شامی آمر بشارالاسد کے ہاتھوں شام میں قتل عام ہو رہا ہے، جس نے ۲لاکھ سے زیادہ سول آبادی کو کچل کررکھ دیا ہے۔ ان میں سے بیش تر اہلِ وطن کو اپنے بنیادی حقوق اور جمہوریت کے لیے آواز بلندکرنے پر مار ڈالا گیا اور اس میں سفاکی کی انتہا یہ ہے کہ یہ کام کرتے وقت قاتل طبقے نے مخصوص مذہبی ذہنیت کو مرکزی اہمیت دی۔مارے جانے والوں کی بڑی اکثریت سُنّی عرب آبادی پرمشتمل ہے، جنھیں انسانوں سے بدتر مخلوق سمجھ کر فنا کیا گیا ہے۔
بشارالاسد کی فوجیں ایک اور بدترین قتل عام کے لیے ادلب (Idlib) کے دروازے پر دستک دے رہی ہیں۔ ادلب کو ۲۰۱۱ء کے بعد بشار اپنے خلاف جمہوری اور انسانی حقوق مانگنے والوں کا آخری مرکز تصور کرتا ہے، وہاں سے مزید ۳۰لاکھ آبادی کو اسلحےکے زور پر اپنے گھروں سے بے دخل کرکے، ترکی اور یورپ کی طرف دھکیلا جارہا ہے۔
یاد رہے ترکی نے ادلب کی سرحد پر بار بار جنگ بندی ختم کی، تاکہ وہاں سے شامی آبادی کے بہاؤ کو ترکی کی طرف بڑھنے سے روکا جاسکے۔ اُدھر بشار کی شامی فوجوں نے بمباری کرکے ۳۰ترک فوجیوں کو گذشتہ فروری میں ماردیا جس پر ترکی نے محدود جوابی کارروائی کی ، تاکہ جنگ کے پھیلاؤ کو بڑھنے نہ دیا جائے اور امن عالم کے لیے مذاکرات کا راستہ اختیار کیا جائے۔
آج کے بشارالاسد کے شام میں، عصرجدید کا ’ہولوکاسٹ‘ ہورہا ہے۔ وہاں جو کچھ ہورہا ہے اور جو کچھ ہونے جارہا ہے، اس سے بدترین کی اور کیا توقع کی جاسکتی ہے؟ بشار ایڑی چوڑی کا زور لگاکر اقتدار پہ قابض رہنا چاہتا ہے۔ مجموعی طور پر ۵ لاکھ شامی اس جنگ میں لقمۂ اجل بن چکے ہیں۔ ایک کروڑ ۳۰ لاکھ بے گھر ہوکر دُنیا بھر میں در در کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ یہاں پر سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا بشارالاسد کو اس کا موقع فراہم کیا جائے گا کہ وہ ۱۰لاکھ لوگوں تک کو قتل کرڈالے؟ بدقسمتی کی بات ہے کہ ساری دنیا خاموشی سے اس وحشیانہ یلغار اور قتل عام کو دیکھ رہی ہے۔
شام کو فضائی حملوں سے روکنے کا اہتمام ہونا چاہیے تاکہ وہ بے گھر شامیوں کے درماندہ اور ہجرت کرتے بے یارومددگار ہوئے مظلوموں کو فضائی بم باری اور مشین گنوں سے نہ مارسکے۔ سُنّی شامیوں کی نسل کشی پر تلے ہوئے بشارالاسد کے حامی کہتے ہیں کہ ’’ہم تو مغربی سامراجیوں کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں‘‘۔ لیکن کیا وہ اس بے بنیاد دعوے کی تائید میں یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اس مقصد کے لیے بشار الاسد روسی سامراجیوں سے مدد حاصل کرکے یہ مقصد حاصل کررہا ہے؟ کیونکہ ان مظلوموں کے قافلوں پر حملےکرنےوالوں میں بشار کی فوجوں کے ساتھ روسی فضائیہ بھی برابر گھناؤنا کھیل کھیل رہی ہے۔
