عصرِ حاضر میں امتِ مسلمہ اس قدر گہرے فکری، علمی، تہذیبی، سیاسی اور ابلاغی امراض میں مبتلا ہے، کہ ان امراض نے ملّت کے وجود کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ تعجب ہوتا ہے کہ اس کے باوجود یہ امت زندہ ہے!
یہ اللہ کا فضل ہے کہ ان امراض کی کثرت اور ہلاکت آفرینی کے باوجود یہ امت کسی نہ کسی طرح اپنا وجود رکھتی ہے، حتیٰ کہ ان میں سے کچھ امراض تو ایسے ہیں کہ جو امتوں اور قوموں کی تباہی و بربادی کے لیے کافی ہیں، چاہے وہ قومیں کتنی ہی بڑی آبادی یا کتنے ہی وافر وسائل رکھتی ہوں۔
امت کی اس شدید خستہ حالی کے باوجود، شاید آج تک اس کی بقا کا سبب کتاب الله اور سنت ِ رسول صلی الله علیہ وسلم سے ایک نسبت رکھنا اور اس کے نیک و صالح کرداروں کا توبہ و استغفار کرتے رہنا ہے:
وَمَا كَانَ اللہُ لِيُعَذِّبَہُمْ وَاَنْتَ فِيْہِمْ۰ۭ وَمَا كَانَ اللہُ مُعَذِّبَہُمْ وَہُمْ يَسْتَغْفِرُوْنَ۳۳ (الانفال ۸: ۳۳) اُس وقت تو اللہ ان پر عذاب نازل کرنے والا نہ تھا، جب کہ تُو ان کے درمیان موجود تھا اور نہ اللہ کا یہ قاعدہ ہے کہ لوگ استغفار کر رہے ہوں اور وہ اُن کو عذاب دے دے۔
امت مسلمہ کو چمٹی ان خطرناک ترین بیماریوں میں سے ایک بیماری کا نام ’اختلاف‘ یا ’باہم دشمنی‘ ہے۔ یہ متعدی مرض ہر میدان، ہر شہر اور ہر مسلم معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے۔ اس جان لیوا مرض کا دائرہ: فکروعقیدہ، تصورات و خیالات، آراء، سلوک وعمل، اخلاق و کردار، رہن سہن کے طریقوں، آپس کے میل جول، انداز گفتگو، اور اہداف و مقاصد تک پھیل چکا ہے۔ اس کے نتیجے میں خود اُمت کے اندر ایسے گروہوں نے جنم لیا جو باہم برسر پیکار ہیں؛ گویا کہ اس امت کے پاس اختلاف اور جھگڑنے کی ترغیب کے سوا کچھ نہیں ہے۔
کتاب اللہ اور سنتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے توحید کے بعد سب سے زیادہ زور امت کے اتحاد و اتفاق میں وسعت اور اختلاف سے بچنے پر دیا ہے، اور ہر اس چیز سے دور رہنے کا حکم دیا ہے، جو مسلمانوں کے آپس کے تعلقات کو خراب کرتی ہو، یا دینی بھائی چارے میں رخنہ ڈالتی ہو۔ یقیناً اسلام کے اصول و مبادی میں شرک باللہ کے بعد سب سے زیادہ برائی امت کے اختلاف اور آپس کے جھگڑوں سے منسوب ہے۔ نیز ایمان باللہ کے بعد جس چیز پر سب سے زیادہ ابھارا اور ترغیب دی گئی ہے، وہ مسلمانوں کے مابین اتحاد و اتفاق ہے۔ اللہ اور رسولؐ کے احکامات واضح طور پر اتحاد و اتفاق پیدا کرنے، دلوں کو جوڑنے اور متحد رہنے کی تاکید کرتے ہیں۔
