محبوب سے وصال کے لمحات جوں جوں قریب آتے ہیں، محب کے دل کی دھڑکنیں تیز ہوتی جاتی ہیں۔ ہر نئی آنے والی صبح اسے یہ حسرت ہوتی ہے کہ یہ روز آنکھ بند کرتے ہی گزر جائے۔ خزاں کا موسم اُسے بہار سے بھی بھلا لگتا ہے۔ موسمِ گرما کی لب و رُخسار کو جھلسا دینے والی ہواؤں میں اُسے بادِ صبا کی تازگی محسوس ہوتی ہے۔ اندھیری رات کی رُتوں میں آسمان پر جلتے قمقمے رنگ و نور کی بارات کامنظر پیش کرتے نظر آتے ہیں۔ فضا ایک مانوس سی خوشبو سے معطر ہوجاتی ہے۔ ہر شے میں گُل و بُلبل کی سرگوشیاں سُنائی دیتی ہیں اور لگتا ہے کہ اُسی کی باتیں ہورہی ہیں۔ گزرتے وقت کا ایک ایک لمحہ اُسے پہاڑ سے زیادہ بھاری لگتا ہے، اُس کا دل چاہتا ہے کہ اُس کے پرَ لگیں اور وہ اُڑ کر محبوب کے پاس پہنچ جائے۔
بس یہی حال تھا حبیبِ کبریا حضرت محمدمصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا کہ محبوب سے ملاقات کے شوق میں رمضان کا انتظار کرتے رہتے تھے اور فرطِ محبت میں ماہِ شعبان ہی سے پُکارتے تھے: اللّٰھُمَّ بَارِکْ لَنَا فِیْ شَعْبَانْ وَ بَلِّغْنَا رَمَضَانْ ، اے اللہ! شعبان میں ہمارے لیے برکتیں رکھ دے اوررمضان نصیب فرمادے۔
رمضان کے بابرکت مہینہ کی آمد : مبارک ہو آپ کو کہ خوش نصیب ہیں آپ! رمضان آپ کی دہلیز پر دستک دے رہا ہے۔ بس اب تو دنوں اور گھنٹوں کی بات ہے اور ایک انوکھا مہمان اپنی ساری رعنائیوں، برکتوں، مغفرتوں اور رحمتوں کے ساتھ آپ پر سایہ فگن ہوگا۔l ایک ایسا مہمان جس کے ہوتے نیکی کرنا آسان اور گناہ کرنا مشکل ہوجائے گا۔l ایک ایسا مہمان جس کے ہوتے خیر ہی خیر، جی ہاں خیر ہی خیر ہوگی۔ lایک ایسا مہمان جس کے آتے ہی شیطان کو زنجیروں سے باندھ دیا جائے گا تاکہ آپ کو نقصان نہ پہنچاسکے۔l ایک ایسا مہمان جس کے آتے ہی نفس پاکی کی راہ لے گا۔ lایک ایسا مہمان جس کے ہوتے محبتیں اور صرف محبتیں (اجتماعیت) پروان چڑھیں گی۔ lایک ایسا مہمان جس کے ہوتے نہ کوئی چھوٹا ہوگا اور نہ بڑا، نہ کوئی کالا ہوگا نہ گورا۔l ایک ایسا مہمان جس کی راتوں میں قرآن کی زبانی محبوب سے راز و نیاز ہوگا۔l ایک ایسا مہمان جس کی رُتوں میں اپنائیت کا احساس ہوگا۔
ذرا سوچیں، کتنے خوش نصیب ہیں ہم، جو ایک ایسے مہمان کو خوش آمدید کہنے جارہے ہیں جس کے انتظار میں کتنے ہی پیارے ملکِ عدم سدھار گئے۔ ہاں، کتنے ہی قصۂ پارینہ بن گئے، اور ہوسکتا ہے اگلے برس ہم بھی قصۂ پارینہ بن چکے ہوں۔
