ناروے کی سمندری حدود میں جب ۱۹۷۹ء میں پیٹرولیم کے ذخائر نکالنے کا کام شروع ہوا، تو یورپ و امریکا کے متعدد عیسائی اور یہودی اداروں نے ناروے حکومت پر دباؤ ڈالا کہ ’’یہ تیل اسرائیل کو ارزاں نرخ پر یا مفت مہیا کیا جائے‘‘۔ ان کی دلیل تھی: ’’چونکہ تیل کی دولت سے مالامال عرب ممالک اسرائیل کو تیل فراہم نہیں کرتے ہیں اور ایران میں مغرب نواز رضا شاہ پہلوی حکومت کا تختہ اُلٹنے سے پٹرولیم کی فراہمی اور زیادہ مشکل ہوگئی ہے، اس لیے ناروے کو اپنے وسائل یہودی ریاست کی بقا کے لیے وقف کردینے چاہییں‘‘۔ ناروے کی ۱۵۰رکنی پارلیمان میں اس وقت ۸۷ ’اراکین فرینڈز آف اسرائیل‘ تنظیم کے سرگرم رکن تھے۔ تاہم، کوئی فیصلہ کرنے سے قبل ناروے کے وزیر اعظم اوڈوار نورڈلی نے ’فلسطین لیبریشن آرگنائزیشن‘ (PLO: تاسیس ۱۹۶۴ء) کے رہنماؤں اور عرب ممالک کا موقف جاننے کی خواہش ظاہر کی۔
بیش تر عرب ممالک نے اسرائیل کو پٹرولیم مہیا کرنے کی پُرزور مخالفت کی ۔ ان کی دلیل تھی کہ ’’اس کے بعد اسرائیل اور بھی زیادہ شیر ہوجائے گا اور امن کے لیے کوششیں مزید دشوار ہوجائیں گی‘‘، مگر پی ایل او کے سربراہ یاسر عرفات [م: ۱۱نومبر۲۰۰۴ء]نے ناروے کے وزیراعظم کو بتایا کہ’’ چاہے آپ اسرائیل کو تیل فراہم کریں یا نہ کریں، وہ یہ تیل حاصل کرکے ہی رہے گا۔ براہِ راست نہ سہی بالواسطہ دنیا میں کئی ملک اور افراد ہیں، جو یہ خرید کر اسرائیل کو سپلائی کریں گے۔ لہٰذا، بہتر یہ ہے کہ ناروے، اسرائیل کے ساتھ اپنی خیرسگالی کا خاطر خواہ فائدہ اٹھاکر فلسطینی قیادت اور اسرائیل کے درمیان پس پردہ مذاکرات کا سلسلہ شروع کرواکے ثالث کا کردار نبھائے‘‘۔
ناروے کی انھی کاوشوں کی صورت میں ۱۴ سال بعد ’اوسلو اکارڈ‘ [معاہدۂ اوسلو: ۱۳ستمبر ۱۹۹۳ء] وجود میں آیا۔ جس کی رُو سے فریقین نے ایک دوسرے کے وجود کو تسلیم کرتے ہوئے دو ریاستی فارمولے پر مہر لگائی ۔ یاسر عرفات کو فلسطینی اتھارٹی کا سربراہ تسلیم کیا گیا اور مغربی کنارہ اور غزہ کی پٹی ان کے حوالے کی گئی۔فلسطین کو مکمل ریاست کا درجہ دینے، سرحدوں کا تعین، سکیورٹی، فلسطینی مہاجرین کا مسئلہ اور القدس یا یروشلم شہر کے مستقبل کے بارے میں فریقین نے مزید بات چیت کے لیے ہامی بھرلی۔ اندازہ تھا کہ اس دوران اعتماد ساز ی کے اقدامات ، ملاقاتوں کے سلسلے اور پھر فلسطینیوں اور عام یہودی آباد کاروں کے درمیان رابطے سے ایک اعتماد کی فضا قائم ہو جائے گی ، جس سے پیچیدہ مسائل کے حل کی گنجایش نکل آئے گی۔
اسرائیل نے فلسطینی ریاست کے قیام اور فلسطینی مہاجرین کی واپسی کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کرکے ’اوسلو اکارڈ‘ کی روح نکال دی تھی، مگر اب امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے فلسطین کا جو نقشۂ کار جاری کیا ہے، اس نے تو ’اوسلو کارڈ‘ کو مکمل طور پر دفنا دیا ہے۔ ’اوسلو اکارڈ‘ میں تو ایک فلسطینی ریاست قائم کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا، مگر ’ٹرمپ کے منصوبے‘ (ڈیل آف سنچری) کے مطابق: ’’فلسطین ، اب صرف مغربی کنارہ اور غزہ پر مشتمل ہوگا، مکمل ریاست کے بجاے اسرائیل کی زیرنگرانی اب محض ایک Protectrate (محافظت)کی شکل میں ہوگا، جس کی سلامتی اور دیگر امور اسرائیل طے کرے گا۔ یہ فلسطینی حکومت فوج نہیں رکھ سکے گی،تاہم ایک پولیس فورس تشکیل دے سکے گی۔ اس کی سرحدوں کی حفاظت اسرائیل کی ذمہ داریوں میں شامل ہوگی‘‘۔
