کیا مسئلہ کشمیر ، یوں ہی سلگ سلگ کر، سامراجیت کی نذر ہوجائے گا؟
یہ اذیت ناک سوال جموں و کشمیر اور پاکستانی عوام کے سینے میں خنجر کی طرح پیوست ہے، اور ہرآنے والا دن اس کرب میں اضافہ کر رہا ہے۔ ایک طرف بھارت میں حکومت، فوج، حزبِ اختلاف تینوں ہی یکسوئی کے ساتھ، کشمیر میں انسانیت کے قتل پر قدم بہ قدم آگے بڑھ رہے ہیں، اور دوسری جانب پاکستان میں حکومت، حزبِ اختلاف اور فوج مسئلہ کشمیر کے حل کی جدوجہد کے لیے یکسو اور متحد دکھائی نہیں دیتے۔
اگر حالیہ تاریخ پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ گذشتہ برس فروری میں اچانک کمانڈروں کی سطح پر فائربندی کی یادداشت پر دستخطوں نے تو ہر کسی کو حیرت کی اتھاہ گہرائیوں میں دھکیل دیا تھا۔ جنگی صورتِ حال سے دوچار ملکوں کے درمیان ایسے سنگین معاملات حکومتی سطح پر طے کیے جاتے ہیں، لیکن یہاں پر عسکری سطح پہ مذاکرات اور معاملہ فہمی کی گئی۔
ہم نے اسی وقت خبردار کیا تھا کہ یہ محض بھارتی چال ہے، جس سے وہ پاکستان کے اندر غلط فہمی کو ہوا دے گا اور وقت گزاری کے بعد، برابر اپنے ایجنڈے پر نہ صرف قدم آگے بڑھائے گا بلکہ جب چاہے گا کشمیر میں قتل و غارت سے دریغ نہیں کرے گا۔ پھر ایسا ہی ہوا کہ،اپریل ۲۰۲۱ء کے بعد خاص منصوبے کے تحت انسانیت کی تذلیل پر مبنی نام نہاد سول اقدامات پر عمل جاری رہا۔ حتیٰ کہ اسی سال یکم ستمبر ۲۰۲۱ء کو جموں و کشمیر کے عظیم رہنما سیّد علی گیلانی صاحب کے انتقال کے موقعے پر بھارتی حکومت کی جانب سے بدترین ظلم و زیادتی کا ارتکاب کیا گیا ۔ گیلانی صاحب کی تجہیزو تدفین توپ و تفنگ کے زیرسایہ جبری طور پر من مانے طریقے سےکی گئی، اوراہلِ خانہ تک کو شرکت سے محروم رکھا گیا۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان فروری ۲۰۲۱ء کی نام نہاد ’فوجی معاملہ فہمی‘ کے صرف تین ماہ بعد پاکستان کے سپہ سالار صاحب نے بھارت کے ساتھ ’ماضی کو بھلا کر‘ معاملات میں آگے بڑھنے کا نظریہ (doctrine) پیش کیا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کون سے ’ماضی کو بھلا کر؟‘ یعنی یہ ماضی کہ: بھارت نے قیامِ پاکستان کے فوراً بعد اسے ناکام بنانے کے لیے ہر ہتھکنڈا استعمال کیا، اور بڑے پیمانے پر مسلسل پاکستان کی تخریب کا سامان کر رہا ہے، ۱۹۷۱ء میں پاکستان توڑا، پاکستان میں بار بار مداخلت اور تنگ نظر قوم پرستوں اور مذہبی انتہا پسندوں کے ہاتھوں دہشت گردی کرائی، افغانستان سے پاکستان کی تباہی کا سامان مہیا کیا اور جموں و کشمیر میں مسلسل قتل و غارت اور درندگی و بہیمیت کا ارتکاب کیا ہے اور مسلسل کیے جا رہا ہے۔ کوئی دن ایسا نہیں جاتا، جب معصوم کشمیری نوجوان شہید نہ ہورہے ہوں، اور کشمیر کی مسلم اکثریت کو اقلیت میں بدلنے اور اسے ہندو اکثریت کا ایک خطہ بنانے کےمذموم منصوبے پر عمل نہ ہورہا ہو۔