اس ماہ کی عظمت اور برکت بلاشبہہ عظیم ہے لیکن ایسا بھی نہیں کہ اس کی رحمتیں و برکتیں ہراس شخص کے حصے میں آجائیں جو اس مہینے کو پائے۔ کسان کی طرح محنت کریںگے تو اچھی فصل تیار ہوگی اور اس کا پھل جنت کی شکل میں ملے گا۔ اگر غافل کسان کی طرح سوتے رہ جائیں تورمضان کی ساری بارش اس طرح بہہ جائے گی جیسے چکنے پتھر سے پانی۔ تو آئیے سوچیں کہ اس بارش سے کیسے سیراب ہوں اور کون سے ایسے کام کریں کہ اس کے لمحات امر ہوجائیں؟
نیت اور ارادہ: نبی کریمؐ نے فرمایا: اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ (تمام اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے)۔ لہٰذا رمضان المبارک کے استقبال کے لیے سب سے پہلا کام یہ ہے کہ ابھی سے اس سے بھرپور فائدہ اُٹھانے کی خالص نیت اور پختہ ارادہ کرلیں۔ رمضان کے پیغام اور عظمت کو اپنے اندر تازہ کرلیں۔ اس سے فائدہ اُٹھانے کی خالص نیت کریں اور ایسے کام کرنے کا عزم و ارادہ کریںکہ جس سے تقویٰ حاصل ہو۔ یہی دراصل روزہ کا اصل مقصود ہے۔
دُعا: رمضان سے پہلے ہی دُعا مانگنے کا عمل تیز کردیں۔ کیونکہ ہادیٔ برحقؐ کے بقول دُعا مومن کا ہتھیار ہے اور دُعا ہی ہر عبادت کا مغز ہے۔ اپنی نمازوں کے بعد، رات کی تنہائیوں میں، سفر کی حالت میں، بازاروں میں چلتے ہوئے اُمتِ مسلمہ کے پستی سے نکلنے کی، ملک کے استحکام و سالمیت کی، اُمتِ مسلمہ کے اتحاد اور کھوئے مقام کو واپس دلانے کی، بیماروں کے لیے شفا کی، گزرے ہوؤں کی مغفرت کی اور آنے والے رمضان سے بھرپور فائدہ اُٹھانے کی دُعا اس بات کو یاد رکھتے ہوئے کیجیے کہ جبریلِ ؑامین نے کہا کہ: ’’ـاس آدمی کے لیے ہلاکت ہے جس نے رمضان کا مہینہ پایا اور اپنے گناہوں کی بخشش اور معافی نہ حاصل کرسکا، اور آپؐ نے اس کے جواب میں آمین کہا‘‘ (حاکم)۔
خریداری کی تکمیل: تیزی سے بدلتی ہوئے دنیا کے معیارات نے ہر طرف ایک افرا تفری کا سماں پیدا کردیا ہے اوراس کے اثرات سے دیگر اقوام کی طرح مسلم اُمہّ بھی نہ بچ سکی۔ ہماری بدنصیبی ہے کہ ہم میں سے اکثر لوگ رمضان المبارک کی ساعتوں کو اللہ کی عبادت کرکے اُس کی رضا حاصل کرنے کے بجاے بازار کے چکر لگانے میں صرف کردیتے ہیں۔ رمضان کی ساعتوں سے بہتر انداز میں مستفید ہونے کے لیے بہتر ہوگا کہ رمضان اور عید الفطر کی خریداری رمضان کی آمدسے پہلے ہی کرلیں تاکہ اس ماہِ مبارک کی قیمتی راتیں ، خصوصاً شبِ قدر اور عید کی چاند رات کے قیمتی لمحات ضائع نہ ہوں۔ رسولؐ اللہ نے فرمایا: ’’جو شخص دونوں عیدوں کی راتوں کو نیک نیتی اور اخلاص کے ساتھ شب بیداری کرے گا تو اس بندے کا دل مُردہ نہیں ہو گا، جس دن اوروں کے دل مُردہ ہوجائیں گے‘‘۔
