رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت و اعلانِ نبوت کے مکی مرحلےمیں ایک نمایاں مقام ’ہجرتِ حبشہ‘ کو حاصل ہے۔ ہجرتِ حبشہ اعلانِ دعوت کے پانچویں برس پیش آئی تھی۔اہلِ مکہ کے ہر خاندان نے اپنے اپنے لوگوں میں سے اسلام قبول کرلینے والوں کو اذیت پہنچانے کی ذمہ داری سنبھا لی تھی۔ سردارانِ قریش کی جانب سے نومسلموں کو اذیتیں پہنچانے کی منظم مہم کا سامنا کرنے کے بعد اللہ کے رسولؐ نے انھیں یہ مشورہ دیا کہ حبشہ میں جا کر پناہ گزیں ہو جائیں۔ اس وقت آپؐ نے فرمایا: ’’وہاں (حبشہ میں) ایک ایسا بادشاہ ہے، جس کی موجودگی میں کسی پر ظلم نہیں کیا جاتا‘‘۔
پہلی ہجرتِ حبشہ میں ۱۶ صحابہ و صحابیات (۵ نبوی میں) حبشہ گئے۔ چند ماہ بعد مزید ۸۳مرد اور ۱۸خواتین ، یعنی۱۰۱؍ اہلِ ایمان حبشہ پہنچ گئے۔ ان کے قائد اور امیر حضرت جعفر بن ابی طالبؓ تھے۔ ان میں بعض کبار صحابہ کرامؓ مثلاً زبیر بن العوام، عثمان بن عفان اور ان کی زوجۂ محترمہ سیّدہ رقیہ بنت رسول اللہ، مصعب بن عمیراور عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہم وغیرہ شامل تھے۔ ان کی واپسی آگے پیچھے کرکے ہوئی، جن میں حضرت عثمانؓ بن عفان اور ان کی اہلیہ محترمہ، حضرت زبیرؓ، اور حضرت مصعب بن عمیرؓ سب سے پہلے واپس آئے ۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ ہجرتِ مدینہ کے بعد جو واقعات پیش آئے، ان میں یہ حضرات شریک کی حیثیت سے موجود تھے۔ بعض لوگوں کی واپسی ساتویں صدی ہجری میں ہوئی، جس کا مطلب یہ ہوا کہ ہجرت حبشہ بارہ برس تک رہی۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کسی اور ملک کے ہوتے ہوئے متعین طور پر حبشہ کا انتخاب ہی کیو ں کیا گیا؟’’تاریخِ دعوتِ محمدیؐ کے مطالعے میں اس سوال کو نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ اس کا ایک جواب یہ ہے کہ رسولؐ کو ’’بواسطہ الٰہی اس کی ہدایت دی گئی تھی‘‘۔ لیکن موضوعی مطالعہ یہ سوال اُٹھاتا ہےکہ ہجرت حبشہ کے واقعات کے پس پشت اسباب کو پڑھنے کی کوشش کی جائے۔ جزیرۂ عرب اور اس کے باہر موجود دیگر ممالک کی بہ نسبت حبشہ اگر واحد انتخاب نہیں بھی تھا تو سب بہترین انتخاب ضرور تھا۔ جزیرۂ عرب کے کسی اور خطے کی طرف ہجرت کرنا محفوظ و مامون نہیں تھا، خواہ وہ خطہ آزاد رہا ہو یا ایرانی وبازنطینی سلطنت کے زیرتسلط رہا ہو۔ کیوں کہ ان خطوں کے قبائل ، خاندان اورریاستیں، قریش کے ساتھ معاہدۂ ’ایلاف‘ سے بندھی ہوئی تھیں۔ اس لیے ان کے لیے یہ بات قرینِ مصلحت نہیں تھی کہ وہ سربراہانِ مکہ کے دشمنوں کو پناہ دیں۔
