نصابی کتابوں سے ’مغل اور مسلم تاریخ کا صفایا‘ کردیاگیا!
مودی اور بی جے پی کی حکومت کے اس عمل کو محض’ تاریخ کا بھگوا کرن‘ کہنا درست نہیں ہے اور نہ اسے ’تعلیمی پروپیگنڈا‘ کہنا، مکمل سچ ہے ۔ یہ عمل ’ صفائی‘ (cleansing) کا عمل ہے ، ’تطہیر‘ کا عمل ہے۔ اسے ایک مذہب اور ایک فرقے کی ’ نسل کشی ‘ بھی کہا جاسکتا ہے ۔ ظاہر ہے کہ جس کی تاریخ کا صفایا کردیا جائے گا ، اس کی نسل کہاں باقی رہ سکے گی؟
ابھی یہ خبر آئی ہے کہ بھارت کے’سینٹرل بورڈآف سیکنڈری ایجوکیشن‘ (CBSE) نے نصاب کی کتابوں سے افریقی، ایشیائی خطوں میں اسلامی مملکتوں کے پھلنے پھولنے اور قیام سے متعلق ابواب ہٹادیئے ہیں ، ساتھ ہی ساتھ بھارت میں مغل حکومت کے ابواب بھی نکال دیئے ہیں۔ مزید جو ابواب ہٹائے گئے ہیں ، وہ ’ناوابستہ تحریک‘ ’ سرد جنگ‘ اور ’ صنعتی انقلاب‘ سے متعلق ہیں۔ ایک حصہ مذہب ، فرقہ پرستی، سیاست اور سیکولر ریاست کا تھا ، اس حصے سے اردو کے مشہور شاعر فیض احمد فیض [م:۲۰نومبر ۱۹۸۴ء]کی نظموں تک کو ہٹادیاگیا ہے ۔
یہ ابواب ’تاریخ‘ اور ’ سیاست‘ کی نصابی کتابوں میں شامل تھے ۔ یہ تبدیلیاں مبینہ طور پر ’نیشنل کونسل آف ایجوکیشنل ریسرچ اینڈ ٹریننگ‘ (NCERT) کی تجاویز پر کی گئی ہیں ۔ ایسا نہیں ہے کہ صرف سی بی ایس ای کی نصابی کتابوں میں تبدیلیاں کی گئی ہیں ، صوبائی تعلیمی بورڈوں نے بھی نصابی کتابوں میں تبدیلیاں کی ہیں۔ ’مہاراشٹر اسٹیٹ ایجوکیشن بورڈ‘ نے ساتویں اور نویں جماعتوں کی ’تاریخ‘ کی نصابی کتابوں سے مغل دور کو حذف کیا اور درسی کتابوں میں ’ مراٹھا دور، بالخصوص شیواجی کے دور‘ کو مکمل طور پرشامل کیا ہے۔ مہاراشٹر کی تاریخ کی درسی کتابوں سے تاج محل ، قطب مینار اور لال قلعے کا تذکرہ مکمل طور پر غائب ہے ۔
سوال یہ ہے کہ یہ تبدیلیاں کس لیے ہیں ؟
اس سوال کا جواب مودی کی مرکزی اور بی جے پی کی صوبائی حکومتوں کے ’ اعمال ناموں‘ پر ایک نظر ڈال کر بخوبی ہوجاتا ہے ۔ اترپردیش کی مثال لے لیں ، وہاں جب سے یوگی آدتیہ ناتھ وزیراعلیٰ بنے ہیں، انھوں نے اُن تمام شہروں کے ناموں کو ، جو مسلم شناخت کو ظاہر کرتے تھے ، تبدیل کرنا ، یا حرفِ غلط کی طرح مٹانا شروع کردیا ہے ۔
اس ضمن میں مثال کے طور پر دیکھیے: ’فیض آباد‘ ضلع کا نام ’ایودھیا‘ کردیا گیا ہے ، ’الٰہ آباد‘ کا نام ’پریاگ راج‘ رکھ دیا گیا ہے ، ’مغل سرائے‘ ریلوے اسٹیشن کو ’دین دیال اپادھیائے‘ جنکشن کردیاگیا ہے ۔ ’علی گڑھ‘ کا نام ’ہری گڑھ‘ کرنے کی تیاری ہے، تاکہ اس طرح ’اکبرالٰہ آبادی‘ کو ’اکبر پریاگ راجی‘ پڑھا جائے، یا اسی طرح ’علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی‘ کو ’ہری گڑھ مسلم یونی ورسٹی‘ کردیا جائے گا۔ بی جے پی کے کئی لیڈروں نے یہ تجویز بھی پیش کی ہے کہ دہلی کے اطراف کے ۴۰دیہات کے نام تبدیل کردیئے جائیں۔ حال ہی میں جنوبی دہلی کے ’محمدپور‘نام کے ایک گاؤں کا نام تبدیل کرکے ’مادھو پورم‘ رکھا گیا ہے۔ اس کو بی جے پی اور سنگھی ایک بڑی کامیابی قرار دے رہے ہیں اور یہ مطالبہ کررہے ہیں کہ مزید ۴۰ گاؤں کے نام تبدیل کردیے جائیں۔ فہرست تیار کرلی گئی ہے اور جلد ہی ناموں کی تبدیلی کی تجویز، دہلی حکومت کو بھیج دی جائے گی ۔