اسلام میں کسی چیز پر اتنا زور نہیں دیا گیا جتنا ’کلمۂ توحید‘ اور باہمی اتحاد و اتفاق پر دیا گیا ہے۔ پہلی چیز، یعنی کلمۂ توحید اللہ پر ایسے خالص ایمان کی دعوت دیتا ہے، جو ہرقسم کی ملاوٹ سے پاک ہو۔ اور دوسری چیز توحید کا عملی اظہار ہے۔ جس قوم کا ربّ ایک، نبی ایک، کتاب ایک، قبلہ ایک، اور تخلیق و حیات کا مقصد ایک ہو تو فطری نتیجہ یہی ہونا چاہیے کہ ان کی صفوں میں اتحاد ہو:
اِنَّ ہٰذِہٖٓ اُمَّتُكُمْ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً۰ۡۖ وَّاَنَا رَبُّكُمْ فَاعْبُدُوْنِ۹۲﴾ (الانبیاء۲۱: ۹۲ ) یہ تمھاری اُمّت حقیقت میں ایک ہی اُمّت ہے اور میں تمھارا رب ہوں، پس تم میری عبادت کرو۔
لیکن مقامِ افسوس ہے کہ مسلمانوں نے کلمۂ توحید کے تقاضے پورا کرنے میں کوتاہی کی، اور اتحادو اتفاق سے بے رُخی برتی۔
انھی امراض کی تشخیص اور ان امراض سے بچنے کی تدابیر کو وضاحت سے پیش کرنا مقصود ہے۔ جس کا مقصد اسلامی آگہی پیدا کرنا، اختلاف کی دراڑوں کو پُر کرنا، بحران کی جڑوں کی تشخیص کرنا اور مسلمانوں کے دلوں میں ایمانی روح کو بیدار کرنے میں اپنا حصہ ڈالنا ہے۔ ہمارے تعلقات کی استواری اور ان کو صحیح رخ دینے کی جانب سفر میں ہماری کمزور ایمانیات کے سبب کوئی کردار نہیں رہا۔ اسی وجہ سے درست دینی فہم کے فقدان کے ہاتھوں، غلط طرزِ عمل اور غیراسلامی معاشروں کے دباؤ نے مسلم اُمہ کو شدید دبائو کی گرفت میں لے لیا ہے۔
تعلقات کے درست سمت میں ہونے کی حقیقی ضمانت، اختلافات کے خاتمے اور دلوں کی کدورتیں نکال پھینکنے کا اصل ذریعہ ایمان کی مضبوط بنیادوں اور تصورِ دین کا درست ہونا ہے۔
آج ہمارا اصل مسئلہ دین کے اہداف و مقاصد کے صحیح ادراک کا نہ ہونا ہے۔ ہمیں درست سمت کی طرف رہنمائی کی ضرورت ہے، جو ہماری سلامتی کی ضامن ہو اور علم و معرفت سے درست طریقے سے استفادے کو یقینی بنائے۔ بہت سے دارالعلوم اور یونی ورسٹیوں سے ہم نے علم اور ڈگریاں تو حاصل کیں، لیکن اسلام کے عطا کردہ تصورِ اخلاقیات سے محروم ہیں۔ ہم نے بہت حد تک دُنیاوی اسباب حاصل کیے، مگر اہداف و مقاصد تک نہ پہنچ سکے۔ بارہا مستحب یا مباح امور پر اختلاف کی بنا پر ہم فرض و واجب یا اعلیٰ مقاصد سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ہم نے مقابلے، دلیل بازی اور اختلاف کے فن میں تو مہارت حاصل کرلی، لیکن اس کے آداب و اخلاقیات کو کھودیا۔ نتیجتاً ہم اندرونی شکست و ریخت، باہمی تنازعات اور محاذ آرائی کا شکار ہوگئے، جس کے نتیجے میں ہرقسم کی ناکامی ہمارے حصے میں آئی۔ ہماری شان و شوکت قصہٴ پارینہ ہو گئی، اور ہم بے اثر ہو کر رہ گئے۔ اللہ جل شانہٗ کا ارشاد ہے:
وَلَا تَنَازَعُوْا فَتَفْشَلُوْا وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ ﴾ (الانفال ۸:۴۶) اور آپس میں جھگڑو نہیں ورنہ تمھارے اندر کمزوری پیدا ہو جائے گی اور تمھاری ہوا اُکھڑ جائے گی ۔
