و تربیت سے پہلوتہی اور شرح خواندگی کی حددرجہ کمی نے ملک کی جمہوری اور پارلیمانی زندگی کو جاگیرداروں، سرمایہ داروں، نوابوں، برادریوں اور لسانی و علاقائی تفریقوں کی دلدل میں اس طرح جکڑ لیا ہے کہ انتخابات میں تقریباً ۷۰فی صد یہی لوگ کامیاب ہوکر مسند ِ اقتدار پر براجمان ہوتے ہیں۔ یوں جمہوریت بے اثر ہوکر رہ گئی ہے۔
’منتخب ہونے کے قابل ناموں‘ (electables) نے جمہور عوام کی رائے کو بے وزن بناکر، پارلیمنٹ کی قوتِ کار کو گھن لگا دیا ہے۔ لوگ پارٹیوں کو تبدیل کر کے یا اپنے شخصی رسوخ کے بل بوتے پر منتخب ہوکر پارلیمنٹ کے ایوان میں پہنچ جاتے ہیں۔ مگر نہ انھیں قانون سازی سے کچھ دلچسپی ہوتی ہے، نہ ملک کی پالیسی سازی میں کوئی کشش نظر آتی ہے اور نہ ان کے اندر کاروبارِ ریاست کا فہم حاصل کرنے کی کوئی اُمنگ ہے۔ اس طرح پارلیمان، کچھ خاندانوں، چند لوگوں اور طاقت ور افسروں کی یرغمال بلکہ غلام نظر آتی ہے۔ایسی پارلیمان کہ جسے جب چاہے کوئی میڈیا ہائوس رام کرلے یا کوئی این جی او زیردام لے آئے۔ سیاسی پارٹیوں کی موروثی قیادتیں، جمہور عوام کے ان نمایندوں کو اپنے تابعِ مہمل کارندوں سے زیادہ حیثیت دینے کو تیار نہیں۔
اجتماعی اور تمدنی زندگی کی شیرازہ بندی کے لیے ایک دستوری معاہدے کے تحت جس بندوبست نے ملک کی تمام قوتوں کو متحد و متفق کیا ہے، اور جس کے تحت قومی ادارے وجود میں آئے ہیں، افسوس کہ اسی دستوری معاہدے کو تسلیم کرنے اور اس کے مطابق حکومت چلانے کے لیے کوئی تیار نہیں ہے۔ یہ سب فساد، اسی انکار کے نتیجے میں قومی وجود کو ڈس رہا ہے۔ اس زہر کے تریاق، یعنی دستور کو کچھ وقعت نہیں دی جاتی۔ البتہ جب کسی طبقے، گروہ یا فرد کو اپنے مفاد کے لیے اسے محض ایک عارضی وسیلے کے طور پر برتنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے تو وہ چند روز دستور کی حُرمت اور احترام کا واویلا ضرور کرتا ہے، اور پھر اسے ایک ناقابلِ برداشت بوجھ سمجھ کر دُور پرے پھینک دیتا ہے۔
انتخابات کے انعقاد کے دوران، رائے عامہ کی بے توقیری سے یہ مرض شروع ہوتا ہے۔ ناجائز پیسے کی ریل پیل سے انتخابی مہمات چلتی ہیں، ووٹوں کی خریدوفروخت ہوتی ہے۔ امیدواری کے لیے دستوری پابندیوں (دفعہ ۶۲، ۶۳) کے پُرزے اُڑائے جاتے ہیں۔ کہیں انتظامیہ سے مل کر اور کہیں براہِ راست دھاندلی اور انتخابی انجینئرنگ کا ہتھیار استعمال کر کے، زہریلے دودھ سے خالص زہریلا مکھن تیار کیا جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ جب بنیاد یہ ہوگی تو خیروبرکت، دیانت و امانت، عدل و توازن کے پھول وطن عزیز کے آنگن میں کب اور کہاں کھِل سکیں گے؟ یہی وجہ ہے کہ ہمارے چاروں طرف پھولوں کے بجائے کانٹے اُگتے اور جسد ِ قومی کو لہولہان کرتے ہیں۔
پھر معلوم نہیں کیوں اور کس اختیار کے تحت مسلح افواج کے اعلیٰ افسران نے یہ سمجھ لیا ہے کہ ملکی سیاست اور کاروبارِ ریاست کی نشست و برخواست کو ’درست کرنا‘ یا انھی کی مرضی کے تحت منظم کرانا، مسلح افواج کی ذمہ داری ہے۔ حالانکہ دستور اسلامی جمہوریہ پاکستان مسلح افواج کے لیے ایسی کسی ذمہ داری کی نہ گنجایش دیتا ہے اور نہ اس کا کوئی روزن ہی کھلا رکھتا ہے، تو پھر ایسا کیوں کیا جاتا ہے؟ یقینا بعض سیاسی قوتیں، اپنی باری پانے کی غرض سے اس غیرآئینی کھیل کے لیے راستہ بناتی اور اپنے مفاد کے لیے اس قومی ادارے کو استعمال کرنے اور اس کا آلۂ کار بننے کا غیرقانونی فعل انجام دیتی ہیں۔ جسے ملازمینِ ریاست خوشی سے انجام دینے کے لیے آگے بڑھتے ہیں۔
