ياأيها الرجل المُحَوِل رَحله
هلا نَزِلت بآل عبد منافِ
الآخذون العهد من آفاقهم
والراحلون برحلة الإيلافِ
یہ جاہلی دور کے شاعر مطرود بن کعب الخزاعی کے اشعار ہیں۔ اس میں مطرود نے ایک ایسی اصطلاح کا ذکر کیا ہے، جس کے بارے میں ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ وہ قرآنی آیت لِاِيْلٰفِ قُرَيْـــشٍ۱ۙ اٖلٰفِہِمْ رِحْلَۃَ الشِّـتَاۗءِ وَالصَّيْفِ۲ۚ [قریش ۱۰۶: ۱-۲]کا ایک جز ہے، اور قبل اسلام کے ایک بڑے اور تاریخی واقعے کو دلیل کے طور پر پیش کیا ہے۔ آئیے جانتے ہیں کہ اس واقعے کی حقیقت کیا ہے اور اس پر گفتگو کو تازہ کرنے کی افادیت کیا ہے؟
’ایلاف‘ پر گفتگو کے آغاز میں ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ ان تاریخی حالات کا سرسری جائزہ پیش کر دیا جائے، جن حالات میں یہ نظامِ ’ایلاف‘ [اُلفت و محبت پر مبنی نظام]عمل میں آیا تھا۔ جزیرۂ عرب اس وقت سیاسی اعتبار سے تین حصوں میں بٹا ہوا تھا: جنوب میں مملکت حِمیَر تھی، جس پر، دَر آنے والے حبشیوں نے مکمل قبضہ کر لیا تھا۔ شمال کی جانب عراق میں بلادِ فارس کی تابع مملکت ’الحیرہ‘ اور بازنطینیوں کی مملکت غساسنہ تھی۔ جنوب اور شمال کے مابین وہ علاقہ تھا کہ جس میں وہ قبائل آباد تھے جو کسی ایک شاہی نظام یا بیرونی حکومت کے تابع رہنے پر مجبور تھے۔ مثال کے طور پر مکہ میں قریش کا قبیلہ تھا، مدینہ میں اوس اور خزرج وغیرہ کے قبائل تھے یا پھر بدؤوں کے وہ گروہ آباد تھے، جو تنگ حالی کی زندگی بسر کر رہے تھے اور تنگ دستی نے ان میں سے بیش تر کو چوری، ڈکیتی اور قافلوں کی لُوٹ مار کے پیشے میں ملوث کر دیا تھا۔
جنوبی عرب حمیریوں اور حبشی حکومت (ایتھوپیا) کے درمیان جنگی کش مکش کی وجہ سے سلگ رہا تھا کیو ں کہ حبشہ، یمن پر حملہ آور تھا۔ شمالی عرب فارسیوں اور بازنطینیوں کے درمیان جاری جنگ کی آگ میں جھلس رہا تھا، جو دونوں کے درمیان یا تو براہِ راست ہو رہی تھا یا ان کے آلۂ کاروں، یعنی الحیرہ اور غساسنہ کے توسط سے جاری تھی۔ قطع نظر اس سے کہ تجارتی قافلوں پر اس صورتِ حال کے کیا منفی اثرات پڑ رہے تھے، اس صورتِ حال کی وجہ سے تجارت و خرید و فروخت کے سامان بعض علاقوں تک نہیں پہنچ پا رہے تھے، کیو ں کہ کسی ایک جنگجو فریق نے اس کے راستوں پر تسلط حاصل کرلیا تھا۔ یہ صورتِ حال خاص طور سے ان سامانوں کے ساتھ تھی، جو ہندستان اور وسطی ایشیا سے آتے تھے۔ چنانچہ یہ ضروری تھا کہ کوئی ایسا فریق ہو، جو ان تمام فریقوں سے دوستی کے رشتے سے بندھ جائے تاکہ تجارتی نقل و حمل جاری رہنے کی ضمانت فراہم ہو سکے اوراس کش مکش کا مجموعی صورتِ حال پر کوئی منفی اثر نہ پڑے۔ انھی حالات کے پیش نظر ’ پانچویں صدی عیسوی کے نصف میں نظامِ ’ایلاف‘ کا تصور عمل میں آیا۔