رمضان کی چاند رات : رمضان کی چاند رات کو مغرب کی نماز کے فوراً بعد غسل کریں، صاف ستھرے کپڑے پہنیں، خوشبو لگائیں اور اپنے محلے،گاؤں، قصبے اور دسترس میں تمام لوگوں کو رمضان کی مبارکباد دینے نکل کھڑے ہوں۔ جو ملاقاتیں عشاء سے پہلے ہوسکتی ہوں کرلیں، باقی تراویح کے بعد کریں۔ اس ملاقات میں بس لوگوں کے پاس جائیں، سلام دُعا کے بعد رمضان کی مبارک باد دیں۔ اگر ممکن ہو تو رمضان کی برکتوں سے متعلق ایک دو حدیثیں بیان کرکے خوش خبریاں سنائیں۔ اگر کوئی تحفہ ساتھ لے جائیں تو بہت ہی بہتر ہے۔ تحفے میں مسواک، خوشبو، کتابچے وغیرہ کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ کچھ نہیں تو مسنون دُعاؤں کی فوٹو کاپی ہی ساتھ لے لیں۔
حقوق اللہ اور حقوق العباد: حقوق اللہ میں اگر کسی قسم کی کوتاہی ہوگئی ہو تو کوشش کرکے اس کا ازالہ رمضان سے پہلے کرلیں۔ اگر ممکن نہ ہو تو اللہ سے گڑگڑا کرمعافی مانگ لیں، وہ توبہ کو قبول کرنے والا ہے۔ خدانخواستہ اگر کسی بندے کے حق کی ادایگی میں کوتاہی ہوگئی ہے تو اس کو رمضان سے پہلے ادا کردیں یا اُس سے بالمشافہ ملاقات کرکے معاف کرالیں۔ اگر اپنے اندر اتنی ہمت نہ پائیں تو تحریر لکھ کر اس کے پاس بھیج دیںکہ رمضان کے مہینے سے بھرپور فائدہ اُٹھانے کے لیے ہمیں ایک دوسرے کو معاف کردینا چاہیے۔ اگر کوئی آپ سے ناراض ہے یا آپ کسی سے ناراض ہیں تو ان ناراضیوں کو آپ آگے بڑھ کر دُور کرلیںکیونکہ مومن کی یہی شان ہے۔
نمازوں میں تکبیرِ اولٰی: الحمد للہ آپ نمازیں تو پڑھتے ہی ہیں بس اس بات کا اہتمام کریں کہ پورے رمضان اذان ہوتے ہی سارے کام چھوڑ کر گھر سے وضو کرکے مسجد چلے جائیں، کیونکہ نبی کریمؐ کی سنت یہی تھی کہ آپؐ اذان سنتے ہی پوری دنیا کے لیے اجنبی ہوجایا کرتے تھے اور سیدھے مسجد کا رُخ کرتے تھے۔ مسجد پہنچ کر دو رکعت تحیۃ المسجد ادا کریں، پہلی صف میں بیٹھیں اور پورے رمضان کسی بھی نماز کی تکبیرِ اولیٰ فوت نہ ہونے دیں۔ یاد رہے امام کے سورۃ الفاتحہ شروع کرنے سے پہلے پہلے جماعت میں شامل ہونے پر تکبیرِ اولیٰ کا ثواب مل جاتا ہے۔ خواتین کوشش کریں کہ اپنے گھروں میں اوّل وقت میں نماز کی ادایگی کو ممکن بنائیں۔ اس کے علاوہ اس بات کا بھی تہیہ کرلیں کہ اگلے رمضان تک مذکورہ بالا عمل کو اپنی عادت بنالیں گے۔
رمضان چارٹ کی تیاری اور خود احتسابی: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ ’’روزہ (گناہوں سے بچنے کے لیے) ڈھال ہے، پس اس کو ڈھال بناؤ۔ روزہ دا ر بدکلامی کرے نہ چیخے چلّائے۔ اگر کوئی اس کو بُرا کہے یا اس سے لڑے تو یہ کہہ کر الگ ہوجائے کہ میں روزے سے ہوں، میرے لیے یہ ممکن نہیں کہ ان بُرے کاموں میں مشغول ہوں‘‘۔
