ڈاکٹر طٰہٰ جابر العلوانی


عصرِ حاضر میں امتِ مسلمہ اس قدر گہرے فکری، علمی، تہذیبی، سیاسی اور ابلاغی امراض میں مبتلا ہے، کہ ان امراض نے ملّت کے وجود کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ تعجب ہوتا ہے کہ اس کے باوجود یہ امت زندہ ہے!

یہ اللہ کا فضل ہے کہ ان امراض کی کثرت اور ہلاکت آفرینی کے باوجود یہ امت کسی نہ کسی طرح اپنا وجود رکھتی ہے، حتیٰ کہ ان میں سے کچھ امراض تو ایسے ہیں کہ جو امتوں اور قوموں کی تباہی و بربادی کے لیے کافی ہیں، چاہے وہ قومیں کتنی ہی بڑی آبادی یا کتنے ہی وافر وسائل رکھتی ہوں۔

 امت کی اس شدید خستہ حالی کے باوجود، شاید آج تک اس کی بقا کا سبب کتاب الله اور سنت ِ رسول صلی الله علیہ وسلم سے ایک نسبت رکھنا اور اس کے نیک و صالح کرداروں کا توبہ و استغفار کرتے رہنا ہے:

وَمَا كَانَ اللہُ لِيُعَذِّبَہُمْ وَاَنْتَ فِيْہِمْ۝۰ۭ وَمَا كَانَ اللہُ مُعَذِّبَہُمْ وَہُمْ يَسْتَغْفِرُوْنَ۝۳۳ (الانفال ۸: ۳۳) اُس وقت تو اللہ ان پر عذاب نازل کرنے والا نہ تھا، جب کہ تُو ان کے درمیان موجود تھا اور نہ اللہ کا یہ قاعدہ ہے کہ لوگ استغفار کر رہے ہوں اور وہ اُن کو عذاب دے دے۔

امت مسلمہ کو چمٹی ان خطرناک ترین بیماریوں میں سے ایک بیماری کا نام ’اختلاف‘ یا ’باہم دشمنی‘ ہے۔ یہ متعدی مرض ہر میدان، ہر شہر اور ہر مسلم معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے۔ اس جان لیوا مرض کا دائرہ: فکروعقیدہ، تصورات و خیالات، آراء، سلوک وعمل، اخلاق و کردار، رہن سہن کے طریقوں، آپس کے میل جول، انداز گفتگو، اور اہداف و مقاصد تک پھیل چکا ہے۔ اس کے نتیجے میں خود اُمت کے اندر ایسے گروہوں نے جنم لیا جو باہم برسر پیکار ہیں؛ گویا کہ اس امت کے پاس اختلاف اور جھگڑنے کی ترغیب کے سوا کچھ نہیں ہے۔

کتاب اللہ اور سنتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے توحید کے بعد سب سے زیادہ زور امت کے اتحاد و اتفاق میں وسعت اور اختلاف سے بچنے پر دیا ہے، اور ہر اس چیز سے دور رہنے کا حکم دیا ہے، جو مسلمانوں کے آپس کے تعلقات کو خراب کرتی ہو، یا دینی بھائی چارے میں رخنہ ڈالتی ہو۔ یقیناً اسلام کے اصول و مبادی میں شرک باللہ کے بعد سب سے زیادہ برائی امت کے اختلاف اور آپس کے جھگڑوں سے منسوب ہے۔ نیز ایمان باللہ کے بعد جس چیز پر سب سے زیادہ ابھارا اور ترغیب دی گئی ہے، وہ مسلمانوں کے مابین اتحاد و اتفاق ہے۔ اللہ اور رسولؐ کے احکامات واضح طور پر اتحاد و اتفاق پیدا کرنے، دلوں کو جوڑنے اور متحد رہنے کی تاکید کرتے ہیں۔

اسلام میں کسی چیز پر اتنا زور نہیں دیا گیا جتنا ’کلمۂ توحید‘ اور باہمی اتحاد و اتفاق پر دیا گیا ہے۔ پہلی چیز، یعنی کلمۂ توحید اللہ پر ایسے خالص ایمان کی دعوت دیتا ہے، جو ہرقسم کی ملاوٹ سے پاک ہو۔ اور دوسری چیز توحید کا عملی اظہار ہے۔ جس قوم کا ربّ ایک، نبی ایک، کتاب ایک، قبلہ ایک، اور تخلیق و حیات کا مقصد ایک ہو تو فطری نتیجہ یہی ہونا چاہیے کہ ان کی صفوں میں اتحاد ہو:

 اِنَّ ہٰذِہٖٓ اُمَّتُكُمْ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً۝۰ۡۖ وَّاَنَا رَبُّكُمْ فَاعْبُدُوْنِ۝۹۲﴾ (الانبیاء۲۱: ۹۲ ) یہ تمھاری اُمّت حقیقت میں ایک ہی اُمّت ہے اور میں تمھارا رب ہوں، پس تم میری عبادت کرو۔

لیکن مقامِ افسوس ہے کہ مسلمانوں نے کلمۂ توحید کے تقاضے پورا کرنے میں کوتاہی کی، اور اتحادو اتفاق سے بے رُخی برتی۔

انھی امراض کی تشخیص اور ان امراض سے بچنے کی تدابیر کو وضاحت سے پیش کرنا مقصود ہے۔ جس کا مقصد اسلامی آگہی پیدا کرنا، اختلاف کی دراڑوں کو پُر کرنا، بحران کی جڑوں کی تشخیص کرنا اور مسلمانوں کے دلوں میں ایمانی روح کو بیدار کرنے میں اپنا حصہ ڈالنا ہے۔ ہمارے تعلقات کی استواری اور ان کو صحیح رخ دینے کی جانب سفر میں ہماری کمزور ایمانیات کے سبب کوئی کردار نہیں رہا۔ اسی وجہ سے درست دینی فہم کے فقدان کے ہاتھوں، غلط طرزِ عمل اور غیراسلامی معاشروں کے دباؤ نے مسلم اُمہ کو شدید دبائو کی گرفت میں لے لیا ہے۔

 تعلقات کے درست سمت میں ہونے کی حقیقی ضمانت، اختلافات کے خاتمے اور دلوں کی کدورتیں نکال پھینکنے کا اصل ذریعہ ایمان کی مضبوط بنیادوں اور تصورِ دین کا درست ہونا ہے۔

آج ہمارا اصل مسئلہ دین کے اہداف و مقاصد کے صحیح ادراک کا نہ ہونا ہے۔ ہمیں درست سمت کی طرف رہنمائی کی ضرورت ہے، جو ہماری سلامتی کی ضامن ہو اور علم و معرفت سے درست طریقے سے استفادے کو یقینی بنائے۔ بہت سے دارالعلوم اور یونی ورسٹیوں سے ہم نے علم اور ڈگریاں تو حاصل کیں، لیکن اسلام کے عطا کردہ تصورِ اخلاقیات سے محروم ہیں۔ ہم نے بہت حد تک دُنیاوی اسباب حاصل کیے، مگر اہداف و مقاصد تک نہ پہنچ سکے۔ بارہا مستحب یا مباح امور پر اختلاف کی بنا پر ہم فرض و واجب یا اعلیٰ مقاصد سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ہم نے مقابلے، دلیل بازی اور اختلاف کے فن میں تو مہارت حاصل کرلی، لیکن اس کے آداب و اخلاقیات کو کھودیا۔ نتیجتاً ہم اندرونی شکست و ریخت، باہمی تنازعات اور محاذ آرائی کا شکار ہوگئے، جس کے نتیجے میں ہرقسم کی ناکامی ہمارے حصے میں آئی۔ ہماری شان و شوکت قصہٴ پارینہ ہو گئی، اور ہم بے اثر ہو کر رہ گئے۔ اللہ جل شانہٗ کا ارشاد ہے:

وَلَا تَنَازَعُوْا فَتَفْشَلُوْا وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ ﴾ (الانفال ۸:۴۶) اور آپس میں جھگڑو نہیں ورنہ تمھارے اندر کمزوری پیدا ہو جائے گی اور تمھاری ہوا اُکھڑ جائے گی ۔

اللہ تعالیٰ نے ہمیں خبردار کرنے، اور عبرت حاصل کرنے کے لیے پچھلی امتوں کے واقعات بیان فرمائے ہیں، اور خبردار کیا ہے کہ قوموں اور تہذیبوں کے عروج و زوال میں کونسے عوامل کار فرما ہوتے ہیں، نیز تفرقہ بازی، عناد و اختلاف، اور گروہ بندی کی بیماریوں میں مبتلا  ہونے سے خبردار کیا:

وَلَا تَكُوْنُوْا مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ۝۳۱ۙ مِنَ الَّذِيْنَ فَرَّقُوْا دِيْنَہُمْ وَكَانُوْا شِيَعًا۝۰ۭ كُلُّ حِزْبٍؚبِمَا لَدَيْہِمْ فَرِحُوْنَ۝۳۲ ( الروم ۳۰: ۳۱- ۳۲) اور ان مشرکین میں سے نہ ہو جاؤ، جنھوں نے اپنا اپنا دین الگ بنا لیا ہے اور گروہوں میں بٹ گئے ہیں، ہر ایک گروہ کے پاس جو کچھ ہے اُسی میں وہ مگن ہے۔

جو اختلاف انتشار و تفرقہ بازی کی طرف لے جائے، اس کو اُسوۂ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی نسبت نہیں:

اِنَّ الَّذِيْنَ فَرَّقُوْا دِيْنَہُمْ وَكَانُوْا شِيَعًا لَّسْتَ مِنْہُمْ فِيْ شَيْءٍ۝۰ۭ (الانعام ۶ :۱۵۹ ) جن لوگوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا اور گروہ گروہ بن گئے، یقیناً ان سے تمھارا کچھ واسطہ نہیں۔

اہلِ کتاب علم کی کمی کی وجہ سے ہلاک نہیں ہوئے، بلکہ ان کی ہلاکت کی وجہ یہ تھی کہ انھوں نے اس علم کو آپس کے ظلم، ضد اور زیادتی کے لیے استعمال کیا:

 وَمَا اخْتَلَـفَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ اِلَّا مِنْۢ بَعْدِ مَا جَاۗءَھُمُ الْعِلْمُ بَغْيًۢا بَيْنَھُمْ۝۰ۭ (اٰل عمرٰن ۳: ۱۹) اس دین سے ہٹ کر جو مختلف طریقے اُن لوگوں نے اختیار کیے جنھیں کتاب دی گئی تھی، اُن کے اِس طرزِ عمل کی کوئی وجہ اس کے سوا نہ تھی کہ انھوں نے علم آ جانے کے بعد آپس میں ایک دُوسرے پر زیادتی کرنے کے لیے ایسا کیا۔