اللہ تعالیٰ نے ہمیں خبردار کرنے، اور عبرت حاصل کرنے کے لیے پچھلی امتوں کے واقعات بیان فرمائے ہیں، اور خبردار کیا ہے کہ قوموں اور تہذیبوں کے عروج و زوال میں کونسے عوامل کار فرما ہوتے ہیں، نیز تفرقہ بازی، عناد و اختلاف، اور گروہ بندی کی بیماریوں میں مبتلا ہونے سے خبردار کیا:
وَلَا تَكُوْنُوْا مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ۳۱ۙ مِنَ الَّذِيْنَ فَرَّقُوْا دِيْنَہُمْ وَكَانُوْا شِيَعًا۰ۭ كُلُّ حِزْبٍؚبِمَا لَدَيْہِمْ فَرِحُوْنَ۳۲ ( الروم ۳۰: ۳۱- ۳۲) اور ان مشرکین میں سے نہ ہو جاؤ، جنھوں نے اپنا اپنا دین الگ بنا لیا ہے اور گروہوں میں بٹ گئے ہیں، ہر ایک گروہ کے پاس جو کچھ ہے اُسی میں وہ مگن ہے۔
جو اختلاف انتشار و تفرقہ بازی کی طرف لے جائے، اس کو اُسوۂ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی نسبت نہیں:
اِنَّ الَّذِيْنَ فَرَّقُوْا دِيْنَہُمْ وَكَانُوْا شِيَعًا لَّسْتَ مِنْہُمْ فِيْ شَيْءٍ۰ۭ (الانعام ۶ :۱۵۹ ) جن لوگوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا اور گروہ گروہ بن گئے، یقیناً ان سے تمھارا کچھ واسطہ نہیں۔
اہلِ کتاب علم کی کمی کی وجہ سے ہلاک نہیں ہوئے، بلکہ ان کی ہلاکت کی وجہ یہ تھی کہ انھوں نے اس علم کو آپس کے ظلم، ضد اور زیادتی کے لیے استعمال کیا:
وَمَا اخْتَلَـفَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ اِلَّا مِنْۢ بَعْدِ مَا جَاۗءَھُمُ الْعِلْمُ بَغْيًۢا بَيْنَھُمْ۰ۭ (اٰل عمرٰن ۳: ۱۹) اس دین سے ہٹ کر جو مختلف طریقے اُن لوگوں نے اختیار کیے جنھیں کتاب دی گئی تھی، اُن کے اِس طرزِ عمل کی کوئی وجہ اس کے سوا نہ تھی کہ انھوں نے علم آ جانے کے بعد آپس میں ایک دُوسرے پر زیادتی کرنے کے لیے ایسا کیا۔
یہاں پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ’’کیا ہم کتاب کے بجائے اہلِ کتاب کی اخلاقی بیماریوں کے وارث بنے ہیں؟‘‘ بجائے اس کے کہ ہم علم اور معرفت حاصل کرتے، مگر بدقسمتی سے ہمارے حصے میں ضد اور عناد کا ورثہ ہی آیا ہے۔ یہی اختلاف ودشمنی اور دینی بنیاد پر تفرقہ بازی، اہلِ کتاب کے وہ امراض تھے، جن سے وہ ہلاک ہوئے اور ان کا دین منسوخ کیا گیا۔ کتاب و نبوت کی وارث بننے والی امت کے لیے ان کے قصے سبق حاصل کرنے کے ذریعے کے طور پر بیان کیے گئے۔ چونکہ مسلمان، آخری دین کے پیروکار ہیں، ان کے دین میں تغیر وتبدل اور نسخ کی کوئی گنجایش نہیں، اس لیے یہ امراض امت کے وجود کا کلّی خاتمہ نہیں کرسکتے، لیکن اگر یہ باقی رہیں گے تو امت ہمیشہ کمزور رہے گی، اور اگر ان کا علاج کر دیا جائے تو وہ صحت و عافیت اور عروج پالے گی۔