یہ بھی سننے میں آرہا ہے کہ غزہ سے فلسطینیوں کا مکمل انخلا کرکے ان کو صحراے سینا میں بسایا جائے گا اور غزہ کا علاقہ مکمل طور پر اسرائیل کے حوالے کیا جائے گا۔۱۹۹۳ء میںاوسلو میں اسرائیلی اور فلسطینی قیادت کے درمیان طے پائے گئے سمجھوتے میں ایک فلسطینی اتھارٹی کا قیام عمل میں آیا تھا۔ جس سے ۴۰لاکھ کی آبادی کو دو خطوں: مشرق میں غزہ اور اُردن کی سرحد سے متصل مغربی کنارے میں تقسیم کیا گیاتھا۔ نسبتاً وسیع مغربی کنارے کا انتظام ’الفتح‘ کی قیادت فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (پی ایل او) کے پاس ہے ، وہیں غز ہ میں اسلامی تحریک ’حماس‘ [تاسیس: ۱۹۸۷ء، بانی شیخ احمد یاسین، ۱۹۳۷ء-۲۲مارچ ۲۰۰۴ء] بر سرِ اقتدار ہے۔ جہاں پی ایل او، اسرائیل کو تسلیم کرتا ہے، حماس یہودی ریاست کے وجود سے ہی انکاری ہے۔ چونکہ مغربی کنارہ اور غزہ کے درمیان کوئی زمینی رابطہ نہیں ہے، اس لیے ا مریکی صدر کے مطابق ان کو منسلک کرنے کے لیے اسرائیلی علاقوں سے ۳۰میٹراُوپر ۱۰۰کلومیٹر دنیا کا ایک طویل ترین فلائی اوور بنایا جائے گا۔ مغربی کنارے میں جو تقریباً ۱۵یہودی علاقے ایک طرح سے زمینی جزیروں کی صورت میں ہیں، ان کو اسرائیل کے ساتھ منسلک کرنے کے لیے مخصوص شاہرائیں تعمیر کی جائیں گی۔
ایک سال قبل دہلی کے دورے پر آئے ایک یہودی عالم ڈیوڈ روزن نے مجھے بتایا تھا کہ ’’سابق امریکی صدر بارک اوباما جس خاکے کو تیار کرنے میں ناکام ہو گئے تھے، ٹرمپ ، سعودی عرب و دیگر عرب ممالک کے تعاون سے فلسطین کے حتمی حل کے قریب پہنچ گئے ہیں‘‘۔
ایئر لینڈ کے چیف ربی ڈیوڈ روزن، اسرائیل کی چیف ربائیٹ، یعنی مذہبی امورکے رکن ہیں اور امریکی جیوش کونسل ( AJC) کے سربراہ بھی رہ چکے ہیں۔مشرق وسطیٰ میں امن مساعی اور خصوصاً اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیا ن بیک چینل تعلقات کے حوالے سے وہ خاصے سرگرم ہیں۔ وہ سابق سعودی بادشاہ عبداللہ بن عبدالعزیز [م:۲۳جنوری ۲۰۱۵ء]کی ایما پر قائم ’کنگ عبدالعزیز انٹرنیشنل سینٹر فار انٹر ریلیجنز اینڈ کلچر ڈائیلاگ‘ کے بورڈ ممبر بھی ہیں۔
مشر ق وسطیٰ میں اس وقت یہ تین عوامل اسرائیل کو امن مساعی کے لیے مجبور کر رہے ہیں: ’’تمام تر جارحانہ کارروائیوں کے باوجود نسل پرست یہودیوں اور اسرائیلی حکام کو ادراک ہو گیا ہے کہ وہ ناقابلِ تسخیر نہیں ہیں۔ ویسے تو اس کا اندازہ ۱۹۷۳ء کی جنگ رمضان اور بعد میں ۲۰۰۶ءمیں جنگ لبنان کے موقعے پر ہی ہوگیا تھا ، مگر حالیہ کچھ عرصے سے یہ بات شدت کے ساتھ محسوس کی جا رہی ہے۔