انسانی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو دو کردار واضح طور پر دکھائی دیتے ہیں :
ممکن ہے کہ مؤخرالذکر افراد، تعداد میں کم، بظاہر غیرمؤثر اور بے اختیار ہوں، بلکہ ان کو ایذا رسانی کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہو، لیکن بالآخر یہی وہ لوگ ہوتے ہیں، جو مستقبل کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتے، اور تہذیبی تبدیلی کا ذریعہ بنتے ہیں۔ ایسی تبدیلی کہ جس سے انسانی خیالات، معاشرے، ثقافت اور تاریخ کی صحت مند صورت گری ہوتی ہے۔
برادرم اسماعیل راجی الفاروقی، اس دوسرے طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔ وہ ۱۹۶۰ء کے عشرے میں اسلامی فکرودانش کے آسمان پر جلوہ افروز ہوئے۔ نوجوانی ہی میں انھوں نے اسلامی علوم میں اعلیٰ فراست رکھنے والے ایک دانش ور اور بلندپایہ عالم کی حیثیت سے اپنی خداداد صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ وہ ایسے بلندمرتبت فاضل تھے، جو ایک طرف اسلامی فکر، تہذیب اور ثقافت کے قدیم اور جدید مستند مآخذ سے واقف تھے۔ اس کے پہلو بہ پہلو انھوں نے خداداد صلاحیت کے بل پر مغربی فلسفے، معاشرتی علوم کی ترتیب، تقابل مذاہب اور تاریخ کے میدان میں گہری تجزیاتی بصیرت بھی حاصل کی تھی۔ یہ چیز فی الحقیقت ایک نادر خوبی ہے۔
اسماعیل فاروقی زبان و بیان پر مضبوط گرفت رکھنے، جذبات کے غلبے سے آزاد اور متحمل و منصف مزاج مقرر تھے۔ وہ ایسے مؤثر نثرنگار تھے، جنھوں نے اپنے نتائجِ فکر اور خیالات سے بڑی وضاحت اور مضبوط استدلال کے ساتھ عہدِحاضر کی فکرودانش کو مخاطب کیا۔ ان کی تقریروں اور تحریروں نے علمی پختگی، سائنسی اپروچ، معقولیت پسندی، ادبی چاشنی اور ہوش مندی سے آراستہ جوش و جذبے کے بل پر نوجوانوں اور حق کی متلاشی دو نسلوں کو متاثر کیا۔ انھوں نے ایک علمی شخصیت، ایک شفیق استاد، ایک راست فکر مفکر اور ایک مستقبل بین مبلغ کی حیثیت سے اپنے اعلیٰ فکروفن کا لوہا منوایا۔ الفاروقی کی جامع علمی خدمات کو دیکھتے ہوئے میں انھیں امریکا اور یورپ میں اسلامی احیا کا معمار سمجھتا ہوں۔ اس امتیازی حیثیت اور رہنمائی کے منصب تک پہنچنے کے لیے انھیں ایک بڑا طویل سفر کرنا پڑا۔
اسماعیل راجی الفاروقی، یکم جنوری ۱۹۲۱ء کو فلسطین کے تاریخی اور ثقافتی شہر جافا کے ایک علم دوست گھرانے میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم اپنے خاندان کے گہوارے میں حاصل کی۔ ان کے والد گرامی فلسطین میں ایک قابلِ احترام شخصیت اور عالم فاضل قاضی تھے۔ الفاروقی کی شخصیت پر والدصاحب کی عظمت نے پہلا اور گہرا تاثر قائم کیا۔ ان کی شخصیت کی تعمیر میں اسلامی تربیت کے روایتی دانش کدوں، یعنی مسجد اور مدرسے نے نوجوانی میں اسلامی اقدار سے اُن کی وابستگی پختہ کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ ان کی دُنیوی تعلیم کا آغاز ایک فرانسیسی کیتھولک تعلیمی ادارے ’کالج ڈیسس الفریر [تاسیس: ۱۸۸۲ء] سے ہوا، جب کہ اعلیٰ تعلیم امریکن یونی ورسٹی بیروت [تاسیس: ۱۸۶۶ء]، اور پھر امریکا کی انڈیانا یونی ورسٹی [تاسیس: ۱۸۲۰ء] اور ہارورڈ یونی ورسٹی [تاسیس: ۱۶۳۶ء] سے تکمیل کو پہنچی۔
