اپریل ۲۰۲۰

فہرست مضامین

کورونا وائرس، علامات، بچاؤ اور اسلام

پروفیسر نجیب الحق | اپریل ۲۰۲۰ | سماجیات

Responsive image Responsive image

’کورونا وائرس‘ کیا ہے؟ لاطینی زبان میں تاج کو کرونا کہتے ہیں اور اس وائرس کو بھی یہ نام اس لیے دیا گیا کہ اس کی شکل ایسے تاج (کراؤن)کی طرح ہوتی ہے، جس پر نوک دار کیلیں ہوں۔ اس وائرس کا سائز ۰ء۰۶ سے ۰ء۱۴ اور اوسط سائز ۰ء۱۲۵ مائیکرون ہوتا ہے (یاد رہے کہ ایک مائیکرون ایک ملی میٹر کا ہزارواں حصہ ہوتا ہے)۔ یہ سانس کے ذریعے ایک سے دوسرے کو پھیلتا ہے۔ عام طور پرجسم میں داخل ہونے کے تقریباً پانچ دن بعد بیماری کی علامات ظاہر ہونا شروع ہوتی ہیں، لیکن اس میں دو ہفتے بھی لگ سکتے ہیں۔ اگر کوئی بلغم یالعاب تھوک دے تو اس میں وائرس کئی گھنٹے بلکہ بعض اوقات دنوں تک زندہ رہ سکتا ہے۔

موجودہ زمانے میں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا (وٹس ایپ، فیس بک اور ٹویٹر وغیرہ) اطلاعات پہنچانے کا ایک اہم ذریعہ ہے اور خبریں تمام لوگوں تک فوری طور پر پہنچ جاتی ہیں۔ لیکن بدقسمتی سےاس ضمن میں عمومی رویے غیر ذمہ دارانہ ہیں۔ اطلاعات بغیر تحقیق کیے دوسروں کو فارورڈ کر دی جاتی ہیں بلکہ بعض اوقات مختلف وجوہ کی بنا پر غلط خبریں بھی جان بوجھ کرپھیلا دی جاتی ہیں، جوبے جا خوف و ہراس کا سبب بنتی ہیں۔ یہ انتہائی نامناسب رویہ ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بغیر تحقیق کے کوئی بھی خبر آگے پہنچانے سے سختی سے منع فرمایا اور ایسے شخص کو جھوٹا قرار دیا ہے۔

عالمی ادارہ صحت (WHO) نے وائرس سے متاثر ہونے والے ۴۴ہزار مریضوں کے ڈیٹا کی بنیاد پر لکھا ہے کہ ۸۱ فی صد افراد میں اس کی ہلکی پھلکی علامات ظاہر ہوئیں، جب کہ ۱۴ فی صد میں شدید علامات ظاہر ہوئیں اور ۵ فی صد لوگ شدید بیمار ہوئے۔ چونکہ ہزاروں افراد کا علاج اب بھی جاری ہے،اور یہ واضح نہیں کہ ہلکی پھلکی علامات والے کتنے کیس ہیں، جو رپورٹ ہی نہیں ہوئے، اس لیے اموات کم یا زیادہ بھی ہو سکتی ہیں۔لیکن عام طور پر یہ شرح دو فی صد سے کم ہے۔

چین اس بیماری سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا ملک ہے۔وہاں ۷۲ ہزار سے زیادہ  بیمار افراد میں اموات کا تناسب، یعنی تقریباً ۱۵ فی صد ۸۰ سال سے زیادہ عمر میں ہوا، جب کہ ۷۰اور ۸۰ سال کے درمیان ۸ فی صد ،۵۰ اور ۶۰ سال کے درمیان عمر میں۳ء۱ فی صد اور ۴۰سے ۵۰ سال میں ۰ء۴ فی صد مریضوں میں اموات واقع ہوئیں۔

 یاد رہے کہ ہر سال ایک ارب افراد انفلواینزا کا شکار ہوتے ہیں اور اس سے تقریباً ساڑھے چھے لاکھ افراد ہلاک ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح ملیریا سے سالانہ چار لاکھ تک اموات ہوتی ہیں۔

کورونا وائرس کی علامات

بیماری کی علامات عام طور پر زکام (انفلوانزا) جیسے ہوتی ہیں، لیکن اس کی شدت نسبتاً  زیادہ اور پھیلاؤ بہت تیزی سے ہوتا ہے۔ وائرس جسم میں داخل ہونے کے بعد تین چار روز تک گلے میں موجود رہتا ہے اور پھر یہاں سے پھیپھڑوں یا خوراک کی نالی میں داخل ہو جاتا ہے۔ عمومی طور پر بیماری کی علامات درج ذیل ترتیب سے ظاہر ہوتی ہیں لیکن یہ ترتیب ضروری نہیں:

    ۱-  ابتدا میں بخار ہوتا ہے۔ پھر خشک کھانسی آتی ہے اور اس کےتقریباً ایک ہفتے بعد سانس لینے میں دشواری ہوتی ہے۔

    ۲-  اس بیماری میں ناک بہنے اور چھینکنے کی علامات عام زکام کے مقابلے میں کم ہوتی ہیں۔

    ۳-  سر درد یا پٹھوں کا عمومی درد بھی ہو سکتا ہے۔

 خطرات اور احتیاط

بہت چھوٹے بچوں اور بوڑھے لوگوں میں بیماری کی شدید علامات زیادہ ہوتی ہیں اور یہ جان لیوا بھی ہو سکتی ہے۔ جن لوگوں کی قوت مدافعت کم ہو، ان پر وائرس کا حملہ شدید ہو سکتا ہے۔  خاص کر شوگر، دل کی بیماری اور ایسی ہی دوسری بیماریوں والے مریض میں شدید بیماری کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ ہرشخص کواپنی قوت مدافعت بڑھانے کے لیے درج ذیل اقدامات کرنے چاہییں:

    l    سب سے ضروری بات یہ ہے کہ اپنی نیند پوری رکھیں۔کوشش کریں کہ رات کو سونے میں جلدی کی جائے اور عشاء کی نماز کے بعد کوئی مصروفیت نہ ہو۔ صبح بروقت جاگ کر فجر کی نماز سے دن کا آغاز کریں۔اللہ نے رات کو آرام اور دن کو رزقِ حلال کے لیے پیدا کیا ہے۔ اب تو یہ بات سائنسی طور پر بھی ثابت ہو چکی ہے کہ رات کی نیند نہ صرف انسان کی قوت مدافعت کو بڑھاتی ہے بلکہ یہ کئی دوسری بیماریوں کے سدّباب کا ذریعہ بھی ہے۔

    l    اس طرح یہ بات بھی سائنسی طور پر ثابت ہے کہ جو لوگ ذہنی طورپربااعتماد،پُرسکون اورپختہ قوت ارادی کے مالک ہوتے ہیں ان کی قوت مدافعت بھی زیادہ مضبوط ہوتی ہے اور بدن کے متعلقہ مدافعتی نظام اورخلیوں(immune system) کی جراثیم کش صلاحیت بھی بڑھ جاتی ہے۔ تقدیر اور توکّل تو مسلمان کی صفات ہیں اور یہ ایمانی صفات اور اللہ کی یاد اور اس سےتعلق جتنامضبوط اورمؤثر ہو گا، قوتِ مدافعت بھی اتنی زیادہ ہو گی۔

    l    اس کے ساتھ ساتھ خوراک میں پروٹین کی مقدار زیادہ ہونی چاہیے۔ دودھ ،انڈہ،  گوشت اور دالوں وغیرہ میں پروٹین کی مقدار زیادہ ہوتی ہے ۔ قوت مدافعت بڑھانے کے لیے چند اور چیزوں (مثلاً وٹامن سی وغیرہ) کی بھی ضرورت ہوتی ہے، جو تازہ پھلوں اور سبزیوں سے حاصل کی جاسکتی ہیں، خاص کر کیلا،مالٹا اور سبز پتوں والی سبزیاں وغیرہ۔ جنک فوڈ مثلاً برگر وغیرہ سے خصوصی پرہیز کروائیں ۔  یہ قوتِ مدافعت کو کم کرتی ہیں۔

بیماری سے بچاو ٔ

    ۱-  ہاتھ روزانہ کئی مرتبہ اچھی طرح دھوئیں ۔صابن کا استعمال کریں تو زیادہ بہتر ہے۔ ہاتھ  کم از کم ۲۰سیکنڈ کے لیے دھوئیں اور دن میں کئی بار ہاتھ دھوئیں ۔ اگر ہم پانچ وقت وضو کرکے نماز پابندی سے ادا کریں اور ساتھ ہی اسلام کے احکام کے مطابق کھانے سے پہلے اور بیت الخلا سے فارغ ہونے کے بعد ہاتھ دھوئیں تو اس طرح دن میں کم از کم آٹھ دس مرتبہ تو ہاتھ دھل ہی جائیں گے۔ اس پر اسے سنت سمجھ کر عمل کریں تو حفاظت اور ثواب ساتھ ساتھ۔

    ۲-  کھانستے یا چھینکتے ہوئے اپنے منہ کو ٹشو یا رومال سے ڈھانپیں اور اس کے فوراً بعد اپنے ہاتھ دھوئیں تاکہ وائرس پھیل نہ سکے ۔ ان اشیا کو بعد میں کوڑے دان میں ڈالیں اور کسی مناسب جگہ پر (میونسپلٹی کے ڈرم) ٹھکانے لگا دیں یا جلا دیں ۔ کوئی چیز میسر نہ ہو تو کھانستے وقت ہاتھ موڑ کر کہنی والی جگہ کی آستین سے منہ ڈھانک لیں۔ ہاتھ سے منہ کبھی نہ ڈھانکیں۔

    ۳-  کسی بھی مشکوک چیز کو چھونے کے بعد اپنی آنکھوں ، ناک اور منہ کو چھونے سے گریز کریں۔ چھونے کی صورت میں فوراً ہاتھ دھو لیں ۔ گندے ہاتھ منہ یا چہرے پر نہ لگائیں۔ اس سے وائرس آپ کے جسم میں داخل ہو سکتا ہے۔ 

    ۴-  جولوگ کھانس رہے ہوں، چھینک رہے ہوں یا جنھیں بخار ہو، ان کے منہ سے وائرس والے پانی کے قطرے نکل کر فضا میں پھیل سکتے ہیں۔ ایسے افراد سے کم از کم ایک میٹر، یعنی تین فٹ کا فاصلہ رکھیں۔ ایسے لوگوں کے قریب مت جائیں۔

    ۵-  اگر طبیعت خراب محسوس ہو تو گھر میں رہیں۔ اگر بخار ،زیادہ کھانسی یا سانس لینے میں  دشواری ہو تو فوراً ڈاکٹر سے مشورہ کریں اور ان کی ہدایات پر عمل کریں۔

    ۶-  چونکہ بیماری کے پھیلنے کے امکانات ابھی تک زیادہ ہیں، اس لیے پُرہجوم جگہوں، غیرضروری سفر ، بازار وں، یا اجتماعات میں جانے سے گریز کریں۔

    ۷-  سینی ٹائزر (ہاتھ صاف کرنے کا محلول) ہر دو چار گھنٹے بعد ہاتھ پر چند قطرے لگائیں۔

    ۸-  چہرے اتنے قریب نہ لائیں کہ آپ کی سانس دوسرے کے چہرے پر محسوس ہو۔

    ۹-  پانی زیادہ پئیں۔ یاد رہے کہ گلے سے وائرس پیٹ میں جائے تو معدے کی تیزابیت کی وجہ سے مرجاتا ہے اور پھیپڑوں میں جائے تو بیماری کا سبب بنتا ہے۔ گلے میں خارش ہو یا درد ہو تو دوا کے ساتھ ساتھ غرارے بھی مسلسل کریں۔

    ۱۰- ہر ایک شخص کو ماسک استعمال کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ البتہ جن افراد کو بیماری لگنے کے امکانات زیادہ ہوں مثلاً صحت کے شعبے سے منسلک افراد یا وہ لوگ جنھیں یہ شک ہو کہ انھیں کسی متاثرہ فرد سے واسطہ پڑنے کا امکان ہے تو انھیں ماسک استعمال کرنا چاہیے۔

    ۱۱- کرونا وائرس سے بچاؤ کی ابھی تک کوئی ویکسین نہیں ہے اور نہ علاج کے لیےکوئی دوا موجود ہے، اس لیے احتیاطی تدابیر ہی بیماری سے بچاؤ کا واحد ذریعہ ہیں۔

وبا: اسلامی نقطۂ نظر

بحیثیت مسلمان ہمارا ایمان ہے کہ زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے اور ایسی  صورت حال سے گھبرانا مسلمان کا شیوہ نہیں۔ سنت پر عمل کرتے ہوئے علاج کرانا بھی ضروری ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحت مند لوگوں کو بیماری کی وبا والے علاقے میں جانے سے منع فرمایا ہے اور اس علاقے کے لوگوں کو وہاں سے نکلنے سے بھی منع فرمایا۔ انھی اقدامات کو آج کل کی اصطلاح میں قرنطینہ (Quarantine) کہتے ہیں ۔

اس وقت تمام دنیا میں جو فساد برپا ہے، اس میں سب کے لیے اور خاص کر مسلمانوں کے لیےاہم سبق ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے؛

ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ اَيْدِي النَّاسِ لِيُذِيْقَهُمْ بَعْضَ الَّذِيْ عَمِلُوْا لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُوْنَ ۝۴۱  (الروم ۳۰: ۴۱) خشکی اور تری میں فساد برپا ہوگیا ہے لوگوں کی اپنے ہاتھوں کی کمائی سے تاکہ مزا چکھائے اُن کو ان کے بعض اعمال کا، شاید کہ وہ باز آئیں۔

مَآ اَصَابَكَ مِنْ حَسَـنَۃٍ فَمِنَ اللہِ۝۰ۡ وَمَآ اَصَابَكَ مِنْ سَيِّئَۃٍ فَمِنْ نَّفْسِكَ۝۰ۭ وَاَرْسَلْنٰكَ  لِلنَّاسِ رَسُوْلًا۝۰ۭ وَكَفٰى بِاللہِ شَہِيْدًا۝۷۹  (النساء۴: ۷۹)تمھیں جو سُکھ بھی پہنچتا ہے خدا کی طرف سے پہنچتا ہے اور جو دُکھ پہنچتا ہے وہ تمھارے اپنے نفس کی طرف سے پہنچتا ہے۔ اور اے رسولؐ ! ہم نے تم کو لوگوں کے لیے رسول بنا کر بھیجا ہے اور اس پر اللہ کی گواہی کافی ہے۔

اللہ نے ہمیں سبق لینے کا ایک اور موقع فراہم کیا ہے کہ ہم اپنے اعمال پر توجہ دیں اور اللہ کی طرف رجوع کریں۔ یہ موقع ضائع نہ کریں اورجوکچھ بھی اللہ کی ناراضی کا سبب بن رہا ہے اس سےصدق دل سے توبہ کریں اورزیادہ سے زیادہ استغفار کریں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرٰتِ۝۰ۭ وَبَشِّـرِ الصّٰبِرِيْنَ۝۱۵۵ۙ  الَّذِيْنَ اِذَآ اَصَابَتْہُمْ مُّصِيْبَۃٌ ۝۰ۙ قَالُوْٓا اِنَّا لِلہِ  وَاِنَّـآ اِلَيْہِ رٰجِعُوْنَ۝۱۵۶ۭ اُولٰۗىِٕكَ عَلَيْہِمْ صَلَوٰتٌ مِّنْ رَّبِّہِمْ وَرَحْمَۃٌ ۝۰ۣ وَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الْمُہْتَدُوْنَ۝۱۵۷  (البقرہ ۲:۱۵۵-۱۵۷)بےشک ہم تمھیں آزمائیں گے کسی قدر خوف، بھوک، اور مالوں اور جانوں اور پھلوں کی کمی سے۔ اور صبر کرنے والوں کو خوش خبری سنادیجیے۔ جن کا حال یہ ہے کہ جب ان کو کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو وہ کہتے ہیں کہ بے شک ہم اللہ ہی کے لیے ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔ یہی لوگ ہیں جن پر ان کے رب کی عنایتیں ہیں اور رحمت ہے اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں۔

آج ہر طرف خوف کی فضا ہے۔ ایسے میں ہمیں اللہ پر بھروسا کرتے ہوئے اس آزمایش کا صبر اور استقامت سے مقابلہ کرنا ہے۔ اسی میں ہمارے لیے دونوں جہانوں کی کامیابی ہے۔

یہاں اعجاز قرآن کے ایک اور پہلو کا ذکر بھی مناسب ہو گا۔ قرآن مبین کی سورئہ بقرہ میں کافروں کی تنقید کے جواب میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

 اِنَّ اللہَ لَا يَسْتَحْىٖٓ اَنْ يَّضْرِبَ مَثَلًا مَّا بَعُوْضَۃً فَـمَا فَوْقَہَا۝۰ۭ فَاَمَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا فَيَعْلَمُوْنَ اَنَّہُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّہِمْ۝۰ۚ وَاَمَّا الَّذِيْنَ كَفَرُوْا فَيَقُوْلُوْنَ مَاذَآ اَرَادَ اللہُ       بِہٰذَا مَثَلًا۝۰ۘ يُضِلُّ بِہٖ كَثِيْرًا۝۰ۙ وَّيَہْدِىْ بِہٖ كَثِيْرًا۝۰ۭ وَمَا يُضِلُّ بِہٖٓ اِلَّا الْفٰسِقِيْنَ۝۲۶ (البقرہ ۲:۲۶)اللہ اس بات سے نہیں شرماتا کہ وہ کوئی تمثیل بیان کرے، خواہ وہ مچھر کی ہو یا اس سے بھی کسی چھوٹی چیز کی۔ جو لوگ ایمان لائے ہیں، وہ جانتے ہیں یہی بات حق ہے، ان کے رب کی جانب سے۔ رہے وہ لوگ، جنھوں نے کفر کیا وہ کہتے ہیں کہ اس تمثیل کے بیان کرنے سے اللہ کا کیا منشا ہے؟ اللہ اس چیز سے بہتوں کو گمراہ کرتا ہے اور بہتوں کو ہدایت دیتا ہے اور وہ گمراہ نہیں کرتامگر انھی لوگوں کو جو نافرمانی کرنے والے ہیں۔

اگر وہ کفار آج زندہ ہوتے تو شاید انکار نہ کرتے کہ مچھر سے تو بہت سی خطرناک بیماریاں ( ملیریا، ڈینگی، زیکا اور چکنگونیا وغیرہ) پھیلتی ہیں جس سے ہر سال لاکھوں لوگ موت کا شکار ہو جاتے ہیں لیکن اس سے بھی بہت ہی چھوٹی چیز (فَمَا فَوْقَهَا…… جس میں ایک کورونا وائرس بھی ہے) سے مچھر سے پھیلنے والی بیماریوں سے بھی زیادہ خطرناک اور جان لیوا بیماریاں پھیل سکتی ہیں۔  قرآن حکیم کی اس آیت کو آج کی حقیقتوں کے تناظر میں سمجھنا نہایت واضح اور آسان ہو گیا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ ہم اس سے کیا سبق حاصل کرتے ہیں۔

 حکومت وقت نے اس وبا کی روک تھام کے لیے کئی اقدامات کیے ہیں ۔ تمام لوگوں کو اس پر عمل اور اس میں اپنے حصہ ڈالنا چاہیے ۔ یہ ہی ہماری دین کی تعلیم ہے۔ یہ مشکل وقت ہمیں رجوع الی اللہ کا سبق بھی دیتاہے اور ہمیں اس طرف بھی خصوصی توجہ دیتے ہوئے استغفار کرنا چاہیے۔ ساتھ ہی اللہ سے دعائیں بھی کرنی چاہییں کہ وہ ہمیں اس وبا پر قابو پانے اور نیک عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ اس سلسلے میں چند متعلقہ مسنون ذیل میں درج کی گئی ہیں:

 اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ عَافَانِی مِمَّا ابْتَلَاکَ بِہٖ وَفَضَّلَنِیْ عَلٰی کَثِیْرٍ مِمَّنْ خَلَقَ تَفْضِیلًا (ترمذی:۳۴۳۱) ’’سب تعریف اللہ کے لیے ہے جس نے مجھے اس مصیبت سے بچایاجس میں تجھے مبتلاکیا اور مجھے اپنی بہت سی مخلوقات پرفضیلت دی‘‘۔

اَللّٰہُمَّ إِنِّیْ أَعُوْذُ بِکَ مِنْ شَرِّ مَا یَجِیْءُ   بِہِ الرِّیْحُ (ترمذی:۳۵۲۰)اے اللہ! میں (ہرایسی وبا سے) تیری پناہ میں آتا ہوں ‘ جسے ہوا لے کر آتی ہے ۔

اَللّٰہُمَّ إِنِّیْ اَعُوْذُ بِکَ مِنَ الْبَرَصِ وَالْجُنُوْنِ وَالْجُذَامِ وَمِنْ سَیِّ ئِ الْاَسْقَامِ  (ابوداؤد:۱۵۵۴)اے اللہ!میں برص‘ جنون‘کوڑھ اور تمام مُہلک بیماریوں سے تیری پناہ میں آتا ہوں۔

أَعُوْذُ بِکَلِمَاتِ اللہِ التَّامَّاتِ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ (متفق علیہ)اللہ کے پورے کلمات کے ساتھ پناہ چاہتا ہوں اس کے شر سے جو اُس نے پیدا کیا

 لَآ اِلٰہَ اِلَّآ اَنْتَ سُبْحٰــنَكَ۝۰ۤۖ اِنِّىْ كُنْتُ مِنَ الظّٰلِــمِيْنَ۝۸۷ۚۖ (الانبیاء۲۱: ۸۷) الہٰی تیرے سوا کوئی معبود نہیں تو پاک ہے۔ بےشک میں نے ہی اپنے نفس پر ظلم کیا ہے۔

اسی طرح بچاؤ کی تمام ممکنہ تدابیر اختیار کرتے ہوئے ہم ہر نماز کے بعد آیت الکرسی اور صبح و شام تین تین مرتبہ سورۃ اخلاص، سورۃ الفلق اور سورۃ النّاس کی تلاوت کریں۔ اس کے علاوہ بھی کئی مسنون اعمال ہیں جن پر دلی یقین کے ساتھ عمل کر کے ہم نہ صرف ان مشکل حالات پر قابو پاسکتے ہیں بلکہ یہ ہمارے لیےاللہ کی رضا کا سبب بھی بن سکتے ہیں۔ اللہ ہم سب کو سمجھ اور عمل کی توفیق عطا فرمائے۔