س: شام میں انقلابی تحریک کے آغاز کے بارے میں کچھ بتایئے؟
ج:عرب دُنیا کے لوگ چاہتے تھے کہ ملک پر مسلط ظالمانہ نظام حکومت کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ یہاں شام میں بھی صورتِ حال بالکل ویسی ہی تھی جیسی ’عرب بہار‘ کے بعد خطے کے دیگر عرب اور مسلم ملکوں میں تھی۔ مصر اور تیونس میں عوامی ضربوں سے جوں جوں آمریت کا بت چکنا چور ہو رہا تھا، توں توں ہمارے ہاں بھی توقعات اور اُمیدیں بڑھتی جا رہی تھیں۔
شامی انقلاب کسی کی منصوبہ سازی کا حصہ نہیں تھا بلکہ یہ برسوں سے جمع ہونے والے اس عوامی غم و غصے کا مظہر تھا جو آخرکار بشار الاسد کے دورِ حکومت میں پھٹ پڑا۔ ہم روزانہ کی بنیاد پر ہونے والے ان مظاہروں کو دیکھ رہے تھے اور جمعہ کے جمعہ ہونے والے مظاہرے بھی ہمارےسامنے تھے۔ یہ مظاہرے اپنے حجم اور تعداد کے لحاظ سے بڑھتے چلے جارہے تھے اور ملک کے ہر ہرشہر اور قریے میں ہو رہے تھے۔ بڑے شہروں میں بلامبالغہ اگر لاکھوں نہیں تو ہزاروں مظاہرین ضرور جمع ہوتے رہے تھے۔آپ ذہن میں رکھیں کہ یہ وہ ملک ہے جہاں چالیس پچاس برسوں سے چارآدمیوں کے اکٹھے ہونے پر بھی پابندی چلی آرہی تھی، وہاں ہزاروں لوگوں کا جمع ہونا بہت بڑی بات تھی۔ ہمیں بہرحال یہ ڈر تھا کہ قوم کسی دلدل میں نہ پھنس جائے۔ ملک پر مسلط آمریت کوئی عام طرح کی آمریت نہیں تھی بلکہ یہ تو اجتماعی قتل عام اور انسانی نسل کشی جیسے ظالمانہ ہتھکنڈوں سے نہ کترانے والی آمریت تھی
اس جنگ اور تباہی کے بعد کیا ایک بار پھر بشارالاسد شام کو متحد کر پائیں گے؟
شام ایک تھااور ضروری ہے کہ ایک ہی رہے، لیکن خون کی گہری خلیج حائل ہوجانے اور اعتماد کی دیوار ڈھے جانے کے بعد اب شام کی سالمیت کا انحصار صرف اور صرف بشار الاسد کے ظالمانہ نظام کے خاتمے اور اس کے لائے ہوئے دو قبضہ گیر ملکوں کے انخلا سے ہی ممکن ہے۔
شام کے پاس تہذیب و تمدن کے سارے اساسی عناصر موجود ہیں۔ یہ قوم اللہ کے حکم سے وطن عزیز کے لیے مشترکات پرمشتمل پروگرام کے ساتھ ایک ایسا وطن بناسکتی ہے، جو آزادی اور عدل کے دائمی اور سنہرے اصولوں پر قائم ہو۔
شامی قوم انقلاب سے بے زار ہو چکی ہے یا اب بھی انقلاب کی متمنی ہے؟
اہلِ شام کے لیے انقلاب کے اس راستے کو ترک کر دینا ممکن نہیں ہے جس نے ان میں آزادی اور عزّت مندی کی اُمنگ جگائی ہے۔ وہ اس ظالم و فاجر نظام حکمرانی سے بے زار ہے، جس نے اسے گہرے زخم اور چرکے لگائے ہیں، انھیں دردناک عذاب سے دوچار کیا ہے۔اس استبدادی نظام سے بیزار ہے جواپنا استبدادی شکنجہ مضبوط کرنے کے لیے دوسری قوموں کو ان پر چڑھا لایاہے۔ جس کی وجہ سے شام جو کبھی تہذیب و تمدن کا روشن منارہ تھا، اب ناکام ترین ریاست اور دوسروں کا دم چھلابن کر رہ گیا ہے۔ انسانی حقوق کا مسئلہ ہو یا سیاسی آزادیوں اور معاشی تحفظ کا، ہر ہر حوالے سے شام آج ایک ناکام ترین ریاست کادرجہ رکھتا ہے۔وہ لوگ جو آج کہہ رہے ہیں کہ ہم عیش و عشرت کی زندگی گزار رہے تھے، دراصل یہ لوگ ذلت اور غلامی کے قائل تھے اور ہیں۔ یہ لوگ ایسی حالت میں جی رہے ہیں کہ انھیں بحران کا اندازہ ہی نہیں ہے۔
بعض یورپی ملکوں میں بھی بشارالاسد کے فوجیوں کے خلاف جنگی جرائم کے مقدمات چل رہے ہیں۔ کیا بشارالاسد کا نظام ختم ہوسکے گا؟
شامی بریگیڈیئر انوررسلان کے خلاف جرمنی کی عدالت میں انسانیت کے خلاف جرائم کا ارتکاب ثابت ہوچکا ہے اور اسے عمر قید کی سزا دی گئی ہے۔ بشارالاسد کی فوج کا یہ افسر انٹیلی جنس یونٹ کی ۲۵۱ بریگیڈمیں خدمات انجام دیتا رہا ہے۔اس مقدمے میں مجرم کو ملنے والی سزا صرف اس کے لیے نہیں بلکہ بشار الاسد کے پورے نظام کے لیے کلنک کاٹیکہ ہے۔بالآخر بشار کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑے ہو کر ان سارے جرائم کا حساب دینا پڑے گا۔
اس منظرنامے میں ترکی کا کیا کردار ہے اور اہلِ شام ترکی کے کردار کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟
شامی انقلاب کے لیے ترکی کا وجود گویا انسانی جسم میں موجود پھیپھڑوں کی طرح ہے جہاں انقلاب کے حامیوں کو کچھ سانس لینے کی مہلت مل جاتی ہے۔ ترکی ہمارا پڑوسی اور دوست ملک ہے۔ ہماری طویل مشترک سرحد اور ہماری مشترک تاریخ ہے۔ شامیوں کے لیے مشکلات کے اس دور میں ترکی کا کردار بڑا مثبت رہا ہے۔ ترکی نے شامی قوم کی مدد کے لیے بڑا بوجھ اور دباؤ برداشت کیا ہے اورہماری بڑی مدد کی ہے۔ موجودہ مشکل حالات، دُکھ اور الم کی ان گھڑیوں میں ہمارے ساتھ کھڑا رہا ہے۔ بشارکے ظلم و ستم کے مارے ہوئے لوگ جان بچا کر بھاگے تو ترکی نے ان بے آسرا لوگوں کے لیے اپنی سرحدیں کھول دیں۔ اپنے ہسپتالوں اور اپنے اسکولوں کے دروازے ان پر وا کر دیے۔ ان کی ہر ممکن مدد کی۔ اسی طرح بشار الاسد کی استبدادی حکومت کے پنجے سے آزاد کرائے جانے والے علاقوں میں بھی ترکی نے پہنچ کر خیمہ بستیاں بسانے، عارضی ہسپتال قائم کرنے اور محفوظ علاقے قائم کرنے میں بہت مدد کی۔ بشارالاسد کے درندوں اور ایرانی ملیشیا کو ان علاقوں میں آگے بڑھنے سے روک دیا اور لاکھوں شامی باشندے جن کی زندگیاں داؤ پر لگ چکی تھیں، انھیں جلاوطنی،دربدری اور قتل و غارت گری سے بچا لیا۔
کیا عرب ملکوں نے بھی اس عوامی شامی انقلاب کی کچھ مدد کی؟
