ولید فکری


رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت و اعلانِ نبوت کے مکی مرحلےمیں ایک نمایاں مقام ’ہجرتِ حبشہ‘ کو حاصل ہے۔ ہجرتِ حبشہ اعلانِ دعوت کے پانچویں برس پیش آئی تھی۔اہلِ مکہ کے ہر خاندان نے اپنے اپنے لوگوں میں سے اسلام قبول کرلینے والوں کو اذیت پہنچانے کی ذمہ داری سنبھا لی تھی۔ سردارانِ قریش کی جانب سے نومسلموں کو اذیتیں پہنچانے کی منظم مہم کا سامنا کرنے کے بعد اللہ کے رسولؐ نے انھیں یہ مشورہ دیا کہ حبشہ میں جا کر پناہ گزیں ہو جائیں۔ اس وقت آپؐ نے فرمایا: ’’وہاں (حبشہ میں) ایک ایسا بادشاہ ہے، جس کی موجودگی میں کسی پر ظلم نہیں کیا جاتا‘‘۔

پہلی ہجرتِ حبشہ میں ۱۶ صحابہ و صحابیات (۵ نبوی میں) حبشہ گئے۔ چند ماہ بعد مزید ۸۳مرد اور ۱۸خواتین ، یعنی۱۰۱؍ اہلِ ایمان حبشہ پہنچ گئے۔ ان کے قائد اور امیر حضرت جعفر بن ابی طالبؓ تھے۔ ان میں بعض کبار صحابہ کرامؓ مثلاً زبیر بن العوام، عثمان بن عفان اور ان کی زوجۂ محترمہ سیّدہ رقیہ بنت رسول اللہ، مصعب بن عمیراور عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہم وغیرہ شامل تھے۔ ان کی واپسی آگے پیچھے کرکے ہوئی، جن میں حضرت عثمانؓ بن عفان اور ان کی اہلیہ محترمہ، حضرت زبیرؓ، اور حضرت مصعب بن عمیرؓ سب سے پہلے واپس آئے ۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ ہجرتِ مدینہ کے بعد جو واقعات پیش آئے، ان میں یہ حضرات شریک کی حیثیت سے موجود تھے۔ بعض لوگوں کی واپسی ساتویں صدی ہجری میں ہوئی، جس کا مطلب یہ ہوا کہ ہجرت حبشہ بارہ برس تک رہی۔

حبشہ ہی کیوں؟

یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کسی اور ملک کے ہوتے ہوئے متعین طور پر حبشہ کا انتخاب ہی کیو ں کیا گیا؟’’تاریخِ دعوتِ محمدیؐ کے مطالعے میں اس سوال کو نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ اس کا ایک جواب یہ ہے کہ رسولؐ کو ’’بواسطہ الٰہی اس کی ہدایت دی گئی تھی‘‘۔ لیکن موضوعی مطالعہ یہ سوال اُٹھاتا ہےکہ ہجرت حبشہ کے واقعات کے پس پشت اسباب کو پڑھنے کی کوشش کی جائے۔ جزیرۂ عرب اور اس کے باہر موجود دیگر ممالک کی بہ نسبت حبشہ اگر واحد انتخاب نہیں بھی تھا تو سب بہترین انتخاب ضرور تھا۔ جزیرۂ عرب کے کسی اور خطے کی طرف ہجرت کرنا محفوظ و مامون نہیں تھا، خواہ وہ خطہ آزاد رہا ہو یا ایرانی وبازنطینی سلطنت کے زیرتسلط رہا ہو۔ کیوں کہ ان خطوں کے قبائل ، خاندان اورریاستیں، قریش کے ساتھ معاہدۂ ’ایلاف‘ سے بندھی ہوئی تھیں۔ اس لیے ان کے لیے یہ بات قرینِ مصلحت نہیں تھی کہ وہ سربراہانِ مکہ کے دشمنوں کو پناہ دیں۔

دوسری طرف یہ خطرہ تھا کہ اگر اِن سرداران نے مہاجرین کی واپسی کا مطالبہ کردیا تو ان کے اس مطالبے کو فوراً مان لیا جائے گا۔ اسی طرح یہ بھی آسان نہیں تھا کہ مسلمان بازنطینی یا ایرانی علاقوں کی طرف چلے جاتے۔ کیوں کہ حیرہ اور غساسنہ دونوں ریاستیں دو عظیم سلطنتوں [بازنطین اور فارس] کے لیے’دربان‘ کا کردار ادا کر رہی تھیں۔ بازنطین یا فارس کی طرف رختِ سفر باندھنے والے کسی بھی شخص کے لیے ضروری تھا کہ پہلے حیری یا غسانی بادشاہ، جس طرف اس کا رُخ ہوتا، اس کی آشیرواد حاصل کرے۔ یہ بھی معلوم تھا کہ غساسنہ اور حیرہ، یہ دونوں بھی مذکورہ معاہدۂ ’ایلاف‘ سے بندھے ہوئے تھے۔ علاوہ ازیں، بازنطین کا علاقہ مسیحی گروہوں کے مابین تصادم یا پھر یہودیوں کے خلاف ریاستی ظلم وجبر کی شکل میں مذہبی جنگ کی صورت حال سے دوچار تھا۔ اس اعتبار سے یہ خطہ، ہجرتِ صحابہ و صحابیات کے لیے محفوظ و مامون نہیں تھا۔