یہاں پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ’’کیا ہم کتاب کے بجائے اہلِ کتاب کی اخلاقی بیماریوں کے وارث بنے ہیں؟‘‘ بجائے اس کے کہ ہم علم اور معرفت حاصل کرتے، مگر بدقسمتی سے ہمارے حصے میں ضد اور عناد کا ورثہ ہی آیا ہے۔ یہی اختلاف ودشمنی اور دینی بنیاد پر تفرقہ بازی، اہلِ کتاب کے وہ امراض تھے، جن سے وہ ہلاک ہوئے اور ان کا دین منسوخ کیا گیا۔ کتاب و نبوت کی وارث بننے والی امت کے لیے ان کے قصے سبق حاصل کرنے کے ذریعے کے طور پر بیان کیے گئے۔ چونکہ مسلمان، آخری دین کے پیروکار ہیں، ان کے دین میں تغیر وتبدل اور نسخ کی کوئی گنجایش نہیں، اس لیے یہ امراض امت کے وجود کا کلّی خاتمہ نہیں کرسکتے، لیکن اگر یہ باقی رہیں گے تو امت ہمیشہ کمزور رہے گی، اور اگر ان کا علاج کر دیا جائے تو وہ صحت و عافیت اور عروج پالے گی۔

چیزوں کو سمجھنے اور ان پر حکم لگانے میں نقطہ ہائے نظر کا اختلاف ایک فطری چیز ہے۔ اس کا تعلق بڑی حد تک فطری انفرادیت سے ہے، جو ہر شخص میں الگ الگ پائی جاتی ہے (جو کہ تنوع میں اپنا کردار ادا کرتی ہے اور انسانی معاشرے کی متوازن تشکیل کے لیے ضروری ہے)۔ اس لیے کہ لوگوں میں معاشرتی تعلق قائم کرنا ایسی صورت میں ناممکن ہے، جب وہ بالکل یکساں صلاحیتیں اور ایک جیسی ذہنی ساخت رکھتے ہوں۔ گویا اللہ تعالیٰ کی حکمت کا تقاضا یہی ہے کہ لوگوں کی انفرادی مہارتوں،چاہے وہ فطری ہوں یا محنت سے حاصل ہوں، اور دنیا کے معاملات کے مابین کچھ بنیادی اتفاق و تعاون کے رشتے قائم ہوں، تاکہ زندگی کا پہیہ رواں دواں رہے اور ہر فرد اپنی صلاحیت کے مطابق اس میں حصہ ڈالے۔ یہی وجہ ہے کہ  لوگ ایک دوسرے سے الگ الگ صلاحیتوں اور سمجھ بوجھ کے حامل ہیں۔ نیز اہل ایمان کےبھی مختلف درجے ہیں؛ ان میں سے کوئی اپنے اوپر ظلم کرنے والا ہے، کوئی درمیانہ، اور کوئی نیکیوں میں سبقت لے جانے والا:

وَلَوْ شَاۗءَ رَبُّكَ لَجَعَلَ النَّاسَ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً وَّلَا يَزَالُوْنَ مُخْتَلِفِيْنَ۝۱۱۸ۙ  (ھود۱۱: ۱۱۸) تیرا رب اگر چاہتا تو تمام انسانوں کو ایک گروہ بنا سکتا تھا، مگر اب تو وہ مختلف طریقوں ہی پر چلتے رہیں گے۔

اگر فطری اختلاف ایک صحت مند سرگرمی کے طور پر رہتا تو وہ مسلمانوں کے ذہن کو جلا بخشتا اور فکری ارتقا کو تحریک دیتا۔ اختلاف رائے اور معاملے کے مختلف پہلوؤں پر غور و فکر مثبت سرگرمی ہے، مگر افسوس کہ زوال و انحطاط کے دور میں یہ ایک لاعلاج مرض اور انتہائی جلداثر کرنے والے زہر کی شکل اختیار کر گیا ہے۔ جس سے تفرقہ و نزاع اور نسلی و علاقائی کش مکش نے جنم لیا ہےاور مسلم تشخص شکست و ریخت اور انتشار کا شکار ہو گیا ہے۔ انتہائی دُکھ کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بعض لوگ تو اختلاف رائے رکھنے والوں کی جان لینے کے درپے ہوگئے ہیں۔ بعض اس حد تک انتہاپسندی کا شکار ہو گئے ہیں کہ دین کے دشمن، ان کے زیادہ قریب ہیں، بہ نسبت ان مسلمان بھائیوں کے جو ان سے رائے کا اختلاف رکھتے ہیں، اگرچہ وہ عقیدہ اور خالص توحید کی نسبت سے ان کے زیادہ قریب ہیں۔ ماضی اور حال کی تاریخ میں ہمیں اس کی بہت سی افسوس ناک مثالیں ملتی ہیں۔ امت کی بے پناہ صلاحیتوں، وسائل اور قوت و طاقت اختلافات کا ایندھن بنا کر ضائع کر دیے جانے پر دل خون کے آنسو روتا ہے۔

بہت دفعہ یوں ہوتا ہے کہ انسان معاملات کو ان کے اصل زاویے اور درست تناظر میں نہیں دیکھ پاتا۔ اس طرح وہ کئی دور رس نتائج و مضمرات رکھنے والے مسائل کے بارے میں جامع اور متوازن تصور قائم کرنے سے محروم رہ جاتا ہے۔ اس کا ذہن ایک محدود ضمنی نقطے پرہی مرکوز ہو جاتا ہے، جسے وہ مبالغہ آمیزی کرتے ہوئے بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے، اور پھر وہی اس کی سوچ اور فکر کو پوری طرح لپیٹ میں لے لیتا ہے، اس حد تک کہ پھر وہ کسی چیز یا ایسے شخص کو خاطرمیں نہیں لاتا جو اسے غلطی پر خبردار کرتا ہے۔ وہ اسی ضمنی نقطے کی بنیاد پر تعلق رکھتا اور قطع تعلقی کرتا ہے۔ اسی کی بنیاد پر محبت اور بغض رکھتا ہے، حتیٰ کہ بعض اوقات مختلف رائے رکھنے والوں کے خلاف اُمت اور دین کے دشمنوں سے مدد حاصل کرنے سے بھی گریز نہیں کرتا۔

روایت کیا گیا ہے کہ واصل بن عطاء اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ تھا کہ خوارج سے ان کا  آمنا سامنا ہوگیا۔ واصل نے اپنے ساتھیوں سے کہا: ’’یہ تمھارا کام نہیں، تم الگ ہو جاؤ اور مجھے ان سے نمٹنے دو‘‘۔ سفر کی تھکاوٹ سے وہ ہلاکت کے قریب پہنچ چکے تھے۔

انھوں نے کہا: ’’آپ کی مرضی‘‘۔

پھر وہ خوارج کے پاس گئے تو انھوں نے پوچھا: تم اور تمھارے ساتھی کون ہو؟

واصل نے جواب دیا: ’’مشرک ہیں، اور تم سے پناہ کے طالب ہیں تاکہ اللہ کا کلام سن سکیں اور اس کی حدود پہچان سکیں‘‘۔

انھوں نے کہا: ’’ہم نے تمھیں پناہ دی‘‘۔

واصل نے کہا: ’’پھر تم ہمیں پڑھاؤ‘‘۔ وہ اسے اپنے مسائل بتانے لگے، اور وہ جواب میں کہتا جاتا کہ میں نے اور میرے ساتھیوں نے قبول کیا۔

انھوں نے کہا: ’’اب ہمارے ساتھی بن کر چلو کیونکہ تم ہمارے بھائی ہو‘‘۔

 واصل نے کہا: تمھارے لیے ایسا کرنا جائز نہیں، اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَاِنْ اَحَدٌ مِّنَ الْمُشْرِكِيْنَ اسْتَجَارَكَ فَاَجِرْہُ حَتّٰي يَسْمَعَ كَلٰمَ اللہِ ثُمَّ اَبْلِغْہُ مَاْمَنَہٗ۝۰ۭ (التوبہ ۹: ۶) [اور اگر مشرکین میں سے کوئی شخص پناہ مانگ کر تمھارے پاس آنا چاہے (تاکہ اللہ کا کلام سُن لے) تو اُسے پناہ دے دو یہاں تک کہ وہ اللہ کا کلام سُن لے۔ پھر اُسے اس کے مامن (محفوظ مقام ) تک پہنچا دو]۔ اس لیے اب تم ہمیں ہمارے محفوظ مقام تک پہنچا دو‘‘۔

 انھوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا، پھر کہا: ’’ہمیں منظور ہے‘‘۔ پھر ان سب کو ساتھ لے کر چلے یہاں تک کہ انھیں محفوظ مقام تک پہنچا دیا۔ 

اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اختلاف کی شدت اس حد تک پہنچ گئی تھی کہ بعض مسلمان فرقے جو اپنے آپ کو ہی خالص حق کا علَم بردار سمجھتے تھے، ان کے ہاں مشرک کی جان اس مسلمان سے زیادہ محفوظ تھی جو ان سے فروعی اور اجتہادی مسائل میں اختلاف رکھتا تھا۔ اس ماحول میں تشدد اور سزا سے بچنے کے لیے اس کے پاس کوئی چارہ نہ تھا کہ وہ اپنے آپ کو مشرک ظاہر کرے۔

یہ مذموم اختلاف اور دل و دماغ کو ماؤف کر دینے والی ہوائے نفس ہے، جو مسلسل بڑھتی رہتی ہے، اور انسان کے ہوش و حواس اور عقل و خرد کو شل کر دیتی ہے۔ نتیجے کے طور پہ وہ شریعت کی کلّی حکمتیں، عمومی اصول و مبادی، مسلمانوں کے مشترکات، اور اسلام کے بنیادی قواعد اور اہداف و مقاصد کو فراموش کر دیتا ہے۔ ایسا شخص بصیرت و بصارت سے محروم ہوجاتا ہے۔ اسلامی اخلاق کی ابجد تک کو بھلا بیٹھتا ہے۔ اس کے معیارات و تصورات میں بگاڑ آجاتا ہے۔ حق و باطل گڈمڈ ہوجاتے ہیں اور دین کی ترجیحات نظر سے اوجھل ہوجاتی ہیں۔ علم کے بغیر بولنا، بصیرت کے بغیر فتویٰ دینا، بلا دلیل اعمال کی انجام دہی اور مسلمانوں کی تذلیل و تکفیر اور ان پر بہتان طرازی اس کا محبوب مشغلہ بن جاتا ہے۔ ایسا مریض اندھے تعصب کی گہری کھائی میں جا گرتا ہے، اور اس کی دنیا اندھیر ہوجاتی ہے۔ دراصل یہ اس کی تاریک نفسیات کا عکس ہوتا ہے، جس میں علم کا نور بجھ جاتا ہے اور سمجھ بوجھ کا دِیا ماند پڑ چکا ہوتا ہے: وَمَنْ لَّمْ يَجْعَلِ اللہُ لَہٗ نُوْرًا فَمَا لَہٗ مِنْ نُّوْرٍ۝۴۰ (النور۲۴:۴۰)  ’’جسے اللہ نُور نہ بخشے اُس کے لیے پھر کوئی نُور نہیں‘‘۔

اجتہادی آراء، اور فقہی مکاتب فکر جو اہل نظرو اجتہاد کا میدان ہیں، نا تجربہ کار، اندھے پیروکاروں کے ہاتھ لگ کر مذہبی گروہ بندی اورسیاسی تعصب کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ وہ اپنے نہج کے مطابق آیات اور احادیث کی تاویل کرتے ہیں اور پھر وہ آیت یا حدیث جو ان کی مذہبی گروہ بندی سے مطابقت نہ رکھتی ہو، اس کی یا تو تاویل کی جاتی ہے یا وہ منسوخ قرار پاتی ہے۔ بسااوقات تعصب انتہائی شدت اختیار کرلیتا ہے۔

