علامہ اقبال کے بقول: ’’جمہوریت وہ طرزِ حکومت ہے کہ جس میں، بندو ں کو گنا کرتے ہیں، تولا نہیں کرتے‘‘، یعنی عددی طاقت کے بل پر حکومتیں وجود میں آتی ہیں اور اکثریتی آبادی کو حق خود اختیاری کا احساس دلا کر ملک کو استحکام فراہم کرتی ہیں۔خود اس جمہوری ڈرامے کو بے اثر کرنے کے لیے دنیا کے ملکوں میں مخصوص گروپ، پارٹیوں کی اندرونی جمہوریت کا جنازہ نکال کر سیاست پر اجارہ داری قائم رکھنے کی روایت برقرار رکھے ہوئے ہیں۔
تاہم، دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہلانے والے بھارت نے حال ہی میں مسلم اکثریتی خطے جموں و کشمیر میں فرقہ وارانہ تعصب پر مبنی چالاکی اور دھوکا دہی (Gerrymandering)کا سہارا لیتے ہوئے جس طرح پارلیمانی اور اسمبلی حلقوں کی حد بندیوں کا اعلان کیا ہے ، اس کی واحد مثال دنیا میں جنوبی افریقہ کے سابق نسل پرستانہ نظام میں ملتی ہے، جہاں جمہوری اداروں کے ہوتے ہوئے بھی اکثریتی سیاہ فام آبادی کو بے وزن اور بے اختیار بنا دیا گیا تھا۔ جموں و کشمیر میں طاقت کے سبھی اداروں ، عدلیہ، افسر شاہی اور پولیس میں اکثریتی آبادی کی نمایندگی پہلے سے ہی برائے نام ہے، وہاں ایک موہوم سی اُمید سیاسی میدان یا اسمبلی میں نمایندگی پر ٹکی ہوتی تھی، جس پر اب نئی دہلی حکومت کے حلقہ بندی حملے سے ایک کاری ضرب پڑ چکی ہے۔ اس اقدام کے بعد شاید نئی دہلی کے حکمرانوں کو جموں و کشمیر میں میر صادقوں یا میرجعفروں کو پالنے کی بھی اب ضرورت نہیں پڑے گی، کیونکہ ’چالاکی اور دھوکے‘ کے اس نظام کے ذریعے اب وہ خود ہی اقتدار اور عوام کی تقدیر کے مالک ہوں گے۔
۵؍اگست ۲۰۱۹ء کو جموں و کشمیر کے سیاسی و انتظامی وجود کو تحلیل کرنے کے بعد بھارتی حکومت نے جسٹس رنجنا ڈیسائی کی قیادت میں حد بندی کمیشن تشکیل دیا اور اسے سیٹوں کی نئی حد بندی کا کام تفویض کیا۔
دنیا بھر میںانتخابی حد بندی کے لیے آبادی اور جغرافیائی حقیقتوں کو مدنظر رکھ کرنشستوں کا تعین کیا جاتا ہے، مگر چونکہ کشمیر کی مثال ہی انوکھی ہے، اس لیے آبادی اور جغرافیائی حقیقتوں کے ان دونوں معیارات کو پس پشت ڈال کر فرقہ وارانہ بنیاوں پر اور ہندو اکثریتی جموں خطے کو بااختیار بناکر، ایک مخصوص سیاسی پارٹی کو فائدہ پہنچانے کے عمل کو مستحکم کیا گیا ہے۔ کمیشن میں ہندو نسل پرست بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے نمایندے جیتندر سنگھ نے پہلے تو آبادی کے بجائے جغرافیہ کو معیار بنانے کی ضد کی تھی، کیونکہ آبادی کے لحاظ سے اگرچہ وادیٔ کشمیر کو برتری حاصل ہے، تاہم جغرافیے کے لحاظ سے جموں خطے کا رقبہ زیادہ ہے۔ مگر بعد میں ان کو خیال آیا کہ جغرافیہ کا معیار ان کے اپنے مفادات پر پورا نہیں اترتا ہے ، کیونکہ جموں خطے میں جغرافیہ کے لحاظ سے اس کے دومسلم اکثریتی ذیلی علاقوں پیر پنچال اور چناب ویلی کا رقبہ ہندو اکثریتی توی خطے سے زیادہ ہے۔ ان خطوں میں مسلم آبادی کا تناسب بالترتیب۷۴ء۵۲ فی صد اور ۵۹ء۹۷ فی صد ہے۔
