وفاقی شرعی عدالت نے اب سے تقریباً ۳۱ برس قبل ۱۴ نومبر ۱۹۹۱ء کو جو فیصلہ دیا تھا اُس میں بھی کہا گیا تھا کہ سود بھی ربوٰ کے زمرے میں آتا ہے، اور عدالت نے سود پر مبنی ۲۰قوانین کو کالعدم قرار دیا تھا۔ دستورِ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی دفعہ ۳۸(ایف) میں بھی کہا گیا ہے کہ ’’ریاست کی ذمہ داری ہے کہ جلد از جلد (معیشت سے) ربوٰ کا خاتمہ کردیا جائے‘‘۔ یہ بات بہرحال حیران کن ہے کہ شرعی عدالتوں میں ربوٰ کا مقدمہ تقریباً ۳۱ برس زیرسماعت رہا، جس کا قطعی کوئی جواز نہیں تھا۔ ان تاخیری حربوں میں مختلف حکومتوں اور اسٹیٹ بنک کا بھی بڑا اہم کردار رہا۔ یہ امرافسوس ناک ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل، بیش تر دینی و مذہبی جماعتوں، علما و مفتی صاحبان، دانش وروں اور وکلا وغیرہ کی طرف سے اس ضمن میں کوئی بہت زیادہ تشویش کا اظہار نہیں کیا گیا، اور نہ معاشرے میں کوئی ارتعاش پیدا ہوا۔
سپریم کورٹ کے شریعت اپیلٹ بینچ نے ۲۳ دسمبر ۱۹۹۹ء کے فیصلے میں سود کو حرام قرار دیتے ہوئے سود کے خاتمے کے لیے ۳۰ جون ۲۰۰۱ء تک کی مہلت دی تھی۔ جون ۲۰۰۱ء میں سپریم کورٹ کے شریعت اپیلٹ بینچ نے اس فیصلے پر عمل درآمد کی مدت میں بلا کسی جواز کے ایک سال کی توسیع، حکومت سے یہ تحریری ضمانت لیے بغیر کردی کہ وہ اس فیصلے پر عمل درآمد یقیناً کرے گی اور توسیع صرف اس لیے مانگ رہی ہے کہ اس ضمن میں اقدامات اٹھانے کے لیے وقت درکار ہے۔ یہ فیصلہ اسلامی بنکاری کے نفاذ کی کوششوں کو بڑا دھچکا تھا۔
سپریم کورٹ کے اس بینچ میں پاکستان کے ایک ممتاز اور عالمی شہرت کے حامل مفتی بھی عالم جج کی حیثیت سے شامل تھے۔ سپریم کورٹ کے ایک اور شریعت اپیلٹ بینچ نے جس میں دوعالم جج بھی شامل تھے، صرف ۱۰ روز کی سرسری اور رسمی سماعت کے بعد ۲۴ جون ۲۰۰۲ء کو ایک فیصلہ سنایا، جس کے تحت سود کو حرام قرار دینے کے ۱۴ نومبر ۱۹۹۱ء اور ۲۳ دسمبر ۱۹۹۹ء کے فیصلوں کو ہی کالعدم قرار دے دیا اور مقدمہ واپس وفاقی شرعی عدالت کو بھیج دیا، جس نے تقریباً ۲۰برس بعد ۲۸؍ اپریل ۲۰۲۲ء کو فیصلہ سنایا جس میں سود کو حرام قرار دیتے ہوئے سود کے خاتمے کے لیے مزید پانچ برس کا وقت دے دیا۔ اگر ربوٰ کے مقدمے میں سپریم کورٹ کے ۲۳ دسمبر ۱۹۹۹ء کے فیصلے پر عمل درآمد کیا جاتا تو سود کے خاتمے کے ضمن میں حوصلہ افزا پیش رفت ہوچکی ہوتی۔ بدقسمتی سے وطنِ عزیز میں مقتدر طبقوںاور بنکاری کے شعبے سے تعلق رکھنے والوں نے ایک مربوط حکمتِ عملی وضع کر رکھی ہے، جس کا مقصد یہ یقینی بنانارہا ہے کہ:
مندرجہ بالا حکمت ِ عملی کے تحت کیے گئے فیصلوں اور اقدامات کے نتیجے میں ۲۰ برسوں کے دوران میں سود کے خاتمے کے لیے ماحول پہلے سے بھی زیادہ معاندانہ اور مخالفانہ ہوگیا ہے، مثلاً:
وزارتِ خزانہ نے جون ۲۰۰۱ء میں ربوٰکے مقدمے میں جو حلف نامہ سپریم کورٹ میں جمع کرایا تھا، اُس میں کہا گیا تھا کہ ’’سود کی بنیاد پر ملک کے داخلی قرضوں کو اسلامی فنانسنگ کے طریقوں کے مطابق تبدیل کرنا ممکن نہیں ہے اور اگر ۲۳ دسمبر ۱۹۹۹ء کے فیصلوں پر عمل درآمد کیا گیا تو پاکستان کے معاشی استحکام اور سلامتی کو سنگین خطرات لاحق ہوجائیں گے‘‘۔ یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ گذشتہ ۲۰ برسوں میں ملک کے قرضوں کے حجم میں زبردست اضافہ ہوچکا ہے، اور معیشت اور معاشرے میں اتنا زیادہ بگاڑ پیدا کردیا گیا ہے کہ معیشت سے سود کے خاتمے کے لیے معنی خیز پیش رفت اُسی وقت ممکن ہے جب اس کے لیے متعدد انقلابی اقدامات اٹھائے جائیں، جس کے لیے زیادہ عوامی حمایت رکھنے والی سیاسی پارٹیوں میں کوئی عملی عزم نظر نہیں آرہا۔
سپریم کورٹ سے ربوٰ کے مقدمے میں ایک سال کی توسیع ملنے کے صرف تین ماہ بعد ۴ستمبر ۲۰۰۱ء کو اُس وقت کے فوجی حاکم جنرل مشرف کی صدارت میں پاکستان کے ’مالیاتی نظام کو اسلامی سانچے میں ڈھالنے‘ کے نام پر ایک اجلاس منعقد ہوا۔ اس اجلاس میں سودی نظام کو عملاً پاکستان میں تقویت دینے اور زندگی بخشنے کے لیے غیرآئینی اور غیر اسلامی فیصلے کیے گئے تھے۔ اس اجلاس میں اسٹیٹ بنک کے اس وقت کے گورنر، اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین اور کچھ ارکان کے علاوہ سپریم کورٹ کے شریعت بینچ کے ایک ممتاز عالم جج بھی شامل تھے۔
ہم نے اس وقت بھی عرض کیا تھا کہ ’’یہ متوازی بنکاری نظام، غیر اسلامی ہے، اور یہ کہ اس اجلاس میں شریک علما اور دوسرے ماہرین اس بات کو اچھی طرح سمجھتے ہیں‘‘۔ پھر یہ بھی معروضات پیش کیں: مروجہ ’اسلامی بنکاری‘ کی پشت پر علما و مفتی صاحبان اور اسٹیٹ بنک کی شریعہ کمیٹی کے چیئرمین اور ارکان بھی یہ بات اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ یہ متوازی نظام غیر اسلامی ہے اور اس کے ذریعے سودی نظام کو عملاً دوام مل گیا ہے، مگر وہ سب ۲۰ برس سے اس معاملے میں خاموش ہیں۔
سودی نظامِ بنکاری کے متبادل کے طور پر اسلامی بنکاری کا جو بھی نظام وضع کیا جائے اس میں مندرجہ ذیل عوامل لازماً شامل ہونے چاہییں:
یہ مقاصد صرف اُس وقت حاصل ہوں گے، جب اسلامی بنکاری کی اساس ’نفع و نقصان میں شراکت‘ کی بنیاد پر ہو۔ اس کے لیے معاشرے کی اصلاح، اسلامی نظامِ معیشت کا مکمل نفاذ اور تمام ملکی قوانین کو شریعت کے تابع بنانا ہوگا۔ پاکستان میں ٹیکسوں کا نظام استحصالی ہے اور اس سے بڑھ کر ظلم یہ کہ معیشت دستاویزی (documented) نہیں ہے۔ ان تبدیلیوں کے لیے اقتدار کے سرچشموں پر فائز طبقوں میں عزم موجود نہیں ہے۔ اسٹیٹ بنک نے ربوٰ کے مقدمے میں جو حلف نامہ جمع کرایا تھا اس میں کہا گیا تھا کہ:
گذشتہ دو عشروں سے پاکستان میں ’اسلامی بنکاری‘ کے جھنڈے تلے جو نظام اپنایا گیا ہے اس کو ’اسلامی نظامِ بنکاری‘ کہا ہی نہیں جا سکتا بلکہ بنکوں کو اسلامی بنک بھی نہیں کہا جاسکتا۔ وہ علمائے کرام جو مروجہ اسلامی بنکاری کی پشت پر ہیں یا بنکوں کی شریعہ کمیٹی کے رکن ہیں، اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ ان بنکوں کو اسلامی بنک نہیں کہا جا سکتا، مگر گذشتہ ۲۰ برس سے ان کے ہاں بھی خاموشی ہے۔
اگر کوئی بنک سود سے پاک بنکاری کے نام پر کھاتے داروں کا استحصال کرتا ہے، سٹے بازی یا منافع خوری وغیرہ کی حوصلہ افزائی کرتا ہے اور اسلامی نظام معیشت سے انحراف کرتا ہے تب بھی اسے ’بلاسودی بنک‘ کہا جاسکتا ہے۔ پاکستان میں اسلامی بنکاری کے جھنڈے تلے جو بنک کام کررہے ہیں وہ دراصل بلاسودی بنک ہیں، البتہ ان بنکوں میں سود کا عنصر بھی شامل ہوگیا ہے۔
پاکستان میں اسلامی بنکاری کے نام پر جو نظام وضع کیا گیا ہے، وہ سودی نظام کے نقشِ قدم پر چل رہا ہے۔ ایک اسلامی بنک کی شریعہ کمیٹی کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ’’بنک کا کاروبار شرعی اصولوں کے مطابق ہے‘‘، جب کہ اس اسلامی بنک کے کھاتے داروں کو منافع کی تقسیم اسٹیٹ بنک کی ہدایات کے تحت ہے، یعنی شرعی اصولوں کے مطابق نہیں ہے۔ ایک اور اسلامی بنک کی شریعہ کمیٹی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بنک کا کاروبار بڑی حد تک شریعت کے مطابق ہے۔ حالانکہ شریعت میں ’بڑی حد تک‘ کی گنجائش نہیں ہوتی، اس کو ’مکمل طور پر‘ شریعت کے مطابق ہونا چاہیے۔
ان معروف اسلامی بنکوں میں کچھ ایسی پروڈکٹس یا اسکیمیں متعارف کرائی گئی ہیں، جو صاف صاف سود کے زمرے میں آتی ہیں۔ مثلاً رننگ مشارکہ، مشارکہ، تورّق، صکوک، کرنسی سلم، اسپیشل مشارکہ سرٹیفکیٹس اور صکوک البنک بیع معجل وغیرہ۔ اسی طرح پاکستان میں اسلامی بنک اپنے ڈیپازٹ کھاتے داروں کو مناسب شرح سے منافع نہیں دے رہے، جوکہ غیر اسلامی ہے۔اگر اسلامی بنک نفع و نقصان میں شرکت کو اپنائیں تو بنکوں کے کھاتے داروں کو زیادہ منافع ملے گا، تمام پارٹیوں سے انصاف ہوگا، افراطِ زر میں کمی ہوگی اور اسلامی معیشت کے فیوض و برکات بھی حاصل ہوں گے۔
پاکستانی معیشت دراصل طاقت ور معاشی اور مقتدر طبقوں (Elite) کی معیشت ہے۔ ملک کے طاقت ور طبقے بشمول وفاقی و صوبائی حکومتیں و صوبائی اسمبلیاں، دوسرے فیصلہ ساز ادارے اور رائے عامہ پر اثرانداز ہونے والی متعدد اہم اور قابلِ احترام شخصیات بھی عموماً نہیں چاہتیں کہ پاکستان سے سود کا خاتمہ ہو اور اسلامی نظامِ معیشت اسلام کی حقیقی روح کے مطابق استوار ہو۔