ہماری دانست میں بھارت سے تعلقات پر بات کرتے وقت یہی اذیت ناک ماضی سامنے آتا ہے۔ کیا یہ ماضی یک طرفہ طور پر بھلا دینا اور ان اسباب و علل کو نظرانداز کرنا کوئی واقعی سوچی سمجھی حکمت عملی اور دانش مندی ہے؟ پھر یہ کہ ریاست کے مستقبل سے منسوب معاملات کی پالیسی بنانا کیا عوام کے منتخب نمایندوں کا کام ہے یا طاقت کے کسی ایک یا دو مراکز کے پاس اس نوعیت کے ڈاکٹرائن پیش کرنے اور واپس لینے کا اختیار ہے؟ اسی طرح یہ بات واضح ہے کہ خود عمران خاں حکومت کا رویہ بھی مسئلہ کشمیر پر چند روایتی تقاریر اور بیانات تک محدود رہا ہے۔ ماضی کی حکومتوں کی طرح ان کی ’کشمیر کمیٹی‘ بھی نہایت نچلے درجے پر محض خانہ پُری اور بے عملی کی تصویر بنی رہی۔
اب جیسے ہی اپوزیشن پارٹیوں کی صورت میں شہباز شریف حکومت برسرِاقتدار آئی تو اُس نے کشمیر کے مسئلے کو اپنی توجہ کا اس طرح موضوع بنایا ہے کہ بھارت کے تمام منفی اقدامات کو نظرانداز کرکے، اس سے تجارتی تعلقات پروان چڑھانے کے لیے کمرشل اتاشی مقرر کرنے کا اعلان کردیا ہے۔ اگرچہ تنقید کے بعد حکومت کی جانب سے وضاحت کی گئی ہے کہ ’’اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ تجارتی تعلقات قائم کیے جارہے ہیں‘‘۔ اگر واقعی تجارتی تعلقات قائم نہیں کیے جارہے تو کمرشل اتاشی کیا سیاحت کے لیے دہلی بھیجے جارہے ہیں؟ تاہم، یہ وضاحت اقتدارو اختیار کے سرچشموں پر فائز افراد کی جانب سے عوام کو اندھیرے میں رکھنے کی ایک حرکت لگتی ہے۔ اس خدشے کی بنیاد ایک تو شریف حکمرانی میں بنیادی اُمور کو نظرانداز کرکے بھارت سے تعلقات بڑھاتے وقت بزعم خود معاشی پہلو کو مرکزیت دینا ہے اور دوسری طرف طاقت ور ادارے بھی وقتاً فوقتاً اس نوعیت کے خیالات کا اظہار کرتے آئے ہیں۔
چند لمحوں کے لیے یہ مان لیا جائے کہ بھارت سے تجارت کھول دی جائے، تو اس کے ساتھ یہ بات بھی یاد رہنی چاہیے کہ بھارت نے پاکستانی درآمدات پر دو سو فی صد ڈیوٹی عائد کر رکھی ہے۔ ماضی کے تجربات گواہ ہیں کہ بھارت کو پاکستانی برآمدات کا حجم، بھارت سے درآمدات کا صرف پانچواں حصہ رہا ہے، اور اس طرح ہم بھارت کی معاشی قوت کو بڑھانے کا ذریعہ بنتے رہے ہیں۔