حبشہ کی منفرد حیثیت

دوسرے پہلو سے دیکھیں تو حبشہ — یا مملکت اکسوم ایک منفردصورتِ حال کی نمایندگی کر رہا تھا۔یہ ایک مسیحی ملک تھا ،لیکن بازنطین حکمرانی کے تابع نہیں تھا، بلکہ بازنطین کے ظلم سے دوچار قبطی آرتھوڈوکس عیسائیت کا پیرو تھا۔ اس چیز نے وہاں کے سیاسی اقتدار کے اندر ظلم سے فرار کی سمجھ کا کچھ عنصر پیدا کر دیا تھا۔یہ ملک قریش کے ساتھ معاہدوں سے بھی مربوط نہیں تھا، بلکہ قریش اور جزیرۂ عرب کے ساتھ اس کے تعلقات اضمحلال کا شکار تھے، جس کی وجہ ایک تو یہ تھی کہ عرب یمن سے ان حبشیوں کو کھدیڑنے کا حامی تھا جو حبشہ پر قابض تھے، اور دوسرے یہ کہ حبشہ نے مکہ پر چڑھائی کرکے اَبرہہ کی قیادت میں ان پر حملہ کیا تھا ۔ ایک بات یہ بھی تھی کہ حبشہ تک پہنچنے کے لیے ان راستوں سے گزرنے کا خطرہ بھی مول نہیں لینا پڑتا تھا، جو قریش کے حلیفوں کے علاقوں سے گزرتے ہوں۔ وہاں تک پہنچنے کے لیے جو کچھ کرنا تھا وہ صرف یہ کہ بحر احمر کی بعض بندرگاہوں مثلاً جدہ یا ینبع کی بندرگاہوں تک پہنچیں اور پھر سمندر کو کشتیوں کے ذریعے عبور کر جائیں۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مصدقہ معلومات کی بنا پر ہی فرمایا تھا کہ وہاں کا بادشاہ عادل و انصاف پسند ہے۔ آپؐ تجارت، سفر اور تاجروں سے ملاقات اور اس ملک یا کسی دوسرے ملک کےتازہ ترین حالات سے واقف رہتے تھے۔ اسی عمل کے دوران آپؐ تک بادشاہِ حبشہ کے عدل وانصاف کی خبر پہنچی ہو جو آپؐ کے نزدیک اس انتخاب کے لیے نقطۂ ترجیح بن گئی ہو۔ اس اعتبار سے حبشہ خالص عملی نقطۂ نظر سے ہجرت کے لیے مثالی مقام تھا۔

مسلمانوں کی ہجرت کے آڑے آنے میں قریشیوں کی ناکامی کے بعد انھوں نے حبشہ کے بادشاہ سے مسلمانوں کی واپسی کا مطالبہ کیا۔ اس کے لیے انھوں نے عمرو بن العاص اور عبداللہ بن ربیعہ کو بھیجا، جو بادشاہ، اس کے افسران اور فوجی کمانڈروں کے لیے تحائف سے لدے ہوئے وہاں پہنچے تھے۔ آخرکار ابن العاص نے بادشاہ نجاشی کے سامنے پیش ہوکر اس کی حکومت تک حکومتِ مکہ کی بات پہنچائی اور یہ وجہ بیان کی کہ مسلمان (اسلام لے آنے والے لوگ) ’’احمق لوگ ہیں کہ انھوں نے ہمارا دین چھوڑ دیا اور وہ تمھارے دین پر بھی نہیں ہیں‘‘۔ ہجرت حبشہ پر قریشیوں کا پریشان ہونا سمجھ میں آنے والی بات تھی۔ اس لیے کہ مکہ کے لیے اَبرہہ کا حملہ ابھی سامنے کا واقعہ تھا اور سردارانِ مکہ کو اس بات کا ڈر کھا رہا تھا کہ حبشہ کی طرف ہجرت کرنے والے اِن لوگوں کو یہ موقع نہ مل جائے کہ نجاشی کو قوت پہنچائیں اور اسے بلادِ عرب پر حملہ کے لیے اُکسا دیں ، بالکل اسی طرح جس طرح سیف بن ذی یزن نے فارسیوں کو یمن پر حملےکے لیے قائل کر لیا تھا، یا جس طرح نجران کے عیسائیوں کی اپیل پر حبشیوں نے یمن پر حملہ کر دیا تھا ۔

’باہر سے قوت حاصل کرنے‘ کا خیال بہرحال پریشان کن تو تھا ہی، کیوں کہ یہ مذہبی غرض اور خالص اقتصادی منفعت کی غرض سے قابلِ عمل تھا۔ مذہبی غرض سے اس طرح قابلِ عمل تھا کہ نجاشی اسلام قبول کرلے اور مسلمانوں کو فوجی و عسکری حمایت و مدد پیش کردے۔ مسلمانوں کے وفد، جس کی نمایندگی حضرت جعفر بن ابی طالبؓ فرما رہے تھے، کو طلب کرنے پر وفد نے اپنا مسئلہ اس کے سامنے پیش کیا تو بادشاہ نے انھیں اپنے ملک میں قیام کی اجازت دے دی۔ پھر جب عمرو بن العاص نے اس دلیل کے ساتھ اسے مسلمانوں کے خلاف اکسانے کی کوشش کی کہ حضرت مسیحؑ کی حقیقت کے بارے میں وہ اس کے مذہب کے مخالف ہیں تو بادشاہ نے اور بھی شدت سے اس حد تک [ان مسلمانوں کی]حمایت کر دی کہ ان کوگزند پہنچانے والے کسی بھی شخص پر جرمانہ عائد کر دیا۔ شاہ نجاشی نے تحائف لوٹا کر قریش کے وفد کی سرزنش بھی کی تھی۔

نجاشی کا یہ موقف اس بات کی توثیق کرتا ہے کہ حبشہ بہترین انتخاب تھا، محض اس لیے نہیں کہ اس کا بادشاہ وسیع القلب وکشادہ ظرف تھا،جو فیصلہ سنانے سے پہلے فریق مخالف کا موقف بھی سنتا تھا، بلکہ اس لیے بھی کہ مسیحی دنیا اُس وقت حضرت مسیح ؑکی حقیقت وماہیت کے تعلق سے بحث و مناقشے کی بازگشت کے ماحول میں جی رہی تھی۔ ایک طرف وہ لوگ تھے جو حضرت مسیح ؑ کی بشری اور لاہوتی دونوں حقیقت کے قائل تھے اور ایسے لوگ بھی تھے جو یہ کہتے تھے کہ وہ شخصیت تو ایک ہی ہیں لیکن اس کے متعدد پہلو ہیں۔ ایک طرف، جب کہ بازنطینی سلطنت اپنے سرکاری مذہب رومن آرتھوڈکس چرچ —کے مخالفین کے لیے ظالم بنی ہوئی تھی، بقیہ مسیحی دنیا اس مخالفت کے ساتھ بازنطینوں کی بہ نسبت نرمی سے نبٹتی تھی ۔ دوسری طرف بازنطینی قیصروں کی طرح حکومت ِ حبشہ نے خود کواس مذہبی جنگ میں نہیں دھکیلا تھا ۔ بازنطینی یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ ’’حکومت ہی چرچ پر حکمران ہے اور وہی اس کی حفاظت کرتی ہے‘‘۔ اس طرح ظاہر ہے نجاشی کسی ایسے دین کے ساتھ معاملہ کرنے میں کہیں زیادہ وسیع الظرف ہوسکتا تھا، جو دین حضرت مسیحؑ کی خالص بشری حقیقت کو بیان کرتا ہو۔

روحانی بـے چینی

محسوس یہ ہوتا ہے کہ ایک ذاتی نوعیت کا عنصر خود نجاشی کی اپنی ذات کے اندر بھی تھا، جسے  ہم ’روحانی بے چینی‘ کہہ سکتے ہیں۔ قرآن کی اُن آیات کو سن کر جن میں حضرت مسیحؑ کا ذکر ہوا ہے، اس کا یہ کہنا کہ ’’یہ کلام اور وہ کلام جسے عیسیؑ لے کر آئے تھے دونوں ایک ہی چراغ کی لو ہیں‘‘، اُس کی شخصیت پر مذکورہ مذہبی جدل و بحث کے اثرات کی عکاسی کرتا ہے اور اس حقیقت کی عکاسی کرتا ہے کہ اس کے اندر ایسے کسی بھی موقف کو قبول کرلینے کی صلاحیت تھی، جو اس کی بے چینی کو دُور کرسکے۔ نجاشی کی شخصیت کا یہ جائزہ ومطالعہ اور حبشہ کے سلسلےمیں نبیِ اکرمؐ کا یہ فرمان کہ وہ ’ارضِ صدق‘ ہے، دونوں اس جانب اشارہ کرتے ہیں کہ ہجرت کی تجویز سے پہلے غور وفکر، موازنے اور معلومات اکٹھا کرنے کا عمل انجام پایا تھا۔ یہ محض ’بے آس تجویز‘ یا ’بے سوچی سمجھی مہم‘ نہیں تھی۔ اس کے علاوہ یہ کام، یعنی حالات سے آگاہی اور معلومات کا حصول، مکہ جیسے شہر میں رہتے ہوئے آسان کام تھا، جہاں مختلف شہریتوں کے لوگ رہتے تھے اور مختلف خطوں کی خبریں یہاں پہنچتی تھیں۔

یہاں ایک اور سوال پیدا ہوتا ہے اور وہ یہ کہ کیا ہجرت کے مقام کے طور پر حبشہ کے انتخاب کی وجہ یہ تھی کہ اسلام اول درجے میں اہل کتاب، یعنی یہود و نصاریٰ کو اپنا مخاطب بناتا ہے؟ مذہبی قصص و واقعات کے مطالعے سے یہ وضاحت ہوتی ہے کہ کوئی بھی رسول ہو یا کوئی بھی نبی، وہ اپنی قوم کو مخاطب کرتا ہے، خواہ اس قوم کا مذہب کچھ بھی ہو۔ اس اعتبار سے آپؐ کی اولین مخاطب آپؐ کی اپنی قوم تھی:’’اور اپنے قریبی اہلِ خانہ کو ڈراؤ‘‘۔(الشعراء۲۶: ۲۱۴)

اور پھر جب علانیہ دعوت کا مرحلہ آیا تو قرآن کے مخاطب غیر مسلمین تھے، جنھیں قرآن نے يٰٓاَيُّہَا النَّاسُ  کہہ کر مخاطب کیا ہے، یعنی خطاب عمومی طور پر تمام انسانو ں سے ہے۔ گویا انبیا و رُسل کے ذمے جو پیغام کیا جاتا ہے وہ نہ تو ’جغرافیائی‘ ہوتا ہے اور نہ ’خاندانی‘، بلکہ اس کی اپیل وسیع تر ہوتی ہے۔ لیکن دوسرے پہلو سے دیکھیے کہ قرآن کا مضمون اس جانب اشارہ کرتا ہے محمد رسولؐ اللہ،   حضرت عیسٰیؑ اور حضرت موسٰی کی لائی ہوئی تعلیمات کو مکمل کرنے کے لیے تشریف لائے تھے ، اور اس لیے تشریف لائے تھے کہ ’راستے سے بھٹکے ہوؤوں ‘ کو ’حق‘ کی طرف لے آئیں، خواہ ان کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو۔

ایک اور پہلو سے دیکھیں کہ قرآن میں ایسی آیات موجود ہیں جو یہ اشارہ دیتی ہیں کہ نصاریٰ [یعنی مسیحی]،مسلمانوں سے ’’دوستی میں قریب ترین‘‘ ملیں گے۔ توکیا ہجرت کے لیے مسیحی ملک کے انتخاب کا کوئی تعلق اس حقیقت سے بھی ہے؟ لیکن سورۂ مائدہ کی آیات ۸۲، ۸۳ (جن میں مذکورہ مضمون بیان ہوا ہے) کا نزول تاریخی اعتبار سے ہجرتِ حبشہ کے بعد کا بیان کیا جاتا ہے۔ روایت کے مطابق نجاشی نے مسلمان مہاجروں کا موقف سننے کے بعد پادریوں اور راہبوں کا ایک وفد مکہ کی طرف روانہ کیا۔ اس وفد نے محمد رسولؐ اللہ سے ملاقات کی ، آپؐ کے ارشادات سنے اور اسلام قبول کر لیا۔ دوسری روایت کے مطابق یہ وفد اس آخری مہاجر کے ساتھ آیا تھا، جو حبشہ سے واپس لوٹ کر آ رہا تھا۔ خلاصہ یہ ہے کہ ’اسلامی مسیحی قربت‘ کی یہ صورت حال ہجرت پر اثر انداز ہونے والی تھی، نہ کہ اس کے برعکس تھی۔

حبشہ میں مسلمانوں کی زندگی

حبشہ کے اندر اوّلین مسلمانوں کی زندگی کے حالات کے سلسلے میں مؤرخین نے جو کچھ جمع کیا ہے ، افسوس کہ وہ کافی نہیں ہے۔ اس لیے راقم کے پاس اس کے سوا چارہ نہیں کہ بین السطور سے مفہوم اخذ کرنے کی صلاحیت کو کام میں لائے:

پہلانتیجہ یہ کہ نجاشی نے مسلمانوں کو صرف رہنے سہنے اور گھومنے پھرنے کی اجازت ہی نہیں دی بلکہ انھیں تنگ کرنے اور ان سے دشمنی کرنے والوں پر جرمانہ عائد کرکے انھیں اپنی حمایت بھی فراہم کی۔ نجاشی کے ساتھ مسلمانوں کی گفتگو سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ انھوں نے نجاشی سے اس جرمانے کی رقم میں اضافے کا مطالبہ کیا۔اس کا مطلب یہ ہے کہ عملاًانھیں بعض طریقوں سے پریشان بھی کیا گیا تھا۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ مستقل طور پر نجاشی کے رابطے میں رہتے تھے اور ایک سے زائد صورت حال سے اس کا اظہار ہوتا ہے۔ چنانچہ حضرت جعفر بن ابی طالبؓ حبشہ سے واپس تشریف لے آنے کے بعد اکثر بادشاہ کے ساتھ اپنی ملاقات کا ذکر کیا کرتے تھے۔ مثال کے طور پر یہ کہ جب بادشاہ نجاشی کسی سے خوش ہوتا تھا تو اسے اٹھاتا اور والہانہ اظہار کرتا تھا۔ یا یہ کہ بدر میں مسلمانوں کی فتح کے بعد اس نے اپنی خوشی کا اظہار اس طرح کیا کہ بوسیدہ کپڑوں میں ملبوس زمین پر بیٹھ گیا، جو تواضع و انکسار اور اس فتح پر اللہ کے شکر کا اظہار تھا۔یا پھر اس وقت کا حال بیان کرتے تھے جب ابی سفیان کی صاحب زادی ’رمل‘ معروف بہ اُمِ حبیبہؓ کا نکاح ان کے شوہر کے انتقال کے بعد اللہ کے رسولؐ سے ہوا تھا۔ گویا مسلمان مہاجرین کی حالت محض ان لوگوں کی طرح نہیں تھی، جو ملک میں آکر بس گئے ہوں، بلکہ وہ ایک ایسے گروہ میں تبدیل ہو گئے تھے جسے نجاشی کا قرب حاصل تھا اور جو اس کے ساتھ گھل مل گئے تھے۔ رسولؐ اللہ اور نجاشی کے درمیان خط کتابت کا سلسلہ بھی قائم تھا۔ اسی میں سے ایک خط وہ ہے جو آپؐ نے اس کے پاس اسلام کی دعوت کی غرض سے ارسال فرمایا تھا، جس طرح ایران و بازنطین کے شاہان اور مصر کے مقوقس کے پاس بھیجا تھا۔

اسی طرح ان خطوط میں یہ خبر بھی تھی کہ نجاشی کو بغاوت کا سامنا کرنا پڑا تو اس نے اپنی فوج کو جمع کیا اور مسلمانوں کو کشتیوں پر سوار کرا کر انھیں یہ حکم دیا کہ اس کی شکست کی صورت میں یہاں سے ملک چھوڑ کر چلے جائیں تاکہ اس کا دشمن ملک پر قابض ہوجانے کے بعد انھیں نقصان نہ پہنچا سکے۔ جنگ طویل ہوئی تو مسلمانوں نے زبیر بن عوامؓ کو روانہ کیا کہ دریاکو تیر کر پار کریں اور نجاشی کی خبر لے کر آئیں۔ وہ واپس آئے اور یہ خوش خبری سنائی کہ نجاشی کو فتح نصیب ہوئی ہے۔ قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ مؤرخین نے تکرار کے ساتھ یہ بات کہی ہے کہ نجاشی اسلام قبول کر چکا تھا اور اپنے اسلام کو اپنے آدمیوں سے چھپائے ہوئے تھا تاکہ وہ اس کے خلاف بغاوت نہ کردیں۔ مؤرخین نے یہ تک ذکر کیا ہے کہ جب رسولؐ اللہ تک وحی کے ذریعے نجاشی کی موت کی خبر پہنچی تو آپؐ نے اس کی غائبانہ طور پر نماز جنازہ ادا کی۔بہرحال، نجاشی کا ایسے پناہ گزینوں سے اظہارِ ہمدردی جو اس کے ہم مذہب نہ ہوں، ایک الگ چیز ہے اور اس کا اپنے دین سے علیحدگی اختیار کرنا ایک دوسری چیز ہے، جس کی بدولت اسے بعض خطرناک نتائج کا سامنا کرنا پڑ سکتا تھا۔ یہ چیزاس روایت کی نفی کرتی ہے کہ نجاشی کی وفات اپنے قبولِ اسلام کا اعلان کرنے کے لیے مدینہ کی طرف سفر کے دوران راستے میں ہوئی تھی۔

اسی طرح ایک نتیجہ یہ بھی اخذ کیا جا سکتا ہے کہ مسلمان ہجرت کے اس مقام پر کوئی قیدی یا پابند نہیں تھے، بلکہ اہلِ حبشہ کے ساتھ مل جل کر رہ رہے تھے۔ اور لوگ ان سے مذہبی معاملات میں بحث و مباحثہ بھی کیا کرتے تھے۔ کیوں کہ ایک مہاجر جن کا نام عبید اللہ بن جحش تھا اور وہ اُمِ حبیبہ کے شوہر بھی تھے، بعض پادریوں سے مذہبی معاملات میں ان سے مباحثہ کیا کرتے تھے۔ بعد میں انھوں نے مسیحیت کو قبول کر لیا تھا۔ اس واقعے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ کسی نہ کسی شکل میں وہ ایک دوسرے پر اثر انداز ہو رہے تھے۔

