جب ۱۵؍ اگست ۲۰۲۱ء کو تحریکِ طالبان افغانستان نے افغانستان کے دارالحکومت کابل کا انتظام سنبھالا تو یہ ایک محیرالعقول واقعہ تھا۔ اس سے پہلے کم و بیش پورے افغانستان پر ان کا قبضہ ہوچکا تھا ۔تمام بڑے شہر ،ایئرپورٹوں اور اہم عسکری تنصیبات پر وہ ’امارت اسلامی‘ کے جھنڈے گاڑ چکے تھے۔ نیٹو افواج اپنے پورے لاؤ لشکر کے ساتھ افغانستان سے رخصت ہوچکی تھیں۔ ساڑھے تین لاکھ افغانوں پر مشتمل فوج، جس کو امریکا نے اربوں ڈالر خرچ کر کے تیار اور بہترین اسلحے سے لیس کیا تھا، طالبان کے سامنے ریت کی دیوار ثابت ہوئی۔امریکی کٹھ پتلی صدر اشرف غنی سمیت اُن کی پوری کابینہ ملک سے فرار ہو گئی اور بغیر جنگ لڑے طالبان کابل میں داخل ہو گئے۔ گذشتہ تین سال میں ایک طویل عرصے کےبعد افغانستان میں امن و امان بحال رہا۔ ’داعش‘ تنظیم نے متعدد مقامات پر کئی خودکش حملے کیے، جس سے سیکڑوں جانیں ضائع ہوئیں۔ لیکن اب وہ سلسلہ بھی تھم چکا ہے۔ داعش کی بیش تر قیادت ملک سے باہر نکل گئی ہے اور دیگر ممالک میں سرگرمِ عمل ہے ۔
۱-ملک میں مکمل امن و امان کی بحالی، جنگ کا خاتمہ، عوام کا تحفظ ،شاہراؤں کی حفاظت۔
۲- حکومتی رٹ کا قیام، کابل کی مرکزی حکومت کا پورے افغانستان پر مکمل کنٹرول ہے۔ ملک کے ۳۴ صوبوں اور ۴۰۰ اضلاع میں ایک ہی حکومت ہے۔ تمام صوبوں کے والی، اور بڑے چھوٹے اضلاع کے حکام اس کے سامنے جواب دہ ہیں، اور اس کا حکم پورے ملک میں نافذ ہوتا ہے۔
۳- قانون کی بالادستی اور لاقانو نیت کے خاتمے کے بعد پورے ملک میں شرعی قوانین نافذ ہیں۔ عدالتیں قائم ہیں اور وہ روزمرہ کے مسائل اور تنازعات کا بروقت فیصلہ کرتی ہیں۔ عالمی ادارے نے کابل کو اس خطے کا سب سے محفوظ شہر قرار دیا ہے جہاں جرائم کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔
۴- بدعنوانی اورکرپشن کا ہر سطح پر سد باب کردیا گیا ہے۔ رشوت ستانی ،بھتہ خوری، کمیشن وغیرہ جیسے مسائل جو گذشتہ حکومتوں میں عام تھے، ناپید ہیں۔ تمام حکومتی محصولات کی وصولی کو یقینی بنایا جا رہا ہے۔ بجلی کے بل اور دیگر خدمات پر ادائیگی پوری طرح لی جاتی ہے، جس سے حکومت کو مستحکم بنانے میں بہت مدد ملی ہے ۔
۵- ملک میں اقتصادی ترقی، تجارت کے فروغ اور معاشی سرگرمیاں بڑے پیمانے پر جاری ہیں۔ افغان کرنسی کو عالمی بینک نےاس خطے کی مضبوط ترین کرنسی قرار دیا ہے۔ افغان تاجر بغیر کسی روک ٹوک کے مقامی اور بین الاقوامی سطح پر آزادانہ طور پر کاروبار کر رہے ہیں۔ بین الاقوامی کمپنیاں اور کاروباری افراد بھی افغانستان میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔
۶- ملک میں بلاامتیاز یکساں طور پر ترقیاتی کام زور و شور سے جاری ہیں ۔ پہلے سال چھوٹے پیمانے پر کاموں کا آغاز ہوا،لیکن اب پورے ملک میں بڑے بڑے ترقیاتی منصوبوں پر کام ہو رہا ہے۔ شاہراؤں کی تعمیر ہو رہی ہے، ڈیم بن رہے ہیں اور سالانگ ٹنل کی تعمیرِ نو ہو چکی ہے۔ ۲۸۰کلومیٹر طویل قوش ٹپہ نہر بن رہی ہے، جو کہ شمالی صوبوں کی لاکھوں ایکڑ زمین کو سیراب کرے گی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ تمام ترقیاتی کام خود انحصاری کی بنا پر کیے جا رہے ہیں۔ کوئی غیر ملکی قرضہ نہیں لیا گیا۔ بیرونی ممالک مثلاً چین اگر کسی منصوبے میں شریک ہے، تو وہ امداد کے طور پر کام کر رہا ہے۔
۷- مرکزی بینک اور دیگر مالیاتی ادارے ملک کی ترقی اور معاشی کنٹرول میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں، خاص طور پر قیمتوں کے کنٹرول اور درآمدات و برآمدات پر نظر رکھتے ہیں اور جو اقدام ضروری ہے وہ کرتے ہیں۔ غیر ملکی کرنسی کی آمد اور خروج پر بھی دسترس ہے ۔ بین الاقوامی پابندیوں کے باوجود ملک میں بینکاری کا نظام جاری ہے اور سودی نظام کا خاتمہ کر دیا گیا ہے۔
۸- اقوام متحدہ کے اداروں اور دیگر ملکوں کی حکومتوں کے ساتھ تعلقاتِ کار قائم ہیں۔ ورلڈ فوڈ پروگرام ،عالمی ادارہ صحت، ریڈ کراس وغیرہ تمام تر پابندیوں کے باوجود کام کر رہے ہیں اور ان کے کارکنان اور دفاتر کو تحفظ فراہم کیا گیا ہے، جب کہ ان کو براہِ راست عوامی مفادات کے کاموں اور امدادی اشیاء کی تقسیم کی دسترس فراہم کی گئی ہے۔ زلزلوں، سیلابی صورتِ حال اور وبائی امراض، انسداد پولیو مہمات میں دیگر ریلیف کے کاموں میں عالمی رفاہی اداروں کو کام کرنے کی آزادی دی گئی ہے۔ ان اداروں میں خواتین کارکنان بھی کام کر رہی ہیں ۔علاوہ ازیں شعبۂ صحت میں ایک لاکھ ۵۰ ہزار اور شعبہ تعلیم میں ۹۰ ہزار خواتین پر مشتمل عملہ کام کر رہا ہے۔
۹- پڑوسی ممالک کے ساتھ سماجی ومعاشی تعلقات کو فروغ دیا گیا ہے۔ چین، ایران، پاکستان ،روس، ازبکستان ،ترکمانستان، تاجکستان وغیرہ کے ساتھ تجارتی تعلقات استوار اور سرحدیں کھلی ہیں، اور اس میں بہتری آرہی ہے۔ ان ممالک کو طالبنائزیشن کا جو خوف درپیش تھا وہ اب معروضی اور عملی معاشی تعلقات میں ڈھل چکا ہے۔ کمیونسٹ ملک چین کے ساتھ خاص طور پر معاشی تعلقات میں بہت اضافہ ہوا ہے اور اس وقت ملک کی ۷۰ فی صد بیرونی تجارت اس کے ساتھ ہے۔ کابل میں اکثر ممالک کے سفارت خانے فعال ہوچکے ہیں۔
۱۰- ملک میں مذہبی ہم آہنگی اور رواداری کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ طالبان قیادت نے برسرِ اقتدار آنے کے بعد جس عام معافی کا اعلان کیا تھا، اس پر عمل کیا جا رہا ہے۔ انتقامی کارروائیوں کا سلسلہ تقریباً ختم ہو چکا ہے۔ جو لوگ بیرونی ملک جانا چاہتے ہیں یابیرون ملک سے واپس آنا چاہتے ہیں وہ بلا خوف و خطر آسکتے ہیں۔ اندرون ملک اور بیرونی ملک فضائی پروازیں بحال ہو چکی ہیں۔
۱- جس عبوری کابینہ کا اعلان ۲۰۲۱ء میں کیا گیا تھا،وہی ابھی تک چل رہی ہے اور مستقل حکومت اور نظام ابھی تک معرض وجود میں نہیں آیا۔ ملک میں جمہوری ،شورائی نظام اور پارلیمنٹ کا وجود نہیں ہے۔ باقاعدہ ملکی دستور و آئین بھی منظور نہیں کیا جاسکا ہے۔ ملکی انتخابات یا اس کا متبادل کوئی نظام بھی ابھی تک قائم نہیں کیا جا سکا ہے۔
۲- کسی بھی ملک نے ابھی تک امارت اسلامی افغانستان کو باقاعدہ رسمی طور پر تسلیم نہیں کیا ہے۔ کئی ملکوں نے سفارتی تعلقات بحال کرنے کا اعلان کیا ہے، لیکن پڑوسی ممالک سمیت کسی نے تسلیم نہیں کیا ہے۔ اسی طرح اقوام متحدہ میں بھی افغانستان کی نمائندہ نشست خالی ہے۔
۳- افغانستان پر عائد بین الاقوامی پابندیاں جاری ہیں ۔اقوام متحدہ ،سیکورٹی کونسل، مغربی ممالک و دیگر عالمی اداروں نے معاشی و سفارتی اور ذمہ دارانِ حکومت پر بین الاقوامی سفر کی جو پابندیاں عائد کی تھیں، برقرار ہیں۔ نیز بینکاری، ہوا بازی اور معاہدوں پر پابندیاں جوں کی توں ہیں۔ گذشتہ حج کے موقع پر طالبان کے اہم رہنما سراج الدین حقانی کو فریضۂ حج کے لیے خصوصی استثنا دیا گیا تھا۔
۴- گذشتہ دو برسوں سے افغانستان میں بچیوں کی ثانوی اور اعلیٰ تعلیم پر پابندی ابھی تک برقرار ہے۔ امیر المومنین ملاہبت اللہ کے ایک فرمان کے مطابق کالجوں اور اعلیٰ تعلیمی اداروں کے دروازے طالبات پر بند کیے گئے تھے جس سے پوری دنیا میں طالبان قیادت کو ہدفِ تنقید بنایا گیا۔ اس سال امارت اسلامی نے اعلان کیا کہ ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ہے، جو اسلامی اصولوں کے مطابق بچیوں کا تعلیمی نصاب تیار کرے گی، لیکن ابھی تک اس معاملے پر کوئی اقدام سامنے نہیں آیا جس پر اندرونِ ملک اور بیرونِ ملک امارت اسلامی کے حامیوں میں بھی تشویش پائی جاتی ہے۔
۵- پاکستان کے ساتھ تعلقات میں جو بہتری کی توقع کی جا رہی تھی، ابھی تک وہ پوری نہیں ہوئی۔ طالبان کے پہلے دور (۱۹۹۶ء-۲۰۰۱ء) میں پاکستان نے امارت اسلامی کی حکومت کو نہ صرف تسلیم کیا تھا بلکہ سفارتی محاذ پر اس کی بھرپور حمایت بھی کی تھی۔ اس کے بعد حامد کرزئی اور ڈاکٹراشرف غنی کے دور میں تعلقات کشیدہ رہے۔ طالبان کی کابل آمد پر پاکستان میں بھی بالعموم خوشی کا اظہار کیا گیا، لیکن اس کے بعد باہمی تعلقات میں تناؤ کی کیفیت پیدا ہو گئی جس کی بڑی وجہ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی جانب سے بڑے پیمانے پر دہشت گردی ہے۔ افغانستان سے متصل قبائلی اور جنوبی اضلاع میں ہزاروں کی تعداد میں ان کے وابستگان، فورسز کے خلاف کارروائیوں میں مصروف ہیں اور ان کی قیادت افغانستان میں موجود ہے۔
تیسری دوحہ کانفرنس منعقدہ ۳۰ جون تا یکم جولائی ۲۰۲۴ء میں ان کے یہ دونوں مطالبات منظور کر لیے گئے۔ کانفرنس میں افغانستان اور اقوام متحدہ کے نمائندگان کے علاوہ امریکا، روس، چین، پاکستان، ایران، تاجکستان، ازبکستان ،قازکستان،کرغزستان، ترکی ،جاپان ،انڈیا، برطانیہ، فرانس، جرمنی، ناروے، سعودی عرب ،انڈونیشیا، متحدہ عرب امارات، اور قطر شامل رہے۔ یورپی یونین اور اسلامک کانفرنس کے نمائندے بھی موجود تھے جس سے آپ اس کانفرنس کی اہمیت کا اندازہ لگاسکتے ہیں۔ کابل کے ایک مؤثرتھنک ٹینک سی ایس آر ایس کی ایک رپورٹ کے مطابق اس کانفرنس سے امارت اسلامی نے تین اہم فوائد حاصل کیے :
۱ -امارت اسلامی افغانستان کو اقوام متحدہ کے زیر اہتمام ایک بین الاقوامی فورم میں پوری نمائندگی دی گئی ۔جس سے اب تک اس کو محروم رکھا گیا تھا۔
۲- ایجنڈا میں وہ نکات شامل کیے گئے،جوافغانستان کی ضرورت ہیں اور زمینی حقائق کے مطابق ہیں ۔جن میں افغانستان پر عائد بین الاقوامی پابندیاں ختم کرنا، بینکاری کی سہولیات اور نجی سیکٹر پر پابندیاں ختم کرنا، افغانستان کے منجمد اثا ثے بحال کرنا ،افیون کی کاشت پر پابندی کے نتیجے میں متاثرہ کسانوں کو ریلیف مہیا کرنا جیسے نکات شامل تھے۔ جس پر کانفرنس کی دوسری نشست میں تفصیلی غور وخوض ہوا اور افغان نمائندوں کو سناگیا ۔
