قرآن کریم میں عقل اور فکر کی قوت استعمال میںلانے کی تاکیدکے پس منظر میںکئی طرح کے اعمال کا ذکر ہے، جیسے درایت (reasoning)، فہم (understanding)، ادراک (consciousness)، تفکر(thinking)، تدبر (deliberation)، تذکر (refreshing ) ، اور تفقہ (comprehension) وغیرہ۔ لیکن قرآن نے سب سے زیادہ لفظ ’ تفکر‘ کا ہی استعمال کیا ہے، یعنی غور و فکرکرنا۔
اسی طرح قرآن نے کئی جگہ غور و فکر کو تجربی مشاہدہ (empirical observation) سے جوڑ کر بیان کیا ہے، جیسے سورۂ یونس: ۱۰۱، الاعراف: ۱۸۵ اور الطارق: ۵ وغیرہ آیات میں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ قرآن حکیم نے غور و فکر کے مختلف طریقے بتائے ہیں، جن سے انسان کو نہ صرف یہ سمجھ میں آسکتا ہے کہ اسے اپنی قوتِ فکروعقل کا استعمال کہاںکہاں کرنا چاہیے،بلکہ ان سے فہم و شعور کی بہت سی نئی راہیں کھلتی ہیں اور نئے شعبوں کی طرف رہنمائی حاصل ہوتی ہے۔ قرآن حکیم کے ذریعے بتائے گئے طریقوں کو درج ذیل عنوانات کے تحت بیان کیا جاسکتا ہے:
ان آیات سے یہ پتہ چلتا ہے کہ قرآن حکیم کے نزول کا مقصد یہ ہے کہ اس کی آیات میں غور و فکر کیا جائے اور ان سے نصیحت و رہنمائی حاصل کی جائے، نیز یہ کہ قرآن حکیم سے صحیح استفادہ عقل مند لوگ ہی کرسکتے ہیں۔ سورۃ النسآء کی آیت ۸۲ خصوصی طور پر یہ واضح کرتی ہے کہ جو لوگ قرآن حکیم میں غور وفکر نہیں کرتے، وہ اکثر شکوک و شبہات کا شکار رہتے ہیں۔ اس کے برعکس قرآن حکیم میں غور وفکر کرنے والوں پر حق بتدریج واضح ہوتا جاتا ہے اور وہ ایمان و یقین کی منازل طے کرتے رہتے ہیں اور بالآخر ہدایت اور کامیابی کے اعلیٰ مقام پر فائز ہوتے ہیں۔
قرآن حکیم میں غور وفکرکے لیے عربی ادب، علم لغت، علم التجوید اور علم تفسیر کا ایک خاص مقام ہے۔ ان کے علاوہ مطالعہ سیرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم علم حدیث اور علم فقہ کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔
ایک جگہ یوںفرمایا: اِنَّ فِيْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّہَارِ وَالْفُلْكِ الَّتِىْ تَجْرِيْ فِي الْبَحْرِ بِمَا يَنْفَعُ النَّاسَ وَمَآ اَنْزَلَ اللہُ مِنَ السَّمَاۗءِ مِنْ مَّاۗءٍ فَاَحْيَا بِہِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِہَا وَبَثَّ فِيْہَا مِنْ كُلِّ دَاۗبَّۃٍ۰۠ وَّتَصْرِيْفِ الرِّيٰحِ وَالسَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَيْنَ السَّمَاۗءِ وَالْاَرْضِ لَاٰيٰتٍ لِّقَوْمٍ يَّعْقِلُوْنَ۱۶۴ (البقرہ۲: ۱۶۴)’’بے شک آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں، اور رات اور دن کے بدلتے رہنے میں، اور ان کشتیوں میں جو انسان کی نفع کی چیزیں لیے ہوئے سمندر میںچلتی پھرتی ہیں اور بارش کے اس پانی میں جسے اللہ تعالیٰ آسمان سے برساتا ہے پھر اس کے ذریعے مردہ زمین کو زندہ کردیتا ہے اور اس میںہر قسم کی جاندار مخلوق پھیلاتا ہے اور ہوائوں کی گردش میں اور بادل میں جو تابع فرمان ہو کر آسمان اور زمین کے درمیان معلق رہتے ہیں، نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو عقل رکھتے ہیں‘‘۔