اسی طرح بعض مؤرخین ، مثلاً ابن اسحاق نے ان افراد کی فہرست تیار کی ہے، جن کی پیدائش یا وفات حبشہ میں ہوئی تھی اور وہیں دفنائے گئے تھے۔ اس لیے کہ یہ باور کرنا مشکل ہے کہ کچھ لوگ کسی افرادِ قوم کے درمیان ۱۲ برس گزاریں ، لیکن ان سے کنارہ کشی اختیار کیے رہیں۔ اسی طرح ایک سوال یہ رہ جاتا ہے کہ بیش تر مہاجرین کی واپسی ہجرتِ مدینہ کے ساتویں برس تک مؤخر کیوں رہی؟ یہ تمام لوگ بھی ان لوگوں کے ساتھ ہی کیوں نہیں مل گئے، جنھوں نے (حضرت عثمان بن عفانؓ، حضرت مصعب بن عمیر ؓاور حضرت زبیر بن عوام ؓ)اپنا ’دارِہجرت‘ تبدیل کرکے مدینہ کو دارِ ہجرت بنا لیا تھا۔ اس کا منطقی جواب شاید یہی ہو کہ رسولؐ اللہ نے یہ محسوس کر لیا تھا کہ غزوۂ احزاب کی طرح اگر مسلمانوں کی دشمن طاقتوں کو متحد ہو کراچانک حملہ آور ہونے اور مدینہ میں ان کے خلاف جنگ کرنے کا موقع مل گیا تو مسلمانوں کے لیے ایک ایسا ’خارجی پشت پناہ‘ باقی رہےجہاں، وہ پناہ لے سکیں۔ اور واقعتاً حبشہ کا آخری مہاجر اس وقت تک واپس نہیں آیا تھا جب تک فتح خیبر کا واقعہ پیش نہیں آگیا اور مسلمان مؤثر قوت و طاقت میں تبدیل نہیں ہو گئے۔

 

ياأيها الرجل المُحَوِل رَحله

 هلا نَزِلت بآل عبد منافِ

الآخذون العهد من آفاقهم

 والراحلون برحلة الإيلافِ

یہ جاہلی دور کے شاعر مطرود بن کعب الخزاعی کے اشعار ہیں۔ اس میں مطرود نے ایک ایسی اصطلاح کا ذکر کیا ہے، جس کے بارے میں ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ وہ قرآنی آیت لِاِيْلٰفِ قُرَيْـــشٍ۝۱ۙ اٖلٰفِہِمْ رِحْلَۃَ الشِّـتَاۗءِ وَالصَّيْفِ۝۲ۚ [قریش ۱۰۶: ۱-۲]کا ایک جز ہے، اور قبل اسلام کے ایک بڑے اور تاریخی واقعے کو دلیل کے طور پر پیش کیا ہے۔ آئیے جانتے ہیں کہ اس واقعے کی حقیقت کیا ہے اور اس پر گفتگو کو تازہ کرنے کی افادیت کیا ہے؟

تاریخی پس منظر

’ایلاف‘ پر گفتگو کے آغاز میں ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ ان تاریخی حالات کا سرسری جائزہ پیش کر دیا جائے، جن حالات میں یہ نظامِ ’ایلاف‘ [اُلفت و محبت پر مبنی نظام]عمل میں آیا تھا۔ جزیرۂ عرب اس وقت سیاسی اعتبار سے تین حصوں میں بٹا ہوا تھا: جنوب میں مملکت حِمیَر تھی، جس پر، دَر آنے والے حبشیوں نے مکمل قبضہ کر لیا تھا۔ شمال کی جانب عراق میں بلادِ فارس کی تابع مملکت ’الحیرہ‘ اور بازنطینیوں کی مملکت غساسنہ تھی۔ جنوب اور شمال کے مابین وہ علاقہ تھا کہ جس میں وہ قبائل آباد تھے جو کسی ایک شاہی نظام یا بیرونی حکومت کے تابع رہنے پر مجبور تھے۔ مثال کے طور پر مکہ میں قریش کا قبیلہ تھا، مدینہ میں اوس اور خزرج وغیرہ کے قبائل تھے یا پھر بدؤوں کے وہ گروہ آباد تھے، جو تنگ حالی کی زندگی بسر کر رہے تھے اور تنگ دستی نے ان میں سے بیش تر کو چوری، ڈکیتی اور قافلوں کی لُوٹ مار کے پیشے میں ملوث کر دیا تھا۔

جنوبی عرب حمیریوں اور حبشی حکومت (ایتھوپیا) کے درمیان جنگی کش مکش کی وجہ سے سلگ رہا تھا کیو ں کہ حبشہ، یمن پر حملہ آور تھا۔ شمالی عرب فارسیوں اور بازنطینیوں کے درمیان جاری جنگ کی آگ میں جھلس رہا تھا، جو دونوں کے درمیان یا تو براہِ راست ہو رہی تھا یا ان کے آلۂ کاروں، یعنی الحیرہ اور غساسنہ کے توسط سے جاری تھی۔ قطع نظر اس سے کہ تجارتی قافلوں پر اس صورتِ حال کے کیا منفی اثرات پڑ رہے تھے، اس صورتِ حال کی وجہ سے تجارت و خرید و فروخت کے سامان بعض علاقوں تک نہیں پہنچ پا رہے تھے، کیو ں کہ کسی ایک جنگجو فریق نے اس کے راستوں پر تسلط حاصل کرلیا تھا۔ یہ صورتِ حال خاص طور سے ان سامانوں کے ساتھ تھی، جو ہندستان اور وسطی ایشیا سے آتے تھے۔ چنانچہ یہ ضروری تھا کہ کوئی ایسا فریق ہو، جو ان تمام فریقوں سے دوستی کے رشتے سے بندھ جائے تاکہ تجارتی نقل و حمل جاری رہنے کی ضمانت فراہم ہو سکے اوراس کش مکش کا مجموعی صورتِ حال پر کوئی منفی اثر نہ پڑے۔ انھی حالات کے پیش نظر ’ پانچویں صدی عیسوی کے نصف میں نظامِ ’ایلاف‘ کا تصور عمل میں آیا۔