دوسرے یہ کہ اس پیش قدمی سے پاکستان کی گھریلو صنعت اور زراعت پر شدید منفی اثرات پڑیں گے، کیونکہ بھارت میں شعبہ زراعت سے متعلق طبقوں کو پانی اور بجلی کے سستے فلیٹ ریٹ پر فراہمی کے نتیجے میں پاکستان کے مقابلے میں بہت کم معاشی دبائو کا سامنا ہے۔ یہ حقائق نظرانداز کرکے بھلا ہمارے حکمت کار کس طرح دوطرفہ تجارت کے نام پہ، عملاً یک طرفہ تجارت کو پاکستان کے حق میں قرار دیتے ہیں؟ اس تمام پس منظر میں پاکستانی زرِمبادلہ کا بہائو بھارت ہی کے حق میں ہوگا، نہ کہ پاکستان کی جانب۔خیر، یہ تو جملہ معترضہ ہے، وگرنہ ہمارے نزدیک پاکستان اور بھارت کے درمیان اصل مسئلہ ، مسئلہ کشمیر ہی ہے۔ تجارت، تعلیم، ثقافت، ثانوی اُمور ہیں، جن کی بنیاد پر اصل مسئلے کو پس پشت نہیں ڈالا جاسکتا اور نہ قالین کے نیچے دھکیلا جاسکتا ہے۔
مسئلہ کشمیر ایک عالمی مسئلہ ہے، جو دو ملکوں کے درمیان زمین کا کوئی تنازعہ نہیں ہے، بلکہ ڈیڑھ دو کروڑ انسانوں کی زندگی، تہذیب اور حق خود ارادیت کا مسئلہ ہے۔ اس طرح جموں و کشمیر کسی بھی اصول کے تحت نہ بھارت کا حصہ ہے اور نہ اس کا اندرونی معاملہ ہے۔
مسئلہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی ۱۷ سے زیادہ قراردادیں، عالمی برادری کی فکرمندی کی گواہ ہیں، اور اس پس منظر میں دوایٹمی طاقتیں ہروقت جنگ کے دہانے پر کھڑی ہیں۔ خدانخواستہ معمولی سی بے احتیاطی پوری انسانیت کے مستقبل کو بربادی کے جہنّم میں دھکیل سکتی ہے۔ لیکن افسوس کا مقام ہے کہ بڑی طاقتیں محض بھارت کی مارکیٹ میں حصہ پانے سے دلچسپی رکھتی ہیں اور اپنے ایک ’پسندیدہ‘ ملک کے جرائم پر پردہ ڈال کر غیرانسانی اور غیراخلاقی جرم کا ارتکاب کررہی ہیں۔ اب رفتہ رفتہ پاکستان کی حکومتوں کی طرف سے بھی کچھ ایسے ہی اشارے مل رہے ہیں، جو انتہائی تشویش ناک ہیں۔
جموں و کشمیر کے مستقبل کا مسئلہ، تقسیم ہند کے طے شدہ ضابطے کے تحت، وہاں کے لوگوں کے حقِ خود ارادیت کا مسئلہ ہے، جسے بار بار اقوام متحدہ اور دیگر عالمی اداروں نے تسلیم کرتے ہوئے ، اقوام متحدہ کی نگرانی میں رائے شماری پر زور دیا ہے۔ ان تمام وعدوں اور اتفاق رائے کی بنیادوں پر یہ امر بالکل شفاف انداز سے سامنے آتاہے کہ مسئلہ کشمیر نہ تو وہاں بسنے والے لوگوں کے صرف انسانی حقوق کی پاس داری کا معاملہ ہے اور نہ داخلی سیاسی حقوق کے بندوبست کا کوئی معاملہ ہے۔ بلاشبہہ یہ تمام مسائل اپنی جگہ اہم اور حل طلب ہیں، لیکن اصل مسئلہ براہِ راست حقِ خود ارادیت کے نتیجے میں وہاں کے لوگوں کے مستقبل کا معاملہ ہے، جسے بھارتی حکومتیں بہت ڈھٹائی کے ساتھ ٹالتی چلی آرہی ہیں اور اس کے ساتھ وہاں بسنے والے مردوں، عورتوں اور بچوں پر انسانیت سوز مظالم کا ارتکاب کررہی ہیں۔