ہاشم بن عبد مناف بن قصی کو سرداری اپنے والد سے ورثے میں ملی تھی۔ ان کے دادا قصی وہ پہلے شخص تھے، جنھوں نے مکہ پر قریش کی سرداری قائم کی تھی۔ قصی سے یہ سرداری مناف کو ملی اور مناف سے ہاشم کو ملی تھی۔ ہاشم مکہ کی محدود تجارت سے خوش اور مطمئن نہیں تھے جس کا انحصار ان مقامی بازاروں پر تھا، جو حُرمت کے مہینوں کے دوران لگا کرتےتھے۔ حُرمت کے مہینو ں کے دوران بازار لگنے کی وجہ یہ تھی کہ دشمنوں کے حملوں اور قبضے سے محفوظ رہ سکیں۔ ان بازاروں کی تجارت بازاروں میں شریک ہونے والے قبائل کی ذاتی مصنوعات تک ہی محدود رہتی تھی۔
یہ تو واضح تھا کہ مکہ کوئی صنعتی شہر نہیں تھا، لیکن اس کے اندر یہ صلاحیت تھی کہ ’بیرونی تجارت کے لیے کارآمد شہر‘ بن جائے۔ اس کے بہت سے اسباب تھے، مثلاً: یہ شہر شمال اور جنوب کے تجارتی راستوں کے عین درمیان واقع تھا۔ ایک سبب یہ بھی تھا کہ حج کے ایام میں عربوں کا یہاں اجتماع ہوتا تھا اور اہل عرب قریش کو’اہل اللہ‘ ہونے کے ناتے ’بزرگ‘ مانتے تھے، کیوں کہ وہ کعبہ کے خادم تھے اور عربوں کے مقدس ترین قبیلے سے تعلق رکھتے تھے۔
ایک بار جب مکہ زبردست اقتصادی بحران اور غذا کی شدید کمی سے دوچار ہوا، تو ہاشم بن عبدمناف نے فیصلہ کیا کہ اپنے شہر (مکہ) کے حالات کو تبدیل کرنے کی کوشش کریں گے۔ ہاشم کا معمول شام کے تجارتی اسفار پر جانے کا تھا۔ وہ ’غزہ‘ کے بازار میں بھی جاتے تھے اور کبھی کبھی شمال کے بازاروں، مثلاً ’بصرہ‘ کے بازاروں میں بھی جایا کرتے تھے۔ روایات میں ہے کہ ہاشم، شام کے بازاروں میں داخل ہوتے تو ہر روز ایک جانور ذبح کر کے ہر قافلے کے لیے کھانے کا بندوبست کیا کرتے تھے۔ ان کا یہ عمل عام لوگوں کی نگاہوں کو ان کی طرف متوجہ کرنے والا تھا۔ آخرکار ان کے اس عمل کی خبر قیصر روم تک پہنچی اور اس نے ہاشم کو حاضرکرنے اور ان سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی۔ قیصر سے چند ملاقاتوں کے بعد، جن کے دوران قیصر ان کی شخصیت سے بہت متاثر ہوا تھا، ہاشم نے بازنطینی حاکم کے سامنے تجویز پیش کی کہ وہ انھیں ایک خط لکھ کر دے، جو مکہ سے آنے والے تجارتی قافلوں کے لیے شام کے دروازے کھول دے اور شام کے جو علاقے بازنطینیوں کے ماتحت ہیں، ان سے مکی تاجروں کو آنے جانے کی سہولت بھی فراہم کر دے۔ اسی طرح ان پر جو ٹیکس عائد کیا جاتا ہے اس میں بھی رعایت دے اور بازنطینی لوگ بھی اپنے تجارتی سامان کے ساتھ عرب کے بازاروں میں اس ضمانت پر آنے جانے لگیں کہ ہاشم بن عبدمناف مکہ اور شام کے درمیانی راستوں کو ان بازنطینی تاجروں کے لیے مامون و محفوظ بنا دیں گے۔قیصر سے ہاشم بن عبدمناف کی گفتگو کے الفاظ یہ روایت ہوئے ہیں: ’’بادشاہ سلامت، میری قوم کے لوگ تجارت پیشہ ہیں۔ اگر آپ مناسب سمجھیں تو ایک خط لکھ دیں، جو ان کی تجارت کو مامون بنا دے۔ اس کے بدلے میں وہ آپ کو حجاز کا بہترین چمڑا اور کپڑا پیش کریں اور آپ کے یہاں ا سے بیچا جائے۔ یہ آپ کے لیے بہت آسان ہوگا‘‘۔