۳- بین الاقوامی برادری نے ایک طرح سے تسلیم کر لیا ہےکہ امارت اسلامی افغانستان کے ساتھ براہ راست رابطہ اور مل کر کام کرنا ناگزیر اور مفید ہے اور اس پر پابندیاں عائد کرنا اور دباؤ ڈالنے کا کوئی فائدہ نہیں، اس لیے اس کو اپنے ساتھ ملاکر چلانے کی ضرورت ہے ۔
اگر چہ اس کانفرنس سے فوری طور پر تو افغانستان کو کوئی فائدہ نہیں ہوا، لیکن امارت اسلامی افغانستان نے عالمی فورم میں اپنی تین سالہ کارکرد گی بیان کی۔ جس میں امن و سلامتی، معاشی ترقی، پڑوسی ممالک کے ساتھ بہتر تعلقات، ملک میں افیون کی کاشت پر مکمل پابندی اور افغانستان سے منشیات کی سمگلنگ جیسی بڑی سماجی لعنت کا خاتمہ شامل ہے۔ یہ کام طالبان کے پہلے دورِ حکومت میں بھی کیا گیا تھا، لیکن ملک پر امریکی قبضے کے دوران یہ پھربڑے پیمانے پر شروع ہوا اور ۲۰۲۰ء کے اختتام پر ایک اندازے کے مطابق صرف افغانستان میں منشیات کے عادی افراد کی تعداد ۴۰لاکھ سے زائد تھی۔ منشیات کا خاتمہ امارت اسلامی افغانستان کا بہت بڑا کارنامہ ہے۔
دوحہ کانفرنس کے دوران ایک اہم اجلاس قطر کی میزبانی میں منعقد ہوا ،جس میں پاکستان، افغانستان اور ازبکستان کے نمائندوں نے شرکت کی۔ اس اجلاس میں ان تین ممالک کے درمیان کارگو ریلوے سروس کے قیام کے منصوبے پر بات چیت کی گئی جس کی فنڈنگ قطر کرے گا۔ یہ پاکستان کے لیے ایک بہت اہم منصوبہ ہے، جس کے ذریعے وسطی ایشیائی ممالک اور روس کی مارکیٹوں تک براہ راست رسائی حاصل ہوسکے گی۔ازبکستان اور افغانستان کے درمیان پہلے سے ریلوے لائن موجود ہے، جو مزار شریف تک ہے ،جب کہ پاکستان کی طرف سے ریلوے طورخم تک ہے۔
امریکی نشریاتی ادارے ’وائس آف امریکا‘ (VOA )کے مطابق اقوام متحدہ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ شدت پسند گروپوں کا اتحاد تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) افغانستان میں ’سب سے بڑا دہشت گرد گروپ‘ ہے۔ اسے پاکستان میں سرحد پار سے حملے کرنے کے لیے طالبان حکومت کی حمایت حاصل ہے۔
اقوام متحدہ کی پابندیوں کی نگرانی کرنے والی ٹیم دیر گئی۔ اس کے مطابق ٹی ٹی پی کی زیرقیادت، پاکستانی سکیورٹی فورسز اور شہریوں کے خلاف دہشت گردانہ حملوں میں بڑا اضافہ ہوا، جن میں حالیہ ہفتوں میں سیکڑوں افراد ہلاک ہوئے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے: ’’ٹی ٹی پی، افغانستان میں بڑے پیمانے پر کام جاری رکھے ہوئے ہے، اور وہاں سے پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں کرنے کے لیے، اکثر افغانوں کو (یا افغانستان کی سرزمین کو ) استعمال کرتی ہے‘‘۔ مزید یہ کہ ’’عالمی سطح پر نامزد دہشت گرد گروپ، جسے پاکستانی طالبان بھی کہا جاتا ہے، افغانستان میں تقریباً۶ہزار۵سوجنگجوؤں کے ساتھ کام کر رہا ہے‘‘۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ’ ’پاکستان، ٹی ٹی پی کے پاکستان میں بڑھتے ہوئے حملوں سے نمٹنے کے لیے مشکلات کا شکار ہے اور طالبان کی ٹی ٹی پی کی حمایت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
ان پُرتشدد کارروائیوں کی وجہ سے اسلام آباد اور کابل میں طالبان حکومت کے درمیان تعلقات کشیدہ ہوگئے ہیں،جب کہ افغان طالبان (امارت اسلامی افغانستان ) دہشت گرد گروہ کی موجودگی کے الزامات کو مسترد کرتی ہے یا یہ کہ پڑوسی ممالک کو دھمکی دینے کے لیے افغان سرزمین کے استعمال کرنےکی اجازت دیتی ہے‘‘۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ: ’’طالبان، ٹی ٹی پی کو ایک دہشت گرد گروپ کے طور پر تصور نہیں کرتے اور ان کے درمیان باہمی مضبوط تعلقات ہیں۔ ٹی ٹی پی ۲۰۰۷ء میں پاکستان کے غیر مستحکم (قبائلی علاقوں )سرحدی علاقوں میں اُبھری، جس نے افغان طالبان کو بھرتی اور پناہ فراہم کی کیونکہ اس کے بعد کے برسوں میں انھوں نے افغانستان میں امریکی اور نیٹو فوجیوں کے خلاف گوریلا حملے تیز کر دیے۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے: افغانستان میں القاعدہ کے علاقائی کارندے، جن کے طالبان سے طویل مدتی تعلقات ہیں، پاکستان کے اندر بڑے پیمانے پر دہشت گردانہ کارروائیوں میں ٹی ٹی پی کی مدد کر رہے ہیں‘‘۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ میں رکن ممالک کے حوالے سے بتایا گیا ہے: ’’ٹی ٹی پی کے کارندوں کو مقامی جنگجوؤں کے ساتھ مل کر القاعدہ کے اُن کیمپوں میں تربیت دی جا رہی ہے جو اس تنظیم نے متعدد سرحدی صوبوں جیسے ننگرہار، قندھار، کنڑ اور نورستان میں قائم کیے ہیں۔ اس طرح القاعدہ ٹی ٹی پی کی حمایت کر رہی ہے۔ اس طرح القاعدہ کے ساتھ ’زیادہ تعاون‘ ٹی ٹی پی کو ’پورے خطے کو خطرے‘ میں تبدیل کر سکتا ہے‘‘۔
لکھا گیا ہے: ’’نیٹو افواج کے ہتھیار، خاص طور پر رات میں دیکھنے کی صلاحیت (Night vision کے حامل حساس آلات) جو کہ طالبان کے قبضے کے بعد سے ٹی ٹی پی کو فراہم ہوچکے ہیں، پاکستانی فوجی سرحدی چوکیوں پر اس کے حملوں میں جان لیوا اضافہ کرتے ہیں‘‘۔
اسلام آباد میں حکام نے بھی بار بار سکیورٹی فورسز میں ہلاکتوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کی وجہ جدید امریکی ہتھیاروں کو قرار دیا ہے جو بین الاقوامی افواج کے ہاتھوں پیچھے رہ گئے تھے اور ٹی ٹی پی کے ہاتھ لگ گئے تھے۔ امریکی محکمہ دفاع نے مئی [۲۰۲۴ء]کے آخر میں منظر عام پر آنے والی سہ ماہی رپورٹ میں ان الزامات کا جواب دیتے ہوئے کہا: ’’پاکستانی انٹیلی جنس فورسز نے اس سال کے شروع میں انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں کے دوران، M-16 اور M-4 رائفلز سمیت چند امریکی تیار کردہ چھوٹے ہتھیار برآمد کیے ہیں اور ٹی ٹی پی سمیت عسکریت پسند، پاکستان میں حملوں کے لیے ممکنہ طور پر محدود مقدار میں امریکی ساخت کے ہتھیاروں اور آلات بشمول چھوٹے ہتھیاروں اور نائٹ ویژن چشموں کا استعمال کر رہے ہیں‘‘۔ تاہم، اس میں آگے چل کر کہا گیا ہے: ’’امریکی ساختہ ہتھیاروں کی مقدار جس کا دعویٰ پاکستانی ذرائع نے کیا ہے کہ وہ پاکستان مخالف عسکریت پسندوں کے ہاتھ میں ہے، یہ ممکنہ طور پر مبالغہ آرائی ہے‘‘۔
اسلام آباد نے بارہا کابل سے مطالبہ کیا ہے کہ ’’وہ ٹی ٹی پی کی زیر قیادت سرحد پار دہشت گردی کو لگام ڈالے اور محسود سمیت اس کے رہنماؤں کو پکڑ کر پاکستان کے حوالے کرے۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق: ٹی ٹی پی نے بتدریج پاکستان کے خلاف حملوں کی تعداد کو ۲۰۲۱ء میں ۵۷۳ سے بڑھا کر ۲۰۲۳ء میں ۱۲۰۳ کر دیا ہے، اور یہ رجحان ۲۰۲۴ء میں بڑھتا جارہا ہے۔ پاکستانی حکام بھی تشدد میں اضافے کی وجہ ’زیادہ سے زیادہ آپریشنل آزادی‘ کو قرار دیتے ہیں جو تقریباً تین سال قبل طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے دہشت گرد تنظیم کو افغانستان میں حاصل ہوئی ہے۔ طالبان کی جاسوسی ایجنسی، جنرل ڈائریکٹوریٹ آف انٹیلی جنس نے، ٹی ٹی پی کے رہنماؤں کے لیے کابل میں تین نئے گیسٹ ہاؤسز کی سہولت فراہم کی اور مبینہ طور پر ٹی ٹی پی کی سینئر شخصیات کو نقل و حرکت میں آسانی اور گرفتاری سے استثنا کے ساتھ ساتھ ہتھیاروں کے اجازت نامے جاری کیے تھے۔ اس جائزے میں یہ بھی بتایا گیا کہ ’’طالبان کو خدشہ ہے کہ[امارت اسلامیہ کی جانب سے] ’زیادہ دباؤ‘ ٹی ٹی پی کو افغانستان میں قائم داعش کے ساتھ تعاون کرنے پر مجبور کر سکتا ہے‘‘۔
طالبان نے اقوام متحدہ کی ان تازہ رپورٹوں پر فوری طور پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا ہے۔ تاہم، طالبان نے یہ ضرور ظاہر کیا ہے کہ ’’افغانستان پر الزام لگانے کے بجائے (ٹی ٹی پی) پاکستان کا اندرونی مسئلہ ہے‘‘۔
ہم سمجھتے ہیں کہ اس رپورٹ میں شائع شدہ حقائق یا تصورات زیادہ تر پہلے سے پاکستان اور افغانستان کی قیادت کے علم میں ہیں اور ان پر پاکستانی وزیر دفاع اور دیگر حکام اظہار خیال بھی کرتے رہے ہیں۔ گذشتہ دنوں دہشت گردی کے واقعات کے بعد پاکستانی وزارت خارجہ میں افغان ناظم الامور کو بلا کر سفارتی انداز میں متنبہ بھی کیا گیا اور کم از کم ایک مرتبہ افغانستان میں موجود ٹی ٹی پی کے مبینہ ٹھکانہ پر بمباری بھی کی گئی ہے اور آئندہ بھی ایسا کرنے کی وارننگ دی گئی ہے، جس پر افغان قیادت کی جانب سے شدید رد عمل کا اظہار کیا گیا ہے۔ اس وقت پاک افغان تعلقات تناؤ کا شکار ہیں اور اعلیٰ سطحی رابطوں کا فقدان ہے۔ پاکستان نے اب تک افغانستان کو سفارتی سطح پر تسلیم بھی نہیں کیا۔ تاہم، ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان افغانستان کو رسمی طور پر باقاعدہ تسلیم کرکے اس کے ساتھ اعلیٰ سطح پر مذاکرات کے عمل کا دروازہ کھولے، جس میں دونوں طرف کی سیاسی اور دینی قیادت شریک ہو۔ جنگی اقدامات کو خیرباد کہنا چاہیے اور دونوں ممالک کے درمیان روزمرہ بنیادوں پر مضبوط سیاسی، اقتصادی اور سماجی تعلقات استوار کرنے چاہئیں۔ اس کام میں پاکستان ہی کو سبقت لینی چاہیے۔ گذشتہ ماہ جولائی کو فرینکفرٹ میں پاکستانی کونسل خانے پر جو افسوس ناک واقعہ ہوا، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بھارتی لابی افغانستان میں پاکستان مخالف رائے عامہ کو کسی بھی وقت استعمال کر سکتی ہے، حالانکہ اس مظاہرے میں پاکستانی طلبہ بھی بڑی تعداد میں شریک تھے، جو ممتاز پختون قوم پرست شاعر گیلامند وزیر کی اسلام آباد میں پُراسرار ہلاکت کے خلاف احتجاجی مراسلہ پاکستانی سفارتی عملے کو دینے گئے تھے۔ مگر اسی دوران جن دو افغان طلبہ نے پاکستانی پرچم اُتارا تھا، ان کو اسی وقت پاکستانی طلبہ نے پکڑ کر پولیس کے حوالے بھی کیا تھا۔
