یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ اسلامیانِ برعظیم نے تحریک پاکستان کی پرجوش تائید و حمایت اس مقصد سے کی تھی کہ وہ ایک آزاد و خودمختار مسلم مملکت ’پاکستان‘ میں اپنی انفرادی و اجتماعی زندگی اپنے دین و عقیدے کے مطابق گزار سکیں گے اور وہاں شریعت کے مطابق قوانین پاس ہوکر نافذ ہوں گے۔{ FR 986 } چنانچہ قیام پاکستان کی صورت میں انھیں عملاً اپنی اس آرزو کی تعبیر و تکمیل کا موقع میسر آگیا تھا۔ اب اس مملکت کی اسلامی تشکیل، یعنی اس کے دستوری و سیاسی، قانونی و عدالتی، تعلیمی و معاشرتی اور اقتصادی نظام کو اسلام کے اصول و تعلیمات کے مطابق ڈھالنے کا مرحلہ درپیش تھا۔ یہ کام آسان نہ تھا بلکہ حد درجہ دشوار تھا۔
محمد اسد کی نگاہ میں پاکستان کو حقیقی اسلامی ریاست بنانے کی راہ میں متعدد بڑی رکاوٹیں موجود تھیں، جن کا ازالہ کیے بغیر پاکستان کی اسلامی تشکیل کی طرف پیش رفت کسی طور پر ممکن نہ تھی۔ چنانچہ ان مشکلات کا تدارک بے حد ضروری تھا۔ اسد کی نگاہ میں پاکستان کو اسلامی نمونے پر ڈھالنے میں جو رکاوٹیں موجود تھیں، ان میں سب سے اہم مسلم عوام کی بھاری اکثریت کا اسلام کے حقیقی فہم و شعور سے عاری ہونا تھا۔ کیونکہ ’’صدیوں سے اسلام کی اصلی و حقیقی تعلیمات سے ان کا رشتہ منقطع ہوچکا تھا۔ وہ صدیوں سے اسلام کے نام پر توہمات اور لایعنی رسومات میں مبتلا چلے آرہے تھے۔ اسلام سے ان کا تعلق عقلی و شعوری نہیں بلکہ رسمی اور موروثی و پیدائشی تھا‘‘۔{ FR 987 }
اسد کا تجزیہ تھا کہ جدید مغربی نظام تعلیم جو برطانوی نوآبادیاتی نظام سے ورثے میں ملا تھا اپنی روح کے اعتبار سے اسلامی نظریۂ حیات سے متصادم تھا۔ لارڈ میکالے کا مرتب کردہ نظام تعلیم اسلامی معاشرہ و ریاست کی تشکیل میں ہرگز معاون نہیں ہوسکتا تھا بلکہ اس راہ میں بڑی رکاوٹ تھا۔ چنانچہ اس نظام کے بجائے اسلامی اصول و تصورات سے ہم آہنگ نظام تعلیم کی تشکیل بے حد ضروری تھی۔{ FR 988 } اسد کے نزدیک اسلامی معاشرے اور ریاست کی تشکیل کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ملت کا اخلاقی بگاڑ و انحطاط تھا، جو اسلام کی حقیقی تعلیمات سے دوری ہی کا نتیجہ تھا۔ ان کو ملّت کی روحانی و اخلاقی زبوں حالی اور پستی و ادبار کا گہرا ادراک و شعور حاصل تھا۔ انھوں نے ملت کے اس بگاڑ کا برصغیر میں قیام کے دنوں میں بڑے قریب سے مشاہدہ کیا تھا اور تحریک پاکستان کے دنوں میں ہی سیاسی قیادت کو ملت کی روحانی و اخلاقی اصلاح کی ضرورت کا احساس دلایا تھا۔{ FR 989 }
پاکستان کے قیام کے فوراً بعد اخلاقی پستی و گراوٹ کے جو مظاہر دیکھنے میں آئے، اسد اس پر بڑے دل گرفتہ تھے۔ انھوں نے عوام و خواص میں لُوٹ مار، متروکہ املاک پر قبضہ اور ان کی بندربانٹ، رشوت ستانی و اقربا پروری، حرص و ہوس اور دھوکا دہی کے واقعات اور بے سروسامان لٹے پٹے مہاجرین کی آبادکاری کے معاملے میں مقامی آبادی کی طرف سے ایثاروقربانی سے کام لینے کے بجائے سنگ دلی اور خود غرضی کے رویّے کا مشاہدہ کیا تو یہ کہے بغیر نہ رہ سکے:
The Muslim Millat, which a short while ago had offered a splendid picture of unity and determination, has overnight been changed into a chaotic, demoralised mass of human beings...... And many of those who had been asserting that their one and only object was selfless service of the Millat, seem now to regard Pakistan as a happy hunting ground for all kind of selfish endeavours, and have no thought for anything but the securing, by hook or by crook, of petty economic advantages, jobs, careers and government contracts for themselves and their relatives. Instead of growing in spiritual stature under the weight of a unique and tragic experience, the Millat appears to have sunk to almost unbelieveable depths of confusion and corruption. { FR 990 }
مسلم اُمت ، جس نے ابھی کچھ دیر پہلے تک اتحاد اور عزمِ استقلال کی بڑی شاندار تصویر (مثال) پیش کی تھی، راتوں رات ایک منتشر اور پست حوصلہ انسانی ہجوم کی شکل اختیار کرلی ہے… اور ایسے بہت سے لوگ جو اپنی جگہ ملّت کی بے غرض و بے لوث خدمت کے مدعی تھے، انھیں دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ اب وہ پاکستان کو اپنی جملہ نفسانی و معاشی اغراض کی تکمیل کے لیے ایک آسان چراگاہ تصور کرنے لگے ہیں۔ اب ان کا مطمح نظر ہر طور پر اپنے اور اپنے اعزہ و اقربا کے لیے جائز و ناجائز طریقوں اور مکروفریب سے پست و گھٹیا معاشی مفادات، ملازمتوں اور تعمیروترقی کے سرکاری ٹھیکوں کے حصول کے سوا اور کچھ نہیں رہ گیا۔ ملت جن اندوہناک حالات سے دوچار ہوئی ہے، ان کا تقاضا تو یہ تھا کہ وہ اخلاقی و روحانی اعتبار سے ترقی کرجاتی مگر اس کے بجائے یوں لگتا ہے کہ یہ ملّت ناقابلِ تصور حد تک اخلاق و کردار کی اتھاہ گہرائیوں میں جاپڑی ہے۔