’حد بندی کمیشن‘ نے اپنی رپورٹ میں جموں کے لیے ۶ سیٹیں بڑھانے اور کشمیر کے لیے محض ایک نشست بڑھانے کی سفارش کی ہے۔ اب نئی اسمبلی میں وادیٔ کشمیر کی ۴۷ اور جموں کی ۴۳سیٹیںہوں گی۔ان نشستوں میں ۱۶ محفوظ نشستیں ہوں گی۔ نچلی ذات کے ہندوؤں، یعنی دلتوں یا شیڈیولڈ کاسٹ کے لیے ۷؍ اور قبائلیوں، یعنی گوجر، بکروال طبقے کے لیے ۹سیٹیں مخصوص ہوں گی۔ اس سے قبل کشمیر کے پاس ۴۶ اور جموں کے پاس ۳۷سیٹیں تھیں۔ وادیٔ کشمیر کی سیٹیں اس لیے زیادہ تھیں کیونکہ ۲۰۱۱ءکی سرکاری مردم شماری کے مطابق اس کی آبادی ۶۸ء۸لاکھ تھی، جب کہ جموں خطے کی آبادی ۵۳ء۷ لاکھ ریکارڈ کی گئی تھی، یعنی کشمیر کی آبادی جموں سے ۱۳لاکھ زیادہ تھی۔ جس کی وجہ سے اسمبلی میں اس کے پاس جموں کے مقابلے ۹ سیٹیں زیادہ تھیں، جب کہ اصولاً یہ فرق ۱۲سیٹوں کا ہونا چاہیے تھا۔ کیونکہ کشمیر میں اوسطاً ایک لاکھ ۵۰ ہزار نفوس پر ایک اسمبلی حلقہ ترتیب دیا گیا تھا،جب کہ جمو ں کے اسمبلی حلقوں کی اوسطاً آبادی ایک لاکھ ۴۵ ہزار رکھی گئی تھی۔
پچھلی اسمبلی میں بھی مسلم آبادی کی نمایندگی جو آبادی کے اعتبار سے ۶۸ء۳۱ فی صد ہونی چاہیے تھی، ۶۶ء۶۶ فی صد تھی،جب کہ ہندو نمایندگی ، جو ۲۸ء۴۳ فی صد ہونی چاہیے تھی، ۳۱فی صد تھی۔ اب وادیٔ کشمیر میں ۱ء۴۶ لاکھ کی آبادی پر ایک ممبر اسمبلی اور جموں میں ۱ء۲۵ لاکھ کی آبادی پر ایک ممبر اسمبلی ہوگا۔ فرق کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جموں کے مسلم اکثریتی ذیلی پیرپنچال خطہ میں ۱ء۴۰ لاکھ کی آبادی پر ایک ممبر اسمبلی، جب کہ ہندو اکثریتی جموں۔ توی خطے میں ۱ء۲۵ لاکھ آبادی پر ایک ممبر اسمبلی ہوگا۔ یعنی وادی کشمیر کا ایک ووٹ جموں کے ۰ء۸ ووٹ کے برابر ہوگا۔
جمہوریت کی اس نئی شکل میں بندو ں کو گننے کے بجائے تولنے کا کام کیا گیا ہے اور ان کے مذہب اور نسل کو مدنظر رکھ کر ان کے ووٹ کو وزن دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ پیر پنچال کی ۸ میں سے ۵ سیٹوں کو گوجر آبادی کے لیے مخصوص کردیا گیا ہے۔ اس خطے میں چونکہ پہاڑی آبادی کثیرتعداد میں آباد ہے، اس لیے یہ قدم مستقل طور پر ان دونوں مسلم برادریوں کے درمیان تنازع کا باعث ہوگا۔ قانونی طور پر گوجر وں کو شیڈولڈ قبائل کا درجہ دیا گیا ہے، مگر انھی علاقوں میں انھی جیسے غربت اور پسماندگی کے شکار پہاڑی طبقے کو اس سے آزاد رکھا گیا ہے۔
اس کے علاوہ ’حدبندی کمیشن‘ نے سفارش کی ہے کہ ۱۹۹۰ء میں کشمیر سے ہجرت کر چکے کشمیری پنڈتوں، یعنی ہندوؤں کے لیے دو نشستیں محفوظ کی جائیںگی۔جس میں ایک کے لیے لازماً پنڈت خاتون ہونی چاہیے۔ ان دو نشستوں کے لیے انتخابات کے بعد نئی حکومت ممبر نامزد کرے گی۔ اسی طرح دہلی ، ہریانہ، پنجاب اور جموں میں بسنے کے لیے ۱۹۴۷ءمیں تقسیم ہند کے وقت جو مہاجرین، پاکستان کے زیر انتظام خطوں یا آزاد کشمیر سے آئے تھے، ان کے لیے بھی سیٹیں مخصوص کرنے اور امیدوار نامزد کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔ مگر ان کے لیے تعداد کا تعین حکومت پر چھوڑا گیا ہے ۔ ان دونوں زمروں میں آنے والے اُمیدوار اگرچہ نامزد ہوں گے، مگر ان کو قانون سازی اور حکومت سازی کے لیے ووٹنگ کے برابر حقوق حاصل ہوں گے۔ گو کہ حکومتیں، قانون ساز ایوانوں میں امیدوار نامزد کرتی ہیں، مگر وہ ووٹنگ کے حق سے محروم ہوتے ہیں۔عام طور پر حکومت سازی کے لیے ووٹنگ کا حق براہِ راست انتخاب کے ذریعے منتخب امیدواروں کو ہی حاصل ہوتا ہے۔
ذرائع کے مطابق ۱۹۴۷ءکے مہاجرین کے لیے ۴ سے ۵ نشستیں مخصوص ہوسکتی ہیں۔ چونکہ پنڈتوں اور مہاجرین کے لیے مخصوص نشستیں ۹۰سے اوپر ہیں، اس لیے ان کے لیے جولائی میں پارلیمان کے مون سون اجلاس میں قانون سازی کی جائے گی۔ اس طرح ۹۶ یا ۹۷رکنی ایوان میں جموں یا ہندو حلقوں کی نشستیں ۴۹یا ۵۱تک ہوں گی۔ بتایا جاتا ہے کہ مہاجرین کی یہ نشستیں پاکستانی زیرانتظام یا آزاد کشمیر کی اسمبلی کی طرح ہوں گی، جہاں ۱۲نشستیں مہاجروں کے لیے مخصوص ہیں، جو اس علاقے سے باہر پاکستان میں آبادہیں۔
اسمبلی حلقوں کو ترتیب دیتے ہوئے حدبندی کمیشن نے جموں اور کشمیر کے خطو ں کی الگ الگ کلچرل اور مذ ہبی خصوصیات کو مدنظر رکھ کر سفارشات کی ہیں۔ مگر جب پارلیمانی سیٹوں کا معاملہ آگیا، تو کمیشن نے یکایک یہ فیصلہ کیا کہ پورے جموں و کشمیر کو ایک اکائی مانا جائے گا۔ یہ حیرت انگیز فیصلہ کرتے ہوئے جنوبی کشمیر، یعنی اننت ناگ یا اسلام آباد کی سیٹ کو جموں کے پونچھ -راجوری علاقے سے جوڑا گیا ہے۔ مسلم اکثریتی گوجر ۔پہاڑی طبقات کی آبادی پر مشتمل یہ علاقہ جموں-توی سیٹ سے منسلک ہوتا تھا اور بی جے پی کا امیدوار اس علاقے سے ہارتا تھا۔ اس فیصلے سے حکومت نے ایک تیر سے کئی شکار کیے ہیں۔
دراصل پرانے زمانے سے ہی وادیٔ کشمیر بھی تین خطوں پر مشتمل ایک علاقہ ہے۔ ایک طرح سے یہ تین صوبے ہوتے تھے۔ ان میں:
’مراز‘ یعنی جنوبی کشمیر (اننت ناگ، پلوامہ ، شوپیان)
’یمراز‘ یعنی وسطی کشمیر، جس میں سرینگر، بڈگام وغیرہ کا علاقہ شامل ہے اور
’کمراز‘ یعنی شمالی کشمیر (بارہمولہ، سوپور، کپواڑہ) کے علاقے شامل ہیں___
یہ اپنی ایک جداگانہ شناخت رکھتے ہیں۔ اس لیے سیاسی لحاظ سے بھی اکثر مختلف طریقوں سے وقتاً فوقتاً اپنے آپ کو ظاہر کرتے ہیں۔ ان میں ’مراز‘ یعنی جنوبی کشمیر واحد خطہ ہے، جو صد فی صد کشمیر نسل کی نمایندگی کرتا ہے۔ اسی لیے چاہے ۱۹۷۹ءمیںپاکستانی لیڈر ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی پر ردعمل ہو،یا ۱۹۸۷ء کا ’مسلم یونائیٹڈ فرنٹ‘ (MUF) کا الیکشن ہو، یا ۲۰۰۲ء سے ۲۰۱۴ءکے انتخابات ہوں،یا برہان وانی کی ہلاکت کا معاملہ ہو، یہ خطہ بس ایک آواز میں متحداور متحرک ہوکر ایک طرف ہوجاتا ہے۔ دیگر د و خطے ’یمراز‘ یا ’کمراز‘ مختلف النسل کے افراد گوجر، بکروال، پہاڑی اور کشمیری نسل کے مشترکہ علاقے ہیں۔
