استفتاء: بھارت نے اپنے دستوری میثاق، اقوامِ متحدہ کی قراردادوں اور قانونِ بین الاقوام کی نفی کرتے ہوئے، ۵؍اگست ۲۰۱۹ء کو بھارتی دستور کے آرٹیکل ۳۵-اے اور ۳۷۰ میں ترمیم کرکے اپنے تئیں مقبوضہ جموں وکشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کردیا۔ اس طرح ریاست سے باہر پورے بھارت کے باشندوں پر عائد اس پابندی کو ختم کردیا کہ جس کے تحت وہ ریاست جموں و کشمیر میں ڈومیسائل بنانے، ملازمت حاصل کرنے اور جائداد خریدنے کی اجازت نہیں رکھتے تھے۔ اس کا واضح مقصد ریاست جموں و کشمیر میں مسلم اکثریتی آبادی کو مصنوعی طریقے سے اقلیت میں تبدیل کرنا ہے۔ ایسے میں کیا ریاست جموں و کشمیر کے باشندوں کے لیے یہ جائز ہے کہ وہ بھارتی قابض حکمرانوں کے ان مخصوص مقاصد کی تکمیل کے لیے بھارتی ہندوؤں کے ہاتھ اپنی جائدادوں کو فروخت کریں، نیز اسلام، غیر مسلموں کے ساتھ کس حد تک معاملات و مدارات کی اجازت دیتا ہے؟
﷽
اَلْجَوَاب بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّاب
عام حالات میں مرتدین کے برعکس یہود ونصاریٰ اور دیگر غیر مسلموں کے ساتھ خرید و فروخت اور دیگرمالی معاملات کرنا شرعاً درست ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ا ور صحابہ کرامؓ کا یہودیوں کے ساتھ لین دین ثابت ہے، چنانچہ وہ مدینہ طیبہ کے یہودیوں کے ساتھ خرید و فروخت، قرض اور رہن وغیرہ سمیت تمام جائز معاملات کرتے تھے۔امام بخاریؒ نے اپنی صحیح میں باب کا عنوان قائم فرمایا ہے: ’’بَابُ الشِّـرَاءِ وَالبَيْعِ مَعَ المُشْـرِكِينَ وَأَهْلِ الحَرْبِ‘‘،یہ باب مشرکوں اور اہل حرب سے خریدو فروخت کے بیان میں ہے۔اس باب کے تحت امام بخاریؒ نے یہ حدیث ذکر فرمائی ہے:
عبدالرحمٰن بن ابو بکرؓ بیان کرتے ہیں :
كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ ، ثُمَّ جَاءَ رَجُلٌ مُشْرِكٌ مُشْعَانٌّ طَوِيلٌ بِغَنَمٍ يَسُوْقُهَا، فَقَالَ النَّبِيُّ: بَيْعًا أَمْ عَطِيَّةً أَوْ قَالَ: أَمْ هِبَةً، قَالَ: لَا، بَلْ بَيْعٌ، فَاشْتَرٰى مِنْهُ شَاۃً ، ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، ایک لمبا چوڑامشرک بکریاں ہنکاتا ہوا آیا ،تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: فروخت کے لیےہیں یا عطیہ دینے کے لیےیا فرمایا: بطور تحفہ دینے کےلیے؟ اس نے جواب دیا: فروخت کے لیے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے ایک بکری خرید لی‘‘(صحیح البخاری :۲۲۱۶ )۔
اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ بیان کرتی ہیں:
اِشْتَرٰى رَسُوْلُ اللَّهِ مِنْ يَهُوْدِيٍّ طَعَامًا بِنَسِيْئَةٍ وَرَهَنَهٗ دِرْعَهٗ رسول اللہ صلی اللہ علیہ نے ایک یہودی سے اُدھار اناج خریدا اور اُس کے پاس اپنی زرہ رہن کے طور پر رکھوائی‘‘(صحیح البخاری: ۲۰۹۶)۔
علامہ قسطلانی شافعیؒ فرماتے ہیں:
فِيْهِ جَوَازُ بَيْعِ الْكَافِرِ وَإِثْبَاتُ مِلْكِهٖ عَلٰى مَا فِيْ يَدِهٖ وَجَوَازُ قُبُوْلِ الْهَدْيَةِ مِنْهُ، اس حدیث میں کافر سے خریدوفروخت کے جوازکا بیان ہے اور یہ کہ جو چیزاُس کے قبضے میں ہو،اُس میں اُس کی ملکیت ثابت ہے، نیز کافرسےتحفہ قبول کرنے کے جواز کا بیان ہے‘‘(ارشاد الساری،ج ۴،ص۱۰۱)۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کے یہودیوں کے ساتھ مزارعت کا معاملہ فرمایا تھا، چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں:
قَامَ عُمَرُ خَطِيْبًا، فَقَالَ: إِنَّ رَسُوْلَ اللهِ كَانَ عَامَلَ يَهُوْدَ خَيْبَرَ عَلٰی أَمْوَالِهِمْ، حضرت عمرؓ ایک دن خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے اور فرمایا: بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کے یہودیوں کے ساتھ اُن کے اموال پر معاملہ فرمایا تھا(صحیح البخاری :۲۷۳۰)۔