سلف صالحین رضوان اللہ علیہم کے مابین بھی اختلاف رائے موجود تھا، لیکن یہ اختلاف ان کے درمیان دوری اور تفرقے کی بنیاد نہیں بنا۔ ان میں اختلاف توہوا مگر تفرقہ پیدا نہیں ہوا، اس لیے کہ دلوں کی الفت اور اہدا ف و مقاصد کی یگانگت اس قدر راسخ تھی کہ کوئی چیز اسے نقصان نہیں پہنچا سکتی تھی۔ انھوں نے نفسانی عوارض سے چھٹکارا پا لیا تھا، اگرچہ ان میں سے بعض سے کچھ عملی کمزوریاں سرزد ہوگئی ہوں۔ سماجی سطح پر نیکوکاروں اور صالح افراد کے بارے میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حاضرین مجلس کو یہ رہنمائی دی تھی کہ اب ان کے پاس فلاں فلاں خصوصیات کا حامل ایک جنتی شخص آنے والا ہے۔ ایسے شخص کے معمولات اور طرز عمل کا جائزہ لینے پر معلوم ہوا کہ وہ کبھی اس حال میں نہیں ہوتا کہ اس کے دل میں کسی مسلمان کے لیے کینہ و کدورت ہو۔

اس کے برعکس آج ہمارا اصل مسئلہ ہماری ذات میں ہے۔ اتحاد و اتفاق کے بیش تر روپ اور رنگ محض دکھلاوا ہیں۔ اس کے حق میں دلیل بازی اپنے آپ کو دھوکا دینے کے مترادف ہے،   اس نفاق اور کھلے تضاد میں ہم دوسروں سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہیں، جب کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

وَذَرُوْا ظَاہِرَ الْاِثْمِ وَبَاطِنَہٗ۝۰ۭ ( الانعام۶: ۱۲۰ ) تم کھلے گناہوں سے بھی بچو اور چُھپے گناہوں سے بھی۔

عالم اسلام جو کبھی ایک متحدہ ملک تھا، جہاں کتاب اللہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بالا دستی حاصل تھی، آج یہ ۵۷سے زائد چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں بٹ چکا ہے، جن کے آپس میں گہرے تنازعات ہیں۔ مگر اس سے بڑا مذاق یہ بھی ہے کہ ہرمسلم ملک اتحاد کا نعرہ بھی بلند کرتا ہے، جب کہ ہر ملک کے اندر مزید تقسیم در تقسیم پائی جاتی ہے۔ بعض تنظیمیں جو اسلام کے لیے سرگرم عمل ہیں، اوران پر امت کی نجات و فلاح کی ذمہ داری ہے،ان کا حال بھی سرکاری اداروں کے ملازمین میں پائے جانے والے حسد اور کدورتوں سے کچھ زیادہ مختلف نہیں۔

ہمارا بحران دراصل فکری بحران ہے۔ ہمارا مسئلہ امت کے ساتھ سنجیدہ تعلق کا فقدان ہے۔ جب امت مسلمہ میں قرآن و سنت کو بالا دستی حاصل تھی تو اس نے اپنا مشن بخوبی ادا کیا۔ انتہائی تنگ مادی حالات کے باوجود اس نے ایک اعلیٰ تہذیب و تمدن کی داغ بیل ڈالی، تب معاشی تنگی کے باوجود زندگی آسان تھی۔ یہ حقیقت ہے کہ کتاب و سنت سے انحراف اور باہمی تنازعات ناکامی، ضعف اور ہوا اُکھڑنے کا باعث ہیں۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:

وَاَطِيْعُوا اللہَ وَرَسُوْلَہٗ وَلَا تَنَازَعُوْا فَتَفْشَلُوْا وَتَذْہَبَ رِيْحُكُمْ وَاصْبِرُوْا۝۰ۭ (الانفال ۸:۴۶) اور اللہ اور اُس کے رسولؐ کی اطاعت کرو اور آپس میں جھگڑو نہیں ورنہ تمھارے اندر کمزوری پیدا ہو جائے گی اور تمھاری ہوا اُکھڑ جائے گی۔

اسلام نے تفرقہ بازی کا خاتمہ کیا، عربوں کا رخ پھیر کر ایک معبود بر حق کی طرف کر دیا اور ان تمام جھوٹے خداؤں کو مٹا دیا، جو ہر قبیلے نے اپنے لیے گھڑ رکھے تھے۔

 آج مسلمانوں کو وسائل کی قلت اور معاشی تنگی کا سامنا نہیں، مگر وہ افکار و نظریات کا میدان ہو یا مادی ساز و سامان کا، ہر لحاظ سے صارف اقوام میں سر فہرست ہیں۔ ان کا اصل مرض یہ ہے کہ وہ مشترکہ مقاصد و اہداف، یکساں نصب العین اور اصل مقصدحیات فراموش کر بیٹھے ہیں۔ اس چیز سے ان کا بنیادی فکری ڈھانچا متاثر ہوا ہے۔ مسلم ذہن کو جو فکری اور اخلاقی بحران لاحق ہے، اس سے نکلنے کی کوئی سبیل اس کے سوا نہیں کہ فکری بحران کی بنیاد اور سوچ اور فکر کے طریق کار کی اصلاح کی جائے، مناہج فکرکی ترتیب نو کی جائے، گم گشتہ ترجیحات کو از سر نو مرتب کر کے مسلمان نسلوں کی اس کے مطابق تربیت کی جائے۔

یہ سب صرف اسی صورت میں ممکن ہے، جب ہم قرنِ اول کے اسلاف کے طرز عمل کے مطابق کتاب و سنت کو مضبوطی سے تھام لیں، افکار و نظریات کو منضبط کرنے کے لیے قیاس و استنباط کے قواعد و ضوابط کا تعین کریں، علم و آگہی کو آداب و اخلاقیات کے ساتھ جوڑ دیں، نیز ایسی تحقیقات اور مطالعات کو پروان چڑھائیں جو اتحاد امت، مشترکہ عوامل، اور اعلیٰ اہداف و مقاصد کو تقویت پہنچائیں، تاکہ صفوں میں اتحاد و اتفاق پیدا ہو، اور نقوش راہ نکھر کر سامنے آئیں، اور منظم انداز سے منزل کی طرف پیش قدمی ہو۔

اس سلسلے میں جب میں نے اپنے مشاہدات اور افکار بیان کرنے کی کوشش کی تو مختلف ردعمل سامنے آئے:

  •  مسئلے کی سنگینی کا گہرا احساس رکھنے والے ایک طبقے نے یہ خواہش ظاہر کی کہ دنیا کے موجودہ حالات کے تناظر میں لکھا جائے،اور ان معاصر اختلافات کا تجزیہ کیا جائے، جن کے باعث ایک مسلم ملک کی اسلامی تحریک سے درجنوں الگ الگ تنظیمیں وجود میں آگئی ہیں۔ لیکن سچ بات ہے کہ غفلت کی دبیز تہہ، اور باطل اغراض و مقاصد کی دھند اس قدر گہری ہے کہ نرم الفاظ سے دلوں کی گہرائیوں تک پہنچنا ممکن نہیں۔

تاہم، یہ بات قلبی راحت کا باعث ہے کہ آج کا مسلمان اختلاف کے اثرات سے چھٹکارا پانے کی خواہش رکھتا ہے، مگر ہرآن جاہلوں کی جہالت، دشمنوں کےشور و شغب، آستین کے سانپوں کی سازشوں اور شدت پسندوں کی بے جا سختی کا ڈر غالب رہتا ہے۔ امرواقعہ یہ ہے کہ ان آداب و اخلاقیات کا موجودہ صورت حال پر انطباق کرنا اور معاصر مسلم گروہوں کے مثبت اور منفی پہلوؤں کا لگی لپٹی رکھے بغیر بیان کرنا، بہت مشکل بنادیا گیا ہے۔

  •  بعض احباب نے تجویز دی کہ ’’مخصوص فقہی اور علمی مزاج کے دائرے سے نکل کر اُمت کے تمام گروہوں کے مابین اختلاف رائے کے جملہ آداب و اخلاقیات سامنے لانے چاہییں۔ چاہے ان کا تعلق ان گروہوں سے ہو جو بجا طور پر اسلامی صف میں شمار ہوتے ہیں، یا ان سے جو خود کو جدیدیت سے منسوب کرتے ہیں، یا انھیں اس کی طرف منسوب کیا جاتا ہے۔ خاص طور پہ وہ گروہ کہ جنھوں نے اسلام کے خلاف اعلانِ جنگ نہیں کیا ہے اور اسلام کو امت کے بنیادی عناصر میں شمار کرتے ہیں، اور اس صورتِ حال سے نبٹنے پر زور دیتے ہیں کہ جس دور میں یہ امت جی رہی ہے۔

بلاشبہہ اس میدان میں کوششیں کی جانی چاہییں، اس لیے کہ اختلاف رائے کی اخلاقیات کا شعور دینے اور امت کے تمام گروہوں کی ان اصولوں کے مطابق تربیت کرنے سے امت کو ایسی بڑی صلاحیتیں میسر آئیں گی، جو فضول باہمی چپقلش میں ضائع ہو رہی ہیں۔جب مسلم ذہن اپنے تہذیبی کردار کا شعور حاصل کر لے گا، تو یہ امت کے ان افراد کو واپس لانے کی کوشش بھی کرے گا، جو اجنبی بن گئے ہیں۔ اسلام کے شعوری فرزندوں پر امت کے اتحاد اوراس کی صحت و تندرستی بحال کرنے کے لیے ایک مضبوط اور ٹھوس بنیاد کھڑی کرنے کے فوری کام اور پھر اسلامی تہذیب کو دوبارہ تعمیر کرنےکے ذمہ داری ہے۔ زندگی کو موت سے الگ کرنے والا ایک لمحہ ہی تو ہوتا ہے، اور اگر عزم مصمم کر لیا جائے توہمارے لیے کوئی چیز اپنے مسلمان بھائیوں کو شیطانوں کے اثرات سے نکال لانے میں رکاوٹ نہیں بن سکتی۔ اس لیے جس روز اُمت کے تمام گروہوں کی تعمیری قیادت نے اتحاد کی اُمنگ اور اختلاف کی حدود کا پاس و لحاظ کرلیا،اُس روز اہلِ ایمان اللہ کی تائید و نصرت سے سرفراز ہوں گے اور وہ سب خائب و خاسر ہوں گے، جو حق کے ادراک سے محروم رہ کر اسے مٹادینے کی کوشش کرتے رہے ہوں گے۔

  • ایک نقطۂ نظر یہ بھی سامنے آیا: ’’مسلمانوں میں اختلاف ہونا ہی نہیں چاہیے، اور اگر ہوجائے تو اس پر زور دیا جائے کہ اختلاف حرام اور کفر ہے، اسے شدت سےکچل دینا چاہیے۔ اس کے بجائے آگے بڑھ کر اس کے آداب پر گفتگو کرنا، اختلاف کو مضبوط کرنے اور اسے گوارا کرنے کے مترادف ہے‘‘۔

سمجھ میں نہیں آتا کہ ان دوستوں سے کیا کہا جائے؟ مگر تعجب ہے کہ سادگی انسان کو اس حد تک لے جاتی ہے کہ وہ بنیادی اُمور کی حقیقت تک سے انکار کرنے لگتا ہے یا ان سے نظریں چُرانے کی کوشش کرتا ہے۔ اس سے مجھے امیر المومنین حضرت علیؓ کے کرب کا بھرپور احساس ہوا، جب انھوں نے فرمایا تھا: ’’جب بھی مجھ سے اہلِ علم نے بحث مباحثہ کیا تو مجھے اس پر غلبہ حاصل ہوا، مگر جب کبھی کسی جاہل سے بحث ہوئی تو اس نے مجھے لاجواب کردیا!‘‘

بہرحال، اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اس گروہ کو اور ہمیں بھی راہ صواب دکھائے!