دوسری طرف یہ خطرہ تھا کہ اگر اِن سرداران نے مہاجرین کی واپسی کا مطالبہ کردیا تو ان کے اس مطالبے کو فوراً مان لیا جائے گا۔ اسی طرح یہ بھی آسان نہیں تھا کہ مسلمان بازنطینی یا ایرانی علاقوں کی طرف چلے جاتے۔ کیوں کہ حیرہ اور غساسنہ دونوں ریاستیں دو عظیم سلطنتوں [بازنطین اور فارس] کے لیے’دربان‘ کا کردار ادا کر رہی تھیں۔ بازنطین یا فارس کی طرف رختِ سفر باندھنے والے کسی بھی شخص کے لیے ضروری تھا کہ پہلے حیری یا غسانی بادشاہ، جس طرف اس کا رُخ ہوتا، اس کی آشیرواد حاصل کرے۔ یہ بھی معلوم تھا کہ غساسنہ اور حیرہ، یہ دونوں بھی مذکورہ معاہدۂ ’ایلاف‘ سے بندھے ہوئے تھے۔ علاوہ ازیں، بازنطین کا علاقہ مسیحی گروہوں کے مابین تصادم یا پھر یہودیوں کے خلاف ریاستی ظلم وجبر کی شکل میں مذہبی جنگ کی صورت حال سے دوچار تھا۔ اس اعتبار سے یہ خطہ، ہجرتِ صحابہ و صحابیات کے لیے محفوظ و مامون نہیں تھا۔
دوسرے پہلو سے دیکھیں تو حبشہ — یا مملکت اکسوم ایک منفردصورتِ حال کی نمایندگی کر رہا تھا۔یہ ایک مسیحی ملک تھا ،لیکن بازنطین حکمرانی کے تابع نہیں تھا، بلکہ بازنطین کے ظلم سے دوچار قبطی آرتھوڈوکس عیسائیت کا پیرو تھا۔ اس چیز نے وہاں کے سیاسی اقتدار کے اندر ظلم سے فرار کی سمجھ کا کچھ عنصر پیدا کر دیا تھا۔یہ ملک قریش کے ساتھ معاہدوں سے بھی مربوط نہیں تھا، بلکہ قریش اور جزیرۂ عرب کے ساتھ اس کے تعلقات اضمحلال کا شکار تھے، جس کی وجہ ایک تو یہ تھی کہ عرب یمن سے ان حبشیوں کو کھدیڑنے کا حامی تھا جو حبشہ پر قابض تھے، اور دوسرے یہ کہ حبشہ نے مکہ پر چڑھائی کرکے اَبرہہ کی قیادت میں ان پر حملہ کیا تھا ۔ ایک بات یہ بھی تھی کہ حبشہ تک پہنچنے کے لیے ان راستوں سے گزرنے کا خطرہ بھی مول نہیں لینا پڑتا تھا، جو قریش کے حلیفوں کے علاقوں سے گزرتے ہوں۔ وہاں تک پہنچنے کے لیے جو کچھ کرنا تھا وہ صرف یہ کہ بحر احمر کی بعض بندرگاہوں مثلاً جدہ یا ینبع کی بندرگاہوں تک پہنچیں اور پھر سمندر کو کشتیوں کے ذریعے عبور کر جائیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مصدقہ معلومات کی بنا پر ہی فرمایا تھا کہ وہاں کا بادشاہ عادل و انصاف پسند ہے۔ آپؐ تجارت، سفر اور تاجروں سے ملاقات اور اس ملک یا کسی دوسرے ملک کےتازہ ترین حالات سے واقف رہتے تھے۔ اسی عمل کے دوران آپؐ تک بادشاہِ حبشہ کے عدل وانصاف کی خبر پہنچی ہو جو آپؐ کے نزدیک اس انتخاب کے لیے نقطۂ ترجیح بن گئی ہو۔ اس اعتبار سے حبشہ خالص عملی نقطۂ نظر سے ہجرت کے لیے مثالی مقام تھا۔
مسلمانوں کی ہجرت کے آڑے آنے میں قریشیوں کی ناکامی کے بعد انھوں نے حبشہ کے بادشاہ سے مسلمانوں کی واپسی کا مطالبہ کیا۔ اس کے لیے انھوں نے عمرو بن العاص اور عبداللہ بن ربیعہ کو بھیجا، جو بادشاہ، اس کے افسران اور فوجی کمانڈروں کے لیے تحائف سے لدے ہوئے وہاں پہنچے تھے۔ آخرکار ابن العاص نے بادشاہ نجاشی کے سامنے پیش ہوکر اس کی حکومت تک حکومتِ مکہ کی بات پہنچائی اور یہ وجہ بیان کی کہ مسلمان (اسلام لے آنے والے لوگ) ’’احمق لوگ ہیں کہ انھوں نے ہمارا دین چھوڑ دیا اور وہ تمھارے دین پر بھی نہیں ہیں‘‘۔ ہجرت حبشہ پر قریشیوں کا پریشان ہونا سمجھ میں آنے والی بات تھی۔ اس لیے کہ مکہ کے لیے اَبرہہ کا حملہ ابھی سامنے کا واقعہ تھا اور سردارانِ مکہ کو اس بات کا ڈر کھا رہا تھا کہ حبشہ کی طرف ہجرت کرنے والے اِن لوگوں کو یہ موقع نہ مل جائے کہ نجاشی کو قوت پہنچائیں اور اسے بلادِ عرب پر حملہ کے لیے اُکسا دیں ، بالکل اسی طرح جس طرح سیف بن ذی یزن نے فارسیوں کو یمن پر حملےکے لیے قائل کر لیا تھا، یا جس طرح نجران کے عیسائیوں کی اپیل پر حبشیوں نے یمن پر حملہ کر دیا تھا ۔
’باہر سے قوت حاصل کرنے‘ کا خیال بہرحال پریشان کن تو تھا ہی، کیوں کہ یہ مذہبی غرض اور خالص اقتصادی منفعت کی غرض سے قابلِ عمل تھا۔ مذہبی غرض سے اس طرح قابلِ عمل تھا کہ نجاشی اسلام قبول کرلے اور مسلمانوں کو فوجی و عسکری حمایت و مدد پیش کردے۔ مسلمانوں کے وفد، جس کی نمایندگی حضرت جعفر بن ابی طالبؓ فرما رہے تھے، کو طلب کرنے پر وفد نے اپنا مسئلہ اس کے سامنے پیش کیا تو بادشاہ نے انھیں اپنے ملک میں قیام کی اجازت دے دی۔ پھر جب عمرو بن العاص نے اس دلیل کے ساتھ اسے مسلمانوں کے خلاف اکسانے کی کوشش کی کہ حضرت مسیحؑ کی حقیقت کے بارے میں وہ اس کے مذہب کے مخالف ہیں تو بادشاہ نے اور بھی شدت سے اس حد تک [ان مسلمانوں کی]حمایت کر دی کہ ان کوگزند پہنچانے والے کسی بھی شخص پر جرمانہ عائد کر دیا۔ شاہ نجاشی نے تحائف لوٹا کر قریش کے وفد کی سرزنش بھی کی تھی۔
نجاشی کا یہ موقف اس بات کی توثیق کرتا ہے کہ حبشہ بہترین انتخاب تھا، محض اس لیے نہیں کہ اس کا بادشاہ وسیع القلب وکشادہ ظرف تھا،جو فیصلہ سنانے سے پہلے فریق مخالف کا موقف بھی سنتا تھا، بلکہ اس لیے بھی کہ مسیحی دنیا اُس وقت حضرت مسیح ؑکی حقیقت وماہیت کے تعلق سے بحث و مناقشے کی بازگشت کے ماحول میں جی رہی تھی۔ ایک طرف وہ لوگ تھے جو حضرت مسیح ؑ کی بشری اور لاہوتی دونوں حقیقت کے قائل تھے اور ایسے لوگ بھی تھے جو یہ کہتے تھے کہ وہ شخصیت تو ایک ہی ہیں لیکن اس کے متعدد پہلو ہیں۔ ایک طرف، جب کہ بازنطینی سلطنت اپنے سرکاری مذہب رومن آرتھوڈکس چرچ —کے مخالفین کے لیے ظالم بنی ہوئی تھی، بقیہ مسیحی دنیا اس مخالفت کے ساتھ بازنطینوں کی بہ نسبت نرمی سے نبٹتی تھی ۔ دوسری طرف بازنطینی قیصروں کی طرح حکومت ِ حبشہ نے خود کواس مذہبی جنگ میں نہیں دھکیلا تھا ۔ بازنطینی یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ ’’حکومت ہی چرچ پر حکمران ہے اور وہی اس کی حفاظت کرتی ہے‘‘۔ اس طرح ظاہر ہے نجاشی کسی ایسے دین کے ساتھ معاملہ کرنے میں کہیں زیادہ وسیع الظرف ہوسکتا تھا، جو دین حضرت مسیحؑ کی خالص بشری حقیقت کو بیان کرتا ہو۔