ماہ مئی میں افغانستان کے حوالے سےدو اہم اقدامات ہوئے، جن کے ہمارے پڑوسی ملک کے مستقبل پر اثرات مرتب ہوں گے ۔یکم اور ۲ مئی ۲۰۲۳ ء کو دوحہ، قطر میں اقوام متحدہ کے زیر اہتمام افغانستان کے بارے میں ایک عالمی کا نفرنس منعقد ہوئی، اور ۵مئی تا ۸ مئی پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں امارت اسلامی افغانستان کے قائم مقام وزیر خارجہ امیر خان متقی کا باقاعدہ دورہ ہوا۔ اسی دوران سہ فریقی مذاکرات بھی منعقد ہوئےجس میں چین، پاکستان اور افغانستان کے وزرائے خارجہ نے شرکت کی۔ سہ فریقی مذاکرات کا یہ سلسلہ ۲۰۱۷ء سے جاری ہے۔
۱۵؍ اگست ۲۰۲۱ء کو امارت اسلامی افغانستان کا دوبارہ احیاء اس وقت ہوا جب تحریک طالبان افغانستان کے رضا کار کابل میں داخل ہو ئے اورڈاکٹر اشرف غنی کی کٹھ پتلی حکومت کا خاتمہ عمل میں آیا۔ ۲۹ فروری۲۰۲۰ ء کو ایک طویل مذاکراتی عمل کے بعد امریکا اور تحریک طالبان کے نمایندوں کے درمیان دوحہ میں ہی ایک تاریخی معاہدۂ امن طے پایا تھا، جس کو اُس وقت امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور وزیر خارجہ مائیکل پومپیو نے بڑی سفارتی کامیابی سے تعبیر کیا تھا۔ لیکن کسی کو یہ اندازہ نہ تھا کہ اس معاہدے کے بعد ایک سال کے عرصے میں افغانستان میں قائم کردہ حکومت کا خاتمہ ہو جائے گا، تمام غیر ملکی فوجیں ملک سے نکل جائیں گی اور طالبان پھر سے برسرِاقتدار آجائیں گے۔
گذشتہ ۲۰ ماہ کے عرصے میں طالبان نے افغانستان میں ایک مضبوط حکومت قائم کرلی ہے۔ اپنی فوج،پولیس اور تمام صوبوں اور اضلاع میں حکومتی ڈھانچا قائم ہو چکا ہے۔ ملک میں امن و امان ہے، شاہراہیں کھلی ہو ئی ہیں۔دن اور رات کے کسی بھی وقت، آپ کسی بھی سڑک پر بلا خوف و خطر سفر کرسکتے ہیں ۔باہر سڑک پر آپ کو کوئی بھی اسلحہ بردار نظر نہیں آئے گا۔داخلی امن و امان کے ساتھ اقتصادی بحالی پر بھی پوری توجہ دی گئی ہے ۔پاکستان،ایران،ازبکستان وغیرہ سے آنے والے ٹرک کسی بھی شہر کی طرف بلا روک ٹوک سفر کر سکتے ہیں۔ تمام پھاٹکوں، سڑکوں کی بندشوں کا خاتمہ کر دیا گیا ہے۔ سرحدی راہداریوں پر محصول چونگی کی ادائیگی کے بعد اسی پرچی پر آپ ہر جگہ پہنچ سکتے ہیں، اور پھر پورے راستے میں کوئی آپ سے زور زبردستی راہداری کے نام پر پیسے یا رشوت وصول نہیں کرسکتا۔حکومتی ادارے اپنی فیس ،ٹیکس وغیرہ کم شرح پر لازماًوصول کرتے ہیں، مثلاً بجلی کا بل، پارکنگ فیس وغیرہ۔ اس کے علاوہ کوئی اضافی ادائیگی نہیں کی جاتی۔اس کی وجہ سے جہاں لوگوں کا حکومت پر اعتماد پیدا ہوا ہے، وہاں حکومتی وسائل اور آمدن میں بھی خاطرخواہ اضافہ ہوا ہے۔ ہرمعاملے میں حکومت بچت اور وسائل کے درست استعمال پر کاربند ہے۔عالمی مالیاتی ادارے بھی تسلیم کرتے ہیں کہ ’’افغانستان نے خود انحصاری کی ایک بہترین مثال قائم کی ہے‘‘۔
افغان حکومت نے اپنے تمام ائرپورٹوں کو مقامی اوربین الاقوامی پروازوں کے لیے فعال رکھا ہے۔ بنکاری کا نظام پوری طرح کام کر رہا ہے اور افغان کرنسی مستحکم ہے۔ ملک سے باہر زرمبادلہ کی ترسیل پر پابندی ہے۔ ہر ہفتہ اقوام متحدہ کے زیر انتظام ایک مخصوص رقم امریکی ڈالروں کی صورت میں افغانستان کو دی جاتی ہے، جسے افغان کرنسی میں تبدیل کرکے شعبۂ تعلیم و صحت و دیگر مفاد عامہ کے اداروں کی تنخواہیں ادا کی جاتی ہیں۔ تمام سرکاری ملازمین کو اب ماہانہ تنخواہ باقاعدگی سے مل رہی ہے۔ قیمتوں کو کنٹرول کیا گیا ہے۔ ملک میں اشیائے ضرورت کی فراہمی کو یقینی بنایاگیا ہے ۔میونسپل سروسز عوام کو میسر ہیں۔ اور چھ بڑے ترقیاتی منصوبوں پر بھی کام جاری ہے۔
افغانستان کے اندر دہشت گردی پر کافی حد تک قابو پایاجاچکا ہے۔داعش کے سہولت کاروں کا تعاقب جاری ہے۔سابقہ شمالی اتحاد کے مسلح گروہوں کو بھی کارروائی کا موقع نہیں مل رہا ۔ لیکن اس سب کے باوجود امارت اسلامی افغانستان کو کئی داخلی اور عالمی چیلنجوں کا سامنا ہے، جس کا حل ضروری ہے۔
داخلی طور پر سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ملک میں اب تک عبوری حکومت کام کر رہی ہے، جسے مستقل بنیادوں پر قائم نہیں کیا جاسکا ہے۔ ملک میں کوئی باقاعدہ دستور،آئین و قانون نافذ نہیں ہے۔ مقننہ کا کوئی وجود نہیں ۔تحریک طالبان کی رہبری شوریٰ امیر ہبت اللہ کی قیادت میں معاملات دیکھ رہی ہےاور پالیسی سازی بھی کرتی ہے،لیکن اس کو سرکاری اور رسمی حیثیت نہیں دی گئی ہے۔ حکومت کی جانب سے خواتین کے کام پر پابندی اور طالبات پرپابندی کو سخت گیر فیصلے قرار دیا جا رہا ہے، جس کو ملکی اور عالمی دونوں سطح پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے، لیکن تادمِ تحریر امارت اسلامی ان فیصلوں پر کار بند ہے۔ عالمی سطح پر بھی امارت اسلامی افغانستان کو مزاحمت کا سامنا ہے، اور ابھی تک کسی بھی ملک بشمول پاکستان نے اس کو تسلیم نہیں کیا ہے۔ اس پر کئی نوعیت کی پابندیاں اور سفارتی دباؤ ہے۔
اقوام متحدہ نے کئی مواقع پر افغانستان کے لیے خیر سگالی کے جذبات کا اظہار کرنے اور انسانی ہمدردی میں امدادی سرگرمیاں جاری رکھنے کے باوجود افغانستان کو اقوام متحدہ جیسے بڑے فورم میں اب تک حق نمایندگی سے محروم رکھا ہے۔یکم مئی ۲۰۲۳ء کو دوحہ میں افغانستان کے بارے میں کانفرنس میں بھی امارت اسلامی کو شرکت کی دعوت نہیں دی گئی، جو ایک امتیازی نوعیت کا اقدام ہے۔ اقوام متحدہ کا یہ فیصلہ بظاہر طالبات کی تعلیم اور خواتین کے کام پر پابندیوں کے تناظر میں ہے، لیکن ان پابندیوں سے پہلے بھی اقوام متحدہ نے افغانستان کو نمایندگی سے محروم رکھا تھا۔
دوحہ کانفرنس میں اگرچہ امریکا، روس، چین ،جرمنی اور پاکستان کےنمایندے موجود تھے۔ لیکن افغانستان کی نمایندگی نہ ہونے کی وجہ سے یہ کانفرنس ایک بے معنی مشق تک محدود رہی، جب کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیوگوتریس اس کانفرنس کے روح رواں تھے۔
کانفرنس سے واپسی پر چینی وزیر خارجہ کن گینگ اسلام آباد پہنچے اور انھوں نے پاکستان اور افغانستان کےوزرائے خارجہ سے سے مل کر سہ فریقی مذاکرات میں حصہ لیا۔افغان وزیرخارجہ کا یہ پانچ روزہ دورہ اس لحاظ سے اہم ہے کہ اس کو اقوام متحدہ کی تائید بھی حاصل تھی اور انھوں نے اس کی رسمی طور پر منظوری دی تھی۔ یہ ایک اہم سفارتی پیش رفت تھی، جس کی تیاری پہلے سے کی گئی تھی۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو پاکستانی سفیر نے درخواست دی تھی۔
افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی نے جب سے یہ منصب سنبھالا ہے، ان کی سفارتی سطح کی کارکردگی بے مثال رہی ہے۔ ان کے تمام بیانات ،انٹرویو اور تقاریرکسی بھی کہنہ مشق سیاستدان اور اُمور خارجہ پر دسترس رکھنے والے سفارت کار سے کم نہیں ۔ان کے بیانات میں جھول اور ابہام شامل نہیں ہوتا۔وہ صاف اور کھلی بات کرتے ہیں۔ پاکستان کے بارے میں بھی ان کے بیانات مثبت اور واضح رہے ہیں اور انھوں نے ہمیشہ اچھے تعلقات کی نوید سنائی ہے۔ اس سے پہلے افغان زعما،پاکستان کا دورہ کرنے کے بعد واپسی پر کابل میں قدم رکھتے ہی پاکستان کے خلاف بیان داغنا ضروری سمجھتے تھے، جس پر پاکستانی قوم کو افسوس اور صدمہ پہنچتا تھا۔
اس پانچ روزہ دورے میں جہاں کئی اہم سفارتی ،تجارتی اور باہمی دلچسپی کے اُمور پر مفید تبادلۂ خیال ہوا، وہاں مجموعی طور پر باہمی خیرسگالی کے جذبات پائے گئے۔پاکستانی وزیر خارجہ بلاول زرداری کا رویہ بھی مثبت رہا۔یاد رہے کہ اب تک پاکستان پیپلز پارٹی کا مجموعی طور پر اور بلاول زرداری کا خاص طور پر افغانستان کے بارے میں موقف مثبت نہیں تھا۔تحریک طالبان کے خلاف ان کے پے دَر پے بیانات ریکارڈ پر ہیں اور پاکستانی وزیر خارجہ کے ایسے بیانات امریکی پالیسی کے زیراثر نظر آتے تھے۔ موجودہ وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف بھی افغان امور سے لاتعلق نظر آتے ہیں۔اس لحاظ سے لگتا ہے کہ پاکستان کی وزارت خارجہ نے اپنے وزیر کو اچھی بریفنگ دی تھی اور چینی وزیر خارجہ کی موجودگی نے بھی اس رویے کی تبدیلی میں کردار ادا کیا، جو اس وقت امارت اسلامی افغانستان کے ساتھ مثبت اور تعمیری تعلقات کی بحالی اور تعمیر نو کے کام میں پورا کردار ادا کرنا چاہتا ہے اور دونوں حکومتوں کے درمیان کئی بڑے ترقیاتی منصوبوں پر بات چیت جاری ہے۔ علاوہ ازیں چین کو مشرقی ترکستان کے صوبوں میں جاری مسلم مزاحمتی تحریک (ETIM) سے بھی خطرات لاحق ہیں جس کے ازالے کے لیے وہ کوشاں ہے۔
گذشتہ سال بھی اس طرح کی ایک کانفرنس اسلام آباد میں منعقد ہو ئی تھی، جس میں تینوں ممالک کے باہمی تجارتی امور،امن و سلامتی، دہشت گردی کے اسباب اور منشیات کا قلع قمع جیسے اُمور پر تبادلۂ خیال کیا گیا تھا۔امیر خان متقی کے ہمراہ وزیر تجارت نورالدین عزیزی بھی شریک تھے، جن کاتعلق پنج شیر سے ہے۔ مُلّا امیر خان متقی نے اپنے دورے میں دیگر اہم شخصیات سے بھی ملاقاتیں کیں، جس میں پاکستانی سپہ سالار جنرل عاصم منیر سے بھی ملاقات شامل ہے۔ پاکستان میں ٹی ٹی پی کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں اور تخریبی کارروائیوں کو افغانستان میں قائم مراکز سے جوڑا جاتا ہے۔ ان افسوس ناک واقعات اور حملوں میں مسلسل سیکورٹی فورسز،افواج پاکستان،پولیس کے جوانوں اور عوام کا جا نی و مالی نقصان ہو رہا ہے، جس پر پوری قوم میں سخت تشویش پائی جاتی ہےاور امارت اسلامی افغانستان سے اس کی روک تھام کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے۔ اس بارے میں افغان وزیر خارجہ نے پاکستانی چیف آف آرمی اسٹاف سے جو مذاکرات کیے، اس کی تفصیلات تو معلوم نہیں ہوسکیں،البتہ ان کا بیان ریکارڈ پر ہے کہ امارت اسلامی نے پہلے بھی ٹی ٹی پی کی قیادت کو مذاکرات کے لیے آمادہ کیا تھا اور آیندہ بھی اس مسئلے کے حل کے لیے اپنا کردار ادا کریں گے۔
