قرآن کریم عالم انسانیت پر نازل ہونے والی اللہ کی نعمتوں میںسے ایک عظیم نعمت ہے۔ یہ وہ نسخۂ کیمیا ہے، جس کے ذریعے انسان نہ صرف یہ کہ اپنے خالق حقیقی کی معرفت حاصل کرسکتا ہے، بلکہ اپنے وجود کے حقیقی مقاصد کو بھی پہچان سکتا ہے۔ وہ یہ جان سکتا ہے کہ اس کے لیے کامیابی اور نجات کی راہ کون سی ہے، اور کس طرزِ حیات کو اختیار کرنے میں اس کی دنیوی و اُخروی ناکامی ہے؟ اسی لیے اللہ ربّ العزت نے اسے کتاب ہدایت قرار دیاہے۔ ارشاد فرمایا:
شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِيْٓ اُنْزِلَ فِيْہِ الْقُرْاٰنُ ھُدًى لِّلنَّاسِ وَبَيِّنٰتٍ مِّنَ الْہُدٰى وَالْفُرْقَانِ۰ۚ (البقرۃ۲:۱۸۵) (روزوں کا مہینہ) رمضان کا مہینہ (ہے) جس میں قرآن (اوّل اوّل) نازل ہوا جو لوگوں کا رہنما ہے اور (جس میں) ہدایت کی کھلی نشانیاں ہیں اور (جو حق و باطل کو) الگ الگ کرنے والا ہے۔
گویا راہِ ہدایت اور راہِ ضلالت اور حق و باطل کے فرق کو اس کتابِ الٰہی نے کھول کھول کر بیان کردیا ہے۔ دوسری جگہ اللہ رب العزت نے اسے اپنی نصیحت، لوگوں کے دلوں کی بیماریوں کے لیے شفا، ہدایت اور رحمت قرار دیا ہے۔ ارشاد باری ہے:
يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ قَدْ جَاۗءَتْكُمْ مَّوْعِظَۃٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَشِفَاۗءٌ لِّمَا فِي الصُّدُوْرِ۰ۥۙ وَہُدًى وَّرَحْمَۃٌ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ۵۷ (یونس۱۰:۵۷) اے لوگو! تمھارے پاس تمھارے ربّ کی طرف سے نصیحت اور دلوں کی بیماریوں کی شفا اور مومنوںکے لیے ہدایت اور رحمت آپہنچی ہے۔
یعنی یہ کتاب تمام عالم انسانیت کے لیے ان کے ربّ کی طرف سے نصیحت و ہدایت ہے۔ پھر جو لوگ اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کی اس نصیحت کو قبول کرکے اس پر ایمان لاتے ہیں اور اس کی ہدایتوں پر عمل کرتے ہیں، یہ ان کے روحانی امراض، کفرو شرک، حب دنیا، تکبر، بُغض و عناد، بخل اور خود پسندی وغیرہ جو انسان کے دل کو تباہ و برباد کردیتے ہیںکے لیے شفااور رحمت ثابت ہوتی ہے۔
قرآن کریم کے یہ فوائد انسان کو تب ہی حاصل ہوسکتے ہیں،جب وہ اس کی تلاوت کرے، اس کی آیتوں میں غور و فکر کرے، اس کے احکام، اوامر و نواہی اور نصیحت و عبرت آمیز باتوں کو سمجھے اور اس پر عمل پیرا بھی ہو۔ اسی لیے اللہ رب العزت نے اپنے رسول کو اور ایمان والوں کو اس کی تلاوت کا حکم فرمایا اور اس کے آداب بھی سکھائے۔ ایک جگہ ارشاد فرمایا: اُتْلُ مَآاُوْحِيَ اِلَيْكَ مِنَ الْكِتٰبِ (العنکبوت ۲۹:۴۵)’’(اے محمدؐ!) یہ کتاب جو تمھاری طرف وحی کی گئی ہے، اس کی تلاوت کیا کرو‘‘ ،تو دوسری جگہ یہ حکم بھی وارد کیا: وَرَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِيْلًا۴ۭ (المزّمّل۷۳:۴)’’قرآن کو ٹھیر ٹھیر کر پڑھا کرو‘‘۔
قرآن کریم کو آہستہ آہستہ اور ٹھیرٹھیر کر پڑھنے کا مقصد صرف یہ نہیں ہے کہ اس کے الفاظ صحیح ڈھنگ سے اور مخارج کے ساتھ ادا ہوں، بلکہ یہ بھی ہے کہ اس کے معانی و مطالب کو بھی قاری خوب سمجھتا جائے۔ اس کی تائید عبد اللہ بن عمرؓ کی اس روایت سے بھی ہوتی ہے، جس میں کم سے کم دنوں میں قرآن ختم کرنے کی تحدید کے سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد منقول ہے: لَا یَفْقَہُ مَنْ قَرَأَ الْقُرْآنَ فِي أَقَلَّ مِنْ ثَلَاثٍ،’’ جس نے قرآن تین دن سے کم میں پڑھا وہ اس کے معانی کو نہیں سمجھ سکا‘‘(سنن ابی داؤد، کتاب الصلوٰۃ، بَابُ تَحْزِیْبِ الْقُرْآن)۔
صاف ظاہر ہوا کہ تلاوت میں قرآن کا سمجھ کر پڑھنا ہی مطلوب ہے۔ اتنا ہی نہیں، قرآن کریم نے اپنے نزول کا مقصد دوسری جگہ واضح طور پر تدبر و تذکر کو ہی بتایا ہے: كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰہُ اِلَيْكَ مُبٰرَكٌ لِّيَدَّبَّرُوْٓا اٰيٰتِہٖ وَلِيَتَذَكَّرَ اُولُوا الْاَلْبَابِ۲۹ (صٓ۳۸:۲۹)’’(یہ) کتاب جو ہم نے تم پر نازل کی ہے بابرکت ہے تاکہ لوگ اس کی آیتوں میں غور کریں اور تاکہ اہل عقل نصیحت پکڑیں‘‘۔ اس آیت سے یہ سمجھنا دشوار نہیں کہ قرآن حکیم کی آیتوں میں تدبر و تفکراس کے نزول کے بنیادی مقاصد میں سے ہے۔ امام محمد بن احمد بن ابوبکرقرطبیؒ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں : ’’یہ آیت اور اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد: اَفَلَا يَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ اَمْ عَلٰي قُلُوْبٍ اَقْفَالُہَا۲۴ (محمد ۴۷:۲۴)،قرآن میں غور و فکر کرنے کے وجوب پر دلالت کرتا ہے تاکہ اس کے معنی کو جان لیا جائے‘‘۔ (تفسیر قرطبی ، ضیاء القرآن پبلی کیشنز، لاہور،۲۰۱۲ء، ج…، ص ۲۹۳)
قرآن کی آیات میں غور و فکر کرنا ہرمسلمان پر واجب ہے۔ لیکن ایک حیرت انگیز طرزِفکر جو مسلمانوں میں یہ پیدا ہوگیا ہے کہ’’ عام مسلمانوں کے لیے قرآن پاک کی تلاوت کافی ہے اور اس کی آیتوں میں غور و فکر کرنا اور ان کے معنی و مطالب کو سمجھنا صرف علما کا کام ہے‘‘۔ گویا یہ کتاب صرف علما کے لیے نازل ہوئی تھی، عوام کے لیے نہیں! حقیقت یہ ہے کہ اس کی آیتوں میں غور و فکر کرنے، ان کے معنی و مطالب کو سمجھنے اور ان پر عمل کی جستجو ہرمسلمان کے لیے ضروری ہے۔
سورئہ نساء میں ہے: اَفَلَا يَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ۰ۭ وَلَوْ كَانَ مِنْ عِنْدِ غَيْرِ اللہِ لَوَجَدُوْا فِيْہِ اخْتِلَافًا كَثِيْرًا۸۲ (النسآء۴:۸۲) ’’بھلا یہ قرآن میں غور کیوں نہیں کرتے؟ اگر یہ اللہ کے سوا کسی اور کا (کلام) ہوتا تو اس میں (بہت سا) اختلاف پاتے‘‘ ۔ قاضی محمد ثناء اللہ پانی پتیؒ اس آیت کی تفسیر میں یہ فرماتے ہیں: ’’ يَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ میں واؤ ضمیر سے مراد منافق ہیں، یعنی کیا منافق قرآن حکیم کے الفاظ اور معانی میں تدبر نہیں کرتے اور اس میں جو غرائب ہیںان میں نظر و فکر نہیں کرتے، تاکہ ان پر یہ حقیقت ظاہر ہوجائے کہ یہ انسان کا کلام نہیں کہ انھیں ایمان کی نعمت حاصل ہوجاتی اور وہ نفاق کو چھوڑ دیتے‘‘۔ (تفسیر مظہری، حوالہ بالا، ۲۰۰۲ء، ج۲،ص ۴۲۴)
ذرا غور کیجیے کہ قرن اولیٰ کے منافقوں سے بھی یہ توقع کی جارہی تھی کہ وہ قرآن میں غوروفکر کریں تاکہ ان کے ایمان و اعمال کی اصلاح ہو، لیکن اب ایک مسلمان بھی اس کو اپنے لیے ضروری نہیں سمجھتا۔ یہ اسی انداز فکر کا نتیجہ ہے جس کے تحت ہمارے ذہنوں میں یہ بٹھایا گیا ہے کہ تم قرآن کو نہیں سمجھ سکتے۔ اس لیے اس میں غور و فکر کرنے کے بجاے صرف ثواب اور برکت کی خاطر اس کے الفاظ کی تلاوت کرتے جاؤ۔ حالانکہ بہت سے بدنصیب توایسے بھی ہیں جنھیں فقط الفاظ کی تلاوت کی بھی توفیق نہیں ہوتی۔ بلاشبہہ قرآن حکیم کی تلاوت گو وہ معنی و مطالب کو سمجھے بغیر ہو ثواب، برکت اور نفع سے خالی نہیں،لیکن کیا اس سے نزول قرآن کا مقصد پورا ہوجاتا ہے؟ نہیں اور قطعاً نہیں ! کوئی بھی کتاب یا تحریر جس کے اندرکچھ ہدایات ہوں اس کو سمجھے بغیر پڑھنااس کی تالیف و تصنیف کے بنیادی مقاصد کو پورا نہیں کرسکتا۔ یہ ٹھیک ویسے ہی ہے جیسے ایک مریض کا ڈاکٹر کا لکھا ہوا نسخہ اس کو سمجھے بغیر پڑھتے رہنا اوراس سے شفا کی امید رکھنا۔
سوال یہ بھی ہے کہ جس کتاب کو اللہ رب العزت نے عالم انسانیت کی ہدایت کے لیے نازل کیا ہو، وہ اتنی مشکل کیسے ہوسکتی ہے کہ لوگوں کو سمجھ میں ہی نہ آئے؟ آخر کن موضوعات سے یہ بحث کرتی ہے؟ یہ سوالات دین کے ایک عام طالب علم کے ذہن میں پیدا ہوتے ہیں۔ اگر ان کا جواب قرآن میں تلاش کریں تو آپ پائیں گے کہ: اس میں کائنات میں موجود اللہ تعالیٰ کی نشانیوں کی بنیاد پر اس کے وجود اور اس کی وحدانیت کے دلائل دیے گئے ہیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کے دلائل ہیں، دنیا کی بے ثباتی اورآخرت کی حقیقت کے بیانات ہیں، انسان کی زندگی کے مقاصد کی وضاحت اور اخلاقِ حسنہ کی تعلیم ہے، اخلاقِ رذیلہ سے بچنے کی نصیحتیں، اعمالِ صالحہ کی ترغیبات اور ان سے متعلق بشارتیں ہیں، اعمالِ قبیحہ سے بچنے کی ہدایات اور ان سے متعلق وعیدیں ہیں، قصص و واقعات ہیں جن سے انسان عبرت حاصل کرسکے اور اوامر و نواہی، یعنی احکام ہیں جن کا تعلق انسان کی زندگی سے ہے۔ ان میں ایسی کیا چیز ہے جو ایک تعلیم یافتہ انسان کی سمجھ میں نہ آسکے؟ ہاں، یہ ضرور ہے کہ قرآنی آیتوں سے مسائل کی تخریج اور فقہی استنباط ہر کسی کے بس میں نہیں لیکن علم کا وہ مقام جہاں یہ صفات حاصل ہوتی ہیں، درجہ بدرجہ مطالعہ اور تدبر و تفکر سے ہی حاصل ہوسکتا ہے۔
نیز یہ بھی دیکھیے کہ احکام سے متعلق آیات کتنی ہیں ؟ علامہ جلال الدین سیوطیؒ نے امام غزالیؒ کے حوالے سے ان کی تعداد ۵۰۰ بتائی ہے اور دوسرے قول میں ۱۵۰ آیات کا ذکر ہے (الاتقان فی علوم القرآن، دارالاشاعت ،کراچی ،۲۰۰۸ء، ج ۲، ص ۲۷۸)۔ ان سب کو اگر یک جا کیا جائے تو ان کی مقدار دو ڈھائی پارے کی مقدار سے زیادہ نہیں ہوگی۔ فرض کرلیجیے کہ اگر اتنی آیتیں صرف علما ہی سمجھ سکتے ہیں تو باقی حصے کے بارے میں آپ کیا کہیں گے؟ حقیقت یہ ہے کہ یہ طرزِ فکر کمزور دلیلوںپر مبنی ہے خصوصاً تب، جب کہ علما نے ان آیات کی تشریح بھی کردی ہو۔
اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ نے تو یہ اعلان عام پہلے ہی کیا ہواہے کہ قرآن مجید رشد و ہدایت کی آسان کتاب ہے: وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّكْرِ فَہَلْ مِنْ مُّدَّكِرٍ۱۷(القمر۵۴:۱۷)’’ اور تحقیق ہم نے قرآن کو نصیحت (سمجھنے) کے لیے آسان کر دیا ہے، تو کیا کوئی ہے نصیحت حاصل کرنے والا؟‘‘ اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ قرآن سے نصیحت اور عبرت حاصل کرنا بالکل آسان ہے، بس ضرورت ہے تو اس سلسلے میں نیک نیتی سے سعی اور جد و جہد کی، لیکن ہم لوگوں نے اسے مشکل بتاکرامت کے ایک بڑے طبقے کو قرآن سے دور کردیا۔ حالانکہ انسان اگر اخلاص کے ساتھ اور ہدایت کی طلب میں معنی پر غور و فکر کرتے ہوئے قرآن کا مطالعہ کرے تو اسے ضرور ہدایت ملے گی۔
صف اول کے محدث و مجدد شاہ ولی اللہ دہلویؒ (م: ۱۱۷۶ھ ) نے سب سے پہلے اس نظریے کی تردید کی اور عوام تک قرآن کو پہنچانے کے لیے اپنے دور کی عام زبان، یعنی فارسی میں قرآن کا ترجمہ کیا اور بعد میں ان کے اس مشن کو ان کے لائق فرزندان ارجمند شاہ عبد القادر دہلویؒ (م: ۱۲۳۰ھ) اور شاہ رفیع الدین دہلویؒ (م:۱۲۳۳ھ)نے اردو تراجم کے ساتھ اور شاہ عبدالعزیز دہلویؒ (م: ۱۲۳۹ھ) نے دہلی جیسے مرکزی شہر میں ۶۲،۶۳ سال تک درس قرآن کا سلسلہ جاری رکھ کر آگے بڑھایا۔ اسی خانوادے سے تعلق رکھنے والے شاہ اسمٰعیل شہیدؒ ہیںجن کو حضرت شاہ عبدالعزیز صاحب محدث دہلویؒ نے حجۃالاسلام، تاج المفسّرین ، فخرالمحدثین، سرآمد علماے محققین جیسے القاب سے نوازا ہے اور انھیں علماے ربانی میں سے شمارکیا ہے۔
شاہ اسماعیل شہید اس باطل نظریے کی تردید میں یوں رقمطراز ہیں:’’ عوام میں یہ بات مشہور ہے کہ قرآن و حدیث کو سمجھنا بڑا مشکل ہے۔ اس کے لیے بڑے علم کی ضرورت ہے۔ ہم جاہل کس طرح سمجھ سکتے ہیںاور کس طرح اس کے موافق عمل کرسکتے ہیں؟ اس پر عمل بھی صرف ولی اور بزرگ ہی کرسکتے ہیں۔ ان کا خیال قطعی بے بنیاد ہے کیونکہ حق تعالیٰ نے فرمایا کہ قرآن پاک کی باتیں صاف صاف اور سلجھی ہوئی ہیں: وَلَقَدْ اَنْزَلْنَآ اِلَيْكَ اٰيٰتٍؚبَيِّنٰتٍ۰ۚ وَمَا يَكْفُرُ بِہَآ اِلَّا الْفٰسِقُوْنَ۹۹ (البقرۃ ۲:۹۹) ’’بلاشبہہ ہم نے آپؐ پر صاف صاف آیتیں اتاری ہیں، ان کا انکار فاسق ہی کرتے ہیں‘‘، یعنی ان کا سمجھنا کچھ بھی مشکل نہیں نہایت آسان ہے، البتہ ان پر عمل کرنا مشکل ہے، کیونکہ نفس کو فرماں برداری مشکل معلوم ہوتی ہے۔ اسی لیے نافرمان ان کو نہیں مانتے‘‘۔
شاہ صاحب آگے چل کر فرماتے ہیں: ’’ قرآن و حدیث کو سمجھنے کے لیے کچھ زیادہ علم کی ضرورت نہیں، کیونکہ پیغمبر نادانوںکو راہ بتانے کے لیے، جاہلوں کو سمجھانے کے لیے اور بے علموں کو علم سکھانے کے لیے ہی آئے تھے، فرمایا: ہُوَالَّذِيْ بَعَثَ فِي الْاُمِّيّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْہُمْ يَتْلُوْا عَلَيْہِمْ اٰيٰتِہٖ وَيُزَكِّيْہِمْ وَيُعَلِّمُہُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَۃَ۰ۤ وَاِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ۲ۙ (الجمعۃ ۶۲:۲) ’’اسی نے ناخواندوں میں انھی میں سے ایک رسول بھیجاجو انھیں( شرک و کفر سے) پاک کرتا ہے اور انھیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔ یقینا پہلے وہ کھلی گمراہی میں تھے ‘‘۔ گویا حق تعالیٰ کی یہ بڑی زبردست نعمت ہے کہ اس نے ایسا رسول مبعوث فرمایاجس نے ناواقفوں کو واقف، ناپاکوں کو پاک، جاہلوں کو عالم، نادانوں کو دانا اور گمراہوں کوراہ یافتہ بنا دیا۔ اس آیت کو سمجھنے کے بعد اب اگر کوئی شخص یہ کہنے لگے کہ قرآن سمجھنا عالموں اور اس پر عمل کرنابڑے بڑے بزرگوں ہی کا کام ہے، تو اس نے اس آیت کا انکار کر دیااور رب کی اس جلیل الشان نعمت کی ناقدری کی، بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ اس کو سمجھ کر جاہل، عالم اورگمراہ، عمل کرکے بزرگ بن جاتے ہیں‘‘ ( تقویۃ الایمان، ص۳۷-۳۹)۔
ان حضرات کے ان تجدیدی خیالات اور متعلقہ کوششوں کے بعد برصغیر میں قرآن مجید کا ترجمہ اردو اور دیگر زبانوں میں ہونے کی راہیں کھلیں۔ اس کے بعد تو مختلف زبانوں میں ترجموں کا ایک سیلاب رواں ہوگیا۔ ایک جائزے کے مطابق اب تک قرآن کریم کا جزوی ترجمہ ۱۱۹ بین الاقوامی زبانوں میں اور مکمل ترجمہ ۱۱۲ زبانوں میں ہوچکا ہے۔ برصغیر کے کئی جید اور معتبر عالموں نے اردو زبان میں قرآن کریم کی تفسیریں نہایت سہل انداز میں لکھیں، تاکہ عوام کا طبقہ ان سے مستفیض ہوسکے۔ ان کے علاوہ عربی کی معرکۃ الآرا تفاسیر مثلاً تفسیر ابن کثیر، تفسیر القرطبی، تفسیر الدرّ المنثور، تفسیر جلالین، تفسیر البغوی، تفسیر مظہری، تفسیر روح البیان وغیرہ کا اردو میں ترجمہ ہوچکا ہے۔ ان کاوشوں نے قرآن کریم کو سمجھنا اب اور بھی آسان کردیا ہے۔
مقامِ افسوس ہے کہ ان تمام کاوشوں کے باوجود اس فکر میں کوئی خاص تبدیلی واقع نہیں ہوئی کہ قرآن کا سمجھنا بس عالموں کا ہی کام ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ علم پر گویا ان کی ہی اجارہ داری ہو۔ ایسا کرکے یہ لوگ نہ صرف یہ کہ قرآن فہمی سے لوگوں کو دور کردیتے ہیں،بلکہ اکابر علما کی ان کاوشوں پر بھی پانی پھیر دیتے ہیں،جو انھوں نے قرآن اور اس کی تفاسیر کو اردو اور دوسری زبانوں میں منتقل کرکے عصری تعلیم یافتہ افرادتک پہنچانے کے سلسلے میں کی ہیں۔ راقم کے خیال میں اس بیش بہا دینی علمی ذخیرہ سے استفادہ نہ کرنا جواکابر علما نے اردو اور دوسری زبانوں میں منتقل کرکے ہم تک پہنچادیا ہے، کفران نعمت ہے۔ علما کو چاہیے کہ وہ غیرعربی داں تعلیم یافتہ افراد کو بھی قرآن سے جوڑنے کی فکرکریں، تاکہ ان کے عقائد و اعمال کی اصلاح ہواوروہ مغربی تہذیب کے داعی عصری تعلیمی اداروں کے مضر اثرات سے بھی محفوظ رہ سکیں۔ نیز امت میں ایسے افراد کا ہونا بھی ضروری ہے، جو مغربی تہذیب سے متاثر اور خود کو’ روشن خیال‘ تصور کرنے والے حلقوںسے اسلام اور اسلامی تہذیب کے خلاف اٹھنے والے سوالات و اعتراضات کا جواب انھی کی زبان و اسلوب میں دے سکیں۔
علماے کرام کو تو یہ چاہیے کہ وہ عصری تعلیمی اداروں میں طلبہ اور اساتذہ کے لیے اسلامی معلومات پر مبنی قلیل مدتی کورسز (Short Term Courses) کا وقتاً فوقتاً انعقاد کریں،تاکہ اسلام کی صحیح واقفیت ان تک پہنچ سکے اور اسلام سے ان کا لگاؤ بڑھے۔ بڑے مدارس کے ذمہ داران اگر چاہیں تو اس طرح کے پروگرام منظم ڈھنگ سے چلاسکتے ہیں،لیکن اس طرح کے توسیعی کام (Extension Work) کی طرف اکثر ان کا ذہن ہی نہیں جاتا۔برعکس اس کے عصری اداروں کے جو لوگ خود سے دینی علوم کی طرف راغب ہوتے ہیں، بہت سی مثالوں کے مطابق ان کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ عصری تعلیم سے وابستہ افراد کی اصلاح سے غفلت کے نتیجے میں جب ملحد، گمراہ اور گستاخِ دیں لوگ پیدا ہوتے ہیں تو اس پر شور ہوتا ہے۔
عصری تعلیم سے وابستہ افراد، بلکہ ہر پڑھے لکھے مسلمان کو چاہیے کہ وہ اللہ کی کتاب سے اپنا رشتہ جوڑیں۔ روزانہ قرآن پاک کی تلاوت معنی و مطالب کے ساتھ کریں۔ ہر زبان میں قرآن کے مستند تراجم و تفاسیر موجود ہیں،اس لیے کسی کے لیے کوئی عذر نہیںہے ۔ اگر دو صفحات بھی روزانہ اس طرح تلاوت کی جائے، تو اس کے حیرت انگیز نتائج سامنے آئیں گے۔ یہ قطعی نہ سوچیں کہ ہمیں سمجھ میں نہیں آئے گا۔ جب آپ پیچیدہ دُنیوی علوم کو سمجھ سکتے ہیں،تو قرآن پاک کو کیوں نہیں سمجھ سکتے جس کا تعلق آپ کی زندگی سے ہے؟ بس قدم بڑھانے کی ضرورت ہے۔ کبھی اس پر بھی غور کریں کہ اپنے جیسے انسانوں کی لکھی ہوئی کتابیں،جن میں بہت سے فاسق و فاجر بھی ہوتے ہیں، محض چند دنوں کے دنیوی فوائد حاصل کرنے کے لیے آپ دن رات پڑھتے ہیں، لیکن اگر نہیں پڑھتے تو اللہ تبارک و تعالیٰ کی کتاب جس سے دنیا و آخرت دونوں کی کامیابی وابستہ ہے ۔
آخر اللہ تبارک و تعالیٰ کے سامنے ہم کیا عذر پیش کرسکیں گے، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم روزِ قیامت بارگاہ خداوندی میں یہ شکایت درج کریں گے کہ اے میرے رب! بے شک میری قوم کے لوگوں نے اس قرآن پاک کو چھوڑ رکھا تھا: وَقَالَ الرَّسُوْلُ يٰرَبِّ اِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوْا ھٰذَا الْقُرْاٰنَ مَہْجُوْرًا۳۰(الفرقان۲۵:۳۰)۔ اس لیے اس کارخیر کی ابتدا بلاتاخیر آج ہی سے کردیجیے۔