اس سوال کا جواب تفصیل طلب ہے۔ انقلاب کے بالکل ابتدائی برسوں میں عرب ممالک کا موقف عموماً بہت مثبت تھا۔ اگرچہ انقلابی قوتوں کی توقعات سے یہ کہیں کم تھا۔ تاہم، سیاسی و اخلاقی تائید فراہم کی اور بشار الاسد کے ظلم و استبداد کی کھلے عام مذمت بھی کی۔ تقریباً سبھی عرب ملکوں کا یہی موقف تھا اور اس موقف سے انحراف کرنے والے ممالک صرف وہ تھے جن کے مفادات کے ڈانڈے ایران کے ساتھ جڑے تھے۔یقینا بشارالاسد کی حکومت کے ساتھ کسی قسم کے تعلقات رکھنا یا بنانا گویا کہ شامی قوم کے ساتھ اس کے ظلم و جور کو جواز فراہم کرنا ہے۔ ہم ان تمام عرب اور غیر عرب ممالک کا شکریہ ادا کرتے ہیں جو ثابت قدمی سے ایک عادلانہ موقف پر قائم ہیں۔
اس ضمن میں اقوام متحدہ کردار کیا رہا ہے؟
اقوام متحدہ کا کردار نہایت شرمناک رہا ہے۔ سلامتی کونسل میں روس اور چین ویٹو کا استعمال کرتے رہے اور شام میں جاری قتل عام کواقوام متحدہ روکنے میں مکمل طور پر ناکام رہا ہے۔
ایک عشرہ گزر جانے کے بعد بشار حکومت کو ایک ہمسایہ ملک کی فوجی امداد اور صلاح کاری کو کس طرح دیکھتے ہیں؟
بدقسمتی سے اس ملک نے انقلاب کے اوّل روز سے ہی شام میں مداخلت شروع کر دی تھی بلکہ ظلم و ستم میں بشار اور اس کے فوجی گماشتوں کی عملی مدد جاری رکھی۔ یہ چیز شامی عوام کے سینے میں پیوست خنجر کی طرح ہمیشہ کسک دیتی رہے گی۔
شامی لوگ اپنے ہاں روس کی موجودگی پر کیا سمجھتے ہیں؟
عوامی انقلاب کو دبانے اور بشارالاسد کی ڈوبتی کشتی کو بچانے میں، اور شام کے اکثر و بیشتر وسائل کو لوٹنے کے عمل کی وجہ سے شامی عوام روس کو ایک قابض ریاست کے طور پر دیکھتے ہیں، جس نے شام کی نہتی شہری آبادیوں کے خلاف لاکھوں جرائم کا ارتکاب کیا ہے۔ ہسپتالوں پر بمباری کی ہے، اسکولوں کو نشانہ بنایا ہے، روٹی اور غلے کے گوداموں کوتباہ کیا ہے۔ اس کے ظلم و ستم اور وحشیانہ بمباری سے مہاجروں کی خیمہ بستیاں بھی نہیں بچ سکیں۔ روس نے اپنا ہر طرح کا مہلک اسلحہ نہتے شامی عوام کے قتل عام کے لیے بے دریغ استعمال کیا ہے۔
کیا شام میں روسی موجودگی سے نجات ممکن ہے ؟
بشار الاسد نے ہم پر دو بیرونی ملکوں کا وحشیانہ تسلط قائم کیا ہے، اور یہ صرف اس لیے کہ کسی طرح اس کا اقتدار بچا رہے۔ بشارالاسد حکومت قانونی جواز سے محروم ہے۔ شامی عوام اپنے حق دفاعِ وطن اور بیرونی تسلط سے چھٹکارے کے جائز حق پر قائم ہیں۔
کیا شام کے مسئلے کا سیاسی حل ممکن ہے؟
عالمی رہنماؤں کے اکثر بیانات تو اسی طرح سامنے آتے رہے ہیں کہ شام کے مسئلے کا حل سیاسی ہے اور ہم بھی اس کا سیاسی حل ہی چاہتے ہیں۔ اسی لیے ہمارا خیال ہے کہ یقینا اس کے نتیجے میں ہی سیاسی حل نکل پائے گا اور شام مزید انتشار اور خون خرابے سے بچ سکے گا۔