افغان وزیر خارجہ نے پاکستانی قومی و صوبائی سیاست دانوں کو ظہرانے پر مدعو کیا، جن میں امیرجماعت ا سلامی پاکستان سراج الحق ،جمعیت العلماء اسلام اور پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن، پختون ملّی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی اور عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر ایمل ولی خان شامل تھے۔ اس ملاقات میں پاکستان اور افغانستان کے عوام کے درمیان رابطوں کی اہمیت پر زور دیا گیا اور خطے میں امن و سلامتی کے قیام کی ضرورت پر بات ہوئی۔ افغان وزیر خارجہ نے اسلام آباد کے تھنک ٹینک ،انسٹی ٹیوٹ آف اسٹرے ٹیجک اسٹڈیز کی ایک بڑی مجلس سے بھی خطاب کیا، جس میں سفارت کار اور اہم شخصیات شریک تھیں۔
بدقسمتی سے ان دو اہم اجتماعات میں جو مسئلہ زیر غور نہ آسکا وہ عالمی سطح پر امارت اسلامی افغانستان کو تسلیم کرنا اور ان کو اقوام عالم کی صف میں اپنا مقام دینا ہے، جس سے مسلسل محرومی ایک بڑا سوالیہ نشان ہے اور ملت افغان کے ساتھ زیادتی ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ جب دوحہ کانفرنس کے حوالے سے شروع میں میڈیا میں یہ بات آئی کہ شاید اس موقعے پر افغان حکومت کو تسلیم کرنے کی جانب کوئی مثبت پیش رفت ہو، تو سوشل میڈیا پر اس تجویز کی فوراً مخالفت شروع ہو گئی اور خواتین کے حوالے سے امارت اسلامی کی پالیسی کو بنیاد بناکر مطالبہ کیا جانے لگا کہ ’’موجودہ افغان حکومت کو تسلیم نہ کیا جائے‘‘، حالانکہ افغان امور سےوابستہ اکثر لوگ اس کی اہمیت اور ضرورت کے قائل ہیں۔
ــــــــــــــــــــــ اسی طرح ۱۷مئی کو افغانستان میں اُس وقت ایک اہم تبدیلی رُونما ہو ئی، جب سن رسیدہ افغان وزیر اعظم مولانا محمدحسن اخوند کو خرابیٔ صحت کی وجہ سے فارغ کر کے نسبتاً جواں سال نائب وزیر اعظم مولوی عبدالکبیر کو وزیر اعظم مقرر کر دیا گیا۔یہ تقرر تحریک طالبان کے امیر مُلّا ہبت اللہ کے حکم سے ہوا۔مولوی عبدالکبیر صاحب، طالبان کے پہلے دور میں بھی وزیر اعظم رہ چکے ہیں۔
نومبر ۱۸۹۳ء میں ہندستان پر قابض بر طانوی استعمار کے نمایندے وزیر امور خارجہ مارٹیمر ڈیورنڈ اور امیر افغانستان عبدا لرحمٰن خان کے درمیان تین ماہ سے جاری خفیہ مذاکرات کے بعد دونوں حکومتوں کے درمیان ایک مستقل معاہدہ ہوا۔ جس میں ہندستان اور افغانستان کے مابین شمال مغربی سرحد کا تعین ہوا۔۲ہزار ۶سو۴۰کلومیٹر طویل اس سرحد کو خط ڈیورنڈ (Durand Line) کہا جاتا ہے۔ اس کے مطابق: واخان کافرستان کا کچھ حصہ نورستان، اسمار، موہمند لال پورہ اور وزیرستان کا کچھ علاقہ افغانستان کا حصہ قرار پایا۔ افغانستان: استانیہ ،چمن، نوچغائی، بقیہ وزیرستان، بلند خیل، کرم، باجوڑ، سوات، دیر، چلاس اور چترال پر اپنے دعوے سے معاہدے کے مطابق دستبردار ہوگیا۔
۱۴؍ اگست ۱۹۴۷ءکو جب پاکستان بر طانیہ سے آزاد ہوا تو دیگر تمام معاہدوں کے ساتھ یہ معاہدہ بھی بر قرار رہا، لیکن بعد میں افغان حاکم ظاہر شاہ کے دور میں کابل کی حکومت نے خط ڈیورنڈ کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا، اور دعویٰ کیا کہ دریائے اٹک تک کا علاقہ، افغانستان کا حصہ ہے۔
اسی بنیاد پرحکومت افغانستان نے اقوام متحدہ میں پاکستان کی رکنیت کی مخالفت کی تھی اور بعد میں ان علاقوں کو پختون آبادی کی بنیاد پر ’پختونستان‘ قرار دے کر اس کی آزادی کا مطالبہ کرتے رہے اور پاکستان میں مقیم قوم پرست حلقے بھی ان کے ہمنوا رہے۔ اس کے بعد کمیونسٹ حکمرانوں اور دیگر اَدوار میں بھی یہ معاہدہ برقرار رہا، لیکن افغانستان کی جانب سے حل طلب ہے، جب کہ پاکستان اور تمام بین الاقوامی اداروں نے اس کو پاک افغان سرحد کے طور پر قبول کیا ہے۔
یہ پس منظر بیان کرنا اس لیے ضروری ہے کہ جب بھی پاک افغان سرحد پر تناؤ کی کیفیت پیدا ہو تی ہے، تو افغانوں کے اس ذہنی پس منظر کو مدنظر رکھنا ہو گا۔جب ۲۰۲۱ء میں امارت اسلامی افغانستان بحال ہو ئی، تو بجا طور پر پاکستانی عوام نے ان سے کئی توقعات وابستہ کیں۔ اس سے پہلے کے دور حکومت میں (۱۹۹۶ء-۲۰۰۱ء) طالبان اور پاکستان کے مابین نسبتاً خوش گوار تعلقات کار تھے۔ پاکستان نے ان کی حکومت کو رسمی طور پر تسلیم بھی کیا تھا،لیکن سرحد کے حوالے سے کوئی پیش رفت نہیں کی گئی تھی۔آج، اس وقت بھی افغانستان میں طالبان کی عبوری حکومت قائم ہے،لیکن اس کو پاکستان سمیت کسی بھی ملک نے تسلیم نہیں کیا ہے۔ اس لیے ان سے یہ توقع رکھنا کہ وہ اپنے طور پر اس متنازعہ فیہ مسئلے کو حل کریں گے، ممکن نہیں ۔ابھی باڑ (Fence) لگانے کے مسئلے پر چمن بارڈر پر جو افسوس ناک واقعات پیش آئے ہیں، وہ اسی مسئلے کا شاخسانہ ہے۔ اس کے علاوہ بھی افغانستان اور پاکستان کے درمیان جو تاریخی گزرگاہیں ہیں ان پر شہریوں کی آمدورفت کے حوالے سے کئی مسائل ہیں، جس کی بارہا نشاندہی کی جاچکی ہے، لیکن پاکستانی حکومت نے اس سلسلے میں اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کی ہیں۔ بین الاقوامی سرحد پر آمد ورفت کے لیے جو معیاری سہولتیں فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے، وہ بھی پو ری نہیں کی ہیں۔ رشوت دے کر پار کرنے کا سلسلہ جاری ہے جس کی وجہ سے عملے کے درمیان تلخی بھی تنازعات کا باعث بنتی ہے۔
لیکن پاکستان کے عوام کے لیے زیادہ اہم اور سنگین مسئلہ ملک میں ’تحریک طالبان پاکستان‘ (TTP) کی روز افزوں دہشت گردی ہے،ان کا خاص ہدف پولیس کے اہل کار ہیں، ان کی چیک پوسٹوں پر متعین سپاہیوں کو نشانہ بنا یا جارہا ہے، جب کہ پاکستان کی مسلح افواج کی گاڑیوں کو بھی ریموٹ کنٹرول بموں سے اڑایا گیا ہے۔ صرف ۲۰۲۲ء میں تخریب کاری کے ۳۲۶ واقعات ہوچکے ہیں، جن میں ۳۵۲ ؍افراد جاں بحق ہو چکے ہیں۔ ان میں ۶۴ پولیس اہلکار، ۵۰فوج کے جوان اور ۲۲۴عام شہری شامل ہیں۔ ٹی ٹی پی نے ۲۰۲۰ء میں جس سیز فائر کا اعلان کیا تھا، اس کو ختم کر نے کا باقاعدہ اعلان کیا ہے اور مذاکرات کا عمل بھی ختم ہو چکا ہے۔ بدقسمتی سے ان تخریبی سرگرمیوں کا مرکز صوبہ خیر پختونخوا بن چکا ہے۔ خاص طور پر قبائلی اور جنوبی اضلاع میں کارروائیاں عروج پر ہیں۔گذشتہ ہفتے لکی مروت اور بنوں میں بڑے واقعات ہو چکے ہیں، جن میں پولیس اور ’ان کا ؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ‘ (CTD) کی چوکیوں اور مراکز کو نشانہ بنا یا اور بنوں میں مرکز تفتیش میں بڑی تعداد میں عسکری و دیگر اداروں کے اہلکاروں کو یرغمال بنا یا گیا۔ لیکن کمانڈو ایکشن کے ذریعے یہ کوشش ناکام بنا دی گئی۔
بدقسمتی کی بات ہے کہ ان واقعات کی روک تھام کا فی الحال کو ئی امکان نظر نہیں آتا۔ دوسری طرف مذاکرات کا کوئی سرا بھی حکومت کے ہاتھ میں نہیں ہے۔افغان طالبان کی ایما پر حکومت پاکستان اور طالبان تحریک کے درمیان مذاکرات کا سلسلہ ختم ہو چکا ہے۔یہ مذاکرات دراصل پاکستانی فوج اورٹی ٹی پی کے مابین ہو رہے تھے، جن میں قبائلی عمائدین اور بعض علمائے کرام کو واسطہ بنایا گیا تھا۔ لیکن پاکستانی طالبان کے مطالبوں کو تسلیم کرنا ریاست پاکستان کے لیے ممکن نہیں تھا۔ ملکی سیاست میں جو دنگل اس وقت چل رہا ہے، اس میں سیاسی قیادت اس قابل بھی نہیں ہے کہ وہ افغان اُمور پر سنجیدگی سے غور وفکر کر کے اہم فیصلے کر سکے۔
اس دوران افغانستان میں امارت اسلامی نے ایک چونکا دینے والا فیصلہ کر کے پوری دنیا کو حیرت زدہ کر دیا ہے۔ عالمی سطح پر امارت اسلامی افغانستان کو سفارتی طور پر تسلیم نہ کرنے کے غیرمنصفانہ رویے پر افغان قیادت کا رد عمل ایک عجیب و غریب اقدام کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ امارت اسلامی کی وزارت اعلیٰ تعلیم کے عبوری وزیر مُلّا ندا احمد ندیم نے امیر مُلّا ہیبت اللہ کی ہدایت پر افغانستان میں بچیوں کی اعلیٰ تعلیم پر پابندی کا حکم نامہ جاری کردیا۔ اس سے پہلے ساتویں درجے سے لے کر ۱۲ویں کلا س تک پابندی عائد کی گئی تھی، جس پر اکثر ولایتوں میں عمل درآمد جاری تھا۔ اب تمام سرکاری اور نجی یونی ورسٹیوں اور پیشہ ورانہ کالجوں کی گریجویٹ کلاسوں کی طالبات پر بھی تعلیم کے دروازے بند کر دیئے گئے ہیں ۔اس اقدام کی مذمت میں یورپی اور مغربی ممالک اور بین الاقوامی اداروں کے ساتھ ساتھ مسلم ممالک کی حکومتوں نے بیا نات جاری کیے ہیں۔ ہم نے ترجمان (ستمبر ۲۰۲۲ء) میں اس موضوع پر اسی خدشے کا اظہار کیا تھا اور بعض مغربی ممالک کے سفارت کاروں سے ملاقاتوں میں ،ان پر زور دیا تھا کہ وہ افغانستان کو تنہا کرنے کی کوشش ترک کرکے ان کو بین الاقوامی برادری کا حصہ بنا ئیں، تاکہ وہاں کے عوام کو زندگی کی بنیادی سہولتیں میسر آئیں ۔ اب بھی وقت ہے کہ پاکستان سمیت مسلم اور پڑوسی ممالک افغانستان کو تسلیم کر کے افغان عوام کو ریلیف پہنچائیں اور غیرصحت مند اقدامات کو مکالمے کے ذریعے درست سمت دے سکیں۔