عدل اور سماجی انصاف پر مبنی اسلامی نظام کے نفاذ سے ٹیکس چوری کرنے والوں، ٹیکسوں میں بے جا چھوٹ و مراعات حاصل کرنے والوں، کالا دھن رکھنے والوں، قومی دولت لوٹنے یا ناجائز طریقوں سے دولت بٹورنے والوں، قومی خزانے میں ایک پیسہ جمع کرائے بغیر ناجائز دولت کا قانونی تحفظ حاصل کرنے والوں، بنکوں سے غلط طریقوں سے قرضے معاف کرانے والوں، ذخیرہ اندوزی، اوور اور انڈر انوائسنگ، اسمگلنگ کرنے والوں اور اپنا جائز و ناجائز پیسہ قانونی و غیرقانونی (ہنڈی/ حوالہ وغیرہ) طریقوں سے ملک سے باہر منتقل کرنے والوں کے ناجائز مفادات پر ضرب پڑے گی۔ چنانچہ اس ڈسپلن سے بچنے کے لیے ان سب میں ایک گٹھ جوڑ ہوچکا ہے۔
یہی نہیں، اقتدار میں آنے، اقتدار برقرار رکھنے اور اقتدار کو طول دینے کے لیے بیرونی اشرافیہ (استعماری طاقتیں اور آئی ایم ایف و عالمی بنک وغیرہ) کی حمایت بھی درکار ہوتی ہے۔ چنانچہ ملکی اور بیرونی اشرافیہ میں بھی عملاً ایک گٹھ جوڑہے۔ یہ سب پاکستان میں اسلامی نظام کے نفاذ کو روکنے کے لیے کسی بھی حد تک جاتے رہے ہیں اور جاتے رہیں گے۔ البتہ یہ تمام قوتیں اسلامی بنکاری کے نام سے جاری ’بلاسودی نظام بنکاری‘ کے فروغ میں معاونت کرتی رہیں گی، کیونکہ یہ عملاً صرف نام کی تبدیلی اور سودی نظام کے نقشِ پا کی پختگی پر کھڑا ہے۔
اسلامی معیشت وبنکاری کے لیے اسلام جو مقاصدمتعین کرتا ہے، ان میں عدل وانصاف، معاشرے کی عمومی فلاح وبہود اور عدم ارتکاز دولت شامل ہیں ۔ ان مقاصد شریعہ کی روشنی میں ملک میں ’عمومی یا سود ی بنکوں‘ اور’ اسلامی بنکاری‘ کے تحت کام کرنے والے بنکوں کی کارکردگی کا جائزہ دیکھیے:
۱- بنکوں کے ڈیپازٹس اور قرضہ جات (فنانسنگ ) ملین روپے
نام اسلامی بنک عمومی بنک
ڈیپازٹ کھاتے ۷ء۹۰ ۶۲ء۸۸
قرض خواہ کھاتے ۰ء۲۴ ۳ء۹۰
تناسب (فی صد ) ۳ء۰۰ ۶ء۰۰
محترم مفتی محمد تقی عثمانی صاحب نے لکھا ہے : ’’(سودی) بنک درحقیقت پوری قوم کا بلڈ بنک ہیں،جہاں پہ سرمایہ دار پوری قوم کا خون چوس چوس کر پھلتے پھولتے رہتے ہیں اور پوری قوم اقتصادی اعتبار سے نیم جان لاش رہ جاتی ہے ‘‘۔ درج بالا اعدادوشمار اس بات کی بڑی واضح تصویر پیش کرتے ہیں کہ’اسلامی بنک ‘درحقیقت’سودی بنکوں‘ کے مقابلے میں زیادہ استحصالی کردار ادا کررہے ہیں۔
۲- بنکوں کے قرضوں اور فنانسنگ کا حجم، فی صد حصہ (۳۱ دسمبر ۲۰۲۱ء کے مطابق)
شعبہ جات اسلامی بنک عمومی بنک
چھوٹے اور درمیانے درجہ کے ادارے ۲ء۳ ۴ء۸
زراعت ۰ء۸ ۳ء۷
صارفین کی فنانسنگ ۱۰ء۷ ۷ء۵
ان اعداد وشمار سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے ’اسلامی بنکوں ‘ نے’ عمومی سودی بنکوں‘ کے مقابلے میں صارفین کی فنانسنگ اسکیموں کے تحت گاڑیوں اور اشیائے تعیش کی خریداری کے لیے زیادہ فنانسنگ (قرضہ جات کی فراہمی )کی ہے ، جب کہ چھوٹے قرضوںکی اسکیم کے تحت چھوٹے کسانوں اور تاجروں کو سودی بنکوں نے زیادہ قرضے فراہم کیے ہیں ۔ یہ صورت حال اسلامی معیشت اوربنکاری کے مقاصد سے ہم آہنگ نہیں ہے۔
۳- بنکوں کی ایکویٹی پر قبل از ٹیکس منافع فی صد میں
