اپریل ۲۰۲۰

فہرست مضامین

طالبان کیا چاہتے ہیں؟

سراج الدین حقانی | اپریل ۲۰۲۰ | اخبار اُمت

Responsive image Responsive image

جب  ۲۰۱۸ء میں ہمارے نمایندوں نے امریکا کے ساتھ امن عمل کا آغاز کیا، تو ہماری توقع مذاکرات کے مثبت نتائج کے حوالے سے صفر تھی۔ ۱۸ برس کی جنگ اور ماضی میں کئی بار مذاکرات کی کوششوں کے پیش نظر ہم امریکا پر اعتماد نہیں کرتے تھے، لیکن اس کے باوجود ہم نے ایک اور کوشش کرنے کا فیصلہ کیا، کیونکہ اس طویل جنگ سے سب بے زار ہیں، اور کسی بھی ممکنہ  امن عمل کا موقع ضائع کرنا دانش مندی کا تقاضا نہیں ہے۔ اگرچہ اس کی کامیابی کا امکان بہت کم دکھائی دیتا تھا اور چار عشروں سے جاری جنگ کی وجہ سے ہر روز کسی افغان کا نقصان ہو رہا ہے۔ کوئی ایسا خاندان نہیں ہے جو اس جنگ سے متاثر نہیں ہے۔ہلاکتوں اور مشکلات کا یہ دور ختم کرنا چاہیے۔

امریکا کی زیرقیادت غیر ملکی افواج کے خلاف جنگ، ہمارا انتخاب نہیں تھا بلکہ جب ہم پر یہ جنگ مسلط کر دی گئی تو ہم اپنا دفاع کرنے پر مجبور تھے۔ لہٰذا، غیر ملکی افواج کا انخلا ہمارا اوّلین اور اہم مطالبہ ہے، اور اسی غیرمعمولی مسئلے پر ہم آج امریکا کے ساتھ امن معاہدے کر رہے ہیں۔

ملا عبد الغنی برادر اور شیر محمد عباس ستانک زئی کی سربراہی میں ہمارے نمایندوں نے اٹھارہ ماہ کے دوران امریکی حکام کے ساتھ امن معاہدہ کرنے کے لیے اَن تھک محنت کی، ملک بھر میں نہتے شہریوں پر امریکا کے شدید فضائی حملوں پر ہمارے نمایندوں نے باربار تشویش کا اظہار کیا اور امریکا کی جانب سے ہر بار نئے مطالبات پیش کرنے کے باوجود ہم امن مذاکرات کے لیے پُرعزم رہے۔

یہاں تک کہ جب امریکی صدر ٹرمپ نے مذاکرات کو منسوخ کرنے کا اعلان کیا، تب بھی ہم نے مذاکرات کے دروازے بند نہیں کیے، کیونکہ جنگ کے تسلسل سے زیادہ ہمارے عوام ہی متاثر ہورہے ہیں۔ یہ بات واضح ہے کہ اس طرح کے دو طرفہ مذاکرات کے بغیر امن معاہدہ ممکن نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جس دشمن کے خلاف دو عشروں سے ہماری لڑائی جاری ہےاور جس کے ہاتھوں موت بارش کی طرح برس رہی ہے، اس کے ساتھ امن مذاکرات کرنا اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ ہم اپنے ملک میں جنگ کے خاتمے اور امن کے قیام کرنے کے لیے پُرعزم ہیں۔

ہم ان خدشات اور تمام سوالات کو سمجھتے ہیں، جو غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد نظام کی نوعیت کے بارے میں افغانستان کے اندر اور اس سے باہر موجود ہیں۔ اس طرح کے خدشات کے جواب میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اس کا انحصار بین الافغان اجماع پر ہے۔ ہم دوسروں کی مداخلت کے بغیر آزاد ماحول میں ہم گفت و شنید اور مفاہمت کے ذریعے ملک کے نظام کے بارے میں بات چیت کریں گے اور اس میں کسی کو رکاوٹ ڈالنے کی اجازت نہیں دینی چاہیے۔

پہلے سے شرائط مقرر کرکے اس عمل کو روکنا مناسب نہیں ہے۔ ہم دوسری جماعتوں کے ساتھ باہمی احترام کے ماحول میں، مشاورتی عمل کے ذریعے آگے بڑھنے کے خواہش مند ہیں اور ایک نئے اور ہمہ پہلو سیاسی نظام کے قیام کے لیے پُرعزم ہیں کہ جس میں ہر افغان کی آواز سنی جائے اور کوئی افغان شہری محروم نہ رہے۔

مجھے یقین ہے کہ غیر ملکی افواج کے انخلا اور مداخلت سے نجات کے بعد، ہم مشترکہ طور پر ایک اسلامی نظام کے لیے راہ ہموار کریں گے، جس میں برابری کی بنیاد پر تمام افغانوں کے حقوق محفوظ ہوں گے، تعلیم اور روزگار سمیت خواتین کے وہ تمام حقوق محفوظ ہوں گے، جو اسلام نے دیے ہیں۔