محسوس یہ ہوتا ہے کہ ایک ذاتی نوعیت کا عنصر خود نجاشی کی اپنی ذات کے اندر بھی تھا، جسے ہم ’روحانی بے چینی‘ کہہ سکتے ہیں۔ قرآن کی اُن آیات کو سن کر جن میں حضرت مسیحؑ کا ذکر ہوا ہے، اس کا یہ کہنا کہ ’’یہ کلام اور وہ کلام جسے عیسیؑ لے کر آئے تھے دونوں ایک ہی چراغ کی لو ہیں‘‘، اُس کی شخصیت پر مذکورہ مذہبی جدل و بحث کے اثرات کی عکاسی کرتا ہے اور اس حقیقت کی عکاسی کرتا ہے کہ اس کے اندر ایسے کسی بھی موقف کو قبول کرلینے کی صلاحیت تھی، جو اس کی بے چینی کو دُور کرسکے۔ نجاشی کی شخصیت کا یہ جائزہ ومطالعہ اور حبشہ کے سلسلےمیں نبیِ اکرمؐ کا یہ فرمان کہ وہ ’ارضِ صدق‘ ہے، دونوں اس جانب اشارہ کرتے ہیں کہ ہجرت کی تجویز سے پہلے غور وفکر، موازنے اور معلومات اکٹھا کرنے کا عمل انجام پایا تھا۔ یہ محض ’بے آس تجویز‘ یا ’بے سوچی سمجھی مہم‘ نہیں تھی۔ اس کے علاوہ یہ کام، یعنی حالات سے آگاہی اور معلومات کا حصول، مکہ جیسے شہر میں رہتے ہوئے آسان کام تھا، جہاں مختلف شہریتوں کے لوگ رہتے تھے اور مختلف خطوں کی خبریں یہاں پہنچتی تھیں۔
یہاں ایک اور سوال پیدا ہوتا ہے اور وہ یہ کہ کیا ہجرت کے مقام کے طور پر حبشہ کے انتخاب کی وجہ یہ تھی کہ اسلام اول درجے میں اہل کتاب، یعنی یہود و نصاریٰ کو اپنا مخاطب بناتا ہے؟ مذہبی قصص و واقعات کے مطالعے سے یہ وضاحت ہوتی ہے کہ کوئی بھی رسول ہو یا کوئی بھی نبی، وہ اپنی قوم کو مخاطب کرتا ہے، خواہ اس قوم کا مذہب کچھ بھی ہو۔ اس اعتبار سے آپؐ کی اولین مخاطب آپؐ کی اپنی قوم تھی:’’اور اپنے قریبی اہلِ خانہ کو ڈراؤ‘‘۔(الشعراء۲۶: ۲۱۴)
اور پھر جب علانیہ دعوت کا مرحلہ آیا تو قرآن کے مخاطب غیر مسلمین تھے، جنھیں قرآن نے يٰٓاَيُّہَا النَّاسُ کہہ کر مخاطب کیا ہے، یعنی خطاب عمومی طور پر تمام انسانو ں سے ہے۔ گویا انبیا و رُسل کے ذمے جو پیغام کیا جاتا ہے وہ نہ تو ’جغرافیائی‘ ہوتا ہے اور نہ ’خاندانی‘، بلکہ اس کی اپیل وسیع تر ہوتی ہے۔ لیکن دوسرے پہلو سے دیکھیے کہ قرآن کا مضمون اس جانب اشارہ کرتا ہے محمد رسولؐ اللہ، حضرت عیسٰیؑ اور حضرت موسٰی کی لائی ہوئی تعلیمات کو مکمل کرنے کے لیے تشریف لائے تھے ، اور اس لیے تشریف لائے تھے کہ ’راستے سے بھٹکے ہوؤوں ‘ کو ’حق‘ کی طرف لے آئیں، خواہ ان کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو۔
ایک اور پہلو سے دیکھیں کہ قرآن میں ایسی آیات موجود ہیں جو یہ اشارہ دیتی ہیں کہ نصاریٰ [یعنی مسیحی]،مسلمانوں سے ’’دوستی میں قریب ترین‘‘ ملیں گے۔ توکیا ہجرت کے لیے مسیحی ملک کے انتخاب کا کوئی تعلق اس حقیقت سے بھی ہے؟ لیکن سورۂ مائدہ کی آیات ۸۲، ۸۳ (جن میں مذکورہ مضمون بیان ہوا ہے) کا نزول تاریخی اعتبار سے ہجرتِ حبشہ کے بعد کا بیان کیا جاتا ہے۔ روایت کے مطابق نجاشی نے مسلمان مہاجروں کا موقف سننے کے بعد پادریوں اور راہبوں کا ایک وفد مکہ کی طرف روانہ کیا۔ اس وفد نے محمد رسولؐ اللہ سے ملاقات کی ، آپؐ کے ارشادات سنے اور اسلام قبول کر لیا۔ دوسری روایت کے مطابق یہ وفد اس آخری مہاجر کے ساتھ آیا تھا، جو حبشہ سے واپس لوٹ کر آ رہا تھا۔ خلاصہ یہ ہے کہ ’اسلامی مسیحی قربت‘ کی یہ صورت حال ہجرت پر اثر انداز ہونے والی تھی، نہ کہ اس کے برعکس تھی۔