ایک رمضان چارٹ بنائیں جس میں اپنے کمزور پہلو لکھیں اور پورے رمضان انھیں دُور کرنے کے کی کوشش کریں اور ہر رات اس چارٹ کا جائزہ لیں اور کالم بناکران پر ٹِک لگاتے رہیں، مثلاً نمازیں، تلاوتِ قرآن، مطالعہ حدیث، مطالعہ دینی کتب، دین کے حوالے سے ملاقاتیں، انفاق فی سبیل اللہ، بیماروں کی عیادت وغیرہ۔ دوسری طرف غیبت، چغلی، لعن طعن، بدگمانی، تکبر، جھوٹ، وعدہ خلافی، بد نگاہی، حسد، بُغض وغیرہ جیسی اخلاقی بُرائیوں کا جائزہ لیں ۔ اس طرح آپ اپنے آپ کو خوداحتسابی کے عمل سے گزاریں گے اور ایک مسحور کن تبدیلی اپنے اندر پائیں گے۔
سحر و افطار: روزہ رکھنے کے لیے سحری لازماً کھائیں کیونکہ سحری کھانا سنت ہے۔ کچھ لوگ رات دیر سے کھانا کھاتے ہیں اور سو جاتے ہیں اور سحری کے بغیر روزہ رکھ لیتے ہیں۔ یہ درست فعل نہیں ہے۔ ’’سحری میں برکت ہے، اسے ہر گز نہ چھوڑو۔ اگر کچھ نہیں تو اس وقت پانی کا ایک گھونٹ ہی پی لیا جائے، کیونکہ سحری میں کھانے پینے والوں پر اللہ تعالیٰ رحمت فرماتا ہے اور فرشتے ان کے لیے دُعاے خیر کرتے ہیں‘‘ (مسند احمد)۔نبی مہربانؐ نے فرمایا: ’’میری اُمت اس وقت تک خیر پر رہے گی جب تک افطار میں عجلت اور سحری میں تاخیر کرتی رہے گی‘‘ (مسند احمد)۔
تہجد کی ادایگی: سحری کے وقت سے کم از کم آدھا گھنٹہ پہلے اُٹھ جائیں۔ یہ تہجد کا وقت ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت سب سے زیادہ انھی گھڑیوں میں متوجہ ہوتی ہے۔ یہ محبوب سے ملاقات کا سب سے بہترین وقت ہے۔ ایسے وقت میں اُس سے کچھ راز و نیاز کی باتیں کرلیں اور رو رو کر دنیا اور آخرت کے لیے دُعائیں مانگیں۔ لیکن مانگنے کی ایک شرط ہے کہ پورے یقین کے ساتھ مانگیں کہ آپ کو ضرور ملے گا ۔ آپ کا یقین بالکل اس بچی کی طرح ہونا چاہیے جو اپنے باپ کے ساتھ نمازِ استسقا کے لیے جارہی تھی اور راستے میں رُک کر اپنے والد کو کہا: ابا جان ایک منٹ۔ میں گھر سے ہو کر ابھی آئی۔ والد نے پوچھا کیا کرنے جارہی ہو؟ بچی نے معصومیت سے جواب دیا: ابا جان ہم اللہ میاں سے بارش کی دُعا مانگنے جارہے ہیں اور چھتری تو بھول ہی گئے۔ واپسی پر بارش ہوگی تو ہم بھیگ جائیں گے، اس لیے میں چھتری لینے جارہی ہوں۔
کھانے میں اعتدال: روزہ ایک مکمل تربیت کا نام ہے اور اس میں سب سے بڑی تربیت اپنی خواہشات پر قابو ہے لیکن اکثر لوگ رمضان کو لذتوں اور چٹخاروں کا مہینہ بنالیتے ہیں۔ ایسا کرنے سے پرہیز کریں۔ اس سے آپ کی صحت پر بھی اچھے اثرات مرتب ہوںگے۔ صاحب ِ حیثیت خواتین و حضرات اپنے دسترخوانوں کو غریبوں و مسکینوںکے لیے دراز کریں۔