 

 

ترجمہ: ڈاکٹر محی الدین غازی

اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا اور اسے خلیفہ بنا کرزمین کے تمدن اور اس کی برکتو ں کی افزایش کا امین اور اس میں حق وانصاف کے قیام کا ذمہ دار بنایا ۔کائنات کے حیوانات اور نباتات،سمندر اور دریا، غرض ہرچیز کو اس کے لیے مسخر کیا ،اس کے ارادے کا پابند بنایا۔

اسے اس کا ئنات میں چیزو ں کی افزایش کرنے، انھیں مسخر کرنے اور ان کے فائدوں کو سمیٹنے کی استعداد بھی عطا کی گئی ہے ، جب کہ کائنات کی تخلیق اور اس کو لپیٹ دینے کا اختیار اللہ کے پاس ہے۔ وہی ہے جس نے ہر چیز کو خلقت دی اور ہدایت بھی کی ۔ یہ اللہ کی شانِ تخلیق ہے جس نے ہرچیز کو بہترین ساخت پر بنایا ۔ امانت اور خلافت کا منصب اسی کو سونپا جاسکتا ہے جو صلاحیت اور اختیار کا حامل ہو ۔ چنانچہ انسان کو مختلف شکلو ں اور نوعیتوں کی صلاحیتوں سے نوازا گیا ،اسے اختیار بھی دیا گیا ، ورنہ جو بے بس، مجبور اور دوسرے کے ارادے کا پابند ہو اسے ایسی ذمہ داری دینا بے معنی ہے۔

آزادیِ   راے اور ایمان

آزادی اسلام کے پیغام کا جوہر (essence)اور اس کے عقیدے اورشریعت کا محور ہے۔ اس دین کی اس خصوصیت کو مجبوروں ،کمزوروں ، دبے کچلے اور ستم رسیدہ لوگوں نے جان لیا تھا۔ چنانچہ وہ کھلے دل ودماغ کے ساتھ اس کی طرف لپکے اور وہی اسلام کے اوّلین علَم بردار تھے ۔ دوسری طرف اہل جبر وغرور نے بھی اس حقیقت کو سمجھ لیاتھا۔ اسی لیے انھو ںنے اس دعوت کو جھٹلایا، اس کا مقابلہ کیا اور ہر طرح کی رکاوٹیں اس کے سامنے کھڑی کیں، مگر اللہ نے اپنے بندوں کی مدد کی، اپنے لشکر کو غالب کیا اور تنہا ساری دشمن طاقتو ں کو شکست دی۔

’ایمان‘ اپنے اسلامی دائرے میں عقل، وجدان اور انسانی ضمیر کی آزادی کا سب سے بڑا ذریعہ تھا۔ ایمان کے ذریعے عقل کو تمام تر توہمات،جبر اور گمراہ کن راستو ں سے آزادی ملی۔     وہ غور وفکر اورتجزیہ واستدلال کے زیور سے آراستہ ایک آزاد عقل بن گئی، جس کا معلومات کو قبول یا انھیں مسترد کرنے میںبااصول اور فیصلہ کن منہاج تھا۔ یہ معلومات خواہ زبانی روایت ہوں یا تحریری عبارت، سماعی ہوں یا اجتہادی، عالم غیب سے منسوب ہوں یا عالم حضور سے ، قابل قبول وہی بات ہوتی تھی جس کے حق میں دلیل وبرہان موجود ہو۔ معرفتو ں کی ساری صورتیں بلا استثنا اس اصول کے تابع تھیں ۔ اللہ تعالیٰ نے بھی بہت سارے امور کو جنھیں خود اس نے مقدر کیا اور جن میں سے رسولو ں کو بھیجنا بھی شامل ہے، دلیل وبرہان سے جوڑ دیا، تاکہ اللہ کے خلاف لوگو ں کے پاس کوئی حجت نہ رہے ۔ انبیا ؑکو معجزات دیے تاکہ ان کے پاس لوگوں کودکھانے کے لیے دلیل رہے، جو ان کی نبوت پر دلالت کرے اور ان کے دعوے کی صداقت کو قوت بخشے۔

اسی طرح ایمان نے مومن کے وجدان اور اس کے ضمیر کو مکمل طور سے جبر کی ان تمام ترشکلوں سے ہمہ گیر آزادی عطا کی، جو انسان کے ضمیر اور بصیرت [intuition] کو مقید یا ان کی فعالیت کو مفلوج کردیتی ہیں، کہ انسان اپنی تمام تر قوتوں کے ساتھ فکری ،تمدنی اور تہذیبی فعالیت کے میدانوں میں قدم رکھے ، اجتہاد کرے اور اس عالمِ وجود میں خالق عظیم کی قدرت کے آثار کی نمایش میں تخلیقیت کا مظاہرہ کرے ۔ اس لیے بھی کہ انسان کی توانا ئیا ں اور اس کی اجتہادی اور تخلیقی قوتیں   اس عالمِ وجود میں ’خلیفہ‘ [vicegerent]کی حیثیت سے ابھر کر آئیں۔ جس کے لیے اللہ نے فرشتو ں پر اچھی طرح واــضح کردیا تھا کہ وہ ان سے زیادہ باصلاحیت اور زمین کی وراثت وخلافت کا زیادہ حق دار ہے:

اس کے بعد اللہ نے آدم کو ساری چیزوں کے نام سکھائے ،پھر انھیں فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور فرمایا: اگر تمھارا خیال صحیح ہے (کہ کسی خلیفہ کے تقرر سے انتظام بگڑ جائے گا)، تو ذرا اِن چیزوںکے نام بتاؤ۔ اُنھوںنے عرض کیا: نقص سے پاک تو آپ ہی کی ذات ہے۔ ہم تو بس اتنا ہی علم رکھتے ہیں، جتنا آپ نے ہم کو دے دیا ہے۔ حقیقت میں سب کچھ جاننے اور سمجھنے والا آپ کے سوا کوئی نہیں‘‘ ۔پھر اللہ نے آدم سے کہا : ’’تم انھیں ان چیزوں کے نام بتاؤ‘‘۔ جب اس نے اُن کو اِن سب کے نام بتادیے، تو اللہ نے فرمایا : ’’میں نے تم سے کہا نہ تھا کہ میں آسمانوں اور زمین کی وہ ساری حقیقتیں جانتا ہوں جو تم سے مخفی ہیں ،جو کچھ تم ظاہر کرتے ہو ،وہ بھی مجھے معلوم ہے اور جو کچھ تم چھپاتے ہو، اسے بھی میں جانتا ہوں‘‘۔ (البقرہ۲:۳۱-۳۳)

اس طرح ایمان نے انسان کے ارادے کو آزاد ی سے نوازا اور اسلام نے اس آزادی کو تحفظ کی مطلوبہ ضمانتو ں کا حصار دے دیا ۔اب کسی کے لیے اس کی گنجایش نہیں تھی کہ اس کو اس کے ارادے کے علی الرغم مجبور کردے ۔ تاہم خدابنے بیٹھے اربابِ غرور،اکثر مذہب کو بھی انسان کا ارادہ تباہ کرنے اور اس کی آزادی سلب کرلینے کا ذریعہ اور ہتھیار بناتے ہیں۔ اس دین وحید نے جو    اللہ کے نزدیک ہدایت کا دین اور آخری حق ہے، صاف صاف اعلان کردیا :

لَآ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ قف قَدْتَّبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَیِّ ج (البقرہ ۲:۲۵۶) دین کے معاملے میں کوئی زور زبردستی نہیں ہے۔ صحیح بات، غلط خیالات سے الگ چھانٹ کر رکھ دی گئی ہے۔

انسان پختہ اور بالغ ہوچکا ہے، وہ زندگی کے ابتدائی مرحلے سے آگے بڑھ چکا ہے۔ اب اسے ضرورت نہیں کہ کوئی بھی چیز جبر کی تلوار ،دبائو اور ڈراوے کے طریقو ں سے قبول کرے جیسا کہ پہلے تھا ۔ ارشادِ ربانی ہے:

وہ وقت بھی کچھ یا د ہے، جب کہ ہم نے پہاڑ کو ہلا کر ان پر اس طرح چھا دیا تھا کہ گو یا وہ چھتری ہے اور یہ گمان کررہے تھے کہ وہ ان پر آپڑے گا، اور اس وقت ہم نے ان سے کہا تھا کہ جو کتا ب ہم تمھیں دے رہے ہیں، اسے مضبوطی کے ساتھ تھامو۔ (الاعراف ۷:۱۷۱)

اور ان پر سے وہ بوجھ اتا رتاہے جو ان پر لدے ہوئے تھے، اور وہ بندشیں کھولتا ہے جن میں وہ جکڑے ہوئے تھے ۔(الاعراف ۷:۱۵۷)

یہ طریقے رحمت کی شریعت کے ذریعے منسوخ کردیے گئے ۔

’راے اور اس کے اظہار کی آزادی ‘ کو اسلامی ایمان محض ایک حق قرار نہیں دیتا کہ انسان چاہے تو اس کا مطالبہ کرے اور چاہے تو اس سے دست بردار ہوجائے، بلکہ یہ اس کا فرض، ذمہ داری اور امانت ہے ۔ یہ اس رکن کا حصہ ہے، جسے بہت سارے علما ارکان اسلام میں چھٹا رکن قرار دیتے ہیں۔ یہ بہت نازک رکن ’امر بالمعروف اور نہی عن المنکر‘کا حصہ ہے ۔ چنانچہ معاشرے میں کوئی برائی اور کوئی غلطی اگر ابھرتی ہے تو سارے لوگو ں سے مطالبہ ہے کہ وہ اس پر ناپسندیدگی کا اظہار کریں۔ اسی طرح ان پر مشترک اور باہم مل کرادا کرنے والی یہ ذمہ داری بھی عا ئد ہوگی کہ اس برائی کو مٹائیں اور انحراف کو درست کریں۔ ہر ایک اپنی طاقت کے حدود اور اپنے کام اور سرگرمی کے دائرے میںاس کا مکلف ہے۔ اس میں کوئی فرق نہیں ہے کہ یہ غلطی یا انحراف دین کے فہم سے متعلق کسی مسئلے میں ہے یا سماج کے کسی مسئلے میں۔ اس میں بھی فرق نہیں ہے کہ انحراف چوٹی پر ظاہر ہوا ہے یا بنیاد میں، بلکہ حکام، اعلیٰ قیادت اور سماج کے فیصلہ ساز لوگوں کے انحراف کے خلاف آوازبلندکرنے کی زیادہ حوصلہ افزائی اور زیادہ ترغیب ملتی ہے ۔ 