تصوّر کے بانی:  ہاشم بن عبدمناف

ہاشم بن عبد مناف بن قصی کو سرداری اپنے والد سے ورثے میں ملی تھی۔ ان کے دادا قصی وہ پہلے شخص تھے، جنھوں نے مکہ پر قریش کی سرداری قائم کی تھی۔ قصی سے یہ سرداری مناف کو ملی اور مناف سے ہاشم کو ملی تھی۔ ہاشم مکہ کی محدود تجارت سے خوش اور مطمئن نہیں تھے جس کا انحصار ان مقامی بازاروں پر تھا، جو حُرمت کے مہینوں کے دوران لگا کرتےتھے۔ حُرمت کے مہینو ں کے دوران بازار لگنے کی وجہ یہ تھی کہ دشمنوں کے حملوں اور قبضے سے محفوظ رہ سکیں۔ ان بازاروں کی تجارت بازاروں میں شریک ہونے والے قبائل کی ذاتی مصنوعات تک ہی محدود رہتی تھی۔

یہ تو واضح تھا کہ مکہ کوئی صنعتی شہر نہیں تھا، لیکن اس کے اندر یہ صلاحیت تھی کہ ’بیرونی تجارت کے لیے کارآمد شہر‘ بن جائے۔ اس کے بہت سے اسباب تھے، مثلاً: یہ شہر شمال اور جنوب کے تجارتی راستوں کے عین درمیان واقع تھا۔ ایک سبب یہ بھی تھا کہ حج کے ایام میں عربوں کا یہاں اجتماع ہوتا تھا اور اہل عرب قریش کو’اہل اللہ‘ ہونے کے ناتے ’بزرگ‘ مانتے تھے، کیوں کہ وہ کعبہ کے خادم تھے اور عربوں کے مقدس ترین قبیلے سے تعلق رکھتے تھے۔

ایک بار جب مکہ زبردست اقتصادی بحران اور غذا کی شدید کمی سے دوچار ہوا، تو ہاشم بن عبدمناف نے فیصلہ کیا کہ اپنے شہر (مکہ) کے حالات کو تبدیل کرنے کی کوشش کریں گے۔ ہاشم کا معمول شام کے تجارتی اسفار پر جانے کا تھا۔ وہ ’غزہ‘ کے بازار میں بھی جاتے تھے اور کبھی کبھی شمال کے بازاروں، مثلاً ’بصرہ‘ کے بازاروں میں بھی جایا کرتے تھے۔ روایات میں ہے کہ ہاشم، شام کے بازاروں میں داخل ہوتے تو ہر روز ایک جانور ذبح کر کے ہر قافلے کے لیے کھانے کا بندوبست کیا کرتے تھے۔ ان کا یہ عمل عام لوگوں کی نگاہوں کو ان کی طرف متوجہ کرنے والا تھا۔ آخرکار ان کے اس عمل کی خبر قیصر روم تک پہنچی اور اس نے ہاشم کو حاضرکرنے اور ان سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی۔ قیصر سے چند ملاقاتوں کے بعد، جن کے دوران قیصر ان کی شخصیت سے بہت متاثر ہوا تھا، ہاشم نے بازنطینی حاکم کے سامنے تجویز پیش کی کہ وہ انھیں ایک خط لکھ کر دے، جو مکہ سے آنے والے تجارتی قافلوں کے لیے شام کے دروازے کھول دے اور شام کے جو علاقے بازنطینیوں کے ماتحت ہیں، ان سے مکی تاجروں کو آنے جانے کی سہولت بھی فراہم کر دے۔ اسی طرح ان پر جو ٹیکس عائد کیا جاتا ہے اس میں بھی رعایت دے اور بازنطینی لوگ بھی اپنے تجارتی سامان کے ساتھ عرب کے بازاروں میں اس ضمانت پر آنے جانے لگیں کہ ہاشم بن عبدمناف مکہ اور شام کے درمیانی راستوں کو ان بازنطینی تاجروں کے لیے مامون و محفوظ بنا دیں گے۔قیصر سے ہاشم بن عبدمناف کی گفتگو کے الفاظ یہ روایت ہوئے ہیں: ’’بادشاہ سلامت، میری قوم کے لوگ تجارت پیشہ ہیں۔ اگر آپ مناسب سمجھیں تو ایک خط لکھ دیں، جو ان کی تجارت کو مامون بنا دے۔ اس کے بدلے میں وہ آپ کو حجاز کا بہترین چمڑا اور کپڑا پیش کریں اور آپ کے یہاں ا سے بیچا جائے۔ یہ آپ کے لیے بہت آسان ہوگا‘‘۔

’ایلاف‘ کا پہلا مرحلہ

ان روایات میں اختلاف سے قطع نظر کہ ہاشم نے براہِ راست قیصر سے ملاقات کی تھی یا اس کے کسی شامی گورنر سے؟ بہر حال، وہ یہ خط لے کر واپس آئے۔ یہ خط انھوں نے ان تمام قبائل کو دکھایا، جو شام اور مکہ کے درمیان تجارتی راستوں پر آباد تھے۔ انھوں نے ہر قبیلے کے سامنے یہ پیش کش رکھی کہ ’’شام کی طرف جانے والا [تجارتی] قافلہ ان کے زائد از ضرورت [سامانوں] کھجوروں اور کھالوں وغیرہ کو کوئی کرایہ لیے بغیر (شام کے بازاروں میں) لے جائے گا۔ اس سامان کو شام میں بیچے گا، پھر اصل سرمایے اور مکمل منافع کے ساتھ انھیں لوٹا دے گا۔ اس کے بدلے میں ان کے زیر اثر علاقوں سے گزرتے ہوئے ہر قبیلے کو [تجارتی] قافلے کی حمایت و خدمت کی ذمہ داری اپنے سر لینی ہوگی۔ اور اگر قبیلے کے پاس تجارت کرنے کے لیے کوئی سامان نہیں ہوگا، تو وہ قبیلہ مال کے بدلے اس قافلےکی حفاظت کرے گا۔‘‘