انفاق فی سبیل اللہ: مَنْ ذَا الَّذِیْ یُقْرِضُ اللّٰہَ قَرْضًا حَسَنًا فَیُضٰعِفَہٗ لَہٗٓ اَضْعَافًا کَثِیْرَۃً ط (البقرہ ۲:۲۴۵) ’’تم میں کون ہے جو اللہ کو قرضِ حسن دے تاکہ اللہ اُسے کئی گُنا بڑھا چڑھا کر واپس کرے؟‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مسلمان مسلمان کا بھائی ہے۔ نہ تو اس پر ظلم کرتا ہے اور نہ اس کو بے یار و مددگار چھوڑتا ہے۔ جو اپنے بھائی کی حاجت پوری کرے گا اللہ اس کی حاجت پوری کرے گا۔جو شخص کسی مسلمان کی کسی پریشانی کو دُورکرے گا تواللہ قیامت کے دن اس کی پریشانی دُور کرے گا۔ جو شخص کسی مسلمان کی پردہ پوشی کرے گا تو اللہ قیامت کے دن اس کی پردہ پوشی فرمائے گا‘‘ (بخاری، مسلم، عن ابن عمرؓ)۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں بہت سخاوت کرتے تھے اور آپؐ کی سخاوت تیز چلتی ہوئی ہوا سے زیادہ ہوتی تھی (مشکٰوۃ)۔ کوشش کریں رمضان کا ایک دن بھی انفاق فی سبیل اللہ کے بغیر نہ گزرے، چاہے اللہ کی راہ میں روزانہ ایک روپیہ ہی کیوں نہ دیا جائے۔ روزہ داروں کی افطاری کا اہتمام کریں، یتیموں کی کفالت کریں، عزیز رشتہ داروں کی مدد کریں، زکوٰۃ کی ادایگی کریں۔
تاریخ سے رشتہ: یاد رکھیے! وہ قومیں کبھی تباہ نہیں ہوتیں جو اپنے روشن ماضی کو ہروقت یاد رکھتی ہیںاور اس سے سبق حاصل کرتی ہیں۔ آج اُمّتِ مسلمہ جس زبوں حالی کا شکار ہے اس سے نکلنے کا واحد راستہ اپنی تاریخ کی جانب پلٹنا ہے اور اسی طرح جدوجہد کرنا ہے جس طرح ہمارے اسلاف نے ماضی میں اپنا تن من دھن قربان کرکے کی۔ رمضان المبارک اس لحاظ سے بھی خاص اہمیت رکھتا ہے کہ اس میں درجِ ذیل واقعات پیش آئے جو آج بھی تاریخ میں سنہری حروف سے لکھے ہوئے ہیں اور تاقیامت لکھے رہیں گے۔ ان ایام کو منانے کا بھرپور اہتمام کریں، تاکہ ۱۰رمضان المبارک کو’یومِ باب الاسلام‘ مناتے ہوئے ہمارے اندر بھی اُمتِ مسلمہ سے محبت کا جذبہ پروان چڑھے۔ ۱۷رمضان المبارک کو ’یومِ بدر‘ مناتے ہوئے اللہ وحدہٗ لاشریک کی وحدانیت پر ایمان پختہ ہو۔ ۲۱ رمضان المبارک کو ’یومِ فتح مکہ‘ مناتے ہوئے اللہ ربّ العزت کا تمام طاقتوں کا منبع ہونے کا حقیقت کی نگاہ سے مشاہدہ ہوسکے۔ ۲۷ رمضان المبارک کو یومِ نزولِ قرآن مناتے ہوئے قرآن کے برحق ہونے کا یقین پختہ ہوسکے۔