ان روایات میں اختلاف سے قطع نظر کہ ہاشم نے براہِ راست قیصر سے ملاقات کی تھی یا اس کے کسی شامی گورنر سے؟ بہر حال، وہ یہ خط لے کر واپس آئے۔ یہ خط انھوں نے ان تمام قبائل کو دکھایا، جو شام اور مکہ کے درمیان تجارتی راستوں پر آباد تھے۔ انھوں نے ہر قبیلے کے سامنے یہ پیش کش رکھی کہ ’’شام کی طرف جانے والا [تجارتی] قافلہ ان کے زائد از ضرورت [سامانوں] کھجوروں اور کھالوں وغیرہ کو کوئی کرایہ لیے بغیر (شام کے بازاروں میں) لے جائے گا۔ اس سامان کو شام میں بیچے گا، پھر اصل سرمایے اور مکمل منافع کے ساتھ انھیں لوٹا دے گا۔ اس کے بدلے میں ان کے زیر اثر علاقوں سے گزرتے ہوئے ہر قبیلے کو [تجارتی] قافلے کی حمایت و خدمت کی ذمہ داری اپنے سر لینی ہوگی۔ اور اگر قبیلے کے پاس تجارت کرنے کے لیے کوئی سامان نہیں ہوگا، تو وہ قبیلہ مال کے بدلے اس قافلےکی حفاظت کرے گا۔‘‘
چنانچہ ہاشم کو اس معاہدے پر قبائلی سرداروں کی منظوری حاصل ہو گئی، جسے عربوں کی زبان میں ’حصل علی حبل منہم‘ کہا جاتا ہے۔ جو اس بات کا اشارہ ہوتا ہے کہ دونوں کے درمیان ایک معاہدہ قائم ہو چکا ہے۔یہیں سے مکہ کے اس دور کا آغاز ہوا جس میں وہ جزیرۂ عرب کے اندر شامی تجارت کا اہم مرکز بن گیا، بلکہ بازنطینی تاجر مکہ کی طرف جوق در جوق آنے لگے اور مکہ کے سردار کو یہاں کے بازاروں میں اپنی تجارت اور حمایت و خدمت کے حصول کے بدلے میں دسواں حصہ ٹیکس کے طور پر ادا کرنے لگے۔
قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ بازنطینی اس معاہدے کو محض تجارتی فائدے کی نظر سے ہی نہیں دیکھتے تھے، بلکہ بازنطینی حکومت نے جزیرۂ عرب کے عین درمیان اپنی تجارت کے راستے کھولنے کو ان جاسوسوں کے لیے بھی استعمال کیا، جنھیں وہ ان علاقوں کی خبریں حکومت تک منتقل کرنے کے لیے بھیجا کرتی تھی۔اس طرح وہ خاص طور سے فارسیوں [ایرانیوں]کی جانب سے پیش آنے والی تشویش کن حرکتوں سے آگاہ رہتی تھی۔
شہر ’غزہ‘ کی جانب اپنے ایک سفر کے د وران ہاشم کا انتقال ہو گیا تو ان کے بقیہ بھائیوں، بنو عبد مناف، یعنی عبد شمس، نوفل اور مُطَّلب نے ہاشم کے اس اہم منصو بے کو پایۂ تکمیل تک پہنچایا۔ اس سلسلے میں عبدشمس نے حبشہ کا رخ کیا اور نجاشی سے ملاقات کرکے اس کے سامنے وہی پیش کش رکھی، جو ہاشم نے قیصرِ روم کے سامنے رکھی تھی۔ نتیجے کے طور پر انھیں بھی اسی طرح کا معاہدہ حاصل کرنے میں کامیابی مل گئی اور مکی تاجروں کے لیے بازارِ حبشہ کے دروازے کھل گئے۔ نوفل نے بلادفارس کا سفر کیا اور کسریٰ اور ملوکِ ’الحیرہ‘ سے اسی طرح کا معاہدہ کرکے عراقی بازاروں کے دروازے کھول دیے۔ رہے مُطّلب، تو وہ یمن کے قبائلی سرداروں کے درمیان سرگرم تھے، اور اُن سرداروں نے مطلوبہ معاہدے پر اپنی رضامندی دے دی۔ مُطَّلب کے اس قدم میں یمن کے تغیرپذیر حالات کی مناسبت سے ان کے فہم و فراست کی جھلک نظر آتی تھی۔کیو ں کہ اس خطے میں مقامی سرداروں کے اثر ورسوخ کے مقابلےمیں مرکزی اقتدار ڈھل مل کی سی حالت میں تھا۔ ہربھائی نے جب پڑوسی ممالک کی حکومتوں سے معاہدہ کر لیا تو اس متعلقہ ملک اور مکہ کے درمیان پڑنے والے تجارتی راستوں پر قابض قبیلوں سے ملاقاتیں کرنے اور اسی طرح کا ’حبال‘ حاصل کرنے میں لگ گئے، جیسا اس سے پہلے ہاشم نے حاصل کیا تھا۔
یہیں سے قریش نے یہ رسوخ حاصل کرلیا تھا کہ تجارت کے لیے ان کے دو قافلے روانہ ہوتے تھے: ایک گرمیوں میں جس کا رخ شام کی طرف ہوتا تھا اور دوسرا سردیوں میں جس کا رخ یمن کی جانب ہوتا تھا۔اور انھی دو تجارتی اسفار کی طرف قرآنی آیت’رِحْلَۃَ الشِّـتَاۗءِ وَالصَّيْفِ‘ میں اشارہ کیا گیاہے۔چنانچہ بیرونی اموال تجارت مکہ میں آکر جمع ہوتے تھے۔ پھر وہیں سے وہ موسم کے لحاظ سے جنوب یا شمال کی جانب لے جائے جاتے تھے۔ اس کے علاوہ قریشیوں کے روایتی بازاروں مثلاً عکاظ میں بھی وہ سامان رکھا جاتا تھا۔ ایک تجارتی قافلہ ۱۵۰۰ سے ۲۵۰۰ اونٹوں پر مشتمل ہوا کرتا تھا، جو جزیرۂ عرب کے اندرونی سامان تجارت، مثلاً اون، کپڑے، اسلحے اور کھالیں یا باہر سے برآمد کیا ہوا سامان، مثلاً عطر، ہندستانی بخور، مصر کے بُنے ہوئے لائنن کے کپڑے اور شام کی شرابیں وغیرہ لے کر عراق، شام، یمن تک جایا کرتے تھے۔
اس بارے میں اختلاف ہے کہ آیا ان تمام بھائیوں نے اپنی مذکورہ کوششیں ایک دوسرے کے ساتھ مل کر ایک ہی وقت میں انجام دی تھیں، یا ایک بھائی کی موت کے بعد دوسرے بھائی کو جب سرداری ملی تو اپنی سرداری کے زمانے میں ہر بھائی نے اپنے حصے کا کام انجام دیا تھا؟ بہرحال، اس نظامِ ایلاف نے جزیرۂ عرب میں تجارت کو ایک نئی بلندی سے ہم کنار کیا تھا۔ اس نظام نے یہ ضمانت فراہم کر دی تھی کہ جنگوں اور جھڑپوں کی وجہ سے سامانِ تجارت کا سلسلہ منقطع نہیں ہوگا، کیو ں کہ مکہ باہم برسرپیکار تمام قوتوں کے درمیان مرکز (mediator) بن گیا تھا، جس کا کام سیاسی تغیرات سے متاثر ہوئے بغیر ایک کا مالِ تجارت، دوسرے تک پہنچانا تھا۔
اسی طرح تجارتی راستوں پر قابض قبائل نے بھی ’’اس ’رشتۂ معاہدہ‘ کی پاس داری کی، جس نے عبدمناف کو اپنے اندر پوشیدہ فائدوں سے مالا مال کیا، بلکہ اس کے پھیلائو اور سرمایے میں بھی اضافہ کیا، جس کی وجہ سے قافلوں میں شراکت سے حاصل ہونے والے منافع میں بھی اضافہ ہوا۔