دہلی بی جے پی کے صدر آدیش گپتا کا کہنا ہے کہ ’’یہ نام ’غلامی کی علامت ہیں‘ اور یہ کہ ’لوگ خود ان ناموں کی تبدیلی کے خواہاں ہیں‘‘ ۔ حالانکہ دہلی کی کیجری وال حکومت نے بی جے پی پر یہ کہہ کر تنقید کی ہے کہ ’’جب بی جے پی کارپوریشن پر خود حکومت کررہی تھی، تو اس وقت یہ نام کیوں تبدیل نہیں کیے گئے؟‘‘ لیکن اندازہ یہی ہے کہ ناموں کو تبدیل کردیا جائے گا ۔ ناموں کی تبدیلی کا یہ عمل ہراس ریاست میں ہورہا ہے جہاں بی جے پی کی حکومت ہے ۔ مہاراشٹر میں اگرچہ بی جے پی کی حکومت نہیں ہے،مگر شیوسینا ، جس کے سربراہ وزیراعلیٰ ادھو ٹھاکرے ہیں ،عرصۂ دراز سے ’اورنگ آباد‘ کا نام ’سمبھاجی نگر‘ کرنے کا مطالبہ کرتی چلی آرہی ہے۔ ممکن ہے کہ یہ مطالبہ پھر شدت اختیار کرے ، اور اس بار اسے مہاراشٹر نونرمان سینا کے سربراہ راج ٹھاکرے اور بی جے پی کے لیڈران اٹھائیں ۔
مسلم ناموں کی تبدیلی کے اس عمل کا مقصد کیا ہے ؟
ا س سوال کا جواب بہت ہی آسان ہے۔ اس سچ کو کہ اس ملک پر مسلمانوں نے تقریباً آٹھ سو سال حکومت کی اور مغلوں کی حکومت تین سوسال رہی، لوگوں کے حافظے سے نکال دیا جائے۔ لوگوں کے ذہنوں سے یہ بات کھرچ کر پھینک دی جائے کہ مسلم حکمرانوں نے:
خیر ، مسلم مجاہدین آزادی کے ناموں کا ، درسی ونصابی کتابوں سے ، نکالے جانے کا عمل تو بہت پہلے شروع ہوگیا تھا، اتنا پہلے کہ آج مسلمانوں کی جو نئی نسل ہے، اسے بھی یہ پتہ نہیں ہے کہ اس ملک کی آزادی کے لیے مسلمانوں کی قربانیاں کیا ہیں! انھیں یہ نہیں پتہ کہ مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر [م: ۷نومبر ۱۸۶۲ء]کو اس لیے رنگون میں قید کیا گیا تھا کہ وہ مجاہد آزادی تھے اور صرف قیدہی نہیں کیاگیا تھا ان کے دوبیٹوں کے سروں کو کاٹ کر طشت میں سجاکر ان کے سامنے پیش کیاگیا تھا۔ سچ یہی ہے کہ ہندستان کی آزادی کی کہانی اور تاریخ مسلمانوں کے خون سے لکھی گئی ہے۔
دہلی کے ’انڈیا گیٹ‘ پر ۹۵ہزار ۳۰۰ آزادی کے لیے جدوجہد کرنے والے حُریت پسندوں کے نام تحریر ہیں، جن میں سے۹۴ہزار ۵سو ۶۲ نام مسلم مجاہدین آزادی کے ہیں ۔ آزادی کی جدوجہد تو ۱۷۸۰ء میں ہی شروع ہوگئی تھی جب عظیم مجاہد آزادی ٹیپوسلطان [شہادت: ۴مئی ۱۷۹۹ء]نے انگریزوں سے ٹکر لی تھی۔ اب تو درسی اور نصابی کتابوں سے ٹیپو سلطان کا نام ہٹانے کی بھی تجویز آگئی ہے ، بلکہ کرناٹک میں جہاں بی جے پی کی حکومت ہے ، اس پر عمل شروع ہوچکا ہے ۔ہماری آج کی نسل نہ تو اشفاق اللہ [شہادت:۱۹دسمبر ۱۹۲۷ء]کو جانتی ہے ، نہ امیر حمزہ ، مولانا محمود حسن [م:۳۰نومبر ۱۹۲۰ء]، مولانا برکت اللہ بھوپالی [م: ۲۰ستمبر ۱۹۲۷ء]، مولانا کفایت اللہ [م:۳۱دسمبر ۱۹۵۲ء]کو ۔ حد تو یہ ہے کہ مولانا محمد علی جوہر [م:۴جنوری ۱۹۳۱ء]،مولانا حسرت موہانی [م:۱۳مئی ۱۹۵۱ء] اور مولانا ابوالکلام آزاد [م:۲۲فروری ۱۹۵۸ء]تک کو بھلا دیاگیا ہے۔ آنے والے دنوں میں تو یہ نام لوگوں کو قطعی یاد نہیں رہیں گے۔گویا جن کی ایک روشن تاریخ ہے، انھیں تاریخ سے حذف کیا جارہا ہے ، اور جن کی کوئی تاریخ نہیں ہے ، جیسے کہ ’سنگھ پریوار‘ ، جو نہ آزادی کی لڑائی میں شامل تھا اور نہ آزادی کی تحریک میں ، انھیں تاریخ میں شامل کیا جا رہاہے۔