نام ۲۰۲۰ء ۲۰۲۱ء
اسلامی بنک ۳۶ء۴ ۳۲ء۶
عمومی بنک ۲۳ء۲ ۲۴ء۰
ان اعداد وشمار سے معلوم ہوتا ہے کہ’ اسلامی بنک ‘اپنی ’ایکویٹی ‘ پر سودی بنکوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ منافع کما رہے ہیں، مگر ’اسلامی بنک ‘اپنے کھاتہ داروں کو سودی بنکوں کے مقابلے میں کم منافع دے کر کھاتہ داروں کااستحصال کر رہے ہیں۔
اب ملک میں عام لوگ بھی یہ محسوس کرنے لگے ہیں کہ ’اسلامی نظام بنکاری‘ کے نفاذ سے جس بہتری کے دعوے گذشتہ کئی عشروں سے کیے جاتے رہے ہیں، وہ صرف کتابی باتیں ہیں اور گذشتہ ۲۰ برسوں میں یہ بہتری کہیں نظر نہیں آئی۔ یہ سوچ نتائج کے اعتبار سے انتہائی تباہ کن ہے۔
۱-شریعہ اسکالرز، اسلامی نظریاتی کونسل، اسٹیٹ بنک کے شریعہ بورڈ، مالیاتی سوجھ بوجھ رکھنے والے علما خصوصاً وہ علما جو پاکستان میں مروجہ اسلامی بنکاری کی پشت پر ہیں، ان سب کو واضح طور پر کہنا ہوگاکہ وہ ملک میں ’سودی بنکاری‘ اور ’اسلامی بنکاری‘ کو ساتھ ساتھ چلانے کی حکومت اور اسٹیٹ بنک کی پالیسی کو مسترد کرتے ہیں، کیونکہ یہ غیراسلامی ہے۔ اب ۲۸؍ اپریل ۲۰۲۲ء کو وفاقی شرعی عدالت نے سودکے خاتمے کے لیے پانچ سال کا وقت دیا ہے۔ چنانچہ ہم تجویز کرتے ہیں کہ اگر اس مدت کو مان کر کام کرنا ہے تو پھر ہر سال سودی بنکوں کے کاروبار کا ۲۰ فیصد بلاسودی بنکاری کے تحت تبدیل کیا جائے اور اسٹیٹ بنک اس ضمن میں احکامات جاری کرے۔
۲- اسٹیٹ بنک و بنکوں کے شریعہ بورڈ اور وہ علما جو مروجہ اسلامی نظامِ بنکاری کی پشت پر ہیں، اپنی ۲۰ سالہ خاموشی کو توڑ کر قوم کو واضح طور پر بتائیں کہ کیا پاکستان میں اسلامی بنکاری کے جھنڈے تلے کام کرنے والے بنکوں/ سودی بنکوں کی شاخوں اور سودی بنکوں کے اسلامی بنکاری کے ذیلی اداروں کو ’اسلامی بنک‘ کہنا درست ہے؟ اگر نہیں تو پھر انھیں ’بلاسودی بنک‘ کہا جائے مگر اس بات کویقینی بنایا جائے کہ ان کے کاروبار میں سود کا عنصر شامل نہ ہو۔
اس ضمن میں کیا ہی اچھا ہو کہ اسٹیٹ بنک یہ احکامات جاری کرے کہ یکم جولائی ۲۰۲۲ء سے یہ ’اسلامی بنک‘ ،بلاسودی بنک کہلائیں گے۔
۳- جون ۲۰۲۲ء میں پیش کیے جانے والے وفاقی اور صوبائی بجٹ کو ممکنہ حد تک اسلامی نظامِ معیشت کے اصولوں پر بنانا ہوگا۔ اس عمل سے یہ واضح ہوجائے گا کہ سود کے خاتمے کے لیے وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے پر عمل درآمد کرنے میں ہمارا حکومتی نظام کتنا مخلص ہے؟
۴-حکومت اور اسٹیٹ بنک وفاقی شرعی عدالت کے ۲۸؍ اپریل ۲۰۲۲ء کے فیصلے پر اپنے ردعمل میں بلاسود بنکاری، بلاسود معیشت اور اسلامی نظام بنکاری اور اسلامی نظام معیشت میں فرق واضح طور پر روا رکھیں، اور اس ضمن میں الگ الگ ٹائم فریم اور حکمت عملی کا اعلان کریں۔