سرحدوں پہ اور پھر داخلی سطح پر ملکی دفاع سنگین خطرات سے دوچار ہے۔ اس میں سرحدوں کے ان مایہ ناز فرزندوں کے حلف کا تقاضا ہے کہ وہ پوری توجہ دفاعی اُمور پر مرکوز رکھیں، لیکن صدافسوس کہ بعض اعلیٰ عسکری افسران کے ہاں سیاسی مداخلت کےذوق کی تسکین کے لیے سرگرمی دکھائی جاتی ہے۔ اسی چیز کا نتیجہ ہے کہ ایک وقت میں ایک سیاسی قوت برسرِعام دفاعی اداروں کو تنقید کا نشانہ بناتی ہے اور پھر اپنی باری آنے پر دوسری سیاسی قوت، مسلح افواج کو بحیثیت ادارہ تنقیدو دشنام کا ہدف بناتی ہے، جس کا مجموعی نتیجہ دفاعی حصار میں رخنہ اندازی کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ اب پیمانہ سنگین خطرات کی حدود کو چھو رہا ہے۔
اعلیٰ عدلیہ ہو یا نچلی سطح کی عدالتی تنظیم___ اس کی ذمہ داری ہے کہ شہریوں کو عدل و انصاف مہیا کرے۔ دستور کی پامالی اگر طاقت ور طبقے کریں تو ان کے ہاتھ روکے۔معاشرے کو اعتماد ہو کہ اُن کی داد رسی کے لیے عدلیہ کا ادارہ موجود ہے۔ لیکن یہ ہمارے عدالتی نظامِ کار کی بے عملی ہے کہ برسوں تک مقدمات عدالتوں کی فائلوں، اہل کاروں کی آوازوں، وکیلوں کی بے نیازیوں اور جج حضرات کی طویل طویل پیشیوں کے وقفوں میں گم ہوکر رہ جاتے ہیں۔ اس اذیت ناک منظرنامے کو تبدیل کرنے کی جانب عدالت، وکلا اور قانون سازادارے توجہ دینے پر آمادہ نہیں نظر آتے۔ گذشتہ ہفتوں کے دوران پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں براہِ راست تصادم کی صورتِ حال پیدا ہوئی تو عدلیہ نے ایک جانب وفاداریاں تبدیل کرنے والوں کے بارے میں فیصلہ دینے سے بے نیازی کا رویہ اختیار کیا، مگر دوسری جانب مداخلت کرکے ایک راستہ نکالا، جسے بعض حلقے پارلیمانی روایت سے ٹکراتا ہوا فیصلہ قرار دیتے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ خود ارکانِ پارلیمان نے کس طرح اور کب، پارلیمانی روایات کی پاس داری کی ہے؟ یہ خود سیاست دان ہی ہیں، جو بعض اوقات دولت کے لالچ میں یا مقتدر قوتوں کے اشارے پر اپنی وفاداریوں کا سودا کرتے ہیں۔
برسوں سے ہماری برسرِاقتدار پارٹیوں نے پارلیمنٹ کو پتلی تماشے کی طرح چلایا ہے۔ نہ فیصلے پارلیمنٹ میں ہوتے ہیں اور نہ اس کی کارروائی سنجیدگی سے چلائی جاتی ہے۔ کوئی اہم فیصلہ اسمبلی اور سینیٹ کے فلور پر نہ زیربحث لایا جاتا ہے اور نہ ارکانِ پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیا جاتا ہے۔ کروڑوں روپے اجلاسوں کے انعقاد پر صرف ہوتے ہیں، مگر یہ اجلاس زیادہ تر سماجی میل جول، پکنک یا سرپھٹول کا سرکس بننے سے آگے نہیں بڑھتے۔ فیصلے پارٹی کے چند مرکزی لوگ یا اپنے اپنے مراکز میں طاقت ور طبقے کرتے ہیں، اور پارلیمنٹ محض ان فیصلوں کی توثیق کا ربڑسٹمپ ثابت ہوتی ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ اسے جمہوریت کہا جائے یا محض ’جمہوری تماشا؟‘۔ ایسے جعلی نظام پر جمہوریت کی حُرمت کا غلاف چڑھانا اپنی جگہ ایک بدمذاقی ہے۔
آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ قوم ایک ہیجانی کیفیت میں تصادم کی سمت بڑھ رہی ہے۔ شعلہ بار تقریریں اور آتشیں بیانات اس آگ کو مزید بھڑکا رہے ہیں۔ جذباتی طرزِ تکلم اور دشنام طرازی نے اداروں کے ڈسپلن ہی نہیں ،خود گھروں کے سکون کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ سیاسی اختلاف، اختلاف رائے سے بڑھ کر نفرت کے سانچے میں ڈھل رہا ہے۔ مخالف کو زیر کرنے کے لیے بہتان اور الزام، تہمت جیسے تیروتفنگ سے کام لیا جارہا ہے۔ سوشل میڈیا کا ہتھیار بہت بُری طرح آزمایا جارہا ہے۔ دُور دُور تک کوئی مردِ دانش نہیں کہ جو اس صورتِ حال سے نکلنے کا راستہ دکھائے۔ دشمن اس بھڑکتی آگ پر خوش ہیں اور نادان ہم وطن اس آگ کو پھیلانے میں سرگرم۔
اس فضا میں مسئلے کا واحد اور فوری حل یہ ہے کہ اگلے تین چار ماہ میں منصفانہ انتخابات منعقد کرائے جائیں، اور جو لوگ منتخب ہوں، انھیں باہم مل کر حکومت چلانے کی ذمہ داری سونپی جائے۔ اس حوالے سے ایک اصول پرسختی سے عمل کیا جائے کہ انتخابات سے پہلے یا انتخابات کے دوران کسی صورت فوج کی جانب سے مداخلت کا شائبہ تک نہیں ہونا چاہیے۔انتخابات ہو جائیں تو حکومتیں بنوانے کے لیے بھی فوج کو کسی سیاسی گروہ کی سرپرستی سے سختی سے باز آناچاہیے۔
ایک طرف ملک شدید معاشی بحران کا شکار ہے۔ مارکیٹ پر نہ ریاست کا کنٹرول ہے اور نہ صنعت و تجارت کے کارپردازوں کو ریاست کی قوت اور احتساب کا کوئی ڈر۔ اس صورتِ حال میں عام شہری بُری طرح پس کر رہ گیا ہے۔ بیماری، بے روزگاری، ملاوٹ اور مہنگائی قہر بن کر ہرگھر پر برس رہی ہے۔ اس صورتِ حال کو نئی منتخب حکومت آنے تک ٹالے رکھنا سفاکیت ہوگی۔ معاملات کو نظم و ضبط میں لانے کے لیے سول اور مالیاتی اداروں پر لازم ہے کہ وہ اپنی ذمہ داری ادا کریں۔
دوسری جانب بڑی خاموشی کے ساتھ کشمیرکے مسئلے پر ایک سرگرمی جاری ہے۔ ’ماضی کو بھلا کر‘ جیسے ناسمجھی کے ’ڈاکٹرائن‘ کی پیشوائی میں کشمیر پر پاکستان کے اصولی موقف سے پیچھے ہٹنے کے آثار دکھائی دے رہے ہیں۔ بھارت سے تجارت کو بحال کرنے اور کشمیر کی وحدت کو متاثر کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ ہم انتباہ کرتے ہیں کہ ایسی کسی کج فہمی کو قبول نہیں کیا جائے گا۔ بھارت نے جارحیت اور بڑے تسلسل کے ساتھ مسئلہ کشمیر کو پامال کرنے کی کوششیں تیز کر رکھی ہیں۔ اس کے بالمقابل ہمارے مقتدر حلقوں کی جانب سے درست تسلسل سے جواب دینے کے بجائے، رفتہ رفتہ اسی راستے پر خود چل پڑنے کا یہ رویہ قابلِ مذمت ہے۔
ہم اُمید رکھتے ہیں کہ مقتدر حلقے اور سیاسی قائدین عبرت پکڑیں گے۔ اپنی ذات، گروہ یا قول کو ضد اور اَنا کو پرستش کا محور بنانے سے اجتناب کریں گے اور قوم سے زیادتی کاارتکاب نہیں کریں گے۔ انھیں تاریخ سے عبرت پکڑنی چاہیے کہ آج سے پہلے انھی کی طرح اقتدار و اختیار سے چمٹے محض چند لوگوں کی حماقت نے ملک و ملّت کو شدید نقصان پہنچایا اور ایسے کرداروں کے نام تاریخ میں ذلّت کی علامتوں کے سوا کوئی مقام نہ پاسکے: فَاعْتَبِرُوْا یٰٓاُولِی الْاَبْصَارِ !