قرآن مجید میں ایک بہت ہی بنیادی بات یہ بیان فرمائی گئی ہے کہ ’’اللہ تعالیٰ سے اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو علم رکھنے والے ہیں‘‘۔ اس علم سے کون سا علم مراد ہے اور اس کے حصول کے طریقے یا ذرائع کیا ہیں؟ دوسرے لفظوں میں یوں کہیںکہ دنیا میں علم کی وہ کون کون سی شاخیں ہیں، جوخشیت الٰہی کے اس مقام تک پہنچنے میں معاون ہیں؟ ان باتوں کو سمجھنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ اُس آیت قرآنی کے سیاق و سباق پر غور کیا جائے جس میں یہ بات کہی گئی ہے۔ قرآن کریم کی اُس آیت کا ترجمہ مع ماقبل آیت کے اس طرح ہے: ’’کیا تم نے نہیں دیکھاکہ اللہ نے آسمان سے پانی برسایا، پھر ہم نے اس کے ذریعے کئی طرح کے پھل نکال دیئے، جن کے رنگ جداگانہ ہیں اور پہاڑوں میں بھی سفید اور سرخ قطعے ہیں جن کے رنگ مختلف ہیںاور کچھ گہرے سیاہ ہیں۔اور اسی طرح انسانوں، جانوروں اور مویشیوں میں بھی مختلف رنگ ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو علم رکھنے والے ہیں۔بے شک اللہ سب پر غالب اور بہت بخشنے والا ہے۔‘‘ (فاطر۳۵: ۲۷-۲۸)۔
ان آیات پر غور کرنے سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ یہاں علم سے اللہ تعالیٰ، اس کی قدرت، اس کی تخلیقی عظمت اور اس کی عقل کو حیرت زدہ کرنے والی خلاقی فن کاری کی معرفت مراد ہے۔ اس علم کو حاصل کرنے کے لیے یا معرفت کے اس مقام تک پہنچنے کے لیے قرآن کریم نے یہاں چند چیزوںکی طرف انسان کی توجہ مبذول کرائی ہے۔ ان میں سب سے اوّل بارش کا نظام ہے۔ قرآن نے انسان کو یہ ترغیب دی ہے کہ وہ بارش کے نظام پر غور کرے اور اس کے پیچھے کارفرما اللہ کی قدرت کو سمجھے۔یہ خالصتاً سائنس بالخصوص جغرافیہ ، ماحولیاتی سائنس اور موسمیات (Meteorology) سے متعلق علم ہے۔ اگر پورے آبی چکر (Water Cycle) کا ہم گہرائی سے جائزہ لیں تو قدرت کے نظام کی عظمت اور ہیبت مانے بغیر نہیں رہیں گے۔ پانی کس طرح زمین کی سطح، دریاؤں، تالابوں، سمندروں وغیرہ سے عمل تبخیر (Evaporation) کے ذریعے اور درختوں،پیڑ پودوں سے اخراجِ بخارات کے عمل (Transpiration) کے ذریعے بخارات کی صورت میں اوپر اٹھتا ہے اور عمل تکثیف (Condensation) کے ذریعے بادلوں کی شکل اختیار کرلیتا ہے، پھر ہوا ان بادلوں کو دُور دراز کے پہاڑوں، میدانی علاقوں، دریاؤں اور سمندروں کے اُوپر بکھیردیتی ہے جہاں بارش ہوتی ہے اور دریاؤں و سمندروں کے ساتھ تراوش اور رساؤ (Percolation) کے ذریعے زمین کے اندر پانی کی سطح بنی رہتی ہے اورہم جہاں چاہیں وہاں سے کنوؤں اور ٹیوب ویلوں کے ذریعے پاک و صاف پانی حاصل کرلیتے ہیں۔ صاف پانی بڑی مقدار میں برف کی شکل میںپہاڑوں پر بھی جمع کردیا جاتا ہے جو دھیرے دھیرے پگھل کر دریاؤں اور سمندروں کو زندہ رکھتا ہے اور زمینی سوتوں (Water Veins) کے ذریعے بھی دور دراز کے میدانی علاقوں تک پہنچ جاتا ہے۔ دنیا کی کوئی بھی حکومت اتنی بڑی مقدار میں سمندر کے پانی کو مکمل طور پر صاف کرکے پہاڑوں پر جمع کرنے یا میدانی علاقوں تک پہنچانے کا یہ انتظام نہیں کرسکتی اور نہ زمین ہی کے اندر پانی کی سطح کو برقرار رکھ سکتی ہے، جو قدرت کی منصوبہ بندی سے خود بخود جاری ہے۔
دوسری چیز جس کی طرف ان آیات نے ہماری توجہ مبذول کرائی ہے وہ یہ ہے کہ بارش کا یہ پانی جب مختلف ذرائع سے خشک اور مردہ زمینوں تک پہنچ جاتا ہے تو پیڑ پودوں اور پھولوں و پھلوں سے وہ لہلہا اٹھتی ہیں۔ ایک ہی زمین اور ایک ہی قسم کے پانی سے سیراب ہونے کے باوجود اس میں مختلف رنگوں اور اقسام کے پھول اور پھل نکلتے ہیں، جن کی خوشبو اور ذائقہ بھی جدا جدا ہوا کرتا ہے۔ انسان کیا سمجھتا ہے کہ یہ سب خود بخود ہورہا ہے؟ نہیں! بلکہ اس کے پیچھے اللہ تعالیٰ کی قدرت کام کررہی ہوتی ہے، جو ذرا بھی گہرائی سے سوچنے سے سمجھ میں آسکتی ہے۔ اگر غور کیا جائے تو یہ علم، نباتیات (Botany) اور زراعت (Agriculture) کے شعبے سے متعلق ہے۔
تیسری چیز جس کی طرف قرآن کریم نے توجہ مبذول کرائی ہے، وہ پہاڑوں کی ساخت اور ان کی رنگت میں پایا جانے والا اختلاف ہے جو کہ جغرافیہ ، علم الارض (Earth Science) اور علم زمین شناسی (Geology) کا موضوع ہے۔ بعض پہاڑ سفید، بعض سرخ اور بعض بہت گہرے سیاہ رنگ کے ہوتے ہیں۔ اسی طرح بعض پہاڑ بالکل خشک، بنجر اور ویران ہوتے ہیں، جب کہ بعض پیڑ پودوں اور جنگلات سے سرسبزو شاداب۔ پھر اس پر بھی غور کیجیے کہ پہاڑوں سے کتنے اقسام کے نامیاتی (Biotic) اور غیر نامیاتی (Abiotic) قدرتی وسائل حاصل ہوتے ہیں۔انھیں کس نے پہاڑوں میں جڑ دیا ہے؟ یہ بھی اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کی قدرت اور صناعی کا مظہرہیں۔
چوتھی چیز جس کی طرف قرآن کریم نے توجہ مبذول کرائی ہے وہ انسان کی خود اپنی صورت اور جانوروں و مویشیوں کی ساخت اور ان کارنگ و روپ ہے۔ ان میں اتنا تنوع (Diversity) اور پیچیدگی (Complexity) ہے کہ اگر ان پر غور کیا جائے تو ایک درجے کے بعد انسان کا ذہن یہ کہنے پر مجبور ہوجائے گا کہ اللہ کی قدرت بہت بڑی ہے۔ بشریات (Anthroplogy) ، حیاتیات (Biology) ، جینیات (Genetics) ، میڈیکل سائنس، بیطاریات (Veterinary Science) وغیرہ جن سے ان کا علم جڑا ہوا ہے، ان میں آئے دن نئے نئے انکشافات ہورہے ہیں۔ سائنس کی ہر تحقیق دراصل مخلوقات میں پنہاں اللہ کی قدرت کی نشانیوں کو ہی منظر عام پر لارہی ہے۔
قرآن کی سورۂ روم آیت ۲۱ میں انسانوں میں رنگوں کے اختلاف کے ساتھ بول چال اور زبانوں کے اختلاف کی طرف بھی توجہ مبذول کرائی گئی ہے۔ اتنی ساری زبانیں اور بولیاں (Dialects) انسان کو کس نے سکھائے؟ آج بھی ماہرین لسانیات (Linguists) بہت سی قدیم زبانوں کی تحریروں کو سمجھنے اور ان کی تشریح کرنے سے قاصر ہیں،جو تاریخی تحقیق کی بنا پر کتبے یا مخطوطے کی شکل میں منظر عام پر آئی ہیں۔ پھر انسانی رویے کو سمجھنے سے متعلق علوم کے شعبے جیسے نفسیات، عمرانیات، سیاسیات، اقتصادیات وغیرہ ان کے علاوہ ہیں۔
اسی طرح قرآن دیگر آیات (جیسے انعام: ۹۶، الاعراف: ۵۴، یونس: ۵، الرعد: ۲، النحل: ۱۲، الانبیاء: ۳۳، الحج: ۱۸، العنکبوت: ۶۱، لقمان: ۲۹، فاطر: ۱۳، یٰسین: ۴۰ وغیرہ) میں انسان کی توجہ سورج، چاند، ستاروں اور سیاروں کی طرف بھی مبذول کراتا ہے اور ان کی ساخت، ان کی حرکات و سکنات، ان کے مدار، مدار میں ان کی رفتار،اور ان کے درمیان قائم توازن پر بھی غور و فکر کرنے کی ترغیب دیتا ہے، تاکہ وہ اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کی حکمت و منصوبہ بندی کو سمجھ کر اس کو پہچانے۔ یہ پوری کائنات دراصل اللہ تعالیٰ کی حکمت بالغہ اور قدرتِ کاملہ کی آئینہ دار ہے۔ اس کی تمام چیزیں پکار پکار کر یہ کہہ رہی ہیں کہ اس کائنات کا کوئی خالق ہے لیکن ان کی پکار سننے اور سمجھنے کے لیے کامل علم (Perfect Knowledge) اور صحیح فکر (Judicious Thought) چاہیے۔ آدھے ادھورے علم سے معرفت کا یہ مقام حاصل نہیں ہوسکتا!
قرآن نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے: سَنُرِیْھِمْ اٰیٰتِنَا فِی الْاٰفَاقِ وَ فِیْٓ اَنْفُسِھِمْ حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَھُمْ اَنَّہُ الْحَقُّ (حٰمٓ سجدۃ ۳۲: ۵۳)’’عنقریب ہم انھیں اپنی (قدرت کی) نشانیاں آفاق عالم میں بھی دکھائیں گے اور خود ان کی اپنی ذات میں بھی۔ یہاں تک کہ ان پر یہ بات کھل جائے گی کہ یہ (قرآن) بالکل حق ہے‘‘۔
اس کائنات میں قدرت کی نشانیاں سب سے پہلے اور بہ آسانی کس کو سمجھ میں آسکتی ہیں؟ ظاہر ہے کسی عالم تکوینیات (Cosmologist)یا عالم فلکی طبیعات (Astrophysicist)کو۔ کہکشاؤں (Galaxies) اور بلیک ہولز (Black Holes) کو دیکھ دیکھ کر آج کون حیران و پریشان اور حواس باختہ ہے؟ ظاہر ہے ماہرین فلکیات (Astronomers) ! سائنس در حقیقت اس کائنات میں موجود قدرت کی نشانیوں کی پرتیں ہی کھول رہی ہے۔اسی طرح اپنے وجود کے اندر اللہ تعالیٰ کی نشانیاں کس کو بہتر طور پر سمجھ میں آسکتی ہیں؟ ظاہر ہے علم تشریح الابدان (Anatomy) ، علم افعال الاعضاء (Physiology) یا علم النفس (Psychology) کے کسی ماہر کو ، شرط یہ ہے کہ وہ ایمان داری سے ان پر غور و فکر کرے یا اس کی صحیح ڈھنگ سے رہنمائی کی جائے۔ اسی مقصد کے پیش نظر علم کے تمام شعبوں کے اسلامائزیشن (Islamization) کی ضرورت ہے۔ایسا شخص جو قدرت کے نظام اور اس کی مخلوقات میں صحیح منہج پر غور و فکر کرے گا ، وہ ملحد تو نہیں رہے گا۔
واضح رہے کہ قرآن کریم مختلف علوم و فنون کے درمیان تفریق نہیں کرتا، برخلاف اس کے ہر اس علم کی طرف انسان کی توجہ مبذول کراتا ہے بلکہ ان پر تحقیق کی دعوت دیتا ہے جو اسے اللہ تعالیٰ کی معرفت کی طرف لے جائے۔ اس سے یہ بات بھی سمجھ میں آتی ہے کہ علما سے یہاں روایتی یا اصطلاحی علما ہی مراد نہیں ہیں بلکہ وہ لوگ بھی مراد ہیں، جو اللہ تعالیٰ کی حقیقی معرفت رکھتے ہوں، گو ان کا تعلق سائنسی علوم کے کسی شعبے سے ہی ہو۔ جو جتنی اللہ کی معرفت رکھتا ہے، اتنا ہی اس سے ڈرتا ہے۔ عبادات کا حقیقی لطف بھی ایسے ہی لوگوں کو حاصل ہوتا ہے۔ اس کے برعکس جو لوگ ایک اللہ کی عبادت نہیں کرتے ، اس کی پیدا کردہ چیزوں کو ہی اس کا شریک ٹھیراتے ہیں، اس کے احکام سے رُوگردانی کرتے ہیں اور لوگوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑتے ہیں ، وہ درحقیقت اللہ کی صحیح معرفت نہیں رکھتے۔
خیال رہے کہ قوانین شریعت کا علم اور چیز ہے اور اللہ تعالیٰ کی معرفت اور شے! شریعت کا علم رکھنے والے بہت سے افراد بھی اللہ تعالیٰ کی حقیقی معرفت نہیں رکھتے، نتیجتاً خوف خدا سے عاری اور اس کی حکم عدولیوں کے مرتکب ہوتے ہیں۔ دوسری طرف بہت سے ایسے افراد بھی ہوتے ہیں جو معرفت خداوندی میں کامل اور خشیت الٰہی سے لبریز ہوتے ہیں لیکن شریعت کا بہت علم نہیں رکھتے۔
دوم یہ کہ آپ جیساشہرۂ آفاق (سائنس داں) چرچ میںعبادت کے لیے جارہا ہے، یہ کیا؟ بات یہ ہے کہ اس زمانے میں سائنس کے انکشافات اور نوبنو حقائق نے مذہب کو تعلیمی حلقوں سے باہر نکال دیا تھا اور تعلیم یافتہ طبقہ مذہب کے نام سے بیزار ہوچکا تھا۔ میرے اس سوال پر پروفیسر جیمزلمحہ بھر کے لیے رُک گئے اور میری طرف متوجہ ہوکر فرمانے لگے: ’’آج شام کو چائے میرے ساتھ پیئو۔‘‘ میں شام کے وقت ان کی رہایش گاہ پر پہنچا۔ ٹھیک چاربجے لیڈی جیمز باہر آکر کہنے لگیں ، ’’سر جیمز تمھارے منتظر ہیں‘‘۔اندر گیا تو ایک چھوٹی سی میز پر چائے لگی ہوئی تھی۔ پروفیسر صاحب تصورات میں کھوئے ہوئے تھے۔ کہنے لگے ’’تمھارا سوال کیا تھا؟‘‘ اور میرے جواب کا انتظار کیے بغیر اجرامِ آسمانی کی تخلیق، ان کے حیرت انگیز نظام ، لرزہ فگن پنہائیوں اور فاصلوں، ان کی پیچیدہ راہوں اور مداروں، نیز باہمی کشش اور طوفان ہائے نور پر وہ ایمان افروز تفاصیل پیش کیں کہ میرا دل اللہ تعالیٰ کی اس داستان کبریا و جبروت سے دہلنے لگا اور ان کی اپنی یہ کیفیت تھی کہ سر کے بال سیدھے اٹھے ہوئے تھے ، آنکھوں سے حیرت و خشیت کی دوگونہ کیفیتیں عیاں تھیں۔ اللہ کی حکمت و دانش کی ہیبت سے ان کے ہاتھ قدرے کانپ رہے تھے اور آواز لرز رہی تھی۔ فرمانے لگے: ’’عنایت اللہ خان! جب میں اللہ کے تخلیقی کارناموں پر ایک سرسری سی نظر ڈالتا ہوں تو میری تمام ہستی اللہ کے تصور و جلال سے لرزنے لگتی ہے اور جب کلیسا میں اللہ کے سامنے سرنگوں ہوکر کہتا ہوں ’’تو بہت عظیم ہے، تو بہت بڑا ہے‘‘ تو میری ہستی کا ہر ہر ذرہ میرا ہم نوا بن جاتا ہے، مجھے بے حد سکون و سرور نصیب ہوتا ہے اور ان سجدوں کے بعد میں کچھ ہلکا سا محسوس کرنے لگتا ہوں۔ عام لوگوں کی صرف زبان نماز پڑھتی ہے اور میری ہستی کا ہر ہر ذرہ محو تسبیح و تمجید ہوجاتا ہے۔ مجھے دوسروں کی نسبت ہزار گنا زیادہ کیف نماز میں ملتا ہے۔ کہو تمھاری سمجھ میں آیا کہ میں گرجے میں کیوں جاتا ہوں؟‘‘
میں نے کہا: ’’جناب والا ، میں آپ کی روح افروز تفاصیل سے بے حد متاثر ہوا ہوں ۔ اس سلسلے میں قرآن کی ایک آیت یاد آگئی ہے، اگر اجازت ہو تو پیش کروں؟ ‘‘ فرمایا: ’’ضرور ‘‘۔ چنانچہ میں نے آیت پڑھی: وَمِنَ الْجِبَالِ جُدَدٌۢ بِيْضٌ وَّحُمْرٌ مُّخْتَلِفٌ اَلْوَانُہَا وَغَرَابِيْبُ سُوْدٌ۲۷ وَمِنَ النَّاسِ وَالدَّوَاۗبِّ وَالْاَنْعَامِ مُخْتَلِفٌ اَلْوَانُہٗ كَذٰلِكَ۰ۭ اِنَّمَا يَخْشَى اللہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمٰۗؤُا۰ۭ (فاطر۳۵: ۲۷-۲۸) [پہاڑوں میں بھی سفید اور سرخ قطعات ہیں جن کے رنگ مختلف ہیںاور کچھ گہرے سیاہ ہیں۔اور اسی طرح انسانوں، جانوروں اور مویشیوں میں بھی مختلف رنگ ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو علم رکھنے والے ہیں۔]
یہ آیت سنتے ہی پروفیسر جیمز بولے: ’’کیا کہا؟ اللہ سے صرف اہل علم ہی ڈرتے ہیں۔ حیرت انگیز ! بہت عجیب! یہ بات جو مجھے پچاس برس کے مسلسل مطالعہ و مشاہدہ کے بعد معلوم ہوئی، محمدؐ کو کس نے بتائی؟ کیا قرآن میں واقعی یہ آیت موجود ہے؟ اگر ہے تو میری شہادت لکھ لو کہ قرآن ایک الہامی کتاب ہے۔ محمدؐ کو یہ عظیم حقیقت خود بخود کبھی معلوم نہیں ہوسکتی تھی، انھیں یقینا اللہ نے بتائی تھی۔ بہت خوب! بہت عجیب! ‘‘ اور سر جیمز کئی منٹ تک اس آیت پہ سر دھنتے رہے اور محمد عربی علیہ السلام کی خدمت اقدس میںخراج عقیدت پیش کرتے رہے‘‘۔ (ماہنامہ نقوش، لاہور، شخصیات نمبر۲، اکتوبر ۱۹۵۶ء، صفحات ۱۲۰۸۔۱۲۰۹)۔یہ واقعہ محض ایک مثال ہے۔ پروفیسر جیمزنے اپنے علم، مشاہدے، تجربات اور تفکرات سے اللہ کو پہچان لیا۔
اسی طرح مسلمانوں کی یہ ذمہ داری تھی کہ سائنس کے ایسے عالموں کو حکمت کے ساتھ انھی کے سائنسی اسلوب میں بھی دین کی دعوت دیتے اور انھیں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولؐ کی پہچان کراتے، لیکن مسلمانوں نے اس کام پر توجہ نہیں دی بلکہ روایتی علما کے ایک بڑے طبقے نے سائنس پڑھنے والوں کو جاہل سمجھا، جس کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ اس طرح علما نے سائنس سے وابستہ ایک بڑے حلقے کے یہاں اپنے داخلے کا راستہ ہی بند کرالیا اور دعوت کے متوقع مواقع گنوا دیئے۔ چنانچہ دونوں ہی طبقے ایک دوسرے سے کٹ گئے۔ مسلمانوں کی تمام تر توجہ روایتی علوم کی طرف ہی مرکوز رہی الا ماشاء اللہ اور سائنس کے میدان میں ہم کافی پیچھے رہ گئے۔ سائنس کی افادیت سے آنکھیں بند کرنا ممکن نہیں رہا۔ اس لیے ضروری ہے کہ مسلمان بالخصوص روایتی علما سائنس اور ٹکنالوجی کے تئیں اپنے رویے میں مثبت تبدیلی لائیں ، اگرچہ پہلے کے مقابلے میں اس معاملے میںبہت نمایاں فرق واقع بھی ہوا ہے۔ مسلم ماہرین سائنس کو بھی چاہیے کہ وہ قرآن و حدیث سے اپنا تعلق جوڑیں ، دعوتی فکر اختیار کریں اور اپنے اپنے شعبے کے علم کو اسلامائز کرکے دوسروں کے لیے مشعل راہ بنیں
قرآن کریم میں عقل اور فکر کی قوت استعمال میںلانے کی تاکیدکے پس منظر میںکئی طرح کے اعمال کا ذکر ہے، جیسے درایت (reasoning)، فہم (understanding)، ادراک (consciousness)، تفکر(thinking)، تدبر (deliberation)، تذکر (refreshing ) ، اور تفقہ (comprehension) وغیرہ۔ لیکن قرآن نے سب سے زیادہ لفظ ’ تفکر‘ کا ہی استعمال کیا ہے، یعنی غور و فکرکرنا۔
اسی طرح قرآن نے کئی جگہ غور و فکر کو تجربی مشاہدہ (empirical observation) سے جوڑ کر بیان کیا ہے، جیسے سورۂ یونس: ۱۰۱، الاعراف: ۱۸۵ اور الطارق: ۵ وغیرہ آیات میں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ قرآن حکیم نے غور و فکر کے مختلف طریقے بتائے ہیں، جن سے انسان کو نہ صرف یہ سمجھ میں آسکتا ہے کہ اسے اپنی قوتِ فکروعقل کا استعمال کہاںکہاں کرنا چاہیے،بلکہ ان سے فہم و شعور کی بہت سی نئی راہیں کھلتی ہیں اور نئے شعبوں کی طرف رہنمائی حاصل ہوتی ہے۔ قرآن حکیم کے ذریعے بتائے گئے طریقوں کو درج ذیل عنوانات کے تحت بیان کیا جاسکتا ہے:
ان آیات سے یہ پتہ چلتا ہے کہ قرآن حکیم کے نزول کا مقصد یہ ہے کہ اس کی آیات میں غور و فکر کیا جائے اور ان سے نصیحت و رہنمائی حاصل کی جائے، نیز یہ کہ قرآن حکیم سے صحیح استفادہ عقل مند لوگ ہی کرسکتے ہیں۔ سورۃ النسآء کی آیت ۸۲ خصوصی طور پر یہ واضح کرتی ہے کہ جو لوگ قرآن حکیم میں غور وفکر نہیں کرتے، وہ اکثر شکوک و شبہات کا شکار رہتے ہیں۔ اس کے برعکس قرآن حکیم میں غور وفکر کرنے والوں پر حق بتدریج واضح ہوتا جاتا ہے اور وہ ایمان و یقین کی منازل طے کرتے رہتے ہیں اور بالآخر ہدایت اور کامیابی کے اعلیٰ مقام پر فائز ہوتے ہیں۔
قرآن حکیم میں غور وفکرکے لیے عربی ادب، علم لغت، علم التجوید اور علم تفسیر کا ایک خاص مقام ہے۔ ان کے علاوہ مطالعہ سیرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم علم حدیث اور علم فقہ کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔
ایک جگہ یوںفرمایا: اِنَّ فِيْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّہَارِ وَالْفُلْكِ الَّتِىْ تَجْرِيْ فِي الْبَحْرِ بِمَا يَنْفَعُ النَّاسَ وَمَآ اَنْزَلَ اللہُ مِنَ السَّمَاۗءِ مِنْ مَّاۗءٍ فَاَحْيَا بِہِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِہَا وَبَثَّ فِيْہَا مِنْ كُلِّ دَاۗبَّۃٍ۰۠ وَّتَصْرِيْفِ الرِّيٰحِ وَالسَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَيْنَ السَّمَاۗءِ وَالْاَرْضِ لَاٰيٰتٍ لِّقَوْمٍ يَّعْقِلُوْنَ۱۶۴ (البقرہ۲: ۱۶۴)’’بے شک آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں، اور رات اور دن کے بدلتے رہنے میں، اور ان کشتیوں میں جو انسان کی نفع کی چیزیں لیے ہوئے سمندر میںچلتی پھرتی ہیں اور بارش کے اس پانی میں جسے اللہ تعالیٰ آسمان سے برساتا ہے پھر اس کے ذریعے مردہ زمین کو زندہ کردیتا ہے اور اس میںہر قسم کی جاندار مخلوق پھیلاتا ہے اور ہوائوں کی گردش میں اور بادل میں جو تابع فرمان ہو کر آسمان اور زمین کے درمیان معلق رہتے ہیں، نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو عقل رکھتے ہیں‘‘۔
اس مضمون کی اور بھی بہت سی آیات ہیں مثلاً: الانعام: ۹۵ - ۹۹، النحل: ۱۰ - ۱۷، ۶۵ - ۶۹، ۷۸ - ۸۱، العنکبوت: ۲۰، یٰسین: ۳۲ - ۴۴، الغاشیہ: ۱۷ - ۲۰، فاطر: ۲۷ - ۲۸، الروم: ۱۹ - ۲۵، الجاثیۃ: ۵ وغیرہ۔ ایک جگہ اللہ پاک نے ایسے بندوں کی تعریف کی ہے جو زمین و آسمان کی تخلیق اور کائنات کے دیگر اسرار و رموز پر غور کرتے ہیں اور انھیں کائنات کی حقیقت کا ادراک اور اس کے خالق کی معرفت حاصل ہوجاتی ہے۔
ان آیات میں اللہ رب العزت نے انسان کو کائنات، اس کے مختلف مظاہر اور آثار میں رُونما ہونے والے مختلف حادثات و تغیرات کی طرف متوجہ کیا ہے۔ جو لوگ ان میں ایمانداری کے ساتھ غور و فکر کرتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کی قدرت، اس کی حکمت اور صناعی کے قائل ہوئے بغیر نہیں رہتے۔ انھیں کائنات میں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کے دلائل مل جاتے ہیں۔ اس طرح انھیں اللہ کے احکام کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کی ہدایت نصیب ہوتی ہے۔ اب ذرا آپ بھی ان آیات پر غور کیجیے، کیا ان میںعلم کائنات (Cosmology)، علم ہیئت (Astronomy)، علم طبیعیات (Physics) خصوصاً فلکی طبیعات (Astrophysics)، علم جغرافیہ (Geography)، بحری جغرافیہ (Oceanography) اور علم الارض (Earth Science) جیسے علوم کو حاصل کرنے کی ترغیب نہیں ہے؟
ارشاد ہے:
انسان اگرعالم حیوانات اور عالم نباتات کا مطالعہ کرے تو اس کا اس نتیجے پر پہنچنا دشوار نہیں کہ یہ سب فقط نامیاتی ارتقا (organic evolution) کا نتیجہ نہیں بلکہ ان کی تخلیق کے پیچھے ایک حکمت آمیز منصوبہ بندی اور طے شدہ مقاصد ہیں۔ یہ سب چیزیں اپنے مشاہدہ کرنے والوں کو اپنے خالق کو پہچاننے اور اس کی قدرت و حکمت کو سمجھنے کی دعوت دے رہی ہیں۔ انسان اس پر بھی غور کرے کہ جس رب نے ان تمام مخلوقات کو ایک مقصد کے تحت پیدا فرمایا، کیا اس نے اسے یوں ہی بے کار پیدا کیا ہے۔ ان آیتوں سے علم حیوانات، علم حیوانات پروری ، خصوصاً علم الطیور (Ornithology)، نحل پروری، علم نباتات اور زرعی تعلیم کے حصول کی طرف بھی رہنمائی ہوتی ہے۔
ایک جگہ انسان کو اپنی تخلیق پر غور کرنے کویوں متوجہ فرمایا: فَلْيَنْظُرِ الْاِنْسَانُ مِمَّ خُلِقَ۵ۭ خُلِقَ مِنْ مَّاۗءٍ دَافِقٍ۶ۙ يَّخْرُجُ مِنْۢ بَيْنِ الصُّلْبِ وَالتَّرَاۗىِٕبِ۷ۭ (الطارق۸۶: ۵ - ۷) ’’پس، انسان کو چاہیے کہ (خود ہی) دیکھے (یعنی غور کرے) کہ وہ کس چیز سے پیدا کیا گیا ہے ؟ اسے پیدا کیا گیا ہے اچھلتے ہوئے پانی سے جو پیٹھ اور سینے کی ہڈیوںکے درمیان سے نکلتا ہے ‘‘۔ اتناہی نہیں بلکہ اللہ رب العزت نے قرآن کریم کی بعض آیات میں انسان کی تخلیق و پیدایش اور اس کی زندگی کے مراحل کو واضح طور پر بیان بھی کردیا ہے تاکہ انسان ان پر غور و فکرکرے اور اپنے خالق کو پہچانے اور پھر اس کے احکام پر ایمان لے آئے۔ مثلاً سورۃ الحج میں دیکھیں:
’’اے لوگو! اگر تم (قیامت کے دن) جی اٹھنے سے شک میں ہو تو (سوچو) کہ ہم نے تمھیں (ابتداً) مٹی سے پیدا کیا، پھراس سے نطفہ بناکر، پھر اس سے جمے ہوئے خون کا لوتھڑا بناکر، پھر اس سے گوشت کی بوٹی بناکر صورت بنی ہوئی اور بغیر صورت بنی (ادھوری) تاکہ ہم تمھارے لیے ( اپنی قدرت) ظاہر کردیں اور ہم جس کو چاہتے ہیں (ماؤں کے) رحموں میں ایک مدت تک ٹھیرائے رکھتے ہیں، پھر ہم تمھیں نکالتے ہیںبچے (کی صورت میں) تاکہ پھر تم اپنی جوانی کو پہنچو، اور تم میں کوئی (عمر طبعی سے قبل) فوت ہوجاتا ہے اور تم میں سے کوئی لوٹایا جاتاہے بدترین عمر تک تاکہ وہ (بہت کچھ) جاننے کے بعد بھی کچھ نہ جانے (یعنی ناسمجھ ہوجائے)، اور تو زمین کو دیکھتا ہے کہ خشک پڑی ہوئی ہے، پھر جب ہم نے اس پر پانی اتارا تو وہ تر و تازہ ہوگئی اور ابھر آئی اور وہ اگا لائی ہر قسم کی خوش منظر نباتات۔یہ اس لیے کہ اللہ ہی برحق ہے اور یہ کہ وہ مردوں کو زندہ کرتا ہے اور یہ کہ وہ ہر شے پر قدرت رکھنے والا ہے‘‘۔(الحج۲۲: ۵ - ۶)
ایک جگہ قرآن کریم نے دنیا کے مختلف خطے کے انسانوں کے درمیان رنگ و نسل اور زبان کے فرق کی طرف غور و فکر کرنے کے لیے یوں متوجہ کیا ہے: وَمِنْ اٰيٰتِہٖ خَلْقُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافُ اَلْسِنَتِكُمْ وَاَلْوَانِكُمْ۰ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّــلْعٰلِمِيْنَ۲۲(الروم ۳۰: ۲۲) ’’اس کی نشانیوں میں سے ہے آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنااور تمھاری زبانوں اور تمھارے رنگوں کا مختلف ہونا، بے شک اس میں دانشوروں کے لیے نشانیاں ہیں‘‘ ۔ اس کے علاوہ اور بھی آیات ہیں جیسے القیٰمۃ: ۳۶ - ۳۹، الانفطار: ۶ - ۸، الزمر: ۵ -۶، المؤ منون: ۱۲ - ۱۴، السجدہ: ۷ - ۹، عبس: ۱۷ - ۲۰، المؤمن: ۶۷، الدھر: ۱ - ۲ وغیرہ جن میں بار ی تعالیٰ نے ا نسان کی تخلیق کے مختلف مراحل کا تذکرہ کیا ہے تاکہ انسان ان میں غور و خوض کرے اور اللہ کی قدرت، اس کی خالقیت، صنعت اور حکمت کو پہچان سکے۔ سائنس دراصل اللہ تعالیٰ کی ان نشانیوں کی پرتوں کو ہی کھولتی جارہی ہے جو اس نے انسان اور آفاق کے اندر پنہاں کی ہوئی ہیںاور جیسا کہ اللہ رب العزت نے فرمایا ہے کہ عنقریب وہ دن آئے گاکہ لوگ قرآن کی حقانیت کو تسلیم کرنے پر مجبور ہوں گے۔
ان آیات میں اگر غور کیا جائے تو اس نتیجہ پر پہنچنادشوار نہیں کہ ان میں علم کائنات، علم ہیئت، علم طبیعیات بالخصوص فلکی طبیعات، علم الجنین، علم تشریح الاعضا، علم افعال الاعضا ، علم حیاتیاتی کیمیا، علم نفسیات، علم تزکیہ نفس اور علم بشریات کے حصول کے لیے واضح اشارے موجود ہیں۔
مثال کے طور پر دیکھیے: يَسْــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الْخَــمْرِ وَالْمَيْسِرِ۰ۭ قُلْ فِيْہِمَآ اِثْمٌ كَبِيْرٌ وَّمَنَافِعُ لِلنَّاسِ۰ۡ وَاِثْـمُہُمَآ اَكْبَرُ مِنْ نَّفْعِہِمَا۰ۭ وَيَسْــَٔـلُوْنَكَ مَاذَا يُنْفِقُوْنَ۰ۥۭ قُلِ الْعَفْوَ۰ۭ كَذٰلِكَ يُـبَيِّنُ اللہُ لَكُمُ الْاٰيٰتِ لَعَلَّكُمْ تَتَفَكَّرُوْنَ۲۱۹(البقرہ۲: ۲۱۹) ’’وہ پوچھتے ہیں آپ سے شراب اور جوئے کی بابت، آپ فرمائیے ان دونوں میں بڑا گناہ ہے اور کچھ فائدے بھی ہیںلوگوں کے لیے اور ان کا گناہ ان کے فائدے سے بہت زیادہ ہے۔ اور پوچھتے ہیں آپ سے کیا خرچ کریں؟ آپ فرمائیے جو ضرورت سے زیادہ ہو۔ اسی طرح صاف صاف بیان کرتا ہے اللہ تمھارے لیے اپنے احکام تاکہ تم غور و فکر کرو‘‘۔ احکام قصاص کے بیان کے بعد فرمایا:وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيٰوۃٌ يّٰٓاُولِي الْاَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ۱۷۹ (البقرہ۲: ۱۷۹) ’’اے فہیم لوگو! (اس قانون) قصاص میں تمھارے لیے زندگی ہے، امید ہے کہ تم لوگ (اس قانون کی خلاف ورزی کرنے سے) پرہیز کروگے‘‘۔
اسی طرح روزہ میں رخصت کے پہلو کو بیان کرکے فرمایا: وَاَنْ تَصُوْمُوْا خَيْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۱۸۴ (البقرہ۲: ۱۸۴) ’’ اور روزہ رکھنا ہی تمھارے حق میں بہترہے اگر تم سمجھ رکھتے ہو‘‘۔ نماز جمعہ کے سلسلے میں فرمایا:يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا نُوْدِيَ لِلصَّلٰوۃِ مِنْ يَّوْمِ الْجُمُعَۃِ فَاسْعَوْا اِلٰى ذِكْرِ اللہِ وَذَرُوا الْبَيْعَ۰ۭ ذٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۹ فَاِذَا قُضِيَتِ الصَّلٰوۃُ فَانْتَشِرُوْا فِي الْاَرْضِ وَابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللہِ وَاذْكُرُوا اللہَ كَثِيْرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ۱۰ (الجمعۃ۶۲: ۹)’’اے ایمان لانے والو ! جب اذان دی جائے نماز کے لیے جمعہ کے دن تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑ پڑو اور خرید و فروخت چھوڑ دو، یہ تمھارے حق میں زیادہ بہتر ہے، اگر تم جانتے ہو‘‘۔
اس موضوع کی اور بھی آیات ہیں مثلاً البقرۃ: ۱۸۵، ۲۳۰، ۲۴۰ -۲۴۱، ۲۸۲، النسآء: ۲۳ - ۲۶، المآئدۃ: ۸۹، ۱۰۰، الانعام: ۱۱۹، العنکبوت: ۴۵، الحشر: ۷ وغیرہ۔یہ آیات علم فقہ (Jurisprudence) اور علم تزکیہ کے حصول کی ترغیب دیتی ہیں،جن میں علی الترتیب شرعی احکام کے دلائل اور ان کی روح سے بحثیں کی جاتی ہیں،لیکن وہ علم تصوف مطلوب و مقصود ہے جس کی بنیاد قرآن و سنت ہو نہ کہ بدعات و خرافات۔
ملاحظہ کیجیے :اَلَمْ يَرَوْا كَمْ اَہْلَكْنَا مِنْ قَبْلِہِمْ مِّنْ قَرْنٍ مَّكَّنّٰہُمْ فِي الْاَرْضِ مَا لَمْ نُمَكِّنْ لَّكُمْ وَاَرْسَلْنَا السَّمَاۗءَ عَلَيْہِمْ مِّدْرَارًا۰۠ وَّجَعَلْنَا الْاَنْھٰرَ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِہِمْ فَاَہْلَكْنٰہُمْ بِذُنُوْبِہِمْ وَاَنْشَاْنَا مِنْۢ بَعْدِہِمْ قَرْنًا اٰخَرِيْنَ۶ (الانعام۶: ۶) ’’کیا انھوں نے دیکھا نہیں کہ ہم ان سے پہلے کتنی ایسی قوموں کو ہلاک کرچکے ہیں جن کو ہم نے زمین میں ایسا اقتدار دیا تھا جیسا کہ تمھیں بھی نہیں دیا اور ہم نے ان پر آسمان سے خوب بارشیں برسائیں اور ہم نے نہریں بنادیں جو ان کے (مکانوں کے) نیچے بہہ رہی تھیں۔ پھر ہم نے ان کوان کے گناہوں کی پاداش میں ہلاک کرڈالا اور ان کے بعد دوسری قوموں کو پیدا کردیا‘‘۔
پھر فرمایا: وَلَقَدْ اَہْلَكْنَا الْقُرُوْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَمَّا ظَلَمُوْا۰ۙ وَجَاۗءَتْھُمْ رُسُلُھُمْ بِالْبَيِّنٰتِ وَمَا كَانُوْا لِيُؤْمِنُوْا۰ۭ كَذٰلِكَ نَجْزِي الْقَوْمَ الْمُجْرِمِيْنَ۱۳ ثُمَّ جَعَلْنٰكُمْ خَلٰۗىِٕفَ فِي الْاَرْضِ مِنْۢ بَعْدِہِمْ لِنَنْظُرَ كَيْفَ تَعْمَلُوْنَ۱۴ (یونس ۱۰: ۱۳ - ۱۴) ’’اور ہم نے تم سے پہلے بہت سی قوموں کو ہلاک کردیا، جب کہ انھوں نے ظلم کی روش اختیار کی حالانکہ ان کے پاس ان کے پیغمبر ( بھی) دلائل لے کر آئے، مگر وہ ایسے نہ تھے کہ ایمان لے آتے۔ ہم مجرم لوگوں کو ایسی ہی سزا دیا کرتے ہیں۔ پھر ان کے بعد ہم نے زمین میں تم کو جانشیں کیاتاکہ ہم دیکھ لیں کہ تم کس طرح کام کرتے ہو‘‘۔
ایک اور جگہ ایمان والوں کے لیے یہ ضابطہ بتایا ہے :وَعَدَ اللہُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّہُمْ فِي الْاَرْضِ كَـمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ۰۠ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَہُمْ دِيْنَہُمُ الَّذِي ارْتَضٰى لَہُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّہُمْ مِّنْۢ بَعْدِ خَوْفِہِمْ اَمْنًا۰ۭ يَعْبُدُوْنَنِيْ لَا يُشْرِكُوْنَ بِيْ شَـيْــــًٔـا۰ۭ وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذٰلِكَ فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْفٰسِقُوْنَ۵۵ (النور۲۴: ۵۵)’’اللہ وعدہ فرما چکا ہے تم میں سے ان لوگوں سے جو ایمان لائے ہیں اور نیک اعمال کیے ہیں کہ انھیں ضرور زمین میںخلافت (اقتدار) عطا کرے گا جیسا کہ ان لوگوں کوخلافت عطا کی تھی جو ان سے پہلے تھے اور یقیناً ان کے لیے ان کے اس دین کو مضبوطی کے ساتھ محکم کرکے جمادے گا،جسے ان کے لیے وہ پسند فرماچکا ہے اور ان کے اس خوف (کی حالت) کو امن و امان سے بدل دے گا، وہ صرف میری عبادت کریں گے (اور) میرے ساتھ کسی چیز کو بھی شریک نہ ٹھیرائیں گے اور جو لوگ اس کے بعد بھی کفر (ناشکری) کریں تو وہ یقیناً فاسق ہیں‘‘۔ اس طرح کی اور بھی آیات ہیں مثلاً: آل عمران: ۱۳۷ - ۱۳۸، الانعام: ۱۱، الاعراف: ۹۶، ۱۳۶ - ۱۳۷، ھود: ۱۸ - ۲۰، یوسف: ۱۰۹، الحج: ۴۰ - ۴۱، النمل: ۶۹، القصص: ۴ - ۶، الروم: ۹ وغیرہ۔
ان آیات سے علم تواریخ کے مطالعے کی طرف رہنمائی حاصل ہوتی ہے، جس کا مقصد گذشتہ قوموں کے اندر جاری اللہ تعالیٰ کی سنت کو سمجھناہو، یعنی وہ کیا عوامل ہیں، جن سے کسی قوم کو عروج اور ترقی حاصل ہوتی رہی ہے اور جن سے کسی قوم کا زوال ہوتا آیا ہے؟ انسان تاریخ کے مطالعے سے اگر ان عوامل کو سمجھ لے تو بہت سی غلطیوں سے بچ سکتا ہے اور ترقی و عروج کے بلند و بالا مقام کو پاسکتا ہے کیوں کہ اللہ تعالیٰ کی سنت بدلتی نہیں جیسا کہ مذکورہ بالا آیات میں قرآن کا اعلان ہے۔
واضح رہے کہ اسی طرح اللہ تعالیٰ کی سنت کائنات میں رونما ہونے والے حادثات و تغیرات میں بھی جاری ہے، جسے سائنس دان Law of Nature (قانونِ قدرت) کہتے ہیں۔ سائنس درحقیقت اللہ تعالیٰ کی ان سنتوں، یعنی ’قدرتی قوانین‘ کو ہی سمجھنے اور ان کی وضاحت کرنے کا عمل ہے۔
ان تفصیلات سے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ قرآن نے انسان کو غور و فکر کی دعوت کس اہتمام سے دی ہے ۔ یہ اہتمام انسانی زندگی میں غور و فکر کی اہمیت کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ غور و فکر اور تدبرو تفکر ہی ہے جس سے علمی تحقیق کی راہیں کھلتی ہیں۔ انسان قرآن کے بتائے ہوئے نہج کے مطابق جس رخ پر بھی اپنے تدبر و تفکر کو مرکوز کرے گا ، خود کو علم کے ایک اتھاہ سمندر میں غوطہ زن پائے گا۔ اس لیے قرآن کریم کی غور و فکر پر یہ تاکید دراصل علم و تحقیق کی دعوت ہے جو تمام انسانوں کو دی گئی ہے اور ایک مسلمان چونکہ اس کا خصوصی مخاطب ہے، اس لیے اس پر یہ لازم ہے کہ وہ ان میدانوں میں اپنی صلاحیتوں کو صرف کرے، جن کی نشاندہی مختلف ذیلی عناوین کے تحت سطور بالا میں کی گئی ہے اور دیگر نامناسب اور غیرمفیدمیدانوں میں اپنی صلاحیتوں کو ضائع ہونے سے بچائے۔
قرآن حکیم نے علم کے سلسلے میں دین اور دنیا کی کوئی تفریق نہیں کی، صرف اس کے نفع کے پہلو کو ملحوظ رکھا ہے۔ لہٰذا جو شخص مذکورہ علوم کو کائنات میں بکھری ہوئی اللہ کی نشانیوں کو دریافت کرنے، اس کی قدرت اور کاریگری کو سمجھنے اور اس کی مخلوقات خصوصاً عالم انسانیت کی نفع رسانی کی غرض سے جس کا حتمی مقصد حصول رضائے الٰہی ہو ، حاصل کرنے کی سعی کرے گا تو اس کا یہ عمل عینِ دین ہوگا اور وہ ان تمام فضیلتوں کا مستحق ہوگا جو علم کے سلسلے میں قرآن وحدیث میں وارد ہوئے ہیں۔ ماضی میں ہماری درسگاہوں میں بھی علم کے سلسلے میں ایسی کوئی تفریق نہیں پائی جاتی تھی۔
فقہ، تفسیر، اصول تفسیر، حدیث، اصول حدیث، تصوف، علم لغت، تاریخ کے ساتھ ساتھ مختلف سائنس اور ریاضی کے میدان میں مسلم اسکالرز کی کاوشوں سے جو علمی سرمایہ وجود میں آیا، اس کا محرک دراصل وہ قرآنی آیات ہی تھیں، جن میں ضروری علم کے ساتھ غور و فکر اور تدبر و تفکر کی دعوت دی گئی ہے اورجس نے مسلمانوں کو علم و ترقی کے بام عروج پر پہنچایا اور یورپ کے نشاتِ ثانیہ (Renaissance) کا بھی موجب بنا، جس کا اعتراف مغربی مفکرین بھی کرتے ہیں۔ تاہم، جب سے مسلمانوںکی اکثریت نے قرآن حکیم سے رہنمائی حاصل کرنا چھوڑدیا اور مختلف علوم کے درمیان تفریق شروع کردی۔ جس کے نتیجے میں ان کا زوال شروع ہوا اور آج یہ قوم آبادی کے لحاظ سے دوسرے مقام پر ہوتے ہوئے بھی پوری دنیا میں بے وزن ہے۔ وہ قوم جو کبھی دیگر اقوام عالم کی امام تھی آج ہر جدید نفع بخش علم کے سلسلے میں دوسروں کی طرف حسرت بھری نگاہوں سے دیکھ رہی ہے۔
قرآن کریم عالم انسانیت پر نازل ہونے والی اللہ کی نعمتوں میںسے ایک عظیم نعمت ہے۔ یہ وہ نسخۂ کیمیا ہے، جس کے ذریعے انسان نہ صرف یہ کہ اپنے خالق حقیقی کی معرفت حاصل کرسکتا ہے، بلکہ اپنے وجود کے حقیقی مقاصد کو بھی پہچان سکتا ہے۔ وہ یہ جان سکتا ہے کہ اس کے لیے کامیابی اور نجات کی راہ کون سی ہے، اور کس طرزِ حیات کو اختیار کرنے میں اس کی دنیوی و اُخروی ناکامی ہے؟ اسی لیے اللہ ربّ العزت نے اسے کتاب ہدایت قرار دیاہے۔ ارشاد فرمایا:
شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِيْٓ اُنْزِلَ فِيْہِ الْقُرْاٰنُ ھُدًى لِّلنَّاسِ وَبَيِّنٰتٍ مِّنَ الْہُدٰى وَالْفُرْقَانِ۰ۚ (البقرۃ۲:۱۸۵) (روزوں کا مہینہ) رمضان کا مہینہ (ہے) جس میں قرآن (اوّل اوّل) نازل ہوا جو لوگوں کا رہنما ہے اور (جس میں) ہدایت کی کھلی نشانیاں ہیں اور (جو حق و باطل کو) الگ الگ کرنے والا ہے۔
گویا راہِ ہدایت اور راہِ ضلالت اور حق و باطل کے فرق کو اس کتابِ الٰہی نے کھول کھول کر بیان کردیا ہے۔ دوسری جگہ اللہ رب العزت نے اسے اپنی نصیحت، لوگوں کے دلوں کی بیماریوں کے لیے شفا، ہدایت اور رحمت قرار دیا ہے۔ ارشاد باری ہے:
يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ قَدْ جَاۗءَتْكُمْ مَّوْعِظَۃٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَشِفَاۗءٌ لِّمَا فِي الصُّدُوْرِ۰ۥۙ وَہُدًى وَّرَحْمَۃٌ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ۵۷ (یونس۱۰:۵۷) اے لوگو! تمھارے پاس تمھارے ربّ کی طرف سے نصیحت اور دلوں کی بیماریوں کی شفا اور مومنوںکے لیے ہدایت اور رحمت آپہنچی ہے۔
یعنی یہ کتاب تمام عالم انسانیت کے لیے ان کے ربّ کی طرف سے نصیحت و ہدایت ہے۔ پھر جو لوگ اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کی اس نصیحت کو قبول کرکے اس پر ایمان لاتے ہیں اور اس کی ہدایتوں پر عمل کرتے ہیں، یہ ان کے روحانی امراض، کفرو شرک، حب دنیا، تکبر، بُغض و عناد، بخل اور خود پسندی وغیرہ جو انسان کے دل کو تباہ و برباد کردیتے ہیںکے لیے شفااور رحمت ثابت ہوتی ہے۔
قرآن کریم کے یہ فوائد انسان کو تب ہی حاصل ہوسکتے ہیں،جب وہ اس کی تلاوت کرے، اس کی آیتوں میں غور و فکر کرے، اس کے احکام، اوامر و نواہی اور نصیحت و عبرت آمیز باتوں کو سمجھے اور اس پر عمل پیرا بھی ہو۔ اسی لیے اللہ رب العزت نے اپنے رسول کو اور ایمان والوں کو اس کی تلاوت کا حکم فرمایا اور اس کے آداب بھی سکھائے۔ ایک جگہ ارشاد فرمایا: اُتْلُ مَآاُوْحِيَ اِلَيْكَ مِنَ الْكِتٰبِ (العنکبوت ۲۹:۴۵)’’(اے محمدؐ!) یہ کتاب جو تمھاری طرف وحی کی گئی ہے، اس کی تلاوت کیا کرو‘‘ ،تو دوسری جگہ یہ حکم بھی وارد کیا: وَرَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِيْلًا۴ۭ (المزّمّل۷۳:۴)’’قرآن کو ٹھیر ٹھیر کر پڑھا کرو‘‘۔
قرآن کریم کو آہستہ آہستہ اور ٹھیرٹھیر کر پڑھنے کا مقصد صرف یہ نہیں ہے کہ اس کے الفاظ صحیح ڈھنگ سے اور مخارج کے ساتھ ادا ہوں، بلکہ یہ بھی ہے کہ اس کے معانی و مطالب کو بھی قاری خوب سمجھتا جائے۔ اس کی تائید عبد اللہ بن عمرؓ کی اس روایت سے بھی ہوتی ہے، جس میں کم سے کم دنوں میں قرآن ختم کرنے کی تحدید کے سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد منقول ہے: لَا یَفْقَہُ مَنْ قَرَأَ الْقُرْآنَ فِي أَقَلَّ مِنْ ثَلَاثٍ،’’ جس نے قرآن تین دن سے کم میں پڑھا وہ اس کے معانی کو نہیں سمجھ سکا‘‘(سنن ابی داؤد، کتاب الصلوٰۃ، بَابُ تَحْزِیْبِ الْقُرْآن)۔
صاف ظاہر ہوا کہ تلاوت میں قرآن کا سمجھ کر پڑھنا ہی مطلوب ہے۔ اتنا ہی نہیں، قرآن کریم نے اپنے نزول کا مقصد دوسری جگہ واضح طور پر تدبر و تذکر کو ہی بتایا ہے: كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰہُ اِلَيْكَ مُبٰرَكٌ لِّيَدَّبَّرُوْٓا اٰيٰتِہٖ وَلِيَتَذَكَّرَ اُولُوا الْاَلْبَابِ۲۹ (صٓ۳۸:۲۹)’’(یہ) کتاب جو ہم نے تم پر نازل کی ہے بابرکت ہے تاکہ لوگ اس کی آیتوں میں غور کریں اور تاکہ اہل عقل نصیحت پکڑیں‘‘۔ اس آیت سے یہ سمجھنا دشوار نہیں کہ قرآن حکیم کی آیتوں میں تدبر و تفکراس کے نزول کے بنیادی مقاصد میں سے ہے۔ امام محمد بن احمد بن ابوبکرقرطبیؒ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں : ’’یہ آیت اور اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد: اَفَلَا يَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ اَمْ عَلٰي قُلُوْبٍ اَقْفَالُہَا۲۴ (محمد ۴۷:۲۴)،قرآن میں غور و فکر کرنے کے وجوب پر دلالت کرتا ہے تاکہ اس کے معنی کو جان لیا جائے‘‘۔ (تفسیر قرطبی ، ضیاء القرآن پبلی کیشنز، لاہور،۲۰۱۲ء، ج…، ص ۲۹۳)
قرآن کی آیات میں غور و فکر کرنا ہرمسلمان پر واجب ہے۔ لیکن ایک حیرت انگیز طرزِفکر جو مسلمانوں میں یہ پیدا ہوگیا ہے کہ’’ عام مسلمانوں کے لیے قرآن پاک کی تلاوت کافی ہے اور اس کی آیتوں میں غور و فکر کرنا اور ان کے معنی و مطالب کو سمجھنا صرف علما کا کام ہے‘‘۔ گویا یہ کتاب صرف علما کے لیے نازل ہوئی تھی، عوام کے لیے نہیں! حقیقت یہ ہے کہ اس کی آیتوں میں غور و فکر کرنے، ان کے معنی و مطالب کو سمجھنے اور ان پر عمل کی جستجو ہرمسلمان کے لیے ضروری ہے۔
سورئہ نساء میں ہے: اَفَلَا يَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ۰ۭ وَلَوْ كَانَ مِنْ عِنْدِ غَيْرِ اللہِ لَوَجَدُوْا فِيْہِ اخْتِلَافًا كَثِيْرًا۸۲ (النسآء۴:۸۲) ’’بھلا یہ قرآن میں غور کیوں نہیں کرتے؟ اگر یہ اللہ کے سوا کسی اور کا (کلام) ہوتا تو اس میں (بہت سا) اختلاف پاتے‘‘ ۔ قاضی محمد ثناء اللہ پانی پتیؒ اس آیت کی تفسیر میں یہ فرماتے ہیں: ’’ يَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ میں واؤ ضمیر سے مراد منافق ہیں، یعنی کیا منافق قرآن حکیم کے الفاظ اور معانی میں تدبر نہیں کرتے اور اس میں جو غرائب ہیںان میں نظر و فکر نہیں کرتے، تاکہ ان پر یہ حقیقت ظاہر ہوجائے کہ یہ انسان کا کلام نہیں کہ انھیں ایمان کی نعمت حاصل ہوجاتی اور وہ نفاق کو چھوڑ دیتے‘‘۔ (تفسیر مظہری، حوالہ بالا، ۲۰۰۲ء، ج۲،ص ۴۲۴)
ذرا غور کیجیے کہ قرن اولیٰ کے منافقوں سے بھی یہ توقع کی جارہی تھی کہ وہ قرآن میں غوروفکر کریں تاکہ ان کے ایمان و اعمال کی اصلاح ہو، لیکن اب ایک مسلمان بھی اس کو اپنے لیے ضروری نہیں سمجھتا۔ یہ اسی انداز فکر کا نتیجہ ہے جس کے تحت ہمارے ذہنوں میں یہ بٹھایا گیا ہے کہ تم قرآن کو نہیں سمجھ سکتے۔ اس لیے اس میں غور و فکر کرنے کے بجاے صرف ثواب اور برکت کی خاطر اس کے الفاظ کی تلاوت کرتے جاؤ۔ حالانکہ بہت سے بدنصیب توایسے بھی ہیں جنھیں فقط الفاظ کی تلاوت کی بھی توفیق نہیں ہوتی۔ بلاشبہہ قرآن حکیم کی تلاوت گو وہ معنی و مطالب کو سمجھے بغیر ہو ثواب، برکت اور نفع سے خالی نہیں،لیکن کیا اس سے نزول قرآن کا مقصد پورا ہوجاتا ہے؟ نہیں اور قطعاً نہیں ! کوئی بھی کتاب یا تحریر جس کے اندرکچھ ہدایات ہوں اس کو سمجھے بغیر پڑھنااس کی تالیف و تصنیف کے بنیادی مقاصد کو پورا نہیں کرسکتا۔ یہ ٹھیک ویسے ہی ہے جیسے ایک مریض کا ڈاکٹر کا لکھا ہوا نسخہ اس کو سمجھے بغیر پڑھتے رہنا اوراس سے شفا کی امید رکھنا۔
سوال یہ بھی ہے کہ جس کتاب کو اللہ رب العزت نے عالم انسانیت کی ہدایت کے لیے نازل کیا ہو، وہ اتنی مشکل کیسے ہوسکتی ہے کہ لوگوں کو سمجھ میں ہی نہ آئے؟ آخر کن موضوعات سے یہ بحث کرتی ہے؟ یہ سوالات دین کے ایک عام طالب علم کے ذہن میں پیدا ہوتے ہیں۔ اگر ان کا جواب قرآن میں تلاش کریں تو آپ پائیں گے کہ: اس میں کائنات میں موجود اللہ تعالیٰ کی نشانیوں کی بنیاد پر اس کے وجود اور اس کی وحدانیت کے دلائل دیے گئے ہیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کے دلائل ہیں، دنیا کی بے ثباتی اورآخرت کی حقیقت کے بیانات ہیں، انسان کی زندگی کے مقاصد کی وضاحت اور اخلاقِ حسنہ کی تعلیم ہے، اخلاقِ رذیلہ سے بچنے کی نصیحتیں، اعمالِ صالحہ کی ترغیبات اور ان سے متعلق بشارتیں ہیں، اعمالِ قبیحہ سے بچنے کی ہدایات اور ان سے متعلق وعیدیں ہیں، قصص و واقعات ہیں جن سے انسان عبرت حاصل کرسکے اور اوامر و نواہی، یعنی احکام ہیں جن کا تعلق انسان کی زندگی سے ہے۔ ان میں ایسی کیا چیز ہے جو ایک تعلیم یافتہ انسان کی سمجھ میں نہ آسکے؟ ہاں، یہ ضرور ہے کہ قرآنی آیتوں سے مسائل کی تخریج اور فقہی استنباط ہر کسی کے بس میں نہیں لیکن علم کا وہ مقام جہاں یہ صفات حاصل ہوتی ہیں، درجہ بدرجہ مطالعہ اور تدبر و تفکر سے ہی حاصل ہوسکتا ہے۔