ہم باغی گروپوں کی طرف سے افغانستان سے علاقائی اور بین الاقوامی سلامتی کو لاحق خطرے کے بارے میں اٹھائے جانے والے خدشات کو بھی بخوبی سمجھتے ہیں۔ تاہم، اس طرح کے خدشات میں مبالغہ آرائی کو پہلے بھی استعمال کیا گیا ہے، اور افغانستان میں غیر ملکی گروہوں کے بارے میں اطلاعات کو سیاسی مفادات کے لیے بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے۔

یہ وضاحت بھی ضروری اور کسی افغان کے مفاد میں یہ بات نہیں ہے کہ وہ اپنے ملک کو کسی اور کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت دیں اور افغانستان کو میدان جنگ بنائیں۔ ہم نے غیرملکی مداخلت کا عذاب دیکھا ہے، لہٰذا تمام افغانوں کے ساتھ مل کر ہم یہ امر یقینی بنانے کے لیے تمام تر اقدامات اٹھائیں گے کہ ایک نیا افغانستان امن کی علامت کے طور پر ابھرے اور کسی کو بھی اس کا احساس کبھی نہ ہو کہ ہماری دھرتی سے اس کو خطرہ ہے۔

لیکن اس کے باوجود، ہم پیش آمدہ چیلنجوں کو کم نہیں سمجھتے ہیں، اور ان میںہمارے لیے سب سے بڑا چیلنج یہ ہوگا کہ مختلف افغان گروہ ہمارے مشترکہ مستقبل کی وضاحت کے لیے سنجیدگی اور خلوص نیت سے کام کریں۔ بلاشبہہ کچھ لوگ اختلاف کریں گے، تاہم مجھے یقین ہے کہ سب لوگ ایک متفقہ نظام پر راضی ہوجائیں گے، کیوں کہ اگر ہم کسی غیرملکی دشمن کے ساتھ معاہدہ کرنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں، تو باہمی اختلافات کو افہام و تفہیم سے احسن طریقے سے ختم بھی کر سکتے ہیں۔

ایک اور چیلنج یہ ہوگا کہ عالمی برادری غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد افغانوں کے ساتھ سرگرم عمل رہے، کیونکہ ہمارے ملک کے استحکام اور ترقی کے لیے عالمی برادری کا تعاون ضروری ہے۔ ہم باہمی احترام کی بنیاد پر پاے دار امن اور خوش حالی کے میدان میں اپنے بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے تیار ہیں۔ اپنی افواج کے انخلا کے بعد امریکا بھی افغانستان میں ملک کی ترقی اور تعمیر نو میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔

ہم اس پہلو کو اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ افغانستان تمام ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات برقرار رکھے اور ان کے خدشات کو سنجیدگی سے دُور کرے۔ افغانستان تنہائی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ نیا افغانستان بین الاقوامی دنیا کا ایک ذمہ دارملک ہوگا۔ ہم ان تمام بین الاقوامی اصولوں اور قوانین کے پابند رہیں گے، جو اسلام کے مقدس دین کے اصولوں سے متصادم نہیں ہیں۔ اسی طرح ہم دوسرے ممالک سے بھی توقع کرتے ہیں، کہ وہ ہمارے ملک کے استحکام اور خودمختاری کا احترام کریں اور ہماری آزادی اور استحکام کو باہمی تعاون کے طور پر دیکھیں، مقابلے اور دشمنی کے طور پر نہیں۔

اس وقت کا بڑا چیلنج ہمارے اور امریکا کے مابین امن معاہدے پر عمل درآمد ہوگا، اگرچہ امریکی نمایندوں کے ساتھ بات چیت کے دوران کچھ اعتماد پیدا ہوا ہے، لیکن جس طرح امریکا ہم پر مکمل اعتماد نہیں کرتا ہے ، ہمیں بھی اس پر اتنا اعتماد نہیں ہے۔ ہم اپنی جانب سے معاہدے کے ہر لفظ پر عمل درآمد کرنے کے پابند ہیں۔ لیکن معاہدے کے مفادات کا حصول ، کامیابی کی یقین دہانی اور دیرپا امن لانا بھی امریکا پر منحصر ہے۔ امریکا کو چاہیے کہ وہ دیرپا امن کے لیے اپنے وعدوں پر عمل درآمد کو یقینی بنائے۔

ہمارے ہم وطن بہت جلد اس تاریخی معاہدے پر عمل درآمد کے بعد تمام غیر ملکی افواج کے انخلا کا مشاہدہ کریں گے۔ جب ہم اس مرحلے کے قریب پہنچ رہے ہیں، تو یہ بھی ممکن ہے کہ بہت جلد ہم اپنے تمام افغان بھائیوں اور بہنوں کے ساتھ مل کر پایدار امن اور ایک نئے افغانستان کی بنیاد کی طرف تحریک کا آغاز کریں گے۔دیگر ممالک میں مقیم تمام افغان شہریوں کو اپنے ملک اور گھر کی طرف واپس آنے کی دعوت دے گا، جہاں ہر ایک کو عزت اور امن کے ساتھ زندگی گزارنے کا حق حاصل ہو‘‘۔(What We the Taliban Want?، مطبوعہ دی نیویارک ٹائمز، ۲۰فروری ۲۰۲۰، ترجمہ: ادارہ)