چنانچہ ہاشم کو اس معاہدے پر قبائلی سرداروں کی منظوری حاصل ہو گئی، جسے عربوں کی زبان میں ’حصل علی حبل منہم‘ کہا جاتا ہے۔ جو اس بات کا اشارہ ہوتا ہے کہ دونوں کے درمیان ایک معاہدہ قائم ہو چکا ہے۔یہیں سے مکہ کے اس دور کا آغاز ہوا جس میں وہ جزیرۂ عرب کے اندر شامی تجارت کا اہم مرکز بن گیا، بلکہ بازنطینی تاجر مکہ کی طرف جوق در جوق آنے لگے اور مکہ کے سردار کو یہاں کے بازاروں میں اپنی تجارت اور حمایت و خدمت کے حصول کے بدلے میں دسواں حصہ ٹیکس کے طور پر ادا کرنے لگے۔

قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ بازنطینی اس معاہدے کو محض تجارتی فائدے کی نظر سے ہی نہیں دیکھتے تھے، بلکہ بازنطینی حکومت نے جزیرۂ عرب کے عین درمیان اپنی تجارت کے راستے کھولنے کو ان جاسوسوں کے لیے بھی استعمال کیا، جنھیں وہ ان علاقوں کی خبریں حکومت تک منتقل کرنے کے لیے بھیجا کرتی تھی۔اس طرح وہ خاص طور سے فارسیوں [ایرانیوں]کی جانب سے پیش آنے والی تشویش کن حرکتوں سے آگاہ رہتی تھی۔

’ایلاف‘ کا دوسرا مرحلہ

شہر ’غزہ‘ کی جانب اپنے ایک سفر کے د وران ہاشم کا انتقال ہو گیا تو ان کے بقیہ بھائیوں، بنو عبد مناف، یعنی عبد شمس، نوفل اور مُطَّلب نے ہاشم کے اس اہم منصو بے کو پایۂ تکمیل تک پہنچایا۔ اس سلسلے میں عبدشمس نے حبشہ کا رخ کیا اور نجاشی سے ملاقات کرکے اس کے سامنے وہی پیش کش رکھی، جو ہاشم نے قیصرِ روم کے سامنے رکھی تھی۔ نتیجے کے طور پر انھیں بھی اسی طرح کا معاہدہ حاصل کرنے میں کامیابی مل گئی اور مکی تاجروں کے لیے بازارِ حبشہ کے دروازے کھل گئے۔ نوفل نے بلادفارس کا سفر کیا اور کسریٰ اور ملوکِ ’الحیرہ‘ سے اسی طرح کا معاہدہ کرکے عراقی بازاروں کے دروازے کھول دیے۔ رہے مُطّلب، تو وہ یمن کے قبائلی سرداروں کے درمیان سرگرم تھے، اور  اُن سرداروں نے مطلوبہ معاہدے پر اپنی رضامندی دے دی۔ مُطَّلب کے اس قدم میں یمن کے تغیرپذیر حالات کی مناسبت سے ان کے فہم و فراست کی جھلک نظر آتی تھی۔کیو ں کہ اس خطے میں مقامی سرداروں کے اثر ورسوخ کے مقابلےمیں مرکزی اقتدار ڈھل مل کی سی حالت میں تھا۔ ہربھائی نے جب پڑوسی ممالک کی حکومتوں سے معاہدہ کر لیا تو اس متعلقہ ملک اور مکہ کے درمیان پڑنے والے تجارتی راستوں پر قابض قبیلوں سے ملاقاتیں کرنے اور اسی طرح کا ’حبال‘ حاصل کرنے میں لگ گئے، جیسا اس سے پہلے ہاشم نے حاصل کیا تھا۔

یہیں سے قریش نے یہ رسوخ حاصل کرلیا تھا کہ تجارت کے لیے ان کے دو قافلے روانہ ہوتے تھے: ایک گرمیوں میں جس کا رخ شام کی طرف ہوتا تھا اور دوسرا سردیوں میں جس کا رخ یمن کی جانب ہوتا تھا۔اور انھی دو تجارتی اسفار کی طرف قرآنی آیت’رِحْلَۃَ الشِّـتَاۗءِ وَالصَّيْفِ‘ میں اشارہ کیا گیاہے۔چنانچہ بیرونی اموال تجارت مکہ میں آکر جمع ہوتے تھے۔ پھر وہیں سے وہ موسم کے لحاظ سے جنوب یا شمال کی جانب لے جائے جاتے تھے۔ اس کے علاوہ قریشیوں کے روایتی بازاروں مثلاً عکاظ میں بھی وہ سامان رکھا جاتا تھا۔ ایک تجارتی قافلہ ۱۵۰۰ سے ۲۵۰۰ اونٹوں پر مشتمل ہوا کرتا تھا، جو جزیرۂ عرب کے اندرونی سامان تجارت، مثلاً اون، کپڑے، اسلحے اور کھالیں یا باہر سے برآمد کیا ہوا سامان، مثلاً عطر، ہندستانی بخور، مصر کے بُنے ہوئے لائنن کے کپڑے اور شام کی شرابیں وغیرہ لے کر عراق، شام، یمن تک جایا کرتے تھے۔