لگتا ہے جنوبی کشمیر کو پونچھ- راجوری سے ملانے کا واحد مقصد اس کی کشمیری شناخت کو کمزور کرنا ہے۔یہ دونوں خطے صرف مغل روڈ کے ذریعے ایک دوسرے سے منسلک ہیں اور یہ رابطہ چھ ماہ تک بھاری برف باری کی وجہ سے بند رہتا ہے۔ اگر کبھی انتخابات اکتوبر اور مئی کے درمیان منعقد ہوتے ہیں، تو اس سیٹ پر قسمت آزمائی کرنے والے امیدواروں کو اننت ناگ سے پونچھ جانے کے لیے رام بن، ڈوڈہ، کشتواڑ، ادھم پوراور پھر جموں کے اضلاع سے ہوتے ہوئے تقریباً ۶۰۰کلومیٹر سے زائد پہاڑی اور دشوار گذار راستہ طے کرنے کے بعد اس پارلیمانی نشست کے دوسرے حصے میں انتخابی مہم چلانے کے لیے جا نا پڑے گا۔
اس کے علاوہ ’حدبندی کمیشن‘ نے۱۳نشستوں کے نام تبدیل کیے ہیں اور ۲۱کی سرحدیں اَز سر نو تشکیل دی ہیں۔ ان میںمرحوم سید علی گیلانی کے آبائی علاقے زینہ گیر کو سوپور سے علیحدہ کرکے رفیع آباد میں ضم کردیا ہے اور سنگرامہ حلقے کے تارزو علاقے کو سوپور میں ملادیا ہے۔ یہ ساری کارگزاری، مسلم آبادی کی عددی اور سیاسی قوت کی کمر توڑنے کے لیے کی گئی ہے۔
دنیا بھر میں شورش اورعدم استحکام کا مقابلہ کرنے کے لیے مقامی آبادی کو بااختیار بناتے ہوئے ان کا غصّہ ٹھنڈا کیا جاتا ہے، مگر کشمیر شاید واحد خطہ ہے، جہاں اکثریتی آباد ی کو دیوار کے ساتھ لگا کر امن و اما ن کے خواب دیکھے جا رہے ہیں۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ کشمیریو ں کی عزت نیلام کرکے ان کو اب اپنے ہی وطن میں اقلیت میں تبدیل کرنے اور بیگانہ بنانے کا ایک گھنائونا کھیل جاری ہے۔
کشمیر میں مسلمانوں کی نسل کشی کا عمل تو جاری ہے اور اب ’حدبندی کمیشن‘ نے اس عمل کو مزید آگے بڑھا دیا ہے۔جموں کشمیر کی جدید صحافت اور انگریزی اخبار کشمیر ٹائمز کے بانی آنجہانی وید بھسین ۱۹۴۷ءکے واقعات، اور جموں میں مسلمانوں کے قتل عام کے چشم دید گواہ تھے، جوقتل عام کو روکنے کے لیے بلراج پوری اور اوم صراف کے ہمراہ والی کشمیر مہاراجا ہری سنگھ کے محل پہنچے۔ وہ بتاتے تھے:’’ ہمیں جلد ہی وزیر اعظم مہرچند مہاجن کے رُوبرو لے جایا گیا۔ وہ اُلٹا ہمیں سمجھانے لگا کہ ہندو ہونے کے ناطے، ہمیں اسمبلی اور دیگر اداروں میں مسلمانوں کے برابر نشستوںکا مطالبہ کرنا چاہیے، کیونکہ اب جمہوری دور کا آغاز ہو چکا ہے۔ اور عددی قوت کے بل پر ہی اقتدار پر قبضہ برقرار رکھا جاسکتا ہے‘‘۔ اوم صراف نے جرأت کا مظاہر ہ کرتے ہوئے پوچھا:’’یہ آخر کس طرح ممکن ہے، جموں و کشمیر تو ایک مسلم اکثریتی ریاست ہے؟‘‘ اس پر مہاجن نے محل کی دیوار سے متصل کھائی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: ’’بالکل اس طرح‘‘۔ جب ہم نے بغور دیکھا تو چند مسلم گوجروں کی بے گور و کفن لاشیں نظر آئیں، جو شاید صبح سویرے محل میں دودھ دینے آئے تھے‘‘۔ـ بقول وید جی، ’’ہری چند مہاجن ریاست کی آبادی کا فرقہ وارانہ پروفائل تبدیل کرنے پر مصر تھا‘‘۔
۲۰۲۲ء میں یہ خواب ’حد بندی کمیشن‘ کی رپورٹ نے تقریباً پورا کرکے کشمیری مسلمانوں کو ۱۹۴۷ءسے پہلے والی پوزیشن میں دھکیل کر سیاسی یتیمی اور بے وزنی کی علامت بناکر رکھ دیاہے۔ جب خونیں سرحد کے پار سیاسی اور سفارتی مدد دینے کا دعویٰ کرنے والا وکیل بھی اپنے ہی گرداب میں پھنسا ہو، تو اس صورت حال پر نوحہ خوانی کے علاوہ اور کیا کیا جاسکتا ہے!