البتہ مخصوص حالات میں اہلِ علم کا اس بارے میں اتفاق ہے کہ یہود وہنود اور دیگر کافروں کے ساتھ کوئی بھی ایسا معاملہ اور کسی بھی ایسی چیز کی خرید وفروخت جائز نہیں ہے، جو اسلامی مملکت اور اہلِ اسلام کے لیے فی الحال یا مستقبل قریب وبعید میں کسی بھی طرح ضرر ونقصان کا باعث ہو،حتیٰ کہ اگر اُن کے ہاتھ سوئی جیسی معمولی چیز فروخت کرنے میں مسلمانوں کا نقصان ہو تو یہ بھی اُنھیں فروخت نہیں کی جائے گی۔یہ گناہ اور سرکشی کے کاموں میں اُن سے تعاون کرنا ہے۔
کشمیر کی سرزمین دارالاسلام ہے ،جہاں صدیوں سے ہی مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ آرٹیکل ۳۷۰ اور ۳۵-اے کی ’بھارتی آئین‘ کا میثاق اس بات کا بیّن ثبوت ہے، اور اب اس پر خط تنسیخ پھیرنا خود ہندستان کے قومی میثاق کی نفی اور جموں و کشمیر کی وحدت کی تحلیل کرنے کی پہلی اینٹ ہے۔
یہ دستوری توثیقات اس بات کی شاہد ہیں کہ جموں وکشمیر ریاست، ہندستان کاحصہ نہیں ہے،بلکہ بھارت کا مقبوضہ علاقہ ہےاور اقوامِ متحدہ نے۱۹۴۸ء سے اپنی قراردادوں میں اِسے متنازعہ علاقہ تسلیم کیا ہے۔ تقسیم ہند کے بعد سے ہی ہندستانی حکومت اس علاقے پر قابض ہےاور تقریباً تہتّربرسوں سے مسلمانوں کی اکثریت کے خاتمے کےلیےاُن پرہر طرح کا ظلم وتشددروا رکھے ہوئے ہے اوران کے حقوق غصب کرتی آئی ہے۔اب اُنھوں نے ایک نیا حربہ اختیار کرتے ہوئے جموں وکشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کردیا ہے،تاکہ آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کے لیے وہاں ہندوؤں کی آباد کاری کاسلسلہ عمل میں لایا جاسکے۔ اس مقصد کے لیے اہلِ کشمیر کو ڈرا دھمکاکر اور حیلے بہانوں کےذریعے اپنی مملوکہ زمینیں فروخت کرنے یا کرائے پر دینے کے لیے مجبور کیا جارہا ہے۔ از روے شریعت ایسی صورتِ حال میں مسلمانوں کے لیے ہرگز جائز نہیں ہے کہ وہ اپنی زمینیں اورغیر منقولہ جائداد ہندوؤں کو فروخت کریں،کیونکہ یہ مسلمانوںکوکمزور کرنے، اسلام اور اسلام دشمن قوتوں کی مدد واعانت اوران کی تقویت کا سبب ہے ، جوکہ از روے شریعت ممنوع ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ (المائدہ:۲)گناہ اور زیادتی کے کاموں میں ایک دوسرے کی اعانت نہ کرو۔
علامہ ابن کثیرؒ نے تفسیر میں معجم کبیر کے حوالے سے یہ حدیث ذکر فرمائی ہے:
مَنْ مَشٰى مَعَ ظَالِمٍ لِيُعِيْنَهٗ وَهُوَ يَعْلَمُ أَنَّهٗ ظَالِمٌ فَقَدْ خَرَجَ مِنَ الْإِسْلَامِ،جو شخص کسی ظالم کے ہمراہ اُس کی اعانت کے لیےیہ جانتے ہوئے چلا کہ وہ ظالم ہے،تو وہ اسلام سے نکل گیا(تفسیر ابن کثیر، ج۳، ص۱۱)۔
حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مَنْ أَعَانَ عَلٰى قَتْلِ مُوْمِنٍ وَلَوْ بِشَطْرِ كَلِمَةٍ، لَقِيَ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ مَكْتُوْبٌ بَيْنَ عَيْنَيْهِ: آيِسٌ مِنْ رَحْمَةِ اللّٰہِ،جس شخص نے کسی مؤمن کے قتل پراعانت کی ،خواہ ایک کلمہ ہی کیوں نہ کہا ہو،تو وہ اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملے گا کہ اُس کی دونوں آنکھوں کے درمیان(پیشانی پر) لکھا ہوگا کہ یہ شخص اللہ کی رحمت سے مایوس ہے‘‘ (سنن ابن ماجہ:۲۶۲۰) ۔
علامہ علاءالدین حصکفیؒ لکھتے ہیں:
يَحْرُمُ أَنْ نَبِيْعَ مِنْهُمْ مَا فِيْهِ تَقْوِيَتُهُمْ عَلَى الْحَرْبِ كَحَدِيْدٍ وَعَبِيْدٍ وَخَيْلٍ وَلَا نَحْمِلُهٗ اِلَيْهِمْ وَلَوْ بَعْدَ صُلْحٍ ، لِاَنَّهٗ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ نَهٰى عَنْ ذٰلِكَ، ہمارے لیے اہلِ حرب کےہاتھ کسی ایسی چیز کوفروخت کرناحرام ہے، جواُنھیں جنگ میں قوت پہنچانے کا ذریعہ بنے،مثلاً:لوہا،غلام اور گھوڑے۔ اورہم ان چیزوں کوفروخت کرنے کے لیے دارالحرب بھی لے کر نہیں جائیں گے ،خواہ صلح کے بعد ہی کیوں نہ ہو،کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے،(رَدُّ الْمُحْتَار عَلَی الدُّرِّ الْمُخْتَار، ج۴، ص ۱۳۴)۔
یہ تمام سامانِ حرب دشمن کے لیے حالات کو سازگار بنانے کا استعارہ ہیں۔ اس کے تحت علامہ ابن عابدین شامیؒ لکھتے ہیں:
أَرَادَ بِهِ التَّمْلِيْكَ بِوَجْهٍ كَالْهِبَةِ ،بَلِ الظَّاهِرُ أَنَّ الْإِيْجَارَ وَالْإِعَارَةَ كَذٰلِكَ،لِاَنَّ الْعِلَّةَ مَنْعُ مَا فِيْهِ تَقْوِيَةٌ عَلٰى قِتَالِنَا،قَوْلُهٗ :كَحَدِيْدٍ وَسِلَاحٍ مِمَّا اُسْتُعْمِلَ لِلْحَرْبِ، وَلَوْ صَغِيْرًا كَالْإِبْرَةِ، وَكَذَا مَا فِي حُكْمِهٖ مِنَ الْحَرِيْرِ وَالدِّيْبَاجِ ،فَإِنَّ تَمْلِيْكَهٗ مَكْرُوْهٌ، لِاَنَّهٗ يُصْنَعُ مِنْهُ الرَّايَةُ، علامہ حصکفی کی مراد یہ ہے کہ کفار کو کسی بھی طرح ایسی اشیا کا مالک بنانا جائز نہیں ہے ،جس سے اُنھیں قوت وطاقت حاصل ہو، خواہ مالک بنانا خرید وفروخت کے ذریعے ہو یا تحفہ کے ذریعے،بلکہ ظاہر بات یہ ہے کہ اُنھیں اس قسم کی اشیا کرائے اور عاریت کے طور پر دینا بھی جائز نہیں ہے،کیونکہ ممانعت کی علت اُن سےاس چیز کو روکنا ہے، جس کے ذریعے اُنھیں ہم مسلمانوں کے ساتھ لڑائی میں قوت حاصل ہو ،مثلاً : لوہا ، ہتھیار وغیرہ ایسی چیزیں جو جنگ میں استعمال کی جاتی ہیں،خواہ وہ انتہائی معمولی ہوں، جیسے:سوئی۔اسی طرح اس کے حکم میں ہے،مثلاً ریشم ودیباج کا مالک بنانا بھی مکروہ ہے ،کیونکہ اس سے جھنڈا بنایا جاتا ہے(رَدُّ الْمُحْتَار عَلَی الدُّرِّ الْمُخْتَار،ج۴، ص ۱۳۴)۔ مزیدلکھتے ہیں:
الذِّمِّيُّ إذَا اشْتَرٰى دَارًا أَيْ أَرَادَ شِرَاءَهَا فِي الْمِصْرِ لَا يَنْبَغِي أَنْ تُبَاعَ مِنْهٗ ،فَلَوْ اِشْتَرٰى يُجْبَرُ عَلٰى بَيْعِهَا مِنَ الْمُسْلِمِ ، اگرذمی شخص (جومسلمانوں)کے شہر میں زمین خریدنے کا ارادہ کرے، تو اُسے زمین فروخت نہیں کرنا چاہیے۔پس، اگر اس نے زمین خرید لی تو اُسے مجبور کیا جائے گا کہ وہ اس زمین کو مسلمان کے ہاتھ فروخت کرے (ایضاً،ج۴، ص ۲۰۹)۔ نیز لکھتے ہیں:
وَإِذَا تَكَارٰى أَهْلُ الذِّمَّةِ دُوْرًا فِيمَا بَيْنَ الْمُسْلِمِيْنَ لِيَسْكُنُوْا فِيْهَا فِي الْمِصْرِ ،جَازَ لِعَوْدِ نَفْعِهٖ إلَيْنَا وَلِيَرَوْا تَعَامُلَنَا فَيُسْلِمُوْا بِشَرْطِ عَدَمِ تَقْلِيْلِ الْجَمَاعَاتِ لِسُكْنَاهُمْ شَرَطَهُ الْإِمَامُ الْحُلْوَانِيُّ ،فَإِنْ لَزِمَ ذٰلِكَ مِنْ سُكْنَاهُمْ أُمِرُوْا بِالْاِعْتِزَالِ عَنْهُمْ وَالسُّكْنٰى بِنَاحِيَةٍ لَيْسَ فِيْهَا مُسْلِمُوْنَ وَهُوَ مَحْفُوْظٌ عَنْ أَبِي يُوْسُفَ،اور اگر اہلِ ذمہ، مسلمانوں کی بستیوں میں گھروں کو کرائے پر لیناچاہیں تو جائز ہے،کیونکہ ایک تو اس کا ہمیں نفع پہنچے گا، اوردوسری بات یہ ہے کہ وہ ہمارے معاملات کو دیکھ کر مسلمان ہوجائیں گے ،لیکن اس شرط کے ساتھ کہ اُن کے رہایش پذیر ہونے کی وجہ سے مسلمانوں کی تعداد قلیل نہ ہو ،امام حلوانی ؒنے اس کی شرط لگائی ہے۔پس! اگر اُنھیں رہایش دینے سے مسلمانوں کی تعداد کا قلیل ہونا لازم آتا ہو تو مسلمانوں سے علیحدگی کا حکم دیا جائے گا، اور وہ کسی ایسے کنارے میں رہیں گے، جہاں مسلمان نہ ہوں، یہ قول امام ابویوسفؒ سے محفوظ ہے، (رَدُّالْمُحْتَارِعَلَی الدُّرِّالْمُخْتَار، ج۴، ص ۲۱۰)۔
امام ابویوسفؒ چونکہ قاضی القضاۃ رہے ہیں، اس لیے انھیں ان عملی حکمتوں اور تدابیر کا تجربہ ہے، جو مسلمانوں کی تدبیر اجتماعی اور تمدنی حقوق کے تحفظ کے لیے ضروری ہیں۔
علامہ ابن عابدین شامیؒ فرماتے ہیں:
لَا نَقُوْلُ بِالْمَنْعِ مُطْلَقًا وَلَا بِعَدَمِهٖ مُطْلَقًا بَلْ يَدُوْرُ الْحُكْمُ عَلَى الْقِلَّةِ وَالْكَثْرَةِ وَالضَّرَرِ وَالْمَنْفَعَۃِ،کفار کے ہاتھوں زمین فروخت کرنا یا اُنھیں زمین کرائے پر دینے کو نہ تو ہم مطلقاً منع کرتے ہیں اور نہ اِسے مطلقاً جائز قرار دیتے ہیں،بلکہ حکم کا مدار مسلمانوں کی قلت وکثرت اور ضررومنفعت پر ہے،(ایضاً، ج۴، ص ۲۱۰)۔
علامہ ابن بطال مالکیؒ لکھتے ہیں:
الشِّـرَاءُ وَالْبَيْعُ مِنَ الْكُفَّارِ كُلُّهُمْ جَائِزٌ، إِلَّا أَنَّ أَهْلَ الْحَرْبِ لَا يُبَاعُ مِنْهُمْ مَا يَسْتَعِيْنُوْنَ بِهٖ عَلٰی إِهْلَاكِ الْمُسْلِمِيْنَ مِنَ الْعِدَّةِ وَالسَّلَاحِ، وَلَا مَا يُقَوُّوْنَ بِهٖ عَلَيْهِمْ،کفار کے ساتھ خریدوفروخت کے حوالے سے تمام معاملات جائز ہیں، لیکن ایسی کوئی چیز فروخت کرنی جائز نہیں ،جو اہل حرب مسلمانوں کے خلاف استعمال کریں اور اس سے مسلمانوں کے خلاف انھیں مدد اور قوت وطاقت حاصل ہو،(شَرْحُ صَحِیْحِ الْبُخَارِیْ لِاِبْنِ الْبَطَّال، ج۶ ،ص۳۳۸)۔
امام شاطبیؒ فرماتے ہیں:
أَنَّ بَيْعَ الشَّمْعِ لَهُمْ مَمْنُوعٌ اِذَا كَانُوْا يَسْتَعِيْنُونَ بِهٖ عَلٰى إِضْرَارِ الْمُسْلِمِينَ،کفار کو شمع فروخت کرنا (بھی)ممنوع ہے،جب کہ اس کے ذریعے اُنھیں مسلمانوں کو ضرر پہنچانے میں مدد حاصل ہوتی ہو (حَاشِیَہْ دَسُوْقِیْ عَلَی الشَّرْحِ الْکَبِیْر، ج۳، ص۷)۔
مسلّمہ شافعی محدّث امام یحییٰ بن شرف الدین نوَوِی ؒلکھتے ہیں:
وَأَمَّا بَيْعُ السِّلَاحِ لِاَهْلِ الْحَرْبِ فَحَرَامٌ بِالْإِجْمَاعِ، اہل حرب کوہتھیار فروخت کرنا بالاجماع حرام ہے(اَلْمَجْمُوْعُ شَرْحُ الْمُہَذَّبْ،ج۹،ص۳۵۴)۔
علامہ ابن حزم اَندَلُسی ظاہریؒ لکھتے ہیں:
وَالْبَيْعُ مِنْهُمْ جَائِزٌ إلَّا مَا يَتَقَوَّوْنَ بِهٖ عَلَى الْمُسْلِمِيْنَ مِنْ دَوَابَّ أَوْ سِلَاحٍ أَوْ حَدِيْدٍ أَوْ غَيْرِ ذٰلِكَ، فَلَا يَحِلُّ بَيْعُ شَيْءٍ مِنْ ذٰلِكَ مِنْهُمْ أَصْلًا،قَالَ تَعَالٰى: وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ، فَتَقْوِيَتُهُمْ بِالْبَيْعِ وَغَيْرِهٖ مِـمَّا يَقْوَوْنَ بِهٖ عَلَى الْمُسْلِمِيْنَ حَرَامٌ، وَيُنَكَّلُ مَنْ فَعَلَ ذٰلِكَ، وَيُبَالَغُ فِي طُولِ حَبْسِهِ،کفار کے ساتھ خریدو فرخت جائز ہے،مگر ایسی اشیا کی خرید وفروخت جائز نہیں جس کے ذریعے اُنھیں مسلمانوں پرتقویت حاصل ہو ، مثلاً اُنھیں چوپائے،ہتھیار ،لوہاوغیرہ فروخت کرنا ،پس ان میں سے کوئی چیز اُن کے ہاتھ فروخت کرنا اصلاً جائز نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: گناہ اور زیادتی کے کاموں میں ایک دوسرے کی اعانت نہ کرو‘‘،پس اُنھیں خرید و فروخت و دیگر ذرائع سےتقویت پہنچانا کہ اُنھیں مسلمانوں پر غلبہ حاصل ہو جائےحرام ہے، ایسے شخص کو عبرت ناک سزا دی جائے گی اور لمبے عرصے تک قید میں رکھا جائے گا،(اَلْمُحَلّٰی بِالْآثَار،ج۷، ص۵۷۴)۔
کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
وَلَنْ يَّجْعَلَ اللہُ لِلْكٰفِرِيْنَ عَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ سَبِيْلًا۱۴۱ۧ (النسآء:۱۴۱)’اللہ تعالیٰ نے کافروں کے لیے مسلمانوں پر غلبہ پانے کی کوئی سبیل ہرگزروا نہیں رکھی۔
الغرض، پُرامن حالات میں مسلمان، غیر مسلموں کے ساتھ مدارات اور مواسات کا برتاؤ کرسکتے ہیں۔ مدارات سے مرادحسن سلوک ہے، تاکہ ان کے دل میں اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں نرم گوشہ پیدا ہو، جسے قرآن کریم اور احادیث مبارکہ میں تالیفِ قلب سے تعبیر فرمایا گیا ہے۔ مواسات سے مراد انسانی بنیادوں پر غیر مسلم کے ساتھ ہمدردی اور غم گساری کا برتاؤ کرنا، مثلاً: بھوکے کو کھانا کھلانا، بیمار کی عیادت کرنا، اس نیت کے ساتھ اس کی صحت کی دعا کرنا کہ شاید مہلت اس کے حق میں مفید ثابت ہو اور اسے ایمان کی توفیق نصیب ہوجائے۔
صحیح مسلم(۲۵۶۹) کے مطابق اللہ تعالیٰ نے ناداروں کی بھوک، بیماری اور بے لباسی کو بالترتیب اپنی بھوک، بیماری اور جامہ پوشی سے تعبیر فرمایا ہے اور یہ تاکید کا انتہائی درجہ ہے، نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بذاتِ خود ایک یہودی لڑکے کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے اور اس حُسن سلوک کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے اسے ایمان کی نعمت سے سرفراز فرمایا۔
قرآنِ کریم میں متعدد مقامات پر مسکین کو کھانا کھلانے کی ترغیب دی ہے، مثلاً: البقرہ:۱۸۴، المائدہ:۹۵، بنی اسرائیل :۲۶، الروم :۳۸، المجادلہ:۴، الحاقۃ:۳۴، الدھر:۸، الفجر:۱۸، البلد:۱۶ وغیرہا من الآیات۔ اسی طرح قرآن کریم نے سورۃ المائدہ (۳۲) میں جہاں ایک بے قصور انسان کے قتل کو پوری انسانیت کے قتل اور بے قصور انسان کی جان بچانے کو پوری انسانیت کی جان بچانے سے تعبیر فرمایا ہے، وہاں نفسِ مومن کی بات نہیں کی بلکہ مطلق نفس (انسانی جان) کی بات کی ہے۔
اسلام نے کافروں اور مشرکوںکے ساتھ ’مداہنت‘ سے منع فرمایا ہے۔ ’مداہنت‘ کے معنی ہیں: دین کے معاملے میں بے جا رعایت کرنا، ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
فَلَا تُطِعِ الْمُكَذِّبِيْنَ۸ وَدُّوْا لَوْ تُدْہِنُ فَيُدْہِنُوْنَ۹ (القلم: ۸-۹) آپ حق کو جھٹلانے والوں کا کہانہ مانیں، وہ چاہتے ہیں کہ آپ(دین کے معاملے میں)اُن کو بے جا رعایت دیں تاکہ وہ بھی (جواباً)کچھ رعایت دے دیں ۔
کفارومشرکین کے ساتھ دین کے معاملے میں سودا بازی (Bargaining)یا’کچھ لو اور دو‘ (Give & Take)اور مفاہمت (Compromise)کی کوئی گنجایش نہیں ہے، اس مضمون کے تفہـُّم (understanding)کے لیے سورۃ الکافرون کا ترجمہ مع تفسیر مفید رہے گا۔
اسی طرح اسلام نے کفار ومشرکین کے ساتھ قلبی دوستی کی اجازت نہیں دی، اللہ نے فرمایا ہے:
۱- يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الْيَھُوْدَ وَالنَّصٰرٰٓى اَوْلِيَاۗءَ۰ۘؔ بَعْضُہُمْ اَوْلِيَاۗءُ بَعْضٍ۰ۭ وَمَنْ يَّتَوَلَّہُمْ مِّنْكُمْ فَاِنَّہٗ مِنْہُمْ۰ۭ اِنَّ اللہَ لَا يَہْدِي الْقَوْمَ الظّٰلِــمِيْنَ۵۱ (المائدہ:۵۱) اے مومنو!یہود ونصاریٰ کو دوست نہ بناؤ، وہ ایک دوسرے کے دوست ہیں اور تم میں سے جو ان کو دوست بنائے گاتو وہ (درحقیقت) انھی میں سے (شمار )ہوگا، بے شک اللہ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔
۲- وَلَا تَرْكَنُوْٓا اِلَى الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ(ھود:۱۱۳) اور ظالموں کی طرف (قلبی )میلان نہ رکھو،مباداتمھیں (جہنم کی) آگ چھوئے۔
۳- يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا عَدُوِّيْ وَعَدُوَّكُمْ اَوْلِيَاۗءَ تُلْقُوْنَ اِلَيْہِمْ بِالْمَوَدَّۃِ وَقَدْ كَفَرُوْا بِمَا جَاۗءَكُمْ مِّنَ الْحَـقِّ۰ۚ يُخْرِجُوْنَ الرَّسُوْلَ وَاِيَّاكُمْ اَنْ تُؤْمِنُوْا بِاللہِ رَبِّكُمْ۰ۭ (الممتحنہ:۱)اے ایمان والو! میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بناؤ، تم ان کی طرف دوستی کا ڈول ڈالتے ہو، حالانکہ جو حق تمھارے پاس آیا ہے، وہ اس کا انکار کرچکے ہیں، وہ رسول کو اور تمھیں (محض) اس سبب سے بے وطن کرتے ہیں کہ تم اپنے پروردگار اللہ پر ایمان لائے ہو۔
۴- لَا تَجِدُ قَوْمًا يُّؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ يُوَاۗدُّوْنَ مَنْ حَاۗدَّ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ وَلَوْ كَانُوْٓا اٰبَاۗءَہُمْ اَوْ اَبْنَاۗءَہُمْ اَوْ اِخْوَانَہُمْ اَوْ عَشِيْرَتَہُمْ(المجادلہ :۲۲)آپ ایسی قوم نہیں پاؤ گے جو (ایک جانب) اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہوں (اور دوسری جانب) اللہ اور اس کے رسول کے دشمنوں سے محبت کرتے ہوں، خواہ وہ ان کے باپ ہوں یا ان کے بیٹے یا ان کے بھائی یا ان کے رشتے دار ہوں۔
۵- لَتَجِدَنَّ اَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَۃً لِّلَّذِيْنَ اٰمَنُوا الْيَھُوْدَ وَالَّذِيْنَ اَشْرَكُوْا۰ۚ (المائدہ: ۸۲)آپ مومنوں کے ساتھ شدید ترین عداوت رکھنے والا یہود اور مشرکوں کو پائیں گے۔
دنیا بھر کے مسلمانوں پر، مقبوضہ جموں وکشمیر اور اب ہندستان بھر کے مسلمانوں کی تائید و حمایت لازم ہے، کیونکہ صدیوں سے نسل درنسل رہنے والے ان مسلمانوں پر عرصۂ حیات تنگ کردیا گیا ہے ، ان کی جان ومال اور آبرو کی حرمتوں کو پامال کیا جارہا ہے۔ اسی تناظر میں ہم ماسواے مقبوضہ جموں وکشمیر ، باقی ماندہ ہندستان کے مسلمانوں کی تحدیدات (limitations) اور مجبوریوں کو سمجھتے ہیں، ہمیں ان کے دکھوں ،ذہنی ،جسمانی اور روحانی اذیتوں کا ادراک ہے، لیکن آسام وکشمیری مسلمانوں کے حوالے سے بعض مذہبی جماعتوں کے رہنماؤں کے جو بیانات سامنے آئے ہیں، کاش کہ وہ نہ آتے۔ بلاشبہہ وطن کی محبت ایک فطری امر ہے، لیکن وطن معبود نہیں ہے۔ اگر وطن معبود ہوتا تو تاریخِ انبیاے کرام میں ہجرت کا کوئی باب نہ ہوتا۔ بطورِ خاص، سیرت ختم المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم میں ہجرت بھی ہے، پھر ’فتحِ مبین‘ ہے۔ جدید انسانی تاریخ میں سوویت یونین کا زوال اور پھر تحلیل ہونا اس کی روشن مثال ہے۔ ہندستان سابق کمیونسٹ سلطنت سوویت یونین سے زیادہ طاقت ور ملک نہیں ہے۔ حقِ وطن کو عصرحاضر کے اجتماعی ضمیر نے انسانیت کے عقل عام (Common Sense) اور اجتماعی دانش (Collective wisdom)نے بھی تسلیم کیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ دہشت گردی اور جِدُّو جُہدِ آزادی میں فرق روا رکھا گیا ہے۔
بھارت کے نئے قانون شہریت نے تنگ نظر نسل پرستی کے علَم بردار نریندرا مودی کی بھارتی حکومت کی انسانیت دشمنی کو پوری دنیا پر واضح کردیا ہے ۔مسلم ممالک کی تنظیم (OIC) کا بالخصوص مقبوضہ جموں وکشمیر، فلسطین اور بھارت کے مسلمانوں کے حوالے سے، اور عالمِ عرب کا سکوت و لا تعلقی جس طرح ایک مجرمانہ فعل ہے، اسی طرح کسی دوسرے مسلم ملک پر ملت کفر کی یلغار میں ممد ومعاون بننا اس سے بھی کہیں زیادہ بدتر فعل ہے۔ یہ اس حدیث نبویؐ سے صریح بغاوت ہے کہ آپؐ نے فرمایا: ’’مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، نہ وہ (خود) اس پر ظلم کرتا ہے اور نہ (اغیار کے مظالم کا نشانہ بننے کے لیے ) اسے بے سہارا چھوڑتا ہے‘‘ (صحیح البخاری: ۶۹۵۱)۔
جب ہم کسی خاص تناظر میں شریعت کا کوئی مسئلہ بیان کرتے ہیں، تو فسادی لوگ اُسے اس کا مفہومِ مخالف نکال کر منفی مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں کہ’’ اسلام اپنے ماننے والوں کو دوسرے ادیان کے ماننے والوں سے نفرت سکھاتا ہے‘‘،اس لیے یہاں وضاحت سے بیان کیا جارہا ہے کہ اسلام انسانیت سے نفرت نہیں سکھاتا۔ اسلام ’جرم‘ سے نفرت کرتا ہے اور مجرم سے ہمدردی رکھتا ہے اور اس کی اصلاح کرتا ہے اور اسلام اعلیٰ انسانی اقدار کا علَم بردار ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