اس کےعلاوہ جزیرۂ عرب میں یمنی، فارسی اور بازنطینی تجارت کی وجہ سے ان کی کرنسیاں رائج ہوگئیں، جس سے زرِمبادلہ کی سرگرمیاں بھی پروان چڑھیں۔ اس طرح اہل مکہ زرمبادلہ کے کاموں سے واقف ہوئے اور اس سے کافی کچھ سیکھا۔ اس چیز نے جزیرۂ عرب کے باہر سے آنے والے اموال تجارت کو یہاں کے بازاروں کے اندر رائج کرنے میں آسانی پیدا کر دی۔ چنانچہ مصر کے اموال تجارت، شام کے راستے سے آنے لگے، حبشہ کے اموال تجارت بحراحمر کے راستے سے آنے لگے، اور ہندستان سے آنے جانے والا مالِ تجارت یمن کے راستے سے پہنچنے لگا۔ اس طرح بحر احمر کی بندرگاہوں، مثلاً ینبع اور جدہ کی بندرگاہوں پر بھی تجارتی سرگرمیاں عروج پر پہنچ گئیں۔
بیرونی تجارت میں شرکت کے سلسلے میں اہل مکہ کی دلچسپی بھی بڑھ گئی تھی۔ چنانچہ بیرونی تجارت میں ان کی شرکت، مکہ کے اہل ثروت لوگوں تک ہی محدود نہیں رہی تھی، بلکہ وہ چھوٹے گروہ بھی اپنی جمع پونجی کے ساتھ، یا سود پر قرض لے کر اس میں حصہ لے رہے تھے، جو دولت مندی کے اعتبار سے بہت کم تر تھے۔ اس طرح یہ چیز سودخوروں کے منافع میں بھی اضافے کا سبب بن رہی تھی۔ بعض قبائل نظامِ ایلاف میں داخل ہونے کے لیے زور لگانے لگے، خواہ وہ ان راستوں پر آباد نہ رہے ہوں جو تجارت کے عام راستے تھے۔ اس کا محرک منافع حاصل کرنے کی خواہش کے ساتھ ساتھ’ایلافی‘ خطوں سے اپنے قافلوں کے گزرنے کی صورت میں ان کی حمایت و حفاظت سے استفادہ کرنا تھا۔ اس کی وجہ سے تجارت کے نئے راستے اور نئے بازاروں کے دروازے کھلے۔ ان حالات میں قریشیوں کا اثر و رسوخ اس حد تک بڑھا کہ قافلے کے آگے چلنے والے کسی مسافر کے لیے یہ کہہ دینا کافی ہوتا تھا کہ اس کا تعلق ’اہل حرم‘ سے ہے یا راستے میں کسی بھی قسم کی پریشانیوں سے خود کو محفوظ رکھنے کےلیے یہ کافی ہوتا تھا کہ وہ اپنی گردن میں ایک قلادہ ڈال لے جس پر شہر حرم (مکہ) کے کسی درخت کا ٹکڑا لگا ہوا ہو۔
نظامِ ایلاف کے وسیلے نے قبیلوں اور خاندانوں کے درمیان باہمی تعامل اور بعض مشترکہ مفادات کے حصول کے لیے دوسرے جزوی معاہدوں کی راہ آسان کر دی تھی۔ عرب کی قدیم تاریخ کے مطالعے سے اس بات کا ادراک ہوجاتا ہے کہ ’ایلاف‘ کا نظام ایک وسیع اُبھار کا سرچشمہ تھا، کیوں کہ اس کا آغاز فریقین کے درمیان ایک ایسے منصوبے کے طور پر ہوا تھا، جس کا ہدف ایک واحد ملک کے اندر، ایک واحد قبیلے کی خدمت تھا۔ پھر اس منصوبے نے ایک وسیع تجارتی نیٹ ورک اور ایک عظیم انسانی سرگرمی کی شکل اختیار کرلی، جس کا عمل دخل اقتصادیات، سیاسیا ت اور سماجی و ثقافتی زندگی میں بہت گہرا ہو گیا تھا۔ چنانچہ نظامِ ایلاف سے پہلے عرب زندگی کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ اور بعد کے حالات زندگی سے اس کا موازنہ ہمیں اس موقف تک پہنچا دیتا ہے کہ اس نظام کے اثرات بہت عظیم تھے، جنھیں ہم اس زمانے کے لحاظ سے اختراعی اور ایسا نظام کہہ سکتے ہیں جس نے مکہ کی ثقافت و تہذیب کو پورے علاقے تک پھیلا دیا تھا۔(انٹرنیٹ ویب: رصیف:۲۲)