اس مضمون کی اور بھی بہت سی آیات ہیں مثلاً: الانعام: ۹۵ - ۹۹، النحل: ۱۰ - ۱۷، ۶۵ - ۶۹، ۷۸ - ۸۱، العنکبوت: ۲۰، یٰسین: ۳۲ - ۴۴، الغاشیہ: ۱۷ - ۲۰، فاطر: ۲۷ - ۲۸، الروم: ۱۹ - ۲۵، الجاثیۃ: ۵ وغیرہ۔ ایک جگہ اللہ پاک نے ایسے بندوں کی تعریف کی ہے جو زمین و آسمان کی تخلیق اور کائنات کے دیگر اسرار و رموز پر غور کرتے ہیں اور انھیں کائنات کی حقیقت کا ادراک اور اس کے خالق کی معرفت حاصل ہوجاتی ہے۔
ان آیات میں اللہ رب العزت نے انسان کو کائنات، اس کے مختلف مظاہر اور آثار میں رُونما ہونے والے مختلف حادثات و تغیرات کی طرف متوجہ کیا ہے۔ جو لوگ ان میں ایمانداری کے ساتھ غور و فکر کرتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کی قدرت، اس کی حکمت اور صناعی کے قائل ہوئے بغیر نہیں رہتے۔ انھیں کائنات میں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کے دلائل مل جاتے ہیں۔ اس طرح انھیں اللہ کے احکام کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کی ہدایت نصیب ہوتی ہے۔ اب ذرا آپ بھی ان آیات پر غور کیجیے، کیا ان میںعلم کائنات (Cosmology)، علم ہیئت (Astronomy)، علم طبیعیات (Physics) خصوصاً فلکی طبیعات (Astrophysics)، علم جغرافیہ (Geography)، بحری جغرافیہ (Oceanography) اور علم الارض (Earth Science) جیسے علوم کو حاصل کرنے کی ترغیب نہیں ہے؟
ارشاد ہے:
انسان اگرعالم حیوانات اور عالم نباتات کا مطالعہ کرے تو اس کا اس نتیجے پر پہنچنا دشوار نہیں کہ یہ سب فقط نامیاتی ارتقا (organic evolution) کا نتیجہ نہیں بلکہ ان کی تخلیق کے پیچھے ایک حکمت آمیز منصوبہ بندی اور طے شدہ مقاصد ہیں۔ یہ سب چیزیں اپنے مشاہدہ کرنے والوں کو اپنے خالق کو پہچاننے اور اس کی قدرت و حکمت کو سمجھنے کی دعوت دے رہی ہیں۔ انسان اس پر بھی غور کرے کہ جس رب نے ان تمام مخلوقات کو ایک مقصد کے تحت پیدا فرمایا، کیا اس نے اسے یوں ہی بے کار پیدا کیا ہے۔ ان آیتوں سے علم حیوانات، علم حیوانات پروری ، خصوصاً علم الطیور (Ornithology)، نحل پروری، علم نباتات اور زرعی تعلیم کے حصول کی طرف بھی رہنمائی ہوتی ہے۔
ایک جگہ انسان کو اپنی تخلیق پر غور کرنے کویوں متوجہ فرمایا: فَلْيَنْظُرِ الْاِنْسَانُ مِمَّ خُلِقَ۵ۭ خُلِقَ مِنْ مَّاۗءٍ دَافِقٍ۶ۙ يَّخْرُجُ مِنْۢ بَيْنِ الصُّلْبِ وَالتَّرَاۗىِٕبِ۷ۭ (الطارق۸۶: ۵ - ۷) ’’پس، انسان کو چاہیے کہ (خود ہی) دیکھے (یعنی غور کرے) کہ وہ کس چیز سے پیدا کیا گیا ہے ؟ اسے پیدا کیا گیا ہے اچھلتے ہوئے پانی سے جو پیٹھ اور سینے کی ہڈیوںکے درمیان سے نکلتا ہے ‘‘۔ اتناہی نہیں بلکہ اللہ رب العزت نے قرآن کریم کی بعض آیات میں انسان کی تخلیق و پیدایش اور اس کی زندگی کے مراحل کو واضح طور پر بیان بھی کردیا ہے تاکہ انسان ان پر غور و فکرکرے اور اپنے خالق کو پہچانے اور پھر اس کے احکام پر ایمان لے آئے۔ مثلاً سورۃ الحج میں دیکھیں:
’’اے لوگو! اگر تم (قیامت کے دن) جی اٹھنے سے شک میں ہو تو (سوچو) کہ ہم نے تمھیں (ابتداً) مٹی سے پیدا کیا، پھراس سے نطفہ بناکر، پھر اس سے جمے ہوئے خون کا لوتھڑا بناکر، پھر اس سے گوشت کی بوٹی بناکر صورت بنی ہوئی اور بغیر صورت بنی (ادھوری) تاکہ ہم تمھارے لیے ( اپنی قدرت) ظاہر کردیں اور ہم جس کو چاہتے ہیں (ماؤں کے) رحموں میں ایک مدت تک ٹھیرائے رکھتے ہیں، پھر ہم تمھیں نکالتے ہیںبچے (کی صورت میں) تاکہ پھر تم اپنی جوانی کو پہنچو، اور تم میں کوئی (عمر طبعی سے قبل) فوت ہوجاتا ہے اور تم میں سے کوئی لوٹایا جاتاہے بدترین عمر تک تاکہ وہ (بہت کچھ) جاننے کے بعد بھی کچھ نہ جانے (یعنی ناسمجھ ہوجائے)، اور تو زمین کو دیکھتا ہے کہ خشک پڑی ہوئی ہے، پھر جب ہم نے اس پر پانی اتارا تو وہ تر و تازہ ہوگئی اور ابھر آئی اور وہ اگا لائی ہر قسم کی خوش منظر نباتات۔یہ اس لیے کہ اللہ ہی برحق ہے اور یہ کہ وہ مردوں کو زندہ کرتا ہے اور یہ کہ وہ ہر شے پر قدرت رکھنے والا ہے‘‘۔(الحج۲۲: ۵ - ۶)
ایک جگہ قرآن کریم نے دنیا کے مختلف خطے کے انسانوں کے درمیان رنگ و نسل اور زبان کے فرق کی طرف غور و فکر کرنے کے لیے یوں متوجہ کیا ہے: وَمِنْ اٰيٰتِہٖ خَلْقُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافُ اَلْسِنَتِكُمْ وَاَلْوَانِكُمْ۰ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّــلْعٰلِمِيْنَ۲۲(الروم ۳۰: ۲۲) ’’اس کی نشانیوں میں سے ہے آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنااور تمھاری زبانوں اور تمھارے رنگوں کا مختلف ہونا، بے شک اس میں دانشوروں کے لیے نشانیاں ہیں‘‘ ۔ اس کے علاوہ اور بھی آیات ہیں جیسے القیٰمۃ: ۳۶ - ۳۹، الانفطار: ۶ - ۸، الزمر: ۵ -۶، المؤ منون: ۱۲ - ۱۴، السجدہ: ۷ - ۹، عبس: ۱۷ - ۲۰، المؤمن: ۶۷، الدھر: ۱ - ۲ وغیرہ جن میں بار ی تعالیٰ نے ا نسان کی تخلیق کے مختلف مراحل کا تذکرہ کیا ہے تاکہ انسان ان میں غور و خوض کرے اور اللہ کی قدرت، اس کی خالقیت، صنعت اور حکمت کو پہچان سکے۔ سائنس دراصل اللہ تعالیٰ کی ان نشانیوں کی پرتوں کو ہی کھولتی جارہی ہے جو اس نے انسان اور آفاق کے اندر پنہاں کی ہوئی ہیںاور جیسا کہ اللہ رب العزت نے فرمایا ہے کہ عنقریب وہ دن آئے گاکہ لوگ قرآن کی حقانیت کو تسلیم کرنے پر مجبور ہوں گے۔
ان آیات میں اگر غور کیا جائے تو اس نتیجہ پر پہنچنادشوار نہیں کہ ان میں علم کائنات، علم ہیئت، علم طبیعیات بالخصوص فلکی طبیعات، علم الجنین، علم تشریح الاعضا، علم افعال الاعضا ، علم حیاتیاتی کیمیا، علم نفسیات، علم تزکیہ نفس اور علم بشریات کے حصول کے لیے واضح اشارے موجود ہیں۔
