مہینے، ہفتے، دن ، گھنٹے، منٹ اور سیکنڈ گزرتے رہے اور یوں سال بہت تیزی سے گزرگیا۔ رمضان جیسا معزز مہمان ہمارے پا س آ گیا، مگر ہم بے سدھ پڑے ہیں، غافل ہیں، اس کے استقبال کے لیے تیار نہیں۔دنیا نے ہمیں غافل کر دیا ہے، ہم زمین سے چمٹے ہوئے ہیں۔ گناہوں نے ہمیں بوجھل بنا دیا ہے، خطاؤں نے ہمیں تھکا دیا ہے، چنانچہ ہم تاریک راستے پر ہی چل رہے ہیں۔ ہم گناہوں سے باز نہیں آتے اور متاع الغرور کے لیے سرگرداں رہتے ہیں۔
ہمیں اللہ کے راستے کی طرف پلٹنے کی ضرورت ہے، اللہ کے روشن راستے پر گامزن ہونے کی حاجت ہے۔ کاش! ہم جانیںکہ ہم اللہ رحمان و مہربان اور بخشنے والا کے قرب کے کس قدر حاجت مند ہیں۔
کیا ابھی ہمارے لیے پلٹنے کا وقت نہیں آیا؟ کیا ہمارے سخت اور پتھر دل اللہ کے ذکر کے لیے نرم نہیں پڑیں گے؟ کیا ہماری آنکھوں کے لیے خوفِ خدا سے آنسو بہانے کا وقت نہیں آیا؟ کیااندھیروں میں بھٹکنے والوں کے لیے روشنی کے راستے پر چلنے کا موقع ابھی نہیں آیا؟ کیا اعضا و جوارح کو اب گناہوں سے استغفار نہیں کر لینا چاہیے؟ اور گناہوں سے باز نہیں آ جانا چاہیے؟ کیا زبان کو غیبت سے رک نہیںجانا چاہیے؟ کیا اسے اللہ کے بندوں کو گالیاں بکنے اور ان پر تہمت تراشنے سے بچنا نہیں چاہیے؟ کیا خواہشات کے بندوں کو ہوش نہیں آنا چاہیے؟ کیاشہوات کے اسیروں کو شہوتوں کے چُنگل سے باہر نکلنے کا وقت نہیں آیا؟
اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو:رمضان کی آمد کے ساتھ ہی میں اپنے اور اپنے بھائیوں کے بارے میں سوچنے لگا۔ میں نے اپنے آپ سے پوچھا: کیا ہماری کامیابی ممکن ہے؟ کیا ہم اس موقعے سے فائدہ اٹھائیں گے؟ شاید کہ پھر یہ فرصت نہ ملے۔ کیا معلوم کہ آیندہ رمضان آنے سے پہلے ہی ہم رخصت ہوجائیں اور اس کا خیر مقدم نہ کر پائیں اور یوں موقع جاتا رہے؟
میں اسی حیرت میں گم تھا کہ میں نے اپنے اندر سے آواز سنی، یہ میری اپنی آواز تھی: ہاں، ہاں، موقعے سے فائدہ اٹھانا ممکن ہے۔ میرا رب مہربان ہے، بخشنے والا ہے۔ وہ میرا پروردگار یقینا میری توبہ سے خوش ہوگا، جیسا کہ حبیب مکرمؐ نے بشارت دی ہے ۔ میرے رب نے مجھے مایوسی و نااُمیدی سے روکا ہے۔ اس نے مجھے بتایا ہے کہ وہ سب گناہوں کو معاف فرما دیتا ہے:
قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓی اَنْفُسِہِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللّٰہِ ط اِنَّ اللّٰہَ یَغْفِرُالذُّنُوْبَ جَمِیْعًا ط اِنَّہٗ ہُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُo (الزمر۳۹:۵۳) (اے نبیؐ) کہہ دو کہ اے میرے بندو، جنھوںنے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوجاؤ، یقینا اللہ سارے گناہ معاف کر دیتا ہے، وہ تو غفور ورحیم ہے۔
دُنیا میں انسان دشوار گزار راستے پر چلنے والے مسافر کی مانند ہے۔ اسے سفرِ زندگی طے کرنے کے لیے زادِ راہ کی ضرورت ہے تاکہ وہ اپنی منزلِ مراد’جنت‘ تک پہنچ سکے۔ اسے ایمان کا زادِراہ درکار ہے۔ جب بھی اس کا زادِ راہ کم ہونے لگے تو اسے چاہیے وہ از خود یہ زادِ راہ مہیا کرے ورنہ وہ زادِ راہ نہ ہونے کی وجہ سے راستے میں ہی ہلاک ہو جائے گا۔ لہٰذا، اس دنیا میں اپنے ایمان کی تجدید کرتے رہنا اور ایمان کو زادِ راہ کے طور پر ساتھ رکھنا لازمی ہے۔ ایمان گھٹتا بڑھتا رہتا ہے۔ اللہ بزرگ و برتر نے ہمیں مطلع فرما دیا ہے کہ ایمان میں اضافہ ہوتا رہتا ہے:
وَلَمَّا رَاَ الْمُؤْمِنُوْنَ الْاَحْزَابَ لا قَالُوْا ھٰذَا مَا وَعَدَنَا اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ وَصَدَقَ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ ز وَمَا زَادَھُمْ اِلَّآ اِیْمَانًا وَّتَسْلِیْمـًا ۲۲ۭ (الاحزاب ۳۳:۲۲) اور سچے مومنوں نے جب حملہ آورلشکر وں کو دیکھا تو پکار اٹھے کہ ’’یہ وہی چیز ہے جس کا اللہ اور اس کے رسولؐ نے ہم سے وعدہ کیا تھا، اللہ اور اس کے رسولؐ کی بات بالکل سچی تھی‘‘۔ اس واقعے نے ان کے ایمان اور ان کی سپردگی کو اور زیادہ بڑھا دیا۔
پس رمضان کے قریب آتے ہی ہمیں زادِ راہ کی خاطر اللہ کا قرب حاصل کرنا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ ہم قربِ الٰہی کیسے حاصل کریں اور ایمان کی تجدید کیسے کریں؟ ہمیں اس مقصد کے لیے درج ذیل اقدامات کرنا ہوں گے:
نیت کی درستی: چونکہ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے، اس لیے ہمیں اپنی نیت درست کرنا ہوگی۔ ہماری نیت یہ ہو کہ ہمیں زیادہ سے زیادہ بھلائیاں سمیٹنا ہیں، عطیات و خیرات بہ کثرت کرنا ہیں۔ اگرہماری نیت یہ ہواور ہم رمضان کی آمد سے پہلے ہی جان بحق ہو جائیں تو بھی حُسن نیت کی وجہ سے ہم اجرو ثواب کے حق دار ٹھیریں گے۔ اگر زندگی ہوئی تو پھر رمضان میں نیک اعمال کی جزا ملے گی۔ یاد رہے کہ قبولیتِ عمل کے دو پَر ہیں: صحیح نیت اور درست عمل۔
توبہ: غیبت، چغل خوری اور جھوٹ سے اپنی زبان کو روکے رکھنا ہمارا فرض ہے تاکہ ہم زبان کی آفات سے محفوظ رہیں۔ ہماری زبانیں فضول گوئی، لغو کلام، بے فائدہ و بے ہودہ باتوں سے دور رہیں۔ فحش گوئی، چاپلوسی اور منافقانہ گفتگو ہماری زبانوں پر نہ آئے۔ ہم سب کو توبہ کرنی چاہیے اور یہ عہد کرنا چاہیے کہ ہم ٹیلی ویژن کے سامنے بیٹھ کر اپنا وقت ضائع نہ کریں گے۔ ہم فضولیات کے دیکھنے اور سننے سے بچیں گے۔ فضول بیٹھ کر اپنے اوقات عزیز برباد نہ کریںگے بلکہ اپنے آپ کو ذکر، تسبیح یا استغفار میں مشغول رکھیں گے۔ انسان کو اپنی عمر کا ایک لمحہ بھی ضائع نہ کرنا چاہیے کیونکہ یہی اس کا اصل زر ہے۔ کیا یہ معقول حرکت ہوگی کہ ایک آدمی اپنا اصل زر ضائع کردے اور پھر نفع کا منتظر رہے؟
توبہ سے ہماری مراد محض اعضا و جوارح کی توبہ نہیں ہے بلکہ دل کی توبہ مقصود ہے۔ یادرہے کہ اعضا کی معصیت دل کی نافرمانی کے مقابلے میں کم تر ہے۔ حضرت آدم ؑنے شجرممنوعہ کا پھل کھایا تو بھی اللہ نے ان کی توبہ قبول کی اور ان پر رحمت فرمائی:
فَتَلَقّیٰٓ اَدَمُ مِنْ رَّبِّہٖ کَلِمٰتٍ فَتَابَ عَلَیْہِ ط اِنَّہٗ ھُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ۳۷ (البقرۃ ۲:۳۷)آدمؑ نے اپنے ربّ سے چند کلمات سیکھ کر توبہ کی، جس کو اس کے ربّ نے قبول کر لیا، کیونکہ وہ بڑا معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔
اب ظاہر ہے کہ دل کی معصیت اور اعضا کی معصیت میں بہت فرق ہے۔ ابلیس تکبر کے جرم کا مرتکب ہوا اور پھر اپنے تکبر میں بڑھتا ہی گیا تو اللہ نے اسے درد ناک عذاب کی دھمکی دی۔
ہمیں ماہِ رمضان کا استقبال کرتے ہوئے دل کی نافرمانی سے توبہ کرنا ہوگی۔ آئیے ہم اللہ کا قرب پائیں___اس کے لیے ہمیں تکبر، حسد، کینہ، بُغض، کھوٹ اور اپنے آپ پر اترانے جیسی خراب عادتیں اورخصلتیں چھوڑنا ہوں گی۔
ہم اپنے قلب کو اس امر کی تربیت دیں کہ وہ ہر چیز سے بڑھ کر اللہ سے محبت کرے۔ ہمارا دل اپنے پروردگار کی ملاقات کا مشتاق رہے___ نماز میں، دُعا میں، مناجات میں، ذکر و فکر میں اور تسبیح و استغفار میں۔
عزمِ بلند: رمضان کی آمد سے پہلے ہی عبادات و طاعات کے لیے طبیعت میں آمادگی پیدا کیجیے۔ تقربِ الٰہی کی طلب میں عظیم القدر اہل ایمان کی روش اپنانے کا عہد کیجیے۔ اپنے تمام اعمال میں ثابت قدم رہنے کا فیصلہ کیجیے اور ابھی سے اپنے عزم کو بھلائیوں کے لیے بلند کر لیجیے۔ رمضان سے پہلے ہی عبادات کی مشق کیجیے۔ آپ کے تمام اعمال و افعال ہر لحاظ سے بہترین اور مکمل ہوں۔ جوکھلاڑی کھیل شروع ہونے سے پہلے مشق کرتا ہے، اپنی بدنی اور فنی لیاقت و مہارت کو بڑھاتاہے، اس کی کامیابی کی توقع کی جاسکتی ہے۔ اس کے برعکس جو کھلاڑی مشق سے احتراز کرتا ہے، سُستی و بے عملی کا شکار ہوتا ہے تو شکست اُس کا مقدر بنتی ہے۔
رمضان میں دو طرح کے مسلمان نظر آتے ہیں۔ ایک گروہ کامیاب و کامران اور دوسرا ناکام و نامراد۔ محنتی گروہ کامیاب ہو جاتا ہے اور موقع کو ضائع کرنے والا ناکامی کا منہ دیکھتا ہے۔ یہ گروہ ڈرامے اور فلمیں دیکھنے میں لگا رہا۔ اس نے اپنا سارا وقت کھیلوں، فلموں اور ڈراموں پر تبصروں میں برباد کر دیا۔ یہ غفلت میں مبتلا ہوا اورمست رہا۔ اگراسے ماہ رمضان کے گزرنے کے بعد ہوش آئے تو یہ عظیم نعمت سے محروم رہے گا۔
رمضان کی قدر کیجیے۔ اس میں کم عبادات پر اکتفا نہ کیجیے۔ اس لیے کہ رمضان میں جو نیکی کا کوئی کام کرتا ہے تو اسے غیر رمضان میں فرض کی ادایگی کا ثواب دیا جاتا ہے اور جو رمضان میں فرض ادا کرتا ہے، اسے غیر رمضان کے ستّر فرضوں کا ثواب ملتا ہے۔
عبادت کا حُسنِ ادایگی: عبادت ادا کرنے سے قبل، ذہنی تصور کو عبادت سے ہم آہنگ کرنے کی عادت ڈالیے اورایسا شعوری طور پر کیجیے۔ اس عمل سے عبادت و اطاعت میں کمال پیدا ہوگا۔ آپ ہمیشہ عبادت کی روح پر غور کیجیے۔ عبادت سے پہلے اس کے اثرات کی فکر کیجیے۔ عبادت کی روح کو سمجھنے اوراس کا بھرپور شعور و ادراک حاصل کیجیے۔ مثال کے طور پر جب آپ نماز ادا کرنے کے لیے کھڑے ہوں اور تکبیر تحریمہ کہیں تو ’’اللہ اکبر‘‘ کے معنی پر غور کریں۔ اس کلمے کے مطلب میں تدبر و تفکر کیجیے۔ اسی طرح جب آپ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ پڑھیں تو اس کے مفہوم پرغور کریں۔ ہر آیت جو آپ نماز میں پڑھیں یا نماز ِ باجماعت میں امام سے سنیں اس پر ضرور تدبر کریں۔ اسے اپنے وجدان و احساسات کا حصہ بنائیں۔
اپنی حقیت پر غور: اپنے آپ کو پہچانیے، اپنے آپ سے پوچھیے کہ میں کون ہوں؟ میرا مخلوقِ خدا سے کیا تعلق ہے؟ اللہ کی مخلوق اور اس کی نعمتوں کے بارے میں سوچیے۔ پھر ان نعمتوں کا اپنی ذات و کردار کے حوالے سے جائزہ لیجیے۔ دیکھیے کہ فرشتوں، آسمانوں، پہاڑوں، سمندروں، ستاروں، سیاروں اور زمین کے مقابلے میں آپ کی حیثیت کیا ہے؟ یوں آپ کو اپنی بے بضاعتی کا احساس ہوگا۔ آپ کو معلوم ہوگا کہ آپ کس قدر بے بس ہیں اور اللہ کے رحم و کرم کے کتنے محتاج ہیں۔ عظمتِ الٰہی کے سامنے آپ کو اپنی عاجزی و بے بسی کا ادراک حاصل ہوگا۔ یوں تکبر و غرور سے نجات ملے گی۔ پھر آپ اپنے پروردگار سے مددمانگیں، مہربانی اور عفو وعافیت کے طلب گار ہوں۔
دنیا میں کم رغبت: دنیا میں دلچسپی کم کیجیے۔ دنیا کا لالچ بری بلا ہے۔ آپ کی نظر دنیا میں حسب حاجت ہو، مگرآپ کی تمام تر دلچسپی کا مرکز آخرت ہو۔ آخرت دنیا کے مقابلے میں بہتر بھی ہے اور پایدار بھی۔ آپ دنیا کی طلب میں بھاگ دوڑ کم کر دیجیے۔ ایسا کرنے سے آپ کے ذہن و قلب کو سکون میسر آئے گا۔ زیادہ تر آخرت پر توجہ دیجیے۔ اللہ تعالیٰ نے جب ہمیں دنیا کا فضل وخیراکٹھا کرنے کے لیے کہا ہے تو اس نے اس کے لیے جو الفاظ استعمال فرمائے ہیں، ان میں آہستگی، ٹھیراؤ اورقرار پایا جاتا ہے، مگر جب اس نے ہمیں آخرت کی خیرحاصل کرنے کی ترغیب دی ہے تو ان الفاظ میں جلدی، تیزی، لپکنے اور سبقت کرنے کا تاثر پایا جاتا ہے۔ چنانچہ دنیا کی بھلائیوں کو حاصل کرنے کی ترغیب دیتے ہوئے ارشادِ الٰہی ہوا:
فَاِذَا قُضِیَتِ الصَّلٰوۃُ فَانْتَشِرُوْا فِی الْاَرْضِ وَابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللّٰہِ وَاذْکُرُوا اللّٰہَ کَثِیْرًا لَّعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَo (الجمعۃ۶۲:۱۰)پھرجب نماز پوری ہو جائے تو زمین میں پھیل جاؤ اور اللہ کا فضل تلاش کرو۔ اور اللہ کو کثرت سے یاد کرتے رہو، شاید کہ تمھیں فلاح نصیب ہوجائے۔
ھُوَ الَّذِیْ جَعَلَ لَکُمُ الْاَرْضَ ذَلُوْلاً فَامْشُوْا فِیْ مَنَاکِبِھَا وَکُلُوْا مِنْ رِّزْقِہٖ ط وَاِلَیْہِ النُّشُوْرُo (الملک۶۷:۱۵) وہی تو ہے جس نے تمھارے لیے زمین کو تابع کر رکھا ہے، چلو، اُس کی چھاتی پر اور کھاؤ خدا کا رزق، اُسی کے حضور تمھیں دوبارہ زندہ ہو کر جانا ہے۔
تاہم، جب اللہ نے ہمیں آخرت کی بھلائی پر آمادہ کیا ہے تو فرمایا ہے:
وَسَارِعُوْٓا اِلٰی مَغْفِرَۃٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَجَنَّۃٍ عَرْضُھَا السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ لا اُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِیْنَo (اٰل عمرٰن ۳:۱۳۳) دَوڑ کر چلو اُس راہ پر جو تمھارے رَبّ کی بخشش اور اُس کی جنت کی طرف جاتی ہے، جس کی وسعت زمین اور آسمانوں جیسی ہے، اور وہ خدا ترس لوگوں کے لیے مہیا کی گئی ہے۔
سَابِقُوْٓا اِلٰی مَغْفِرَۃٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَجَنَّۃٍ عَرْضُھَا کَعَرْضِ السَّمَآئِ وَالْاَرْضِ لا اُعِدَّتْ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰہِ وَرُسُلِہٖ ط ذٰلِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآئُ ط وَاللّٰہُ ذُوْالْفَضْلِ الْعَظِیْمِ۲۱ (الحدید۵۷:۲۱) دوڑو اور ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو، اپنے رَبّ کی مغفرت اور اُس جنت کی طرف جس کی وسعت آسمان و زمین جیسی ہے، جو مہیا کی گئی ہے اُن لوگوں کے لیے جو اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے ہوں۔ یہ اللہ کا فضل ہے، جسے چاہتا ہے عطا فرماتا ہے، اور اللہ بڑے فضل و الا ہے۔
آپ نے دیکھا کہ آخرت کے لیے سارعوا اور سابقوا ، دوڑو اور ایک دوسرے سے آگے بڑھو کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں جو سبقت کرنے والے اور ایک دوسرے سے مقابلہ کرنے کے معنی دیتے ہیں، اور دنیا کے لیے فانتشرو اور فامشو، پھیل جاؤ اور چلو کے الفاظ استعمال کیے ہیں جن میں آہستگی، ٹھیراؤ اور قرار پایا جاتا ہے۔
تیاری اور آغاز: ایک اچھا طالب علم امتحان سے بہت پہلے اس کی تیاری شروع کر دیتا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کے الفاظ ہیں: ’’اے اللہ، ہمارے لیے رجب و شعبان میں برکت دے اور ہمیں رمضان تک پہنچا‘‘۔ ہم جانتے ہیں کہ اس حدیث کے سوا، حضوؐر نے کبھی بھی لمبی عمر کی دعا نہیں کی۔ معلوم ہوا کہ رمضان ایک عظیم موقع و فرصت ہے کیونکہ رمضان سراسر خیرو برکت ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ ہم رمضان کی تیاری کیسے کریں؟ اس کے لیے ہمیں چاہیے کہ یہ کام کر لیں:
۱- اپنے اعضا کو ان تمام باتوں سے روکنے کی تربیت دینا جو اللہ کے غضب کو دعوت دیتی ہیں۔
۲- دل کا روزہ رکھنا، یعنی اپنے تمام اقوال و اعمال میں اللہ کی طرف متوجہ رہنا۔ حرکت و سکون اور گفتگو و خاموشی اسی کی رضا کے لیے ہو۔
۳- اگر ہمیں کسی سے رنجش ہے، ناراضی ہے، نفرت و بغض ہے تو فوراً اس سے صلح کریں تاکہ حصول خیر میں رکاوٹ دور ہو جائے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’دونوں میں سے اچھا وہ ہے جو سلام کرنے میں پہل کرتا ہے‘‘(مسلم)۔ پھر اس شخص کے لیے ہمیں دعاے خیر و مغفرت کرناہے۔ یوں مسلمان ماہ رمضان میں داخل ہو تو اس کا سینہ پاک صاف ہو۔ اللہ اس کا عمل قبول فرمالے اور وہ مغفرت پالے۔