رسولؐ اللہ نے فرمایا :شہیدو ں کے سردار (قیامت کے دن) حمزہ بن عبدالمطلب اور وہ آدمی ہوگا جو ظالم سلطان کے سامنے کھڑا ہوا ،بھلائی کا حکم دیا اور برائی سے روکا اوراس پر اس نے اسے قتل کردیا۔(مسند ابی حنیفہ، ص۱۳۳)۔آپؐ نے فرمایا: ’’افضل جہاد ظالم سلطان کے سامنے حق بات کہنا ہے‘‘(سنن ابی داؤد)۔اس حدیث میں امت کو ترغیب دی گئی ہے کہ وہ راے کی آزادی ، اس کے اظہار کی آزادی اور منکر کی مخالفت کے سلسلے میں اپنا محض حق نہیں بلکہ اپنی ذمہ داری کو بھی ادا کرتی رہے۔ چاہے اس راہ پر چلتے ہوئے کچھ قربانیا ں دینی پڑیں اور ظالمو ں اور جابروں کے ہاتھوں کچھ لوگ شہادت کا جام نوش کریں ۔ دراصل ، ہدایت الٰہی کے یہ باغی اور ظالم عناصر چاہتے ہیں کہ لوگوں کو تہذیب کی تعمیر میں ان کے حقیقی کردار کی ادایگی سے روک دیں، اور انھیں معاشرے کے انحراف [deviation] اور زوال [decadence] کو درست نہ کرنے دیں۔

اسلامی روایت

آزادی کے یہ تصورات اسلام کے دور اوّل میں حکومت اور رعایا سب میں عام اور معروف تھے۔ حضرت عمر بن خطاب ـؓ کے پاس ایک قبطی، فاتح مصر اور گورنر حضرت عمرو بن العاصؓ اور ان کے لڑکے کی شکایت لے کر پہنچا۔ جب خلیفۂ عادل نے دونو ں سے بدلہ لے کر اور اسے انصاف دے کر راضی کردیا تو انھوں نے یہ عظیم اعلان کیا :’’ـــ تم نے کب سے لوگوں کو غلام بنالیا ،انھیں تو  ان کی مائوں نے آزاد جنا تھا‘‘ ۔ حضرت علیؓ سے بھی یہ قول روایت کیا گیا ہے : ’’اے لوگو آدم سے نہ غلام پید ا ہوا تھا نہ لونڈی، بلاشبہہ سب لوگ آزاد ہیں‘‘۔ (نہج السعادۃ، ج۱، ص۱۹۸)

 اہمیت کے کسی بھی درجے کا کوئی اہم معاملہ ہوتا تھا تو پوری امت کو اپنی راے بیان کرنے کی دعوت دی جاتی تھی ۔ چرواہوں سے ان کی چراگاہو ں میں مشورے لیے جاتے تھے اور پردہ نشینوں سے ان کے پردے میں ۔ اور جب ایک مسلمان حضرت عمرؓ کی کسی بات پر اعتراض کرتا ہوا آیا جو اس کے سامنے واضح نہیں ہوسکی تھی ،اور اس نے اعتراض میں شدت کا مظاہرہ کیا۔  مجلس کے کچھ لوگوں نے اسے خاموش کرکے وہاں سے ہٹانا چاہا تو حضرت عمرؓ نے ایسا کرنے سے انھیں روک دیا اور فرمایا : اسے کہنے دو ، تم اگر ایسی باتیں نہیں کہو گے تو مانوتم میں کوئی خیر نہیں ہے اور ہم انھیں نہیں سنیں گے تومانو ہم خیر سے خالی ہیں‘‘۔

حضرت ربعی بن عامرؓ سے جب رستم نے جہاد کے لیے نکلنے کا سبب پوچھا تو انھو ں نے جواب دیا تھا: ’’ہمیں تو اللہ نے بھیجا ہے تاکہ ہم جسے وہ چاہے اس کو بندوں کی غلامی سے نکال کر اللہ وحدہ کی بندگی میں ،مذاہب کے ظلم سے اسلام کے عدل، اور دنیا کی تنگی سے دنیا وآخرت کی وسعت میں داخل کریں‘‘۔گویا ضمیر ،بصیرت، ارادہ ،تعبیر اور تحریک ہر پہلو سے انسان کی آزادی اور ان ساری آزادیوں کی حفاظت اور دفاع، اسلام کے اہداف اور اسلامی جہاد کے مقاصد کا جوہر ہے۔

اللہ تعالیٰ کے حکم سے اگر خلافت راشدہؓ زیادہ عرصے تک چلتی رہتی اور اسے موقع ملا ہوتا کہ وہ ایسے سلسلے [channels]بنائے، جو ان آزادیو ں کو منظم کریں اور ان کی حفاظت کی ضمانت لیں تو ایسی صورت میں امت پر پس ماندگی کے وہ اسباب مسلط نہ ہوتے، جنھو ں نے اسے ایسی امت سے جو لوگوں کے سامنے لا ئی گئی تھی تا کہ نمونہ اور شہادت کے منصب پر رہے، اس اُمت میں تبدیل کردیاجو اپنے تہذیبی کردار سے بھی پیچھے ہٹتی جارہی ہے ۔ وہ امت جو اس کے بعد اللہ کے بندو ں کی آزادی غصب کرنے والے ظالموں اورجابروںکی پیدایش کی عادی ہوگئی ۔ جب سے خلافت راشدہ، ملوکیت میں تبدیل ہوئی ہے، اس وقت سے آج تک وہ ایسے لوگوں کے غول در غول پیدا کیے جا رہی ہے۔

کوئی شک نہیں ہے کہ خلافت راشدہ کی کم عمری اور بادشاہت سازی میں کچھ لوگوں کی جلد بازی نے بہت سارے بنیادی اسلامی تصورات کو غیرمؤثر کر دینے میں کردار ادا کیا ۔جن میں آزادی کا اپنی مختلف شکلو ں میں محدود ہونا بھی شامل ہے،بلکہ مسلمانوں کے درمیان بڑے پیمانے پر ایسا فکری اور ثقافتی ورثہ بھی وجود میں آگیا، جو ان انحرافات کو بنیاد فراہم کرتا ہے اور آزادیو ںکی مختلف شکلوں کو محدود یا ختم کردیتا ہے۔ ایسے غیرصحت مندفکری ورثے کو اختیار کرنا بھی جائز نہیں ہے، چہ جائیکہ کوئی اس پر فخر کرے ،اس کا دفاع کرے یا اس کو عام کرے، اوراسے اسلام کی تعلیمات اور اس کی بنیادی ’قدروں‘ میں شمار کرنے کی جسارت کرے ۔ شاید اسی ورثے میں سے وہ کچھ بھی ہے جو سد الذرائعاور الأخذ بالاحتیاط أو الأحوط کے قاعدوں کے تحت ذکر کیا گیا ہے۔

لوگوں نے بدقسمتی سے ان دونوں قاعدوں یا اصولوں کو سمجھنے میں بہت غلطی کی ہے ۔  خاص طور سے ظالم حکومتوںنے ان کا بہت زیادہ غلط استعمال کیا ہے ۔ جب انھو ں نے ان دونوں قاعدوں کوان کے دائرے اور ان کے بہت محدود اور مخصوص فقہی میدان سے اُٹھاکر انھیں دوفکری بنیادیںبنا ڈالا ،جو امت کے فکری سفر کو گرفت میں لاتے ہیں ،اور اس کی تمام تر تفصیلات پر فیصلہ کن فیصلے صادر کرتے ہیں، اور ان کو امت کے دماغ کی نگرانی کا حق دیتے ہیں کہ اس کی زبان پر تالا لگادیں، جن میں تنہا ایک ظالم کی ضرورت کا تقاضا ہو تو اس کے حاشیہ برداروں کی بھی تعریف و ستایش لازم کر دی جائے۔

ظالموں اور ان کے حاشیہ برداروں نے ہمیشہ امت کو ایک فاترالعقل یا یتیم بچے کی حیثیت سے دیکھا ہے۔ ایسے سفاک حاکم طبقے بزعمِ خود یہ سمجھ بیٹھے اور یہ باور کرانے لگے کہ: ’’یہ اُمت چونکہ نہیں جانتی کہ اس کا فائدہ یا نقصان کس میں ہے ،اس لیے اس کا ایک ’ولی‘ ہونا ضروری ہے جو اس کی ضرورتوں اور مسائل کو سمجھے اور ان کا انتظام کرے‘‘۔اور پھر خودبخود یہی ظالم وجابر ہی اس ذمہ داری کو رضاکارانہ طور پر اٹھانے کے لیے اور ولایت ونگرانی کاکام انجام دیں۔

یہ بات جانتے ہوئے بھی کہ وحی الٰہی میں اعلان موجود ہے کہ: یہ امت گمراہی پر جمع ہونے سے محفوظ ہے اور غلطی پر جمع ہوجانے سے بھی بچالی گئی ہے ۔ اور اگر وہ غلطی کرے گی بھی تو ان  ظالم وجابر آمروں جیسی غلطی ہر گز نہیں کرے گی ۔وحی نے یہ اعلان بھی کیا کہ: امت سے بے نیازی اس کے ارادے اور خواہش سے تجاہل اور اس کی خیر خواہی اور اسے مشورے میں شریک کرنے سے پہلوتہی دراصل استبداد [dictatorship]اور سرکشی کا اہم ترین دروازہ ہے ۔ ارشاد ربانی ہے:

ہر گز نہیں،انسان سرکشی کرتا ہے اس بنا پر کہ وہ اپنے آپ کو بے نیاز دیکھتا ہے۔ (العلق ۹۶ : ۶-۷)

اگر ’راے اور اس کے اظہار کی آزادی ‘ مسلمانو ں کی زندگی میں فکر وعمل کا ایک مضبوط ستون بن کر رہتی، جیسا کہ رسولؐ اللہ اور خلفاے راشدین کے زمانے میں تھا، تو اُمت کو پے در پے ہزیمتو ں کا منہ نہ دیکھنا پڑتا اور آج اُمت پستی کے اس گہرے کھڈ میں نہ گری ہوتی۔

اس امت میں اصلاح کی بہت ساری کوششو ں کو ناکام بنا دیا گیا ۔ ان کوششوں کے اثرات کو مقید کرکے امراض کے ایک مجموعے کے ذریعے تباہ کردیا گیا ۔ ان امراض میں فکری بحران، ثقافتی پسپائی، سیاسی جبر ،خودشناسی کا فقدان بھی ہیں ، تاہم ’’صحت مند پختہ دماغ کی غیر موجودگی اور اگر وہ موجود بھی ہو تو اسے فعال ہونے سے روکنے کی ہر وسیلے سے کوشش‘‘کا مسئلہ پسپائی کے اسباب، غلطی کے محرکات اور خلل کی وجوہات میں سرفہرست ہے ۔