چیزوں کو سمجھنے اور ان پر حکم لگانے میں نقطہ ہائے نظر کا اختلاف ایک فطری چیز ہے۔ اس کا تعلق بڑی حد تک فطری انفرادیت سے ہے، جو ہر شخص میں الگ الگ پائی جاتی ہے (جو کہ تنوع میں اپنا کردار ادا کرتی ہے اور انسانی معاشرے کی متوازن تشکیل کے لیے ضروری ہے)۔ اس لیے کہ لوگوں میں معاشرتی تعلق قائم کرنا ایسی صورت میں ناممکن ہے، جب وہ بالکل یکساں صلاحیتیں اور ایک جیسی ذہنی ساخت رکھتے ہوں۔ گویا اللہ تعالیٰ کی حکمت کا تقاضا یہی ہے کہ لوگوں کی انفرادی مہارتوں،چاہے وہ فطری ہوں یا محنت سے حاصل ہوں، اور دنیا کے معاملات کے مابین کچھ بنیادی اتفاق و تعاون کے رشتے قائم ہوں، تاکہ زندگی کا پہیہ رواں دواں رہے اور ہر فرد اپنی صلاحیت کے مطابق اس میں حصہ ڈالے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ ایک دوسرے سے الگ الگ صلاحیتوں اور سمجھ بوجھ کے حامل ہیں۔ نیز اہل ایمان کےبھی مختلف درجے ہیں؛ ان میں سے کوئی اپنے اوپر ظلم کرنے والا ہے، کوئی درمیانہ، اور کوئی نیکیوں میں سبقت لے جانے والا:
وَلَوْ شَاۗءَ رَبُّكَ لَجَعَلَ النَّاسَ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً وَّلَا يَزَالُوْنَ مُخْتَلِفِيْنَ۱۱۸ۙ (ھود۱۱: ۱۱۸) تیرا رب اگر چاہتا تو تمام انسانوں کو ایک گروہ بنا سکتا تھا، مگر اب تو وہ مختلف طریقوں ہی پر چلتے رہیں گے۔
اگر فطری اختلاف ایک صحت مند سرگرمی کے طور پر رہتا تو وہ مسلمانوں کے ذہن کو جلا بخشتا اور فکری ارتقا کو تحریک دیتا۔ اختلاف رائے اور معاملے کے مختلف پہلوؤں پر غور و فکر مثبت سرگرمی ہے، مگر افسوس کہ زوال و انحطاط کے دور میں یہ ایک لاعلاج مرض اور انتہائی جلداثر کرنے والے زہر کی شکل اختیار کر گیا ہے۔ جس سے تفرقہ و نزاع اور نسلی و علاقائی کش مکش نے جنم لیا ہےاور مسلم تشخص شکست و ریخت اور انتشار کا شکار ہو گیا ہے۔ انتہائی دُکھ کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بعض لوگ تو اختلاف رائے رکھنے والوں کی جان لینے کے درپے ہوگئے ہیں۔ بعض اس حد تک انتہاپسندی کا شکار ہو گئے ہیں کہ دین کے دشمن، ان کے زیادہ قریب ہیں، بہ نسبت ان مسلمان بھائیوں کے جو ان سے رائے کا اختلاف رکھتے ہیں، اگرچہ وہ عقیدہ اور خالص توحید کی نسبت سے ان کے زیادہ قریب ہیں۔ ماضی اور حال کی تاریخ میں ہمیں اس کی بہت سی افسوس ناک مثالیں ملتی ہیں۔ امت کی بے پناہ صلاحیتوں، وسائل اور قوت و طاقت اختلافات کا ایندھن بنا کر ضائع کر دیے جانے پر دل خون کے آنسو روتا ہے۔