حبشہ کے اندر اوّلین مسلمانوں کی زندگی کے حالات کے سلسلے میں مؤرخین نے جو کچھ جمع کیا ہے ، افسوس کہ وہ کافی نہیں ہے۔ اس لیے راقم کے پاس اس کے سوا چارہ نہیں کہ بین السطور سے مفہوم اخذ کرنے کی صلاحیت کو کام میں لائے:
پہلانتیجہ یہ کہ نجاشی نے مسلمانوں کو صرف رہنے سہنے اور گھومنے پھرنے کی اجازت ہی نہیں دی بلکہ انھیں تنگ کرنے اور ان سے دشمنی کرنے والوں پر جرمانہ عائد کرکے انھیں اپنی حمایت بھی فراہم کی۔ نجاشی کے ساتھ مسلمانوں کی گفتگو سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ انھوں نے نجاشی سے اس جرمانے کی رقم میں اضافے کا مطالبہ کیا۔اس کا مطلب یہ ہے کہ عملاًانھیں بعض طریقوں سے پریشان بھی کیا گیا تھا۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ مستقل طور پر نجاشی کے رابطے میں رہتے تھے اور ایک سے زائد صورت حال سے اس کا اظہار ہوتا ہے۔ چنانچہ حضرت جعفر بن ابی طالبؓ حبشہ سے واپس تشریف لے آنے کے بعد اکثر بادشاہ کے ساتھ اپنی ملاقات کا ذکر کیا کرتے تھے۔ مثال کے طور پر یہ کہ جب بادشاہ نجاشی کسی سے خوش ہوتا تھا تو اسے اٹھاتا اور والہانہ اظہار کرتا تھا۔ یا یہ کہ بدر میں مسلمانوں کی فتح کے بعد اس نے اپنی خوشی کا اظہار اس طرح کیا کہ بوسیدہ کپڑوں میں ملبوس زمین پر بیٹھ گیا، جو تواضع و انکسار اور اس فتح پر اللہ کے شکر کا اظہار تھا۔یا پھر اس وقت کا حال بیان کرتے تھے جب ابی سفیان کی صاحب زادی ’رمل‘ معروف بہ اُمِ حبیبہؓ کا نکاح ان کے شوہر کے انتقال کے بعد اللہ کے رسولؐ سے ہوا تھا۔ گویا مسلمان مہاجرین کی حالت محض ان لوگوں کی طرح نہیں تھی، جو ملک میں آکر بس گئے ہوں، بلکہ وہ ایک ایسے گروہ میں تبدیل ہو گئے تھے جسے نجاشی کا قرب حاصل تھا اور جو اس کے ساتھ گھل مل گئے تھے۔ رسولؐ اللہ اور نجاشی کے درمیان خط کتابت کا سلسلہ بھی قائم تھا۔ اسی میں سے ایک خط وہ ہے جو آپؐ نے اس کے پاس اسلام کی دعوت کی غرض سے ارسال فرمایا تھا، جس طرح ایران و بازنطین کے شاہان اور مصر کے مقوقس کے پاس بھیجا تھا۔