اسد کی نگاہ میں خود اہل مذہب کا مذہبی طرز فکر بھی پاکستان کی اسلامی تشکیل کی راہ میں ایک اہم رکاوٹ ہے۔ روایتی مذہبی ذہن نہ صرف یہ کہ دورِحاضر کے سیاسی و سماجی، قانونی و اقتصادی اور تہذیبی و معاشرتی مسائل کے ادراک اور پھر ازروئے شریعت ان کا قابلِ عمل حل تجویز کرنے سے معذور ہے بلکہ وہ اس نوع کی کسی بھی مثبت اجتہادی کاوش کی راہ میں مزاحم ہے۔ وہ رجعت پسند ہے اور ذہنی جمودو تعطل کا شکار ہے اور صدیوں پرانی فقہ کو من و عن جاری و نافذ کرنا چاہتا ہے۔
اسد کے نزدیک شریعت کے نام پر قدیم روایتی فقہ کے نفاذ کا مطلب پاکستان کو زوال و انحطاط کی راہ پر بدستور گامزن رکھنا ہے۔{ FR 991 } گویا ان کی نظر میں جس طرح سے فرنگیت و مغربیت (مغرب زدگی) پاکستان کی اسلامی تشکیل کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے، بالکل اسی طرح قدامت پسندی بھی مانع ہے۔ پھر ایک اور رکاوٹ جو اس راہ میں درپیش تھی وہ اسلامی قانون کا مرتب و مدون حالت میں نہ ہونا ہے۔ اسد کے الفاظ میں: ’’دور جدید میں احیائے ملت کے راستے میں اسلامی نقطۂ نظر سے جو بڑی مشکل پیش آتی ہے اور جس کی وجہ سے ہم کوئی صاف، واضح اور عملی اسکیم تیار نہیں کرسکتے یہ ہے کہ ہمارے پاس قوانین شریعت کا کوئی ایسا جامع ضابطہ (Code) موجود نہیں ہے جس کا اطلاق تمام اجتماعی امور میں متفقہ طور پر ہوتا ہو، یعنی جس کے بارے میں سب مذاہب نہیں تو کم از کم اکثریت کا اتفاق موجود ہو‘‘۔{ FR 992 }
محمد اسد پاکستان کے قیام کو جدید مسلم دُنیا میں ایک حقیقی اسلامی ریاست کی تشکیل کی طرف صرف پہلا قدم قرار دیتے تھے کہ اس سے اسلامیانِ برعظیم پاک و ہند کو اپنے دین و عقیدہ کے مطابق اپنی اجتماعی زندگی کی تعمیر و تنظیم کا موقع میسر آگیا تھا۔ تاہم، ان کی نظر میں پاکستان کو ایک حقیقی اسلامی ریاست میں بدلنے کے لیے بہت کچھ کرنے کی ضرورت تھی۔ ان کی سوچی سمجھی رائے یہ تھی کہ اسلامی ریاست خود بخود اور دفعتاً وجود میں نہیں آجاتی بلکہ وہ تو مسلم معاشرہ کے افراد کے اخلاق و کردار اور ان کے نظریاتی اور سماجی و سیاسی مطمح نظر کی عکاس اور آئینہ دار ہوتی ہے۔
چنانچہ اسد کے نزدیک پاکستان کو حقیقی اسلامی ریاست بنانے کے لیے اس ملک کے باشندوں میں صحیح اسلامی اسپرٹ پیدا کرنا، انھیں دین کی اصلی اقدار و تعلیمات سے روشناس کرانا اور ان کے اخلاق کی اصلاح اور ان کے معاشرتی رویوں کو اسلام سے ہم آہنگ کرنا ضروری تھا۔ ان کی رائے میں جب تک مسلم معاشرے کے افراد کی زندگی اسلام کے اصول و اقدار اور احکامات و تعلیمات سے ٹھیک طور پر ہم آہنگ نہ ہوجائے، وہ دین کے مقاصد کے صحیح شعور و فہم سے بہرہ ور ہونے کے ساتھ ساتھ ان کے مطالبات اور تقاضوں سے عہدہ برآ ہونے کے لیے پوری طرح سے آمادہ نہ ہوجائیں اسلامی ریاست کا قائم ہونا ایک مشکل کام ہے۔{ FR 993 } محمد اسد نے ستمبر ۱۹۴۷ء کو ریڈیو پاکستان سے ایک نشری تقریر میں کہا:
The Muslims were determined, after all the centuries of their decay, to have an Islamic State; and the establishment of a Muslim homeland was the first step in this direction. It was the first step only, for a truly Islamic State can not be produced by a conjurer's trick. A country that was for centuries ruled by an alien government in accordance with principles entirely alien to the spirit of Islam can not overnight, as if by magic, be changed into a state similar to that of al-Khulafa' al-Rashidun. We must not forget that it is the spirit of the people which is ultimately, and always, responsible for the spirit of the state; and as long as we, the people, are unable to rise to the demands of Islam, no leader in the world can ever succeed in making Pakistan an Islamic State in the full sense of this word.{ FR 994 }
مسلمانوں نے صدیوں تک انحطاط و زوال سے دوچار رہنے کے بعد اس امر کا عزم کیا تھا کہ وہ اسلامی ریاست قائم کریں گے، اور ایک مسلم مملکت (وطن) کا حصول تو محض اس راہ کی پہلی منزل ہوگی۔ یہ محض پہلا قدم ہے کیونکہ ایک حقیقی اسلامی ریاست کسی شعبدہ باز کے کرتب کی طرح آناً فاناً ریاستی وجود میں نہیں آجاتی۔ ایک ایسے ملک کو جس پر صدیوں تک اغیار نے ایسے اصول و قوانین کے مطابق حکمرانی کی، جو سراسر اسلامی روح کے منافی تھے، اسے راتوں رات کسی شعبدہ بازی سے خلفائے راشدین کی مملکت جیسی ریاست میں تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔ ہمیں اس امر کو ہرگز طور پر فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ اصل چیز عوام کی ایمانی اور اخلاقی و روحانی طاقت ہے جو انجام کار اور ہمیشہ ریاست کی روح اور مزاج کا تعین کرتی ہے، جب تک ہم، یعنی ہمارے عوام، اسلام کے تقاضوں پر پورا نہیں اُتریں گے، دُنیا کا کوئی رہنما پاکستان کو، حقیقی معنوں میں اسلامی ریاست نہیں بنا سکتا۔
محمد اسد پاکستان کو حقیقی اسلامی ریاست بنانے کے لیے اسلامی دستور کی تدوین کے علاوہ ملت کے دینی و اخلاقی احیاء، نوجوان نسل کی صالح بنیادوں پر تعلیم و تربیت، اصلاح معاشرت و معیشت اور اسلامی قانون کی تدوین جدید کو بے حد ضروری خیال کرتے تھے۔ چنانچہ انھوں نے ان تمام امور کو پیش نظر رکھتے ہوئے پاکستان کی اسلامی تشکیل کا لائحہ عمل تجویز کیا، جس کو اپنا کر ان کے خیال میں پاکستانی معاشرہ اور ریاست کو اسلام کے مطابق ڈھالا جاسکتا ہے:
۱- اخلاقِ ملّی کا احیاء اور اصلاحِ معاشرت: محمد اسد کے نزدیک ایک حقیقی اسلامی ریاست کے قیام کی غرض سے افراد معاشرہ کے اخلاق و کردار اور طرز زندگی کو اسلام کی تعلیمات سے ہم آہنگ بنانا ازحد ضروری ہے۔{ FR 995 } اسد پاکستان کے تحفظ و استحکام کی غرض سے بھی اسلامی اخلاق ملّی کے احیاء کو بے حد ضروری خیال کرتے ہیں۔ ان کے خیال میں یہ چیز شہری اخلاقیات (civic morality) کے لیے بھی تقویت کا باعث بن سکتی ہے، کیونکہ ایک اچھا مسلمان ہی اچھا پاکستانی بن سکتا ہے۔{ FR 996 } اسد نے قیام پاکستان کے بعد مجلہ عرفات اَز سر نو جاری کیا، تو اس کے پہلے ہی شمارے میں ملت کی اخلاقی حالت کی اصلاح کی ضرورت کی طرف توجہ دلائی اور معاشرے کے صالح اور مخلص افراد کو اس مقصد سے اپنا کردار ادا کرنے کی تحریک ان الفاظ میں کی:
The most perturbing aspect of our communel life is the utter deterioration of our morale from the Islamic and civic point of view. If Pakistan is to attain to its cherished goal and to become the cradle of a resourgent Islamic civilization, the active co-operation of all well-meaning Muslims must be secured in the Aervice of civic morale. Otherwise, even the best intentions of the Government cannot possibly bring about that change of outlook which is indispensable for our becoming an Islamic Millat in the true sense of the word.{ FR 1025 }
ہماری ملّی زندگی کا سب سے زیادہ تشویش ناک پہلو وہ زبردست زوال اور پستی ہے جو اسلامی اور شہریتی (civic)دونوں اعتبار سے ہمارے اندر پیدا ہوچکی ہے۔ لہٰذا، اگر پاکستان کو اپنا محبوب نصب العین حاصل کرنا ہے اور ایک بار پھر سے حیات آفرین اسلامی تہذیب و تمدن کا گہوارا بننا ہے تو اخلاق ملّی کی تعمیر اور تربیت کے لیے ہر اچھے، نیک اور مخلص مسلمان کی خدمات سے استفادہ کرنا ضروری ہے، ورنہ مسلمانوں کے اندر وہ مطمح نظر پیدا نہ ہوسکے گا کہ جس کے بغیر ناممکن ہے کہ ہم فی الواقعی ایک اسلامی ملت کے خطاب کے مستحق قرار پاسکیں۔
اسد کے نزدیک اخلاقی و معاشرتی اصلاح اور اسلامی تعلیمات اور اصول و اقدار کو دل و جان سے عزیز رکھنے والے افراد کی تیاری کے بغیر محض شرعی قوانین خصوصاً حدود و تعزیرات کے نفاذ سے اسلامی ریاست کے قیام کا مقصد حاصل نہیں کیا جاسکتا۔ اسد کے الفاظ میں:
An Islamic State should be the result of Islamic consciousness, not beginning. If anyone think that an Islamic State will automatically make everyone in it a good Muslim, he is greatly mistaken. But if a people become good Muslims, then an Islamic State will fall to them like a riple plum from a tree.{ FR 998 }
قیامِ اسلامی ریاست کو شعوری ایمان (اذعان) کا ثمر و حاصل تصور کرنا چاہیے نہ کہ اس کا نقطۂ آغاز۔ اگر کوئی یہ خیال کرتا ہے کہ اسلامی ریاست اپنے اندر بسنے والے ہرہرفرد و بشر کو خود بخود ایک اچھا مسلمان بنا دے گی، تو وہ بہت بڑے مغالطے میں ہے۔ البتہ اگر عوام اچھے، نیک اور صالح مسلمان بن جائیں گے تب ایک اسلامی ریاست پکے ہوئے پھل کی طرح ان کی جھولی میں آگرے گی۔
اسد کے نزدیک افراد معاشرہ میں سچے اسلامی احساس و شعور کی بیداری اور ان کے اخلاق و کردار اور طرزِ فکروعمل کو اسلامی رنگ میں رنگنے کا کام اسلامی تعلیمات کی اشاعت اور دعوتی کاوشوں کے ساتھ ساتھ ذرائع ابلاغ، ریڈیو، ٹیلی ویژن اور اخبارات و جرائد کے کردار کو بڑا مفید و معاون خیال کرتے ہیں۔ وہ مساجد کو خاص طور سے اسلامی تعلیمات کی اشاعت و تبلیغ اور عوام کی اخلاقی و روحانی تربیت کے مراکز بنانا چاہتے ہیں۔ وہ سرکاری ذرائع ابلاغ خصوصاً ریڈیو اور ٹیلی ویژن سے بھی اسلامی تعلیمات کی اشاعت کا کام لینا چاہتے ہیں۔ اسد بجاطور پر سمجھتے ہیں کہ ان اقدامات سے ملت کو اخلاقی پستی کے عمیق گڑھے سے باہر نکالا جاسکتا ہے اور اس کے افرادکے دل و دماغ میں حق وراستی اور پاکیزگی کے بیج بوئے جاسکتے ہیں۔{ FR 999 }
اسد اصلاح اخلاق و معاشرت کے سلسلے میں بعض اخلاقی و اجتماعی مفاسد مثلاً شراب نوشی، قمار بازی اور قحبہ گری وغیرہ کا ریاستی قوت و طاقت سے انسداد چاہتے ہیں۔ وہ شراب نوشی کو قطعاً ممنوع اور عصمت فروشی کی ہر شکل کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ ان کے نزدیک جب تک ان اجتماعی مفاسد کا قلع قمع نہیں ہوجاتا ہمارا معاشرہ کسی طور سے بھی اسلامی و اخلاقی نہیں قرار پاسکتا۔{ FR 1000 }
۲-نظام تعلیم کی اصلاح و تشکیل نَو: اگرچہ اسد مسلمان ملت کو بحیثیت مجموعی اسلامی تعلیمات کی حقیقی روح سے روشناس کرانا ضروری سمجھتے ہیں، تاہم وہ نوجوان نسل کی اسلامی تعلیم و تربیت کو بہت زیادہ اہم خیال کرتے ہیں۔ اس غرض سے وہ نظام تعلیم کی تشکیل نو، اور نصابات کو اسلامی نظریۂ حیات سے ہم آہنگ کرنے اور ان میں اسلامی روح سمونے جیسے بنیادی اقدامات تجویز کرتے ہیں۔ انھوں نے اسکولوں اور کالجوں اور اعلیٰ تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم نوجوان نسل کی اسلامی تعلیم و تربیت کے سلسلے میں جو اقدامات تجویز کیے وہ اس طرح سے ہیں:
الف: تمام اسکولوں اور کالجوں میں عربی زبان کی تدریس اور اسلامیات کی تعلیم کو لازمی قرار دیا جائے۔ اسد نے خیال ظاہر کیا تھا کہ ’’اگر پاکستان کو صحیح معنوں میں اسلامی ریاست بننا ہے تو مسلمانوں میں وسیع پیمانے پر عربی زبان کی تعلیم و تدریس اور اشاعت مطلقاً ناگزیر ہے‘‘۔{ FR 1001 }
اسی لیے اسد نے مجلہ عرفات کے شمارہ مئی ۱۹۴۷ء میں عربی زبان کی تدریس سے متعلق تجویز پیش کرتے ہوئے لکھا تھا کہ اگر ہماری موجودہ سیاسی جدوجہد کا مطمح نظر اور نصب العین ایک اسلامی ریاست کا قیام ہے، تب یہ امر انتہائی ضروری و اہم ہے کہ زیادہ سے زیادہ تعلیم یافتہ افراد اسلامی تعلیمات سے واقفیت پیدا کریں۔ وہ قرآن اور احادیث رسول کے متن کو سمجھنے کی قابلیت و استعداد پیدا کریں۔ اس غرض سے ہر تعلیم یافتہ مسلمان کو عربی زبان میں قابلیت حاصل ہونی چاہیے۔ جب تک یہ تقاضا پورا نہیں کیا جاتا ہم اسلامی طرز معاشرت کے قیام میں کامیاب نہ ہوسکیں گے، نہ ملت کے تعلیم یافتہ افراد ان نظریاتی وفکری مسائل پر سوچ بچار اور بحث و گفتگو کے قابل ہوسکیں گے، کہ جن کا گہرا تعلق معاشرت اور معیشت و سیاست سے ہے۔ چنانچہ انھیں چاروناچار اسلام کے خود ساختہ شارحین کی تعبیرات و تشریحات پر انحصار کرنا پڑے گا، یا پھر انھیں اسلام کے بجائے کوئی اور راستہ، سیکولرازم وغیرہ، اختیار کرنا پڑے گا۔{ FR 1002 }
عربی زبان کی تدریس محمد اسد کے نزدیک اس قدر اہم ہے کہ وہ اس کام کو قیام پاکستان تک مؤخر کرنے اور التوا میں ڈالنے کو مناسب نہیں سمجھتے تھے۔ انھوں نے سیاسی قیادت کو مشورہ دیا تھا کہ متحدہ ہندستان کے جن صوبوں میں مسلمان اکثریت میں ہیں، وہاں کی قانون ساز مجالس ایک قانونی بل کو منظور کرکے ان صوبوں کے ہائی اسکولوں، کالجوں اور ایسے تعلیمی اداروں میں جو حکومت سے مالی امداد (گرانٹس) وصول کررہے تھے، عربی زبان کو ایک لازمی مضمون بنادیں۔ انھوں نے آغاز میں عربی زبان کی تعلیم و تدریس کے لیے ماہر اساتذہ کی کمی کو پورا کرنے کے لیے عرب ممالک سے اساتذہ کی خدمات حاصل کرنے اور ملک میں عربی زبان کی تعلیم و تدریس کے لیے اساتذہ کی تعلیم و تربیت کی غرض سے تربیتی اداروں کے قیام کی بھی تجویز پیش کی۔ ان کے خیال میں اس اقدام کی بدولت چند برسوں کے اندر اندر کثیر تعداد میں عربی زبان میں اعلیٰ استعداد اور مہارت کے حامل اساتذہ تیار کیے جاسکتے ہیں۔{ FR 1003 }
ب:اسد پاکستان کے اسکولوں اور کالجوں میں اعلیٰ پیمانے پر اسلامیات کی تدریس چاہتے ہیں۔ ان کی رائے میں مسلمان طالب علموں کے لیے اسلامیات کی تعلیم لازمی قرار دی جائے۔ اسلامیات کی تعلیم میں قرآن و حدیث کو مرکزی حیثیت حاصل ہوگی۔ اعلیٰ جماعتوں میں اصول تفسیر و کتب تفسیر کا مطالعہ بھی ضروری ہوگا۔اسلامیات کی تدریس کا مقصد یہ ہونا چاہیے کہ طلبہ قرآن حکیم اور سنت رسولؐ کا فہم حاصل کرسکیں اور پھر نصاب کے آخری مرحلے تک پہنچتے پہنچتے اس امر کو بھی جان لیں کہ مختلف فقہی مذاہب کا قرآن و سنت سے احکام کے اخذواستنباط کا اسلوب اور طریق کارکیا ہے؟ وہ اسلامیات کے نصاب میں اسلام کے ابتدائی عہد کی تاریخ کے مفصّل و تنقیدی مطالعہ کو شامل کرنا بھی ضروری سمجھتے ہیں۔ مزید برآں وہ عام فلسفہ کے علاوہ اسلامی فلسفہ و کلام کے مطالعے کو بھی نصاب کا حصہ بنانا چاہتے ہیں۔ { FR 1004 }
وہ اسلامیات کے نصاب کے آخری مرحلوں اور درجوں میں بحیثیت مجموعی اسلام کی اسکیم کا، معاشیات اور عمرانی علوم کے شعبوں سے تعلق رکھنے والے عصری مسائل کو سامنے رکھتے ہوئے، تجزیاتی مطالعہ بھی تجویز کرتے ہیں۔ اسد کی اس تعلیمی اسکیم کے مطابق اسلامیات کے نصاب کی آخری منزلوں میں اس امر کا التزام رکھا جائے گا کہ اسلام نے جو نظام حیات پیش کیا ہے، اس پر موجودہ زمانے کے ان مسائل کا لحاظ رکھتے ہوئے، جن کا تعلق معاشیات اور علوم اجتماعیہ سے ہے، ان پر گہری اور وسعت سے نظر ڈالی جائے۔{ FR 1005 } گویا کہ اسد کے نزدیک اسلامی ریاست کی تشکیل کے لیے یہ امر بے حد ضروری ہے کہ ہم اپنے تعلیمی مقاصد کا از سر نو تعین کرتے ہوئے عربی اور اسلامیات کی تعلیم و تدریس کو تعلیمی نصابات کا ایک انتہائی مؤثر جزوبنادیں۔
ج: جدید اسلامی دارالعلوم:علوم اسلامیہ کی تعلیم و تدریس کے سلسلے میں محمد اسد ایک جدید اسلامی دارالعلوم کا قیام بھی تجویز کرتے ہیں۔ اس تجویز کا باعث موجودہ روایتی دینی نظام تعلیم (دینی مدارس و جامعات کا تعلیمی نظام و طریق کار) سے ان کی بے اطمینانی معلوم ہوتی ہے۔ ان کی سوچی سمجھی رائے یہی ہے کہ دینی تعلیم کا روایتی نظام، عہد حاضر کی ضروریات اور تقاضوں سے میل نہیں کھاتا۔ دورِحاضر میں ملت کو اپنی عملی و اجتماعی زندگی کو اسلام کے مطابق ڈھالنے اور نت نئے فکری ونظریاتی مسائل، جن میں سے بہت سے جدید عمرانی علوم کی پیداوارہیں، ان کے حل میں جو رہنمائی درکار ہے وہ دینی تعلیم کا موجودہ نظام بہم پہنچانے سے قاصر ہے۔ اسد اسی نقطۂ نگاہ کے سبب سے دارالاسلام، پٹھان کوٹ کے اسلامی تعلیم کے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے تعاون و اشتراک عمل پر آمادہ ہوئے تھے اور اس غرض سے انھوں نے علامہ محمداقبال اورسیّد ابوالاعلیٰ مودودی کے ساتھ مل کر عملی کوششیں بھی کی تھیں۔{ FR 1006 }