آزادی   راے سے محرومی کے اثرات

راست فکر، دانش مندی اور یکسوئی سے محرومی کا معاملہ بے حد نازک ہے ۔پختہ فکرودماغ کے حاملین ایسی امت میںکیسے جنم لے سکتے ہیں، جس امت کے سارے امکانات کو عقل و خرد [reasoning] کے محاصرے اور اس کی تحقیر پر، ذہن کا دائرہ تنگ کرنے اور فکر کا مذاق اڑانے پر، اور تقلید اور تابع داری کے اسباب پید ا کرنے اور ان کا کوہ ہمالہ تعمیر کرنے پر مامور کردیا گیا ہو ۔

یہ چیز نظام ہاے حکومت تک ہی محدود نہیں رہی بلکہ یہ ان گروہوں، تنظیموں، اداروں اور جماعتوں تک میں سرایت کرگئی، جنھیںاس امید کے ساتھ قائم کیا گیا تھا کہ و ہ امت کو اس حالت زار سے نکالنے اوراس بحران سے گزارنے میں معاون ہو ں گی، جو امت کے صالح عناصر کی پرورش کی بہترین آغوش بنیں گی ۔ ہو ا یہ کہ وہ بھی اسی ڈگر پر چل نکلیں کہ: ’’نافذ کرو اور پھر بحث کرو ‘‘۔ یہاں تک کہ اسلامی جماعتیں اور تنظیمیں بھی اس سے محفوظ نہ رہیں کہ کسی کی راے کو روکیں یا رد کرکے اس پر پابندی لگادیں، یا پھر حسب ضرورت اس راے رکھنے والے کو تنظیم سے الگ کردیں، اس کی کتابوں کوبر سر حق گروہ یا مدد خداوندی کی مستحق جماعت میں گردش کرنے سے روک دیں ۔

اس کے لیے مختلف دلیلیں بھی دے دی جاتی ہیں، مثلاً اطاعتِ امر واجب ہے، یا یہ کہ صاحب ِ امر پریشانی سے دوچار نہ ہو۔ ان لوگو ں نے وہ سب کچھ جو ہمارے فقہی ورثے میں تھا  اور بادشاہت اور جبر کے زمانوں کی پیداوار تھا، اسے تحریک یا تنظیم کے اولی الامر کی گود میں لاکر ڈال دیا، تاکہ اس کے پاس شرعی وسائل ، ماضی کے ہتھیار اور سرکوبی کرنے کے وہ اختیارات رہیں جو شورائیت کو روک سکیں۔ دوسرے کی راے اور اس کے اظہار کے سامنے دیوار بن جائیں تاکہ تنظیم کا قائد ظالم حاکموں کی جانشینی کا مستحق ٹھیرسکے، مگر ’اللہ کی حاکمیت ‘ کے نعرے کے ساتھ۔

یہی نہیں، بلکہ یہ وبا ہمارے گھروں اور خاندانوں تک پہنچ گئی ۔ ہم دیکھتے ہیں کہ گھر کا بڑاگھر کا آقا بنا ہوا ہے ۔ اس کی بات گھر میں چلتی ہے ۔ اس کے سامنے کوئی ہونٹوں کو جنبش دینے کا حق نہیں رکھتا (اس کے ساتھ یہ بھی جاننا چاہیے کہ آج مسلم خاندان کے ذمہ دار کی حیثیت رہایشی ہوٹل یا ریسٹورنٹ کے منیجر کے رول سے زیادہ نہیں رہ گئی ہے ۔ اس کے پاس اپنے بچوں کو دینے کے لیے اتنا وقت نہیں ہے، جو انھیں خاندان کے مفہوم سے آشنا کرے )۔ غرض استبدادی یا آمرانہ طرزِفکروعمل اور دوسرے کی راے کو ٹھکرانا بلکہ جڑ سے اکھاڑ نے اور معاشرے کے وجود اور اس کے خلیوں میں اس کی موجودگی کو ختم کرنے کا سلسلہ بڑھتا گیا۔ یہاں تک کہ امت میں ’’عوامی کج فہمی، حیوانوں جیسا مزاج اور غلامو ں کی سی نفسیات‘‘ کی اصطلاحات کا انبار لگ گیا ۔

استبداد نے اس امت کو اس حالت تک کیسے پہنچادیا ؟ جب کہ یہ وہ امت ہے جس کے قدیم افراد، یعنی اصول فقہ کے علما نے ’راے‘ کو شریعت کی ایک دلیل قرار دیا تھا ۔معتبر شرعی ذریعوں سے راے، جس نتیجے تک پہنچا ئے، وہ راے لوگوں کے یہاں شریعت کی طرح لائق عبادت ہوتی تھی۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے بعد والوں کے یہاں وہ بدعت ،جرم ، انحراف ،اعتزال ،سنت سے بغاوت، اطاعت سے دُوری، غرض وہ کچھ ہوگیا کہ کچھ لوگ امت کی فضا کو اس سے پاک کرنے اور اس سے محفوظ رکھنے کی دہائی دینے لگے۔اسے ایسی گمراہی قرار دینے لگے جس سے لوگو ں کو ہوشیار کرنا فرض ہو اور ایسا دروازہ جسے بند کرنا واجب ہو، تاکہ امت پر شر کے وہ دروازے نہ کھل جائیں، جو بند ہی  نہ ہوسکیں ، غرض سوچنے کا عمل رُک گیا ۔

 یہ سمجھا گیا کہ غور وفکر،نئی سوچ اور نئے راستوں کو تلاش کرنے سے رک جاناہی بہتر ضمانت ہے، یعنی ٹھیرے ہوئے ساکن افکار کا مجموعہ ہی اُمت پر حکمراں رہے۔ اس کے دماغ پر حاوی رہے اور حسب ضرورت اس کو باربار پیدا کیا جاتا رہے ۔جان لیجیے کہ اس کے بعد امت پر ’شر‘ کا کون سا دروازہ ہے جو نہیں کھلا ؟ ساری برائیاں خدا کی پنا ہ اس امت کی زندگی میں ہر جانب سے داخل ہورہی ہیں۔ کھلے دروازے تنگ پڑتے ہیں تو کھڑکیوں سے ’شر‘ یلغار کرتا گھس آتا ہے ۔ اس کا ذمہ دار کون ہے؟ اس قضیے کو مختصراً یوں کہا جاسکتا ہے: ’’ظالمو ں کا استبداد ،عالمو ں کی بے بسی اور  فرزندانِ اُمت کی جہالت، نہ کہ راے کا اظہار اور اس کے اظہار کی آزادی‘‘۔

ظالموں کے استبداد کے اثرات اور خطرات جانے پہچانے ہیں۔ قرآن اور احادیث نبوی جو اس سے خبردار کرتے ہیں تو وہ بھی معروف ہیں۔ قرآن مجید کی کسی سورت کی تلاوت کریں وہ پوری شدت سے استبداد اور سرکشی سے اور تہذیبوں کی تباہی ،قوموں کی پسپائی اور کائنات کی بربادی میں ان کے اثرات سے متنبہ کرتی ہے ۔ رسولؐ اللہ کی سنت بھی ایسی ہدایات سے بھر پور ہے، جو استبداد، طغیان اور سرکشی سے ڈراتی ہیں ۔ان کے مقابلے اور ان کے سد باب کے لیے سارے وسائل اور ساری توانائیا ں صرف کردینے کو واجب قرار دیتی ہیں۔

اظہارِ   راے اور اسوۂ رسول ؐ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کرامؓ کو پختہ راے سازی اور اظہار راے کے  تمام تر وسائل کی تعلیم دینے میں ایک شان دار نمونہ عطا کرتے ہیں ۔ آپؐ نے صحابہؓ کے ساتھ مشاورت ،مراجعت اور گفتگو، نیز اپنی غیر موجودگی میں اجتہاد کی ترغیب دی، جو زیربحث مسئلے پر مضبوط دلیل ہے ۔ اس کے باوجود کہ آپؐ اس روے زمین پر سب سے مضبوط دماغ ،پاکیزہ ترین عقل اور روشن ترین فکر کے حامل اور اکمل انسان تھے، مگر شوریٰ کو نظرانداز نہ کرتے تھے اور نہ اس سے تجاوز کرتے تھے۔ نہ بڑے معاملات میں اور نہ معمولی چیزو ں ہی میں ۔ آپؐ معصوم تھے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپؐ کو درست راے اختیار کرنے کی توفیق، اختیار اور قدرت ملی ہوئی تھی۔ وحی سے آپ ؐ کا رشتۂ اتصال وابستہ تھا۔ اس کے باوجود آپؐ ساتھیوں سے مشورہ کرتے تھے ۔   ان سے اپنی راے ظاہر کرنے کا مطالبہ کرتے تھے۔اس پران سے بڑے اجر اور ثواب کا وعدہ کرتے تھے ۔ آپؐ یہ بھی واضح کرتے تھے کہ: ’’لوگ دنیا اور اپنے ذاتی امور کے بارے میں    وہ خودزیادہ جاننے والے ہیں‘‘۔

بسا اوقات جب موجودہ صورت حال پر وحی نازل نہ ہوتی تو آپؐ اپنے رفقا کا مشورہ مانتے تھے، جب کہ اگر کسی انسان کے لیے جائز ہوتا کہ وہ شوریٰ سے بے نیاز ہو یا اسے یہ حق ہوتا کہ مشورے کو قبول نہ کرے ،اپنی راے سے دست بردار نہ ہو اور شوریٰ کو محض مختلف رایوں سے آگاہی کا درجہ دے، تو یہ اعزاز و اختیار صرف رسولؐ اللہ کے لیے درست ہوتا اور وہی اس کے   حق دار بھی تھے، کیونکہ وہ معصوم تھے اور استبداد جیسی غلطی سے منزہ اور پاک تھے۔

معرکۂ احد کے لیے مدینہ سے نکلنے کے مسئلے میں شورائی فیصلے کے منفی نتائج سامنے آئے اور مسلمان دوسرے مرحلے میں گھاٹے میں رہے اور اندیشہ ہو ا کہ شورائیت کی رسوائی ہوگی یا اس کی پابندی میں ضعف آجائے گا، توقرآن مجید نے اس ماحول میں شورائیت کے قطعی حکم کی تاکید کی:

ان سے معاملے میں مشورہ کرو (اور مشورے اور کسی واضح راے تک پہنچنے کے بعد ) جب عزم کرلو تو اللہ پر بھروسا کرو۔( ٰال         عمرٰن۳:۱۵۹)

جب اللہ کے رسولؐ کو اس کا پابند بنایا گیا تو دوسروںکو پابند بنانا تو بدرجہ اولیٰ ثابت ہوتا ہے۔ راے کی آزادی اور اس کے اظہار کی آزادی وہ بنیاد ہے، جس پر شورائیت قائم ہوتی ہے، یعنی آزادیِ اظہار کے بغیر شوریٰ کا وجود ممکن نہیں ہے۔