بہت دفعہ یوں ہوتا ہے کہ انسان معاملات کو ان کے اصل زاویے اور درست تناظر میں نہیں دیکھ پاتا۔ اس طرح وہ کئی دور رس نتائج و مضمرات رکھنے والے مسائل کے بارے میں جامع اور متوازن تصور قائم کرنے سے محروم رہ جاتا ہے۔ اس کا ذہن ایک محدود ضمنی نقطے پرہی مرکوز ہو جاتا ہے، جسے وہ مبالغہ آمیزی کرتے ہوئے بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے، اور پھر وہی اس کی سوچ اور فکر کو پوری طرح لپیٹ میں لے لیتا ہے، اس حد تک کہ پھر وہ کسی چیز یا ایسے شخص کو خاطرمیں نہیں لاتا جو اسے غلطی پر خبردار کرتا ہے۔ وہ اسی ضمنی نقطے کی بنیاد پر تعلق رکھتا اور قطع تعلقی کرتا ہے۔ اسی کی بنیاد پر محبت اور بغض رکھتا ہے، حتیٰ کہ بعض اوقات مختلف رائے رکھنے والوں کے خلاف اُمت اور دین کے دشمنوں سے مدد حاصل کرنے سے بھی گریز نہیں کرتا۔
روایت کیا گیا ہے کہ واصل بن عطاء اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ تھا کہ خوارج سے ان کا آمنا سامنا ہوگیا۔ واصل نے اپنے ساتھیوں سے کہا: ’’یہ تمھارا کام نہیں، تم الگ ہو جاؤ اور مجھے ان سے نمٹنے دو‘‘۔ سفر کی تھکاوٹ سے وہ ہلاکت کے قریب پہنچ چکے تھے۔
انھوں نے کہا: ’’آپ کی مرضی‘‘۔
پھر وہ خوارج کے پاس گئے تو انھوں نے پوچھا: تم اور تمھارے ساتھی کون ہو؟
واصل نے جواب دیا: ’’مشرک ہیں، اور تم سے پناہ کے طالب ہیں تاکہ اللہ کا کلام سن سکیں اور اس کی حدود پہچان سکیں‘‘۔
انھوں نے کہا: ’’ہم نے تمھیں پناہ دی‘‘۔
واصل نے کہا: ’’پھر تم ہمیں پڑھاؤ‘‘۔ وہ اسے اپنے مسائل بتانے لگے، اور وہ جواب میں کہتا جاتا کہ میں نے اور میرے ساتھیوں نے قبول کیا۔
انھوں نے کہا: ’’اب ہمارے ساتھی بن کر چلو کیونکہ تم ہمارے بھائی ہو‘‘۔
واصل نے کہا: تمھارے لیے ایسا کرنا جائز نہیں، اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَاِنْ اَحَدٌ مِّنَ الْمُشْرِكِيْنَ اسْتَجَارَكَ فَاَجِرْہُ حَتّٰي يَسْمَعَ كَلٰمَ اللہِ ثُمَّ اَبْلِغْہُ مَاْمَنَہٗ۰ۭ (التوبہ ۹: ۶) [اور اگر مشرکین میں سے کوئی شخص پناہ مانگ کر تمھارے پاس آنا چاہے (تاکہ اللہ کا کلام سُن لے) تو اُسے پناہ دے دو یہاں تک کہ وہ اللہ کا کلام سُن لے۔ پھر اُسے اس کے مامن (محفوظ مقام ) تک پہنچا دو]۔ اس لیے اب تم ہمیں ہمارے محفوظ مقام تک پہنچا دو‘‘۔
انھوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا، پھر کہا: ’’ہمیں منظور ہے‘‘۔ پھر ان سب کو ساتھ لے کر چلے یہاں تک کہ انھیں محفوظ مقام تک پہنچا دیا۔
اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اختلاف کی شدت اس حد تک پہنچ گئی تھی کہ بعض مسلمان فرقے جو اپنے آپ کو ہی خالص حق کا علَم بردار سمجھتے تھے، ان کے ہاں مشرک کی جان اس مسلمان سے زیادہ محفوظ تھی جو ان سے فروعی اور اجتہادی مسائل میں اختلاف رکھتا تھا۔ اس ماحول میں تشدد اور سزا سے بچنے کے لیے اس کے پاس کوئی چارہ نہ تھا کہ وہ اپنے آپ کو مشرک ظاہر کرے۔