مثال کے طور پر دیکھیے: يَسْــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الْخَــمْرِ وَالْمَيْسِرِ۰ۭ قُلْ فِيْہِمَآ اِثْمٌ كَبِيْرٌ وَّمَنَافِعُ لِلنَّاسِ۰ۡ وَاِثْـمُہُمَآ اَكْبَرُ مِنْ نَّفْعِہِمَا۰ۭ وَيَسْــَٔـلُوْنَكَ مَاذَا يُنْفِقُوْنَ۰ۥۭ قُلِ الْعَفْوَ۰ۭ كَذٰلِكَ يُـبَيِّنُ اللہُ لَكُمُ الْاٰيٰتِ لَعَلَّكُمْ تَتَفَكَّرُوْنَ۲۱۹(البقرہ۲: ۲۱۹) ’’وہ پوچھتے ہیں آپ سے شراب اور جوئے کی بابت، آپ فرمائیے ان دونوں میں بڑا گناہ ہے اور کچھ فائدے بھی ہیںلوگوں کے لیے اور ان کا گناہ ان کے فائدے سے بہت زیادہ ہے۔ اور پوچھتے ہیں آپ سے کیا خرچ کریں؟ آپ فرمائیے جو ضرورت سے زیادہ ہو۔ اسی طرح صاف صاف بیان کرتا ہے اللہ تمھارے لیے اپنے احکام تاکہ تم غور و فکر کرو‘‘۔ احکام قصاص کے بیان کے بعد فرمایا:وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيٰوۃٌ يّٰٓاُولِي الْاَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ۱۷۹ (البقرہ۲: ۱۷۹) ’’اے فہیم لوگو! (اس قانون) قصاص میں تمھارے لیے زندگی ہے، امید ہے کہ تم لوگ (اس قانون کی خلاف ورزی کرنے سے) پرہیز کروگے‘‘۔
اسی طرح روزہ میں رخصت کے پہلو کو بیان کرکے فرمایا: وَاَنْ تَصُوْمُوْا خَيْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۱۸۴ (البقرہ۲: ۱۸۴) ’’ اور روزہ رکھنا ہی تمھارے حق میں بہترہے اگر تم سمجھ رکھتے ہو‘‘۔ نماز جمعہ کے سلسلے میں فرمایا:يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا نُوْدِيَ لِلصَّلٰوۃِ مِنْ يَّوْمِ الْجُمُعَۃِ فَاسْعَوْا اِلٰى ذِكْرِ اللہِ وَذَرُوا الْبَيْعَ۰ۭ ذٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۹ فَاِذَا قُضِيَتِ الصَّلٰوۃُ فَانْتَشِرُوْا فِي الْاَرْضِ وَابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللہِ وَاذْكُرُوا اللہَ كَثِيْرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ۱۰ (الجمعۃ۶۲: ۹)’’اے ایمان لانے والو ! جب اذان دی جائے نماز کے لیے جمعہ کے دن تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑ پڑو اور خرید و فروخت چھوڑ دو، یہ تمھارے حق میں زیادہ بہتر ہے، اگر تم جانتے ہو‘‘۔
اس موضوع کی اور بھی آیات ہیں مثلاً البقرۃ: ۱۸۵، ۲۳۰، ۲۴۰ -۲۴۱، ۲۸۲، النسآء: ۲۳ - ۲۶، المآئدۃ: ۸۹، ۱۰۰، الانعام: ۱۱۹، العنکبوت: ۴۵، الحشر: ۷ وغیرہ۔یہ آیات علم فقہ (Jurisprudence) اور علم تزکیہ کے حصول کی ترغیب دیتی ہیں،جن میں علی الترتیب شرعی احکام کے دلائل اور ان کی روح سے بحثیں کی جاتی ہیں،لیکن وہ علم تصوف مطلوب و مقصود ہے جس کی بنیاد قرآن و سنت ہو نہ کہ بدعات و خرافات۔
ملاحظہ کیجیے :اَلَمْ يَرَوْا كَمْ اَہْلَكْنَا مِنْ قَبْلِہِمْ مِّنْ قَرْنٍ مَّكَّنّٰہُمْ فِي الْاَرْضِ مَا لَمْ نُمَكِّنْ لَّكُمْ وَاَرْسَلْنَا السَّمَاۗءَ عَلَيْہِمْ مِّدْرَارًا۰۠ وَّجَعَلْنَا الْاَنْھٰرَ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِہِمْ فَاَہْلَكْنٰہُمْ بِذُنُوْبِہِمْ وَاَنْشَاْنَا مِنْۢ بَعْدِہِمْ قَرْنًا اٰخَرِيْنَ۶ (الانعام۶: ۶) ’’کیا انھوں نے دیکھا نہیں کہ ہم ان سے پہلے کتنی ایسی قوموں کو ہلاک کرچکے ہیں جن کو ہم نے زمین میں ایسا اقتدار دیا تھا جیسا کہ تمھیں بھی نہیں دیا اور ہم نے ان پر آسمان سے خوب بارشیں برسائیں اور ہم نے نہریں بنادیں جو ان کے (مکانوں کے) نیچے بہہ رہی تھیں۔ پھر ہم نے ان کوان کے گناہوں کی پاداش میں ہلاک کرڈالا اور ان کے بعد دوسری قوموں کو پیدا کردیا‘‘۔