محمد اسد پاکستان کے قیام کے ساتھ ہی ایک اعلیٰ پائے کے جدید اسلامی دارالعلوم کے قیام کو ایک ناگزیر ضرورت سمجھتے تھے۔ اس کا تخیّل انھوں نے ان الفاظ میں پیش کیا:
If Pakistan is to become a cuttural centre of the modern word of Islam - as she deserves to become by virtue of her great resources and her political position - we must posses in this country a central Dar-al-Ulum which would train outstanding Ulama for all purposes of the community... This academy should not only try to follow the example of the famous Al-Azher University of Egypt but also, if possible, introduce fresh elements to bring it into greater accord with the present requirements of life. To this end, the students shall receive thorough trainging in Qur'an, hadith, fiqh (of various schools of thought) and in the allied subjects, including old and modern Arabic literature; in addition to this, they should acquire that measure of general knowledge and awareness of contemporary developments, social and economic, which enable them to act - like the Ulama of the early period of Islam - as the real leaders of the community.{ FR 1026 }
اگر پاکستان کو جدید دنیائے اسلام کا ثقافتی مرکز بننا ہے، جیسا کہ اپنے زبردست وسائل اور سیاسی حیثیت کے اعتبار سے اس کا حق ہے، تو ہمیں اس ملک میں ایک مرکزی دارالعلوم قائم کرنا پڑے گا۔ جہاں ہماری علمی ضروریات کے لیے بڑے بڑے مقتدر علما پیدا ہوں۔ اس ادارے کو مصر کی مشہور و معروف درس گاہ جامعہ الازہر کے نقش قدم ہی پر نہیں چلایا جائے گا بلکہ ممکن ہوا تو اس کے نصابات میں عہد جدید کے وہ عناصر تعلیم بھی داخل کردیے جائیں گے جو اس زمانہ کے مقتضیات کو پورا کرسکیں۔ لہٰذا، اس دارالعلوم کے طلبہ کو قرآن، حدیث، فقہ اور علوم متعلقہ، جس میں قدیم و جدید عربی کا مطالعہ بھی شامل ہے، کے علاوہ موجودہ زمانے کے معاشی اور اجتماعی علوم میں ہونے والی پیش رفت سے بھی اس حد تک باخبر رکھا جائے گا کہ وہ علمائے متقدمین کی طرح ملت کے حقیقی معنوں میں رہنما و پیشوا بن سکیں۔
اسد مجوزہ اسلامی دارالعلوم کا سربراہ جامعہ الازہر سے فارغ التحصیل کسی ایسے مصری عالم کو مقرر کرنا چاہتے تھے، جو وسیع النظر ہونے کے ساتھ ساتھ عصر جدید میں ملت اسلامیہ کو درپیش سیاسی و قانونی، معاشی اور تہذیبی و معاشرتی مسائل سے واقفیت ہی نہیں بلکہ ان کا گہرا ادراک و شعور رکھتا ہو۔ اسد کے خیال میں اس طرح کی اہلیت رکھنے والے کسی فرد کا ہمارے روایتی علما کے طبقے سے میسر آنا محال تھا۔ { FR 1008 }
محمد اسد نے جدید اسلامی دارالعلوم کے قیام سے متعلق اپنے تخیّل کو حقیقت کا روپ دینے کے لیے جنوری ۱۹۴۸ء کو پاکستان کی حکومت پنجاب کو علما اور علوم شرقیہ کے ماہرین پر مشتمل ایک منصوبہ ساز کمیٹی (پلاننگ کمیٹی)، جس کا مقصد دارالعلوم سے متعلق تفصیلی تجاویز مرتب کرنا اور عملی اقدامات تجویز کرنا ہو، اس کے قیام کی تجویز پیش کی، جسے حکومت نے منظور کرلیا۔ وزیراعلیٰ پنجاب نواب افتخار حسین ممدوٹ [یکم جوری ۱۹۰۶ء-۱۸؍اکتوبر ۱۹۶۹ء] نے محمد اسد کو اس مجلس کا کنوینر مقرر کیا۔ اسد کو اس طرح کے کسی تعلیمی منصوبے کے بارے میں، خصوصاً جو حکومتی سطح پر قائم کیا جارہا تھا، روایتی مذہبی طبقے کی طرف سے مخالفت و مزاحمت کا بھی خدشہ تھا۔ چنانچہ انھوں نے روایتی مذہبی طبقے کی طرف سے کسی مخالفت و مزاحمت سے بچنے کے لیے منصوبہ ساز کمیٹی کی سربراہی علامہ شبیر احمد عثمانی [۲۸ستمبر ۱۸۸۷ء-۱۳دسمبر ۱۹۴۹ء]کو پیش کی، جسے انھوں نے قبول کرلیا۔ پھر دُوراندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسدنے بطور احتیاط مختلف مذہبی مکاتب فکر کے علما کو بھی اس مجلس میں شامل کیا،جب کہ جدید الخیال علما کو اس مجلس میں غالب حیثیت دینے سے گریز کیا۔{ FR 1009 }
جدید اسلامی دارالعلوم سے متعلق روایتی طبقۂ علما کی طرف سے مخالفت کے بارے میں اسد کے خدشات بالکل درست ثابت ہوئے۔اسد نے اسلامی دستور کا خاکہ پیش کرتے ہوئے قدیم فقہ کو ملکی قانون بنانے کے بجائے قرآن و سنت کے نصوص پر نئے سرے سے غور و فکر کرکے اجتہاد کو بروئے کار لاکر اسلامی قانون کی تدوین جدید کی ضرورت پر زور دیا تو بعض مذہبی حلقوں کی طرف سے ان کے اس نقطۂ نظر کی سخت مخالفت کی گئی۔ ان کے دستوری خاکے کو ’غیر اسلامی‘ قرار دیا گیا اور ان پر ’حنفیّت کو جڑ سے اکھاڑنے اور الحادو زندقہ پھیلانے‘ کا الزام عائد کرتے ہوئے حکومت سے ان کے مجلہ عرفات کی اشاعت پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا گیا۔ اس سلسلے میں جمعیت علمائے پاکستان (بریلوی مکتب فکر کے علما و مشائخ کی جماعت) بطور خاص قابل ذکر ہے۔ اس جماعت کے سربراہ ابوالحسنات سید محمد احمد قادری [۱۸۹۶ء-۲۰جنوری ۱۹۶۱ء] کی قیادت میں علما و مشائخ کے ایک وفد نے جنوری ۱۹۴۹ء میں افتخار حسین ممدوٹ وزیراعلیٰ پنجاب سے ملاقات کی اور محمد اسد کے دستوری خاکے کو خلاف اسلام قرار دے کر اور مجلہ عرفات کی اشاعت پر پابندی کا مطالبہ کیا۔{ FR 1023 }