افغانستان ایک وسیع و عریض ملک ہے۔ ہمالیائی پہاڑی سلسلے ہندوکش کے دامن میں ۶لاکھ ۵۲ہزار مربع کلو میٹر پر پھیلا ہوا ملک، دنیا میں رقبہ کے لحاظ سے ۴۱ ویں نمبر پر ہے، جب کہ آبادی کے لحاظ سے ۳۷ویں درجے پر آتا ہے۔ ملک میں زراعت کی روایتی فصلوں کے علاوہ پھلوں اور خشک میوہ جات کی پیداوار نے اسے دنیا میں ممتاز حیثیت دی ہے۔
مہمان نوازی، افغان تہذیب و ثقافت کا اہم جز و ہے۔ مہمان نوازی کا بہترین مظاہرہ ہم نے کابل کے قریب وادی پغمان کے خوب صورت باغ میں ولی محمد صراف کے ہاں دیکھا۔ اسی موقعے پر صراف صاحب نے اپنی قید کی تفصیلات سنائیں تو سب دوست آبدیدہ ہوگئے۔ انھوں نے ۱۸سال بدنام زمانہ امریکی جیل گوانتے نامو بے میں گزارے تھے۔ جہاں ان کے ساتھ انسانیت سوز اور بدترین سلوک روا رکھا گیا تھا ۔ ان کے ایک اور ساتھی روحانی صاحب بھی ان کے ساتھ اس جیل میں ۱۶سال تک ظلم و ستم سہتے رہے تھے اور اس وقت امارت اسلامی کے ایک اہم عہدے دار ہیں۔
۱۹ جو ن کی کانفرنس کے بعد کابل میں ہماری کئی اہم ملاقاتیں اور متعدد اہم اداروں کے دورے ہو ئے۔ افغان وزراء نے اپنے شعبوں کے حوالے سے تفصیلی تبادلۂ خیال کیا۔ پاکستان اور افغانستان کے مابین مستقبل کے تعلقات کار کے حوالے سے مفید تجاویز پر گفتگو رہی۔ اس کے علاوہ ایک اہم ملاقات کابل میں پاکستان کے تجربہ کار سفیر جناب منصور احمد خان کے ساتھ ہوئی، جوپاک افغان اُمور پر خاص دسترس رکھتے ہیں ۔ ان کے ساتھ طورخم کراسنگ، پاکستانی ویزوں کے اجرا، پاک افغان تجارت ،طب اور تعلیمی شعبوں میں اشتراک عمل پر تفصیلی گفتگو رہی۔
ایک اہم ملاقات گلبدین حکمت یار سے کابل میں ہو ئی، جو افغانستان کے ساتھ پاکستان میں بھی ایک معروف شخصیت ہیں۔ وہ امارت اسلامی افغانستان کی حمایت کا واضح اعلان کر چکے ہیں۔لیکن گاہے گاہے ان کے بعض اقدامات پر تعمیری تنقید بھی کرتے ہیں ۔ انھوں نے پاکستان کی سیاسی صورتِ حال پر تشویش کا اظہار کیا اور کہا: ’’افغانستان کو امن اور مستحکم حکومت درکار ہے۔ افغان طالبان نے ایک بڑی طاقت کے خلاف جنگ جیتی ہے۔ اس لیے حکومت انھی کا حق ہے اور دنیا کو یہ حق تسلیم کرنا چاہیے۔ البتہ، طالبان کو اپنی حکومت کے استحکام کے لیے آئینی ادارے قائم کرکے افغان قوم کی نمایندگی کو یقینی بنانا ہوگا‘‘۔ انجینئر صاحب اپنا زیادہ تر وقت علمی، تحقیقی کام اور تصنیف و تالیف میں گزارتے ہیں اور درس و تدریس کا عمل بھی جاری رکھے ہوئے ہیں ۔
وفد میں شامل صحافیوں ،ڈاکٹروں،تاجروں ،علمائے کرام اور طلبہ تنظیموں کے نمایندوں نے بھی ملاقاتوں اور مختلف سرکاری اور نجی اداروں کے دوروں میں بھرپور تبادلۂ خیال کیا۔ ان اداروں میں ’سلام یونی ورسٹی‘ الحیات ہسپتال،خدمت خلق کے دوملک گیر ادارے EHSAS اور HAS، صحافیوں کا ادارہ گہیز اور طلبہ تنظیم ’نجم‘ شامل ہیں ۔
جمعیت الاصلاح، افغانستان میں ایک اہم دینی و اصلاحی تحریک ہے۔ اس وقت ان کے سربراہ یونی ورسٹی کے ایک پروفیسر اور دینی عالم مولانا ڈاکٹر محمد مزمل ہیں،جن سے ہماری ملاقات ان کے دفتر میں ہوئی۔ پاک افغان تعلقات اورمستقبل کےمنظرنامے پر تفصیلی تبادلۂ خیال ہوا۔ وہ افغانستان میں امارت اسلامی کے قیام اور مستقبل کے امکانات کے بارے میں پُراُمید ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اس ضمن میں ہم لوگ تعمیری کردار ادا کرسکتے ہیں۔ افغان نوجوان طبقے تک اسلامی تعلیمات جامع انداز اور جدید اسلوب کے ساتھ پہنچانا ان کا بنیادی کام ہے۔ دعوت و تبلیغ کے لیے ٹی وی چینل، ریڈیو سٹیشن ،کتب کی اشاعت ،انٹرنیٹ کا استعمال ،درس قرآن جیسی تعلیمی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔
مولانا محمد اسماعیل صاحب اور مولانا حنیف اللہ صاحب کے ہمراہ پہلے ہم کابل کی تاریخی جامع مسجد پل خشتی گئے۔ وہاں ہماری ملاقات مسجد کے امام و خطیب اور مقامی طالبان رہنماؤں سے ہوئی، جو شہر کے بلدیاتی اداروں سے وابستہ ہیں۔ کابل کے مضافات میں واقع سید المرسلین مدرسہ کا بھی دورہ کیا۔وہاں ۳۰۰ سے زائد طلبہ و طالبات زیر تعلیم تھے ۔ پھر ہم نے کابل سے جلال آباد کا سفر کیا، اور وہاں تین مدارس میں گئے۔ جہاں اکثر اساتذہ پاکستانی تعلیمی اداروں سے پڑھے تھے۔
دورے کے آخری دن ہم نے صوبہ کنڑ کا دورہ کیا۔سابق رکن افغان پارلیمنٹ مولانا شہزادہ شاہد ہمارے شریک سفر تھے۔ انھوں نے ہمیں اپنے تعلیمی ادارے، مدرسۃ البنات اور دارالیتامٰی دکھائے۔ کنڑ میں مجلس علمائے کرام اور قبائلی عمائدین سے ملاقات ہوئی، جنھوں نے بتایا کہ ایک اہم ترین مسئلہ پاکستانی چوکیوں سے افغانستان کی جانب فائرنگ اور گولہ باری ہے۔جس کا ہدف تو تخریب کار ہوتے ہیں، لیکن اس کا شکار وہاں مقامی آبادی اور مویشی بھی بنتے ہیں۔
افغانستان میں امارت اسلامی کے قیام کو ایک سال کا عرصہ گزر چکا ہے۔ اس عرصے میں افغانستان میں ایک طویل عرصے کے بعد ایک مضبوط مرکزی حکومت قائم ہو ئی ہے۔ ۳۴صوبے اور ۴۰۰ کے لگ بھگ اضلاع ایک نظام کے تحت آچکے ہیں۔اس وقت جو حکومت قائم کی گئی ہے اس کو عبوری دور قرار دیتے ہوئے مستقبل میں مستقل حکومت کے قیام کی بات کی جاتی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ حکومت کب قائم ہوگی؟ ملک کا باضابطہ دستور و آئین کب بنے گا اور کون بنائے گا؟کیا ملک میں کوئی پارلیمنٹ وجود میں لائی جائے گی اور اس کے لیے انتخابات کا طریقۂ کار اپنایا جائے گا یا وہ نامزد قومی جرگہ ہو گا؟ گذشتہ ماہ کابل میں امارت اسلامی نے ایک بڑی علما کانفرنس کا انعقاد کیا تھا۔جس سے خطاب کے لیے افغان طالبان کےامیر جناب مُلّا ہبت اللہ قندھار سے کابل تشریف لائے تھے۔ انھوں نے اپنے خطاب میں مستقبل کا نقشۂ کار پیش نہیں کیا ۔ یقیناً تحریک طالبان کی رہبری شوریٰ میں اس موضوع پر صلاح مشورے جاری ہیں ،کچھ عرصہ پہلے ایک دستوری ڈرافٹ بھی منظر عام پر آیا تھا، لیکن عوام کی شرکت سے جس شرعی نظام مملکت کی ضرورت ہے، اس کا انتظار ہے۔
افغانستان کا دوسر ا بڑا مسئلہ بین الاقوامی سطح پر حکومت کو تسلیم کرنے کا ہے۔ایک سال گزرنے کے بعد ابھی تک پاکستان سمیت کسی ملک نے سفارتی سطح پر امارت اسلامی افغانستان کو تسلیم نہیں کیا ہے۔یہ طالبان قیادت کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔ کئی ممالک کے سفارت خانے کابل میں فعال ہیں، اور پڑوسی ممالک کے ساتھ آمد ورفت بھی جاری ہے ۔افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی نے بعض ممالک کے دورے بھی کیے ہیں۔ روس ،چین اور امریکا کے ساتھ سفارتی سطح پر ملاقاتوں اور مذاکرات کا سلسلہ بھی جاری ہے، لیکن رسمی طور پر تسلیم کرنے کے معاملے پر کوئی پیش رفت نہیں ہے۔
یہی معاملہ بین الاقوامی پروازوں کا بھی ہے۔ کابل،ہرات ،مزار شریف، قندھار سے بین الاقوامی پروازیں بند ہیں ۔صرف امدادی سامان لے کر جہاز اُترتے ہیں۔ حج کے موقعے پر سعودی عرب کے لیے حج پروازوں کی آمدورفت ہو ئی تھی ۔مقامی سطح پر ہوائی سفر ہو رہا ہے، پاکستان کے ساتھ باقاعدہ پروازیں بحال ہیں، لیکن باقی دنیا سے فضائی سفر نہ ہونے کے برابر ہے۔
پھر بین الاقوامی بنکاری اور رقوم کی ترسیلات کا معاملہ بھی معطل ہے۔ آج کل ملکوں کا دارومدار بیرونی ممالک میں مقیم شہریوں کے ترسیل کردہ زرمبادلہ پر ہے۔ مقامی طور پر خاندانوں کی معاشی حالت کا انحصار بھی اس پر ہے ۔لیکن اکثر ممالک کی پابندیوں کے باعث افغانستان میں بنک کے ذریعے قانونی طور پر ترسیل ممکن نہیں۔ اس لیے زیادہ انحصار ہنڈی کے ذریعے رقومات بھیجنے پر ہے۔
امریکا نے امریکی بنکوں میں جمع شدہ ۹ بلین ڈالر کے افغان اثاثوں کو منجمد کیا ہوا ہے۔ افغانستان میں ہونے والی بیرونی سرمایہ کاری رک چکی ہے ۔اب صرف بعض شعبہ جات کے ملازمین کی تنخواہوں کے لیے ایک محدود رقم افغانستان بھیجی جا تی ہے۔ اس لیے افغانستان ایک بڑے اقتصادی بحران سے دوچار ہے ۔امارت اسلامی نے اپنی مدد آپ کے تحت ملکی محصولات میں خاطرخواہ اضافہ کیا ہے، جس سے کاروبار مملکت کو چلایا جا رہا ہے اور محدود پیمانے پر ترقیاتی کام بھی ہورہے ہیں ۔اقوام متحدہ کے اداروں ،اور کئی دوست ممالک کی غیر سرکاری تنظیمیں بھی عوام کو ریلیف پہنچانے میں مدد دے رہی ہیں ،لیکن بڑے گمبھیر مسائل اپنی جگہ موجود ہیں ۔گذشتہ حکومت کے خاتمے کے بعد لاکھوں افغان شہری بے روزگار ہو گئے ہیں۔ فوج، پولیس اہلکار غیر ملکی اڈوں اور افواج سے وابستہ افراد بے روزگاری کا شکار ہو ئے، جس سے ملک کی شہری آبادی خاص طور پر متاثر ہو ئی۔
یورپی ممالک اور امریکا نے بڑی تعداد میں افغانوں کو اپنے ملکوں میں بسانے کا متبادل منصوبہ پیش کیا۔ اس کے نتیجے میں لاکھوں افغانوں کو مغربی ممالک میں بسنے کا موقع نظر آیا تھا، لیکن وہ سلسلہ بھی تقریباً ختم ہوگیا ہے۔ جرمنی نے گذشتہ چند ماہ میں ۷ ہزار افغان باشندوں کو لے جانا تھا، لیکن صرف ایک ہزار کا بندوبست کیا گیا۔ طالبان حکومت کے خیال میں ہنرمند اور تعلیم یافتہ افغان شہریوں کا ملک سے انخلا قومی نقصان ہے۔ امارت اسلامی نے بے روزگاری کو کم کرنے کے لیے کئی اقدامات کیے ہیں۔ کابل انتظامیہ کے ایک افسر نے بتایا: ’’ہم نے کابل میں ۱۰ ہزار نوجوان پولیس میں بھرتی کر لیے ہیں، اور ۷۰ہزار جوانوں پر مشتمل سرکاری فوج تیار ہو چکی ہے‘‘۔
امارت اسلامی کے خلاف عالمی سطح پر سب سے بڑا الزام، خواتین کارکنان اور بچیوں کی تعلیم پر پابندی کے حوالے سے ہے۔ چند ماہ قبل امیر تحریک طالبان کے حکم سے ساتویں جماعت سے بارھویں جماعت تک کے سرکاری اسکول بند کر دیئے گئے تھے اور اس کی وجہ یہ بتائی گئی کہ مخلوط تعلیم کی اسلام میں اجازت نہیں ہے،حالانکہ افغانستان میں صرف یو نی ورسٹی کی سطح پر مخلوط تعلیم ہے، اور ثانوی سطح تک بچوں اور بچیوں کے علیحدہ تعلیمی ادارے ہیں ۔اس فیصلے پر بین الاقوامی سطح پہ شدید ردعمل ہوا اور مختلف اداروں نے افغانستان کو دی جانے والی امداد بند کر دی گئی۔
طالبان کے ایک مرکزی وزیر انس حقانی نے بتایا: ’’ ۱۰ صوبوں میں تعلیم پر پابندی ختم کردی گئی ہے اور باقی صوبوں میں بھی بتدریج ختم ہو جائے گی۔ ہم یہ امر یقینی بنارہے ہیں کہ بچیوں کو صرف زنانہ اسٹاف پڑھائے، جب کہ بچوں کو مردانہ اسٹاف پڑھائے‘‘۔ گذشتہ دور میں محکمۂ تعلیم میں بڑے پیمانے پر خواتین کو بھرتی کیا گیا تھا۔صرف کابل میں ۳۲ ہزار اساتذہ میں ۲۸ہزار خواتین تھیں ۔ اس وقت پرائمری سطح پر بچیوں کی تعلیم جاری ہے اور یونی ورسٹیوں، پیشہ ورانہ تعلیمی اداروں میں بھی طالبات زیر تعلیم ہیں ۔تاہم، مجموعی طور پر بچیوں کی تعلیم پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ گذشتہ دنوں جرمنی سفارت خانے کے فرسٹ سیکریٹری، پشاور میں ہمارے انسٹی ٹیوٹ آئے تھے اور انھوں نے بھی افغانستان میں خواتین کی تعلیم کے مسئلے پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔ میں نے ان سے کہا:’’افغان بچیوں کی تعلیم افغان ملت اور ان کی قیادت کا معاملہ ہے۔ آپ انھیں خود اپنے مسائل حل کرنے دیں ۔آپ اگر ان کی مدد کرنا چاہتے ہیں تو مشروط طور پر نہ کریں‘‘۔
امارت اسلامی افغانستان کو ’داعش‘ کی موجودگی اور اس کی جانب سے تخریب کاری سے امن کو خطرات لاحق ہیں ۔ ہم جس روز کابل پہنچے تھے، اسی دن کابل میں سکھوں کے گردوارے پر حملہ ہوا تھا۔ملک میں بعض مقامات پر گذشتہ حکومت کے حامی جتھے بھی موجود ہیں ۔لیکن امارت اسلامی کی قیادت بااعتماد ہے اور ان معاملات سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
بحیثیت پاکستانی ہمارے لیے سب سے اہم مسئلہ پا ک افغان تعلقات ہیں۔اس سلسلے میں طورخم بارڈر پر پاکستانی اہلکاروں کی بدسلوکی اور مناسب اقدامات کے فقدان کا فوری طور پر حل کرنا ضروری ہے۔ افغانستان کے شہریوں کے لیے پاکستانی ویزے کا حصول ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے۔ اس مسئلے کی وجہ سے افغان طالبان تک کی صفوں میں بھی قوم پرستی کے جذبات اور اشتعال موجود ہے۔ لاکھوں کی تعداد میں افغان خاندان دونوں ملکوں میں تقسیم ہیں اور ان کے درمیان سماجی رابطوں میں ویزہ ایک بڑی رکاوٹ ہے ۔بڑی تعداد میں افغان مریض پاکستان کے ہسپتالوں میں علاج کے لیے آنا چاہتے ہیں۔ اسی طرح کاروباری حضرات کے لیے بھی ویزہ فوری طور پر درکا ر ہوتا ہے۔ لیکن ہماری ویزہ پالیسی ان زمینی تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ہے، جس پر نظر ثانی کی فوری ضرورت ہے۔
پاکستانی طالبان (TTP) کی بڑی تعداد میں افغانستان میں موجودگی اور پاکستان میں ان کی سرگرمیاں اور تخریب کاری کے بڑھتے ہو ئے واقعات اہلِ پاکستان کے لیے ایک بھیانک خواب ہے۔پاکستانی فوج کی ایما پر امارت اسلامی کے قائدین کی کوششوں سے ٹی ٹی پی کی قیادت کو پاکستان سے مذاکرات کا پابند کیا گیا ۔ جس کے کئی دور چلے ،باقاعدہ سیز فائر کا بھی اعلان ہوا۔قبائلی وفود اور علما کا وفد بھی گیا، لیکن تاحال مسئلہ حل نہیں ہو سکا ہے۔ ٹی ٹی پی کی جانب سے قبائلی نظام کی بحالی اور اسلحہ سمیت ان کی موجودگی پاکستان کو قبول نہیں ہے۔ مذاکراتی عمل معطل ہے اور سیز فائر کی خلاف ورزی بھی جاری ہے۔ کابل میں ایک افغان طالب رہنما نے بتایا کہ ہم نے ان کے رہنماؤں سے کہہ دیا ہے: ’’آپ کو پاکستان سے لازماً مذاکرات کے ذریعے معاملہ حل کرنا ہو گا، بصورت دیگر ہم آپ کو پاکستان کے سرحدی علاقوں میں نہیں رہنے دیں گے اور بالائی علاقوں میں منتقل کر دیں گے‘‘۔ یاد رہے کہ افغانستان کے سرحدی صوبوں ،کنڑ،لوگر، پکتیا، خوست، پکتیکا وغیرہ میں ۲۰سے ۲۵ ہزار پاکستانی طالبان اپنے بال بچوں سمیت مقیم ہیں۔ افغانستان میں ڈاکٹر اشرف غنی کی حکومت تھی اور ناٹو اور امریکی افواج کی موجودگی میں یہ لوگ باآسانی افغانستان منتقل ہوکر آباد ہوگئے تھے۔
۱۵؍ اگست کو افغانستان کے طول و عرض میں ایک سالہ امارت اسلامی کے قیام کا جشن منایا گیا۔تمام شہروں میں باقاعدہ تقریبات کا اہتمام کیا گیا، جس میں اعلیٰ ملکی قیادت شریک ہو ئی۔کئی جگہ جلوس بھی نکالے گئے اور عوامی ریلیاں بھی منعقد ہو ئیں ۔یہ سب آثار افغانستان کے روشن مستقبل کی اُمید دلاتے ہیں ۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ امارت اسلامی کی قیادت دانش مندی اور حکمت سے ملک میں دیرپا امن قائم کرنے اور ریاستی اداروں کے قیام میں کامیاب ہو ۔آمین!
طورخم کے راستے افغانستان جاتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان بین الاقوامی راہداری کے نظام کا عالمی معیار یہاں حددرجہ ناقص ہے۔ میرے سامنے ایک اہلکار نے ایک افغانی کو دھکا دیا تومیں نے اس سے پو چھاکہ ’’آپ نے اس معزز شخص کو کیوں دھکا دیا؟‘‘ اس نے حیرت سے میری طرف دیکھا اور کہا کہ ’’اس کے پاس دو کلو چینی ہے جو لانا منع ہے‘‘۔ واپسی پر جب میں افغانستان کی طرف سے پاکستانی علاقے میں داخل ہوا، تو چترال اسکائوٹس کے ایک جوان نے بڑی رعونت سے مجھے کہا: ’’بیگ کھولو‘‘۔ میں نے جواب میں کہا: ’’کیا آپ تمیز سے بات نہیں کر سکتے؟ میں ایک پاکستانی شہری ہوں‘‘۔ مطلب یہ کہ ہم کتنی بھی نیم دلانہ کوششیں کرلیں، پاک افغان تعلقات ان پاکستانی اہلکاروں کی موجودگی میں نہیں سدھر سکتے۔
اس سال ماہ مارچ میں ہم نے ’انسٹی ٹیوٹ آف ریجنل اسٹڈیز‘ (IRS)، پشاور کے تحت پشاور یونی ورسٹی میں پاک افغان تعلقات پر ایک روزہ مذاکرہ منعقد کیا تھا۔اس مذاکرے میں کئی پاکستانی اہم شخصیات کے علاوہ افغانستان کے عمائدین بھی شریک تھے۔ اسی پروگرام کے دوران یہ تجویز آئی کہ اسی نوعیت کا ایک پروگرام افغانستان میں بھی منعقد کیا جائے۔گذشتہ سال۱۵ ؍اگست کو افغانستان کی قیادت میں جو تبدیلی عمل میں آئی تھی، اس پرپاکستان میں بھی عوامی پسندیدگی کا اظہار ہوا تھا اور یہ توقع کی جارہی تھی کہ پاکستان اور افغانستان کے عوام کے درمیان خلیج کو پاٹنے میں افغانستان کی نئی قیادت اہم کردار ادا کرے گی۔
قیامِ پاکستان اگست۱۹۴۷ء کے فوراً بعد سے آج تک، افغان حکومتوں کی جانب سے پاکستان کی مخالفت ایک ایسا طرزِ عمل ہے، جس کو ایک عام پاکستانی سمجھنے سے قاصر ہے۔اس دوران جولائی ۱۹۷۳ء میں افغانستان میں بادشاہت کا خاتمہ ہوا، اور پھر کمیونسٹ عناصر غالب آگئے۔ دسمبر ۱۹۷۹ء میں اشتراکی روس کا قبضہ ہوا۔لاکھوں کی تعداد میں افغان مہاجرین نے پاکستان میں پناہ لی، جن کی بھرپور مہمان نوازی کی گئی۔پھر ۱۹۹۶ء میں طالبان کی حکومت آئی، مزید مہاجرین پاکستان آئے۔ ۷؍اکتوبر ۲۰۰۱ء کو امریکی قیادت میں حملے شروع ہوئے۔ ۲۰سال تک افغانستان پر ناٹو مسلط رہااور افغان طالبان کی مزاحمت جاری رہی۔ اس پورے عرصے میں پاکستان کی حکومت اور عوام افغان قوم کا ساتھ دیتے رہے۔اس کے باوجود پاکستان مخالفت کا پر نالہ اپنی جگہ قائم رہا اور گاہے گاہے اس کا اظہار ہو تا رہا، چاہے وہ مہاجر کیمپوں میں مقیم نوجوان ہوں یا برطانیہ میں پاک افغان کرکٹ میچ کے تماشائی، پاکستان کی مخالفت کے نعرے گونجتے رہے۔اس صورتِ حال کو دیکھ کر عام پاکستانی یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ آخر ایسا کیوں ہے ؟ ہمارا قصور کیا ہے؟
۲۰۱۵ء میں کا بل کے ہو ٹل انٹرکانٹی نینٹل میں ایک علاقائی کانفرنس میں شرکت کا مجھے موقع ملاتھا، جو کابل ہی کے ایک تھنک ٹینک ’دی سنٹر فار اسٹرے ٹیجک اینڈ ریجنل اسٹڈیز [تاسیس: جولائی۲۰۰۹ء- CSRS] نے منعقد کی تھی۔ اس کانفرنس میں پاکستان کے علاوہ ایران اور تاجکستان کے نمایندے بھی شریک تھے۔ اس وقت میری تقریر کے بعد افغان صحافیوں کے ایک ہجوم نے مجھے گھیر کر سوال کیا: ’’پاکستان افغانستان کے امن کو کیوں برباد کر رہا ہے؟‘‘
اس پس منظر میں امارت اسلامی افغانستان کے قیام، اگست ۲۰۲۱ء کے بعد ایک اُمید پیدا ہو ئی کہ اب دوطرفہ تعلقات میں بہتری آئے گی۔ لیکن پھر ایسے اُوپر تلے واقعات سامنے آنے لگے، جس سے تاثر ملا کہ ایں خیال محال است۔کہیں پرپاکستانی پرچم ہٹایا یا جلایا جا رہا ہے اور کہیں پر سرحدی باڑ کو اکھاڑا جا رہا ہے۔ سوشل میڈیا پر ایک افغانــ ’’جنرل‘‘ کے دھمکی آمیز بیانات نشر ہورہے ہیں اور سرحد پار سے فائرنگ اور جوابی فائرنگ کی خبریں بھی سامنے آتی ہیں ۔پاکستان کے ضم شدہ قبائلی علاقوں میں ’تحریک طالبان پاکستان‘ کی طرف سے پاکستانی افواج پر حملے اور فوجی جوانوں کی شہادتوں کا سلسلہ تھمنے میں نہیں آ رہا۔
اس صورتِ حال میں انسٹی ٹیوٹ آف ریجنل اسٹڈیز، پشاور نےفیصلہ کیا کہ ایک نمایندہ وفد کے ساتھ کابل جائیں اور وہاں کے اہل دانش اور اہل حل و عقد کے ساتھ بیٹھ کر ان موضوعات پر تفصیلی تبادلۂ خیال کیا جائے اور مسائل کا حل ڈھونڈا جائے۔
چنانچہ، ہم نے از خود ’سی ایس آر ایس‘ کابل کے صدر سے رابطہ کرکے تجویز پیش کی کہ اس نوعیت کا ایک پروگرام کرنا چاہیے۔انھوں نے جواب دیا کہ ہم امارت اسلامی کے خارجہ امور کی وزارت سے اجازت کے بعد آپ کو مطلع کردیں گے۔ اس دوران پشاور میں موجود افغان قونصلیٹ جنرل حافظ محب اللہ سے ملاقات میں بھی یہ تجویز دُہرائی۔ انھوں نے اس پر خوشی کا اظہار کرتے ہو ئے اٖفغان وزارت خارجہ سے رابطہ کرکے ہمیں مطلع کیا کہ ’’اس کانفرنس میں شرکت کے لیے جتنے افراد کو ویزے جاری کرنے کی ضرورت ہے، وہ ہم فراہم کریں گے‘‘۔ بالآخر یہ طے ہو گیا کہ ۱۹ جون ۲۰۲۲ء بروز اتوار کابل انٹر کانٹی نینٹل ہو ٹل میں ایک علاقائی کانفرنس دونوں ادارے مل کرمنعقد کریں گے، جس میں پاکستان ،افغانستان اور ایران کے نمایندے شرکت کریں گے۔ افغانستان کے نائب وزیر خارجہ اور دوحہ قطر میں افغان امریکا مذاکرات کی معروف شخصیت الحاج محمد عباس ستانکزئی اور دیگر اٖفغان زعماء افتتاحی پروگرام میں شریک ہوںگے۔