الفاروقی نے علومِ اسلامیہ کی تعلیم الازہر یونی ورسٹی قاہرہ [تاسیس:۹۷۲ء]سے بھی حاصل کی۔ بعدازاں میکگل یونی ورسٹی، مانٹریال [تاسیس: ۱۸۲۱ء] کی علومِ الٰہیات فیکلٹی میں عیسائیت اور یہودیت پر ایک ریسرچ فیلو کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ اس طرح انھوں نے دونوں طرح کے نظام ہائے تعلیم (مغربی اور اسلامی) سے یکساں طور پر استفادہ کیا۔ فلسفہ، مذاہب اور تاریخ کا تقابلی موازنہ اور اسلامی علوم میں تحقیق، ان کی زندگی کا مقصد اور ان کی مہارت کے شعبے بن گئے۔ امریکا میں انھوں نے ۶۴-۱۹۶۳ء تک شکاگو یونی ورسٹی میں، ۱۹۶۴-۱۹۶۸ء کے دوران سایراکیوز یونی ورسٹی اور آخر میں [۱۹۶۸-۱۹۸۶ء] ٹیمپل یونی ورسٹی فلاڈلفیا میں بطور استاد خدمات انجام دیں۔
اسماعیل الفاروقی نے فلسفہ اور تقابل مذاہب اور تاریخ کے شعبوں میں اعلیٰ تعلیم و تربیت حاصل کرکے انسانی افکار سے آگہی اور ثقافت کے مطالعے کو یہ سمت عطا کرنے کی کوشش کی کہ، اسلام کے اعلیٰ مقاصد، بہترین اقدار اور اصولوں کی روشنی میں ثقافتی تشکیل نو کی جانی چاہیے، تاکہ دنیا میں امن اور عدل کی فراہمی کو یقینی بنایا جاسکے۔ اس منزل کے حصول کے لیے انھوں نے نظامِ عالم (World Order) کو اسلامی تصور میں ڈھالنے کے لیے جدوجہد کی۔ عظیم مہم جوئی پر مبنی یہ کام انھوں نے ایک اسلامی اسکالر کی حیثیت سے کرنے کا بیڑا اُٹھایا اور پورے عزم سے وہ جانب ِ منزل رواں رہے۔
برادرم الفاروقی کے ساتھ میرا شعوری ربط و تعلق ۱۹۶۱ء میں اس وقت قائم ہوا، جب انھوں نے ایک نوجوان اسکالر اور ایک مہمان فیلو کے طور پر ڈاکٹر فضل الرحمٰن [م: ۲۶جولائی ۱۹۸۸ء] کے ساتھ ادارہ تحقیقاتِ اسلامی، کراچی سے وابستگی اختیار کی۔
اسلامک آئیڈیالوجی کونسل کے قیام [۱۹۶۲ء] سے قبل پروفیسر ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی [م: ۲۳جنوری ۱۹۸۱ء] کی سربراہی میں اسلامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ، کراچی یہ خدمات انجام دے رہا تھا۔ قریشی صاحب کراچی یونی ورسٹی کے وائس چانسلر بھی تھے اور میں اس وقت وہاں معاشیات کی تدریس سے وابستہ تھا۔ ڈاکٹر قریشی ہی کی دعوت پر ہماری پہلی ملاقات ہوئی۔ پھر یہ رابطہ زندگی بھر شعوری تعاون، ذاتی دوستی بلکہ صحیح معنوں میں حقیقی برادرانہ رشتے میں ڈھل گیا۔ الحمدللہ، ۳۵ برس سے زیادہ عرصے تک پھیلا رہا۔
کراچی میں الفاروقی کا قیام ۱۹۶۱ء سے۱۹۶۳ء تک رہا۔ تب ہم تقریباً ہرہفتے ملاقات کرتے، جو اکثر ڈاکٹر فضل الرحمٰن صاحب کے ہاں ہوتی۔ ہم دونوں نے ڈاکٹر صاحب سے اپنے نقطۂ نظر میں اختلاف کے باوجود، مسلسل شعوری رابطے، باہمی اعتماد، احترام اور ہم نشینی میں یہ زمانہ بسر کیا۔ ڈاکٹر فضل الرحمٰن صاحب تو تیزی سے اس سمت میں رواں دواں رہے، جس کو مستشرقین ’اسلامی جدیدیت‘ کہتے ہیں۔ دوسری جانب اسماعیل الفاروقی معقولیت اور جدیدیت کے طاقت ور اثر میں سانس لینے کے باوجود، اسلامی احیا کے شان دار دور کی بازیافت کے لیے کوشاں نظر آتے تھے۔ یہ صاف دکھائی دیتا تھا کہ وہ خود کو دو دنیائوں کے درمیان بٹا ہوا پاتے ہیں۔