اُمت مسلمہ   میں   انحراف

اس تاکید کے باوجود اس امت میں سرکشوں کا استبداد جاری رہا ۔ان کی افزایش نسل کثرت سے ہوتی رہی ،اور وہ امت میں اس طرح پھیل گئے کہ تاریخ کے بہت سارے مراحل میں اس کے دین و دنیا سبھی کو بگاڑدیا ۔ ان کی مدد علما کے ان گروہو ں نے کی، جو ظلم کو خوب صورت لبادے پہنانے میں مگن رہے۔ اس ظلم و زیادتی کا مقصد صرف یہ تھا کہ استبداد اور اہل استبداد کے لیے میدان صاف ہوجائے۔

کسی نے فتویٰ دیا کہ: ’’شورائیت ذریعۂ آگاہی ہے، وجہ پابندی نہیںہے‘‘ ۔ کسی نے اس پر قیاس کرکے کہ: رسولؐ اللہ نے شیخین ابوبکر وعمر کے ساتھ مشورہ کیا تھا۔ فتویٰ دیا کہ: ’’شوریٰ کا تقاضا دو لوگوں سے مشورہ کرکے بھی پورا ہوجاتا ہے‘‘۔ کسی نے کہا کہ: ’’تین کے ساتھ مشاورت کافی ہے کیونکہ یہ اقل جمع ہے‘‘۔

 بعض حضرات نے جو پچھلی شریعت کے حجت ہونے کے قائل تھے کہا کہ: ’’فقط ۱۲؍افراد سے مشورہ کافی ہے،جنھیں سلطان یا [اولی الامر]خود متعین کرے گا ‘‘۔دلیل اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد سے اخذ کی گئی ہے :اثْنَیْ عَشَرَ نَقِیْبًا ط(المائدہ۵:۱۲) ’’اور ان میں ۱۲نقیب‘‘۔ لوگوں نے یہ بھی کہا کہ: ’’بیعت عقبہ اولیٰ میں بیعت کرنے والوں کی تعداد سے شوریٰ کی تعداد نہیں بڑھنا چاہیے‘‘۔ غرض وہ بہت سارے اقوال جن کی پشت پر کوئی معتبر دلیل موجود نہیں ہے، انھی کو دلیل بناکر پیش کیا جانے لگا۔

پھر ’فتنے کے دروازے بند کرنے ‘اور ’انتشار کے راستے مسدودکرنے‘ کو بنیاد بناکر: ’’جسے غلبہ حاصل ہوجائے اس کی امامت کو شرعی سند‘‘سے نوازدیا گیا۔ اس طرح ہماری تاریخ کے بہت ابتدائی زمانے سے ظالموں اور جابروں کی حکومت بھی شرعی ہوگئی اور ان کے احکام بھی شرعی طور پر نافذ ہونے لگے۔ یوں اس کے لیے بھی امت تیار ہوچکی تھی کہ فوجی اور عسکری انقلابات کے احکام قبول کرے، یا ان عناصر کے، جوہر حربے سے انھیں یک راے کرنے کی قوت رکھتے ہوں۔

ان احوال کی مخالفت بہت ہی قلیل تعداد میں علماے صالحین نے کی اور بہت دھیمی آواز میں جس پر اکثر وبیش تر کان ہی نہیںدھرا گیا ۔

غرض یہ کہ سد ذرائع  اور أخذ بالأحوط کی تیغ وتفنگ کے سایے میں مسلم امت نے مستقل مارشل لا اور ایمرجنسی قانون کے سایے میں زندگی گزاری ہے، اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔ خلافت راشدہ کے خلاف باغیانہ انقلاب کے بعد سے ہی اس کے سیاسی نظام کی بنیاد یں معطل ہوگئیں۔ظلم وجبر اور بزورغلبے پر یقین رکھنے والے خلفا اور سلاطین نے اسلام کا صرف نظام قضا محفوظ چھوڑا ،تا کہ بہت سے احوال میں، جب کہ ان کے اقتدار کو کوئی نقصان نہ پہنچ رہا ہو، تو اُمت کی بعض ضرورتوں کی حفاظت کے لیے وہ بنیادی ضمانت کا کام دے۔

انحراف کے اسباب

یہ نظام بھی غلط استعمال اور انحراف سے دوچار کردینے کی کوششوں سے محفوظ نہ رہتا، اگر خدا ترس علما اس کی حفاظت ومدافعت کے لیے بیدار نہ رہتے ۔ اس کے باوجود بعض سرکشوں نے جب بھی ان کے لیے ممکن ہوا، اسے مخالفین کی سرکوبی کا ذریعہ بنا ڈالا ۔ ’ارتداد‘ اور ’محاربہ‘ کے نام پر بعض مخالفین کو قتل کیا گیاتو بہت سارے سیاسی مخالفین پر ’شریعت کی مخالفت‘ اور ’دین سے بغاوت‘ کا ٹھپہ لگایا گیا، تاکہ مخالف کو امت کی ہمدردی یا حمایت سے محروم کردینا آسان ہوجائے ۔

اگرچہ بعض علما نے ظالم وجابر سلاطین کے سلسلے میں خاموشی کو ’امت کی وحدت کی حفاظت‘ کی دلیل دے کر جائز بنا دیا، مگر اس استبداد، ظلم اور سرکشی کے بارے میں ایک کلمہ تک زبان سے ادا نہ کیا، جسے ان ڈکٹیٹروں نے قدیم وجدید ہر دور میں اپنایا ۔ حالانکہ اس نے بھی تو اُمت میں تفرقہ ڈالا، اس کی وحدت کو پارہ پارہ کیا اور اسے گروہوں میں بانٹ دیا ۔ان آمروں نے انھیں باہم ٹکرانے کے لیے آپس میں تقسیم کردیا ۔ اس طرح استبداد اور لوگوں کے غوروفکر اور اظہار کے حق سے محرومی کا نتیجہ یہ ہو اکہ اُمت کی دیوار یں زمین بوس ہوگئیں اور وہ بنیادی ضرورتوں سے محروم کردی گئی ۔

ان مسائل کا تیسرا ذمہ دار امت کے افراد کا ان اجتماعی امور سے نا واقف ہونا یا بہت سے لوگوں کا ان سے تجاہل برتنا، لاتعلق رہنا، ’سیاسی کام‘ سمجھنا، یا قصداً اندھیرے میں رکھے جانے کے استبدادی عمل کو قبو ل کرلینا ہے تاکہ ان ڈکٹیٹروں اور ان کے حاشیہ بردار اہل علم وقلم کے پیچھے پیچھے چلنے کا عمل آسان ہوجائے ۔ یہ جہالت تیسرا بت ہے ۔ ان بتوں کی یہ غیر مقدس تکون ہے: ’’سرکشوں کا جبر، علما کی بے بسی اور اُمت کے باشندوں کی جہالت ‘‘۔

سرکش فرعون نے جب اپنی قوم سے اَنَا رَبُّکُمُ الأَعْلٰی [النازعات ۷۹:۲۴۔ میں تمھارا سب سے بڑا رب ہوں] کہا تھا، اس وقت اسے عوام کی غفلت، ان کی غیر مشروط اطاعت اور اندھی غلامی سے دھوکا ہو ا تھا۔ سرکشوں کو عوامی غفلت و اطاعت جیسی کوئی بھی چیز دھوکے میں نہیں رکھتی ہے۔ سرکش حکمرا ن محض ایک فرد ہوتا ہے، جس کے پاس درحقیقت نہ طاقت ہوتی ہے اور نہ اقتدار۔ یہ تو وہ غافل اور پالتو عوام ہیں،جو ظالموں اور غاصبوں کو اپنی پشت اور کندھے پیش کر دیتے ہیں تو وہ سوار ہوجاتا ہے۔ یہ اپنی گردن پھیلا دیتے ہیں تو وہ لگا م ڈال دیتا ہے۔ یہ سرجھکا دیتے ہیں تو وہ مغرور ہوجاتا ہے۔ یہ عزت وسربلندی کے اپنے حق سے دست بردار ہوجاتے ہیں تو وہ سرکش ہوجاتا ہے ۔

عوام ایسااس لیے کرتے ہیںکیونکہ انھیں ایک طرف تو دھوکا ہوتا ہے، دوسری طرف خوف۔ یہ خوف بھی محض وہم کا نتیجہ ہوتا ہے۔ سرکش حاکم، ایک فرد کی حیثیت سے لاکھوں اور کروڑوں عوام کے مقابلے میں طاقت ور نہیں ہوسکتا ہے، مگر اس کے لیے شرط یہ ہے کہ ان عوام کو اپنی انسانیت، عزت وغیرت اور آزادی کا شعور ہوجائے۔ طاقت کے لحاظ سے تو امت کا ہر فرد سرکش حاکم کے برابر ہوتا ہے، مگر یہ سرکش انھیں دھوکا دیتا ہے۔اور ان کے دل میں وہم ڈال دیتا ہے کہ ’’ان کے  نفع ونقصان کا اختیار اس کے پاس ہے‘‘۔ ایک فرد یا افراد کا کوئی ٹولہ کسی باعزت باغیرت اور خوددار امت پر زیادتی کرلے، یہ کبھی ممکن نہیں ہے ۔ اور یہ بھی ممکن نہیں ہے کہ کوئی فر د یا ٹولہ ایسی امت پر زیادتی کرے، جو اپنے رب کو پہچانتی ہو اور اس پر ایمان رکھتی ہو اور جو غلامی قبول کرنے سے انکار کردے۔ غلامی، کسی بھی مخلوق اور فرد کی، جو نہ اپنے اور نہ اس کے نفع یا نقصان کا اختیار رکھتا ہے۔

سرکش حاکم اپنی قوم کو لالچ اور دھمکی کے مختلف حربوں سے بے وقوف بناتا ہے ۔وہ اپنی بداعمالیوں اور گمراہی کے باعث اس کی بات مان لیتے ہیں ۔ یہ سرکش پہلے تو عوا م کو علم کے راستوں سے دُور کردیتے ہیں اور ان سے حقائق کو چھپائے رکھتے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ انھیں بھول جاتے ہیں اور دو بارہ اس کی تلاش بھی نہیں کرتے۔ پھر یہ حاکم ان کے دلو ں پر جس طرح کے نقوش چاہتے ہیں، ثبت کردیتے ہیں۔ یہاں تک کہ ان کے دل ان بنائوٹی نقوش سے مانوس ہوجاتے ہیں۔ پھر سرکشوں کے لیے عوام کو بے وقوف بنا نا اور ان کی بھیڑ کو اپنے پیچھے لے کر چلنا آسان ہوجاتا ہے۔ عوام کی لگا م نرم ہوجاتی ہے اور سرکش حاکم پورے اطمینان کے ساتھ انھیں جس رخ پر چاہتے ہیں ہانکے لیے جاتے ہیں۔

یہ سرکش حکمران اپنے عوام کے ساتھ یہ حرکت اسی وقت کرسکتے ہیں، جب عوام فسق وفجور میں مبتلا ہوں ، جادۂ مستقیم سے بھٹک جائیں ،اللہ کی رسی کو چھوڑ دیں ،ایمان کے پیمانوں کو نظر انداز کردیں اور ان کے لیے فیصلے کا مرجع نہ قرآن ہو، نہ دلیل اور نہ برہان ، جب کہ خداترس مومنوں کو دھوکا دینا ،انھیں بے وقوف بنا نا اور ہوا میں اڑتے ہوئے پر کی طرح ان سے کھلواڑ کرنا مشکل ہوتا ہے ۔یہیں سے قرآن مجید نے واضح کیا ہے کہ عوام نے فرعون کی بات مان کیوں لی تھی :