یہ مذموم اختلاف اور دل و دماغ کو ماؤف کر دینے والی ہوائے نفس ہے، جو مسلسل بڑھتی رہتی ہے، اور انسان کے ہوش و حواس اور عقل و خرد کو شل کر دیتی ہے۔ نتیجے کے طور پہ وہ شریعت کی کلّی حکمتیں، عمومی اصول و مبادی، مسلمانوں کے مشترکات، اور اسلام کے بنیادی قواعد اور اہداف و مقاصد کو فراموش کر دیتا ہے۔ ایسا شخص بصیرت و بصارت سے محروم ہوجاتا ہے۔ اسلامی اخلاق کی ابجد تک کو بھلا بیٹھتا ہے۔ اس کے معیارات و تصورات میں بگاڑ آجاتا ہے۔ حق و باطل گڈمڈ ہوجاتے ہیں اور دین کی ترجیحات نظر سے اوجھل ہوجاتی ہیں۔ علم کے بغیر بولنا، بصیرت کے بغیر فتویٰ دینا، بلا دلیل اعمال کی انجام دہی اور مسلمانوں کی تذلیل و تکفیر اور ان پر بہتان طرازی اس کا محبوب مشغلہ بن جاتا ہے۔ ایسا مریض اندھے تعصب کی گہری کھائی میں جا گرتا ہے، اور اس کی دنیا اندھیر ہوجاتی ہے۔ دراصل یہ اس کی تاریک نفسیات کا عکس ہوتا ہے، جس میں علم کا نور بجھ جاتا ہے اور سمجھ بوجھ کا دِیا ماند پڑ چکا ہوتا ہے: وَمَنْ لَّمْ يَجْعَلِ اللہُ لَہٗ نُوْرًا فَمَا لَہٗ مِنْ نُّوْرٍ۴۰ (النور۲۴:۴۰) ’’جسے اللہ نُور نہ بخشے اُس کے لیے پھر کوئی نُور نہیں‘‘۔
اجتہادی آراء، اور فقہی مکاتب فکر جو اہل نظرو اجتہاد کا میدان ہیں، نا تجربہ کار، اندھے پیروکاروں کے ہاتھ لگ کر مذہبی گروہ بندی اورسیاسی تعصب کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ وہ اپنے نہج کے مطابق آیات اور احادیث کی تاویل کرتے ہیں اور پھر وہ آیت یا حدیث جو ان کی مذہبی گروہ بندی سے مطابقت نہ رکھتی ہو، اس کی یا تو تاویل کی جاتی ہے یا وہ منسوخ قرار پاتی ہے۔ بسااوقات تعصب انتہائی شدت اختیار کرلیتا ہے۔
سلف صالحین رضوان اللہ علیہم کے مابین بھی اختلاف رائے موجود تھا، لیکن یہ اختلاف ان کے درمیان دوری اور تفرقے کی بنیاد نہیں بنا۔ ان میں اختلاف توہوا مگر تفرقہ پیدا نہیں ہوا، اس لیے کہ دلوں کی الفت اور اہدا ف و مقاصد کی یگانگت اس قدر راسخ تھی کہ کوئی چیز اسے نقصان نہیں پہنچا سکتی تھی۔ انھوں نے نفسانی عوارض سے چھٹکارا پا لیا تھا، اگرچہ ان میں سے بعض سے کچھ عملی کمزوریاں سرزد ہوگئی ہوں۔ سماجی سطح پر نیکوکاروں اور صالح افراد کے بارے میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حاضرین مجلس کو یہ رہنمائی دی تھی کہ اب ان کے پاس فلاں فلاں خصوصیات کا حامل ایک جنتی شخص آنے والا ہے۔ ایسے شخص کے معمولات اور طرز عمل کا جائزہ لینے پر معلوم ہوا کہ وہ کبھی اس حال میں نہیں ہوتا کہ اس کے دل میں کسی مسلمان کے لیے کینہ و کدورت ہو۔
اس کے برعکس آج ہمارا اصل مسئلہ ہماری ذات میں ہے۔ اتحاد و اتفاق کے بیش تر روپ اور رنگ محض دکھلاوا ہیں۔ اس کے حق میں دلیل بازی اپنے آپ کو دھوکا دینے کے مترادف ہے، اس نفاق اور کھلے تضاد میں ہم دوسروں سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہیں، جب کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