اس پروگرام میں افتتاحی اور اختتامی سیشن کے علاوہ ۵ ورکنگ گروپ بنائے گئے تھے۔ باہمی تجارت،تعلیم ،صحت،کلچر اور میڈیا اور افغان مہاجرین کے مسائل پر گفتگو اور تبادلۂ خیال کے لیے پانچ علیحدہ سیشن بیک وقت منعقد کرنا تجویز کیے گئے، جس میں پاکستانی وفد کی نمایندگی درکار تھی۔چنانچہ صوبائی سطح پر اہل دانش و ماہرین سے رابطے کر نا شروع کیے اور آہستہ آہستہ ایک متوازن نمایندگی کے ساتھ وفد، افغانستان کے سفر کے لیے تیار ہوگیا، جن کے پاسپورٹ جمع کرکے ویزوں کے لیے قونصلیٹ میں جمع کرا دیئے گئے۔
افغان قونصلیٹ جنرل حافظ محب اللہ صاحب نے شرکائے سفر کو ظہرانہ دیا، جن کی تعداد ۴۰ افراد پر مشتمل تھی ۔ لیکن جب اس ظہرانے کی تصویریں میڈیا میں آئیں، تو اس سفر پر جانے کے خواہش مند احباب کی تعداد میں اضافہ ہو گیا،اور ہمارے لیے بڑی مشکل کھڑی ہو گئی کہ اتنے افراد کو کیسے لے کر جائیں اور وہاں ان کے طعام و قیام کا بندوبست کیسے کریں؟ مختصر یہ کہ جب ۱۸جون کی صبح کو ہم پشاور سے طور خم کی طرف روانہ ہو ئے تو وفد کی تعداد ۶۰ تک پہنچ چکی تھی۔
طورخم سرحد پاکستان اور افغانستان کے درمیان ایک اہم گزرگاہ ہے۔ مشہور تاریخی درہ خیبر کا آغاز طورخم سے ہو تا ہے۔پاکستان اور افغانستان کے درمیان ۲۶۴۰ کلومیٹر طویل سرحد، جو طویل ’ڈیورنڈلائن‘ کے نام سے مشہور ہے، پر ۱۲ مقامات ایسے ہیں جو باقاعدہ راہداری (کراسنگ) کے طور پر تسلیم شدہ ہیں۔ ان میں سے چھ پوائنٹ اس وقت استعمال ہو رہے ہیں،جب کہ چھ بند ہیں۔
وفد کے شرکا کا شوق اور جذبہ قابلِ دید تھا۔ ہم پشاور سے طورخم بارڈرپر پہنچے تو وہاں پر عجیب افراتفری کی صورتِ حال دیکھنے کو ملی۔ اس راہداری کو روزانہ ہزاروں افغان باشندے دونوں طرف سے استعمال کرتے ہیں،جب کہ سیکڑوں کی تعداد میں پاکستانی شہری بھی استعمال کرتے ہیں۔ لیکن ایک بین الاقوامی راہداری کے شایان شان انتظامات ناپید ہیں ۔ امیگریشن ہال جہاں کھڑکیوں میں بیٹھا ہوا عملہ آپ کے پاسپورٹ اور ویزے وغیرہ کو چیک کرتا ہے، وہاں مسافروں کے لیے نشستوں، پینے کے پانی، ٹوائلٹ، ائیرکنڈیشنز وغیرہ کا کو ئی انتظام نہیں ہے۔ ہڑبونگ اور دھکم پیل کے افسوس ناک مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں۔ وہاں پر معلوم ہوا کہ دو سال سے بین الاقوامی سطح کی امیگریشن عمارت بنانے کا ٹھیکہ پاکستان کے سرکاری شعبے ’نیشنل لاجسٹک سیل‘(NLC) کو دیا گیا ہے، لیکن بوجوہ نہیں بن پا رہا۔جس کی ذمہ داری ،پاکستانی حکام، افغان حکومت کے عدم تعاون پر ڈالتے ہیں ۔ افغان شہریوں سے پیسے لے کر پاکستان آنے کی اجازت دینے کے الزامات بھی عام ہیں۔ پاکستانی عملہ جو زیادہ تر بغیر وردی کے ہو تا ہے، اس کا رویہ افغان شہریوں کے ساتھ درشتگی اور بے عزّتی کا ہے۔
پاکستانی امیگریشن سے نکل کر ایک طویل راہداری میں سے گزرنا پڑتا ہے جو ایک کلو میٹر سے زیادہ طویل ہے۔ افغان علاقے میں داخلے پر ان کے عملے نے ہمارا استقبال کیا۔ ان کا امیگریشن ہال خاصا بہتر تھا اور عملہ بھی قدرے نفیس رویہ اختیار کیے ہو ئے تھا ۔وہاں نشست گاہ، پانی اور وضو کا بندوبست تھا اور ساتھیوں نے وہاں نفلی نماز بھی ادا کی۔ پھر ایک طویل گزر گاہ سے گزر کر ہم افغانستان میں داخل ہو ئے۔اس پورے راستے میں پاکستانی اور افغانی بچوں کی ایک کثیر تعداد سے آپ کا واسطہ پڑے گا، جن میں بھیک مانگتے بچوں کے علاوہ ویل چئیر اور سامان ڈھونے والے مزدور بچے شامل ہیں ۔یہ مشاہدہ شاید ہی آپ کو کسی اور ملک میں نظر آئے۔
افغانستان میں داخلے کے بعد جلال آباد اور پھر کا بل کا سفر بھی ایک دلچسپ روداد ہے۔ بہرحال، سیدھی اور بڑی شاہراہ پر گاڑیاں سفر پر روانہ ہوئیں۔ جگہ جگہ بازار اور دکانیں سامان سے بھری ہو ئی نظر آرہی تھیں، جو ایک بدحال نہیں بلکہ خوش حال افغانستان کی تصویر تھی۔جلال آباد کے قریب دروانٹہ ڈیم کے قریب جس ہوٹل میں ہم نے بہترین کھانا کھایا، اس کا معیار پاکستانی موٹروے پر قائم ہو ٹلوں سے کم نہیں تھا۔کابل تک پہاڑی راستوں سے گزرتے ہو ئے ہم نے چارڈیموں اور بجلی گھروں کا مشاہدہ کیا، جو مختلف ممالک نے تعمیر کیے ہیں ۔ راستے میں جگہ جگہ چیک پوسٹیں تھیں۔جہاں افغانی اہلکار، امارت اسلامی کا پرچم لیے کھڑے تھے۔ وہ معمولی پوچھ گچھ کے بعد فوراً آگے بڑھنے کا اشارہ کر دیتے ۔غرض یہ کہ کابل تک ہمارا سفر خاصا خوش گوار گزرا اور طورخم پر ہم اپنے پاکستانی بھائیوں کے ہاتھوں جس تکلیف کا شکار ہو ئے تھے،افغان اہل کار بھائیوں نے اس کا ازالہ کردیا ۔
اتوار ۱۹ جون ۲۰۲۲ء کو کابل کے انٹر کانٹی نینٹل ہو ٹل میں سیمی نار منعقد ہوا۔جس کا موضوع ’’ افغانستان کے پڑوسی ممالک سے تعلقات کا مستقبل‘‘ تھا۔ ’سی ایس آر ایس‘ کے ذمہ داران نے ہوٹل کے ’بامیان ہال‘ میں بہترین انتظامات کر رکھے تھے۔۲۰۰ سے زائد مہمان وقت پر پروگرام میں شرکت کے لیے پہنچ چکے تھے۔چار افغان وزراء اور امارت اسلامی کے دیگر زعماء موجود تھے۔ ۳۰کے لگ بھگ افغان ٹی وی چینلز کی نمایندگی بھی تھی۔ یا درہے کہ ان دنوں کابل سے کو ئی اخبار شائع نہیں ہوتا۔ کورونا وبا کے دوران پابندیا ں اور اقتصادی بحران کی وجہ سے اخبارات بند ہو چکے ہیں، البتہ ٹی وی نشریات جاری ہیں۔لیکن وہ بھی اشتہاری مواد کی کمی کی وجہ سے مالی مشکلات کا شکارہیں۔ چینلز کے نمایندہ رپورٹروں میں خواتین کی تعداد نمایاں تھی ۔
سیمی نار کے افتتاحی سیشن میں افغان وزراء محمد عباس ستانکزئی،وزیر صحت ڈاکٹر قلندر عباد اور وزیر مہاجرین امور قاری محمود شاہ نے خطاب کیا، جب کہ پاکستانی وفد کی نمایندگی راقم نے کی۔ ’سی ایس آر ایس‘ ،جمعیت الاصلاح اور دیگر افغان زعماء نے بھی خطاب کیا۔یہ ایک بھر پور سیشن تھا، جس میں تمام مقررین نے پڑوسی ممالک کے درمیان یگانگت،بھائی چارے، باہمی تعاون آمدورفت اور تجارت کو مضبوط بنانے اور فروغ دینے پر زور دیا ۔افغان نائب وزیر خارجہ نے خاص طور پر ایک نکتہ بیان کیا کہ ’’پاکستان اور ایران کے عوام کو افغان قوم کا شکرگزار ہو نا چاہیے کہ انھوں نے جان و مال کی قربانی دے کر پہلے روسی استبداد اور پھر امریکی جارحیت کو اس خطے میں ناکام بنایا اور اس طرح پڑوسی ممالک کو عالمی طاقتوں کی چیرہ دستیوں سے محفوظ رکھا‘‘۔انھوں نے پڑوسی ممالک کا افغان مہاجرین کی مہمان نوازی پر شکریہ ادا کرتے ہو ئے اپیل کی کہ وہ ’’مزید کچھ عرصے کے لیے مہاجرین کا بوجھ برداشت کریں ‘‘۔ انھوں نے افغان باشندوں کی ان ممالک میں آمدورفت میں آسانیاں پیدا کرنے اور ویزوں کے اجرا میں اضافے پر زور دیا۔
وزیر صحت نے اپنے شعبہ میں پڑوسی ممالک سے تعاون پر زور دیا۔ افغانستان میں صحت کی سہولتوں کی ترقی، میڈیکل تعلیم و تربیت خاص طور پر پوسٹ گریجویٹ استعدادکار کے شعبوں میں پاکستان اور ایران افغانستان کی بہت مدد کر سکتے ہیں۔وزیر مہاجرین نے دونوں پڑوسی ممالک کا شکریہ اد اکیا کہ انھوں نے مشکل وقت میں لاکھوں افغان پناہ گزینوں کو اپنے ملکوں میں بسایا۔ انھوں نے پاکستان میں خاص طور پر جماعت اسلامی کی خدمات کا ذکر کیا، جن کی قیادت اور کارکنان نے اوّل روز سے افغان مہاجرین کے ساتھ محبت اور اخلاص کا اظہار کیا، جن کو ہم کبھی نہیں بھول سکتے۔انھوں نے کہا کہ ’’پاکستان میں ایسے عناصر بھی تھے، جنھوں نے مہاجرین کو بھگوڑا قرار دیتے ہو ئے نکالنے کا مطالبہ کیا، لیکن اسلامی جمعیت طلبہ کے لیڈروں نے جن میں سراج الحق اور شبیر احمد خان شامل تھے، سینہ تان کر اورکھلے عام ہمارا ساتھ دیا‘‘۔
افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے میں نے پاکستان اور افغانستان کے درمیان دیرینہ تاریخی تعلقات کا حوالہ دیتے ہو ئے ایک پُر امن اور مضبوط افغانستان کو پاکستان میں امن و سلامتی کے لیے ضروری قرار دیا۔ مستقبل کے تعلقات کے حوالے سے صحت،تعلیم ،تجارت اور میڈیا کے شعبوں میں باہمی تعلقات کی بہتری کے لیے تجاویز پیش کیں کہ امارت اسلامی افغانستان میں سیاحت کو فروغ دے تو بڑی تعداد میں پاکستانی ادھر کا رخ کریں گے۔دوسری تجویز یہ پیش کی کہ امارت اسلامی کسی مناسب مقام پر ایک بڑا انڈسٹریل زون قائم کرے اور پاکستان سمیت دیگر ممالک کو وہاں کارخانے قائم کرنے میں سہولتیں فراہم کرے ۔کسی ملک میں بیرونی سرمایہ کاری کے لیے دو شرائط لازمی ہیں:ایک مضبوط اور مستقل حکومت، جو امن و سلامتی کی ضمانت دے سکے، اور دوسرا ٹیکس فری زون یا کم ازکم شرح محصولات ۔یہ دونوں شرائط امارت اسلامی افغانستان پوراکر سکتی ہے۔
افتتاحی پروگرام ہی میں’سی ایس آر ایس‘ کے ڈائرکٹر جناب ڈاکٹر عبدالصبوح روئوفی نے بہت مفید تجاویز پیش کیں، خاص طور پر تعلیم و صحت کے شعبوں میںدونوں پڑوسی ممالک افغانستان کی ترقی میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں اور ماہرین کی تیاری ملک کی مستقبل کی ضروریات پوری کرنے کے لیے ضروری ہے۔افغان طلبہ و طالبات اندرون و بیرون ملک شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں لیکن اعلیٰ تعلیمی اداروں کی عدم موجودگی اور بین الاقوامی سطح پر تعلیمی اسناد کی قبولیت ایک سوالیہ نشان ہے۔جمعیۃ الاصلاح کے سربراہ پروفیسر مزمل،ممتاز افغان اسکالر استاد محمدزمان مزمل اور عالم دین اور سابقہ رکن پارلیمنٹ مولانا شہزادہ شاہد نے بھی فکر انگیز گفتگو رکھی۔