۵؍اگست ۲۰۱۹ء کو بھارت کی فسطائی حکومت نے عالمی سطح پر منظور کردہ حدود پامال کرتے ہوئے ایک غیر آئینی اقدام سے اس مسئلے کو مزید الجھا دیا ہے۔ اس طرح بھارتی دستور کی دفعہ ۳۷۰ اور ۳۵-اے کو ختم کر کے کشمیر کی مقامی آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنے کے مذموم عمل کا آغاز کر دیا ہے۔
برطانوی سامراجی حکومت کے زمانے سے جموں و کشمیر کے مسلمان ایک وحشیانہ ریاستی جبر کے تحت زندگی گزارنے پر مجبور تھے، اور جس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر وہاں سے نقل مکانی کرکے، امرتسر، سیالکوٹ، گجرات، راولپنڈی، گوجرانوالہ اور لاہور کی جانب مہاجرت پر مجبور کردیے گئے تھے۔ پھر اگست ۱۹۴۷ء میں بھارت اور پاکستان کی شکل میں دو ریاستیں وجود میں آنے کے فوراً بعد اکتوبر ۱۹۴۷ء میں جموں میں مسلمانوں کی بدترین نسل کشی کی گئی۔ پھر وقفے وقفے سے بھارتی ریاست نے جموں و کشمیر میں مسلم اکثریت کو پے درپے انسانیت سوز مظالم، عورتوں کی بے حُرمتی، قتل و غارت اور سالہاسال تک جیلوں اور عقوبت خانوں میں قید کرکے نوجوانوں کو مارڈالنے اور زندگی بھر کے لیے معذور بنادینے کا سلسلہ جاری رکھا ہے۔ اس کے نتیجے میں گذشتہ تین عشروں کے دوران ڈیڑھ لاکھ کے قریب لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔
یہ ایک طے شدہ اصول ہے کہ جہاں پر ناجائزقبضہ ہوگا، وہاں مزاحمت ہوگی۔ سامراجی اور غاصب قوتوں کے خلاف جدوجہد کرتے ہوئے آزادی حاصل کرنا، انسانیت کا بنیادی حق ہے، جسے کوئی سلب نہیں کرسکتا۔ آج دُنیا کے نقشے پر موجود دو سو ممالک میں ۱۵۵ سے زیادہ ملکوں نے اپنے حقِ خودارادیت کی بنیاد پر آزادی حاصل کی ہے۔ کہیں مذاکرات سے، کہیں انتخاب سے اور کہیں مسلح مزاحمت سے یہ منزل حاصل کی گئی ہے۔ خود مقبوضہ برطانوی ہند نے بھی انھی ذرائع کو استعمال کرکے برطانوی سامراج سے آزادی حاصل کی ہے، جسے کوئی فرد نہیں جھٹلا سکتا۔ اسی بنیاد پر کشمیر میں بھی مظلوموں کے ایک حصے نے قلم اور دلیل سے، دوسرے طبقے نے مکالمے اور سیاسی و سفارتی میدان میں، اور تیسرے حصے نے عملی مزاحمت کا راستہ اختیار کیا ہے۔ یہ تینوں راستے درست بھی ہیں اور ایک ہی منزل کی طرف بڑھنے کا سامان کرتے ہیں۔
یہ ایک ہمہ گیر اور مربوط جدوجہد ہے، جس میں عالمی ضمیر کو جگانے، ابلاغ عامہ کے اداروں کو جھنجھوڑنے اور حکمرانوں کی یادداشت کو تازہ رکھنے کے لیے پاکستانی حکومت کو مربوط کاوشیں کرنی چاہییں، نہ کہ زندگی اور موت کے اس مسئلے کو ابہام اور تضادات کے گرداب میں گم کرنے کا سامان!