نیز یہ بھی دیکھیے کہ احکام سے متعلق آیات کتنی ہیں ؟ علامہ جلال الدین سیوطیؒ نے امام غزالیؒ کے حوالے سے ان کی تعداد ۵۰۰ بتائی ہے اور دوسرے قول میں ۱۵۰ آیات کا ذکر ہے (الاتقان فی علوم القرآن، دارالاشاعت ،کراچی ،۲۰۰۸ء، ج ۲، ص ۲۷۸)۔ ان سب کو اگر یک جا کیا جائے تو ان کی مقدار دو ڈھائی پارے کی مقدار سے زیادہ نہیں ہوگی۔ فرض کرلیجیے کہ اگر اتنی آیتیں صرف علما ہی سمجھ سکتے ہیں تو باقی حصے کے بارے میں آپ کیا کہیں گے؟ حقیقت یہ ہے کہ یہ طرزِ فکر کمزور دلیلوںپر مبنی ہے خصوصاً تب، جب کہ علما نے ان آیات کی تشریح بھی کردی ہو۔
اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ نے تو یہ اعلان عام پہلے ہی کیا ہواہے کہ قرآن مجید رشد و ہدایت کی آسان کتاب ہے: وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّكْرِ فَہَلْ مِنْ مُّدَّكِرٍ۱۷(القمر۵۴:۱۷)’’ اور تحقیق ہم نے قرآن کو نصیحت (سمجھنے) کے لیے آسان کر دیا ہے، تو کیا کوئی ہے نصیحت حاصل کرنے والا؟‘‘ اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ قرآن سے نصیحت اور عبرت حاصل کرنا بالکل آسان ہے، بس ضرورت ہے تو اس سلسلے میں نیک نیتی سے سعی اور جد و جہد کی، لیکن ہم لوگوں نے اسے مشکل بتاکرامت کے ایک بڑے طبقے کو قرآن سے دور کردیا۔ حالانکہ انسان اگر اخلاص کے ساتھ اور ہدایت کی طلب میں معنی پر غور و فکر کرتے ہوئے قرآن کا مطالعہ کرے تو اسے ضرور ہدایت ملے گی۔
صف اول کے محدث و مجدد شاہ ولی اللہ دہلویؒ (م: ۱۱۷۶ھ ) نے سب سے پہلے اس نظریے کی تردید کی اور عوام تک قرآن کو پہنچانے کے لیے اپنے دور کی عام زبان، یعنی فارسی میں قرآن کا ترجمہ کیا اور بعد میں ان کے اس مشن کو ان کے لائق فرزندان ارجمند شاہ عبد القادر دہلویؒ (م: ۱۲۳۰ھ) اور شاہ رفیع الدین دہلویؒ (م:۱۲۳۳ھ)نے اردو تراجم کے ساتھ اور شاہ عبدالعزیز دہلویؒ (م: ۱۲۳۹ھ) نے دہلی جیسے مرکزی شہر میں ۶۲،۶۳ سال تک درس قرآن کا سلسلہ جاری رکھ کر آگے بڑھایا۔ اسی خانوادے سے تعلق رکھنے والے شاہ اسمٰعیل شہیدؒ ہیںجن کو حضرت شاہ عبدالعزیز صاحب محدث دہلویؒ نے حجۃالاسلام، تاج المفسّرین ، فخرالمحدثین، سرآمد علماے محققین جیسے القاب سے نوازا ہے اور انھیں علماے ربانی میں سے شمارکیا ہے۔
شاہ اسماعیل شہید اس باطل نظریے کی تردید میں یوں رقمطراز ہیں:’’ عوام میں یہ بات مشہور ہے کہ قرآن و حدیث کو سمجھنا بڑا مشکل ہے۔ اس کے لیے بڑے علم کی ضرورت ہے۔ ہم جاہل کس طرح سمجھ سکتے ہیںاور کس طرح اس کے موافق عمل کرسکتے ہیں؟ اس پر عمل بھی صرف ولی اور بزرگ ہی کرسکتے ہیں۔ ان کا خیال قطعی بے بنیاد ہے کیونکہ حق تعالیٰ نے فرمایا کہ قرآن پاک کی باتیں صاف صاف اور سلجھی ہوئی ہیں: وَلَقَدْ اَنْزَلْنَآ اِلَيْكَ اٰيٰتٍؚبَيِّنٰتٍ۰ۚ وَمَا يَكْفُرُ بِہَآ اِلَّا الْفٰسِقُوْنَ۹۹ (البقرۃ ۲:۹۹) ’’بلاشبہہ ہم نے آپؐ پر صاف صاف آیتیں اتاری ہیں، ان کا انکار فاسق ہی کرتے ہیں‘‘، یعنی ان کا سمجھنا کچھ بھی مشکل نہیں نہایت آسان ہے، البتہ ان پر عمل کرنا مشکل ہے، کیونکہ نفس کو فرماں برداری مشکل معلوم ہوتی ہے۔ اسی لیے نافرمان ان کو نہیں مانتے‘‘۔
شاہ صاحب آگے چل کر فرماتے ہیں: ’’ قرآن و حدیث کو سمجھنے کے لیے کچھ زیادہ علم کی ضرورت نہیں، کیونکہ پیغمبر نادانوںکو راہ بتانے کے لیے، جاہلوں کو سمجھانے کے لیے اور بے علموں کو علم سکھانے کے لیے ہی آئے تھے، فرمایا: ہُوَالَّذِيْ بَعَثَ فِي الْاُمِّيّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْہُمْ يَتْلُوْا عَلَيْہِمْ اٰيٰتِہٖ وَيُزَكِّيْہِمْ وَيُعَلِّمُہُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَۃَ۰ۤ وَاِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ۲ۙ (الجمعۃ ۶۲:۲) ’’اسی نے ناخواندوں میں انھی میں سے ایک رسول بھیجاجو انھیں( شرک و کفر سے) پاک کرتا ہے اور انھیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔ یقینا پہلے وہ کھلی گمراہی میں تھے ‘‘۔ گویا حق تعالیٰ کی یہ بڑی زبردست نعمت ہے کہ اس نے ایسا رسول مبعوث فرمایاجس نے ناواقفوں کو واقف، ناپاکوں کو پاک، جاہلوں کو عالم، نادانوں کو دانا اور گمراہوں کوراہ یافتہ بنا دیا۔ اس آیت کو سمجھنے کے بعد اب اگر کوئی شخص یہ کہنے لگے کہ قرآن سمجھنا عالموں اور اس پر عمل کرنابڑے بڑے بزرگوں ہی کا کام ہے، تو اس نے اس آیت کا انکار کر دیااور رب کی اس جلیل الشان نعمت کی ناقدری کی، بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ اس کو سمجھ کر جاہل، عالم اورگمراہ، عمل کرکے بزرگ بن جاتے ہیں‘‘ ( تقویۃ الایمان، ص۳۷-۳۹)۔
ان حضرات کے ان تجدیدی خیالات اور متعلقہ کوششوں کے بعد برصغیر میں قرآن مجید کا ترجمہ اردو اور دیگر زبانوں میں ہونے کی راہیں کھلیں۔ اس کے بعد تو مختلف زبانوں میں ترجموں کا ایک سیلاب رواں ہوگیا۔ ایک جائزے کے مطابق اب تک قرآن کریم کا جزوی ترجمہ ۱۱۹ بین الاقوامی زبانوں میں اور مکمل ترجمہ ۱۱۲ زبانوں میں ہوچکا ہے۔ برصغیر کے کئی جید اور معتبر عالموں نے اردو زبان میں قرآن کریم کی تفسیریں نہایت سہل انداز میں لکھیں، تاکہ عوام کا طبقہ ان سے مستفیض ہوسکے۔ ان کے علاوہ عربی کی معرکۃ الآرا تفاسیر مثلاً تفسیر ابن کثیر، تفسیر القرطبی، تفسیر الدرّ المنثور، تفسیر جلالین، تفسیر البغوی، تفسیر مظہری، تفسیر روح البیان وغیرہ کا اردو میں ترجمہ ہوچکا ہے۔ ان کاوشوں نے قرآن کریم کو سمجھنا اب اور بھی آسان کردیا ہے۔
مقامِ افسوس ہے کہ ان تمام کاوشوں کے باوجود اس فکر میں کوئی خاص تبدیلی واقع نہیں ہوئی کہ قرآن کا سمجھنا بس عالموں کا ہی کام ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ علم پر گویا ان کی ہی اجارہ داری ہو۔ ایسا کرکے یہ لوگ نہ صرف یہ کہ قرآن فہمی سے لوگوں کو دور کردیتے ہیں،بلکہ اکابر علما کی ان کاوشوں پر بھی پانی پھیر دیتے ہیں،جو انھوں نے قرآن اور اس کی تفاسیر کو اردو اور دوسری زبانوں میں منتقل کرکے عصری تعلیم یافتہ افرادتک پہنچانے کے سلسلے میں کی ہیں۔ راقم کے خیال میں اس بیش بہا دینی علمی ذخیرہ سے استفادہ نہ کرنا جواکابر علما نے اردو اور دوسری زبانوں میں منتقل کرکے ہم تک پہنچادیا ہے، کفران نعمت ہے۔ علما کو چاہیے کہ وہ غیرعربی داں تعلیم یافتہ افراد کو بھی قرآن سے جوڑنے کی فکرکریں، تاکہ ان کے عقائد و اعمال کی اصلاح ہواوروہ مغربی تہذیب کے داعی عصری تعلیمی اداروں کے مضر اثرات سے بھی محفوظ رہ سکیں۔ نیز امت میں ایسے افراد کا ہونا بھی ضروری ہے، جو مغربی تہذیب سے متاثر اور خود کو’ روشن خیال‘ تصور کرنے والے حلقوںسے اسلام اور اسلامی تہذیب کے خلاف اٹھنے والے سوالات و اعتراضات کا جواب انھی کی زبان و اسلوب میں دے سکیں۔
علماے کرام کو تو یہ چاہیے کہ وہ عصری تعلیمی اداروں میں طلبہ اور اساتذہ کے لیے اسلامی معلومات پر مبنی قلیل مدتی کورسز (Short Term Courses) کا وقتاً فوقتاً انعقاد کریں،تاکہ اسلام کی صحیح واقفیت ان تک پہنچ سکے اور اسلام سے ان کا لگاؤ بڑھے۔ بڑے مدارس کے ذمہ داران اگر چاہیں تو اس طرح کے پروگرام منظم ڈھنگ سے چلاسکتے ہیں،لیکن اس طرح کے توسیعی کام (Extension Work) کی طرف اکثر ان کا ذہن ہی نہیں جاتا۔برعکس اس کے عصری اداروں کے جو لوگ خود سے دینی علوم کی طرف راغب ہوتے ہیں، بہت سی مثالوں کے مطابق ان کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ عصری تعلیم سے وابستہ افراد کی اصلاح سے غفلت کے نتیجے میں جب ملحد، گمراہ اور گستاخِ دیں لوگ پیدا ہوتے ہیں تو اس پر شور ہوتا ہے۔
عصری تعلیم سے وابستہ افراد، بلکہ ہر پڑھے لکھے مسلمان کو چاہیے کہ وہ اللہ کی کتاب سے اپنا رشتہ جوڑیں۔ روزانہ قرآن پاک کی تلاوت معنی و مطالب کے ساتھ کریں۔ ہر زبان میں قرآن کے مستند تراجم و تفاسیر موجود ہیں،اس لیے کسی کے لیے کوئی عذر نہیںہے ۔ اگر دو صفحات بھی روزانہ اس طرح تلاوت کی جائے، تو اس کے حیرت انگیز نتائج سامنے آئیں گے۔ یہ قطعی نہ سوچیں کہ ہمیں سمجھ میں نہیں آئے گا۔ جب آپ پیچیدہ دُنیوی علوم کو سمجھ سکتے ہیں،تو قرآن پاک کو کیوں نہیں سمجھ سکتے جس کا تعلق آپ کی زندگی سے ہے؟ بس قدم بڑھانے کی ضرورت ہے۔ کبھی اس پر بھی غور کریں کہ اپنے جیسے انسانوں کی لکھی ہوئی کتابیں،جن میں بہت سے فاسق و فاجر بھی ہوتے ہیں، محض چند دنوں کے دنیوی فوائد حاصل کرنے کے لیے آپ دن رات پڑھتے ہیں، لیکن اگر نہیں پڑھتے تو اللہ تبارک و تعالیٰ کی کتاب جس سے دنیا و آخرت دونوں کی کامیابی وابستہ ہے ۔
آخر اللہ تبارک و تعالیٰ کے سامنے ہم کیا عذر پیش کرسکیں گے، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم روزِ قیامت بارگاہ خداوندی میں یہ شکایت درج کریں گے کہ اے میرے رب! بے شک میری قوم کے لوگوں نے اس قرآن پاک کو چھوڑ رکھا تھا: وَقَالَ الرَّسُوْلُ يٰرَبِّ اِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوْا ھٰذَا الْقُرْاٰنَ مَہْجُوْرًا۳۰(الفرقان۲۵:۳۰)۔ اس لیے اس کارخیر کی ابتدا بلاتاخیر آج ہی سے کردیجیے۔
کسی بھی معاشرے کو ظلم و زیادتی سے پاک کرنے، باہمی اعتماد و اعتبار اور عدل و انصاف کی فضا قائم کرنے کے لیے ایک اہم قدر امانت داری بھی ہے۔ یہ ایک ایسی بنیادی قدر ہے جسے کسی معاشرے کے ہر ایک فرد کے اندر پیدا کیے بغیر، اس معاشرے کو خوف، عدم اعتمادی، خیانت، دھوکا اور ظلم جیسی برائیوں سے پاک نہیں کیا جاسکتا۔ اس لیے ہر دور اور ہر معاشرے میں خواہ اس کا تعلق کسی بھی مذہب اور تہذیب سے ہو ، امانت داری کو پسند کیا گیا ہے۔ اسلام چونکہ دینِ فطرت ہے اور دنیا کو زندگی گزارنے کے لیے ایک بہتر جگہ بنانا، اس کے مقاصد میں سے ہے۔ اس لیے انسانیت کی اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے امانت داری کو ایک اہم مقام عطا کیا گیا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امانت داری کو ایمان کا لازمی جزو قرار دیا ہے۔ آپؐ نے اکثر فرمایا : لَا إِیْمَانَ لِمَنْ لَا أَمَانَۃَ لَہُ وَ لَا دِیْنَ لِمَنْ لَا عَہْدَ لَہُ (مسند احمد، حدیث: ۱۲۳۲۴، بروایت انسؓ بن مالک) ’’ اس کا کوئی ایمان نہیں جو امانت دار نہیں اور اس کا کوئی دین نہیں جو عہد کا پابند نہیں ‘‘۔
قرآن کریم میں بھی امانت کی ادایگی پر سخت تاکید کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: اِنَّ اللہَ يَاْمُرُكُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰٓى اَھْلِھَا۰ۙ وَاِذَا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْكُمُوْا بِالْعَدْلِ۰ۭ اِنَّ اللہَ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِہٖ ۰ۭ اِنَّ اللہَ كَانَ سَمِيْعًۢا بَصِيْرًا (النساء۴:۵۸) ’’بے شک اللہ تمھیں حکم دیتا ہے کہ امانت والوں کی امانتیں انھیں پہنچاؤ اور جب لوگوں کا فیصلہ کرو تو عدل و انصاف سے فیصلہ کرو، یقیناً وہ بہتر چیز ہے جس کی نصیحت تمھیں اللہ کررہا ہے، بے شک اللہ سنتا ہے دیکھتا ہے‘‘۔
نیز فرمایا: اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الْخَآئِنِیْنَ (الانفال ۸:۵۸) ’’بے شک اللہ تعالیٰ خیانت کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا‘‘۔ اس کے ساتھ ہی امانت داروں کے لیے قرآن میں جنت کی بشارت دی گئی ہے جو بڑی کامیابی کی ضمانت ہے۔
ارشاد ہے: وَالَّذِيْنَ ہُمْ لِاَمٰنٰتِہِمْ وَعَہْدِہِمْ رٰعُوْنَ۳۲۠ۙ وَالَّذِيْنَ ہُمْ بِشَہٰدٰتِہِمْ قَاۗىِٕمُوْنَ۳۳۠ۙ وَالَّذِيْنَ ہُمْ عَلٰي صَلَاتِہِمْ يُحَافِظُوْنَ۳۴ۭ اُولٰۗىِٕكَ فِيْ جَنّٰتٍ مُّكْرَمُوْنَ۳۵ۭۧ (المعارج۷۰:۳۲-۳۵) ’’اور وہ جو اپنی امانتوں اور اپنے عہد کی حفاظت کرنے والے ہیں، اور وہ جو اپنی گواہیوں پر قائم رہنے والے ہیں، اور وہ جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرنے والے ہیں، یہی لوگ ( بہشت کے) باغات میں مکرم و معزز ہوں گے‘‘۔
ان ارشادات سے یہ پتا چلتا ہے کہ صفت امانت داری اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک کتنی اہم اور پسندیدہ چیز ہے۔ لیکن دوسری اقوام کا تو کیا گلہ کیا جائے، خودمسلمانوں کے اندر اب یہ صفت عنقا ہوتی جارہی ہے۔ عوام تو عوام ، تعلیم یافتہ اور خواص کے طبقے میں بھی یہ صفت ناپید ہوتی جارہی ہے، جس کی وجہ سے پورا معاشرہ فسادات کی نذر ہو تا جارہا ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ جہاں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کے حوالے سے ہماری عدم وفاداری اور اسلامی اقدار سے مجرمانہ رُوگردانی ہے، وہیں اس کی دوسری وجہ اسلامی تعلیمات سے دُوری کی وجہ سے امانت داری کا ناقص فہم و تصور بھی ہے۔
’امانت‘ دراصل ایک وسیع مفہوم کا حامل لفظ ہے، جس کے دائرے میںاللہ کے وہ تمام حقوق بھی آتے ہیں، جو بندوں پر عائد ہیں، جیسے: نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ، کفارہ، صدقات وغیرہ اور بندوں کے آپس کے وہ تمام حقوق بھی شامل ہیں، جو ایک دوسرے پر عائد ہیںجنھیں حقوق العباد کہاجاتا ہے۔ اس فکر پر سورۃ الانفال کی یہ آیت دلالت کرتی ہے: يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَخُوْنُوا اللہَ وَالرَّسُوْلَ وَتَخُوْنُوْٓا اَمٰنٰتِكُمْ وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ (الانفال۸:۲۷)’’اے ایمان والو! خیانت نہ کرواللہ کی اور رسولؐ کی اور خیانت نہ کرو اپنی امانتوں میں، جب کہ تم جانتے ہو‘‘۔
یہاں اللہ اور رسولؐ کی خیانت کرنے سے باز رہنے سے مراد ان کے حقوق کو تلف کرنے سے باز رہنا ہے۔ درحقیقت انسان کامال واسباب ، اس کی صحت و تندرستی بلکہ پوری زندگی ہی اللہ کی امانت ہے کیوں کہ اللہ کا ارشاد ہے: اِنَّ اللہَ اشْتَرٰي مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ اَنْفُسَھُمْ وَاَمْوَالَھُمْ بِاَنَّ لَھُمُ الْجَنَّۃَ ط (التوبۃ ۹:۱۱۱) ’’بلاشبہہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں سے ان کی جانوں اور ان کے مالوں کو اس بات کے عوض خرید لیا ہے کہ ان کو جنت ملے گی‘‘۔ جب جان اور مال دونوںبک گئے، تواب جو یہ چیزیںہمارے پاس موجود ہیں، وہ اللہ کی امانت ہی ہوئیں اور اللہ نے اپنی عنایت سے ان میں تصرف کا اختیار دیا ہوا ہے، تو ان میں اللہ کی منشا کا خیال رکھنا واجب ہے۔
اسی طرح امانت داری کا اطلاق سیاسی اور انتظامی امور میں بھی ہے؛ ہر چھوٹا بڑا عہدہ امانت ہے اور ایک کلرک سے لے کر صدر مملکت تک ہر چھوٹے بڑے حکام، ملوک، رؤسا، وزرا، سب امانت دار ہیں۔ ان پر لازم ہے کہ جو عہدے انھوں نے اپنے ذمے لیے ہیں، ان کی ذمہ داری شریعت اسلامیہ کے دیے گئے اصولوں کی روشنی میں پوری کریں۔ ان سے عوام کے جو حقوق وابستہ ہیں، ان کا خیال رکھیں اور ان میں کسی قسم کی خیانت نہ کریں۔ ان میں جو کوئی بھی خیانت کا مرتکب ہوگا،گنہگارٹھیرے گا اور بوقت حساب پکڑا جائے گا۔
اسی طرح مسجدوں کے متولی، امام و مؤذن، مدرسوں کے مدرسین و مہتمم، عصری تعلیمی اداروں کے اساتذہ و سربراہان، دار القضاء کے قاضی، بیت المال کے نگران، اوقاف کے ذمہ داران، فلاحی اداروں کے سکریٹری و منتظمین، دینی و مذہبی جماعتوں کے چھوٹے بڑے عہدے دار اور شعبہ جات کے انچارج، یہ سب امانت دار ہیں۔ ان سب پر یہ لازم ہے کہ اپنے دائرۂ اختیار میں آنے والی ذمہ داریوں کو حسن و خوبی کے ساتھ ادا کریں بصورت دیگر اللہ کے سامنے جواب دہی کے لیے تیار رہیں۔
اس حدیث میںرسول اللہﷺ نے نہ صرف عہدوں کو امانت بتایا بلکہ اس بات کی طرف اشارہ بھی دیا کہ جو شخص کسی منصب کی متعلقہ ذمہ داریوں کو پورا کرنے کی صلاحیت نہ رکھتا ہو، اسے اس منصب سے باز رہنا چاہیے کیوں کہ آخرت میں وہ اس کی رسوائی کا سبب بن سکتا ہے۔ بروز جزا اللہ رب العزت ایک ایک عہدہ دار اور ذمہ دار سے اس کی ذمہ داریوں کے سلسلے میںحساب لینے والا ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: کُلُّکُمْ رَاعٍ وَ کُلُّکُمْ مَسْؤُولٌ عَنْ رَعِیَّتِہِ، فَالْاَمِیْرُ الَّذِی عَلَی النَّاسِ رَاعٍ عَلَیْھِمْ وَ ھُوَ مَسْؤُوْلٌ عَنْھُمْ، وَ الرَّجُلُ رَاعِی اَھْلَ بَیْتِہٖ وَھُوَ مَسْؤُوْلٌ عَنْھُمْ، وَالْمَرْاَۃُ رَاعِیَۃٌ عَلٰی بَیْتِ بَعْلِھَا وَ وَلَدِہِ وَ ھِیَ مَسْؤُولَۃٌ عَنْھُمْ، وَ عَبْدُ الرَّجُلِ رَاعٍ عَلٰی مَالِ سَیِّدِہِ وَ ھُوَ مَسْؤُوْلٌ عَنْہُ، فَکُلُّکُمْ رَاعٍ وَ کُلُّکُمْ مَسْؤُولٌ عَنْ رَعِیَّتِہِ یعنی ’’تم میں سے ہر شخص نگران ہے اور تم میں سے ہر ایک سے اس کے ماتحتوں کے بارے میںسوال کیا جائے گا۔ لوگوں کا حکمران ان کا نگران ہے اور اس سے ان لوگوں کے بارے میں سوال کیا جائے گا، اور آدمی اپنے گھر والوں کا نگران ہے اس سے ان کے بارے میں سوال کیا جائے گا، اورعورت اپنے شوہر کے گھر کی اور اس کی اولادکی نگران ہے اس سے ان کے بارے میںسوال کیا جائے گا، اور آدمی کا غلام( خادم) اپنے آقا کے مال کا نگران ہے اس سے اس کے بارے میں سوال کیا جائے گا، پس تم میں سے ہر ایک شخص نگران ہے اوراس سے اس کے ماتحتوں کے بارے میںسوال کیا جائے گا‘‘۔ (صحیح ابن حبان، کتاب السیر، باب ذِکْرُ الْبَیَانِ بِاَنَّ الْاِمَامَ مَسْؤُوْلٌ عَنْ رَعِیَّتِہِ الَّتِیْ ھُوَ عَلَیْھِمْ رَاعِی، بروایت عبداللہ بن عمرؓ)
دوسری حدیث میں ان سوالات کی نوعیت کو بھی واضح کردیا گیا ہے۔ آپؐ نے فرمایا: اِنَّ اللّٰہَ سَائِلٌ کُلَّ رَاعٍ عَمَّا اسْتَرْعَاہُ اَحَفَظَ اَمْ ضَیَّعَ (صحیح ابن حبان، کتاب السیر، باب ذِکْرُ الْاِخْبَارِ بِسُؤَالِِ اللہِ جَلَّ وَ عَلَاَ کُلَّ مَنِ اسْتَرْعَی رَعِیَّۃً عَنْ رَعِیَّتِہِ ، بروایت انسؓ) ’’بے شک اللہ تعالیٰ ہر نگران سے اس کی نگرانی کے بارے میں سوال کرے گا کہ کیا اس نے اس کی حفاظت کی ہے یا اسے ضائع کردیا ہے؟‘‘۔
آپؐ نے فرمایا: مَا مِنْ عَبْدٍ اسْتَرْعَاہُ اللّٰہُ رَعِیَّۃً فَلَمْ یَحُطْھَا بِنَصِیْحَۃٍ اِلَّا لَمْ یَجِدْ رَائِحَۃَ الْجَنَّۃِ (بخاری، کتاب الاحکام، باب مَنِ اسْتُرْعِیَ رَعِیَّۃً فَلَمْ یَنْصَحْ، بروایت معقل بن یسارؓ) ’’جب اللہ تعالیٰ کسی بندہ کو کسی رعیت کا حاکم بناتا ہے اور وہ خیرخواہی کے ساتھ اس کی حفاظت نہیں کرتاتو وہ جنت کی خوشبو بھی نہیں پائے گا‘‘۔
ایک روایت میں ہے کہ آپؐ نے فرمایا: مَا مِنْ وَالٍ یَلِی رَعِیَّۃً مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ فَیَمُوتُ وَھُوَ غَاشٌّ لَھُمْ اِلَّا حَرَّمَ اللّٰہُ عَلَیْہِ الْجَنَّۃَ (بخاری، کتاب الاحکام، باب مَنِ اسْتُرْعِیَ رَعِیَّۃً فَلَمْ یَنْصَحْ، بروایت معقل بن یسارؓ)’’ اگر کوئی شخص مسلمانوں میں سے کچھ لوگوں کا والی (حاکم) بنایا گیا اور اس نے ان کے معاملے میں خیانت کی اور اسی حالت میں مرگیا تو اللہ تعالیٰ اس پر جنت کو حرام کردیتا ہے‘‘۔
یہاں خیانت سے مراد عہدے کی ذمہ داریوں کو پورا نہ کرنا ہے جس کی کئی صورتیں ہو سکتی ہیں؛ مثلاًان کے حقوق پورے طور پر نہیں دیے، یارعایا کا جو کام ان کے ذمے تھا، اسے نہیں کیا، یا جتنا وقت حکومت کی طرف سے رعایا کے لیے متعین تھا اس میں کمی کی، یا دوسرے کاموں میں ضائع کردیا اور کام کا حق ادا نہیں کیا، یا متعلقہ شعبے کے اشیا و اموال کا جو درحقیقت عوام کا سرمایہ ہیں، بے جا یا ضرورت سے زیادہ استعمال کیا، یا بیت المال سے اپنی مقرر شدہ تنخواہ اور مراعات (Allowances) سے زیادہ لے لیا وغیرہ۔
آخرالذکر صورت کے سلسلے میں نبی کریم ﷺ کا واضح ارشاد موجود ہے کہ آپ ؐنے فرمایا: مَنِ اسْتَعْمَلْنَاہُ عَلٰی عَمَلٍ فَرَزَقْنَاہُ رِزْقًا فَمَا أَخَذَ بَعْدَ ذٰلِکَ فَھُوَ غُلُولٌ (سنن ابی داؤد، کتاب الخراج و الفيء و الامارۃ، باب فِي أَرْزَاقِ الْعُمَّالِ،بروایت بریدہؓ ) ’’ہم جس کو کسی کام کا عامل بنائیںاور ہم اس کی کچھ روزی (تنخواہ) مقرر کردیں پھر وہ اپنے مقرر ہ حصے سے جو زیادہ لے گا، وہ خیانت ہے‘‘۔ یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ حکومت کے وہ عہدے جو وعدوں کی بنیاد پر لیے جاتے ہیںجیسا کہ ہمارے جمہوری نظام میں رواج ہے، ان کی ذمہ داریوں سے رُوگردانی کرنادوہرے وبال کا باعث ہے۔ ایک تو یہ خیانت ہے اور دوسرے وعدہ خلافی بھی۔
ایک روایت میں ہے: لَعَنَ رَسُولُ اللّٰہِ الرَّاشِي والْمُرْتَشِي (سنن ابی داؤد، کتاب الاقضیۃ، باب فِي کَرَاھِیَۃِ الرِّشْوَۃِ، بروایت عبداللہ بن عمروؓ) ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رشوت دینے اور رشوت لینے والے (دونوں) پر لعنت فرمائی ہے‘‘۔ آپؐ سے یہ بھی روایت ہے: الرَّاشِي والْمُرْتَشِي فِي النَّارِ (کنزالعمال فی سنن الاقوال والافعال، حدیث: ۱۵۰۷۷، بروایت ابن عمروؓ)’’رشوت دینے والا اور رشوت لینے والا دونوں جہنم میںہیں‘‘۔
آپؐ نے ایک شخص کو زکوٰۃ، جزیہ اور ٹیکس وغیرہ وصول کرنے کے لیے عامل مقرر کیا۔ اپنے کام پورے کرکے جب وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لوٹے تو عرض کیا کہ یارسولؐ اللہ ! یہ مال آپؐ کا ہے اور یہ مال مجھے تحفہ دیا گیا ہے۔ اس پر رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم سخت نالاں ہوئے اور فرمایا: أَفَلَا قَعَدْتَّ فِي بَیْتِ أَبِیْکَ وَ أُمِّکَ، فَنَظَرْتَ أَیُھْدٰی لَکَ أَم لَا ’’پھر تم اپنے ماں باپ کے گھر ہی میں کیوں نہیںبیٹھے رہے اور پھر دیکھتے کہ تمھیں کوئی تحفہ دیتا ہے یا نہیں؟‘‘۔ آپؐ نے اتنے ہی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ مسجد میںخطبہ دیا اور اللہ کی حمد و ثنا کے بعد ان ہی باتوں کا مجلس عام میں اعادہ کیا اور لوگوں کو خیانت کے وبال سے خوف دلایا۔ (بخاری، کتاب الایمان و النذور، باب کَیْفَ کَانَتْ یَمِیْنُ النَّبِيِّ ، بروایت ابوحمید ساعدیؓ)
اس حدیث پاک کا سیدھا اطلاق سرکاری محکموں اور غیر سرکاری تنظیموں کے مشاورتی بورڈوں (Advisory Boards) پر بھی ہوگا،یعنی وہ سب بھی امانت دار قرار پائیں گے۔ مثال کے طور پر کابینہ، پارلیمنٹ، پارلیمانی کمیٹی ، اسمبلی، دستور ساز کونسل، مجلس شوریٰ، یونی ورسٹیوں کی اکیڈمک کونسل ، سینیٹ اورسنڈیکیٹ کے ممبران اور اسی طرح مساجد، مدارس، اوقاف کی کمیٹیوں وغیرہ کے ارکان، یہ سب امانت دار ہیں اور ان سے ان کی امانتوں کے سلسلے میں پوچھا جائے گا۔ ان سب کو چاہیے کہ ذاتی مفاد سے اُوپر اُٹھ کر اپنے اپنے اداروں اور قوم و ملت کی فلاح کو پیش نظر رکھ کر اپنے سربراہان کو مشورے دیا کریں۔
اس حدیث سے بالکل واضح ہے کہ ذمہ داری نااہلوں کے سپرد کرنا بھی خیانت ہے اور دورِ حاضر میں تو یہ ایک بڑا فتنہ ہے کہ حکومت کے اہم مناصب، یا تو تعلقات کی بنیاد پر دیے جاتے ہیں، یا سیاسی ہم فکری کی بنیاد پر، یا کبھی اس میں اقربا پروری کو دخل ہوتا ہے تو کبھی رشوت ستانی کو۔ اس سلسلے میں ان افراد کے ساتھ ظلم ہوجاتا ہے جو حقیقتاً اس منصب کے اہل ہوتے ہیں اور نااہلوں کو منصب دیے جانے کے نتائج بد کو ایک عرصے تک پوری قوم بھگتتی ہے۔
اس لیے حاکم اعلیٰ کو چاہیے کہ اپنے دائرۂ اختیار میں لائق ترین افراد کو تلاش کرکے انتظامی اختیارات ان کے سپرد کرے اور ایسے افراد کو تو بالکل نہ سونپے جو عہدے کے حریص ہوں۔ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت سے ہمیں یہی تعلیم ملتی ہے۔ آپؐ نے ایک موقع پر ارشاد فرمایا: لَنْ (أَوْ ) لَا نَسْتَعْمِلُ عَلٰی عَمَلِنَا مَنْ أَرَادَہُ (بخاری، کتاب اسْتِتَابَۃِ الْمُرتَدِّیْنَ وَالْمُعَانِدِیْنَ وَقِتَالِھِمْ، باب حُکْمِ الْمُرْتَدِّ وَالْمُرْتَدَّۃِ ، بروایتِ ابوموسیٰ اشعریؓ )’’ہم ہرگز کسی ایسے شخص کو عامل مقرر نہیں کریں گے جو عامل بننا چاہے‘‘۔
صحیح ابن حبان کے الفاظ اس طرح ہیں: اِنَّا وَ اللّٰہِ لَا نُوَلِّي عَلٰی ھٰذَا الْعَمَلِ اَحَدًا سَاَلَہٗ، وَ لَا اَحَدًا حَرَصَ عَلَیْہِ ’’اللہ کی قسم ! ہم اس کام کا نگراں کسی ایسے شخص کو مقرر نہیں کریں گے جو اسے مانگتا ہو، اور نہ کسی ایسے شخص ہی کو مقرر کریں گے جو اس کا لالچ کرتا ہو‘‘۔ (صحیح ابن حبان، کتاب السیر، باب فی الخلافۃ والامارۃ ، بروایت ابوموسیٰ اشعریؓ)۔
اس کا خلاصہ یہ ہے کہ کسی سرکاری عہدے اور منصب کو طلب کرنا اس صورت میں جائزہے جب انسان یہ محسوس کرے کہ اس کے فرائض اور ذمہ داریوں کو صحیح طور سے انجام دینے والا کوئی دوسرا شخص موجود نہیں ہے، اور خود اپنے بارے میں اسے اندازہ ہو کہ وہ اس ذمہ داری کو بحسن و خوبی انجام دے سکے گا اور اس کی نیت (جسے اللہ ہی بہتر جانتا ہے) جاہ و مال کی نہ ہو بلکہ خلق اللہ کی صحیح خدمت اور انصاف کے ساتھ ان کے حقوق کی حفاظت کی ہو ۔ نیز اسے کسی گناہ میں مبتلا ہونے کا خطرہ بھی نہ ہو۔ فقہا نے اپنے اس موقف پر سورئہ یوسف کی آیت ۵۵ سے استدلال کیا ہے جس میں حضرت یوسفؑ کا بادشاۂ مصر سے امور خزانہ پر مامور کرنے کی درخواست کرنے کا ذکر ہے اور یہ راے قائم کی ہے کہ یوسفؑ کا عہدے کا طلب کرنا انھی بنیادوں پر تھا۔ (معارف القرآن از مفتی محمد شفیع ؒ، مکتبہ معارف القرآن، ج۵، ص۹۰-۹۱)
ظاہر ہے یہ اسلام کے ایک بنیادی مقصد، یعنی ’’دنیا کو زندگی گزارنے کے لیے ایک بہتر جگہ بنانا‘‘ کے خلاف ہے۔ اس لیے اس میں خیانت اللہ اور اس کے رسول کو کیسے پسند ہوسکتی ہے؟ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہر دور میں اس ذمہ داری کو پورا کرنا ایک مشکل امر رہا ہے۔ اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مَنْ جُعِلَ قَاضِیًا بَیْنَ النَّاسِ، فَقَدْ ذُبِحَ بِغیْرِ سِکِّیْنٍ (سنن ابی داؤد، کتاب الاقضیۃ، باب فِي طَلَبِ الْقَضَاءِ، بروایت ابوہریرہؓ)’’جو شخص لوگوں کے درمیان قاضی بنا دیا گیا (گویا) وہ بغیر چھری کے ذبح کردیا گیا‘‘۔ بغیر چھری کے ذبح کرنے میں جانور کو تکلیف اورمشقت چھری سے ذبح کرنے کے مقابلے میں یقیناً زیادہ ہوگی۔
اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد یہ ہے کہ جسے قاضی بنایا گیا اسے انتہائی مشقت اور آزمایش میں ڈال دیا گیا۔ آپ ؐ نے یہ بھی فرمایا: ’’قاضی تین طرح کے ہوتے ہیں: ایک جنتی اور دو جہنمی۔ رہا جنتی تو وہ ایسا شخص ہوگا جس نے حق کو جانا اور اسی کے موافق فیصلہ کیا، اور وہ شخص جس نے حق کو جانا اور اپنے فیصلے میں ظلم کیا وہ جہنمی ہے۔ اور وہ شخص جس نے نادانی سے لوگوں کا فیصلہ کیا وہ بھی جہنمی ہے‘‘۔ (سنن ابی داؤد، کتاب الاقضیۃ، باب فِي الْقَاضِي یُخْطِیُٔ، بروایت ابوہریرہؓ)۔
اس کے بالمقابل حکمت اور حق کے ساتھ فیصلہ کرنے والے قاضی کی آپؐ نے تعریف بھی کی۔
ارشاد فرمایا: لَا حَسَدَ اِلَّا فِي اثْنَتَیْنِ: رَجَلٌ آتَاہُ اللّٰہُ مَالًا فَسَلَّطَہُ عَلٰی ھَلَکَتِہِ فِي الْحَقِّ وَآخَرُ آتَاہُ اللّٰہُ حِکْمَۃً فَھُوَ یَقْضِي بِھَا وَ یُعَلِّمُھَا (بخاری، کتاب الاحکام ، باب أَجْرِ مَنْ قَضَی بِالْحِکْمَۃِ ، بروایت عبد اللہ بن مسعودؓ)’’رشک بس دو آدمیوں پر ہی کیا جانا چاہیے۔ ایک وہ شخص جسے اللہ نے مال دیا پھر اس نے اسے حق کے راستے میں خرچ کیا، اور دوسرا وہ شخص جسے اللہ نے حکمت (قرآن ، حدیث و فقہ کا علم) عطا کی اور وہ اس کے موافق فیصلے کرتا ہے اور اس کی لوگوں کو تعلیم دیتا ہے‘‘۔
ایک اور روایت میں ہے کہ آپؐ نے ان کے تعلق سے فرمایا: الْمُقْسِطُونَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ عَلٰی مَنَابِرٍ مِّنْ نُورٍ عَنْ یَّمِیْنِ الرَّحْمٰنِ، وَ کِلْتَا یَدَیْہِ یَمِیْنٌ، الْمُقْسِطُونَ عَلٰی اَہْلِیْھِمْ وَاَوْلَادَھُمْ وَ مَا وَلُّوا (صحیح ابن حبان، کتاب السیر، باب فِی الخلافۃ والامارۃ، ذِکْرُ وَصْفِ الْاَئِمَّۃِ فِي الْقِیَامَۃِ اِذَا کَانُوا عُدُولًا فِی الدُّنْیَا، بروایت عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ) ’’(دنیا میں ) انصاف کرنے والے لوگ قیامت کے دن رحمان کے دائیں طرف نور کے ممبروں پر ہوں گے حالانکہ اس (رحمٰن) کے دونوں طرف دائیں ہیں، وہ لوگ جو اپنی بیویوں کے ساتھ اور اپنی اولاد کے ساتھ اور جس معاملے کے وہ نگراں بنتے ہیں اس کے ساتھ انصاف سے کام لیتے ہیں‘‘۔
اسی طرح ایک روایت میں ہے کہ جن سات قسم کے لوگوں کو اللہ پاک قیامت کے دن عرش کے سایے میں جگہ دیں گے ان میں ایک عادل حکمران بھی ہوگا۔ (صحیح ابن حبان، کتاب السیر، باب ذِکْرُ اِظْلَالِ اللّٰہِ جَلَّ وَ عَلَا الْاِمَامَ الْعَادِلَ فِیْ ظِلِّہِ یَومَ لَا ظِلَّ اِلَّا ظِلُّہُ، بروایت ابوہریرہؓ)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پیارے صحابی عبدالرحمٰن بن سمرہؓ کو ان الفاظ میں نصیحت فرمائی: یَا عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ سَمُرَۃَ، لَا تَسْأَلِ الْاِمَارَۃَ، فَاِنَّکَ اِنْ أُعْطِیتَھَا عَنْ مَسْأَلَۃٍ وُکِلْتَ اِلَیْھَا، وَ اِنْ أُعْطِیتَھَا عَنْ غَیْرِ مَسْأَلَۃٍ أُعِنْتَ عَلَیْھَا (بخاری، کتاب الاحکام، باب مَنْ سَأَلَ الْاِمَارَۃَ وُکِلِ اِلَیْھَا، بروایت عبد الرحمٰن بن سمرہؓ) ’’اے عبد الرحمٰن بن سمرہ! کبھی امارت (حکومت کے کسی عہدے) کی درخواست نہ کرنا، کیوں کہ اگر تمھیں یہ مانگنے کے بعد ملے گا تو تم اسی کے حوالے کردیے جاؤگے (اللہ پاک اپنی مدد تجھ سے اٹھالے گا کہ تو جانے تیرا کام جانے)۔ اور اگر وہ عہدہ تمھیں بغیر مانگے مل گیا تو اس میں (اللہ کی طرف سے ) تمھاری اعانت کی جائے گی‘‘۔
اس حدیث میں ایک اہم نکتے کی طرف اشارہ ہے کہ عہدہ طلب کرنے پر اللہ کی طرف سے مدد بھی اُٹھ جاتی ہے اورا نسان آزمایش میں ڈال دیا جاتا ہے اور اگر عہدہ بغیر طلب کیے ملتا ہے تو اللہ کی مدد شامل حال ہوتی ہے۔ اس لیے جہاں تک ممکن ہو خود عہدہ طلب کرنے سے ہمیں پرہیز کرنا چاہیے اور جب حکومتی یا ملی سطح سے کسی منصب کی پیش کش کی جائے تو اپنی صلاحیت اور حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس بات کا جائزہ ضرور لینا چاہیے کہ اس کی ذمہ داریوں کو ہم کماحقہٗ ا دا کرسکیں گے یا نہیں۔ اگر نہیںتو ہمیں وہ منصب قبول ہی نہیںکرنا چاہیے، تاکہ دنیا و آخرت کی رسوائی سے محفوظ رہ سکیں، اور اگر قبول کریں تو عہدے کو امانت سمجھ کر اس کی ذمہ داریوں کو ادا کرنا چاہیے۔ ہمیں اس بات سے ڈرنا چاہیے کہ بروزِ حساب کہیں ہم ان لوگوں میں نہ شامل ہوں، جن کے بارے میں رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ میں پیش گوئی کی ہے:
وَیْلٌ لِلْاُمَرَائِ، لَیَتَمَنَّیَنَّ اَقْوَامٌ اَنَّھُمْ کَانُوا مُعَلَّقِیْنَ بِذَوَائِبِھِمْ بِالثُّرَیَّا، وَ اَنَّھُمْ لَمْ یَکُوْنُوا وُلُّوْا شَیْئًا قَــطُّ(صحیح ابن حبان، کتاب السیر، باب فی الخلافۃ دارالامارۃ، ذِکْرُ الْاِخْبَارِ عَمَّا یَتَمَنَّی ائُ الْأُمْرَاءُ اَنَّھُمْ مَا وَلَّوْا مِمَّا وُلُّوْا شَیْئًا ، بروایت ابوہریرہؓ) ’’ سرکاری اہل کاروں کے لیے خرابی ہے۔ عنقریب کچھ لوگ اس بات کی آرزو کریں گے کہ انھیں ان کے بالوں کے ساتھ اوج ثریا پر لٹکا دیا جاتا، لیکن انھیں کسی چیز (حکومتی عہدے) کا اہل کار مقرر نہ کیا جاتا‘‘۔
اللہ سے دعا ہے کہ وہ اس سیہ کار کی لغزشوں کو بھی معاف فرمائے اور اپنی منشا کے مطابق بقیہ زندگی گزارنے کی توفیق عنایت فرمائے۔ نیز امت کے اندر امانت داری کے مٹتے ہوئے احساس کو بیدار فرمائے۔ آمین!
کاروباری زندگی میں قدم قدم پر لالچ، حسرتیں اور اندیشے پیچھا کرتے ہیں،جن سے مجبور ہوکر کاروباری حضرات بعض مزید ناپسندیدہ افعال میں ملوث ہوجاتے ہیں۔
مسلمان تاجروں کو چاہیے کہ وہ کم نفع پر صبر کی روش اختیار کریں اور اپنی تجارت میں جذبۂ احسان کو پیش نظر رکھیں کیوں کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ’’بے شک اللہ تعالیٰ عدل و احسان کا حکم دیتا ہے‘‘ (النحل۱۶: ۹۰)،اور فرمایا: ’’بے شک اللہ تعالیٰ کی رحمت احسان کرنے والوں کے قریب ہے‘‘ (الاعراف۷: ۵۶)۔اس لیے ضرورت مند خریدار اگر اپنی ضرورت کے تحت زیادہ نفع دینے پر بھی تیار ہو، تو بھی جذبۂ احسان کا تقاضا یہ ہے کہ زیادہ نفع نہ لے۔ کم نفع لے کرزیادہ مال فروخت کرنا ایک ایسی پالیسی ہے جس سے تجارت کافی ترقی کرتی ہے۔ سلف صالحین کی عادت بھی یہی تھی کہ کم نفع پر زیادہ مال فروخت کرنے کو،زیادہ نفع حاصل کرنے پر ترجیح دیتے تھے۔ حضرت علیؓ کوفہ کے بازار میں چکر لگاتے تھے اور فرماتے تھے کہ: ’’اے لوگو! تھوڑے نفع کو نہ ٹھکراؤکہ زیادہ نفع سے بھی محروم ہوجاؤگے‘‘۔ عبدالرحمٰن بن عوف ؓ سے ایک بار لوگوں نے پوچھاکہ آپ کس طرح اتنے دولت مند ہوگئے؟ تو انھوں نے فرمایاکہ میں نے تھوڑے نفع کو بھی کبھی رد نہیں کیا۔ جس نے بھی مجھ سے کوئی جانور خریدنا چاہا میں نے اسے روک کر نہ رکھا بلکہ فروخت کردیا۔
ایک دن عبدالرحمٰن بن عوفؓ نے ایک ہزار اونٹ اصل قیمت ِخرید پرفروخت کردیے اور بجز ہزار رسیوں کے کچھ نفع حاصل نہ کیا۔ پھر ہر ایک رسّی ایک ایک درہم سے فروخت کی اور اونٹوں کے اس دن کے چارے کی قیمت ایک ہزار درہم ان کے ذمے سے ساقط ہوگئی۔ اس طرح دوہزار درہم کا انھیں نفع حاصل ہوا۔ (کیمیاے سعادت ، ص ۲۸۰)
یہ ہے تجارت میں ترقی کا راز! لیکن اس سلسلے میں ہمارے یہاںبڑی بے صبری پائی جاتی ہے۔ ہم چند دنوں میں ہی لکھ پتی اور کروڑ پتی بن جانا چاہتے ہیں،جس کا نقصان سامنے آکر رہتا ہے، جب کہ بعض دوسری قوموں نے اس پالیسی کو اپنا لیاہے اور وہ اس کا خوب پھل کھارہے ہیں۔
یہاں یہ واضح کردینا بھی مناسب ہے کہ اگرچہ تاجر کو اپنی چیزوں کا نرخ (Rate) مقرر کرنے کا حق ہے اور فطری اصول و ضوابط کے تحت قیمتوں میں اضافہ کرنا بھی درست ہے، لیکن اتنا اضافہ جو غیرمعمولی، غیر فطری، غیر مناسب اور غیرمنصفانہ ہو اور جس سے صارفین کے استحصال کی صورت پیدا ہوتی ہو، درست نہیں۔ ایسی صورت میں حکومت ِوقت کو اشیا کی قیمتوں پر کنٹرول کرنے کی حکمت عملی اپنانی چاہیے اور عوام کو تاجروںکے رحم و کرم پر نہیں چھوڑنا چاہیے۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ رقم طراز ہیں: ’’اگر ان (تاجروں) کی طرف سے (قیمتوں کے تعین میں) کھلا ظلم دکھائی دے،توان (قیمتوں) میں تبدیلی (یعنی کنٹرول) جائز ہے، کیوں کہ یہ (غیر مناسب بھاؤ بڑھا دینا) فساد فی الارض ہے‘‘۔(حجۃ اللہ البالغہ ، بیروت، ۱۹۹۰ء، ج ۲، ص ۳۰۱)
اس عبارت کی تشریح میں مولانا سعید احمد پالن پوری لکھتے ہیں: ’’اگر تاجروں کی طرف سے عام صارفین پر زیادتی ہورہی ہو، اور زیادتی ایسی واضح ہو کہ اس میں کوئی شک نہ ہو، تو قیمتوں پر کنٹرول کیا جاسکتا ہے، کیونکہ ایسے وقت بھی تاجروں کو ظالمانہ نفع اندوزی کی چھوٹ دینا اللہ تعالیٰ کی مخلوق کو تباہ کرنا ہے‘‘ (رحمۃ اللہ الواسعۃ شرح حجۃ اللہ البالغہ ، دیوبند، ۲۰۰۳ء ، ج ۴، ص۵۹۸)۔اس لیے تاجروں کو چاہیے کہ وہ قیمتوں کے تعلق سے بازار میں ایسی نامناسب صورتِ حال پیدا نہ کریں جو عوام کے لیے پریشانی کا باعث اور حکومتی مداخلت کا جواز فراہم کرے۔
تاجر کو چاہیے کہ خریدار کو کسی قسم کا دھوکا نہ دے، کیونکہ یہ خدمت اور حاجت روائی کے جذبے کے خلاف تو ہے ہی، دیانت داری کے بھی خلاف ہے۔ اس لیے اگر اس کے سامان میں کسی قسم کا عیب ہو تو اس کو نہ چھپائے بلکہ سچائی کے ساتھ بیان کردے۔ اگر چھپائے گا توخیانت اور ظلم کا مرتکب ہوگا اور ایسی صورت میں خریدار کو شریعت کی رو سے یہ اختیار حاصل ہوگا کہ وہ تاجر کو عیب دارمال واپس کردے اور اپنی رقم لے لے۔
حضرت عقبہ بن عامرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’مسلمان مسلمان کابھائی ہے اور کسی مسلمان کے لیے یہ جائز نہیںکہ اپنے بھائی کے ہاتھ کوئی ایسی چیز فروخت کرے جس میں کوئی عیب ہو، الا یہ کہ اس کے سامنے اس (عیب) کو ظاہر کردے‘‘۔ (سنن ابن ماجہ،کتاب التجارات،مَنْ بَاعَ عَیْبًا فَلْیُبَیِّنْہُ، حدیث: ۲۲۴۶)
اس حدیث کا یہ مطلب نہیںکہ غیر مسلموں کو دھوکا دینا جائز ہے۔ یہاںمسلمان کا ذکر خصوصاً اس لیے فرمایا کہ مسلمان گاہک کے ایک مسلمان تاجر پردو حق عائد ہوتے ہیں: ایک گاہک ہونے کی حیثیت سے اور دوسرا مسلمان ہونے کی حیثیت سے۔ اس لیے اس کو دھوکا دینا بہ نسبت ایک غیر مسلم گاہک کو دھوکا دینے کے زیادہ برا ہے کیونکہ یہاںدو حقوق کی تلفی ہے ورنہ خیانت اور ظلم کسی کے ساتھ بھی روا نہیں۔ چنانچہ روایتوں میں بلا کسی تخصیص کے بھی اس عمل پر نکیر موجود ہے۔
مثال کے طور پر اس روایت کو ملاحظہ کیجئے: حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غلے کی ایک ڈھیری کے پاس سے گزرے۔ آپؐ نے اپنا ہاتھ اس کے اندر داخل کردیا تو آپؐ کی انگلیوں نے گیلاپن محسوس کیا۔ پس آپؐ نے فرمایا: ’’اے غلے کے مالک! یہ کیا ہے (یعنی یہ تری اور نمی کیسی ہے)؟ اس نے عرض کیا: یا رسولؐ اللہ! اس پر بارش کی بوندیں پڑگئی تھیں۔ آپؐ نے فرمایا : تو تم نے اس (بھیگے ہوئے غلے) کو ڈھیری کے اوپر کیوں نہیں کردیا تاکہ لوگ اسے دیکھ سکتے ؟ (یاد رکھو!) جوشخص دھوکے بازی کرے وہ مجھ سے نہیں (یعنی اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں)‘‘۔ (مسلم، کتاب الایمان، باب قَولِ النَّبِیِّ : مَنْ غَشَّنَا فَلَیْسَ مِنَّا)
امام سلیمان بن احمد طبرانیؒ نے اس روایت کے آخری اور کلیدی فقرے کو عبداللہ ابن مسعودؓ سے چند الفاظ کے اضافے کے ساتھ اس طرح روایت کیا ہے: مَنْ غَشَّنَا فَلَیْسَ مِنَّا وَالْمَکْرُ وَالْخِدَاعُ فِي النَّارِ، یعنی جوشخص دھوکے بازی کرے وہ مجھ سے نہیں اور دغابازی اور فریب کا انجام جہنم ہے۔ (المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث: ۱۰۲۳۴)
لہٰذا، ایک مسلمان تاجر کو چاہیے کہ وہ چند سکّوں کی خاطراپنی آخرت کو داؤ پر نہ لگائے اور یہ یقین رکھے کہ چال بازی سے رزق میں اضافہ نہیں ہوتا بلکہ الٹا مال سے برکت اٹھ جاتی ہے۔ ایسے شخص کی خیانت لوگوں میں مشہور ہوجاتی ہے اور گاہک اس سے گریز کرنے لگتے ہیں، جس کے نتیجے میں اس کا کاروبار بھی خراب ہوجاتا ہے۔ اس لیے بجاے دھوکا دینے کے دیانت داری کے ذریعے گاہکوں کو اپنے اعتماد میں لینے کی سعی کرنی چاہیے، اور سامان میں اگر کوئی عیب ہو تو اسے واضح کردینا چاہیے، تاکہ ان کو یہ یقین اور اطمینان ہو جائے کہ آپ انھیں کبھی دھوکا نہیں دے سکتے۔
بعض تاجر اپنے سامان کا نقص ظاہر نہیں کرتے بلکہ خریدار سے ہی یہ کہتے ہیں کہ: ’’آپ خود اچھی طرح دیکھ لیں، اگر بعد میں کوئی نقص نکلا تو ہم ذمے دار نہیں ہوں گے‘‘، حالانکہ یہ ان کے علم میں ہوتا ہے کہ سامان میں کس قسم کا نقص ہے۔ یہ طریقہ بھی خلافِ شریعت ہے کیونکہ شارع نے عیب کو ظاہر کرنے کی ذمے داری تاجر پر ڈالی ہے، جیسا کہ حضرت عقبہ بن عامرؓکی روایت سے واضح ہے۔ ساتھ ہی تجارت کا نفع صرف اس شخص کے لیے جائز بتایا گیا ہے جو سامان کے بے عیب اور کارآمد ہونے کی ضمانت دے۔ جو شخص یہ ذمے داری نہیں لے سکتا اس کے لیے اس چیز کا نفع درست نہیں۔ حدیث کے الفاظ اس طرح ہیں: وَلَا رِبْحُ مَالَمْ یُضْمَنُ، یعنی ’’حلال نہیں نفع اس کا جس کا ضامن وہ (تاجر) نہیں‘‘۔(جامع ترمذی، حدیث:۱۲۳۴، بروایت عبداللہ بن عمروؓ)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک غلام یا لونڈی کی بیع میں ایک خریدار کو تحریری ضمانت دینا حدیث کی کتابوں میں منقول ہے : ھٰذَا مَا شْتَرَی الْعَدَّائُ بْنُ خَالِدِ بْنِ ھَوْذَۃَ مِنْ مُحَمَّدٍ رَسُولِ اللّٰہِ ، اشْتَرَی مِنْہُ عَبْدًا أَوْ أَمَۃً، لَا دَائَ وَلا غَائِلَۃَ وَلَا خَبِثَۃَ، بَیْعَ الْمُسْلِمِ الْمُسْلِمَ، یعنی ’’یہ بیع نامہ ہے ایک ایسی چیز کا جو عداء بن خالد بن ھوذہ نے اللہ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے خریدی ہے۔ انھوں نے آپؐ سے ایک ایسا غلام یا لونڈی خریدی ہے جس میں نہ تو کوئی بیماری ہے، نہ بھگوڑاپن اور نہ کوئی (اور) خباثت (یعنی اخلاقی برائی) ہی۔ یہ ایک مسلمان کی مسلمان کے ساتھ بیع ہے ‘‘۔ (جامع ترمذی، حدیث: ۱۲۱۶)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اس قسم کی تحریر لکھ کر دینا امت کی تعلیم کے لیے ہی تھا ورنہ صحابہ کرامؓ میں سے کون ایسا فرد ہوگا، جسے آپؐ کی باتوں پر اعتماد نہ ہو۔ آج کے دور میں رسید اور وارنٹی کے کاغذات (warranty paper) کا دیا جانا تعلیم نبویؐ کی رُو سے ایک مستحسن عمل ہے، جس میں اس بات کی گنجایش موجود رہتی ہے کہ بعد میں سامان میں کوئی نقص سامنے آجائے تو خریدار ثبوت کے ساتھ فروخت کنندہ یا اس کی کمپنی سے رجوع کرسکے ۔
یہاں یہ ذکر کردینا بھی مناسب ہے کہ تجارت کی بعض شکلیں ایسی ہیں، جن میں فی نفسہٖ دھوکا موجود ہوتا ہے، جیسے پانی میں موجود مچھلی کی بیع کہ اس میں بیچنے والے اور خریدنے والے دونوں میں سے کسی فریق کو حتمی طور پر یہ پتا نہیں ہوتا کہ اس میں مچھلی کی مقدار کتنی ہے؟ لہٰذا، ہرفریق کے دھوکا دینے یا کھانے کا امکان ہے ۔ اس طرح کی بیع جس میں بیچی جانے والی چیز اپنی جنس، ذات، مقدار اور اوصاف کے لحاظ سے مبہم اور مجہول ہو، متعین اور واضح نہ ہو، یا بیچنے والے کے قبضہ و قدرت سے باہر ہو اور اس کی سپردگی ممکن نہ ہو، اس کو شریعت کی اصطلاح میں ’بیع غرر‘ (Deceptive Transaction) کہا جاتا ہے۔ اس کی دوسری مثالوں میں شامل ہیں؛ غائب جانور یا فضا میں اڑتے ہوئے پرندے کی بیع، دودھ کی بیع جو جانور کے تھن میں ہی ہو وغیرہ۔
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے: نَھٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ عَنْ بَیْعِ الْحَصَاۃِ وَ عَنْ بَیْعِ الْغَرَرِ (مسلم، کتاب البیوع)،یعنی ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیع حصات اور بیع غرر سے منع فرمایا ہے‘‘۔ یہاں ’بیع حصات‘ سے مراد وہ بیع ہے جو کنکری پھینک کر طے کی جائے۔ یہ بھی دھوکے کی ایک شکل ہے۔ اس لیے ممنوع ہے۔
دودھ دینے والے جانوروں کی بیع میں بھی دھوکے کی ایک صورت اس طرح پیدا کی جاتی ہے کہ گاہک کے سامنے پیش کرنے سے ایک یا دو روز قبل سے ہی اس کا دودھ دوہنا بند کر دیتے ہیں تاکہ اس کے تھن بھرے نظر آئیں اور گاہک یہ تاثرلے کہ جانور بہت زیادہ مقدار میںدودھ دینے والا ہے، جب کہ حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا۔ گاہک مغالطے میں آکر معاملہ کرلیتا ہے لیکن ایک سے دو دنوں میں ہی حقیقی صورتِ حال اس پر واضح ہوجاتی ہے۔ اس طرح کی بیع کو شرعی اصطلاح میں ’بیع مصراۃ‘ کہا گیا ہے جو کہ ممنوع ہے اور اس کے نتیجے میں دھوکا کھائے ہوئے خریدار کو شریعت نے اس بات کا اختیار دیا ہے کہ وہ بیع کو منسوخ کر دے اور جانور واپس کرکے اپنی رقم لے لے۔ اس اختیار کو شرعی اصطلاح میں ’خیا ر تدلیس‘ کہا جاتا ہے ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’اونٹنی اور بکری کے تھنوں میں دودھ کو روک کر نہ رکھو، اگر کسی نے (دھوکے میں آکر) کوئی ایسا جانور خرید لیا تو اسے دودھ دوہنے کے بعد دونوں اختیارات ہیں؛ چاہے تو جانور کو رکھ لے اور چاہے تو واپس کردے اور ایک صاع کھجور اس کے ساتھ دے دے‘‘ ۔ (بخاری، حدیث: ۲۱۴۸، بروایت ابوہریرہؓ)
ایک روایت کے مطابق لوٹانے کا یہ اختیار خریدار کو تین دنوں تک ہے: مَنِ ابْتَاعَ شَاۃً مُصَرَّاۃً فَھُوَ فِیْھَا بِالْخِیَارِ ثَلَاثَۃَ أَیَّامٍ، إِنْ شَائَ أَمْسَکَھَا وَ إِنْ شَائَ رَدَّھَا، وَرَدَّ مَعَھَاصَاعًا مِّنْ تَمْرٍ،یعنی ’’جس نے ایسی بھیڑ (یا بکری ) خرید لی، جس کا دودھ روکا گیا ہو، تو اسے تین دن تک اس کے بارے میں اختیار ہے، اگر چاہے تو رکھ لے اور چاہے تو واپس کردے اور اگر لوٹائے تو اس کے ساتھ ایک صاع کھجور بھی دے‘‘ ۔ (مسلم، کتاب البیوع، حدیث: ۳۸۳۱؍۲۴)
ایک صاع کھجورکے ساتھ جانور اس کے مالک کو لوٹانے کا حکم غالباً اس لیے دیا گیا ہے کیونکہ خریدار نے اس کے دودھ سے فائدہ اٹھایا ہے اور بعضوں نے یہ کہا کہ یہ از راہِ احسان یا تالیفِ قلب کے لیے ہے، کیونکہ دودھ کے لیے تو خریدار نے جانور کو چارہ بھی ڈالا ہوگا اور الخراج بالضمان کے اصول کے مطابق حساب تو برابر ہوچکا۔ اور کھجور کی تخصیص اس لیے کی گئی کیونکہ یہ اس وقت وہاں کی عام غذا تھی۔ اس لیے یہ کوئی ضروری نہیں کہ ایک صاع کھجور ہی دی جائے بلکہ ہرزمانے میں اپنے اپنے ملکی دستور کے مطابق خوردنی غلہ اسی وزن سے یا اس کی قیمت کے برابر رقم بھی دی جاسکتی ہے۔
اسی طرح درختوں اور باغات کو پھلوں کے نمودار ہونے سے پہلے ان کی امید پر ایک سال یا زیادہ مدت کے لیے بیچنا بھی ممنوع ہے کیونکہ اس بات کا امکان ہے کہ درختوں میں پھل نہ آئے یا آنے کے بعد پختگی سے پہلے ہی کسی آفت، مثلاً آندھی، بارش یا ژالہ باری کا شکار ہوجائے۔ اس طرح کی بیع کو حدیث میں ’معاومت‘ کہا گیا ہے اور اس سے روکا گیا ہے، نیز پھل لگنے کے بعد بھی اس وقت تک خرید و فروخت سے منع کیا گیا ہے، جب تک ان کی پختگی ظاہر نہ ہوجائے۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے:’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت تک پھلوںکی بیع سے منع فرمایا ہے جب تک کہ ان کی پختگی ظاہر نہ ہوجائے۔ یہ ممانعت بیچنے والے اور خریدنے والے دونوں کے لیے ہے‘‘۔ (بخاری، حدیث: ۲۱۹۴)
دوسری روایت حضرت انسؓ سے یوں ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ’زھو‘ سے پہلے پھلوں کی بیع سے منع فرمایا ہے۔ ان سے دریافت کیا گیا کہ ’زھو‘ کسے کہتے ہیں؟ تو آپؐ نے فرمایا: ’’یہاں تک کہ سرخ ہوجائے (یعنی پکنے پر آجائے)۔ پھر آپؐ نے فرمایا: ’’ تم ہی بتاؤ اگر اللہ تعالیٰ پھلوں کو روک دے (یعنی پکنے سے روک دے یا کسی آفت کے ذریعے ضائع کردے) تو تم میں سے کوئی اپنے بھائی کا مال کس بناپر لے گا؟‘‘ (بخاری، کتاب البیوع،حدیث: ۲۱۹۸)۔ اس لیے باغات کے مالکوں اور پھلوں کے تاجروں کو چاہیے کہ وہ پھلوں کے پختہ ہونے تک صبر و انتظار کریں اور اس کے بعد ہی خرید و فروخت کا کوئی معاملہ کریں۔
تجارت میں جھوٹ سے بھی پرہیز لازمی ہے۔ دور حاضر کی تجارت میں لوگ اس کو جائز سمجھتے ہیں۔ غیروں کی تو بات ہی کیا بعض سادہ لوح مسلمان بھی ایسا خیال رکھتے ہیں۔یاد رہے کہ جھوٹ بولنے والوں پر اللہ تعالیٰ کی لعنت کا اعلان قرآن کریم میں موجود ہے۔ ارشاد ربانی ہے: لَعْنَتَ اللّٰہِ عَلَی الْکٰذِبِیْنَ O (اٰل عمرٰن۳:۶۱) ’’جو جھوٹا ہو اُس پر خدا کی لعنت ہو‘‘۔
رسول پاکؐ سے بھی دروغ گوئی کی مذمت میں بہت سے اقوال منقول ہیں، منجملہ ان کے یہ بھی ہے کہ اس کو منافقین کی صفت بتایا ہے۔ اب اس روایت کو دیکھیں: حکیم بن حزامؓ سے روایت ہے کہ بیع و شرا کرنے والے فریقین (بائع اور مشتری ) کو اختیار ہے (فسخ بیع کا) جب تک جدا نہ ہوں۔پھر اگر وہ دونوںسچ بولیں اور حقیقت واضح کر دیں (یعنی جو کچھ عیب ہے سامان میںیا قیمت میں) توان کی بیع میں برکت ڈال دی جاتی ہے، اور اگر وہ جھوٹ بولیںاور چھپائیں (عیوب کو) تو ان کی بیع سے برکت ختم کردی جاتی ہے۔ (مسلم، کتاب البیوع)
اس طرح جھوٹ کانتیجہ تجارت میں بے برکتی کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ لہٰذا، مراد یہ ہے کہ جو جھوٹ کی لعنت سے اپنی تجارت کو پاک نہیں کرتے، ان کی تجارت کو فروغ نہیں ہوگا۔ یہ تو دنیا کا نقصان ہے، اب ذرا آخرت سے متعلق وعید بھی ملاحظہ کیجیے۔ حضرت رفاعہ بن رافع انصاریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تاجر لوگ قیامت کے دن فاجر اور گنہگار اٹھائے جائیں گے، سواے ان لوگوں کے جنھوں نے (اپنی تجارت میں)تقویٰ اور نیکی اورسچائی کی روش اختیار کی‘‘ (سنن ترمذی،کتاب البیوع، حدیث: ۱۲۱۴)۔ اس سلسلے میں ایک بات اور ذہن نشین رہنا ضروری ہے کہ کسی سامان کی اصل نوعیت سے زیادہ تعریف بھی جھوٹ میںشامل ہے، لہٰذا، اس سے بھی پرہیز لازم ہے۔
کچھ تاجروں کی یہ عادت ہوتی ہے کہ وہ گاہکوں کو مطمئن کرنے کے لیے بات بات پر قسمیں کھاتے ہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے بھی منع فرمایاہے: إِیَّاکُمْ وَ کَثْرَۃَ الْحَلِفِ فِي الْبَیْعِ، فَإِنَّہُ یُنَفِّقُ ثُمَّ یَمْحَقُ،یعنی ’’ تم بیع میںبہت قسمیں کھانے سے اجتناب کرو۔اس لیے کہ وہ (اولاً) مال کو تو نکلوادیتی ہے (فروخت کروادیتی ہے) پھر ( اس کی برکت کو) مٹادیتی ہے۔ (مسلم، کِتَابُ الْمُسَاقَاۃِ وَالْمُزَارَعَۃِ، بابُ النَّھْيِ عَنِ الْحَلِفِ فِي الْبَیْعِ، بروایت ابوقتادہؓ)۔ اسی طرح آپؐ فرماتے تھے: الْحَلِفُ مَنْفَقَۃٌ لِلسِّلْعَۃِ مَمْحَقَۃٌ لِلرِّبْحِ، یعنی ’’قسم مال کو نکالنے والی ہے اور (بعد ازاں) نفع کو مٹانے والی ہے ‘‘۔ (مسلم، کِتَابُ الْمُسَاقَاۃِ وَالْمُزَارَعَۃِ ، بابُ النَّھْيِ عَنِ الْحَلِفِ فِي الْبَیْعِ، بروایت ابوہریرہؓ)۔ بخاری میں الفاظ ہیں:الْحَلِفُ مَنْفَقَۃٌ لِلسِّلْعَۃِ مَمْحَقَۃٌ لِلْبَرَکَۃِ ،یعنی ’’قسم مال کو نکالنے والی ہے اور (بعد ازاں) برکت کو مٹانے والی ہے ‘‘۔ (بخاری، کتاب البیوع،باب یَمْحَقُ اللہُ الرِّبَوٰاْ وَ یُرْبِی الصَّدَقٰتِ، حدیث: ۲۰۸۷ )
ان احادیث کا حاصل یہ ہے کہ قسم کھانے سے گرچہ ابتدا میں خریدار بھروسا کرلیتاہے اور مال نکل جاتا ہے، لیکن آیندہ نقصان لاحق ہوتا ہے کیوں کہ لوگ اس کی اس عادت سے واقف ہوجاتے ہیں اور اس کی قسموں پر یقین کرنا بھی چھوڑ دیتے ہیں۔ دوسری برائی اس میں یہ ہے کہ دُنیوی مفاد اور معمولی نفع کی خاطر اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کے بابرکت نام کو بیچا جاتا ہے، جو کہ ایک طرح سے اس کے پاکیزہ نام کی بے حرمتی ہے اور بقول رسولِؐ رحمت اسی وجہ سے برکت بھی ختم ہوجاتی ہے۔
یہ سب نقصانات تو تب ہیں جب کہ قسم سچی ہو، اگر جھوٹی قسم کھائی تو اور بھی برا ہے۔ علما نے اسے گناہ کبیرہ بتایا ہے۔ رسولِ پاکؐ سے بھی اس سلسلے میں سخت وعید مروی ہے۔ حضرت ابوذرؓ سے روایت ہے کہ آپؐ نے فرمایا : ’’تین شخص ایسے ہیں جن سے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ نہ تو کلام فرمائے گا، نہ ان کی طرف (نظر کرم سے) دیکھے گا، اور نہ ان کو (گناہوں سے) پاک کرے گا، اور ان (تینوں) کے لیے دردناک عذاب ہے۔ حضرت ابوذرؓ نے پوچھا:یا رسولؐ اللہ! وہ کون شخص ہیں؟ وہ تو نامراد ہوگئے اور خسارے میں پڑگئے ۔ آپؐ نے فرمایا: اپنے آزار کو ٹخنوں سے نیچے لٹکانے والا، اپنی عطا کردہ چیزوں پر احسان جتانے والا، اور جھوٹی قسمیں کھا کر اپنا مالِ تجارت فروخت کرنے والا‘‘۔ (سنن ابن ماجہ ، کتاب التجارات، حدیث: ۲۲۰۸)
بعض لوگ منظم ڈھنگ سے جعلی کرنسی کا دھندا چلارہے ہیں اور بعض نادانی میں اس کا شکار ہورہے ہیں۔ جو لوگ اس سازش کا شکار ہوجاتے ہیںوہ بھی اپنے نقصان کی تلافی کے لیے کسی دوسرے کو دھوکا دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس طرح فریب دہی کا یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ اس عمل کے ذریعے دوسرے کا مال بالکل ناحق اور باطل طریقے سے کھایا جاتا ہے جس سے اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ نے منع فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَ لَا تَاْکُلُوْآ اَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ باِلْبَاطِلِ (البقرۃ۲:۱۸۸) یعنی ’’آپس میں ایک دوسرے کا مال باطل طریقے سے نہ کھاؤ‘‘۔ اس لیے ایسے پیسوں سے حاصل کیا گیا مال بالکل حرام ہے۔
دوسرے یہ کہ اس اصول کے تحت جس نے کسی گناہ کا کام جاری کیا،اس کو ان تمام لوگوں کے گناہ کے برابرگناہ حصے میں آئے گا، جو قیامت تک اس پر عمل کریں گے۔ بازار میں جعلی کرنسی چلانے والے کو بھی ان تمام لوگوں کے گناہ کے برابرگناہ ملے گا، جو سلسلے کے اخیر تک اس میں شریک ہوں گے۔ اسی لیے امام غزالیؒ نے کسی بزرگ کا مقولہ نقل کیا ہے کہ ایک کھوٹا درہم بازار میں چلانا سو درہم چُرانے سے بدتر ہے، کیوں کہ چوری کا گناہ تو اسی وقت تک ہے، جب کہ کھوٹے پیسے یا جعلی کرنسی چلانے کا گناہ ممکن ہے موت کے بعد تک جاری رہے۔ اور وہ شخص بڑا ہی بدنصیب ہے جو خود تو مرجائے، مگر اس کا گناہ نہ مرے اور اس گناہ کا مدتوں تک دنیا میں موجود رہنا ممکن ہے، اور ایسے شخص کو جس نے اس کی ابتدا کی قبر میں عذاب ہوتا رہے گا۔ اس لیے ان کی راے میں تاجر کے لیے کھوٹے سکّے اور جعلی نوٹ کو پہچاننے کاہنر جانناواجب ہے۔ یہ اس لیے نہیں کہ وہ خود دھوکا نہ کھائے بلکہ اس لیے کہ لاعلمی میں وہ کسی اور کو دھوکا نہ دے دے۔ اگر کوئی خود دھوکا کھاجائے تو اسے چاہیے کہ خود اپنے نقصان پر صبر کرلے اور اس نوٹ کو ضائع کردے تاکہ اس کے بعد فریب دہی کا یہ سلسلہ جاری نہ رہے ۔ (کیمیاے سعادت، ص ۲۷۴)
تاجروں کونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم یہ بھی ہے کہ وہ خرید و فروخت میںچیزوں کا تبادلہ ماپ تول کر ہی کریں۔ حضرت عثمانؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ: جب تو کوئی چیز بیچا کرے تو تول کے دیا کر اور جب تو کوئی چیز خریدے تو اسے بھی تول لیا کر (بخاری،کتاب البیوع، بَابُ الْکَیْلِ عَلَی الْبَائِعِ وَالْمُعْطِي)۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد میں دوحکمتیں پوشیدہ ہیں: ایک تواس سے دھوکا دہی کا دروازہ بند ہوجاتا ہے اور دوسرے اس میں مستقبل میں رونما ہونے والے آپس کے اختلافات اور فتنوں سے حفاظت ہے۔ ساتھ ہی ایسے لین دین میں برکت کی بشارت بھی ہے۔
حضرت مقدام بن معدیکربؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپؐ نے فرمایا: ’’اپنے اناج کو ماپ لیا کرو، اس میں تم کو برکت ہوگی‘‘۔ (بخاری،کتاب البیوع، بابُ مَا یُسْتَحَبُّ مِنَ الْکَیْلِ، حدیث: ۲۱۲۸)۔ اس لیے تاجروں کو چاہیے کہ اپنی تجارت میں اس اصول کا پورا لحاظ رکھیں۔ تاہم، جو چیزیں تول کر نہیں بلکہ گنتی سے فروخت ہوتی ہیں، ان میں اس حکم کا اطلاق گنتی پر ہی ہوگا۔ اسی سے یہ اصول بھی اخذ ہوتاہے کہ آپس میں پیسے کا لین دین بھی گن کر ہی کرنا چاہیے۔
قرآن پاک کے علاوہ رسول پاکؐ سے بھی دروغ گوئی کی مذمت میں بہت سے اقوال منقول ہیں، منجملہ ان کے یہ بھی ہے کہ اس کو منافقین کی صفت بتایا ہے۔ حضرت حکیم بن حزامؓ سے روایت ہے کہ بیع و شرا کرنے والے فریقین (بائع اور مشتری) کو (فسخ بیع کا) اختیار ہے ،جب تک کہ وہ جدا نہ ہوں۔پھر اگر وہ دونوںسچ بولیں اور واضح کر دیں حقیقت کو (یعنی جو کچھ عیب ہے سامان میںیا قیمت میں) توان کی بیع میں برکت ڈال دی جاتی ہے، اور اگر وہ جھوٹ بولیںاور چھپائیں (عیوب کو) تو ان کی بیع سے برکت ختم کردی جاتی ہے۔ (مسلم، کتاب البیوع)
حضرت رفاعہ بن رافع انصاریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تاجر لوگ قیامت کے دن فاجر اور گنہگار اٹھائے جائیں گے سواے ان لوگوں کے جنھوں نے (اپنی تجارت میں)تقویٰ اور نیکی اورسچائی کی روش اختیار کی‘‘۔ (سنن ترمذی،کتاب البیوع)
اب اگر کوئی قیامت میں فاسق و فاجراٹھایا جائے تو اس کا جو حشر ہوگا اسے بہ آسانی قیاس کیا جاسکتا ہے۔ اس سلسلے میں ایک بات اور ذہن نشین رہنا ضروری ہے کہ کسی سامان کی اصل نوعیت سے زیادہ تعریف بھی جھوٹ میںشامل ہے، لہٰذا اس سے بھی پرہیز لازم ہے۔
ماپ تول میں کمی کرنا بھی ایک بدترین اخلاقی بیماری ہے، جو آج کے بازار کے نظام میں ایک وبا کی شکل اختیا ر کرچکی ہے۔ یہ بدترین قسم کی خیانت ہے کہ پیسے تو پورے لیے جائیںاور چیز کم دی جائے۔ قرآن کریم میں اس کی سخت الفاظ میں مذمت کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ’’بڑی خرابی ہے ناپ تول میں کمی کرنے والوں کی، کہ جب لوگوں سے ماپ کرلیتے ہیں تو پورا پورالیتے ہیںاور جب انھیں ماپ کر یا تول کر دیتے ہیں تو کم دیتے ہیں۔کیا ایسے لوگ یہ خیال (بھی) نہیں کرتے کہ وہ (مرنے کے بعد زندہ )اٹھائے جانے والے ہیں؟ ایک عظیم دن (کی پیشی) کے لیے جس دن سب لوگ رب العالمین کے سامنے کھڑے ہوں گے‘‘۔ (المطفّفین۸۳: ۱-۶)
مطلب یہ ہے کہ اس طرح کی حرکت وہی لوگ کرتے ہیں جن کے دلوں میںاللہ تعالیٰ کا خوف اور یومِ آخرت میں اللہ تعالیٰ کے سامنے پیشی کا یقین نہیں۔ دوسری جگہ صحیح وزن کرنے کی تاکید ان الفاظ میں کی گئی ہے: ’’اور جب (کوئی چیز کسی کو)ماپ کر دینے لگو توبھرپور پیمانے سے ماپو اور (جب تول کر دو تو) سیدھی ترازو سے تولا کرو، یہ (فی نفسہٖ بھی) بہترہے اور انجام کے لحاظ سے بھی بہت اچھا ہے‘‘۔ (بنی اسرائیل۱۷: ۳۵)۔ اس میں ایک بہتری تو اجر و ثواب کے لحاظ سے ہے جس کا انجام جنت ہے، اور دوسری بہتری تجارت کے فروغ کے اعتبار سے ہے کہ ناپ تول میں دیانت داری سے گاہکوں میں دیر تک اعتماد پیدا ہوتا ہے۔
ان دو کے علاوہ قرآن کریم میں چند دیگر مقامات پر بھی ماپ تول میںدیانت داری اختیار کرنے کی تاکید ملتی ہے، مثلاً الانعام۶: ۱۵۲، الرحمٰن ۵۵: ۷ - ۹، الاعراف۷: ۸۵، ھود۱۱: ۸۴ - ۸۶ وغیرہ جس سے اس مسئلے کی اہمیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ سورئہ اعراف اور سورئہ ہود کی مذکورہ آیات میں یہ ہدایت حضرت شعیبؑ کے تذکرے میں ملتی ہے، کیونکہ ان کی قوم میں بھی یہ برائی عام تھی جس کی اصلاح کی فکر حضرت شعیبؑ نے کی، لیکن جب وہ نہیں مانے تو ان پر اللہ تعالیٰ کا عذاب بھی نازل ہوا۔ اسی لیے رسول اکرمؐ نے اپنی امت کو اس سے متنبہ فرمایاکہ اس لعنت میں گرفتار ہوکر کہیں وہ بھی غضب الٰہی کا شکار نہ ہوجائیں۔ آپؐ نے ناپ تول کرنے والوں سے فرمایا: ’’تم لوگ دو ایسے کام کے ذمے دار بنائے گئے ہو (یعنی ماپنا اور تولنا) جن میں (کوتاہی کے سبب) تم سے پہلے کی(بعض)اُمتیںہلاک ہوگئی ہیں‘‘(سنن ترمذی، ابواب البیوع، حدیث: ۱۲۱۷؍ ۱۲۲۱)۔ آپؐ نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ: جب کوئی قوم ماپ تول میں کمی کرتی ہے تو وہ قحط سالی، روزگار کی تنگی اور بادشاہ (حکمرانِ وقت) کے ظلم و ستم میں مبتلا کر دی جاتی ہے۔ (سنن ابن ماجہ ، کتاب الفتن، حدیث: ۴۰۱۹)
اس لیے ایک مومن تاجر کو چاہیے کہ وہ اس سلسلے میں احتیاط برتے، دیانت داری کا رویہ اپنائے اور چند سکّوں کی خاطر اللہ واحد القہار کے عذاب کا خود کو مستحق نہ بنائے۔
کم تولنے کو اسلام میں جہاں ناپسند کیا گیا ہے، وہیں جھکتا تولنے کو پسند کیا گیا ہے کیوں کہ اس میں ایثار اور احتیاط دونوں ہی پہلو شامل ہیں۔نبی کریمؐ سے اس سلسلے میں ہدایات بھی منقول ہیں۔ حضرت سوید بن قیسؓ روایت کرتے ہیں کہ میں نے اور مخرفہ عبدی نے ہَجَر(بحرین کے ایک شہر) سے کچھ کپڑے خرید ے اور اسے مکہ لے کر آئے، تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس پیدل تشریف لائے اور ہم سے ایک پائجامہ کا سودا کیا، جو ہم نے آپؐ کے ہاتھ فروخت کردیا۔ وہاں ایک شخص تھا جو اُجرت لے کر مال وزن کیا کرتا تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: زِنْ، وَ أَرْجِحْ،یعنی ’’وزن کرو اور جھکتی ڈنڈی تولو‘‘۔(سنن ابی داؤد، کتاب البیوع، حدیث: ۳۳۳۶)
دوسری روایت حضرت جابرؓ سے ملتی ہے کہ رسول اکرمؐ نے فرمایا: إِذَا وَزَنْتُمْ فَأَرْجِحُوا یعنی ’’ جب تم تولو، تو جھکتا ہوا تولو‘‘۔ (سنن ابن ماجہ، کتاب التجارات، حدیث: ۲۲۲۲)۔ ان احادیث کی بنیاد پرعلما نے جھکتی ڈنڈی تولنے کو مستحب کہا ہے۔ اس لیے تاجروں کو چاہیے کہ کسی کو سامان دیتے وقت اس اصول کو بھی مد نظر رکھیں۔
تجارت میں زیادہ نفع خوری کے لیے ایک حربہ یہ اختیار کیا جاتا ہے کہ ضروری اشیا کی ذخیرہ اندوزی کر کے بازار میں مصنوعی قلت پیدا کردی جاتی ہے، جس سے مہنگائی بڑھ جاتی ہے اور چیزوں کے نرخ میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ پھر گراں بازاری کے اس موقعے سے ذخیرہ اندوز تاجر خوب فائدہ اٹھاتے ہیں۔ فقہی اصطلاح میں اس عمل کو ’احتکار‘ کہا جاتا ہے، جو شرعی نقطۂ نظر سے حرام اور انتہائی ناپسندیدہ عمل ہے کیوں کہ اس میںانسانوں کی خدمت اور حاجت روائی کے جذبے کے بجاے ضرر رسانی اور استحصال کا جذبہ داخل ہوجاتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مَنِ احْتَکَرَ فَھُوَ خَاطِیئٌ،یعنی ’’جس نے ذخیرہ اندوزی کی وہ گناہ گار ہے‘‘ (مسلم، بروایت معمر ؓ بن عبداللہ)۔ دوسری روایت میں ہے کہ آپؐ نے فرمایا: لَا یَحْتَکِرُ إِلَّا خَاطِیئٌ،یعنی ’’گناہ گار کے سوا کوئی اور شخص ذخیرہ اندوزی نہیں کرتا‘‘ (مسلم، بروایت معمرؓ بن عبداللہ)۔ آپؐ کایہ بھی ارشاد ہے: الْجَالِبُ مَرْزُوقٌ وَالْمُحْتَکِرُ مَلْعُونٌ ،’’جالب (دوسرے شہروںسے غلہ وغیرہ لاکر بازار میں بیچنے والا تاجر) مرزوق ہے (یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسے رزق دیا جاتا ہے)، اور ذخیرہ اندوزی کرنے والا ملعون ہے (یعنی اللہ تعالیٰ کی لعنت کا مستحق اور اس کی رحمت سے دُور ہے)‘‘۔ (سنن ابن ماجہ، حدیث: ۲۱۵۳، بروایت عمرؓ بن الخطاب)
آپؐ سے یہ بھی منقول ہے کہ جو شخص مسلمانوں سے غلے کا احتکار کرتا ہے( یعنی ان سے غذائی اشیا روک کر بعدہٗ گراں نرخ پران کے ہاتھ فروخت کرتا ہے) اللہ تعالیٰ اسے جذام اور افلاس میں مبتلا کردیتا ہے (سنن ابن ماجہ، کتاب التجارات، حدیث: ۲۱۵۵، بروایت عمرؓ بن الخطاب)۔ آپؐ سے یہ بھی روایت ہے کہ جس شخص نے ۴۰دن تک گرانی کے خیال سے غلے کو روک رکھا، وہ اللہ تعالیٰ سے بے زار ہوا اور اللہ اس سے بے زار ہوا ۔ ( مسند احمد، حدیث: ۴۹۹۰، بروایت عبداللہ بن عمرؓ)۔ایک روایت میں یہ ہے کہ: جس شخص نے گراں فروشی کی نیت سے غلے کو ۴۰ دن تک روکے رکھا اور پھر اسے (اللہ کی راہ میں) صدقہ کردیا تو (بھی) وہ اس کے (اس گناہ) کے لیے کفّارہ نہیں ہوگا۔(مشکوٰۃ المصابیح، کتاب البیوع، باب الاحتکار، حدیث: ۲۸۹۸، بروایت ابوامامہؓ)
مذکورہ بالا احادیث مبارکہ سے ذخیرہ اندوزی کی مذمت واضح ہے۔ اس کے برعکس حاجت روائی کی نیت سے تجارت کرنے والے تاجر کے بارے میں آپؐ نے ارشاد فرمایا کہ: جس نے اناج خریدا اور کسی شہر میں لے گیااور مروجہ نرخ پرفروخت کردیا، وہ ایسا ہے جیساکہ اس نے وہ سارا اناج خیرات کردیا۔(احیاء علوم الدین ،ص۵۱۶)
یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ زمانہ قدیم میں ذخیرہ اندوزی عام طور سے غلے کی ہی ہوا کرتی تھی۔ اس لیے مذکورہ بالا احادیث میں غلے کا ہی ذکر ہے۔ اسی لیے ’احتکار‘ کا اطلاق علما عام طور سے غذائی اجناس کی ذخیرہ اندوزی پر ہی کرتے آئے ہیں۔ اس لیے ایسی اشیا کی ذخیرہ اندوزی کو جو غذا ئی ضرورت میں استعمال نہیں ہوتی، بعض علما نے حرام نہیں کہا ہے۔ (مظاہر حق، جلد۳، ص۵۲۲)
تاہم، اس سلسلے میں چند اہم نکات پر غور کرنا ضروری ہے۔ اول یہ کہ ذخیرہ اندوزی خواہ کسی بھی چیز کی ہو، اس میں استحصال اور موقع پرستی کا جذبہ شامل ہوتا ہے اور یہ انسانی حاجت روائی اور نفع رسانی کے جذبے کے خلاف ہے۔ دوم یہ کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت کے مزاج کے بھی خلاف ہے، جس کا مقصد یہ ہے کہ معاشی نظام ایسا ہو جس میں عوام خصوصاً غریبوں اور کم آمدنی والوں کا زندگی گزارنادشوار نہ ہو۔ اس لیے احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ ہر قسم کی ذخیرہ اندوزی سے بچنا چاہیے۔ رہا علما کا مذکورہ بالا فتویٰ، تو یہ جاننا چاہیے کہ فتویٰ تو ظاہر پر ہوا کرتا ہے۔ اسی لیے امام غزالیؒ نے فرمایا: ــــــــ ’’بہت سے معاملات ایسے ہیں جن میں فتویٰ تو ہم یہی دیں گے کہ یہ درست ہے، لیکن اس معاملے کا مرتکب (اللہ تعالیٰ کی) لعنت میں گرفتار ہوگا، اور یہ وہ معاملہ ہے جس میں مسلمانوں کو تکلیف ونقصان پہنچتا ہو‘‘ (کیمیاے سعادت، ص ۲۷۲)۔اس لیے موجودہ دور میں رائج گھریلو استعمال کے لیے سلنڈروں میں گیس، چولھا جلانے کے لیے مٹی کا تیل اور ڈیزل، پھر دوا وغیرہ کی ذخیرہ اندوزی بھی قابل ملامت فعل ہے۔
یوںتو اسلام میں نرمی اور خوش خلقی کا رویہ اختیار کرنے کی عمومی تعلیم دی گئی ہے لیکن تجارت کے شعبے میں اسے خصوصاً پسند کیا گیا ہے۔ رسول اکرمؐ نے ایسے تاجر کے لیے جو خرید و فروخت میںنرمی کا رویہ اختیار کرتاہے، دعا فرمائی ہے: ’’ اللہ تعالیٰ اُس شخص پر رحم فرمائے جو بیچتے وقت، خریدتے وقت اور تقاضا کرتے وقت فیاضی اور نرمی سے کام لیتا ہے‘‘۔ (بخاری ، کتاب البیوع، بروایت جابر بن عبداللہؓ، حدیث: ۲۰۷۶ )
ایک روایت کے مطابق: آپؐ نے فرمایا: ’’بے شک اللہ تعالیٰ پسند فرماتا ہے نرمی اور خوبی سے بیچنے کو، نرمی سے خریدنے کو،اور نرمی و آسانی سے قرض ادا کرنے کو‘‘۔ (سنن ترمذی ، کتاب البیوع، حدیث: ۱۳۱۹، بروایت ابوہریرہؓ)۔ آپؐ نے یہ بھی فرمایا کہ: اللہ تعالیٰ نے ایک شخص کو جو تم سے قبل (امت سے) تھا بخش دیا (اس لیے کہ) وہ آسانی اور نرمی کرتا تھا۔ جب (کچھ) بیچتا تھا تو آسانی اور نرمی کرتا تھا۔ جب (کچھ) خریدتا تھا، اور آسانی اور نرمی کرتا تھا، جب (قرض کی ادائی کا) تقاضا کرتا تھا‘‘۔ (حوالہ سابق، حدیث: ۱۳۲۰، بروایت جابرؓ)۔ ایک اور روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے جنت میں داخل کردیا اس شخص کوجو بیچنے اور خریدنے میں نرمی کا معاملہ کیا کرتا تھا‘‘۔ (سنن ابن ماجہ، کتاب التجارات،حدیث: ۲۲۰۲)
ان روایتوںکا تقاضا یہ ہے کہ ایک مسلمان تاجر کو خرید و فروخت میںنرمی ہی کا رویہ اختیار کرنا چاہیے۔ حقیقت میں یہ ایک ایسی پالیسی ہے جس کے ذریعے ایک تاجر بہت کم وقفے میں گاہکوں میں اپنی ساکھ قائم کرسکتا ہے اور اس کی تجارت چمک سکتی ہے۔ اس طرح تجارت میں اس سنت کو اپنانے سے دُنیوی اور اخروی دونوں فوائدہیں۔ لیکن افسوس کا پہلویہ ہے کہ مسلمان تاجر عام طور سے اس صفت سے خالی نظر آتے ہیں، جب کہ دوسری قوموںکے اکثر تاجروں نے اس پالیسی کو سختی سے اپنا رکھا ہے جس کے دنیوی ثمرات سے وہ استفادہ کر رہے ہیں۔
تجارت میں بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ بیع کا معاملہ ہونے کے بعد خریدار سامان یاقیمت سے مطمئن نہ ہونے کی وجہ سے یا کسی اور مصلحت کی وجہ سے پشیمانی میں مبتلا ہوجاتا ہے اور خریدی ہوئی چیز کو واپس کرنا چاہتا ہے، یا کبھی فروخت کرنے والا افسوس کرنے لگتا ہے کہ میں نے اتنی کم قیمت پریہ سامان کیوں فروخت کردیا اور اسے واپس لینا چاہتا ہے، تو ایسی صورت میں فریقین کو چاہیے کہ باہمی رضامندی سے اس معاملے کو ختم کر دیں، یعنی تاجر بکاہوا سامان واپس لے لے، یا خریدار خریدا ہوا سامان واپس کردے۔ اسے شریعت کی اصطلاح میں ’اقالہ‘ کہتے ہیں۔ اگرچہ ایسا کرنا فریقین پر واجب نہیں ہے، لیکن اس کا ثواب بہت زیادہ ہے کیونکہ ایساکرنا احسان میں داخل ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مَن أَقَالَ مُسْلِمًا أَقَالَہُ اللّٰہُ عَثْرَتَہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ، یعنی جو شخص اپنے کسی مسلمان بھائی کے ساتھ اقالے کا معاملہ کرے (یعنی اس کی بیچی ہوئی یا خریدی ہوئی چیز کی واپسی پر راضی ہوجائے) تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے گناہ بخش دے گا (سنن ابن ماجہ، کتاب التجارات، حدیث:۲۱۹۹، بروایت ابوہریرہؓ)‘‘۔ ایک روایت میں ہے کہ نبی کریم ؐ نے فرمایاکہ: ’’جو شخص کسی بیع کو فسخ کردے اور یہ تصور کرلے کہ میں نے بیع کی ہی نہیں، تو اللہ تعالیٰ اس کے گناہوں کو ایسا جانتا ہے گویا اس نے گناہ کیے ہی نہیں‘‘۔ (کیمیاے سعادت،ص ۲۸۲)
اس لیے مسلمان تاجروں کو چاہیے کہ ان فضیلتوں کے پیش نظر اس طرح کے معاملات میں احسان کی روش ہی اختیار کریں۔ بعض مسلم تاجر غیروں کی نقل میں اپنی دکان میں ’بکا ہوا سامان واپس نہیں ہوگا ‘ کا بورڈ لگادیتے ہیں۔ گویا وہ علی الاعلان یہ کہہ رہے ہیں کہ اس سنت کی ان کے یہاں کوئی جگہ نہیں! یہ نہایت افسوس کی بات ہے۔ انھیں مذکورہ روایات پر غور کرنا چاہیے اورایسے کسی موقعے کو ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہیے، کیونکہ ہر شخص گناہوں کی بخشش کا محتاج ہے۔
کسی دو شخص کے جائز تجارتی معاملے میں تیسرے کو مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔ مداخلت کی ایک صورت یہ ہے کہ قیمت بڑھا کر اس چیز کو خریدنے کا اظہار کرے جس کا معاملہ زیر غور ہے، اس میںخریدار کے نقصان کا امکان ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ خریدار سے یہ کہے کہ: ’’بالکل یہی چیز یا اس سے بہتر میں آپ کو اس سے کم قیمت پر فراہم کرسکتا ہوں‘‘۔ اگر آپ اس معاملے کو فسخ کردیں، اس صورت میں بیچنے والے کے نقصان کا امکان ہے۔ یہ دونوں ہی صورتیں درست نہیں اور اگر مقصد خود خریدنا یا بیچنا نہ ہو صرف معاملے کو بگاڑنا ہوتو یہ اور بھی برا فعل ہے۔
حضرت عبداللہ بن عمرؓ کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لَا یَبِیْعُ بَعْضُکُمْ عَلٰی بَیْعِ بَعْضٍ،’’تم میں سے کوئی شخص کسی دوسرے کی بیع پر بیع نہ کرے‘‘ (بخاری، کتاب البیوع، حدیث: ۲۱۶۵)۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ آپؐ نے ارشاد فرمایا: لَا یَسُمِ الْمُسْلِمُ عَلٰی سَوْمِ أَخِیْہِ، ’’ کوئی مسلمان اپنے بھائی کے سودے پر سودابازی نہ کرے‘‘ (مسلم، کتاب البیوع)۔ اسی طرح حضرت ابوہریرہؓ کے بقول آپؐ نے فرمایا: ’’کوئی شخص اپنے کسی (مسلمان) بھائی کے مول پرمول نہ کرے اور نہ نجش کرے‘‘۔ (بخاری، کتاب البیوع، حدیث: ۲۱۶۰)
’نجش‘ اس عمل کو کہتے ہیں کہ دو افراد کے بیچ کوئی تجارتی معاملہ طے پارہا ہو اور تیسرا شخص آکر اس چیز کی بے جا تعریف کرنے لگے کہ جس کا معاملہ زیر بحث ہو،یا اس کی زیادہ قیمت لگادے اور اس کا مقصد خریدنا نہ ہو بلکہ اس خریدار کو گمراہ کرنا اور دھوکے میں ڈالنا ہو، تاکہ وہ اس چیز کی خریداری کی طرف راغب ہوجائے یا زیادہ قیمت دینے کو تیار ہوجائے۔ اس طرح کی دلالی کیسے درست ہوسکتی ہے، جب کہ اس میں اصل خریدار کو فریب دینے کی سازش کی جاتی ہے۔ اس لیے مذکورہ بالا احادیث کی بنیاد پر علما نے کسی دو شخص کے مابین جائز تجارتی معاملے میں مداخلت کی ذکر کردہ ہر صورت کو ناجائز اور حرام قرار دیا ہے، البتہ اگرکسی معاملے میں کوئی شرعی قباحت ہو، مثلاً کوئی شخص کسی کو غبن یا چوری کا مال بیچ رہا ہو، یا کسی اور قسم کا دھوکا دے رہا ہو، تو اس صورت میں مداخلت کرکے معاملے کو فسخ کرادینا اور ایک مسلمان کو نقصان سے بچانا جائز ہے۔
ایک مسلمان تاجر کو چاہیے کہ تجارت کی مشغولیت میں اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کی یاد اور اس کے حقوق کی ادائی سے غافل نہ ہو۔ صحابہ کرامؓ تجارت کیا کرتے تھے، مگر جب اللہ تعالیٰ کا کو ئی فرض آن پڑتا تو کوئی تجارت اور خرید و فروخت اللہ کی یاد سے ان کو غافل نہ کرتی یہاں تک کہ وہ اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرتے۔ اس بات کی تعریف اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ نے قرآن کریم میں بھی فرمائی۔ فرمایا: ’’ایسے لوگ جنھیں تجارت اور خرید و فروخت اللہ تعالیٰ کے ذکر سے اور نماز کے قائم کرنے اورزکوٰۃ ادا کرنے سے غافل نہیں کرتی‘‘( النور۲۴: ۳۷)۔ آج ہم لوگ نماز جیسے اہم فریضے کی ادائی میں بھی اپنی تجارت کا حرج سمجھتے ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ کی مدد کیسے شامل حال ہوسکتی ہے، جب کہ اس نے اپنی یاد کے لیے خصوصی طور پر اسے قائم کرنے کا حکم فرمایا ہے ( حالانکہ ساری ہی عبادات اس کی یاد کے لیے ہیں)۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’اور مجھے یاد رکھنے کے لیے نماز قائم کرو‘‘۔ (طٰہٰ ۲۰:۲۰)
اس حکم سے تقربِ الٰہی کے حصول میں نماز کی اہمیت کا پتا چلتا ہے۔ اس لیے اس سے غفلت برتنا انتہائی خسارے کا سودا ہے۔ دوسری بات یہ بھی ہے کہ اللہ رب العزت نے نماز کی وجہ سے رزق میں کسی قسم کے نقصان نہ ہونے کی ضمانت لی ہے بلکہ اس کے اہتمام پر رزق کا وعدہ بھی کیا ہے۔ ارشاد ربانی ہے: ’’اور اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم دو اور خود بھی اس پر ثابت قدم رہو، ہم تم سے رزق نہیں چاہتے، رزق تو ہم تمھیں دیں گے اور بہترین انجام تو پرہیزگاری ہی کا ہے‘‘ (طٰہٰ۲۰: ۱۳۲)۔ اس لیے بھی نماز کا اہتمام ضروری ہے اور جمعہ کی اذان کے بعد خرید و فروخت کو چھوڑ کر نماز کے لیے دوڑ جانے (یعنی بلاتاخیر جانے) کا خصوصی حکم سورۃ الجمعہ (۶۲:۹)میں موجود ہے۔
ان اُمور کے اہتمام کے ساتھ اگر فارغ اوقات میں قرآن کی تلاوت کی جائے یا کوئی ذکر مسنونہ زبان پر ہمہ وقت جاری رہے، تواور بھی برکت اور تقرب الٰہی کا ذریعہ ہوگا۔ سورۃ الجمعہ میں ہے:’’جب نماز [جمعہ] پوری ہوچکے تو تم زمین میںمنتشر جاؤ اور اللہ تعالیٰ کا فضل تلاش کرو اور اللہ تعالیٰ کو کثرت سے یاد کرو تاکہ تمھیں فلاح نصیب ہو ‘‘ (الجمعۃ۶۲: ۱۰)۔ اس آیت میں بھی گویا یہ تلقین کی گئی ہے کہ حصول رزق کی سعی تمھیں اللہ تعالیٰ کی یاد سے غافل نہ کرے بلکہ ساری تگ و دو کے ساتھ کثرت سے اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کا ذکر ہی تمھیں فلاح و کامیابی سے ہمکنار کرسکتا ہے۔
چند کلمات ایسے ہیں جن کا پڑھنا کافی فضیلت رکھتا ہے۔ حضرت عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص بازار میں داخل ہوکر یہ کہے: لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہُ لَاشَرِیْکَ لَہُ، لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ یُحْیِي وَ یُمِیْتُ وَ ھُوَ حَیٌّ لَّا یَمُوْتُ بِیَدِہِ الْخَیْرُ، وَہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْ ئٍ قَدِیْرٌ،تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے ۱۰لاکھ نیکیاں لکھتا ہے اور ۱۰ لاکھ برائیاں اس کی مٹادیتا ہے اور ۱۰ لاکھ درجے اس کے بلند کردیتا ہے۔(سنن ترمذی، کتاب الدعوات، حدیث: ۳۴۲۸)
امام ترمذیؒ کی اسی مضمون کی دوسری روایت کے آخر میں یہ ہے کہ: ’’اس کے لیے جنت میں ایک گھر بنادیا جاتا ہے‘‘ (حوالہ سابق، حدیث: ۳۴۲۹)۔ اس لیے تاجروں کو چاہیے کہ ان کلمات کا ضرور اہتمام کریں کہ اس میں نہ کوئی مشقت ہے اور نہ وقت فارغ کرنے کی ہی ضرورت۔ اور ان سب کا حاصل یہ ہے کہ ہر وقت اللہ رب العزت کا استحضار رہے۔
یہ ہیں کاروبار اور تجارت کے چند اہم اسلامی اصول! اگر ان کی رعایت کرتے ہوئے تجارت کی جائے گی تو بلاشبہہ وہ تجارت دنیوی و اُخروی اعتبار سے بڑی نفع بخش ثابت ہوگی لیکن ان کا اہتمام وہی لوگ کرسکتے ہیں، جنھیں اللہ عز و جل کے وعدوں اور اس کے رسول ؐکی خبروں پر کامل یقین ہو۔ جو لوگ اللہ تعالیٰ کے وعدوں اور اس کے رسول ؐکی خبروں کے حوالے سے شکوک و شبہات میں مبتلا ہوں یا جنھیں شرعی احکام کی تعمیل میں تجارت کا نقصان نظر آتا ہو ، ظاہر ہے ان سے ان اصولوں کی پاسداری کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے وہ تمام مسلمانوں کو ان کے تمام معاملات میں اپنے احکام اور اپنے حبیبؐ کی سنتوں کو اپنانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!
قم: ۲۱۳۶)
حکیم بن حزامؓ سے ہی اس طرح روایت ہے کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ عرض کیا کہ میں ایک غیرمعمولی کاروباری آدمی ہوں تو میرے لیے کون سی چیز حلال ہے اور کون سی چیز حرام ؟ اس پر آپ ؐ نے فرمایا: ’’کسی بھی چیز کو اس وقت تک فروخت نہ کرو، جب تک اسے قبضے میں نہ لے لو ‘‘۔ (معجم الکبیر للطبرانیؒ، جلد۳، حدیث:۳۱۰۸)
امام ابوداؤدؒ نے حضرت زید بن ثابتؓ سے ایک ایسی روایت نقل کی ہے، جس سے یہ پتاچلتا ہے کہ خریدی ہوئی منقولہ شے پر (یعنی وہ چیزجو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جائی جاسکے) صرف قبضہ کافی نہیں بلکہ جب تک اسے خریدنے کی جگہ سے منتقل کرکے اپنے ٹھکانے پر نہ لے آئے، اس وقت تک اسے فروخت کرنا درست نہیں۔ انھوں نے حضرت عبداللہ بن عمرؓ کو ان کا خریدا ہوا تیل بازار میں اسی جگہ فروخت کرنے سے یہ کہہ کر روکا:یعنی ’’اسے فروخت نہ کرو جہاں پر تم نے خریدا ہے، حتیٰ کہ تم اسے اپنے ٹھکانے پر لے جاؤ، کیو نکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سودے کو اسی جگہ بیچنے سے منع فرمایا ہے، جہاں اسے خریدا جاتا ہو، حتیٰ کہ تجار اسے اپنے گھروں کی طرف لے جائیں‘‘۔ (سنن ابی داؤد، کتاب الاجارۃ، حدیث: ۳۴۹۹)
یہاں یہ سوال کسی کے بھی ذہن میںآسکتا ہے کہ آخر اس حکم کی حکمت کیا ہے؟ اس کے جواب میں پہلی بات تو یہ کہی جاسکتی ہے کہ یہ ایک طرح سے کرنسی کے بدلے زائد کرنسی کی بیع ہے (جو کہ شریعت میں درست نہیں)۔ کیونکہ اس میںدوسرے تاجر کی عملی طور پر کوئی خدمت شامل نہیں ہوئی۔ اس وجہ سے کہ سامان وہیں کا وہیں پڑا ہوا ہے۔ یہی وجہ حضرت عبداللہ بن عباسؓ نے حضرت طاؤس کے سوال پر بتائی، جسے امام بخاریؒ نے روایت کیا ہے۔ آپؓ نے فرمایا: ’’یہ تو روپے کا روپے کے بدلے بیچنا ہوا اور غلہ توبعد میں دیا جائے گا‘‘۔ (بخاری، کتاب البیوع، حدیث: ۲۱۳۲)
دوسری وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ پہلا تاجر جب یہ دیکھے گا کہ دوسرا بغیر کسی محنت کے بہت زیادہ نفع حاصل کر رہا ہے، تو اس کے دل میں یہ خیال پیدا ہوسکتا ہے کہ کیوں نہیں وہ پہلی بیع کو فسخ کرکے تیسرے شخص سے براہ راست زیادہ قیمت پر معاملہ کرلے ؟ اس طرح وہ قبضہ نہ دینے اور پہلی بیع کو فسخ کرنے کے حیلے بہانے بناسکتا ہے، جس سے آپس میں جھگڑے کی نوبت آسکتی ہے۔ اگر وہ قبضہ دے بھی دے تو اس زائد نفع سے محرومی کا احساس اسے ستائے گا۔ تیسری بات یہ ہے کہ ایسا کرنے میں باربرداری کے شعبے سے وابستہ مزدوروں کے روزگار کے متاثر ہونے کا بھی قوی امکان ہے جس سے حفاظت مقصود ہے۔ چوتھی بات یہ کہ قبضے میںلیے بغیر آگے فروخت کرنے کا یہ سلسلہ اگر یوں ہی چلتا رہا، جیساکہ کسی صنعت و حرفت کی کمپنی سے نکلنے والی مصنوعات یا درآمدات کے ذریعے بازار میں آنے والی اشیا کے ساتھ اکثر دیکھنے کوملتا ہے، تو اصل صارف (Consumer) تک پہنچتے پہنچتے متعلقہ شے کی قیمت بڑھ کرکہیں سے کہیں پہنچ جائے گی۔ کیوںکہ بیچ کا ہر تاجر کچھ نہ کچھ نفع پر ہی اگلے تاجر کو سامان فروخت کرے گا۔ اس عمل کے نتیجے میں سب سے زیادہ مالی نقصان تو اصل صارف کو ہی برداشت کرنا پڑے گا جو کہ ایک عام آدمی ہے۔
تاہم، اس مسئلے پر فقہا کے درمیان اختلاف راے ہے۔ امام مالکؒ کے نزدیک قبضے سے پہلے صرف غلے کا فروخت کرنا جائز نہیں، باقی تمام اشیا کا بیچنا جائز ہے۔ امام ابوحنیفہؒ اور امام یوسفؒ کے نزدیک اشیاے منقولہ میں سے کسی بھی چیز کا قبضے سے قبل بیچنا جائز نہیں، لیکن عقار، یعنی زمین کا بیچنا جائز ہے۔ امام احمدؒ کا بھی بظاہر یہی مسلک ہے۔ امام شافعیؒ اور حنفیہ میں سے امام محمدؒ کے نزدیک کسی بھی چیز کو خواہ وہ غلہ ہو یا اشیاے منقولہ میں سے کوئی اور چیز ہو یا پھر زمین، خریدنے کے بعد قبضے سے قبل فروخت کرنا درست نہیں۔ (مظاہر حق جدید، جلد۳، صفحہ ۴۹۶)
امام بخاریؒ نے اس سلسلے میں حضرت عبداللہ بن عباسؓ کا یہ قول نقل کیا ہے: أَمَّا الَّذِي نَھَی عَنْہُ النَّبِيُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمْ فَھُوَ الطَّعَامُ أَنْ یُبَاعَ حَتّٰی یُقْبَضَ یعنی ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس چیز سے منع فرمایا تھا، وہ اس غلے کی بیع تھی جس پر ابھی قبضہ نہ کیا گیا ہو ‘‘۔ پھر ابن عباسؓ نے فرمایا: وَلَا أَحْسِبُ کُلَّ شَیْئٍ إِلَّا مِثْلَہُ ‘‘ یعنی میرا گمان یہ ہے کہ اس سلسلے میں ہر چیز اسی ( غلہ) کی مانند ہے۔ (بخاری، کتاب البیوع، حدیث: ۲۱۳۵)
گویا انھوں نے بھی اس مسئلے میں غلے پر ہی غیر غلے کو قیاس کیا اور کسی بھی چیز کو خریدنے کے بعد قبضے سے پہلے بیچنے کو صحیح نہیں ٹھیرایا اور اسی راے کو امام شافعیؒ اور امام محمدؒ نے اختیار کیا ہے جس کی مطابقت حضرت حکیم بن حزامؓ اور حضرت زید بن ثابتؓکی روایات سے بھی ہوگئی۔رہی یہ بات کہ واضح نصوص، یعنی حضرت حکیم بن حزامؓ اور حضرت زید بن ثابتؓ کی روایات کی موجودگی میں عبداللہ بن عباسؓ کو قیاس کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی، تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ عین ممکن ہے کہ ان تک اس وقت تک یہ نصوص نہ پہنچے ہوں جیساکہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ کو یہ حکم اس وقت تک نہ پہنچا تھا جب زید بن ثابتؓ نے ان کے تیل کی تجارت میں مداخلت کی۔
اسی خدشے کا اظہار علامہ شوکانیؒ نے اس مسئلے کی بحث میں نیل الاوطار میں کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں: استعمل ابن عباس قیاس، و لعلّہ لم یبلغہ النّصّ المقتضٰي لکون سائر الأشیاء کالطّعام کما سلف ،یعنی ابن عباسؓ نے قیاس کا استعمال کیا اور یہ شاید اس وجہ سے ہو کہ ان تک ضروی نصوص نہ پہنچے ہوں کہ سودے میں تمام اشیا غلے کی مانند ہیں (نیل الاوطار شرح منتقی الأخبار، لبنان، ۲۰۰۴ء، ص۹۸۶، کتاب البیوع )۔اس لیے احتیاط کا تقاضا یہی ہے کہ ایک مسلمان تاجر کوئی بھی چیز، گو اس نے اسے خرید لیا ہو، اپنے قبضے میں آنے سے قبل کسی کو فروخت نہ کرے ۔
تجارتی معاملات باہمی رضامندی سے طے کرنا
بیع و شراء کے انعقاد کی بنیادی شرائط میں سے ایک یہ ہے کہ معاملہ بائع اور مشتری کی باہمی رضامندی سے طے کیا جائے۔ بیچنے والا اپنے اختیار سے اپنی چیز بیچے اور خریدنے والا بھی اپنے اختیار اور خوشنودی سے اسے خریدے۔ اگر کسی جانب سے بھی دوسرے فریق کو مجبور کرکے معاملہ کرایا گیا، جب کہ وہ دل سے اس پر راضی نہ تھا تو یہ بیع درست نہیں ہوگی بلکہ منعقد ہی نہیں ہوگی۔ کیوںکہ فرمان الٰہی ہے:
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوْٓا اَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ اِلَّآ اَنْ تَكُوْنَ تِجَارَۃً عَنْ تَرَاضٍ مِّنْكُمْ ۰ۣ (النساء۴: ۲۹)اے ایمان والو! آپس میں ایک دوسرے کا مال ناحق طریقے سے نہ کھاؤ، اِلاّ یہ کہ کوئی تجارت باہمی رضامندی سے وجودمیں آئی ہو (تو وہ جائز ہے)۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی ارشاد ہے: إِنَّمَا الْبَیْعُ عَنْ تَرَاضٍ یعنی ’’بیع (فریقین کی) باہمی رضامندی سے ہی ہوتی ہے ‘‘ (سنن ابن ماجہ، کتاب التجارات، بابُ بَیْعِ الْخِیَارِ، حدیث: ۲۱۸۵، بروایت ابوسعید خدریؓ)۔آپ ؐکا یہ بھی فرمان ہے: ’’کسی شخص کے لیے یہ حلال نہیںکہ وہ اپنے بھائی کا عصا بھی اس کی خوشنودی و رضامندی کے بغیر لے ‘‘۔ (صحیح ابن حبان بترتیب ابن بلبانؒ، کتاب الجنایات،حدیث: ۵۹۷۸، بروایت ابوحمید ساعدیؓ)
یہ حدیث اس معاملے میں، یعنی بغیر رضا مندی کے کسی بھائی کی کوئی چیز لینے کی حرمت کی شدت کو واضح کررہی ہے، جسے سمجھنا کوئی مشکل امر نہیں، کہ لاٹھی جیسی معمولی چیز بھی جب کسی سے بغیر اس کی رضامندی کے لینا حلال نہیں، تو دوسری اہم چیزیںکیسے حلال ہوسکتی ہیں؟ اس لیے ایک مسلمان کو چاہیے کہ وہ خرید و فروخت کے ہر معاملے میں اس بنیادی اصول کا لحاظ رکھے بصورت دیگر وہ دوسرے کا مال باطل طریقے سے ہڑپ کر لینے والوں میں شمار کیا جائے گا۔
یہاں یہ واضح کردینا بھی مناسب ہے کہ یہ رضامندی حقیقی ہونی چاہیے، رسمی اور جبری نہیں۔ نہ دھوکے اور فریب کے ذریعے اس کی اصل قیمت سے دوسرے فریق کو اندھیرے میں رکھا گیا ہو۔ اگر ان حربوں سے رضامندی حاصل کی گئی ہو تو شریعت میں اس کا کوئی اعتبار نہیںاور متاثرہ فریق کو بیع منسوخ کرنے کا اختیار ہوگا۔ اسی طرح اگر کوئی شخص انتہائی مجبوری اور بے بسی کے عالم میں اپنی کوئی چیز بیچ رہا ہو، تو اسے بازار کے نرخ (rate) یا مروجہ نرخ سے بہت کم پر خریدنا اگرچہ وہ اس پر بظاہر راضی بھی ہو، درست نہیں۔ کیوںکہ یہ بات یقینی ہے کہ مجبور شخص خوش دلی سے غیرمعمولی کم نرخ پر اپنی چیز بیچنے کو تیار نہیں ہوتا، جب کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی منشاء قلبی خوشی کے موجود ہونے کی ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں مجبور شخص کا سامان انتہائی کم قیمت پر خریدنے کی جو روش دیکھنے کو ملتی ہے، وہ یقیناً ناپسندیدہ اور اصلاح طلب ہے کیونکہ یہ انسانی خیرخواہی کے جذبے اور دین کی اصل اسپرٹ کے خلاف ہے۔
خریدار کو صحیح مشورہ دینا