ظاہر ہے کہ جس قوم کی تاریخ مٹادی جائے گی وہ قوم ازخود مٹ جائے گی ۔ آر ایس ایس اور بی جے پی کی مرکزی وصوبائی حکومتوں کے توسط سے یہی کوشش ہے کہ اس ملک کی مسلم تاریخ کو مٹادیا جائے ، تاکہ اس ملک کے مسلمان بغیر کسی تاریخ کے رہ جائیں ۔ یہ بھی ’ نسل کشی‘ (genocide) کا ہی ایک طریقہ ہے ۔ اس عمل کو آگے بڑھانے کے لیے گذشتہ ۹ برسوں سے تیز تر کوششیں جاری ہیں، اور آیندہ دو برسوں میں اس پر مکمل طور پر عمل درآمد کا منصوبہ ہے ۔ دوسال بعد ۲۷ستمبر ۲۰۲۵ء کو آر ایس ایس کے قیام کو پورے سوسال مکمل ہوجائیں گے۔ اس کے لیڈروں نے آزاد ، جمہوری، سیکولر بھارت کو ’ ہندوراشٹر‘ میں تبدیل کرنے کے لیے سوسال کی مدت طے کی تھی، لہٰذا سوسال ہوتے ہی اُن کے نزدیک یہ ملک مکمل’ ہندوراشٹر‘ میں تبدیل ہوجائے گا ۔ ہوسکتا ہے کہ ایسا نہ ہوسکے، لیکن ان کی پوری کوشش یہی ہے۔
۲۰۱۹ء میں ایک کتاب آئی تھی: The RSS Roadmaps for The 21st Century (اکیسویں صدی کے لیے آر ایس ایس کا منصوبہ) جسے روپا پبلی کیشنز نے شائع کیا۔ یہ کتاب سنیل امبیکر نے لکھی ہے ، جو سنگھ کے مرکزی ’ پرچارک‘ اور ’اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد‘(ABVP) ، بی جے پی کی طلبہ تنظیم کے آرگنائزنگ سکریٹری ہیں۔ اس کتاب میں ایک باب ’ بھارت کی تاریخ‘ کے عنوان سے ہے ۔ جس میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ ’’یہ جو تاریخ آج پڑھائی جاتی ہے، اس میں نہ ’سوتنترا‘ ( آزادی) ہے اور نہ ’سوادھرما‘ ( اپنا خود کا دھرم)۔ یہ تاریخ ’بھارتیتا‘ کے خلاف اور مسخ شدہ ہے ، لہٰذا اسے درست کرناہے۔اور’سنگھ پریوار‘ تاریخ کو ’ درست‘ کرنے کا مشن لے کر آگے بڑھ رہا ہے ‘‘۔ مزید یہ کہ : ’’ہندستانی تاریخ کو تحریر کرنے کا منصوبہ بڑا اہم ہے ، اور اس سوال پر غور ضروری ہے کہ ہماری اقدار کیا تھیں ؟‘‘ وہ سوشل ہسٹری‘ یعنی ’ سماجی تاریخ‘ کا ذکر کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ آر ایس ایس ’اکھل بھارتیہ اتہاس سنکلن یوجنا‘ کے تحت ، من پسند تاریخ کے سوال بنانے اور جواب دینے کے لیے مخصوص تاریخی منصوبوں پر کام کررہا ہے۔
یہ کام کیا ہے ؟’’مسخ شدہ بھارتی تاریخ کو درست کرنا‘‘ ہی ہے۔ اسے اگر میں ’’مسخ شدہ تاریخ کو مزید مسخ کرنا‘‘ کہوں تو شاید زیادہ درست ہوگا۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’’تعلیم کا بھارتیہ کرن کیا جائے گا‘ ‘۔ اس میں ’’پرواسی بیانیہ کی شمولیت ہوگی‘‘ اور ’’متعصبانہ تعبیرات کو حذف کردیا جائے گا‘‘۔ وہ رام مندر کی بھی بات کرتے ہیں اور نئے عجائب گھروں کی بھی، تاکہ ’’گم شدہ تاریخ کی بازیافت کی جاسکے ‘‘ ۔ تو یہ ہے منصوبہ ، اور سال۲۳-۲۰۲۲ء سے اس منصوبے پر عمل شروع ہورہا ہے ۔ ابھی تو درسی کتابوں سے مسلم اور مغل نام ہٹاکر فرقہ پرستی اور فرقہ وارانہ خلیج کو مزید وسیع کرنے کا خطرناک کھیل شروع ہوا ہے ، آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا!