افغان جہادکے دنوں میں ایک میڈیکل ڈاکٹر کی حیثیت سے ۱۹۸۳ء تا ۱۹۹۲ء کئی بار افغانستان جانا ہوا۔ روسی بمباری سے افغانستان کا دیہی علاقہ مکمل طور پر برباد ہوچکا تھا۔ ان علاقوں سے اکثریت پاکستان ہجرت کر گئی تھی۔ پھر جب افغان مجاہدین نے حکومت قائم کرنے کی ناکام کوشش کی، تو بڑے شہروں کابل،جلال آباد،گردیز،چغہ سرائے وغیرہ جانا ہوا، جہاں تباہی کے مناظر عام تھے۔ شاہراہیں ،پُل، باغات، عمارات زمیں بوس ہوتی گئیں اور غربت و افلاس میں مزید اضافہ مشاہدہ میں آتا رہا۔ ۱۹۹۴ء سے طالبان کی آمد کے ساتھ امن آیا، لیکن کچھ ہی عرصے بعد امریکی قیادت میں ناٹو افواج نے رہی سہی کسر نکال دی۔ ہرافغان کے دل کی آواز ہے کہ غیر ملکی مداخلت یقینا ختم ہو نی چاہیے، اس کے بغیر ملک میں امن قائم نہیں ہو سکتا۔
ماضی کی طویل خانہ جنگی کے بعد اگر پھر نئی خانہ جنگی ہوئی تو یہ ایک بڑاالمیہ ہوگا۔ یہی سوال تمام افغانوں اور ان کے بہی خواہوں کو پریشان کیے ہوئے ہے۔ اسی لیے جب ۲۹ فروری ۲۰۲۰ء کو ایک طویل انتظار کے بعد قطر میں ایک تاریخی امن معاہدہ طے پایا، تو اس پر افغان عوام نے کوئی پُرجوش استقبال نہیں کیا، حالانکہ سب کی خواہش تھی کہ طالبان اور امریکا کے درمیان امن مذاکرات کامیابی سےہم کنار ہوں۔افغانستان میںمنعقد ہونے والے گذشتہ تمام صدارتی انتخابات کے تمام امیدواروں نے عوام سے یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ ملک میںامن قائم کرنے کے لیے طالبان سے مذاکرات کریں گے۔حامد کرزئی اور اشرف غنی اس وعدے کی بنیاد پر انتخابی مہم چلاتے رہے کہ ’’ہمارا اصل کام امن کا قیام ہوگا۔ ہم طالبان سے اپیل کرتے تھے کہ وہ مذاکرات کریں‘‘۔ لیکن طالبان کا موقف یہ تھا کہ ۲۰۰۱ء میں جب امریکی افواج نے افغانستان پر نائن الیون کے واقعے کو بنیاد بناکر دھاوا بولا، تو اس وقت افغانستان میں مُلّا عمر کی قیادت میں امارت اسلامی قائم تھی، جس کو ختم کرکے ایک کٹھ پتلی حکومت قائم کی گئی۔چونکہ گذشتہ دوعشروں میں طالبان کی امارت اسلامی، غیر ملکی قبضے کے خلاف مزاحمت کا کردار ادا کرتی رہی ہے۔اس لیے جب بھی قابض فوج افغانستان چھوڑے تو اسے ہم سے بات کر کے معاملات طے کرنا ہوں گے۔ آخرکار امریکی صدربارک اوباما نے ۲۰۰۸ء میں افغانستان سے فوجی انخلا اور طالبان سے مذاکرات کا اصولی فیصلہ کیا۔لیکن انھیں فیصلے پر عمل درآمد میں متعدد اندرونی مزاحمتوں کا سامنا رہا۔ پھر صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے صدارتی انتخابات جیتنے کے بعد انخلا کی حکمت عملی پر کام شروع کیا۔ امریکی افواج اور اتحادیوں کے تحفظ اور واپسی کے لیے طالبان سے مذاکرات کی کڑوی گولی نگلنے کی کوشش کی۔
بالآخر ’امارت اسلامی افغانستان‘ کے نمایندے مُلّا عبدالغنی برادر اور ’ریاست ہاے متحدہ امریکا‘ کے نمایندے کے زلمے خلیل زادے نے ایک امن معاہدے پر دستخط کردیے۔ اس موقعے پر دونوں فریقوں نے معاہدے کے لیے پاکستان کے کردار اور مصالحانہ کوششوں کی تعریف کی ۔ اس معاہدے پر مختصر بات کرنے سے پہلے متن کا مطالعہ مفید ہوگا، یہ معاہدہ ۱۲سال کے طویل ترین بحث و مباحثے کے بعد حتمی شکل میں سامنے آیا ہے، اور بہ یک وقت انگریزی، پشتو، دری، [فارسی] میں جاری کیا ہے۔
’’معاہدہ براے بحالی امن افغانستان، مابین امارت اسلامی افغانستان، جس کو ریاست متحدہ [امریکا] ایک مملکت کے طور پر تسلیم نہیں کرتی اور طالبان کے نام سے جانے جاتے ہیں، اور ریاست متحدہ ۲۹ فروری ۲۰۲۰ء بمطابق ۵ رجب ۱۴۴۱ہجری قمری کیلنڈر اور۱۰ حوت ۱۳۹۸ ہجری شمسی کیلنڈر‘‘ یہ ایک جامع امن معاہدہ کیا ہے، جس کے چار حصے ہیں :
۱- ضمانتوںاور عمل درآمد کا نظام، جس سے سرزمین افغانستان کو کسی گروہ اور فرد کو ریاست متحدہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف استعمال سے روکا جائے گا ۔
۲۔ ضمانتوں اور عمل درآمد کے نظام الاوقات کے تحت افغانستان سے تمام غیر ملکی افواج کے انخلا کا اعلان۔
۳- ضمانتوںاور غیر ملکی افواج کے انخلا کے نظام الاوقات کا اعلان، بین الاقوامی گواہوں کی موجودگی میںکہ سرزمین افغانستان ریاست متحدہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف استعمال نہ ہو اور امارت اسلامی افغانستان جس کو ریاست متحدایک مملکت کے طور پر تسلیم نہیں کرتی اور طالبان کے نام سے جانے جاتے ہیں، بین الافغان مذاکرات افغان گروہوں کے ساتھ ۱۰مارچ ۲۰۲۰ء شروع کرے گا، بمطابق ۱۵ رجب ۱۴۴۱ ہجری قمری کیلنڈر اور ۲۰حوت ۱۳۹۸ ہجری شمسی کیلنڈر۔
۴- مستقل اور جامع فائر بندی بین الافغان مذاکرات اور صلاح مشوروں کا مرکزی نکتہ ہو گا، جس میں مشترکہ نظام نفاذ کا اعلان اور افغانستان میں مستقبل کا سیاسی نقشۂ کار شامل ہیں ۔
یہ چاروں حصے مربوط ہیں اور عمل درآمد متفقہ نظام الاوقات اور متفقہ شرائط پر ہو گا:
___ درج ذیل میں معاہدے کے پہلے اور دوسرے حصے کے نفاذ کا متن ہے:
دونوں فریقوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ان دونوں حصوں کے نفاذ کا انحصار ایک دوسرے پر ہے۔ امارت اسلامی افغانستان جس کو ریاست متحدہ ایک مملکت کے طور پر تسلیم نہیں کرتی اور طالبان کے نام سے جانے جاتے ہیں، کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے زیر اثر علاقوں میں ان پر عمل کرائے اور جب تک افغانستان میں بین الافغان مذاکرات کے ایک نئی عبوری افغان اسلامی حکومت قائم نہیں ہو جاتی۔
ریاست متحدہ افغانستان سے تمام امریکی و اتحادی فوجی قوت بشمول تمام غیرسفارتی سول افراد،نجی سیکورٹی،ٹھیکے دار،تربیتی عملہ،مشیر اور دیگر معاون عملے کا انخلا ۱۴ ماہ میں یقینی بنائے گی، جس کا اعلان اس معاہدے میں کیا گیا ہے۔اور اس سلسلے میں درج ذیل اقدامات اٹھائیں گے:
(الف) ریاست متحدہ اور اس کے اتحادی پہلے ۱۳۵ دنوں میں یہ اقدامات کریں گے:
۱- (امریکا) اپنے فوجیوں کی تعدادکو گھٹا کر(۸,۶۰۰) تک لائے گا اور اسی تناسب سے اتحادی فوجوں کی تعداد بھی کم کی جائے گی۔
۲- ریاست متحدہ اور اس کے اتحادی (۵) فوجی اڈوں سے مکمل انخلا کریں گے۔
(ب) امارت اسلامی افغانستان جس کو ریاست متحدہ ایک ریاست کے طور پر تسلیم نہیں کرتی اور طالبان کے نام سے جانے جاتے ہیں، کے عملی اقدامات اور معاہدے کی پابندی کو دیکھتے ہوئے ریاست متحدہ اور اس کے اتحادی درج ذیل کام کریں گے:
۱- ریاست متحدہ اور اس کے اتحادی ساڑھے ۹ ماہ میں افغانستان سے بقیہ انخلا مکمل کریں گے۔
۲ - اسی طرح ریاست متحدہ اور اس کے اتحادی، تمام بقیہ فوجی اڈوں سے انخلا مکمل کریں گے۔
(ج)ریاست متحدہ پابند ہے کہ وہ فوری طور پر تمام دیگر متعلقہ فریقوں کے ساتھ ایک منصوبے پر کام کرے، تاکہ جلد ازجلد جنگی اور سیاسی قیدیوں کی رہا ئی عمل میں لائی جا سکے، جس میں تعاون اور منظوری تمام متعلقہ فریق دیں گے۔ امارت اسلامی افغانستان جس کو ریاست متحدہ ایک ریاست کے طور پر تسلیم نہیں کرتی اور طالبان کے نام سے جانے جاتے ہیں، کے ۵ ہزار تک کے قیدیوں کو رہا کیا جائے گا، جب کہ دوسرے فریق کے ۱۰۰۰ (ایک ہزار) قیدیوں کی رہائی ۱۰مارچ ۲۰۲۰ء تک عمل میں آئے گی۔جو بین الافغان مذاکرات کا پہلا دن ہوگا۔ بمطابق ۱۵رجب ۱۴۴۱ ہجری قمری کینڈر اور ۲۰ حوت ۱۳۹۸ ہجری شمسی کیلنڈر۔متعلقہ فریقین کا یہ عزم ہے کہ آیندہ ۳ ماہ میں تمام قیدیوں کو رہا کر دیا جائے گا۔
ریاست متحدہ اس عمل کو مکمل کرنے کی پابند ہے ۔امارت اسلامی افغانستان جس کو ریاست متحدہ ایک ریاست کے طور پر تسلیم نہیں کرتی اور طالبان کے نام سے جانے جاتے ہیں، اس امر کے پابند ہیں کہ رہا شدہ قیدی اس معاہدے پر عمل کرنے کے پابند ہوں گے اور وہ ریاست متحدہ اور اس کے اتحادیوں کے لیے کو ئی خطرہ نہیں بنیں گے۔
(د)بین الافغان مذاکرات کے آغاز پر ریاست متحدہ، امارت اسلامی افغانستان جس کو ریاست متحدہ ایک ریاست کے طور پر تسلیم نہیں کرتی اور طالبان کے نام سے جانے جاتے ہیں، اس کے ارکان کے خلاف سروں پر مقرر کیے جانے والے انعامات کی فہرست کو ختم کرنے اور دیگر پابندیوں کو ختم کرنے کے لیے ۲۷ ؍اگست۲۰۲۰ء کا ہدف رکھا گیا ہے،بمطابق ۸محرم ۱۴۴۲ ہجری قمری کیلنڈر اور ۶سنبلہ ۱۳۹۹ ہجری شمسی کیلنڈر ۔
(ح)بین الافغان مذاکرات کے آغاز پر ریاست متحدہ، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے دیگر ارکان کے ساتھ مل کر ایسے سفارتی اقدامات کرے گی، جس سے امارت اسلامی افغانستان جس کو ریاست متحدہ ایک ریاست کے طور پر تسلیم نہیں کرتی اور طالبان کے نام سے جانے جاتے ہیں، کے ارکان کے نام پابندیوں کی فہرست سے نکالے جاسکیں، اس ارادے کے ساتھ کہ یہ ہدف ۲۹مئی ۲۰۲۰ء تک حاصل ہو جائے،بمطابق ۶ شوال ۱۴۴۱ ہجری قمری کیلنڈر اور ۹ جوزہ ۱۳۹۹ ہجری شمسی کیلنڈر۔
(و) ریاست متحدہ اور اس کے اتحادی، کو ئی بھی ایسی دھمکی یا طاقت کا استعمال نہیں کریں گے، جس سے افغانستان کی سیاسی آزادی اور جغرافیائی سالمیت متاثر ہو تی ہو اور نہ اس کے داخلی معاملات میں مداخلت کریں گے۔
اس معاہدے کے اعلان کے ساتھ ہی امارت اسلامی افغانستان جس کو ریاست متحدہ ایک مملکت کے طور پر تسلیم نہیں کرتی اور طالبان کے نام سے جانے جاتے ہیں، درج ذیل اقدامات اٹھائے گی، تاکہ کسی بھی گروہ یا فرد بشمول القاعدہ کو روکے گی، جوافغانستان سرزمین کو ریاست متحدہ اور اس کے اتحادیوں کی سلامتی کے لیے خطرہ کا باعث ہو۔
۱- امارت اسلامی افغانستان جس کو ریاست متحدہ ایک مملکت کے طور پر تسلیم نہیں کرتی اور طالبان کے نام سے جانے جاتے ہیں، اپنے ارکان اور دیگر افراد اور گروہوں بشمول القاعدہ کو اجازت نہیں دیں گے کہ وہ افغان سرزمین کو ریاست متحدہ یا اس کےاتحادیوں کی سلامتی کے خلاف استعمال کرسکے۔
۲- امارت اسلامی افغانستان جس کو ریاست متحدہ ایک مملکت کے طور پر تسلیم نہیں کرتی اور طالبان کے نام سے جانے جاتے ہیں، ان عناصر کو ایک واضح پیغام دے گی جو ریاست متحدہ اور اس کے اتحادیوں کی سلامتی کے لیے ایک خطرہ ہیں کہ ان کے لیے افغانستان میں کو ئی جگہ نہیں ہے، اور امارت اسلامی افغانستان جس کو ریاست متحدہ ایک مملکت کے طور پر تسلیم نہیں کرتی اور طالبان کے نام سے جانے جاتے ہیں، کے ارکان کو ہدایت کرے گی کہ وہ کسی ایسے گروہ یا افراد سے تعاون نہ کریں، جو ریاست متحدہ اور اس کے اتحادیوں کی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں۔
۳- امارت اسلامی افغانستان جس کو ریاست متحدہ ایک مملکت کے طور پر تسلیم نہیں کرتی اور طالبان کے نام سے جانے جاتے ہیں، بھی ایسے گروہ یا افراد کو روکے گی، جو ریاست متحدہ اور اس کے اتحادیوں کے سلامتی کے لیے خطرہ ہو، نیز ایسے افراد کو بھرتی،تربیت اور چندہ جمع کرنے سے بھی معاہدے کے قواعد کے مطابق روکے گی۔
۴- امارت اسلامی افغانستان جس کو ریاست متحدہ ایک مملکت کے طور پر تسلیم نہیں کرتی اور طالبان کے نام سے جانے جاتے ہیں، اس امر کے پابند ہوں گے کہ جو لوگ افغانستان میں پناہ اور رہایش کے خواہش مند ہوں گے، بین الاقوامی مائیگریشن قوانین کے مطابق اور اس معاہدے کے مطابق ایسے افراد ریاست متحدہ اور اس کے اتحادیوں کی سلامتی کے خلاف خطرہ نہ بنیں گے۔
۵- امارت اسلامی افغانستان جس کو ریاست متحدہ ایک مملکت کے طور پر تسلیم نہیں کرتی اور طالبان کے نام سے جانے جاتے ہیں، کسی کو بھی ویزہ ،پاسپورٹ ،سفری پرمٹ یا دیگر قانونی دستاویزات فراہم نہیں کرے گا، جو ریاست متحدہ یا اس کے اتحادیوں کے لیے خطرے کا باعث بنے۔
۱- ریاست متحدہ اس معاہدے کی توثیق کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے رجوع کر ے گی۔
۲- ریاست متحدہ ، امارت اسلامی افغانستان جس کو ریاست متحدہ ،ایک ریاست کے طور پر تسلیم نہیں کرتی اور طالبان کے نام سے جانے جاتے ہیں، آپس میں مثبت تعلقات قائم کریں گے اور چاہیں گے کہ معاملات طے پانے کے بعد بننے والی افغان اسلامی حکومت کے تعلقات اور بین الافغان مذاکرات کے نتائج مثبت ہوںگے۔
۳- ریاست متحدہ نئی افغان اسلامی حکومت جو بین الافغان مذاکرات اور تصفیہ کے بعد وجود میں آئے گی، کے ساتھ مالی تعاون جاری رکھے گا اور اس کے اندرونی معاملات میں دخل انداز نہیں ہو گا۔
اس معاہدے پر دوحہ قطر میں دستخط کیے گئے۔۲۹ فروری ۲۰۲۰ء بمطابق ۵ رجب ۱۴۴۱ہجری قمری کیلنڈر اور۱۰ حوت ۱۳۹۸ ہجری شمسی کیلنڈر، پشتو ، دری اور انگریزی زبانوں میں بیک وقت جس کا ہر ایک متن مصدقہ ہے۔
اس معاہدے کے متن میں ۱۶ مرتبہ ایک ہی جملہ لکھا گیا ہے:’’امارت اسلامی افغانستان جس کو ریاست متحدہ ایک مملکت کے طور پر تسلیم نہیں کرتی اور طالبان کے نام سے جانے جاتے ہیںــ‘‘۔ یاد رہے ۲۰۰۱ء میںجب امریکا، افغانستان پر قابض ہوا تو یہاں اسلامی امارت قائم تھی، جس کو زبردستی ہٹایا گیا اور اب جب آپ اپنی غلطی تسلیم کرتے ہیں تو آپ کو اس امارت اسلامی کو تسلیم کرنا پڑے گا۔چنانچہ درمیانی راستہ یہ نکالا کہ ’امارت اسلامی‘ کی اصطلاح کو تو مان لیا گیا، لیکن اس کے ساتھ امریکی مذاکرات کاروں نے یہ اضافہ کیا ’’ جس کو امریکا ایک ریاست یا مملکت کے طور پر تسلیم نہیں کرتی‘‘۔طالبان کے لیے تو یہ امر باعث اطمینان رہا کہ ان کو برابر کے فریق کے طور پر تسلیم کرلیا گیا، جو مسلّمہ بین الاقوامی روایات کے عین مطابق ہے، کہ قابض غیر ملکی فوج اپنی شکست تسلیم کرکے جب انخلا کرتی ہے، تو وہ مزاحمت کاروں سے اسی طرح کا معاہدہ کرتی ہے۔ اگر پوری طرح تسلیم نہیں کیا جاتا تو متن کی بعض دفعات سے اشارہ ملتا ہے، خاص طورپر جب امارت اسلامی سے مطالبہ ہو تا ہے کہ وہ کسی ایسے شخص کو ویزہ یا پاسپورٹ نہیں دیں گے، جو امریکا کے لیے خطرہ بنے۔ اس طرح معاہدے میں جارح طاقت کی حیثیت سے امریکا نے نہ اپنی غلطی تسلیم کی اور نہ افغان قوم سے ان مظالم اور قتل عام پر معافی مانگی، جو گذشتہ ۱۹سال میں امریکی اور اس کے اتحادی افواج کی جارحیت کے نتیجے میں وقوع پذیر ہوئے۔
اس معاہدے کے شروع میں ضمانتوں کا ذکر ہے، لیکن آگے اس کی تفصیل نہیں دی گئی۔ جس سے یہ امکان ہے کہ معاہدے کے علاوہ بھی کوئی خفیہ دستاویز بنائی گئی ہے ۔معاہدے میں بین الافغان مذاکرات کے آغاز اور دونوں طرف سے قیدیوں کو رہا کرنے کے لیے ۱۰ مارچ کی تاریخ دی گئی تھی، جو خاموشی سے گزر چکی ہے،جب کہ امریکی پابندیوں کے خاتمے کے لیے ۲۹مئی اور اقوام متحدہ کی پابندیوں کے لیے۲۷ ؍اگست مقرر کی گئی ہے، جو الٹی ترتیب ہے۔ بین الافغان مذاکرات کے انعقادکی ذمہ داری اگرچہ امریکی حکومت نے قبول کی ہے، البتہ اس کو کا میابی سے ہم کنار کرنے میں یقینا طالبان کلیدی اہمیت کے حامل ہیں۔ طالبان کے موجودہ سربراہ مُلّا ہیبت اللہ ہیں جو روپوش ہیں، انھوں نے کامیابی سے تحریک طالبان کی رہنمائی کی ہے اور اپنی صفوں میں اتحاد قائم رکھا ہے۔
مستقبل کے امکانات: افغانستان کا کُل رقبہ ۶۵۲۲۳۷ مربع کلو میٹر ہے۔محتاط اندازوں کے مطابق تقریباً ۵۰فی صد علاقہ طالبان کے زیر کنٹرول ہے۔ ان کے انتظامی ادارے اور عدالتیں کام کر رہی ہیں۔ باقی علاقوں میں بھی ان کے اثرات محسوس کیے جا سکتے ہیں۔جنگی صلاحیت میں ان کی سب سے بڑی کمزوری فضائی قوت کا نہ ہونا ہے۔طالبان کا دوسرا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ان کی اکثریت کا تعلق پختون آبادی ہی سے ہے۔ افغانستان ایک کثیر القومی وطن ہے، جس میں ۴۵ فی صد پختون،۲۰ فی صد تاجک، ۲۰ فی ہزارہ، ۹ فی صد ازبک، ترکمان اور ۳ فی صد دیگر قومیتیں ہیں۔
افغانستان میں طالبان کے بعد دوسرا بڑا فریق سابقہ شمالی اتحاد ہے، اور کم از کم چارصوبوں پر ان کا قبضہ ہے۔آج کل ان کی قیادت ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کے پاس ہے۔ صدارتی انتخابات ۲۰۱۵ء کے پہلے مرحلے میں انھوں نے ۴۵ فی صد ووٹ لے کر ڈاکٹر اشرف غنی کو شکست دےدی تھی، لیکن دوسرے مرحلے میں، ڈاکٹر اشرف غنی، طالبان کی درپردہ حمایت سے مکمل پختون آبادی کے ووٹ لے کر کامیاب قرار پائے۔ بعد میں عبداللہ عبداللہ حکومت میں چیف ایگزیکٹیو کی حیثیت سے، امریکی ایما پر شامل ہو گئے تھے۔ ۲۰۱۹ء کے انتخابات میں انھوں نے پختون ووٹ بھی حاصل کیے تھے۔ کُل۲۷ لاکھ ووٹ ڈالے گئے، اس میں سے ۹ لاکھ ووٹ انھوں نے حاصل کیے، جب کہ ۱۰ لاکھ ووٹ جو ضائع کیے گئے، ان میں بھی اکثریت ان کے ووٹوں کی تھی۔ اب انھوں نے اشرف غنی کے مقابلے میں صدر جمہوریہ بننے کا اعلان کردیا ہے اور ۶ صوبوں میں اپنے گورنر بھی مقرر کر دیے ہیں۔صدر اشرف غنی کی مخالفت میں ان کو ایک اہم شخصیت ازبک رہنما رشید دوستم کی بھی حمایت حاصل ہے، جو دشت لیلیٰ میں ہزاروں طالبان قیدیوں کےسفاکانہ قتل میں ملوث تھے، اور ایک مؤثر قوت رکھتے ہیں اور اسلحے کا بھی بڑا ذخیرہ رکھتے ہیں۔
تیسرا اہم گروہ ہزارہ شیعہ قبیلہ ہے، جو افغانستان کے ایک مرکزی صوبے بامیان پہ قابض ہے۔گذشتہ دنوں کابل میں ان کے سابق رہنما عبدالکریم خلیلی کی برسی کے موقعے پر ایک بڑے اجتماع پر حملہ ہوا تھا، جس میں ۵۰ سے زائد شرکا جاں بحق ہو ئے تھے۔ اس حملے کی ذمہ داری داعش نے قبول کی تھی۔ ہزارہ قبیلہ بھی طالبان کے مقابلے میں شمالی اتحاد کا ساتھ دے گا۔
چوتھا اہم گروپ گل بدین حکمت یار اور حزب اسلامی پر مشتمل ہے۔ گذشتہ صدارتی انتخابات میں وہ تیسرے نمبر پر رہے۔ ملک کے طول و عرض میں انھوں نے مؤثر انتخابی مہم چلائی۔ روسی جارحیت کے دوران افغان جہاد میں یہ مجاہدین کا سب سے بڑا گروپ تھا، لیکن بعد میں شمالی اتحاد سے جنگ کے دوران اور پھر طالبان کی آمد سے ان کی پوزیشن کمزور ہو تی گئی۔گذشتہ سال انھوں نے اشرف غنی حکومت کے ساتھ صلح کا معاہدہ کر لیااور انتخابی عمل میں بھی حصہ لیا۔ حزب اسلامی ایک نظریاتی حیثیت سے اہمیت رکھتی ہے اور قومی ایشو ز پر اپنی آزاد راے کا اظہار بھی کرتی ہے۔
۲۰۰۵ء میں حامد کر زئی نے اپنے دورِ صدارت کے آخری زمانے میں امریکا کےساتھ ایک دفاعی معاہدے پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا تھا، جس میں امریکی افواج کو پانچ مستقل اڈے دینے کی بات کی گئی تھی۔تاہم، بعد میں آنے والے صدر اشرف غنی نے اپنے دور کے آغاز میں ہی امریکی دباؤ پر دستخط کر دیے تھے۔
صدر اشرف غنی کی قیادت میں افغان حکومت اس معاہدے کی تیسری اہم فریق ہے، جو مذاکرات سے باہر رکھی گئی۔ لیکن معاہدے کے نفاذ میں ان کا اہم کردار ہے۔ملک کے بڑے شہروں پر ان کا اقتدار قائم ہے۔ تین لاکھ افغان فوج اور ایک لاکھ کی تعداد میں افغان پولیس ان کی حکم کے تابع ہے۔ وہ خود تو ایک ماہر معیشت اور علمی شخصیت ہیں اور پختون قبیلے احمد زئی سے تعلق رکھتے ہیں، لیکن کوئی جنگی پس منظر نہیں رکھتے۔ حالیہ انتخابات نے ان کو خاصا کمزور کر دیا ہے۔ انھوں نے اس بار صرف ۹ لاکھ ووٹ حاصل کیے، جب کہ کل ووٹرز کی تعداد ۹۶لاکھ ہے۔ ۱۸ ستمبر ۲۰۱۹ء کو ہونے والے صدارتی انتخاب کا نتیجہ ۵ ماہ بعد مشتہر کیا گیا اور اس طرح ان کو ۵۰ فی صد ووٹ دے کر پہلے مرحلے میں کامیاب قرار دیا گیا۔ انھوں نے ۹ مارچ۲۰۲۰ء کو جب صدارتی محل میں صدر جمہوریہ کا حلف اٹھایا، تو اس وقت صدارتی محل ہی کے قریبی بلاک میں ان کے مقابل امیدوار عبدا للہ عبد اللہ نے بھی صدارتی حلف اٹھایا۔ اشرف غنی کے ایک اور حلیف اور ان کے ساتھ پہلے صدارتی دور میں نائب صدر عبد الرشید دوستم بھی ان سے قریب ہی رہایش پذیر ہیں۔ ان کے مسلح گارڈ برسرِعام اپنی قوت کا اظہار کرتے ہو ئے نظر آتے ہیں۔ان حالات میں آنے والے بین الافغان مذاکرات میں اشرف غنی ایک کمزور پوزیشن میں نظر آرہے ہیں۔ ڈاکٹر عبدا للہ عبداللہ گروپ نے مذاکرات میں اس طرح شرکت کا عندیہ دیا ہے کہ ان کا نمایندہ وفد شریک ہوگا، لیکن وہ اشرف غنی کے سرکاری وفد کا حصہ نہیں ہوں گے۔
اشرف غنی نے طالبان قیدیوں کی رہائی میں تاخیر کا حربہ استعمال کرکے پورے معاہدے کو کمزو ر کر دیا۔ معاہدے کے مطابق ۱۰ مارچ ۲۰۲۰ء کو دونوں طرف سے قیدیوں کی رہائی کا عمل شروع ہونا تھا اور بین الافغان مذاکرات کا نکتہ آغاز تھا،لیکن یہ دونوں کام مؤخر ہو گئے۔
’قطر امن معاہدے‘ کو کامیاب بنانے میں حکومت پاکستان بہت اہم کردار رہا ہے۔جس کا اعتراف معاہدے کی تقریب میں ہی عالمی میڈیا کے سامنے دونوںفریقوں کے نمایندوں نے کیا تھا۔ اس اعترافِ حقیقت کا نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان کی مخالف لابیاں ہر جگہ اس کا توڑ کرنے کے لیے متحرک ہو گئیں ۔ بھارتی میڈیا نے تو اس کے خلاف بولنا ہی تھا کہ بھارت کے پاکستان دشمن مفادات افغانستان میں جنگی صورتِ حال کے برقرار رہنے سے جڑے ہو ئے ہیں۔لیکن امریکا میں موجود بھارت نواز اور پاکستان دشمن صحافتی اور بااثر حلقوں نے بھی اس تخریب پسندانہ کام میں اپنا حصہ ڈالا۔ ایک عرصے سے تمام بڑے امریکی دانش وَر،جنگی ماہرین اور تھنک ٹینک محسوس کر رہے تھے کہ امریکا کسی طریقے سے افغانستان کی اس نام نہاد ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ سے نکل آئے۔ اسی طرح دُوراندیش حلقے سمجھتے ہیں کہ ’داعش‘ کے لیے بھی پُرامن اور طالبان کا افغانستان قابلِ قبول نہیں ہوگا۔پاکستان میں تنگ نظر قوم پرست عناصر بھی اس کھیل میں بھارت کے وکیل صفائی بلکہ ہراوّل دستے کا کردار ادا کرتے نظر آتے ہیں ۔
مراد یہ ہے کہ موجودہ حالات میں معمولی سی غلطی بھی افغانستان کو ایک بار پھر ہولناک تصادم کی طرف دھکیل سکتی ہے۔ ہم افغان قوم اور اس کی قیادتوں سے ہوش مندی اور وسیع النظر فیصلوں کی توقع رکھتے ہیں۔