ہمارے دیہاتی علاقوں میں ہرجگہ مسیحی برادری کا پُشت پناہ ایک پادری موجود ہے، جو تھانے سے لے کر سکرٹریٹ تک ہردرجے اور مرتبے کے حکام سے مسیحیوں کے لیے بے جا رعایتیں تک حاصل کرلیتا ہے۔ مسلمانوں کے کسی عالم کو ان حاکموں کی بارگاہوں میں وہ رسائی حاصل نہیں ہے، جو عیسائی پادریوں کو حاصل ہے۔ [وہ] ان حکام کی نگاہوں میں ویسے ہی ذلیل و خوار ہیں، جیسے انگریز حاکموں کی نگاہ میں کبھی تھے۔ مگر مسیحی پادری ان کا بھی اسی طرح ’فادر‘ ہے، جس طرح انگریز حاکموں کا تھا۔ یہ ایک اور سبب ہے جس کی بناپر دیہات کے بے سہارا لوگ اپنے آپ کو پولیس اور زمین داروں اور بااثر غنڈوں کے ظلم سے بچانے کے لیے مسیحیت میں پناہ ڈھونڈنے پر مجبور ہورہے ہیں۔
رہے کھاتے پیتے طبقے، تو [وہ] اپنی اولاد کو اُردو زبان اور اپنی قومی تہذیب اور اپنےدین کی تعلیم و تربیت دینا لاحاصل سمجھتے ہیں اور ان کو ایسی تعلیم و تربیت دلوانے کی کوشش کرتے ہیں، جس سے وہ زبان اور اَطوار و عادات کے اعتبار سے پورے انگریز یا امریکی بن جائیں۔ اس غرض کے لیے وہ اپنے لڑکوں اور لڑکیوں کو مسیحی اداروں میں بھیجتے ہیں، جہاں کا پوراماحول ،ان کو اسلام اور اسلامی تہذیب سے بیگانہ اور اسلامی تعلیمات سے محض ناواقف ہی نہیں بلکہ منحرف اور باغی بنادیتا ہے۔ اس کے بعد اگر یہ نوجوان عیسائی نہ بھی بنیں تو بہرحال مسلمان تو نہیں رہتے،بلکہ مسلمانوں کی بہ نسبت عیسائیوں سے بہت قریب ہوجاتے ہیں۔ یہی لوگ تعلیم سےفارغ ہوکر ہمارے بڑے بڑے افسر بنتے ہیں اور اُونچے عہدے انھی کے لیے مخصوص ہوجاتے ہیں۔ ان سے کون یہ اُمید کرسکتا ہے کہ ان کی ہمدردیاں مسیحیت کے مقابلے میں کبھی اسلام کے ساتھ ہوں گی۔
اِن حالات میں محض مسیحی عقائد کی تردید میں مضامین لکھنے یا گائوں گائوں تبلیغ کے لیے دورے کرنے سے مسیحیت کے اس سیلاب کو کہاں تک روکا جاسکتا ہے؟(’رسائل و مسائل‘، سیّدابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، جلد۵۸، عدد۳، جون ۱۹۶۲ء، ص ۵۶-۵۷)