’ایلاف‘ قریش کے نتائج

اس بارے میں اختلاف ہے کہ آیا ان تمام بھائیوں نے اپنی مذکورہ کوششیں ایک دوسرے کے ساتھ مل کر ایک ہی وقت میں انجام دی تھیں، یا ایک بھائی کی موت کے بعد دوسرے بھائی کو جب سرداری ملی تو اپنی سرداری کے زمانے میں ہر بھائی نے اپنے حصے کا کام انجام دیا تھا؟ بہرحال، اس نظامِ ایلاف نے جزیرۂ عرب میں تجارت کو ایک نئی بلندی سے ہم کنار کیا تھا۔ اس نظام نے یہ ضمانت فراہم کر دی تھی کہ جنگوں اور جھڑپوں کی وجہ سے سامانِ تجارت کا سلسلہ منقطع نہیں ہوگا، کیو ں کہ مکہ باہم برسرپیکار تمام قوتوں کے درمیان مرکز (mediator) بن گیا تھا، جس کا کام سیاسی تغیرات سے متاثر ہوئے بغیر ایک کا مالِ تجارت، دوسرے تک پہنچانا تھا۔

اسی طرح تجارتی راستوں پر قابض قبائل نے بھی ’’اس ’رشتۂ معاہدہ‘ کی پاس داری کی، جس نے عبدمناف کو اپنے اندر پوشیدہ فائدوں سے مالا مال کیا، بلکہ اس کے پھیلائو اور سرمایے میں بھی اضافہ کیا، جس کی وجہ سے قافلوں میں شراکت سے حاصل ہونے والے منافع میں بھی اضافہ ہوا۔

اس کےعلاوہ جزیرۂ عرب میں یمنی، فارسی اور بازنطینی تجارت کی وجہ سے ان کی کرنسیاں رائج ہوگئیں، جس سے زرِمبادلہ کی سرگرمیاں بھی پروان چڑھیں۔ اس طرح اہل مکہ زرمبادلہ کے کاموں سے واقف ہوئے اور اس سے کافی کچھ سیکھا۔ اس چیز نے جزیرۂ عرب کے باہر سے آنے والے اموال تجارت کو یہاں کے بازاروں کے اندر رائج کرنے میں آسانی پیدا کر دی۔ چنانچہ مصر کے اموال تجارت، شام کے راستے سے آنے لگے، حبشہ کے اموال تجارت بحراحمر کے راستے سے آنے لگے، اور ہندستان سے آنے جانے والا مالِ تجارت یمن کے راستے سے پہنچنے لگا۔ اس طرح بحر احمر کی بندرگاہوں، مثلاً ینبع اور جدہ کی بندرگاہوں پر بھی تجارتی سرگرمیاں عروج پر پہنچ گئیں۔

بیرونی تجارت میں شرکت کے سلسلے میں اہل مکہ کی دلچسپی بھی بڑھ گئی تھی۔ چنانچہ بیرونی تجارت میں ان کی شرکت، مکہ کے اہل ثروت لوگوں تک ہی محدود نہیں رہی تھی، بلکہ وہ چھوٹے گروہ بھی اپنی جمع پونجی کے ساتھ، یا سود پر قرض لے کر اس میں حصہ لے رہے تھے، جو دولت مندی کے اعتبار سے بہت کم تر تھے۔ اس طرح یہ چیز سودخوروں کے منافع میں بھی اضافے کا سبب بن رہی تھی۔ بعض قبائل نظامِ ایلاف میں داخل ہونے کے لیے زور لگانے لگے، خواہ وہ ان راستوں پر  آباد نہ رہے ہوں جو تجارت کے عام راستے تھے۔ اس کا محرک منافع حاصل کرنے کی خواہش کے ساتھ ساتھ’ایلافی‘ خطوں سے اپنے قافلوں کے گزرنے کی صورت میں ان کی حمایت و حفاظت سے استفادہ کرنا تھا۔ اس کی وجہ سے تجارت کے نئے راستے اور نئے بازاروں کے دروازے کھلے۔ ان حالات میں قریشیوں کا اثر و رسوخ اس حد تک بڑھا کہ قافلے کے آگے چلنے والے کسی مسافر کے لیے یہ کہہ دینا کافی ہوتا تھا کہ اس کا تعلق ’اہل حرم‘ سے ہے یا راستے میں کسی بھی قسم کی پریشانیوں سے خود کو محفوظ رکھنے کےلیے یہ کافی ہوتا تھا کہ وہ اپنی گردن میں ایک قلادہ ڈال لے جس پر شہر حرم (مکہ) کے کسی درخت کا ٹکڑا لگا ہوا ہو۔

نظامِ ایلاف کے وسیلے نے قبیلوں اور خاندانوں کے درمیان باہمی تعامل اور بعض مشترکہ مفادات کے حصول کے لیے دوسرے جزوی معاہدوں کی راہ آسان کر دی تھی۔ عرب کی قدیم تاریخ کے مطالعے سے اس بات کا ادراک ہوجاتا ہے کہ ’ایلاف‘ کا نظام ایک وسیع اُبھار کا سرچشمہ تھا، کیوں کہ اس کا آغاز فریقین کے درمیان ایک ایسے منصوبے کے طور پر ہوا تھا، جس کا ہدف ایک واحد ملک کے اندر، ایک واحد قبیلے کی خدمت تھا۔ پھر اس منصوبے نے ایک وسیع تجارتی نیٹ ورک اور ایک عظیم انسانی سرگرمی کی شکل اختیار کرلی، جس کا عمل دخل اقتصادیات، سیاسیا ت اور سماجی و ثقافتی زندگی میں بہت گہرا ہو گیا تھا۔ چنانچہ نظامِ ایلاف سے پہلے عرب زندگی کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ اور بعد کے حالات زندگی سے اس کا موازنہ ہمیں اس موقف تک پہنچا دیتا ہے کہ اس نظام کے اثرات بہت عظیم تھے، جنھیں ہم اس زمانے کے لحاظ سے اختراعی اور ایسا نظام کہہ سکتے ہیں جس نے مکہ کی ثقافت و تہذیب کو پورے علاقے تک پھیلا دیا تھا۔(انٹرنیٹ ویب: رصیف:۲۲)