اس بات کو قدرے وضاحت کے ساتھ یوں پیش کیا جاسکتا ہے، کہ اسلام ہمارا مشترکہ بندھن ہے، مگر برسرِ زمین دیکھیں تو اُمت کا حال اور مستقبل: پریشانی، بدحالی اور انتشار کا عکس پیش کرتا ہے۔ اس لیے فطری سی بات تھی کہ عصرِحاضر میںمسلمانوں کی پریشان کن صورت حال کے مختلف مظاہر، علمی، سماجی، دفاعی، ثقافتی اور سیاسی پہلو ہمارے بحث مباحثوںکے مرکزی موضوعات ہوا کرتے تھے۔ اسماعیل الفاروقی اپنی تعمیر کے اس شعوری مرحلے میں اسلامی مآخذ سے پختہ وابستگی کے باوجود وہ ’عربیت‘ (Arabism) اور ’مسلم جدیدیت‘ کی لہر کے زیراثر بھی تھے۔ ایک طرف اسلام کے ساتھ ان کی وفاداری ظاہر تھی، اور دوسری طرف اُمت مسلمہ کی حالت زار کا منظرنامہ انھیں تڑپاتا تھا۔ تاہم، وہ محض نوحہ خوانی کرنے اور پھر مایوسی کی چادر اُوڑھ کر سوجانے والوں میں سے نہ تھے، بلکہ مسلم ملت کے شعوری دیوالیہ پن اور روحانی تنزل کے اس کہرام کی تشخیص کے لیے فکرمند تھے۔ نوآبادیاتی طاقتوں کے غلبے، مغربی سوچ اور خیالات کے مقابلے میں قابلِ عمل متبادل پیش کرنے میں دل چسپی رکھتے تھے۔ وہ مسلم دانش وروں اور رہنمائوں کی ناکامی پر کڑھتے اور مضطرب رہتے تھے۔
یہی وجہ ہے کہ ہماری یہ سماجی اور مکالماتی مجلسیں انھی موضوعات کے دائرے میں گھومتیں۔ ہم ان اُمور اور ان سے پیدا ہونے والی تشویش پر مدلل منطقی اسلوب میں اور بعض اوقات جذباتی انداز میں بھی بحث کرتے۔ الفاروقی، مسلم عرب پس منظر اور نوجوانی کے جوش و ولولے میں، اور مَیں تجدید ِاسلام کے ایک صورت گر اور آج کی نام نہاد اصطلاح میں ’بنیاد پرست‘ کے رُوپ میں اس مکالمے کا حصہ دار ہوتا تھا۔ الفاروقی کے ’عروبہ‘ کا تصور مغربی سیکولر قومیت سے مغلوب نہیں تھا۔ یہودیت اور عیسائیت کے مطالعے نے ان کو اسلامی سوچ کے ساتھ مربوط کردیا تھا۔ تاہم، محسوس ہوتا کہ بعض اوقات ’عرب ازم‘ کا حوالہ ان کے جذبات کو گرفت میں لے ہی لیتا تھا۔ ان پُرجوش بحثوں میں مجھے، جو ڈاکٹر فضل الرحمٰن صاحب اور الفاروقی بھائی سے عمر میںچھوٹا تھا، نہ صرف برداشت کیا جاتا بلکہ بعض مواقع پر بحث میں میرے رویّے کی حوصلہ افزائی کی جاتی تھی۔ فکری اختلاف نے ہمارے شعوری رابطوں کو کبھی ختم نہ ہونے دیا۔ یہاں تک کہ بحث مباحثے کا ٹکرائو بھی ہمارے دوستانہ اور نیازمندانہ تعلقات کو شاہراہ سے نہ اُتار سکا۔ ان فکری پنجہ آزمایوں نے درحقیقت ہماری دوستی کے بندھن کو مزید مضبوط بنایا، اور مختلف زاویۂ نظر رکھنے کے باوجود ہمیشہ مکالمہ جاری رکھنے کو خوشی خوشی قبول کیا کہ ہمارے درمیان زیربحث موضوعات پر بہت مشترک اور وسیع بنیادیں تھیں۔
کچھ عرصہ گزرا تو برادرم اسماعیل الفاروقی واپس کینیڈا چلے گئے۔ ڈاکٹرفضل الرحمٰن صاحب اسلام آباد منتقل ہوگئے اور جدیدیت کی طرف آگے ہی آگے بڑھتے چلے گئے۔ تقریباً ۱۰سال تک میرا اور الفاروقی کا آپس میں براہِ راست رابطہ نہ رہا۔ حتیٰ کہ ۱۹۷۳ء میں تریپولی (لیبیا) میں مسلم نوجوانوں کے بارے میں منعقدہ ایک بین الاقوامی کانفرنس کے موقعے پر اچانک ہماری ملاقات ہوگئی۔