پاکستان میں کام کرنے والے ملکی اور غیر ملکی بنک، وفاقی شرعی عدالت کے ۲۸ اپریل ۲۰۲۲ء کے فیصلے سے خوش نہیں ہیں۔دوسری طرف وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے میں متعدد غلطیاں ہیں ۔ مثال کے طور پر کہا گیا ہے کہ سود پر مبنی جن قوانین کو کالعدم قرار دیا گیا ہے ، وہ یکم جون ۲۰۲۲ء سے ہی کالعدم قرار پائیں گے۔ یہ بات آئین کی خلاف ورزی ہے ، کیونکہ دستور کے مطابق، اپیل کی مدت ختم ہونے تک یہ قوانین برقرار رہنے چاہئیں۔ اس کی آڑ میں پاکستان بنکس ایسوسی ایشن اس فیصلے کے متعدد نکات کو بنیاد بنا کر سپریم کورٹ کے شریعت بنچ میں اپیل دائر کر سکتی ہے ، اور اس فیصلے کے ضمن میں متعدد مشکلات کی آڑ لے کر اس کے اہم حصوں کو کالعدم قرار دینے کی استد عا کر سکتی ہے۔
’اسلامی بنکاری‘ کے ضمن میں ہماری مندرجہ بالا معروضات سے قطع نظر یہ ازحد ضروری ہے کہ سپریم کورٹ کے شریعت بینچ میں فیصلے کی تاریخ کے دو ماہ کے اندر اپیل داخل کی جائے، جس میں درج ذیل نکات لازماً شامل ہوں:
۱- چونکہ’ اسلامی بنکاری‘ کے نام سے منسوب بنکوں کی متعدد ایسی پیش کشیں اور پراڈکٹس ہیں، جن میں سود کا عنصر شامل ہوتا ہے، اور وہ شرعی عدالت کے فیصلے کے باوجود جاری رہ سکتی ہیں، اس لیے ان تمام پیش کشوں اور پراڈکٹس کے خلاف اپیل ہونی چاہیے۔
۲-’ اسلامی بنک‘ نفع ونقصان میں شرکت کی بنیاد پر کھولے گئے کھاتوں پر منافع شرعی اصولوں کے بجائے اسٹیٹ بنک کے احکامات کے تحت دے رہے ہیں،جس کے خلاف اپیل ہونی چاہیے۔
۳- سپریم کورٹ سے درخواست کی جائے کہ ’اسلامی بنکوں ‘کو’ بلاسودی بنک ‘قرار دے۔
تنبیہ :پاکستان میں ۱۹۸۰ء کے عشرے میں ’بلاسود بنکاری‘ کا نفاذ کیا گیا ۔اس متوازی نظام کے شروع ہونے کے ساتھ ہی ۲۰برس سے ’بلاسودی بنکاری‘ کے جھنڈے تلے کام کرنے والے ان بنکوں کو یک جنبش ’سودی بنک‘ اور ۲۰۰۲ء سے قائم ہونے والے بنکوں کو ’اسلامی بنک‘ قرار دے دیا گیا۔ ہم یہ حقیقت واشگاف الفاظ میں بیان کرتے ہیں کہ:اوّل: یہ متوازی نظام اپنی روح اور عمل کے اعتبار سے غیر اسلامی ہے۔ دوم: ان بنکوں کو اسلامی بنک کہا نہیں جاسکتا، اور سوم: ان بنکوں کی متعدد پروڈکٹس کے اسلامی اصولوں کے مطابق نہ ہونے کے متعدد شواہد موجود ہیں، جن میں سود کا عنصر بھی شامل ہے، اسے درست کرنا انتہائی ضروری ہے۔ اگر ان ’اسلامی بنکوں‘ کو ’بلاسودی بنک‘ قرار نہ دیا گیا تو یہ سنگین خطرہ موجود ہے کہ مستقبل میں نیک نیتی یا بدنیتی سے ان ’اسلامی بنکوں‘ کو عدالتوں کی جانب سے بھی غیر اسلامی قرار دیا جا سکتا ہے، جس کے نتائج تباہ کن ہوں گے۔
دردمندانہ گزارش: اگر وفاقی شرعی عدالت کے ۲۸؍اپریل ۲۰۲۲ء کے فیصلے کی درستگی کے لیے مقررہ تاریخ کے اندر سپریم کورٹ کے شریعت اپیلٹ بینچ میں اپیل داخل نہ کی گئی تو خدشہ ہے کہ خدانخواستہ آنے والے عشروں میں بھی ’اسلامی بنکاری‘ کے نام پر سود پہ مبنی بلاسودی نظام جاری رہ سکتا ہے۔