یہ سوال توجہ چاہتا ہے کہ ’’کیا دنیا میں بسنے والے حکمران اور عوام الناس، شام میں برپا نسل کشی کو درست سمجھتے ہیں؟ کیا وہ اس متفق علیہ عہد کو بھول گئے ہیں کہ آیندہ کبھی ہولوکاسٹ نہیں ہونے دیا جائے گا؟ کیا وہ واقعی یہ سمجھتے ہیں کہ شام کے یہ مظلوم اور خانماں برباد لوگ، انسان نہیں ہیں؟ اگر دنیا کے لوگ اپنی ذات اور اپنے ضمیر سے مخلص ہیں تو جواب دیں کہ کیا برطانیہ یا اسپین کے ۲لاکھ عام انسانوں کو یوں ذبح کردیا جاتا تو وہ واقعی یوں ہی خاموش رہتے؟ حالانکہ اہلِ مغرب اور امریکا کی عظیم اکثریت، دوسری جنگ ِ عظیم کے دوران جرمنی میں یہودیوں کے خلاف ہولوکاسٹ پربجا طور پر تڑپ اُٹھی تھی، لیکن آج وہ ضمیر کیوں سو چکا ہے؟
درحقیقت یہ تلخ سوال پھن پھیلائے کھڑا ہے کہ مغربی ضمیر، شام میں نسل کشی کو کچھ بھی سنجیدہ مقام نہیں دیتا۔ بشارالاسد کی فوجیں اندھا دھند سویلین آبادی پر آگ برسا رہی ہیں۔ وہ مردوں، عورتوں اور بچوں پر تسلسل کے ساتھ گیس اور کیمیکل بم برسا کر انھیں خوفناک اذیت سےدوچار کرتے ہوئے مار رہا ہے۔ وہ ’داعش‘ کو شام میں اس طرح کام کرنے کی اجازت دے رہا ہے، کہ دنیا کی توجہ کو اپنے ہاتھوں قتلِ انسانی سے ہٹاسکے۔ وہ اپنے فوجیوں کے ساتھ مسلسل کوشاں ہے کہ مقتولین کی اجتماعی قبروں کو دنیا کی نظروں سےبچائے اور داعش کے وجود کو خبروں کی سرخیوں میں اُبھارے۔ امرواقعہ ہے کہ بشار اور داعش، دونوں افواج نے شام میں آزادی کی اس جدوجہد کے پروانوں کو قتل کرنے میں ایک دوسرے پر سبقت حاصل کی ہے اور پورے المیے کو مغالطے کی نذر کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔
دوسری طرف ہزاروں شامی سُنّی مسلمان، بشار کے اذیت خانوں میں قید میں سڑتے، روزانہ مرتے اور روزانہ بے بسی کی زندگی جیتے ہیں۔ وہ دُعا اور التجا کرتے ہیں کہ یااللہ! کسی کو ہماری مدد کے لیے بھیج۔ مگر افسوس کہ ان ہزاروں مجروح قیدیوں کی مناجاتیں، جیل خانوں کی دیواروں سے ٹکرا کر لوٹ آتی ہیں۔ اور پھر جب ان کی لاشیں، بےرحمی سے مارے گئے جانوروں کی طرح کسی ویرانے میں پڑی نظر آتی ہیں، تو خود انسانیت شرما جاتی ہے۔ ایسی ہی ایک لاش کی تصویر جب عام ہوئی تھی تو امریکی حکومت نےبشار اور اس کے افسروں پر محض کچھ مدت کے لیے پابندی عائد کرکے، اپنی ’انسان دوستی‘ کا مضحکہ خیز ثبوت دینے کی کوشش کی تھی، مگر اس کے ہاتھوں انسانی قتلِ عام کو روکنے کے لیے کچھ اقدام نہ کیا۔
ہمارے مظلوم اور معصوم بچوں کی زندگیاں داؤ پر لگی ہوئی ہیں۔ ہمارا مجموعی خاندانی، تہذیبی، اخلاقی، شہری اور تعلیمی مستقبل تباہی کے دھانے پر ہے۔ دُنیا انتشار اور بحران کے سوداگروں کے رحم و کرم پرہے، اورسرزمین شام اس المیے کا گڑھ ہے۔ یہاں پر مَیں ہولوکاسٹ سے بچ جانے والے ایلی ویسل کا یہ قول دُہرانا چاہوں گا:
میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ انسانیت کو پہنچنے والے دُکھ اور درد پر کبھی خاموش نہیں رہوں گا،اور ہرانسان کو پکاروں گا کہ وہ ظلم کی اس سیاہ رات میں غیر جانب دار نہ رہے۔ ظلم کا ہاتھ روکے، اس کی مذمت کرے اور مظلوم کی آواز بنے، اس کا ساتھ دے۔
شام میں روز افزوںانسانی نسل کشی پر دنیا کی بے خبری اورلاتعلقی درحقیقت انسانی تاریخ کا اندوہ ناک المیہ ہے۔ کون ہے جو اس المیے کے خاتمے کے لیے اپنا کردار ادا کرے گا؟ (روزنامہ دی واشنگٹن پوسٹ، نیویارک، ۱۱مارچ ۲۰۲۰ء، ترجمہ: س م خ)