واقعہ یہ ہے کہ ہم ایک دوسرے کو دیکھ کر محبت اور یگانگت کے جذبات میں بے قابو ہوگئے۔ میں دوسرے مندوبین کے ساتھ تریپولی کے اس ہوٹل کی راہداری اور استقبالیے کے درمیان کھڑا تھا، جہاں ہم نے ٹھیرنا تھا۔ اچانک مَیں نے دیکھا کہ برادرم اسماعیل الفاروقی میری طرف چلے آرہے ہیں اور مجھے دیکھ کر وہ خوشی سے بلندآواز میں پکار اُٹھے: ’برادر خورشید‘ اور پھر وہ بغل گیر ہونے کے لیے دوڑ پڑے۔ یہ ایک ایسا جذباتی لمحہ تھا کہ ہم دونوں کی آنکھیں آنسوئوں سے لبریز ہوگئیں۔ گرم جوشی اور خوشی کے اس بے ساختہ اور والہانہ اظہار نے راہداری میں موجود سبھی مندوبین کو بہت متاثر کیا۔ شیخ احمد صلاح جمجوم [م:۲۰۱۰ء] اس جذباتی مِلن سے اس قدر متاثر ہوئے کہ میں بعدازاں جب بھی ان سے ملا، انھوں نے ہمیشہ ’بھائی الفاروقی‘ کے الفاظ اور ’برادر خورشید‘ کو ان کے جذباتی لہجے کی ہوبہو نقل کرتے ہوئے دہرایا۔ وہ دن اور آج کا دن، یہ الفاظ میرے دل میں پیوست ہیں۔ یہ چیز ہمیشہ ایک خزانے کے طور پر میری یادداشتوں میں موجود رہے گی۔
یہ بھی یاد رہے کہ ہماری اس جذباتی ملاقات کے چند منٹ بعد قریبی مسجدسے مغرب کی اذان بلند ہوئی۔ خاص طور پر ہم میں سے ان لوگوں کی، جو یورپ اور امریکا سے آئے تھے، خوشی کی کوئی انتہا نہ تھی، جنھوں نے دل کو پگھلا دینے اور نماز کی طرف دعوت دینے والی اس دل آویز آواز کو برسوں کے بعد سنا تھا۔ میں نے پلٹ کر دیکھا کہ الفاروقی زاروقطار رو رہے ہیں۔ میری طرف دیکھتے ہوئے رندھی ہوئی آواز میں پکار اُٹھے: ’’اللہ کی قسم،اگر میں امریکا کا طویل سفر کرکے صرف یہی آواز سننے کے لیے آتا تو محسوس کرتا کہ مجھے اس مشقت کا بہت زیادہ پھل مل گیا ہے‘‘۔اس جملے کی ادائی، الفاظ کی ترتیب اور روحانی تڑپ نے اصل الفاروقی کے باطن کو ظاہر کردیا تھا۔ یہ تھی اسلام کے ساتھ ان کی گہری وابستگی اور اسلامی شعائر کے لیے ان کا جوش، ولولہ اور کشش۔ آنسوئوں کی برکھا میں ان کی آنکھیں روشنی اور خوشی سے دمک رہی تھیں۔ ان کا چہرہ روحانی مسرت سے جگمگا رہا تھا۔ اذان کا ہرلفظ ہمارے دلوں میں خوشبو اور زندگی کی طرح رَچ گیا تھا۔ کیسی یادگار تھی ہماری باہم ملاقات، اور اسی لمحے اذان کی اس پکار کا بلند ہونا، اللہ اکبر!
وہ چند دن جو تریپولی میں گزارے۔ انھوں نے ہمارے تعلق کو ایک نئی جہت عطا کی۔ اب ہم دونوں اسلامی احیا کے ایک ہی دھارے پر رواں دواں تھے۔ الفاروقی اُس مشکل دوراہے سے آگےنکل آئے تھے، اور اسلام کی وکالت میں ہم سے بھی آگے تھے۔ بعد کے برسوں میں ہمارا یہ قریبی تعلق ایک مشترک فکروعمل کی صراطِ مستقیم پر استوار تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں غلبۂ اسلام کی تاریخی جدوجہد میں حقیقی شراکت دار اور ایک دوسرے کا مددگار بنادیا تھا۔ الفاروقی کا جو شعوری، روحانی اور نظریاتی سفر ’مسلم عرب‘ کی حیثیت سے شروع ہوا تھا، اس نے انھیں تاریخی تبدیلی کے ذریعے ’اسلامی عرب‘ میں بدل دیا تھا۔ امریکا میں ان کے قیام کے زمانے اور مغرب میں پھیلے ہوئے اسلاموفوبیائی تلخ مباحثوں نے اس تبدیلی میں اہم کردار ادا کیا تھا، الحمد للّٰہ علٰی ذٰلک۔ (جاری)
( انگریزی سے ترجمہ: عارف الحق عارف / سلیم منصور خالد)