وَذَرُوْا ظَاہِرَ الْاِثْمِ وَبَاطِنَہٗ۰ۭ ( الانعام۶: ۱۲۰ ) تم کھلے گناہوں سے بھی بچو اور چُھپے گناہوں سے بھی۔
عالم اسلام جو کبھی ایک متحدہ ملک تھا، جہاں کتاب اللہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بالا دستی حاصل تھی، آج یہ ۵۷سے زائد چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں بٹ چکا ہے، جن کے آپس میں گہرے تنازعات ہیں۔ مگر اس سے بڑا مذاق یہ بھی ہے کہ ہرمسلم ملک اتحاد کا نعرہ بھی بلند کرتا ہے، جب کہ ہر ملک کے اندر مزید تقسیم در تقسیم پائی جاتی ہے۔ بعض تنظیمیں جو اسلام کے لیے سرگرم عمل ہیں، اوران پر امت کی نجات و فلاح کی ذمہ داری ہے،ان کا حال بھی سرکاری اداروں کے ملازمین میں پائے جانے والے حسد اور کدورتوں سے کچھ زیادہ مختلف نہیں۔
ہمارا بحران دراصل فکری بحران ہے۔ ہمارا مسئلہ امت کے ساتھ سنجیدہ تعلق کا فقدان ہے۔ جب امت مسلمہ میں قرآن و سنت کو بالا دستی حاصل تھی تو اس نے اپنا مشن بخوبی ادا کیا۔ انتہائی تنگ مادی حالات کے باوجود اس نے ایک اعلیٰ تہذیب و تمدن کی داغ بیل ڈالی، تب معاشی تنگی کے باوجود زندگی آسان تھی۔ یہ حقیقت ہے کہ کتاب و سنت سے انحراف اور باہمی تنازعات ناکامی، ضعف اور ہوا اُکھڑنے کا باعث ہیں۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَاَطِيْعُوا اللہَ وَرَسُوْلَہٗ وَلَا تَنَازَعُوْا فَتَفْشَلُوْا وَتَذْہَبَ رِيْحُكُمْ وَاصْبِرُوْا۰ۭ (الانفال ۸:۴۶) اور اللہ اور اُس کے رسولؐ کی اطاعت کرو اور آپس میں جھگڑو نہیں ورنہ تمھارے اندر کمزوری پیدا ہو جائے گی اور تمھاری ہوا اُکھڑ جائے گی۔
اسلام نے تفرقہ بازی کا خاتمہ کیا، عربوں کا رخ پھیر کر ایک معبود بر حق کی طرف کر دیا اور ان تمام جھوٹے خداؤں کو مٹا دیا، جو ہر قبیلے نے اپنے لیے گھڑ رکھے تھے۔
آج مسلمانوں کو وسائل کی قلت اور معاشی تنگی کا سامنا نہیں، مگر وہ افکار و نظریات کا میدان ہو یا مادی ساز و سامان کا، ہر لحاظ سے صارف اقوام میں سر فہرست ہیں۔ ان کا اصل مرض یہ ہے کہ وہ مشترکہ مقاصد و اہداف، یکساں نصب العین اور اصل مقصدحیات فراموش کر بیٹھے ہیں۔ اس چیز سے ان کا بنیادی فکری ڈھانچا متاثر ہوا ہے۔ مسلم ذہن کو جو فکری اور اخلاقی بحران لاحق ہے، اس سے نکلنے کی کوئی سبیل اس کے سوا نہیں کہ فکری بحران کی بنیاد اور سوچ اور فکر کے طریق کار کی اصلاح کی جائے، مناہج فکرکی ترتیب نو کی جائے، گم گشتہ ترجیحات کو از سر نو مرتب کر کے مسلمان نسلوں کی اس کے مطابق تربیت کی جائے۔