اس لیے دنیا بھر کے یہودی چاہتے ہیں کہ اس سے پہلے کہ تاریخ کا پہیہ کوئی اور رخ اختیار کرے، اسرائیل کی سرحدوں کا تعین کرکے، پڑوسی ممالک سے اس کا وجود تسلیم کرایا جائے۔ یہودی عالم کاکہنا تھا کہ توسیع پسندی اب کسی بھی صورت میں اسرائیل کے مفاد میں نہیں ہے۔ فوجی اعتبار سے اگرچہ اسرائیل سرحدوں کو وسیع کرنے کی قوت رکھتا ہے، مگر اس کے نتیجے میں مقبوضہ علاقوںکی آبادی کو بھی اس ناجائز قبضے کے ساتھ اسرائیل میں شامل کرنا پڑے گا، جس سے ظاہر ہے کہ یہودی اقلیت میں تبدیل ہوجائیں گے۔ دنیا بھر میں یہودی محض ایک کروڑ ہیں، جن میں ۶۰ لاکھ کے قریب اسرائیل میں رہتے ہیں۔ اس لیے فلسطینیوں سے زیادہ اسرائیلیوں کے لیے بھی اپنی بقا کے لیے سرحدوں کا تعین کرنا ضروری ہے۔
دوسرا یہ کہ اسرائیلی علاقوں میں مسلمانوں کی افزایش نسل یہودیوں سے کئی گنا زیا دہ ہے۔ ۱۹۶۷ء میں عرب ،اسرائیل کی آبادی کا ۱۴فی صد تھے ، جو اب لگ بھگ ۲۲ فی صد ہو چکے ہیں۔ یہ وہ مسلمان ہیں جنھوں نے اسرائیل کی شہریت تسلیم کی ہوئی ہے اور ’اسرائیلی عرب‘ کہلاتے ہیں۔
تیسرا اہم سبب یہ ہے کہ اسرائیل اور فلسطین کے مشرقی ساحل پر حالیہ کچھ عرصے سے تیل اور گیس کے وسیع ذخائر دریافت ہو رہے ہیں۔ کہاں وہ اسرائیل ، جہاں پانی اور تیل کا فقدان تھا، اب وہ خطے میں عرب ممالک کو پیچھے چھوڑ کر پٹرولیم کا مرکز بننے والا ہے۔ اس لیے وہ اب ہرصورت میں امن کو یقینی بناتے ہوئے، پوری سمندری حدود پر کنٹرول کرنا چاہتا ہے۔
حیفا کے پاس سمندر سے صاف پانی کشید کرنے کا دنیا کا سب سے بڑا پلانٹ لگا کر پانی کے معاملے میں اسرائیل پہلے ہی خود کفالت اختیار کرکے اب اردن کو بھی پانی سپلائی کرتا ہے۔ اسرائیل نے اب اردن اور مصر کو گیس کی ترسیل شروع کر دی ہے۔ اس وقت مصر کو اسرائیل سے ۸۵ملین کیوبک میٹر گیس فراہم ہورہی ہے، جس سے اسرائیل سالانہ۱۹ء ۵ ارب ڈالر کماتا ہے۔ ستم ظریفی یہ کہ چند سال قبل تک اسرائیل ، مصر سے تیل و گیس خریدتا تھا۔ حیفا سے ۱۰۰کلومیٹر دُور سمندر میں تامار اور لیویاتھان کے مقام پر اسرائیل نے گیس کے وسیع ذخائر دریافت کیے ہیں۔
بحیرہ روم میں دیگر مقامات پر بھی پٹرول اور قدرتی گیس کے ’وسیع ذخائر‘ موجود ہیں، جن پر فلسطینیوں کا دعویٰ ہے، مگر اس سمندر کا ۹۰فی صد اقتصادی زون اسرائیل کی تحویل میں ہے۔ لیویاتھان کے مقام پر ہی ۲۱ ٹریلین کیوبک فیٹ گیس کے ذخائر اگلے ۴۰سال تک اسرائیل کی ضروریات کے لیے بہت کافی ہیں۔ پچھلے ماہ یونان کے دارالحکومت ایتھنز میں اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے ۶؍ارب ڈالر لاگت سے ’ایسٹ میڈ پائپ لائن‘ بچھانے کے معاہدے پر دستخط کیے، جو اسرائیل سے قبرص ہوتے ہوئے یونان اور اٹلی اور دیگر مغربی ممالک کو گیس کی ترسیل کرے گی۔ اس پائپ لائن سے یور پ کی توانائی کی ۱۰فی صد ضروریات پوری ہوسکیں گی۔