اسی طرح ان خطوط میں یہ خبر بھی تھی کہ نجاشی کو بغاوت کا سامنا کرنا پڑا تو اس نے اپنی فوج کو جمع کیا اور مسلمانوں کو کشتیوں پر سوار کرا کر انھیں یہ حکم دیا کہ اس کی شکست کی صورت میں یہاں سے ملک چھوڑ کر چلے جائیں تاکہ اس کا دشمن ملک پر قابض ہوجانے کے بعد انھیں نقصان نہ پہنچا سکے۔ جنگ طویل ہوئی تو مسلمانوں نے زبیر بن عوامؓ کو روانہ کیا کہ دریاکو تیر کر پار کریں اور نجاشی کی خبر لے کر آئیں۔ وہ واپس آئے اور یہ خوش خبری سنائی کہ نجاشی کو فتح نصیب ہوئی ہے۔ قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ مؤرخین نے تکرار کے ساتھ یہ بات کہی ہے کہ نجاشی اسلام قبول کر چکا تھا اور اپنے اسلام کو اپنے آدمیوں سے چھپائے ہوئے تھا تاکہ وہ اس کے خلاف بغاوت نہ کردیں۔ مؤرخین نے یہ تک ذکر کیا ہے کہ جب رسولؐ اللہ تک وحی کے ذریعے نجاشی کی موت کی خبر پہنچی تو آپؐ نے اس کی غائبانہ طور پر نماز جنازہ ادا کی۔بہرحال، نجاشی کا ایسے پناہ گزینوں سے اظہارِ ہمدردی جو اس کے ہم مذہب نہ ہوں، ایک الگ چیز ہے اور اس کا اپنے دین سے علیحدگی اختیار کرنا ایک دوسری چیز ہے، جس کی بدولت اسے بعض خطرناک نتائج کا سامنا کرنا پڑ سکتا تھا۔ یہ چیزاس روایت کی نفی کرتی ہے کہ نجاشی کی وفات اپنے قبولِ اسلام کا اعلان کرنے کے لیے مدینہ کی طرف سفر کے دوران راستے میں ہوئی تھی۔
اسی طرح ایک نتیجہ یہ بھی اخذ کیا جا سکتا ہے کہ مسلمان ہجرت کے اس مقام پر کوئی قیدی یا پابند نہیں تھے، بلکہ اہلِ حبشہ کے ساتھ مل جل کر رہ رہے تھے۔ اور لوگ ان سے مذہبی معاملات میں بحث و مباحثہ بھی کیا کرتے تھے۔ کیوں کہ ایک مہاجر جن کا نام عبید اللہ بن جحش تھا اور وہ اُمِ حبیبہ کے شوہر بھی تھے، بعض پادریوں سے مذہبی معاملات میں ان سے مباحثہ کیا کرتے تھے۔ بعد میں انھوں نے مسیحیت کو قبول کر لیا تھا۔ اس واقعے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ کسی نہ کسی شکل میں وہ ایک دوسرے پر اثر انداز ہو رہے تھے۔
اسی طرح بعض مؤرخین ، مثلاً ابن اسحاق نے ان افراد کی فہرست تیار کی ہے، جن کی پیدائش یا وفات حبشہ میں ہوئی تھی اور وہیں دفنائے گئے تھے۔ اس لیے کہ یہ باور کرنا مشکل ہے کہ کچھ لوگ کسی افرادِ قوم کے درمیان ۱۲ برس گزاریں ، لیکن ان سے کنارہ کشی اختیار کیے رہیں۔ اسی طرح ایک سوال یہ رہ جاتا ہے کہ بیش تر مہاجرین کی واپسی ہجرتِ مدینہ کے ساتویں برس تک مؤخر کیوں رہی؟ یہ تمام لوگ بھی ان لوگوں کے ساتھ ہی کیوں نہیں مل گئے، جنھوں نے (حضرت عثمان بن عفانؓ، حضرت مصعب بن عمیر ؓاور حضرت زبیر بن عوام ؓ)اپنا ’دارِہجرت‘ تبدیل کرکے مدینہ کو دارِ ہجرت بنا لیا تھا۔ اس کا منطقی جواب شاید یہی ہو کہ رسولؐ اللہ نے یہ محسوس کر لیا تھا کہ غزوۂ احزاب کی طرح اگر مسلمانوں کی دشمن طاقتوں کو متحد ہو کراچانک حملہ آور ہونے اور مدینہ میں ان کے خلاف جنگ کرنے کا موقع مل گیا تو مسلمانوں کے لیے ایک ایسا ’خارجی پشت پناہ‘ باقی رہےجہاں، وہ پناہ لے سکیں۔ اور واقعتاً حبشہ کا آخری مہاجر اس وقت تک واپس نہیں آیا تھا جب تک فتح خیبر کا واقعہ پیش نہیں آگیا اور مسلمان مؤثر قوت و طاقت میں تبدیل نہیں ہو گئے۔