یہ سب صرف اسی صورت میں ممکن ہے، جب ہم قرنِ اول کے اسلاف کے طرز عمل کے مطابق کتاب و سنت کو مضبوطی سے تھام لیں، افکار و نظریات کو منضبط کرنے کے لیے قیاس و استنباط کے قواعد و ضوابط کا تعین کریں، علم و آگہی کو آداب و اخلاقیات کے ساتھ جوڑ دیں، نیز ایسی تحقیقات اور مطالعات کو پروان چڑھائیں جو اتحاد امت، مشترکہ عوامل، اور اعلیٰ اہداف و مقاصد کو تقویت پہنچائیں، تاکہ صفوں میں اتحاد و اتفاق پیدا ہو، اور نقوش راہ نکھر کر سامنے آئیں، اور منظم انداز سے منزل کی طرف پیش قدمی ہو۔
اس سلسلے میں جب میں نے اپنے مشاہدات اور افکار بیان کرنے کی کوشش کی تو مختلف ردعمل سامنے آئے:
تاہم، یہ بات قلبی راحت کا باعث ہے کہ آج کا مسلمان اختلاف کے اثرات سے چھٹکارا پانے کی خواہش رکھتا ہے، مگر ہرآن جاہلوں کی جہالت، دشمنوں کےشور و شغب، آستین کے سانپوں کی سازشوں اور شدت پسندوں کی بے جا سختی کا ڈر غالب رہتا ہے۔ امرواقعہ یہ ہے کہ ان آداب و اخلاقیات کا موجودہ صورت حال پر انطباق کرنا اور معاصر مسلم گروہوں کے مثبت اور منفی پہلوؤں کا لگی لپٹی رکھے بغیر بیان کرنا، بہت مشکل بنادیا گیا ہے۔
بلاشبہہ اس میدان میں کوششیں کی جانی چاہییں، اس لیے کہ اختلاف رائے کی اخلاقیات کا شعور دینے اور امت کے تمام گروہوں کی ان اصولوں کے مطابق تربیت کرنے سے امت کو ایسی بڑی صلاحیتیں میسر آئیں گی، جو فضول باہمی چپقلش میں ضائع ہو رہی ہیں۔جب مسلم ذہن اپنے تہذیبی کردار کا شعور حاصل کر لے گا، تو یہ امت کے ان افراد کو واپس لانے کی کوشش بھی کرے گا، جو اجنبی بن گئے ہیں۔ اسلام کے شعوری فرزندوں پر امت کے اتحاد اوراس کی صحت و تندرستی بحال کرنے کے لیے ایک مضبوط اور ٹھوس بنیاد کھڑی کرنے کے فوری کام اور پھر اسلامی تہذیب کو دوبارہ تعمیر کرنےکے ذمہ داری ہے۔ زندگی کو موت سے الگ کرنے والا ایک لمحہ ہی تو ہوتا ہے، اور اگر عزم مصمم کر لیا جائے توہمارے لیے کوئی چیز اپنے مسلمان بھائیوں کو شیطانوں کے اثرات سے نکال لانے میں رکاوٹ نہیں بن سکتی۔ اس لیے جس روز اُمت کے تمام گروہوں کی تعمیری قیادت نے اتحاد کی اُمنگ اور اختلاف کی حدود کا پاس و لحاظ کرلیا،اُس روز اہلِ ایمان اللہ کی تائید و نصرت سے سرفراز ہوں گے اور وہ سب خائب و خاسر ہوں گے، جو حق کے ادراک سے محروم رہ کر اسے مٹادینے کی کوشش کرتے رہے ہوں گے۔
سمجھ میں نہیں آتا کہ ان دوستوں سے کیا کہا جائے؟ مگر تعجب ہے کہ سادگی انسان کو اس حد تک لے جاتی ہے کہ وہ بنیادی اُمور کی حقیقت تک سے انکار کرنے لگتا ہے یا ان سے نظریں چُرانے کی کوشش کرتا ہے۔ اس سے مجھے امیر المومنین حضرت علیؓ کے کرب کا بھرپور احساس ہوا، جب انھوں نے فرمایا تھا: ’’جب بھی مجھ سے اہلِ علم نے بحث مباحثہ کیا تو مجھے اس پر غلبہ حاصل ہوا، مگر جب کبھی کسی جاہل سے بحث ہوئی تو اس نے مجھے لاجواب کردیا!‘‘
بہرحال، اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اس گروہ کو اور ہمیں بھی راہ صواب دکھائے!