قرآن سے تعلق: رمضان کا مہینہ دراصل قرآن کی سال گرہ کا مہینہ ہے اور اسی مہینے میں تورات و انجیل نازل ہوئیں۔ رمضان کی ساری شان و عظمت قرآن ہی کی وجہ سے ہے۔ یہ قرآن ایک چلتا پھرتا، جیتا جاگتا اور زندہ و جاوید معجزہ ہے۔ یہ جس سرزمین پر اُترا اُسے امن والا بنادیا، جس قوم پر اُترا اُسے اُمت ِ وسط بنادیا، جس مہینے میں اُترا اُسے سب مہینوں سے افضل بنادیا، جس رات اُترا اُسے ہزار مہینوں سے بہتر بنادیا اور جس نبیؐ پر اُترا اُسے امام الانبیا ؑ بنادیا۔ لہٰذا اس ماہِ مبارک میں قرآن سے خصوصی تعلق قائم کیجیے اور تلاوت کیجیے، ترتیل کے ساتھ پڑھیے، اسے یاد کرنے کی کوشش کیجیے اور پورے رمضان میں روزانہ کم از کم ایک آیت ضرور حفظ کرلیں۔ اس طرح رمضان کی تکمیل تک آپ کو ۳۰ آیات حفظ ہوجائیں گی۔
قرآن پڑھتے وقت اس کے ترجمے کو ضرور سامنے رکھیں، تب ہی آپ کو سمجھ آئے گا کہ یہ آپ سے کیا کہہ رہا ہے۔ اگر ترجمے کے ساتھ اس کی تفسیر بھی دیکھ لی جائے تو بہت سے ایسے راز آپ پر منکشف ہوںگے جن کی آپ کو جستجو تھی۔ اس رمضان سے قرآن کے حوالے سے ایک نئی چیز اپنے اندرپیدا کریںکہ اس کا فہم حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ اس کے لیے قرآن سے محبت رکھنے والوں کی بہت سی کاوشیں بازار میں دستیاب ہیں لیکن اگر آپ انفرادی طور پر ان سے مستفید ہونا چاہیں تو بہت آسان نہیں، سیکڑوں میں سے کوئی ایک آدھ کامیاب ہو تو ہو لیکن اگر اس کو چند دوست، محلے دار یا کم از کم گھر کے افراد اجتماعی طور پر فہم حاصل کرنے کی کوشش کریں تو یہ کام بہت آسان ہوجائے گا اور اس کی پابندی بھی ہوسکے گی۔ پھر اس قرآن ہی کے حوالے سے ایک کام اور کریں کہ اس کے کہے پر عمل کرکے دیکھیں۔ آپ کو لگے گا کہ آپ نے ایک نئی دنیا میں قدم رکھ دیا ہے، جہاں سرور، اطمینانِ قلب اور سکون ہی سکون ہے جس کی تلاش میں دنیا بھٹک رہی ہے۔ اس رمضان سے اس قرآن کی دعوت کو عام کرنے کی فکر اور جدوجہد کو بھی اپنا شعار بنالیں تاکہ بھٹکی ہوئی انسانیت بھی سکون اور اطمینانِ قلب کی طرف پلٹ آئے۔
آیئے عہد کریں :
۱- اس رمضان میں کسی بھی نماز میں تکبیرِ اولیٰ فوت نہیں ہونے دیں گے۔
۲- رمضان چارٹ بنا کر اپنی کمزوریوں کا ازالہ کریں گے۔
۳- ہر روز حسبِ توفیق کچھ نہ کچھ اللہ کے دیے ہوئے مال میں سے ضرور خرچ کریں گے۔
۴- تہجد کی ادایگی کو اپنا شعار بنائیں گے۔
۵- کسی ایک فرد کو قرآن پڑھنا سکھانا شروع کریں گے۔
۶- قرآن کا ترجمہ اور تفسیر پابندی سے پڑھنے کا آغاز کریں گے۔
۷- اہلِ خانہ کے ساتھ قرآن ترجمہ و تفسیر کے ساتھ پڑھنے کا اہتمام کریں گے۔
۸- امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فریضہ اسلامی روح کے ساتھ انجام دیں گے۔
۹- ہر کام میں اجتماعیت کو فروغ دیں گے۔
۱۰- دعوت الی اللہ کا فریضہ انجام دیں گے۔