پھر فرمایا: وَلَقَدْ اَہْلَكْنَا الْقُرُوْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَمَّا ظَلَمُوْا۰ۙ وَجَاۗءَتْھُمْ رُسُلُھُمْ بِالْبَيِّنٰتِ وَمَا كَانُوْا لِيُؤْمِنُوْا۰ۭ كَذٰلِكَ نَجْزِي الْقَوْمَ الْمُجْرِمِيْنَ۱۳ ثُمَّ جَعَلْنٰكُمْ خَلٰۗىِٕفَ فِي الْاَرْضِ مِنْۢ بَعْدِہِمْ لِنَنْظُرَ كَيْفَ تَعْمَلُوْنَ۱۴ (یونس ۱۰: ۱۳ - ۱۴) ’’اور ہم نے تم سے پہلے بہت سی قوموں کو ہلاک کردیا، جب کہ انھوں نے ظلم کی روش اختیار کی حالانکہ ان کے پاس ان کے پیغمبر ( بھی) دلائل لے کر آئے، مگر وہ ایسے نہ تھے کہ ایمان لے آتے۔ ہم مجرم لوگوں کو ایسی ہی سزا دیا کرتے ہیں۔ پھر ان کے بعد ہم نے زمین میں تم کو جانشیں کیاتاکہ ہم دیکھ لیں کہ تم کس طرح کام کرتے ہو‘‘۔
ایک اور جگہ ایمان والوں کے لیے یہ ضابطہ بتایا ہے :وَعَدَ اللہُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّہُمْ فِي الْاَرْضِ كَـمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ۰۠ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَہُمْ دِيْنَہُمُ الَّذِي ارْتَضٰى لَہُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّہُمْ مِّنْۢ بَعْدِ خَوْفِہِمْ اَمْنًا۰ۭ يَعْبُدُوْنَنِيْ لَا يُشْرِكُوْنَ بِيْ شَـيْــــًٔـا۰ۭ وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذٰلِكَ فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْفٰسِقُوْنَ۵۵ (النور۲۴: ۵۵)’’اللہ وعدہ فرما چکا ہے تم میں سے ان لوگوں سے جو ایمان لائے ہیں اور نیک اعمال کیے ہیں کہ انھیں ضرور زمین میںخلافت (اقتدار) عطا کرے گا جیسا کہ ان لوگوں کوخلافت عطا کی تھی جو ان سے پہلے تھے اور یقیناً ان کے لیے ان کے اس دین کو مضبوطی کے ساتھ محکم کرکے جمادے گا،جسے ان کے لیے وہ پسند فرماچکا ہے اور ان کے اس خوف (کی حالت) کو امن و امان سے بدل دے گا، وہ صرف میری عبادت کریں گے (اور) میرے ساتھ کسی چیز کو بھی شریک نہ ٹھیرائیں گے اور جو لوگ اس کے بعد بھی کفر (ناشکری) کریں تو وہ یقیناً فاسق ہیں‘‘۔ اس طرح کی اور بھی آیات ہیں مثلاً: آل عمران: ۱۳۷ - ۱۳۸، الانعام: ۱۱، الاعراف: ۹۶، ۱۳۶ - ۱۳۷، ھود: ۱۸ - ۲۰، یوسف: ۱۰۹، الحج: ۴۰ - ۴۱، النمل: ۶۹، القصص: ۴ - ۶، الروم: ۹ وغیرہ۔
ان آیات سے علم تواریخ کے مطالعے کی طرف رہنمائی حاصل ہوتی ہے، جس کا مقصد گذشتہ قوموں کے اندر جاری اللہ تعالیٰ کی سنت کو سمجھناہو، یعنی وہ کیا عوامل ہیں، جن سے کسی قوم کو عروج اور ترقی حاصل ہوتی رہی ہے اور جن سے کسی قوم کا زوال ہوتا آیا ہے؟ انسان تاریخ کے مطالعے سے اگر ان عوامل کو سمجھ لے تو بہت سی غلطیوں سے بچ سکتا ہے اور ترقی و عروج کے بلند و بالا مقام کو پاسکتا ہے کیوں کہ اللہ تعالیٰ کی سنت بدلتی نہیں جیسا کہ مذکورہ بالا آیات میں قرآن کا اعلان ہے۔