تاہم، امریکی صدر ٹرمپ کی طرف سے فلسطینی مسئلے کا جو فارمولا منظر عام پر آیا ہے، اس سے شاید ہی امن کی امید بندھ سکتی ہے۔ خدشہ ہے کہ یہ اس خطے کے لیے مزید پیچیدگیاں پیدا کرسکتا ہے۔ اس کے مطابق فلسطینی مہاجرین کی اپنے گھروں کو واپسی کا معاملہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے گا۔۱۸۱صفحات کے اس منصوبے میں عرب ممالک سے اپنی مرضی سے ہجرت کرنے والے یہودیوں اور بزور طاقت بے گھر ہوئے فلسطینی مہاجرین کو ایک ہی پلڑے میں رکھا گیا ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ: ’’اگر اسرائیل، عرب ممالک سے آئے یہودی پناہ گرینوں کو اپنے یہاں ضم کرسکتا ہے، تو عرب ممالک کو بھی فلسطینیوں کو مکمل شہریت دے کر پناہ گزینوں کے باب کو بند کردینا چاہیے‘‘۔
دنیا بھر میں اس وقت ۷۰لاکھ فلسطینی مختلف ممالک میں وطن واپسی کی راہ دیکھ رہے ہیں۔ منصوبے میں عرب ممالک سے یہ بھی مطالبہ کیا گیا ہے، کہ ۷۰سال قبل جو یہودی اپنے آبائی ممالک سے نقل مکانی کرکے اسرائیل میں بس گئے ہیں، ان کو پیچھے چھوڑی ہوئی جایدادوں کا معاوضہ دے دیا جائے۔ اسرائیل سے، تاہم یہ مطالبہ نہیں کیا گیا ہے کہ وہ بھی ان فلسطینی پناہ گزینوں کو ہرجانہ دے، جن کو اس نے اپنی جایدادوں سے زبردستی بے دخل کردیا ہے۔
اسی طرح کی بددیانتی قیدیوں کی رہائی کے سلسلے میں بھی اپنائی گئی ہے۔ فلسطینی مزاحمتی گروپوں کو بلاشرط تمام اسرائیلی قیدیوں کو رہا کرنا ہوگا، مگر اسرائیلی تحویل میں فلسطینی قیدیوں کی رہائی کے لیے شرطوں کی ایک لمبی فہرست درج کی گئی ہے۔ قتل، اقدام قتل، دہشت گردی، اسرائیلی شہریوں،فوج یا اس کے سیکورٹی دستوں پر حملوںمیں ملوث فلسطینیوں کو کسی بھی صورت میں رہائی نہیں ملے گی۔ آخر میں اسرائیلی حکا م کو اختیار دیا گیا ہے کہ وہ اپنی صواب دید پر فلسطینی قیدیوں کو رہا کرسکتے ہیں۔
اس منصوبے کی رُو سے القدس یا یروشلم شہر کو تقسیم نہیں کیا جائے گا، بلکہ اس کا مکمل کنٹرول اسرائیل کے پاس ہی رہے گا۔ شہر میں مکینوں کو اختیار ہوگا کہ وہ اسرائیل یا فلسطین کے شہری ہوں گے۔ الاقصیٰ حرم پر جو ں کی توں پوزیشن برقرار رہے گی، یعنی یہ بدستور اُردن کے اوقاف کی زیرنگرانی رہے گا۔ اگرچہ سعودی عرب اس کے کنٹرول کا متمنی تھا، تاکہ ریاض میں موجود سعودی بادشاہ تینوں حرمین، یعنی مکہ ، مدینہ اور مسجد اقصیٰ کے ’متولی یا خادم‘ قرار پائیں۔
اسرائیل، مسجد اقصیٰ کے تہہ خانے تک رسائی کا خواہش مند ہے۔ جس کے لیے اس نے مغربی سرے پر کھدائی بھی کی ہے ، تاکہ وہاں تک پہنچنے کے لیے مسجدکی دیواروں کے نیچے سے ایک سرنگ بنا سکے۔ یہودیوں کا عقیدہ ہے کہ تہہ خانے میں ہی معبد سلیمانی کے کھنڈرات یا قبلۂ اوّل موجود ہے۔
شہر کی مونسپل حدود کے باہر کفر عقاب اور سہانات کے علاقوں کو مشرقی یروشلم یا القدس کا نام دے کر اس کو فلسطین کا دارالحکومت تسلیم کیا جائے گا۔غزہ کے راستے اسرائیل اورمصر کی سرحدیں نقل و حمل اور تجارت کے لیے کھول دی جائیں گی۔ اسرائیلی بندر گاہیں حیفا اور اشدود کو فلسطینیوں کے لیے کھولا جائے گا۔ ’بحیرۂ مُردار‘ (Dead Sea) جو مغربی کنارے کے علاقے میں شامل ہے، اس کے وسائل پر اسرائیل اور اردن کا کنٹرول رہے گا۔ اسرائیل دنیا بھر میں ’بحیرئہ مُردار‘ کی مصنوعات برآمد کرتا ہے۔ ’بحیرۂ مُردار‘ میں کان کنی اور اس کی مصنوعات کو جلد کی حفاظت وغیرہ کی دوائیوں کے طور پر استعمال کرنے کی دریافت کا سہرا ایک پاکستانی نژاد یہودی کے سر ہے، جو کراچی سے اسرائیل منتقل ہو گیا تھا۔
اس پوری رُوداد کے بعد بھی بتایا گیا ہے کہ: ’’یہ منصوبہ تبھی عمل میں لایا جائے گا ، جب حالات اسرائیل کے موافق ہوں گے اور فلسطینی اگلے چار برسو ں تک تمام شرائط پر عمل درآمد کرکے اسرائیل کی سلامتی کو یقینی بنائیں گے۔ اس کے بعد ہی اسرائیل دیگر امور پر قدم اٹھائے گا‘‘۔ فلسطینی حکام کے لیے لازم قرار دیا گیا ہے کہ ا ن کو حماس اور دیگر تمام مزاحمتی گروپوں کو غیر مسلح کرنا ہوگا۔ اردن اور مغربی کنارے کی سرحدکی تین چیک پوسٹ فلسطینی حکام کے حوالے کی جائیں گی۔ اس پورے معاہدے میں ترکی کے کردار کا کوئی ذکر نہیں ہے ، جس نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں القدس یا یروشلم کو اسرائیلی دارالحکومت قرار دیے جانے کے فیصلے کے خلاف ووٹ دلوانے میں قائدانہ کردارکرکے امریکا کے فیصلے کی سینہ تان کرمخالفت کی تھی۔
چند برس قبل دوحہ میں راقم کو مقتدر فلسطینی لیڈر خالد مشعل سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا تھا۔ جب میں نے ان سے پوچھا کہ ’’آپ تو دو ریاستی فارمولے کو رد کرتے ہیں اور اسرائیل کے وجود سے ہی انکاری ہیں، تو مفاہمت کیسے ہو؟‘‘ انھوں نے کہا:’’حماس کا رویہ کسی بھی طرح امن مساعی میں رکاوٹ نہیں ہے۔ یاسر عرفات اور محمود عباس نے تو اسرائیل کو تسلیم کیا، مگر ان کے ساتھ کیا سلوک ہوا۔ تحریک میں شارٹ کٹ کی گنجایش نہیں ہوتی۔ اس کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے استقامت ضروری ہے۔ اپنے آپ کو مضبوط بنانا اور زیادہ سے زیادہ حلیف بنانا تحریک کی کامیابی کے لیے ضروری ہے۔ تاریخ کا پہیہ سست ہی سہی مگر گھومتا رہتا ہے‘‘۔ اس کے ساتھ ہی انھوں نے کہا کہ حماس ۲۰۰۶ء کے ’نیشنل فلسطین اکارڈ‘ پر کار بند ہے، جس کی رُو سے وہ دیگر گروپوں کے ذریعے اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنے گی‘‘۔
اس فارمولے میں فلسطینی علاقوں میں غربت و افلاس سے نبٹنے کے لیے ۵۰؍ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا بھی ذکر ہے۔ اس خیراتی سرمایہ کاری کے بجاے اگر فلسطینی اتھارٹی کو گیس کے ذخائر اور ’بحیرئہ مُردار‘ کے وسائل کا کنٹرول دیا جاتا تو یہ کئی گنا بہتر ہوتا ۔بہرحال، صدر ٹرمپ کی اس بدترین جانب داری پر مبنی نام نہاد ’ڈیل آف سینچری‘ نے ایک بار پھر ثابت کردیا ہے کہ کمزور اور طاقت ور کے درمیان کوئی معاہدہ ہو ہی نہیں سکتا۔فلسطینی لیڈرو ں ،عرب و دیگر اسلامی ممالک کے لیے لازم ہے کہ اتحاد کا راستہ اختیار کرکے، سیاسی لحاظ سے طاقت ور اور مستحکم بننے پر زور دےکر تاریخ میں اپنے آپ کو سرخ رو کروائیں، ورنہ تاریخ کے بے رحم اوراق ان کو کبھی نہیں بخشیں گے۔