تجارت میں بعض مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ گاہک اپنی کم علمی یا ناتجربے کاری کی وجہ سے کسی چیز کی نوعیت یا خاصیت کو از خود سمجھ نہیں پاتا اور دکاندار یا تاجر ہی سے مشورہ طلب کرتا ہے۔ ایسی صورت میں تاجر کو چاہیے کہ اس کو درست مشورہ دے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: اَلْمُسْتَشَارُ مُؤتَمَنٌ یعنی ’’جس سے مشورہ طلب کیا جائے وہ امانت دار ہے‘‘۔ (سنن ابن ماجہ، ابواب الادب، حدیث: ۳۷۴۵، بروایت ابوہریرہؓ)،[یعنی اسے امانت داری کالحاظ کرتے ہوئے صحیح اور مفید مشورہ دینا چاہیے اور جس طرح امانت میں خیانت جائز نہیں ہے، اسی طرح کسی کو غلط مشورہ دینا بھی جائز نہیں، یہ بھی دھوکا دہی کی ہی ایک صورت ہے۔ایک شخص نے آپ پر بھروسہ کیا اور آپ نے اسے گمراہ کردیا۔ اس لیے تاجر کو چاہیے کہ محض ذاتی فوائد کے پیش نظر خریدار کو غلط مشورے نہ دے۔ اللہ تعالیٰ کی رزاقیت پر بھروسا رکھے، جو رزق اس کے مقدر میں ہوگا وہ ضرور مل کر رہے گا۔ اس کے اس عمل سے خریدار کا اس پر اعتماد قائم ہوجائے گا، جو انجامِ کار اس کے لیے ہی مفید ثابت ہوگا۔
قیمت متعین کرنا ، غیرمعین نہ رکھنا
بیع کے منعقد ہونے کی بنیادی شرائط میں سے یہ ہے کہ مبیع، یعنی فروخت ہونے والی چیز اور ثمن، یعنی قیمت دونوں معلوم اور معیّن ہوں۔ نیز فریقین باہمی رضامندی سے ان کے تبادلے پر راضی ہوں۔ مجہول اور غیر معین ثمن کے ساتھ بیع صحیح نہیں ہوتی، کیونکہ فقہا نے بیع کی تعریف ہی یہی بیان کی ہے کہ یہ باہمی رضامندی کے ساتھ مال کے عوض مال کا تبادلہ ہے یا ملکیت کی منتقلی ہے۔ شارح بخاری حافظ ابن حجر العسقلانیؒ (م: ۱۴۴۹ء) نے بیع کی تعریف یوں کی ہے: والبیعُ نقلُ مِلکٍ اِلَی الغیر بثمنٍ ،یعنی ’’بیع (کا مطلب ) قیمت کے عوض کسی چیز کی ملکیت دوسرے کی طرف منتقل کرنا ہے‘‘۔ (فتح الباری للحافظ ابن حجر العسقلانیؒ ، دمشق،۲۰۱۳ء، جلد ۷، ص ۵)
۲۰ویں صدی کے معروف فقیہ سیّد سابق مصریؒ (م: ۲۰۰۰ء) اپنی مایہ ناز تصنیف فقہ السنۃ میں، بیع کی تعریف میں رقم طراز ہیں: ’’شرعًا بیع سے مراد باہمی رضامندی کے راستے سے مال کا مال کے عوض تبادلہ یا ماذون (جس کی شریعت نے اجازت دی ہے) طریقے پر کسی عوض کے بدلے مِلک کا دوسرے کے نام انتقال ہے‘‘۔ (فقہ السنۃ ، ص ۸۹۸)
اس لیے یہ ضروری ہے کہ فروخت ہونے والی چیز کی قیمت متعین کی جائے جو فریقین کے علم میں بھی آجائے، خواہ وہ معاملہ نقد ہو یا ادھار کا اور سامان کی قیمت متعین کیے بغیر کوئی بھی تجارتی معاملہ نہ کیا جائے۔ کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ باہمی تعلقات کی وجہ سے سامان فروخت کرنے والا خریدنے والے سے یہ کہتا ہے کہ: آپ یہ سامان لے جائیں اور بازار میں جو قیمت رائج ہے یا جس قیمت پر لوگ اسے فروخت کر رہے ہیں، وہ مجھے آپ ادا کردیں گے، جب کہ بازار میں رائج قیمت کا فریقین یا خریدار کو علم نہیں ہوتا۔ اس صورت میں قیمت کے مجہول (Indeterminate) رہنے کی وجہ سے بیع درست نہیں ہوتی۔ اسی طرح یہ کہنا بھی درست نہیں کہ جو قیمت آپ کو پسند ہو وہ دے دیں، کیوں کہ یہ عین ممکن ہے جو قیمت خریدار اپنی پسند سے دے، وہ فروخت کرنے والے کی توقع سے کم ہو،جو اس کی دل شکنی کا باعث بنے اور باہمی نزاع کی کوئی صورت پیدا کر دے۔ اس لیے ہر حال میں سامان کی قیمت طے کرکے ہی خرید و فروخت کا معاملہ کرنا چاہیے اور اس حکم کے پیچھے حکمت یہی ہے کہ آگے چل کر آپس میں جھگڑے کا کوئی اندیشہ اور امکان باقی نہ رہے۔ یہ کوئی ضروری نہیں ہے کہ قیمت مروجہ کرنسی میں ہی طے ہو بلکہ ہروہ چیز جو شریعت کی نظر میں جائز ہو اور معاشرے میں اس کا بطور معاوضہ قبول کیا جانا رائج ہو، قیمت بننے کی اہل ہے ۔
ادھار معاملات کو ضبطِ تحریر میں لانا
یہ بھی اسلامی اصول میں سے ہے کہ خرید و فروخت کا معاملہ اگر ادھار پر مبنی ہوتو اسے ضبطِ تحریر میں لانا چاہیے۔ ایسی صورت میں قیمت کے ساتھ ادائی کی مدت اور اس کی صورت و ترکیب کا بھی طے کیا جانا ضروری ہے۔ مثال کے طور پر یہ کہ ادائی یکمشت ہوگی یا قسطوں میں؟ اور اگر قسطوں میں ہوگی تو کتنی قسطوں میں ہوگی وغیرہ؟ ان سب باتوں کو تحریر کے تحت لانا چاہیے، تاکہ آگے چل کر کسی بھی فریق کی بھول چوک سے، جس کا وقت گزرنے کے ساتھ امکان رہتا ہے، کسی قسم کی غلط فہمی اور اختلاف کی راہ ہموار نہ ہو۔
یہ معاملہ اتنا اہم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام میں اس کی تاکید فرمائی ہے۔ ارشاد باری ہے:
يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا تَدَايَنْتُمْ بِدَيْنٍ اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى فَاكْتُبُوْہُ(البقرۃ۲: ۲۸۲) اے ایمان والو! جب تم معینہ میعاد کے لیے ادھار کا کوئی معاملہ کرو تو اسے لکھ لیا کرو۔
آگے ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَلْيُمْلِلِ الَّذِيْ عَلَيْہِ الْحَـقُّ وَلْيَتَّقِ اللہَ رَبَّہٗ وَلَا يَبْخَسْ مِنْہُ شَـيْــــًٔـا۰ۭ فَاِنْ كَانَ الَّذِيْ عَلَيْہِ الْحَـقُّ سَفِيْہًا اَوْ ضَعِيْفًا اَوْ لَا يَسْتَطِيْعُ اَنْ يُّـمِلَّ ھُوَفَلْيُمْلِلْ وَلِــيُّہٗ بِالْعَدْلِ۰ۭ وَاسْتَشْہِدُوْا شَہِيْدَيْنِ مِنْ رِّجَالِكُمْ۰ۚ(البقرۃ۲: ۲۸۲) اور جو معاملہ اپنی میعاد سے وابستہ ہو، خواہ وہ چھوٹا ہو یا بڑا، اسے لکھنے میں کاہلی نہ کرو، یہ بات اللہ تعالیٰ کے نزدیک زیادہ قرین انصاف ہے اور گواہی کو درست رکھنے کا بہتر ذریعہ ہے ، اور اس بات کی قریبی ضمانت ہے کہ تم آیندہ شک میں نہیں پڑوگے۔
اس لیے اس طرح کے معاملات کو ضرور دستاویزی شکل دینی چاہیے۔ اس کا ایک اور فائدہ یہ ہے کہ فریقین میں سے اگر کسی کا بھی انتقال ہوجائے تو ان کے ورثا کے لیے حق کی ادائی یا وصولی دونوں ہی میں یہ دستاویز معاون ثابت ہوگی۔ بدقسمتی سے عام طور پر لوگ اس طرح کی تحریر کو باہمی اعتماد اور تعلقات کی نزاکتوں کے خلاف سمجھتے ہیں اور اس سلسلے میں کوتاہی برتتے ہیں، جو بسااوقات آگے چل کر نسیان یا غلط فہمی کے باعث باہمی نزاع کا سبب بن جاتاہے۔ کبھی کبھی تو مقدمہ بازی تک کی نوبت آجاتی ہے۔ اس لیے ہمیںاللہ تعالیٰ کے اس حکم کی حکمت کو پیش نظر رکھنا چاہیے اور سماجی اقدار کے خود ساختہ معیار قائم کر کے اس سلسلے میں کوتاہی نہیں برتنی چاہیے۔
ساتھ ہی فریقین کو چاہیے کہ وہ معاہدۂ بیع کی پابندی کریں، فروخت کنندہ میعاد معین سے پہلے ادائی کا مطالبہ نہ کرے اور خریدار اس سے تاخیر نہ کرے اور نہ ٹال مٹول ہی کا رویہ اختیار کرے، بلکہ حُسن ادائی کی صورت اختیار کرے۔ قرض کی ادائی پر قادر ہوتے ہوئے بھی ٹال مٹول کا رویہ اختیار کرنا ظلم ہے۔ اس لیے اس سے بچنا ضروری ہے اور اگر کسی معقول وجہ سے خریدار وقت پر ادھار کی رقم ادا نہ کرسکے تو تاجر کو خریدار سے نرمی کا رویہ اختیار کرنا چاہیے، اسے مہلت دینی چاہیے، اور جرمانہ وصول نہیں کرنا چاہیے کیونکہ یہ سود ہی کے زمرے میں داخل ہوجائے گا۔
تجارت اور کاروبار حصولِ رزق کے اہم اسباب میںسے ایک بڑا ذریعہ ہے ۔یہ وہ سبب ہے جس کی اہمیت اور افادیت ہر دور میں یکساںطور پر تسلیم کی گئی ہے۔ تاہم، ایک وقت تھا کہ جب مسلمان تجارت کے میدان میں ساری قوموں سے نمایاں مقام رکھتے تھے، جس کے بہت سے دینی و دُنیوی فوائد حاصل ہوتے تھے۔ تجارتی اسفار میں دعوتِ دین بھی ان کے پیش نظر رہتی تھی۔ لیکن آہستہ آہستہ مسلمانوں نے تجارت کے میدان میں بھی شکست کھانا شروع کی۔
قوم کی معاشی روش میں یہ تبدیلی شاید اس وجہ سے واقع ہوئی کہ اس کی نگاہوں کے سامنے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نہ رہا: عَلَیْکُمْ بِالتِّجَارَۃِ فَاِنَّ فِیْھَا تِسْعَۃَ أَعْشَارِ الرِّزْقِ، یعنی ’’ تم پر تجارت کو اختیار کرنا لازم ہے کیوں کہ رزق کے دس میں سے نو حصے فقط اس میں ہیں‘‘۔ (احیاء علوم الدین ،امام غزالی ، دار ابن حزم ، بیروت، ۲۰۰۵ء، ص۵۰۴)
آج کی دنیا میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کی تعبیر ہر کسی کی آنکھوں کے سامنے ہے۔ تجارت کی اہمیت اور فضیلت کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے او ر بھی ارشاداتِ مبارک موجود ہیں۔ مثلاً:جب آپؐ سے یہ دریافت کیا گیا کہ ’کون سی کمائی سب سے زیادہ پاکیزہ ہے؟ (أَیُّ الْکَسْبِ أَطْیَبُ؟) تو آپ ؐ نے فرمایا: ’’آدمی کااپنے ہاتھ سے کوئی کام کرنااور ہر وہ تجارت جو پاک بازی کے ساتھ ہو‘‘۔ گویا شریعت اسلامیہ کی عائد کردہ پابندیوں کو ملحوظ رکھ کر تجارت کی جائے ۔ (مسند احمد، حدیث : ۱۷۷۲۸، بروایت رافع بن خدیجؓ)
آپؐ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ: ’’تم میں سے کوئی شخص اگر رسی لے کر لکڑیوں کا گٹھا لائے پھر اسے فروخت کرے اور اس طرح اللہ تعالیٰ اس کی آبرو محفوظ رکھے، تو یہ اس سے بہتر ہے کہ وہ لوگوں سے سوال کرے اور اسے کچھ دیا جائے یا نہ دیا جائے‘‘ (بخاری، حدیث: ۲۳۷۳، بروایت زبیربن عوامؓ)۔ آپؐ کا یہ بھی ارشاد ہے: ’’سچا اور امانت دار تاجر (قیامت کے دن) انبیا،ؑ صدیقین اور شہدا کے ساتھ ہوگا‘‘۔ (سنن ترمذی، حدیث: ۱۲۰۹، بروایت ابو سعید خدریؓ)
ان چند روایات سے تجارت کی فضیلت، روزی کے اسباب میں اس کی اہمیت، اس کے ذریعے حاصل شدہ مال کی پاکیزگی اور تاجروں کا اللہ تعالیٰ کے نزدیک مقام واضح ہوتا ہے۔ باوجود ان سب بشارتوں کے، دیگر شعبوں کی طرح معیشت کے شعبے میں بھی امت مسلمہ نے رسول اکرمؐ کی رہنمائی کو قبول کرنے میں عملاً کوتاہی برتی۔البتہ حال میںمسلمان ایک بار پھر تجارت کی طرف متوجہ ہوتے دکھائی دے رہے ہیں، لیکن اس میں افسوس کا پہلو یہ ہے کہ وہ شرعی اور اخلاقی ضابطوں سے بے نیاز ہو کر تجارت کررہے ہیں۔ حالانکہ اگر و ہ نبی کریمؐ کی ہدایات کو اپنی تجارت میں داخل کرلیں،تو ان کی تجارت اللہ تعالیٰ کے قرب کا ذریعہ بن جائے گی۔ اس دنیا میں بھی اس کی برکتیں اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے اور آخرت میں بھی اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کے انعامات سے مالامال ہوں گے۔
اسی مقصد کے پیش نظر اس تحریر میں تجارت کے چند بنیادی اسلامی اصولوں کو پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ شاید یہ کوشش تجارت کے شعبے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کو زندہ کرنے میںکچھ کام آجائے۔ چونکہ تجارت کا علم بہت ہی دقیق ہے اور کتب حدیث وفقہ میں اس کی بہت سی جزئیات ملتی ہیں اور ان سب کا احاطہ ایک مضمون میںناممکن ہے، اس لیے یہاں صرف تجارت کے عام اصولوںپر اکتفا کیا گیا ہے۔
سب سے بنیادی بات یہ ہے کہ تجارت میں مشغول ہونے سے پہلے اس سے متعلق علوم کو سیکھنا چاہیے۔ رسول پاک ؐ کے فرمان: طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِیْضَۃٌ عَلٰی کُلِّ مُسْلِم،یعنی ’’علم (دین) طلب کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے‘‘ (سنن ابن ماجہ، حدیث: ۲۲۴، بروایت انس بن مالکؓ) کی تشریح میں فقہا نے لکھا ہے کہ: ’’آدمی کسب ِمعاش کے لیے جو کوئی پیشہ اختیار کرے، اس کا علم حاصل کرنابھی اس پر فرض ہو جاتا ہے‘‘۔ لہٰذا، اگر کسی نے تجارت کو اختیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے تو اس پر یہ فرض ہے کہ وہ بیع کے مسائل اور اس کی شرطیں معلوم کرے۔
امام غزالیؒ لکھتے ہیں: ’’اسی طرح اگرآدمی کوئی پیشہ اختیار کرتا ہے تو اس پیشے کا علم بھی اس پر واجب (یعنی فرض) ہوجاتا ہے، جیسے کہ اگر تاجر ہے تو سود کے مسائل کا علم اس پر واجب ہوجاتا ہے بلکہ اس پر یہ بھی واجب ہوجاتا ہے کہ بیع کی جملہ شرائط سے واقف ہو، تاکہ بیع باطل سے بچ سکے‘‘۔(کیمیاے سعادت،ص ۱۱۵) ۔پھر امام غزالیؒ نے لکھا ہے کہ: ’’بیع کے مسائل جاننا سب پر فرض ہے، کیونکہ ہر ایک کو اس سے واسطہ پڑسکتا ہے، کوئی شخص اس سے بری نہیں ہوسکتا (حوالہ سابق، ص ۲۵۹)۔ انھوں نے حضرت عمرؓ کے بارے میں لکھا کہ: جب وہ بازار جاتے تو تاجروں سے بیع کے مسائل پوچھتے اور جو نہیں بتاتا اسے کوڑے لگا کر علم سیکھنے کے لیے بھیجتے، اور فرماتے کہ جو بیع کے احکام نہ جانے اسے بازار میں نہیں ہونا چاہیے، یعنی تجارت نہیں کرنی چاہیے کہ لاعلمی میںحرام اور سود میں مبتلا ہوجائے گا اور اسے خبر بھی نہ ہوگی‘‘۔ (ایضاً، ص ۱۱۵)
امام ترمذیؒ نے حضرت عمرفاروقؓ کا یہ فرمان نقل کیا ہے:’’ہمارے بازارمیں خرید و فروخت نہ کرے مگر وہ شخص جس نے دین میں خوب سمجھ بوجھ حاصل کرلی ہو‘‘۔ (سنن ترمذی)
یہاں دین کی سمجھ سے ان کی مراد ہے،معاملات اور بیع و شراء (یعنی خرید و فروخت) کے مسائل سے آگاہ ہونا۔ گویا حضرت عمرؓ کی راے میں صرف ایسے شخص کے لیے تجارت کرنا درست اور جائز ہے، جو معاملات اور بیع و شراء کے مسائل سے پوری طرح واقف ہو، کیونکہ جو شخص ان سے واقف نہیں ہوگا، وہ کاروبار میں بے اصولیاں کرے گا، جو معاشرے میں معاشی بگاڑ کا سبب بنیں گی۔ اس لیے ہر مسلمان تاجر بلکہ ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ بیع و شراء کے مسائل کو جانے۔
تجارت میں نیت کی درستی بہت ضروری ہے:
امام غزالیؒ نے یہ روایت نقل کی ہے کہ: ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اصحاب کے ساتھ تشریف فرما تھے کہ ان لوگوں کی نگاہ ایک طاقت ور اور مضبوط جسم والے نوجوان پر پڑی، جو صبح سویرے ہی طلب معاش کے لیے بھاگ دوڑ کرنے میں مصروف تھا۔ بعض صحابہ کرامؓ نے کہا کہ افسوس ہے اس پر، کاش! اس کی جوانی اور طاقت اللہ کی راہ میں صرف ہوتی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایسا نہ کہو! کیوں کہ اگر وہ محنت و کوشش اس لیے کررہا ہے کہ خود کو سوال کرنے سے بچائے اور لوگوں سے بے نیاز ہوجائے تو وہ اللہ کی راہ میں ہے، اور اگر وہ اس لیے محنت کررہا ہے تاکہ اپنے ضعیف والدین یا کمزور و ناتواں اولاد کو لوگوں سے بے نیاز کر دے اور ان کی کفایت کرے تو بھی وہ اللہ کی راہ میں ہے، اور (ہاں) اگر وہ دوسروں پر دھونس جمانے اور کثرت مال کی غرض سے بھاگ دوڑ کررہا ہے تو (یقیناً) وہ شیطان کی راہ میں ہے۔ (احیاء علوم الدین للغزالی، ص۵۰۳)
اسی مضمون کی روایت کو حافظ سلیمان بن احمد طبرانی نے معاجم ثلاثہ میں کعب بن عجرہؓ سے، امام بیہقیؒ نے سنن الکبریٰ میں انس بن مالکؓ سے، اور امام ابن ابی الدنیاؓ نے کتاب العیال میں ابی المخارقؓ سے نقل کیا ہے۔ اختصار کے لیے صرف امام طبرانیؒ کی روایت نقل کی جاتی ہے: ایک صاحب کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے گزر ہوا تو صحابہ کرامؓ اس کے جسم کی ساخت اور چُستی کو دیکھ کر بڑے متعجب ہوئے اور کہنے لگے یارسولؐ اللہ! کاش! کہ یہ اللہ کی راہ (یعنی جہاد) میں ہوتا۔ رسول ؐاللہ نے فرمایا: ’’اگر یہ اپنے چھوٹے بچوں کے رزق کی تگ و دو میں نکلا ہے تو یہ بھی اللہ کی راہ میں ہے، اور اگر یہ اپنے بوڑھے والدین کی دیکھ بھال کی کوشش میں نکلا ہے تو بھی اللہ کی راہ میں ہے، اور اگر یہ اپنی ذات کو سوال و محتاجی سے بچانے کی سعی میں نکلا ہے تو بھی اللہ کی راہ میں ہے، اور اگر اپنے گھر والوں( کی کفایت) کے لیے محنت کی خاطر نکلا ہے تو بھی اللہ کی راہ میں ہے، اور (ہاں) اگر فخر اور ہوسِ مال کے لیے نکلا ہے تو طاغوت کی راہ میں ہے‘‘۔(المعجم الصغیر ، ج۲، ص۶۰)
مذکورہ احادیث سے جہاں کسب ِمعیشت کی فضیلت ظاہر ہوتی ہے، وہیں یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ اپنے اور اہل و عیال کی ضرورت سے زیادہ اس نیت سے کمانا، تاکہ عزیز و اقارب، پڑوسیوں اور فقرا و مساکین کی خبرگیری کروں گا، نیز زائد مال اللہ تعالیٰ کے دین کو زندہ کرنے میں لگائوں گا، مستحب اور مندوب ہے۔ البتہ صرف مال و دولت جمع کرکے فخرو تکبر کے اظہار کے لیے زیادہ کمانا حرام ہے اگرچہ حلال ذرائع ہی سے کیوں نہ کمایا جائے۔ (مظاہر حق جدید، جلد۳، ص ۴۲۶)
اس لیے اپنی صنعت و تجارت میں ان فرائض کفایہ میں سے ایک کو قائم کرنے ، انسانیت کو مصیبت و پریشانی سے بچانے اور راحت و آرام پہنچانے کی نیت کرنی چاہیے۔
ان نیتوں کے ساتھ ایک بندہ مومن تجارت کے لیے بازار میں جائے گا تو اللہ تعالیٰ کی مدد شاملِ حال ہوگی اور اس کی تجارت بھی عبادت کی ایک صورت بن جائے گی۔
تجارت کے لیے صبح سویرے نکلنا اور اپنی دکان علی الصبح کھولنا بہتر ہے ،کیوںکہ اس وقت کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے برکت کی دعا فرمائی ہے۔ اس لیے ایسا کرنے سے اموالِ تجارت میں بھی برکت کی قوی امید ہے۔
حضرت صخر غامدیؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللّٰھُمَّ! بَارِکْ لِأُمَّتِي فِي بُکُورِھَا(ابوداؤد، کتاب الجہاد، حدیث:۲۲۵۳)یعنی ’’اے اللہ! میری امت کے لیے دن کے ابتدائی حصے میں برکت ڈال دے ‘‘ ۔ آپؐ کو جب بھی کوئی سریہ ( فوجی دستہ) یا لشکر روانہ کرنا ہوتا تو اسے دن کے ابتدائی حصے میںروانہ فرمایا کرتے تھے۔ (عمارہ بن حدیدؒ نے کہا کہ) صخر غامدیؓ ایک تاجر تھے۔ وہ اپنی تجارتی کارندوں کو دن کے اول حصے میں روانہ کیا کرتے تھے، چنانچہ وہ مال دار ہوگئے اور ان کی دولت بہت بڑھ گئی تھی۔ (سنن ترمذی، حدیث: ۱۲۱۲)
عبدالرحمٰن بن عوفؓ کے با رے میں بھی اسی قسم کی روایت ہے کہ جب انھوں نے بنی قینقاع کے بازار میں تجارت شروع کی تھی، تو ان کا معمول یہی تھا کہ وہ بازار صبح سویرے جاکر تجارت کے کاموں میں مشغول ہوجاتے تھے (بخاری، حدیث: ۳۷۸۰)۔ پھر وہ بہت ہی مال دار ہوگئے تھے اور عرب کے بڑے تجار میں ان کا شمار ہوتا تھا۔افسوس کی بات یہ کہ آج ہم غیروں کی طرح رات گئے تک لہو و لعب میں مشغول رہتے ہیں اور صبح کو نماز اور ذکر و تلاوت سے غافل ہوکر سوتے رہتے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ صبح کی نماز اور اوراد و وظائف سے فارغ ہوکر اپنے کاروبار کی طرف نکلیں، گو اس وقت کاروبار نہ ہو جب بھی اس برکت کو حاصل کرنے کی نیت سے اپنے کام پر ضرور جانا چاہیے۔
ایک مسلمان تاجر کو چاہیے کہ وہ خود کو حلال اشیا کی تجارت تک ہی محدود رکھے، حرام کی طرف قدم نہ بڑھائے ،گو مالی منفعت اس میں زیادہ نظر آئے کیوں کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی تجارت کو حرام قرار دیا ہے۔ حضرت جابر بن عبداللہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے سال، جب کہ آپؐ مکہ ہی میں تھے ، یہ فرمایا: اِنَّ اللّٰہَ وَرَسُولَہُ حَرَّمَ بَیْعَ الْخَمْرِ، وَالْمَیْتَۃِ، وَالْخِنْزِیْرِ، وَالْأَصْنَامِ، (بخاری، کتاب البیوع، حدیث:۲۱۴۲) یعنی ’’بے شک اللہ اور اس کے رسولؐ نے شراب، مُردار، خنزیر اور بتوں کی تجارت کو حرام قرار دیا ہے‘‘۔
اس حدیث پر معمولی غور و فکر سے بھی یہ بات سمجھ میں آسکتی ہے کہ جن اشیا کی تجارت کو یہاں حرام قرار دیا گیا ہے، وہ سب اسلام میں حرام ہیں۔ لہٰذا، اس کا اطلاق ان اشیا کی تجارت پر بھی ہوگا، جن کا نام یہاں تو نہیں لیا گیا، لیکن جن کی حرمت نصوص سے ثابت ہے اور جن کے حرام ہونے پر علماے امت کا اتفاق ہے، مثلاً تمام نشہ آور اشیا، آلات غنا و مزامیر ، حرام و معصیت کے دھندوں میں استعمال ہونے والے سامان، فحش لٹریچر اور باطل نظریات پر مبنی کتابیں، عریانیت و فحاشی کو فروغ دینے والی فلمیں اور ویڈیوز اور موسیقی کے البم وغیرہ۔ ان تمام بے ہودہ اشیا کو قرآن کریم نے لَھْوَ الْحَدِیْث سے تعبیر کیا ہے، اور ان کی خرید و فروخت اور استعمال کی سخت مذمت کی ہے، کیوںکہ یہ چیزیں انسان کو دین اور فکرِ آخرت سے غافل کردیتی ہیں ، نیز اس کے اخلاق و کردار کو بھی بُری طرح متاثر کرتی ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اور انسانوں ہی میں سے کوئی ایسا بھی ہے جو کلامِ دل فریب خرید کر لاتا ہے تاکہ لوگوں کو اللہ کے راستے سے علم کے بغیر بھٹکا دے اور اِس راستے کی دعوت کو مذاق میں اُڑا دے۔ ایسے لوگوں کے لیے سخت ذلیل کرنے والا عذاب ہے۔(لقمٰن۳۱:۶)
بے شک جو لوگ اس بات کو پسند کرتے ہیں کہ مومنوں میں بے حیائی پھیلے ان کے لیے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہے۔ (النور۲۴:۱۹)
افسوس یہ ہے کہ موجودہ دور میں ایسی اشیا اور ایسے اسباب و محرکات کا ایک سیلاب سا اُمڈ آیاہے، جو مذکورہ برائیوں کو فروغ دے رہا ہے اور لوگ ان میں ان کے ممکنہ نتائج اور مضمرات سے بے پروا ہوکر ملوث ہورہے ہیں، بلکہ انھیں ہنسی مذاق اور تفریح کے طور پر لیتے ہیں لیکن وہی باتیں ان کے دنیوی و اخروی خسارے کا سبب بن رہی ہیں ۔
اسی طرح اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’حرام ہے تم پر مُردار جانور اور خون‘‘ (المائدہ۵:۳)۔ اس لیے اس کی تجارت بھی درست نہیں گرچہ اضطرار کی حالت میں، یعنی کسی کی جان بچانے کے لیے خون کا عطیہ دینا اور قبول کرنا دونوں جائز ہیں بلکہ قیمت دے کر لینا بھی جائز ہے،تاہم خون دینے والے کو چاہیے کہ وہ قیمت لیے بغیر صرف اللہ کی خوشنودی کی خاطر کسی کی جان بچانے کے لیے خون ہبہ کرے۔ ان شاء اللہ وہ سورۃ المائدۃ (آیت ۳۲) میں دی گئی اس بشارت کا مستحق گردانا جائے گا کہ جس شخص نے کسی کی جان بچالی تو یہ ایسا ہے گویا اس نے تمام انسانوں کی جان بچالی۔ خون کا عطیہ ایک اخلاقی فریضہ ہے۔ اگر خون کا عطیہ دینے والوں کو سہولت فراہم نہیں کی جائے گی تو لوگ اپنے اخراجات پر کسی کو خون دینے جانے کے لیے متردد ہوں گے۔
اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا واضح فرمان موجود ہے: اِنَّ اللّٰہَ اِذَا حَرَّمَ عَلٰی قَوْمٍ أَکْلَ شَیْئٍ حَرَّمَ عَلَیْھِمْ ثَمَنَہُ،یعنی ’’یقینا اللہ تعالیٰ نے جب کسی قوم پر کسی چیز کے کھانے کو حرام کیا ہے، تو ان پر اس کی قیمت لینے کو بھی حرام کردیا ہے‘‘ (سنن ابی داؤد، کتاب البیوع، حدیث: ۳۰۴۳، بروایت عبداللہ بن عباسؓ)۔ اس اصول کو اگر پیش نظر رکھا جائے تو تمام طرح کی حرام اشیا کی تجارت سے بچا جاسکتا ہے۔ اسلامی تعلیمات اور تمام طریقے کی تبلیغی و اصلاحی جدوجہد کا مقصدیہ ہے کہ ایک ایسا صالح معاشرہ وجود میں آجائے، جہاں برائیاں مفقود ہوںاور نیکیوںکا غلبہ ہوجائے ، کسی کی حق تلفی نہ ہو اور ہر شخص سکون و عافیت کی زندگی گزار سکے۔
اس اصول کا اطلاق تجارت کے میدان میں بھی ہوتا ہے۔ ایک تاجر کو یہ غور و فکر کرنا چاہیے کہ اس کی تجارت بلاواسطہ یا بالواسطہ گناہ کے فروغ میں مددگار تو نہیں ہورہی ہے، اور اگر اسے یہ یقین ہو کہ خریدار مجھ سے خریدی ہوئی چیز کا استعمال حرام مقاصد کے لیے کرے گا، تو اس کا اس خریدارکے ساتھ معاملہ کرنا جائز نہیں ہوگا گرچہ حلال اشیا کا ہی ہو۔ مثلاً انگور بیچنے والے کو اگر یہ یقین ہوجائے کہ خریدار اس کا استعمال شراب بنانے کے لیے کرے گا تو اس کے ساتھ اس کا تجارتی معاملہ کرنا درست نہیں ہوگا۔
حضرت بریدہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس نے انگور کو اس کے توڑنے کے زمانے میںروک لیا تاکہ اسے شراب بناکر فروخت کرے، تو وہ جانتے بوجھتے آتشِ دوزخ میں جاگھسا‘‘۔ (بُلُوغُ الْمَرَام ، ابن حجر العسقلانیؒ، کتاب البیوع، حدیث: ۷۴۹)
اسی طرح فتنے کے زمانے میں جب مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں، تو انھیں ہتھیار وںکا فروخت کرنا درست نہیں،کیوں کہ ان کا استعمال کسی مسلمان کے خلاف ہونے کا قوی امکان ہے اور یہ گناہ میں تعاون کی ایک شکل ہے۔ امام بخاریؒ نے عمران بن حصینؓ کے سلسلے میں یہ نقل کیا ہے کہ وہ فتنے کے دور میںہتھیاروں کی فروخت کو مکروہ قرار دیتے تھے۔ روایت کے الفاظ اس طرح ہیں: وَکَرِہَ عِمْرَانُ بْنُ حُصَیْنٍ بَیْعَہُ فِي الْفِتْنَۃِ، یعنی ’’عمران بن حصینؓ نے فتنے کے زمانے میں اسلحے کی فروخت کو مکروہ قرار دیا ہے‘‘۔ (بخاری، کتاب البیوع، حدیث:۲۱۰۰)
حرام کاروبار کے لیے جگہ فراہم کرنے یا فروخت کرنے کا معاملہ بھی اسی طرح ہے کہ اگر یہ علم ہوجائے کہ خریدار اس جگہ کا استعمال غلط اور حرام مقاصد کے لیے کرے گا تو اس کے ساتھ معاہدۂ بیع کرنا درست نہیں ہوگا، اور اگر معاہدے کے وقت اس کی نیت معلوم نہ ہوسکی اور آگے چل کر اس نے اس جگہ کا غلط استعمال شروع کردیا تو فروخت کرنے والے پر اس کا گناہ نہیں ہوگا۔ دوسرے معاملات کو بھی ان مثالوں پر قیاس کیا جاسکتا ہے۔
جو اشیا حلال ہیں، ان کی تجارت میں بھی یہ اصول پیش نظر رہنا چاہیے کہ جو چیز اپنے قبضے میں نہ ہو، اس کی بیع سے پرہیز کرے، کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح کی بیع سے منع فرمایا ہے۔ حضرت حکیم بن حزامؓ سے روایت ہے: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے منع کیا ہے کہ اس چیز کو بیچوں جو چیز میرے پاس نہ ہو‘‘۔ (جامع ترمذی، کتاب البیوع، حدیث: ۱۲۳۵)۔ ایک روایت میں یوں ہے کہ حکیم بن حزامؓ نے عرض کیا : یا رسولؐ اللہ! ایک شخص میرے پاس آتا ہے اور مجھ سے ایسی چیز خریدنے کا ارادہ کرتا ہے جو میرے پاس موجود نہیںہوتی، تو میں اس سے اس کا معاملہ کرلیتا ہوں۔ پھر اس چیز کو اس کے لیے بازار سے خرید لاتا ہوں (اور اس شخص کے حوالے کردیتا ہوں)۔ آپؐ نے (یہ سن کر) فرمایا: لَا تَبِعْ مَا لَیْسَ عِنْدَکَ،یعنی ’’تم کسی ایسی چیز کی بیع نہ کرو جو تمھارے پاس نہیں ہے ‘‘۔ (سنن نسائی، حدیث: ۴۶۱۳)
سنن نسائی کے اسی باب میں ایک روایت حضرت عبداللہ بن عمروؓ سے ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لَیْسَ عَلٰی رَجُلٍ بَیْعٌ فِیـْمَا لَا یَمْلِکُ،یعنی ’’آدمی اس چیز کی بیع نہیں کرسکتا جس کا وہ مالک نہیں ہے ‘‘۔ (سنن نسائی، کتاب البیوع، حدیث: ۴۶۱۲)۔ حضرت عبداللہ بن عمروؓ سے ہی اس سلسلے میں ایک روایت ابن ماجہؒ نے نقل کی ہے جس کے الفاظ ہیں: لَا یَحِلُّ بَیْعُ مَا لَیْسَ عِنْدَکَ، یعنی ’’جو چیز تمھارے پاس نہ ہو اس کا فروخت کرنا تیرے لیے حلال (جائز) نہیں ہے ‘‘۔ (سنن ابن ماجہ، کتاب التجارت، حدیث: ۲۱۸۸)
اس حکم کے پیچھے حکمت یہ ہے کہ اس بات کا امکان ہے کہ وہ سامان بازار میں نہ ملے، جس کی قیمت پہلے ہی لے لی گئی ہے۔ اگر مل جائے تو اس کا بھی امکان ہے کہ گاہک سے لی گئی قیمت سے کم یا بہت زیادہ قیمت میں ملے۔ یہ بھی کہ بازار سے خرید لانے کے بعد وہ گاہک کو پسند آئے یا نہ آئے۔ ان سب صورتوں میں تاجر اور گاہک کے مابین اختلاف اور جھگڑے کا قوی امکان ہے۔ اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح کی بیع سے منع فرما دیا، بلکہ تاجر اگر کوئی سامان خرید بھی چکا ہو، مگر وہ اس کے قبضے میں ابھی تک نہ آیا ہو تو بھی اس کا بیچنا درست نہیں۔ اس سلسلے میں بھی رسولؐ اللہ کی واضح ہدایات موجود ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’جو شخص غلہ خریدے تو اس کو اس وقت تک فروخت نہ کرے جب تک کہ اسے پوری طرح قبضے میں نہ لے لے ‘‘۔(بخاری، کتاب البیوع، حدیث: ۲۱۳۶)
حکیم بن حزامؓ سے ہی اس طرح روایت ہے کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ عرض کیا کہ میں ایک غیرمعمولی کاروباری آدمی ہوں تو میرے لیے کون سی چیز حلال ہے اور کون سی چیز حرام ؟ اس پر آپ ؐ نے فرمایا: ’’کسی بھی چیز کو اس وقت تک فروخت نہ کرو، جب تک اسے قبضے میں نہ لے لو ‘‘۔ (معجم الکبیر ، طبرانی، جلد۳، حدیث:۳۱۰۸)
امام ابوداؤدؒ نے حضرت زید بن ثابتؓ سے ایک ایسی روایت نقل کی ہے، جس سے یہ پتاچلتا ہے کہ خریدی ہوئی منقولہ شے پر (یعنی وہ چیزجو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جائی جاسکے) صرف قبضہ کافی نہیں بلکہ جب تک اسے خریدنے کی جگہ سے منتقل کرکے اپنے ٹھکانے پر نہ لے آئے، اس وقت تک اسے فروخت کرنا درست نہیں۔ انھوں نے حضرت عبداللہ بن عمرؓ کو ان کا خریدا ہوا تیل بازار میں اسی جگہ فروخت کرنے سے یہ کہہ کر روکا:یعنی ’’اسے فروخت نہ کرو جہاں پر تم نے خریدا ہے، حتیٰ کہ تم اسے اپنے ٹھکانے پر لے جاؤ، کیو نکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سودے کو اسی جگہ بیچنے سے منع فرمایا ہے، جہاں اسے خریدا جاتا ہو، حتیٰ کہ تجار اسے اپنے گھروں کی طرف لے جائیں‘‘۔ (سنن ابی داؤد، کتاب الاجارۃ، حدیث: ۳۴۹۹)
یہاں یہ سوال کسی کے بھی ذہن میںآسکتا ہے کہ آخر اس حکم کی حکمت کیا ہے؟ اس کے جواب میں پہلی بات تو یہ کہی جاسکتی ہے کہ یہ ایک طرح سے کرنسی کے بدلے زائد کرنسی کی بیع ہے (جو کہ شریعت میں درست نہیں)۔ کیونکہ اس میںدوسرے تاجر کی عملی طور پر کوئی خدمت شامل نہیں ہوئی۔ اس وجہ سے کہ سامان وہیں کا وہیں پڑا ہوا ہے۔ یہی وجہ حضرت عبداللہ بن عباسؓ نے حضرت طاؤس کے سوال پر بتائی، جسے امام بخاریؒ نے روایت کیا ہے۔ آپؓ نے فرمایا: ’’یہ تو روپے کا روپے کے بدلے بیچنا ہوا اور غلہ توبعد میں دیا جائے گا‘‘۔ (بخاری، کتاب البیوع، حدیث: ۲۱۳۲)
دوسری وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ پہلا تاجر جب یہ دیکھے گا کہ دوسرا بغیر کسی محنت کے بہت زیادہ نفع حاصل کر رہا ہے، تو اس کے دل میں یہ خیال پیدا ہوسکتا ہے کہ کیوں نہیں وہ پہلی بیع کو فسخ کرکے تیسرے شخص سے براہ راست زیادہ قیمت پر معاملہ کرلے ؟ اس طرح وہ قبضہ نہ دینے اور پہلی بیع کو فسخ کرنے کے حیلے بہانے بناسکتا ہے، جس سے آپس میں جھگڑے کی نوبت آسکتی ہے۔ اگر وہ قبضہ دے بھی دے تو اس زائد نفع سے محرومی کا احساس اسے ستائے گا۔ تیسری بات یہ ہے کہ ایسا کرنے میں باربرداری کے شعبے سے وابستہ مزدوروں کے روزگار کے متاثر ہونے کا بھی قوی امکان ہے جس سے حفاظت مقصود ہے۔ چوتھی بات یہ کہ قبضے میںلیے بغیر آگے فروخت کرنے کا یہ سلسلہ اگر یوں ہی چلتا رہا، جیساکہ کسی صنعت و حرفت کی کمپنی سے نکلنے والی مصنوعات یا درآمدات کے ذریعے بازار میں آنے والی اشیا کے ساتھ اکثر دیکھنے کوملتا ہے، تو اصل صارف (consumer) تک پہنچتے پہنچتے متعلقہ شے کی قیمت بڑھ کرکہیں سے کہیں پہنچ جائے گی۔ کیوںکہ بیچ کا ہر تاجر کچھ نہ کچھ نفع پر ہی اگلے تاجر کو سامان فروخت کرے گا۔ اس عمل کے نتیجے میں سب سے زیادہ مالی نقصان تو اصل صارف کو ہی برداشت کرنا پڑے گا جو کہ ایک عام آدمی ہے۔
تاہم، اس مسئلے پر فقہا کے درمیان اختلاف راے ہے۔ امام مالکؒ کے نزدیک قبضے سے پہلے صرف غلے کا فروخت کرنا جائز نہیں، باقی تمام اشیا کا بیچنا جائز ہے۔ امام ابوحنیفہؒ اور امام یوسفؒ کے نزدیک اشیاے منقولہ میں سے کسی بھی چیز کا قبضے سے قبل بیچنا جائز نہیں، لیکن عقار، یعنی زمین کا بیچنا جائز ہے۔ امام احمدؒ کا بھی بظاہر یہی مسلک ہے۔ امام شافعیؒ اور حنفیہ میں سے امام محمدؒ کے نزدیک کسی بھی چیز کو خواہ وہ غلہ ہو یا اشیاے منقولہ میں سے کوئی اور چیز ہو یا پھر زمین، خریدنے کے بعد قبضے سے قبل فروخت کرنا درست نہیں۔ (مظاہر حق جدید، جلد۳، حدیث ۴۹۶)
امام بخاریؒ نے اس سلسلے میں حضرت عبداللہ بن عباسؓ کا یہ قول نقل کیا ہے: أَمَّا الَّذِي نَھَی عَنْہُ النَّبِيُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَھُوَ الطَّعَامُ أَنْ یُبَاعَ حَتّٰی یُقْبَضَ یعنی ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس چیز سے منع فرمایا تھا، وہ اس غلے کی بیع تھی جس پر ابھی قبضہ نہ کیا گیا ہو ‘‘۔ پھر ابن عباسؓ نے فرمایا: وَلَا أَحْسِبُ کُلَّ شَیْئٍ اِلَّا مِثْلَہُ ‘‘ یعنی میرا گمان یہ ہے کہ اس سلسلے میں ہر چیز اسی ( غلہ) کی مانند ہے۔ (بخاری، کتاب البیوع، حدیث: ۲۱۳۵)
گویا انھوں نے بھی اس مسئلے میں غلے پر ہی غیر غلے کو قیاس کیا اور کسی بھی چیز کو خریدنے کے بعد قبضے سے پہلے بیچنے کو صحیح نہیں ٹھیرایا اور اسی راے کو امام شافعیؒ اور امام محمدؒ نے اختیار کیا ہے جس کی مطابقت حضرت حکیم بن حزامؓ اور حضرت زید بن ثابت ؓکی روایات سے بھی ہوگئی۔رہی یہ بات کہ واضح نصوص، یعنی حضرت حکیم بن حزامؓ اور حضرت زید بن ثابتؓ کی روایات کی موجودگی میں حضرت عبداللہ بن عباسؓ کو قیاس کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی، تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ عین ممکن ہے کہ ان تک اس وقت تک یہ نصوص نہ پہنچے ہوں جیساکہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ کو یہ حکم اس وقت تک نہ پہنچا تھا جب حضرت زید بن ثابتؓ نے ان کے تیل کی تجارت میں مداخلت کی۔
اسی خدشے کا اظہار علامہ شوکانیؒ نے اس مسئلے کی بحث میں نیل الاوطار میں کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں: ابن عباسؓ نے قیاس کا استعمال کیا اور یہ شاید اس وجہ سے ہو کہ ان تک ضروی نصوص نہ پہنچے ہوں کہ سودے میں تمام اشیا غلے کی مانند ہیں (نیل الاوطار شرح منتقی الأخبار، کتاب البیوع،ص۹۸۶ )۔اس لیے احتیاط کا تقاضا یہی ہے کہ ایک مسلمان تاجر کوئی بھی چیز، گو اس نے اسے خرید لیا ہو، اپنے قبضے میں آنے سے قبل کسی کو فروخت نہ کرے ۔
بیع و شراء کے انعقاد کی بنیادی شرائط میں سے ایک یہ ہے کہ معاملہ بائع اور مشتری کی باہمی رضامندی سے طے کیا جائے۔ بیچنے والا اپنے اختیار سے اپنی چیز بیچے اور خریدنے والا بھی اپنے اختیار اور خوشنودی سے اسے خریدے۔ اگر کسی جانب سے بھی دوسرے فریق کو مجبور کرکے معاملہ کرایا گیا، جب کہ وہ دل سے اس پر راضی نہ تھا، تو یہ بیع درست نہیں ہوگی بلکہ منعقد ہی نہیں ہوگی۔ کیوںکہ فرمان الٰہی ہے:
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوْٓا اَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ اِلَّآ اَنْ تَكُوْنَ تِجَارَۃً عَنْ تَرَاضٍ مِّنْكُمْ ۰ۣ (النساء۴: ۲۹)اے ایمان والو! آپس میں ایک دوسرے کا مال ناحق طریقے سے نہ کھاؤ، اِلاّ یہ کہ کوئی تجارت باہمی رضامندی سے وجودمیں آئی ہو۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی ارشاد ہے: إِنَّمَا الْبَیْعُ عَنْ تَرَاضٍ، یعنی ’’بیع (فریقین کی) باہمی رضامندی سے ہی ہوتی ہے ‘‘ (سنن ابن ماجہ، کتاب التجارت، بابُ بَیْعِ الْخِیَارِ، حدیث: ۲۱۸۵، بروایت ابوسعید خدریؓ)۔آپ ؐکا یہ بھی فرمان ہے: ’’کسی شخص کے لیے یہ حلال نہیںکہ وہ اپنے بھائی کا عصا بھی اس کی خوشنودی و رضامندی کے بغیر لے ‘‘۔ (صحیح ابن حبان بہ ترتیب ابن بلبانؒ، کتاب الجنایات،حدیث: ۵۹۷۸، بروایت ابوحمید ساعدیؓ)
یہ حدیث اس معاملے میں، یعنی بغیر رضا مندی کے کسی بھائی کی کوئی چیز لینے کی حرمت کی شدت کو واضح کررہی ہے، جسے سمجھنا کوئی مشکل امر نہیں، کہ لاٹھی جیسی معمولی چیز بھی جب کسی سے بغیر اس کی رضامندی کے لینا حلال نہیں، تو دوسری اہم چیزیںکیسے حلال ہوسکتی ہیں؟ اس لیے ایک مسلمان کو چاہیے کہ وہ خرید و فروخت کے ہر معاملے میں اس بنیادی اصول کا لحاظ رکھے بصورت دیگر وہ دوسرے کا مال باطل طریقے سے ہڑپ کر لینے والوں میں شمار کیا جائے گا۔
یہاں یہ واضح کردینا بھی مناسب ہے کہ یہ رضامندی حقیقی ہونی چاہیے، رسمی اور جبری نہیں، نہ دھوکے اور فریب کے ذریعے اس کی اصل قیمت سے دوسرے فریق کو اندھیرے میں رکھا گیا ہو۔ اگر ان حربوں سے رضامندی حاصل کی گئی ہو تو شریعت میں اس کا کوئی اعتبار نہیںاور متاثرہ فریق کو بیع منسوخ کرنے کا اختیار ہوگا۔ اسی طرح اگر کوئی شخص انتہائی مجبوری اور بے بسی کے عالم میں اپنی کوئی چیز بیچ رہا ہو، تو اسے بازار کے نرخ (rate) یا مروجہ نرخ سے بہت کم پر خریدنا، اگرچہ وہ اس پر بظاہر راضی بھی ہو، درست نہیں۔ کیوںکہ یہ بات یقینی ہے کہ مجبور شخص خوش دلی سے غیرمعمولی کم نرخ پر اپنی چیز بیچنے کو تیار نہیں ہوتا، جب کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی منشاء قلبی خوشی کے موجود ہونے کی ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں مجبور شخص کا سامان انتہائی کم قیمت پر خریدنے کی جو روش دیکھنے کو ملتی ہے، وہ یقیناً ناپسندیدہ اور اصلاح طلب ہے کیونکہ یہ انسانی خیرخواہی کے جذبے اور دین کی اصل روح کے خلاف ہے۔
تجارت میں بعض مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ گاہک اپنی کم علمی یا ناتجربہ کاری کی وجہ سے کسی چیز کی نوعیت یا خاصیت کو از خود سمجھ نہیں پاتا اور دکان دار یا تاجر ہی سے مشورہ طلب کرتا ہے۔ ایسی صورت میں تاجر کو چاہیے کہ اس کو درست مشورہ دے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: اَلْمُسْتَشَارُ مُؤتَمَنٌ ، ’’جس سے مشورہ طلب کیا جائے وہ امانت دار ہے‘‘۔ (سنن ابن ماجہ، ابواب الادب، حدیث: ۳۷۴۵، بروایت ابوہریرہؓ)۔اسے امانت داری کالحاظ کرتے ہوئے صحیح اور مفید مشورہ دینا چاہیے۔ جس طرح امانت میں خیانت جائز نہیں ہے، اسی طرح کسی کو غلط مشورہ دینا بھی جائز نہیں، یہ بھی دھوکا دہی کی ہی ایک صورت ہے۔ایک شخص نے آپ پر بھروسا کیا اور آپ نے اسے گمراہ کردیا۔ اس لیے تاجر کو چاہیے کہ محض ذاتی فوائد کے پیش نظر خریدار کو غلط مشورے نہ دے۔ اللہ تعالیٰ کی رزّاقیت پر بھروسا رکھے، جو رزق اس کے مقدر میں ہوگا وہ ضرور مل کر رہے گا۔ اس کے اس عمل سے خریدار کا اس پر اعتماد قائم ہوجائے گا، جو انجامِ کار اس کے لیے ہی مفید ثابت ہوگا۔
بیع کے منعقد ہونے کی بنیادی شرائط میں سے یہ ہے کہ مبیع، یعنی فروخت ہونے والی چیز اور ثمن، یعنی قیمت، دونوں معلوم اور معیّن ہوں۔ نیز فریقین باہمی رضامندی سے ان کے تبادلے پر راضی ہوں۔ مجہول اور غیر معین ثمن کے ساتھ بیع صحیح نہیں ہوتی، کیونکہ فقہا نے بیع کی تعریف ہی یہی بیان کی ہے کہ یہ باہمی رضامندی کے ساتھ مال کے عوض مال کا تبادلہ ہے یا ملکیت کی منتقلی ہے۔ شارح بخاری حافظ ابن حجر العسقلانیؒ (م: ۱۴۴۹ء) نے بیع کی تعریف یوں کی ہے: والبیعُ نقلُ مِلکٍ اِلَی الغیر بثمنٍ ،یعنی ’’بیع (کا مطلب ) قیمت کے عوض کسی چیز کی ملکیت دوسرے کی طرف منتقل کرنا ہے‘‘۔ (فتح الباری ،ابن حجر العسقلانیؒ ، دمشق،۲۰۱۳ء، جلد ۷، ص ۵)
۲۰ویں صدی کے معروف فقیہ سیّد سابق مصریؒ (م: ۲۰۰۰ء) اپنی مایہ ناز تصنیف فقہ السنۃ میں، بیع کی تعریف میں رقم طراز ہیں: ’’شرعًا بیع سے مراد باہمی رضامندی کے راستے سے مال کا مال کے عوض تبادلہ یا ماذون (جس کی شریعت نے اجازت دی ہے) طریقے پر کسی عوض کے بدلے مِلک کا دوسرے کے نام انتقال ہے‘‘۔ (فقہ السنۃ ، ص ۸۹۸)
اس لیے یہ ضروری ہے کہ فروخت ہونے والی چیز کی قیمت متعین کی جائے جو فریقین کے علم میں بھی آجائے، خواہ وہ معاملہ نقد ہو یا ادھار کا اور سامان کی قیمت متعین کیے بغیر کوئی بھی تجارتی معاملہ نہ کیا جائے۔ کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ باہمی تعلقات کی وجہ سے سامان فروخت کرنے والا خریدنے والے سے یہ کہتا ہے کہ: ’آپ یہ سامان لے جائیں اور بازار میں جو قیمت رائج ہے یا جس قیمت پر لوگ اسے فروخت کر رہے ہیں، وہ مجھے آپ ادا کردیں ‘، جب کہ بازار میں رائج قیمت کا فریقین یا خریدار کو علم نہیں ہوتا۔ اس صورت میں قیمت کے مجہول (Indeterminate) رہنے کی وجہ سے بیع درست نہیں ہوتی۔ اسی طرح یہ کہنا بھی درست نہیں کہ جو قیمت آپ کو پسند ہو وہ دے دیں، کیوں کہ یہ عین ممکن ہے جو قیمت خریدار اپنی پسند سے دے، وہ فروخت کرنے والے کی توقع سے کم ہو،جو اس کی دل شکنی کا باعث بنے اور باہمی نزاع کی کوئی صورت پیدا کر دے۔ اس لیے ہر حال میں سامان کی قیمت طے کرکے ہی خرید و فروخت کا معاملہ کرنا چاہیے اور اس حکم کے پیچھے حکمت یہی ہے کہ آگے چل کر آپس میں جھگڑے کا کوئی اندیشہ اور امکان باقی نہ رہے۔ یہ کوئی ضروری نہیں ہے کہ قیمت مروجہ کرنسی میں ہی طے ہو بلکہ ہروہ چیز جو شریعت کی نظر میں جائز ہو اور معاشرے میں اس کا بطور معاوضہ قبول کیا جانا رائج ہو، قیمت بننے کی اہل ہے ۔
یہ بھی اسلامی اصول میں سے ہے کہ خرید و فروخت کا معاملہ اگر ادھار پر مبنی ہوتو اسے ضبطِ تحریر میں لانا چاہیے۔ ایسی صورت میں قیمت کے ساتھ ادائی کی مدت اور اس کی صورت و ترکیب کا بھی طے کیا جانا ضروری ہے۔ مثال کے طور پر یہ کہ ادائی یکمشت ہوگی یا قسطوں میں؟ اور اگر قسطوں میں ہوگی تو کتنی قسطوں میں ہوگی وغیرہ؟ ان سب باتوں کو تحریر کے تحت لانا چاہیے، تاکہ آگے چل کر کسی بھی فریق کی بھول چوک سے، جس کا وقت گزرنے کے ساتھ امکان رہتا ہے، کسی قسم کی غلط فہمی اور اختلاف کی راہ ہموار نہ ہو۔
یہ معاملہ اتنا اہم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام میں اس کی تاکید فرمائی ہے:
يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا تَدَايَنْتُمْ بِدَيْنٍ اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى فَاكْتُبُوْہُ (البقرۃ۲: ۲۸۲) اے ایمان والو! جب تم معینہ میعاد کے لیے ادھار کا کوئی معاملہ کرو تو اسے لکھ لیا کرو۔
آگے ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَلَا تَسْــَٔـــمُوْٓا اَنْ تَكْتُبُوْہُ صَغِيْرًا اَوْ كَبِيْرًا اِلٰٓى اَجَلِہٖ ۰ۭ ذٰلِكُمْ اَقْسَطُ عِنْدَ اللہِ وَاَقْوَمُ لِلشَّہَادَۃِ وَاَدْنٰٓى اَلَّاتَرْتَـابُوْٓا (البقرۃ۲: ۲۸۲) اور جو معاملہ اپنی میعاد سے وابستہ ہو، خواہ وہ چھوٹا ہو یا بڑا، اسے لکھنے میں کاہلی نہ کرو، یہ بات اللہ تعالیٰ کے نزدیک زیادہ قرینِ انصاف ہے اور گواہی کو درست رکھنے کا بہتر ذریعہ ہے ، اور اس بات کی قریبی ضمانت ہے کہ تم آیندہ شک میں نہیں پڑوگے۔
اس لیے اس طرح کے معاملات کو ضرور دستاویزی شکل دینی چاہیے۔ اس کا ایک اور فائدہ یہ ہے کہ فریقین میں سے اگر کسی کا بھی انتقال ہوجائے تو ان کے ورثا کے لیے حق کی ادائی یا وصولی دونوں ہی میں یہ دستاویز معاون ثابت ہوگی۔ بدقسمتی سے عام طور پر لوگ اس طرح کی تحریر کو باہمی اعتماد اور تعلقات کی نزاکتوں کے خلاف سمجھتے ہیں اور اس سلسلے میں کوتاہی برتتے ہیں، جو بسااوقات آگے چل کر نسیان یا غلط فہمی کے باعث باہمی نزاع کا سبب بن جاتاہے۔ کبھی کبھی تو مقدمہ بازی تک کی نوبت آجاتی ہے۔ اس لیے ہمیںاللہ تعالیٰ کے اس حکم کی حکمت کو پیش نظر رکھنا چاہیے اور سماجی اقدار کے خود ساختہ معیار قائم کر کے اس سلسلے میں کوتاہی نہیں برتنی چاہیے۔
ساتھ ہی فریقین کو چاہیے کہ وہ معاہدۂ بیع کی پابندی کریں، فروخت کنندہ میعادِ معین سے پہلے ادائی کا مطالبہ نہ کرے اور خریدار اس سے تاخیر نہ کرے اور نہ ٹال مٹول ہی کا رویہ اختیار کرے، بلکہ حُسن ادایگی کی صورت اختیار کرے۔ قرض کی ادائی پر قادر ہوتے ہوئے بھی ٹال مٹول کا رویہ اختیار کرنا ظلم ہے۔ اس لیے اس سے بچنا ضروری ہے اور اگر کسی معقول وجہ سے خریدار وقت پر ادھار کی رقم ادا نہ کرسکے تو تاجر کو خریدار سے نرمی کا رویہ اختیار کرنا چاہیے، اسے مہلت دینی چاہیے، اور جرمانہ وصول نہیں کرنا چاہیے کیونکہ یہ سود ہی کے زمرے میں داخل ہوجائے گا۔ (جاری)