واضح رہے کہ اسی طرح اللہ تعالیٰ کی سنت کائنات میں رونما ہونے والے حادثات و تغیرات میں بھی جاری ہے، جسے سائنس دان Law of Nature (قانونِ قدرت) کہتے ہیں۔ سائنس درحقیقت اللہ تعالیٰ کی ان سنتوں، یعنی ’قدرتی قوانین‘ کو ہی سمجھنے اور ان کی وضاحت کرنے کا عمل ہے۔
ان تفصیلات سے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ قرآن نے انسان کو غور و فکر کی دعوت کس اہتمام سے دی ہے ۔ یہ اہتمام انسانی زندگی میں غور و فکر کی اہمیت کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ غور و فکر اور تدبرو تفکر ہی ہے جس سے علمی تحقیق کی راہیں کھلتی ہیں۔ انسان قرآن کے بتائے ہوئے نہج کے مطابق جس رخ پر بھی اپنے تدبر و تفکر کو مرکوز کرے گا ، خود کو علم کے ایک اتھاہ سمندر میں غوطہ زن پائے گا۔ اس لیے قرآن کریم کی غور و فکر پر یہ تاکید دراصل علم و تحقیق کی دعوت ہے جو تمام انسانوں کو دی گئی ہے اور ایک مسلمان چونکہ اس کا خصوصی مخاطب ہے، اس لیے اس پر یہ لازم ہے کہ وہ ان میدانوں میں اپنی صلاحیتوں کو صرف کرے، جن کی نشاندہی مختلف ذیلی عناوین کے تحت سطور بالا میں کی گئی ہے اور دیگر نامناسب اور غیرمفیدمیدانوں میں اپنی صلاحیتوں کو ضائع ہونے سے بچائے۔
قرآن حکیم نے علم کے سلسلے میں دین اور دنیا کی کوئی تفریق نہیں کی، صرف اس کے نفع کے پہلو کو ملحوظ رکھا ہے۔ لہٰذا جو شخص مذکورہ علوم کو کائنات میں بکھری ہوئی اللہ کی نشانیوں کو دریافت کرنے، اس کی قدرت اور کاریگری کو سمجھنے اور اس کی مخلوقات خصوصاً عالم انسانیت کی نفع رسانی کی غرض سے جس کا حتمی مقصد حصول رضائے الٰہی ہو ، حاصل کرنے کی سعی کرے گا تو اس کا یہ عمل عینِ دین ہوگا اور وہ ان تمام فضیلتوں کا مستحق ہوگا جو علم کے سلسلے میں قرآن وحدیث میں وارد ہوئے ہیں۔ ماضی میں ہماری درسگاہوں میں بھی علم کے سلسلے میں ایسی کوئی تفریق نہیں پائی جاتی تھی۔
فقہ، تفسیر، اصول تفسیر، حدیث، اصول حدیث، تصوف، علم لغت، تاریخ کے ساتھ ساتھ مختلف سائنس اور ریاضی کے میدان میں مسلم اسکالرز کی کاوشوں سے جو علمی سرمایہ وجود میں آیا، اس کا محرک دراصل وہ قرآنی آیات ہی تھیں، جن میں ضروری علم کے ساتھ غور و فکر اور تدبر و تفکر کی دعوت دی گئی ہے اورجس نے مسلمانوں کو علم و ترقی کے بام عروج پر پہنچایا اور یورپ کے نشاتِ ثانیہ (Renaissance) کا بھی موجب بنا، جس کا اعتراف مغربی مفکرین بھی کرتے ہیں۔ تاہم، جب سے مسلمانوںکی اکثریت نے قرآن حکیم سے رہنمائی حاصل کرنا چھوڑدیا اور مختلف علوم کے درمیان تفریق شروع کردی۔ جس کے نتیجے میں ان کا زوال شروع ہوا اور آج یہ قوم آبادی کے لحاظ سے دوسرے مقام پر ہوتے ہوئے بھی پوری دنیا میں بے وزن ہے۔ وہ قوم جو کبھی دیگر اقوام عالم کی امام تھی آج ہر جدید نفع بخش علم کے سلسلے میں دوسروں کی طرف حسرت بھری نگاہوں سے دیکھ رہی ہے۔