فَاسْتَخَفَّ قَوْمَہٗ فَاَطَاعُوْہُ ط اِنَّھُمْ کَانُوْا قَوْمًا فٰسِقِیْنَo (الزخرف ۴۳:۵۴) اس نے اپنی قوم کو ہلکا سمجھا اور انھوں نے اس کی اطاعت کی،درحقیقت وہ تھے ہی فاسق لوگ۔

ذرا سوچیے، اگر علما و مفکرین ،اہل قلم اور ارباب تربیت نے اپنی ذمہ داری ادا کی ہوتی ،فسق وفجور کا مقابلہ کیا ہوتا اور تقویٰ کو رواج دیا ہو تا، تو کیا یہ سرکش امت کا استخفاف کر پاتے، اس کی عقل کو کند کرکے اسے تباہی کی طرف گھسیٹ کر لے جانے میں کامیاب ہوسکتے ؟ نہیں، ہزار بار نہیں۔

پھر سوچیے، اگر علماے امت نے( میری مراد صرف فقہا نہیںبلکہ ہر میدان کے ماہرین علوم اور ان میں بھی سرفہرست علماے دین ہیں) اپنی ذمہ داریوں کو سمجھا ہو تا ۔فسق وفجور کی ساری شکلوں کا تصور،فکر ، اعتقاد،رویہ ،معاملات اور عمل کی سطح پر مقابلہ کیا ہوتا تو کیا یہ سب کچھ ہوتا ؟ کیا لو گ فسق وفجور میں مبتلا ہوتے اور کیا یہ سرکش ان کی گردنوں پر سوار ہوپاتے ؟ نہیں، ہرگز نہیں۔

کاش، علما نے امت کو سمجھایا ہوتا: ’’یہ سرکش حاکم، خدائی کا دعوے دار ہے۔ لوگوں کو  اپنے حال اور اپنی حرکتوں کی زبان سے یا انجام کے حوالے سے بلا رہا ہے کہ اسے اللہ کے اختیارات میں شریک تصورکرلیں‘‘۔اور انھوں نے یہ بتایا ہوتاکہ: ’’جابر حاکم کے سلسلے میں خاموشی یا جبر پر رضا مندی یا شوریٰ کو معطل کرنا شرک ہے، جو توحید کے منافی ہے‘‘ ۔اور یہ کہ: ’’اللہ نہ جابر کی کوئی نیکی قبول کرتا ہے، نہ جبر پر راضی ہونے والے کی، خواہ وہ اسلام کا دعویٰ کرے اورنمازروزہ کا پابند ہو‘‘ ۔اگر انھوں نے یہ کیا ہوتا تو کیا اُمت اس مبنی بر جاہلیت استبداد کے سامنے خاموش رہتی اور کیا وہ کسی استبدادی کو اپنا استخفاف کرنے اور اپنے معاملات کا مختار کل بننے دیتی ؟ نہیں، قطعاً نہیں۔

کاش، امت کے عالموں ،مفکروں ،مصنفوں ،خطیبوں اور داعیوں نے امت کو اس کے حقوق،  اس کے واجبات اور اس کے ملّی وجود میں خیر وشر کے دروازوں سے واقفیت کی تعلیم کا اتنا ہی اہتمام کیا ہوتا جتنا اہتمام طہارت کی تفصیلات ،نماز کے طریقے ،رسولؐ اللہ کو سیدنا سے ملقب کرنے یا ملقب نہ کرنے کی معرکہ آرائی اور آپؐ کے ذکر کے وقت کھڑا ہونے یا کھڑے نہ ہونے کی بحث جتنی تعلیم کا اہتمام ہی کیا ہوتا۔ تب بھی امت کی حالت بدل جاتی اور اس کے شعور کا درجہ بلند ہوجاتا ۔

کاش، انھوں نے امت کو سکھایا ہوتا کہ ایسے فرد کی تعظیم وتائید کرنا، اس کے حق میں نعرے بازی اور ایسے فرد کی خدمت ومعاونت کرنا، جو اللہ کے شعائر کی تعظیم نہ کرے، سراسر ظلم ہے۔اور یہ ظلم قیامت کے دن کی تاریکی کے مانند ہے ۔یہ تقویٰ سے دُوری ہے، اور جو تقویٰ سے دُور ہوجاتا ہے، وہ فسق میں گر پڑتا ہے،پھر شرک تک جا پہنچتا ہے اور بلاشبہہ شرک بڑا ظلم ہے۔ کاش! انھوں نے سکھایا ہوتا کہ امت کے حکام اور سرکاری عہدے داران دراصل امت کے خادم اور ملازمین ہیں۔ اگر وہ امت کی خدمت میں غلط ر وش اپنا تے ہیں تو امت پر واجب ہے کہ انھیں تبدیل کردے ۔

کاش، انھوں نے امت کو یہ سبق بھی پڑھایا ہوتا کہ: ’’حکومت اعزاز نہیں، ذمہ داری ہے۔ سیاست امت کے اورپوری امت کے مفادات کی نگہداشت اور ان کی خدمت ہے ۔ امربالمعروف اور نہی عن المنکر شرعی فرائض ہیں، جو ہر فرد پر عائد ہوتے ہیں۔ یہ اُمت کی ذمہ داری ہے جس سے یا جس کی انجام دہی کے حق سے کوئی دست بردار نہیں ہوسکتا ۔امت کے مادی خزانوں اور افرادی قوت کی دانش بینش کو برباد کرنا جرم ہے ۔ امت کے سرمایے میں امت کے دشمنوں کو ترجیح دینا جرم ہے ۔ کسی بے گنا ہ کو نظر بند کرنا جرم ہے ۔کسی انسان کو کسی بھی عوامی مسئلے میں اظہارِ راے سے روکنا جرم ہے ۔ اقتدار کے کسی بھی ادارے کا کسی شہری کی آزادی یا عزت پر حملہ کرنا جرم ہے ‘‘۔

سوچیے، اگر امت میں ایسے لوگ ہوتے، جو لوگوں کے ان گناہوں اور جرائم کی درجہ بندی کرتے، جو حاکم اور محکوم کی حیثیت سے ایک دوسرے کے خلاف سرزد ہوتے ہیں ۔ چنانچہ امت کو بتاتے کہ ان میں گناہ کبیرہ کون سے ہیں اور گناہ صغیرہ کون سے ہیں ۔ مثال کے طور پر کہا جاتا : حاکم کا استبداد گناہ کبیرہ ہے ۔امت کے ساتھ اس کا مشاورت نہ کرنا گناہ کبیرہ ہے ۔ جو ایسی حالت کو درست قرار دیتا ہو، اس کا عمل بھی گنا ہ کبیرہ ہے ۔ اس پر خاموشی بھی گنا ہ کبیرہ ہے ۔انسان کو اس کی راے کے اظہار سے محروم کردینا گنا ہ کبیرہ ہے ۔

لوگوں کی بے جا نگرانی ،ان کی جاسوسی اور ان کی غلطیوں کا ریکارڈ بنانا یہ سب کبائر ہیں۔  اللہ ان پر محاسبہ کرے گا۔ان کبیرہ گناہوں میں شرکت ،ان کی حوصلہ افزائی یا ان پر خاموشی بھی کبائر ہیں۔ امت کی دولت کو تنخواہ اور انعام کے طور پر امت کی جاسوسی کرنے والوں میں بانٹنا مال کا ضیاع، فضول خرچی اور اسراف ہے ۔ ظالموں کے معاونین ظلم پر مد د کرنے کے صلے میں جو رقمیں پاتے ہیں، وہ نجس ہیں ،حرام ہیں۔چوری ،بغاوت ،سود اور زنا کی اجرت سے ان کی حیثیت کسی بھی طور پر مختلف نہیں ہے۔ اگر یہ ہوجاتا تو سب ظالموں یا کم از کم کچھ ظالموں یا ان کے معاونوں کو  ظلم کی چکّی چلانے میں تردد ضرور ہوتا۔ اور بہت سارے لوگوں کو ظالموں کا آلہ کار اور مدد گار بننے میںیقیناً تامل ہوتا ۔

عالمِ   اسلام کی موجودہ کیفیت

عالمِ اسلام کی موجودہ صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ آزادیِ راے کا فقدان اس امت کے بیش تر ملکوں کی پس ماندگی کے بہت سارے اسباب کے پیچھے کا ر فرماہے ۔ عبدالرحمان کواکبی نے ۱۹۰۱ء میں اپنی کتاب طبائع الاستبداداور مصارع الاستعباد میں جو لکھا ہے، وہ یہ سمجھنے کے لیے بہت حد تک کا فی ہے کہ ’استبداد‘ سماجی زندگی کے تمام پہلوئوں کو   کس طرح متاثر کرتا ہے اور کس طرح وہ فعالیت کو ضعف اور طاقت کو بے بسی میںبدل ڈالتا ہے ۔

استبداد، تہذیب ساز انسان نہیں بناتا۔ وہ تو بس نرے پُر زے کو ڈھالتا ہے، جو سیاسی نظام کے دائرے میں گھومے اور انسان کے جسمانی (بایولوجیکل ) تحفظ کے لیے سب کچھ کرے ۔ یہیں سے تہذیب کی از سر نو تعمیر کی جدوجہد کے لیے یہ ضروری ہوجاتا ہے کہ آغاز میں ہی    تہذیبی عمل کے لیے سب سے خطرنا ک علت یا مہلک تر عامل کو تلاش کرکے درست کیا جائے ۔ شاید آزادیِ راے دوسرے تمام مسائل کے حل کے لیے بھی ایک معروضی اور لازمی شرط قرار پائے۔ کیونکہ کسی چیز کے اندر زندگی اور فعالیت رہ نہیں سکتی ہے، اگر ہر بڑے چھوٹے مسئلے پر غور وفکر، اظہار راے اور تبادلہ خیال کی آزادی نہ ہو ۔

یہ اسی وقت ہو گا جب ایک مسلمان کی عقل سے سارے حجابات دُور کردیے جائیں ۔ اس کی عقل [intellect] اور دانائی [wisdom] کو سیاسی نظامِ جماعت، پارٹی لیڈر، مفتی اورفکری رہنما وغیرہ کی ساری بے جا زنجیروں سے آزاد کردیا جائے۔ اس کے سامنے فکر کے وسیع وعریض بے قید آفاق کھول دیے جائیں ۔ عزت و کرامت، آزادی شورائیت اور عدل کے تصورات اس کے دل میں پختہ کردیے جائیں، تاکہ اس کے دل ودماغ میں وہی فکروخیال جگہ پائیں، جن کے لیے واقعی دلیل موجود ہو اور وہ اس پر مطمئن ہو۔ ایسی صورت میں فرد مجرد کسی نظام یا پارٹی یامسلک کا بے فہم اور عقل سے عاری پُرزہ نہیں بنے گا، بلکہ وہ صرف حق کا تابع ہوگا اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا مقصد تخلیق بھی یہی ہے ۔