محمد اسد کی اس تعلیمی اسکیم سے یہ امر بھی نکھر کر سامنے آتا ہے کہ وہ جامعہ الازہر کے تعلیمی ماڈل کو بھی عصر جدید کی ضروریات کے لیے ناکافی خیال کرتے ہیں۔ چنانچہ وہ جامعہ الازہر کے تعلیمی ماڈل میں نئے تعلیمی اجزا کی آمیزش سے ایک نیا تعلیمی ماڈل ترتیب دینا چاہتے ہیں۔ وہ جدید دور میں ملت کی ذہنی و فکری رہنمائی کے لیے مطلوبہ اہلیت و استعداد کے حامل علما کی تیاری کے لیے ایک ایسی تعلیمی و تربیتی درس گاہ کا قیام چاہتے ہیں، جس کے نصابات میں قرآن و حدیث، فقہ اور عربی زبان و ادب کے ساتھ ساتھ جدید عمرانی علوم کی تعلیم و تدریس بھی شامل ہو۔
محمد اسد نے اسکولوں، کالجوں میں تدریس اسلامیات اور اسلامی دارالعلوم کے قیام اور اس کے نصابات سے متعلق جو تجاویز پیش کیں، وہ علامہ محمد اقبال کی ان تجاویز سے گہری مماثلت رکھتی ہیں، جو انھوں نے ۱۹۲۵ء میں علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی میں اسلامیات کی تدریس اور نصاب کی تدوین کے بارے میں پیش کی تھیں۔ علامہ محمد اقبال نے آل انڈیا محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس علی گڑھ کے سیکرٹری صاحبزادہ آفتاب احمد خاں [۱۸۶۷-۱۹۳۰ء] کے نام ایک خط میں دورحاضر کے تقاضوں سے عہدہ برآ ہونے کے لیے اعلیٰ پائے کے علما کی تیاری کی غرض سے علوم اسلامیہ کی تدریس و تعلیم کے لیے قدیم روایتی مدارس کے منہج پر کسی ادارے کے قیام کو نامناسب قرار دیا۔ انھوں نے ایک ایسے نئے طرز کے ادارے کے قیام کی تجویز پیش کی تھی، جس کے نصابات میں جدید سائنس اور فلسفہ کے علاوہ اقتصادیات اور عمرانیات کو بھی جگہ دی جائے۔ انھوں نے دارالعلوم دیوبند اور ندوۃ العلماء لکھنؤ کے تعلیمی نظام کے بہترین اجزا کے ساتھ جدید تعلیمی اجزا شامل کرکے اسلامیات کی تعلیم و تدریس کا ایک نیا نظام مرتب کرنے کا مشورہ دیا تھا۔{ FR 1010 }
علامہ محمد اقبال کے خیال میں دارالعلوم دیوبند اور ندوۃ العلماء کے ایسے فضلا کو، جو فقہی و کلامی ذوق رکھتے ہوں، جدید فلسفہ و سائنس، اسلامی فرقوں کے نظام اعتقادات، مسلمانوں کے فلسفۂ اخلاق و مابعد الطبیعات، علم الکلام اور تفسیر، اصول فقہ، جدید اصول قانون (جورس پروڈنس) اور جدید معاشیات و عمرانیات سے متعلق مناسب تعلیم و تربیت دے کر ایسے عالم بنایا جاسکتا ہے، جو واقعی جدید دور میں ملت کی مناسب رہنمائی کرسکتے ہوں۔ { FR 1011 }
علامہ محمد اقبال نے اپنے مشہور مقالے ’ملتِ بیضا پر ایک عمرانی نظر‘ میں ایک جدید اسلامی یونی ورسٹی اور دارالعلوم کے قیام کو ملت اسلامیہ کے اسلامی و تہذیبی بقا کے لیے ایک ناگزیر ضرورت قراردیا۔ علامہ کے الفاظ میں:
اسلامی یونی ورسٹی کے خیال کا ہمارے دل میں پیدا ہونا حقیقت میں ہماری قومی ہستی کے حق میں ایک مبارک علامت ہے۔ جب ہم اپنی قوم کی نوعیت پر نظر ڈالتے ہیں تو اس قسم کے دارالعلم کی ضرورت میں شک اور شبہہ کی مطلق گنجایش نہیں رہتی بشرطیکہ یہ دارالعلم ٹھیٹھ اسلامی اصول پر چلایا جائے۔ مسلمانوں کو بے شک علوم جدید کی تیزپا رفتار کے قدم بہ قدم چلنا چاہیے، لیکن یہ بھی ضروری ہے کہ ان کی تہذیب کا رنگ اسلامی ہو اور یہ اس وقت تک نہیں ہوسکتا، جب تک کہ ایک ایسی یونی ورسٹی موجود نہ ہو، جسے ہم اپنی قومی تعلیم کا مرکز قرار دے سکیں۔ ہم کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ اگر ہمارے نوجوانوں کی تعلیمی اٹھان اسلامی نہیں ہے تو ہم اپنی قومیت کے پودے کو اسلام کے آبِ حیات سے نہیں سینچ رہے۔
ہندستان میں اسلامی یونی ورسٹی کا قائم ہونا ایک اور لحاظ سے بھی بہت ضروری ہے۔ کون نہیں جانتا کہ ہماری قوم کے عوام کی اخلاقی تربیت کا کام ایسے علما اور واعظ انجام دے رہے ہیں، جو اس خدمت کی انجام دہی کے پوری طرح سے اہل نہیں ہیں۔ اس لیے کہ ان کا مبلغ علم اسلامی تاریخ اور اسلامی علوم کے متعلق نہایت ہی محدود ہے۔ اخلاق اور مذہب کے اصول و فروع کی تلقین کے لیے موجودہ زمانہ کے واعظ کو تاریخ، اقتصادیات اور عمرانیات کے حقائق عظیمہ سے آشنا ہونے کے علاوہ اپنی قوم کے لٹریچر اورتخیّل میں پوری دسترس رکھنی چاہیے۔
الندوۃ، علی گڑھ کالج، مدرسہ دیوبند اور اس قسم کے دوسرے مدارس جو الگ الگ کام کررہے ہیں اس بڑی ضرورت کو رفع نہیں کرسکتے۔ ان تمام بکھری ہوئی تعلیمی قوتوں کا شیرازہ بند ایک وسیع تر اغراض کا مرکزی دارالعلم ہونا چاہیے۔ پس یہ امرقطعی طور پر ضروری ہے کہ ایک نیا مثالی دارالعلم قائم کیا جائے جس کی مسندنشین اسلامی تہذیب ہو، اور جس میں قدیم و جدید کی آمیزش عجب دلکش انداز سے ہوئی ہو۔{ FR 1024 }
محمد اسد کی اس تعلیمی اسکیم کو ایک جدید اسلامی یونی ورسٹی کا ’بنیادی اور عملی خاکہ‘ بھی قرار دیا جاسکتا ہے۔{ FR 1012 } اسکولوں اور کالجوں میں اعلیٰ پیمانے پر اسلامیات اور عربی زبان کی تدریس سے متعلق اسد کی تجاویز ایسی جان دار ہیں کہ اگر ان کو ٹھیک طور سے برسرعمل لایا جائے تو نہ صرف یہ کہ جدید تعلیم یافتہ نسل کو مغربی تعلیم کے فاسد اثرات سے کافی حد تک بچایا جاسکتا ہے، بلکہ ان کو گہرے طور سے اسلام کے اصول و تعلیمات اور اس کی تہذیب و تاریخ سے واقف کرایا جاسکتا ہے۔ مجوزہ دارالعلوم کا قیام پاکستان کے قانونی اور سیاسی و معاشی نظام کی اسلامی تشکیل کے لیے مطلوبہ علمی و فکری استعداد کے حامل افراد کی تیاری میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔
محمد اسد کی جدید اسلامی دارالعلوم کے قیام سے متعلق تجاویز اسلامی مدارس کے نظام تعلیم کی اصلاح کے سلسلے میں اپنے اندر رہنمائی کا سامان رکھتی ہیں۔ گذشتہ برسوں میں پاکستان میں اسلامی مدارس کی اصلاح کے لیے متعدد اصحاب فکرونظر نے محمد اسد کی تجاویز سے ملتی جلتی تجاویز پیش کی ہیں۔ سنجیدہ علمی و فکری حلقوں میں اس امر کا گہرا احساس و شعور پایا جاتا ہے کہ سائنسی و عمرانی علوم کی تعلیم و تدریس کو روایتی اسلامی مدارس کے نصابات کا حصہ بنانا چاہیے، تاکہ ان مدارس کے فضلا روایتی دینی علوم میں درک رکھنے کے علاوہ جدید امور و مسائل سے بھی واقفیت پیدا کرسکیں۔{ FR 1013 }
۳- اسلامی قانون کی تدوین جدید: محمد اسد کے نقطۂ نگاہ سے کسی بھی معاشرے میں اسلام اس وقت تک غالب نہیں ہوسکتا، جب تک اس (اسلام) کے قانون، یعنی شریعت کو اس معاشرے کے قانونی نظام کی اساس نہ بنا دیا جائے۔{ FR 1014 } اسی وجہ سے وہ پاکستان میں اسلامی شریعت کے نفاذ کو لازمی اور اسلامی قانون کی تدوین جدید کو ازحد ضروری قرار دیتے ہیں۔ ان کے تجزیے کے مطابق اسلامی قانون کی ترویج و تنفیذ کی راہ میں حائل ایک بڑی رکاوٹ یہ ہے کہ اسلامی قانون مرتب و مدون حالت میں موجود نہیں۔
اسد کے نزدیک قدیم عہد کے مرتب اور مدون کردہ فقہی مجموعے عصر جدید کی ضروریات کے لیے ناکافی ہیں۔ جس زمانے میں یہ کتابیں مرتب کی گئیں، اس وقت ایسے بہت سے مسائل پیدا نہیں ہوئے تھے، جو عصرحاضر میں سامنے آئے ہیں، اس لیے ان مسائل کا صریح جواب ان کتابوں میں نہیں ملتا۔ مزیدبرآں اجتماعی مسائل میں فقہا کے مابین جو اختلافات کا تنوّع پایا جاتا ہے، وہ جدید ذہن کے لیے پریشان فکری کا موجب ہے۔ پھر ان فقہی مجموعوں کی ترتیب و تدوین کا اسلوب بھی ایسا ہے کہ کسی بھی فقہی و قانونی معاملے کی جزئیات و تفصیلات اور اس کے متعلقات تک رسائی صرف ایک ایسے فرد ہی کے لیے ممکن ہوسکتی ہے، جو اسلامی فقہ و شریعت میں گہرا درک رکھتا ہو۔ انھی وجوہ کی بناپر پر محمد اسد فقہی و قانونی سرمایہ کو جدید تعلیم یافتہ افراد کے فہم سے قریب تر لانے کے لیے اسلامی قانون کی تدوین جدید کو ناگزیر ضرورت خیال کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک صرف یہی ایک راستہ ہے، جس کو اختیار کرکے مغرب کے قانونی نظام کی تقلید سے نجات حاصل کی جاسکتی ہے۔{ FR 1015 } محمد اسد نے اسلامی قانون کی تدوین جدید کا طریق بھی تجویز کیا۔{ FR 1016 }
محمد اسد کے نزدیک اسلامی قانون کی تدوین جدید کا کام جس قدر اہم اور ضروری ہے، اتنا ہی مشکل بھی ہے۔ جس کے لیے طویل محنت و ریاضت اور اجتہادی بصیرت درکار ہے۔ پھر اس کام کے لیے مطلوبہ اجتہادی استعداد و قابلیت رکھنے والے علما، جو ایک طرف احکام شریعت سے گہری واقفیت رکھتے ہوں اور دوسری طرف زمانہ کے حالات و مسائل سے بھی بخوبی آگاہ ہوں، کی تعداد بہت کم بلکہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ انھی اہداف کے لیے وہ ایک اعلیٰ پائے کے اسلامی دارالعلوم کے قیام کو ایک انتہائی اہم ملی ضرورت قرار دیتے ہیں کہ جہاں مطلوبہ استعداد و اہلیت رکھنے والے علما تیار کیے جاسکیں، جو اجتہاد اور اسلامی قانون کی تدوین جدید کا وظیفہ انجام دے سکیں۔{ FR 1017 }
محمد اسد بیک جُنبشِ قلم شریعت کے نفاذ کو قابلِ عمل خیال نہیں سمجھتے تھے۔ ان کی رائے میں یہ کام بتدریج ہونا چاہیے۔ ان کے خیال میں اسلامی قانون کی مکمل طور پر تدوین اور پھر اس کی ٹھیک طور پرتنفیذ کے لیے دس سال کا عرصہ لگ سکتا ہے۔{ FR 1018 } اسد نفاذ شریعت کے عمل کا آغاز حدود و تعزیرات کے قانون کے نفاذ و اجراء سے کرنے کے حامی نہیں ہیں۔ وہ حدود و تعزیرات کے اجراء و نفاذ سے قبل مسلم عوام کی اسلامی و اخلاقی تربیت کے لیے وسیع و مؤثر کوششوں کے علاوہ عدل اجتماعی کے قیام کو ضروری قرار دیتے ہیں۔{ FR 1019 }
۴- اصلاحِ نظامِ معیشت: محمد اسد کے نزدیک شریعت کا منشا معاشی استحصال سے پاک ایک عادلانہ معاشرے کا قیام ہے۔ شریعت نے جو سماجی اور اقتصادی احکام دیے ہیں، ان کی غایت معاشرے کے تمام افراد کے لیے یکساں معاشی مواقع کی ضمانت فراہم کرنا ہے اور کمزور افراد و طبقات کو طاقت وروں کی طرف سے ہر قسم کے اقتصادی ظلم و استحصال سے تحفظ فراہم کرنا ہے۔ پاکستان کو اپنے قیام کے وقت جو معاشی نظام ورثہ میں ملا تھا، وہ بہت حد تک جاگیردارانہ اور ایک محدود حد تک سرمایہ دارانہ تھا۔ اسد کے نزدیک جاگیردارانہ نظام عوام کے معاشی استحصال کا ایک طاقت ور ذریعہ اور اجتماعی عدل و انصاف کی راہ میں ایک بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ ان کے خیال میں صدیوں سے مسلم اقوام کی اقتصادی بدحالی کا ایک بڑا سبب زرعی املاک کا چند ہاتھوں میں جاگیردارانہ ارتکاز رہا ہے۔