۱- لَا يَنْہٰىكُمُ اللہُ عَنِ الَّذِيْنَ لَمْ يُقَاتِلُوْكُمْ فِي الدِّيْنِ وَلَمْ يُخْرِجُوْكُمْ مِّنْ دِيَارِكُمْ اَنْ تَبَرُّوْہُمْ وَتُقْسِطُوْٓا اِلَيْہِمْ۰ۭ اِنَّ اللہَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِيْنَ۸ (الممتحنہ:۸) جن لوگوں نے دین کے معاملے میں تمھارے ساتھ جنگ نہیں کی اور نہ تمھیں اپنے گھروں سے نکالا ہے، اللہ تمھیں اس بات سے نہیں روکتا کہ تم ان کے ساتھ حسنِ سلوک کرو اور انصاف کرو، بے شک اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔
امام احمد بن علی ابو بکر الرازی الجصاص الحنفیؒ (م: ۳۷۰ھ) لکھتے ہیں:
۲- رُوِيَ أَنَّهَا نَزَلَتْ فِيْ شَاْنِ أَ سْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، وَأُمُّهَا جَاءَتْ وَهِيَ مُشْرِكَةٌ تَسْتَمْنِحُهَا، وَسَاَلَتِ النَّبِيَّ عَنْ ذٰلِكَ، فَاَنْزَلَ اللہُ تَعَالٰى هٰذِهِ الْآيَةَ، روایت کیا گیا ہے کہ یہ آیت اسماء بنتِ ابی بکر رضی اللہ عنہماکے بارے میں نازل ہوئی کہ اُن کی مشرکہ والدہ ان کے پاس کچھ ہدیہ یا عطیہ لینے کی نیت سے آئیں۔ انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی بابت سوال کیا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیۂ مبارکہ نازل فرمائی(شَرْح مختصر الطحاوی،ج۲،ص۳۸۶)۔
معلوم ہوا کہ غیرمسلم کو عطیہ یا ہدیہ دیا جاسکتا ہے۔امام جصاصؒ کے بقول ’’یہ اس حدیث کی طرف اشارہ ہے‘‘:
۳- عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَتْ: قَدِمَتْ عَلَيَّ أُمِّي وَهِيَ مُشْرِكَةٌ فِي عَهْدِ قُرَيْشٍ، إِذْ عَاهَدُوا رَسُولَ اللَّهِ وَمُدَّتِهِمْ مَعَ أَبِيهَا، فَاسْتَفْتَتْ رَسُولَ اللهِ فَقَالَتْ: يَارَسُولَ اللَّهِ اِنَّ أُمِّي قَدِمَتْ عَلَيَّ وَهِيَ رَاغِبَةٌ أَفَأَصِلُهَا،قَالَ: نَعَمْ صِلِيهَا حضرت اسماء بنت ابی بکرؓ بیان کرتی ہیں: میری ماں حالتِ شرک میں اپنے والد کے ساتھ قریش کے اُس دور میں میرے پاس آئیں، جب انھوں ایک مدت کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے امن کامعاہدہ کرلیا تھا ، سو انھوں نے رسولؐ اللہ سے پوچھا اور عرض کی: یارسول اللہ! میری ماں آئی ہیں اور وہ کچھ (عطیے کی) خواہش رکھتی ہیں، کیا میں اُن کے ساتھ صلۂ رحمی کروں؟ آپؐ نے فرمایا: ہاں! ان کے ساتھ صلۂ رحمی کرو (صحیح البخاری:۳۱۸۳)۔
۴- وَیُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّہٖ مِسْکِیْنًا وَّیَتِیـْمًا وَّاَسِیْرًا (الدھر:۹) وہ اللہ کی محبت میں مسکین اور یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں ۔
اس آیت کے تحت امام ابوبکرجصاصؒ لکھتے ہیں:
۵- وَالْاَسِيْرُ فِيْ دَارِ الْإسْلَامِ لَا يَكُوْنُ إِلَّا كَافِرًا، فَدَلَّ عَلٰى أَنَّ الصَّدَقَةَ عَلَيْهِمْ قُرْبَةٌ، دارالاسلام میں قیدی تو کافر ہی ہوں گے، پس یہ آیت اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ غیر مسلم کو صدقہ دینا بھی کارِ ثواب ہے (شرح مختصر الطحاوی،ج۲، ص۳۸۶)۔
امام شافعیؒ فرماتے ہیں:
۶- وَلَا بَاْسَ أَنْ يُتَصَدَّقَ عَلَى الْمُشْـرِكِ مِنَ النَّافِلَةِ وَلَيْسَ لَهٗ فِي الْفَرِيْضَةِ مِنَ الصَّدَقَةِحَقٌّ، وَقَدْ حَمِدَ اللهُ تَعَالٰی قَوْمًا، فَقَالَ : وَيُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ،مشرک کو نفلی صدقہ دینے میں کوئی حرج نہیں ہے، البتہ فرض صدقے میں اُس کا حق نہیں ہے اور اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کی تعریف فرمائی ہے جو کھانا کھلاتے ہیں۔
اگر اس کے اسلام لانے کی اُمید ہو تو پھر صدقہ کرنا بہتر ہے:
امام ابوجعفرطحاویؒ لکھتے ہیں:
۷- وَأَمَّا سِائِرُ الصَّدَقَاتِ مِنْ نَحْوِ صَدَقَةِ الْفِطْرِ وَالْكَفَّارَاتِ فَيَجُوْزُ إِعْطَاؤُهَا اَهْلَ الذِّمَّةِ ،وَرُوِيَ عَنْ اَبِيْ يُوْسُفَ:: اَنَّ كُلَّ صَدَقَةٍ وَاجِبَةٍ: لَا يَجُوْزُ أَنْ يُّعْطٰى اَهْلُ الذِّمَّةِ مِنْهَا،اَلْحُجَّةُ لِاَبِيْ حَنِيْفَةَ:قُوْلُ اللهِ تَعَالٰى: ’’فَكَفَّارَتُهٗ إِطْعَامُ عَشَرَةِ مَسَاكِيْنَ‘‘ وَقَوْلُهٗ: فَإِطْعَامُ سِتِّيْنَ مِسْكِيْنًا‘‘}.،وَقَالَ النَّبِيُّ فِيْ صَدَقَةِ الْفِطْرِ: نِصْفُ صَاعٍ مِنْ بُرٍّ أَوْ صَاعٌ مِنْ تَمَرٍ،: وَلَمْ يُفَرِّقْ بَيْنَ الْمُسْلِمِ وَالْكَافِرْ وَأَيْضًا: لِمَا رُوِيَ :اَنَّ الْمُسْلِمِيْنَ كَرِهُوا الصَّدَقَةَ عَلٰى غَيْرِ أَهْلِ دِيْنِهِمْ، فَاَنْزَلَ اللهُ تَعَالٰى: لَيْسَ عَلَيْكَ هُدَاهُمْ وَلٰكِنَّ اللهَ يَهْدِيْ مَنْ يَّشَآءُ ،فَقَالَ النَّبِيُّ : تَصَدَّقُوْا عَلٰى أَهْلِ الْاَدْيَانِ‘‘،فَعُمُوْمُ الْآيَةِ، وَلَفْظُ النَّبِيِّ كُلُّ وَاحِدٍ يُجِيْزُ دَفْعَ الصَّدَقَاتِ إِلٰى أَهْلِ الذِّمَّةِ،فَلَمَّا قَامَتِ الدَّلَالَةُ عَلٰى تَخْصِیْصِ زَكَوَاتِ الْاَمْوَالِ: خَصَّصْنَاهَاوَبَقِيَ حُكْمُ الْعُمُوْمِ فِيـْمَا عَدَاهَا،اور رہے باقی صدقات !جیسے صدقۂ فطر اور کفارات تو ان کا ذمّیوں کو دینا جائز ہےاور امام ابویوسف سے مروی ہے:’کوئی بھی صدقہ واجبہ ذمّیوں کو دینا جائز نہیں ہے‘۔ امام ابوحنیفہ کی دلیل اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد پر مبنی ہے: ’’پس، اُس (قسم )کا کفارہ دس مساکین کو کھلانا ہے‘‘اوریہ ارشاد:’’پس، ساٹھ مسکینوں کو کھلانا ہے‘‘ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقۂ فطر کے بارے میں فرمایا: آدھی صاع گندم یا ایک صاع کھجور اور آپ ؐ نے مسلم اور کافر کے درمیان فرق نہیں فرمایا، اور یہ بھی مَروی ہے کہ مسلمانوں نے غیرمسلموں کو صدقہ دینے پر ناپسندیدگی کا اظہار کیاتو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: ’’آپ پر انھیں ہدایت دینا لازم نہیں ہے ، لیکن اللہ جسے چاہتا ہے ہدایت عطا فرماتا ہے،(البقرہ:۲۷۲)، پس نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’اہلِ ادیان کو صدقہ دو‘‘تو آیت کا عموم اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کلمات ذمّیوں کو صدقہ دینے کی اجازت دیتے ہیں، پس جب زکوٰۃ کے اموال کے بارے میں تخصیص آگئی:’’صدقہ اُن (مسلمانوں )کے مال داروں سے لیا جائے اور اُن کے فقراء کو لوٹایا جائے ‘‘،تو ہم نے اسے مسلمانوں کے لیے خاص کردیا اور(حربیوں کے استثناء کے ساتھ ) باقی صدقات کا حکم مسلم اور غیرِ مسلم کے لیے عام رہا، (شرح مختصر الطحاوی، ج۲، ص۲۸۴- ۲۸۵)‘‘۔
الغرض، اگر غیر مسلم کافر ومشرک مسلمانوں کے ساتھ حالتِ جنگ (State of War)میں ہوں یا مسلمانوں پر مظالم ڈھارہے ہوں اور حقِ آزادی اور حقِ وطن کو سلب کر رکھا ہو، جیسے بھارت اور اسرائیل، تو ان کو کسی بھی طرح کا صدقہ ( واجب یا نفلی) ، عطیہ یا ہبہ دینا جائز نہیں ہے، کیونکہ یہ ظلم میں معاونت ہے۔
بھارت نے جموں وکشمیر پر غاصبانہ قبضہ کر رکھا ہے اور اہل کشمیر کواُن کے بنیادی انسانی حقوق سے محروم اور محصور کر رکھا ہے، اس لیے مسلمانانِ کشمیر کا ہندوؤں کو اپنی جائداد فروخت کرنا یا کرایے پر دینا ناجائز ہے۔ یادرہے اسرائیل نے فلسطینیوں کے وطن پر غاصبانہ قبضہ جما رکھا ہے ، ان پر مظالم ڈھارہا ہے اور اسرائیل نے فلسطین میں سے مسلمانوں کو بے دخل کرنے کے لیے یہی حربہ آزمایا تھا کہ ان کی جائدادیں مارکیٹ ریٹ سے زیادہ قیمت پر خریدیں، جن کی سزا فلسطینی اب تک بھگت رہے ہیں۔
ھٰذَا مَا عِنْدِیْ وَاللّٰہُ سُبْحَانَہٗ تَعَالٰی اَعْلَمُ بِالصَّوَاب۔[۲۳مارچ ۲۰۲۰ء]