چنانچہ اسد جاگیردارانہ نظام کے خاتمے کو بہت ضروری خیال کرتے ہیں۔ وہ بڑی بڑی جاگیروں کو ختم کرکے اور انھیں خلاف قانون قرار دے کر ان کا انصرام امداد باہمی کے اصول پر کرنا چاہتے ہیں۔زمین کی ملکیت کی حد مقرر کرکے جاگیرداروں کے پاس مقررہ حد سے زائد زمین کو بے زمین کسانوں اور کاشتکاروں میں تقسیم کرنے کے حامی ہیں۔ مزید برآں وہ معاشرے کے کمزور افراد کو طاقت وروں کی اقتصادی دھونس اور دھاندلی سے تحفظ فراہم کرنے کی غرض سے نجی ملکیت کی تحدید بھی تجویز کرتے ہیں۔ وہ دولت کے ارتکاز کی حوصلہ شکنی کی غرض سے وراثت اور ترکے کی تقسیم اور زکوٰۃ سے متعلق شرعی احکام و قوانین پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ حکومت کے لیے عشر و زکوٰۃ کے علاوہ دیگر محاصل کے اجراء و نفاذ کا حق و اختیار بھی تسلیم کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں وہ سود کے لین دین، تجارتی سٹہ، اجارہ داری اور قابل فروخت اشیا کی ذخیرہ اندوزی جیسی قبیح اقتصادی سرگرمیوں کا مکمل طور پر انسداد چاہتے ہیں۔{ FR 1020 }
محمد اسد نے نظام معیشت کو اسلامی اصول و اقدار پر استوار کرنے کے لیے ایک اعلیٰ اسلامی تحقیقاتی ادارے کے قیام کی تجویز بھی پیش کی تھی۔ ان کی رائے میں اس ادارے سے منسلک ماہرین شریعت اور ماہرین معیشت کا وظیفہ یہ ہو کہ وہ کتاب و سنت کے نصوص کی روشنی میں بعض جدید معاشی امور و مسائل مثلاً بنک کاری، بیمہ، قرضوں کا لین دین، اجتماعی مقاصد کے لیے نجی املاک میں تصرّف کا حق اور زرعی اصلاحات، جس میں زمینوں کی قومی تحویل و تقسیم نو کا سوال بھی آجاتا ہے، وغیرہ مسائل کی تحقیق کرے اور ان مسائل کے متعلق شرعی نقطۂ نظر کی وضاحت کرے۔ یہ ادارہ اس امر کی بھی وضاحت کرے کہ ہم اپنی موجودہ معاشی سرگرمیوں اور ضروریات کو اس اجتماعی نظام کے مطابق کیسے ڈھال سکتے ہیں جو اسلام کے پیش نظر ہے؟ یہ ادارہ اس امر سے متعلق بھی عملی تجاویز مرتب کرے کہ ہماری معاشی زندگی میں ازروئے اسلام کس طرح صحیح نشوونما ہوسکتی ہے؟{ FR 1021 }
مراد یہ ہے کہ اسد نہ تو جاگیردارانہ نظام کو ملت کے مفاد میں خیال کرتے ہیں اور نہ جدیدمغربی سرمایہ دارانہ نظام کی من و عن اسلامی ریاست میں ترویج کے حق میں ہیں، بلکہ وہ ملّی ضروریات کے مطابق نظام معیشت کی اسلامی تشکیل (Islamization) کے حامی و علَم بردار ہیں۔ وہ ایک ایسا نظام معیشت اپنانے کی تجویز پیش کرتے ہیں، جو زور آور اور زردار طبقے کے ہاتھوں کمزور طبقات کے ہر نوع کے استحصال کی لعنت سے پاک ہو اور اجتماعی عدل کے قیام میں معاون ہوسکتا ہو۔
پاکستان کی اسلامی تشکیل کے بارے میں محمد اسد کی مجوزہ اسکیم اور لائحہ عمل سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ شریعت کا ایک بڑا واضح تصوّر رکھتے ہیں۔ شریعت ان کے نزدیک صرف تعزیراتی قوانین کا مجموعہ نہیں ہے بلکہ وہ اجتماعی زندگی کو سنوارنے کے لیے ایک مثبت اور جامع پروگرام بھی ہے۔ ان کے نزدیک شریعت کا مقصد و منتہائے نظر انسانیت کی فلاح اور معاشرے میں عدل و انصاف کا قیام ہے۔ شریعت کے ٹھیک ٹھیک طور پر نفاذ سے مسلم معاشرے میں صدیوں سے موجود بگاڑ و فساد اور عدم توازن کو دور کیا جاسکتا ہے۔ شریعت کی بنیاد پر عدل اجتماعی اور اقتصادی مساوات کو قائم کیا جاسکتا ہے۔ محمد اسد شریعت کی بنیاد پر مسلم معاشرے میں ایک مکمل و ہمہ گیر انقلاب لانے کا منصوبہ تجویز کرتے ہیں اور پاکستانی معاشرے کو اسلام کی اخلاقی و رُوحانی بنیادوں پر قائم کرنا چاہتے ہیں۔
شریعت کے نفاذ و اجراء کے معاملے میں ایک بنیادی نوعیت کا سوال یہ ہے کہ اس کی ابتدا کہاں سے کی جائے؟ موجودہ وقت میں شریعت کے نفاذ کے لیے کون سی ترجیحات ہوں؟ کیا اس کی ابتدا معاشی و اجتماعی عدل کے قیام اور اخلاقی و معاشرتی اصلاح سے کی جائے یا تعزیرات و حدود کے اجراء و نفاذ سے؟ محمد اسد نے اس بات کو صاف کردیا ہے۔ ان کی رائے میں اس کام کی ابتدا اخلاقی و دینی تربیت، معاشرتی اصلاح اور معاشی عدل و انصاف کے قیام سے کی جائے۔ اس کا آغاز ہرگز طور پر حدود و تعزیرات کے اجراء و نفاذ سے نہ کیا جائے۔
حقیقی اسلامی ریاست کے قیام کی غرض سے اسد نے جو ترجیحات مقرر کی ہیں، ان میں اخلاقی انحطاط و علمی زوال کا ازالہ اور معاشی و سماجی ناہمواریوں اور ظلم و استحصال کے جملہ مظاہر کے انسداد کو حدود و تعزیرات کے اجراء و نفاذ پر بہرحال فوقیت حاصل ہے۔ گذشتہ چند عشروں میں بعض مسلم ممالک (بشمول پاکستان) میں اسلامائزیشن کی طرف جو تھوڑی بہت پیش رفت ہوئی ہے، اس میں اصلاح معاشرت، عوام کی اخلاقی و دینی تربیت اور سماجی و معاشی عدل کے قیام کے بجائے حدود و تعزیرات اور بعض دوسرے سطحی اقدامات پر زیادہ زور صرف کیا گیا ہے۔ محمد اسد اس کو درست حکمت عملی تصور نہیں کرتے۔(Asad, Law of Ours, "Author's Note", p.3.)
پاکستان کی اسلامی تشکیل سے متعلق محمد اسد کے اس لائحہ عمل سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ملی زندگی کے بگڑے ہوئے ڈھانچے کو سنوارنے اور اسے اسلامی نمونے پر ڈھالنے کے لیے وہ اجتماعی زندگی کے جملہ شعبوں کی تعمیر نو چاہتے ہیں۔ ان کی نگاہ میں تعلیم، قانون اور معیشت کے شعبے ایسے ہیں جو کلیدی اہمیت کے حامل ہیں اور جن کی اصلاح و تشکیلِ نو از حد ضروری ہے۔ تاہم، ان کے نزدیک دینی تعلیم و تربیت اور معاشرتی و اخلاقی اصلاح کا کام ان سب پر مقدم ہے۔(مکمل)