چائے کے وقفے کے بعد سیمی نار کے تمام شرکا کو پانچ گروپوں میں تقسیم کیا گیا اور دو گھنٹے تک ان گروپوں میں شریک ماہرین نے اپنے شعبے کے مسائل پر تفصیلی غور وغوض کیا۔ تعلیم، صحت، تجارت، میڈیا اور افغان مہاجرین کے عنوانات پر قائم گروپوں نے باہمی تعاون کے موضوعات پر مفید تبادلۂ خیال کیا۔ہر گروپ میں امارت اسلامی کے متعلقہ شعبوں کے حکام بھی شریک تھے اور اہم نکات نوٹ کر تے رہے۔ان تمام گروپس کی روداد کو ریکارڈ کر نے کے لیے ’سی ایس آرایس‘ کی جانب سے افراد مقررتھے جنھوں نے تفصیلی رپورٹ متعلقہ حکام اور ذمہ داران کو بھیج دی ہے۔
میں جس گروپ میں شریک تھا وہ شعبۂ صحت سے متعلق تھا، جس کی صدارت خیبر میڈیکل یونی ورسٹی، پشاور کے وائس چانسلر ڈاکٹر ضیا ء الحق صاحب نے کی، جو ہمارے ساتھ وفد میں شامل تھے، جب کہ پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن (PIMA) صوبہ خیبر پختونخوا کے صدر پروفیسر ڈاکٹر گلشن حسین فاروقی، آفریدی میڈیکل کمپلیکس کے چیف شاہ جہان آفریدی ،افغانستان کی اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن کے صدر ڈاکٹر محمد یو سف ،ڈاکٹر خالد رشید، افغانستان کے ڈاکٹروں کی تنظیم کے سینئر ارکان ،وزارتی حکام اور ایران کی وزارت صحت کا نمایندہ بھی موجود تھا۔ اس مجلس میں افغانستان کی وزارت صحت کے سابقہ مشیر ڈاکٹر یوسف نے افغانستان کی صحت عامہ کے حوالے سے بہت جامع تفصیلات بیان کیں، جس کو بہت سراہا گیا۔
تعلیمی گروپ میں پاکستان کی نمایندگی پشاور یونی ورسٹی اور صوبہ بھر کے تعلیمی اداروں سے منسلک اہم عملی شخصیات نے کی، جن میں پروفیسر ارباب آفریدی، ڈاکٹر سید ظاہر شاہ، پرفیسر فضل الرحمٰن قریشی،پروفیسر بشیر ربانی،محمد اشراق وغیرہ شامل تھے۔ اسی طرح جن پاکستانی کاروباری حضرات نے اپنے گروپ میں گفتگو رکھی، ان میں شاہ فیصل آفریدی،حاجی محمد اسلم ،عجب خان وغیرہ شامل تھے۔ میڈیا کے گروپ میں پاکستان کے اہم ٹی وی چینلز کے نمایندے اور صحافی حضرات محمود جان بابر، فدا عدیل ،رسول داوڑ، سدھیر آفریدی،یوسف علی ،شمیم شاہد اور عالمگیر آفریدی موجود تھے۔ افغان مہاجرین کے مسائل پر بریگیڈیر ریٹائرڈ محمد یو نس ،کاشف اعظم، اور الخدمت فائونڈیشن کے نائب صدر ڈاکٹر سمیع اللہ جان نے نمایندگی کی۔
کانفرنس کے آخری سیشن میں جماعت اسلامی پاکستان کے رہنما شبیر احمد خان اور ممتاز عالم مولانا محمد اسماعیل نے خطاب کیا۔ ایک قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ جس وقت ہوٹل کے بامیان ہال میں ہمارا پروگرام ہورہا تھا، اسی وقت ہو ٹل کے قندھار ہال میں ایک بڑا تجارتی پروگرام حکومت کی زیرنگرانی جاری تھا، جس کے مہمان خصوصی افغانستان کے نائب وزیر اعظم ملا عبدالغنی برادر تھے، جن کے ہمراہ دیگر افغان وزراء بھی شریک تھے۔ اس پروگرام کا موضوع تھاــ: ’’افغانستان میں سرمایہ کاری کے امکانات‘‘۔ جس میں کابل میںموجود تمام بیرونی ممالک بشمول پاکستان، ہندستان، چین، روس اور عرب و یورپی ممالک کے سرمایہ کار اور عالمی کمپنیوں کے نمایندے سیکڑوں کی تعداد میں شریک ہوئے۔ مطلب یہ ہے کہ امارت اسلامی،افغانستان کی اقتصادی صورتِ حال کو بدلنے اور بیرونی سرمایہ کاری کے حصول کے لیے کوشاں ہے اور اس مقصد کے لیے ہر ممکن اقدامات اُٹھا رہی ہے ۔ (جاری)
؍اگست ۲۰۲۱ء کی شام کو امریکی سرپرستی میں قائم افغان آرمی نے کا بل کو خالی کردیا تھا۔ صدر اشرف غنی سمیت بیش تر حکومتی لوگ ملک چھوڑ گئے اور تحریک طالبان افغانستان کے رضاکاروں نے آگے بڑھ کر دارالحکومت کا انتظام سنبھال لیا تھا۔ ۱۵ فروری ۲۰۲۲ء کو ان کے اقتدار کو قائم ہو ئے چھے ماہ ہو چکے ہیں، جب کہ باقاعدہ حکومت کا قیام اور عبوری کا بینہ کا اعلان۲۸ ستمبر کو کیا گیا۔
تحریک طالبان افغانستان کاآغاز ۱۹۹۰ء کے عشرے میں ہوا۔جب ۱۹۹۲ء میں ڈاکٹر نجیب اللہ کی ماسکونواز حکومت کاخاتمہ ہوا اورافغانستان میں مجاہدین کے دھڑوں کی باہم لڑتی بھڑتی حکومت قائم ہوئی۔ باہم اختلافات، خانہ جنگی اور لاقانونیت کی وجہ سے صوبوں کی سطح پرمقامی کمانڈروں نے اپنی عمل داری قائم کرلی اور ملکی سطح پرمضبوط حکومتی کنٹرول قائم نہ ہوسکا۔ نتیجہ یہ کہ ملک میں بدامنی کاراج تھا۔عوام میں بے چینی اور عدم تحفظ کا احساس عام تھا۔ اس دور میں قندھار سے ملاعمراخوند کی قیادت میں تحریک طالبان کاظہورہوا۔ جس نے کچھ ہی عرصے میں ملک گیر مقبولیت حاصل کرلی۔۱۹۹۶ء میں تحریک طالبان نے کابل پر قبضہ کرکے افغانستان میں اپنی حکومت قائم کرلی اور امارت اسلامی افغانستان کے نام سے ملک کوایک اسلامی شناخت دی۔یہ حکومت ۲۰۰۱ء تک قائم رہی۔ ۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ء میں امریکا میں تخریب کاری کا ایک بڑاواقعہ پیش آیا تو امریکا نے اس کی ذمہ داری القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن پر عائد کی، جو اس وقت افغانستان میں مقیم تھے۔ امریکا نے ملا عمرسے مطالبہ کیاکہ اسامہ بن لادن کو ان کے حوالے کیا جائے، لیکن انھوں نے انکار کیاچنانچہ امریکی اور ناٹو افواج نے افغانستان پرحملہ کرد یا۔ اور شمالی اتحاد کی مدد سے کابل پرقبضہ کرکے حامدکرزئی کی قیادت میں اپنی مرضی کی حکومت قائم کردی۔دسمبر۲۰۰۱ء سے لے کر فروری۲۰۲۰ء تک تحریک طالبان مسلسل غیرملکی افواج سے حالت ِ جنگ میں رہی اور بالآخر ۲۹فروری ۲۰۲۰ء کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں تحریک طالبان اور امریکی حکومت کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا، جس کی بنیاد پر افغانستان سے غیرملکی افواج کاانخلا عمل میں آنا تھا۔
جون۲۰۲۱ء میں امریکی صدر جوبائیڈن نے اچانک۳۱ ؍اگست ۲۰۲۱ء تک افغانستان سے امریکی فوج کی واپسی کا اعلان کرکے جہاںدنیاکوحیران کردیا، وہاں مزاحمتی تحریک طالبان کو بھرپور اعتماد سے پیش قدمی کاموقع بھی فراہم ہوگیا۔ امریکی سرپرستی میں تشکیل کردہ افغان فوج ریت کا ڈھیر ثابت ہو ئی،افغان صدراور ان کی کابینہ ملک سے فرار ہو گئے اور ۱۵؍اگست کو طالبان کابل میں داخل ہوگئے۔۱۶ ؍ اگست سے ۳۱ ؍اگست کے دن تک کابل ائیرپورٹ پر انتہائی افسوس ناک واقعات ہوئے، جب کہ اس کا انتظام۵ ہزار سے زائدامریکی فوج کے پاس رہا۔ اس دوران ایک لاکھ ۲۰ہزار سے زائد غیر ملکی اور ان کاساتھ دینے والے مقامی افراد کا انخلا عمل میں آیا۔ انھی دنوں دہشت گرد تنظیم ’داعش‘ نے خودکش حملہ بھی کیا، جس میں ۱۳؍ امریکی فوجیوںسمیت ۲۰۰؍افغان مارے گئے۔ امریکی فوج نے جانے سے پہلے کابل ائیر پورٹ پر کھڑے تمام جنگی جہاز،ہیلی کاپٹر، گاڑیاں اور دیگر املاک تباہ و برباد کرکے ایک بدترین مثال قائم کی۔
طالبان تحریک نے دارالحکومت کابل پرقبضہ کے بعد صوبہ پنج شیر کے علاوہ پورے ملک کا کنٹرول حاصل لیا۔احمد شاہ مسعود کے بیٹے احمد مسعود اور نائب صدر امراللہ صالح نے واد یِ پنج شیر میں چند روز مزاحمت کے بعد راہ فرار اختیار کی۔
۱۷؍ اگست کے فوراً بعد طالبان نے حکومت سازی کے لیے مشاورت کا آغاز کیا۔قندھار میں تحریک طالبان کے امیر مُلّا ہیبت اللہ کی زیر صدارت رہبری شوریٰ کا تین روزہ اجلاس ہوا۔ پہلے مرحلے میں مختلف محکموں،کابل انتظامیہ اور مرکزی بنک کے صدر کے طور پر ۱۲ شخصیات کا اعلان کیا گیا۔اس دوران کابل میں سابق صدرحامدکرزئی،ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ اور انجینیر گلبدین حکمت یار سے مشاورت کی گئی، جس سے یہ خیال پیدا ہو ا کہ ایک وسیع البنیاد حکومت کا قیام عمل میں لایا جارہا ہے۔ اس دوران طالبان کے ترجمان سہیل شاہین، ذبیح اللہ مجاہد، اور دیگر زعماء نے میڈیا پر بہترین ترجمانی کی۔عام معافی کا اعلان ،تعلیمی اداروں میں تعلیم کا آغاز اور بازاروں اور بنکوں میں لین دین کا آغاز ہوا۔ محرم الحرام میں اہل تشیع کے جلوس اور خواتین کے مظاہروں کی اجازت دی گئی۔البتہ جس عبوری کابینہ کا اعلان کیا گیا، اس میں صرف طالبان رہنما ئوں کو شامل کیا گیا ہے۔
مُلّامحمد حسن اخوند کو وزیر اعظم مقرر کیا گیا ہے، جب کہ ملاعبدالغنی برادر اور ملا عبدالسلام حنفی کو نائب وزیر اعظم کے عہدے سونپے گئے ہیں۔ دیگر اہم شخصیات میں ملاعمر کے صاحبزادے ملایعقوب کو وزیر دفاع،سراج الدین حقانی کو وزیرداخلہ، ملاامیر خان متقی وزیر خارجہ اور ملافصیح الدین بدخشانی کو چیف آف آرمی سٹاف مقرر کیا گیا ہے۔ اب تک ۶۷؍افراد کو وزارتیں و دیگر اہم مناصب دیئے جاچکے ہیں۔ یہ اعلان کیاگیا تھا کہ ۱۱ستمبر کو تقریب حلف برداری ہوگی۔لیکن پھر اس کو ملتوی کردیا گیا۔ مرکز کے علاوہ افغانستان کے ۳۴صوبوں اور ۴۰۰ اضلاع میں بھی تمام مناصب پر تعیناتی کی جا چکی ہے اور ملک کے طول و عرض پر امارت اسلامی کا کنٹرول قائم ہو چکا ہے۔
اس سب کے باوجود افغانستان میں طالبان حکومت کو سخت چیلنجوں اور مسائل کا سامنا ہے:
گذشتہ چھے ماہ میں امارت اسلامی افغانستان کی قیادت نے کئی ایسے ٹھوس اور مؤثر اقدامات کیے ہیں جس سے موجودہ حالات کے تقاضوں کو پورا کرنے اور افغان عوام کے مسائل حل کرنے میں واضح پیش رفت نظر آرہی ہے۔ ان میں سے چند اقدامات درج ذیل ہیں :
ہسپتالوں اور طبی مراکز کو بھی پوری طرح فعال کر دیا گیا اور ان کے عملے کی تنخواہیں بھی عالمی ادارے IRCRC (عالمی ادارہ صحت) وغیرہ دے رہے ہیں ۔البتہ ڈاکٹروں اور طبّی عملے کی کمی اور ادویات کی نایابی کا مسئلہ کئی جگہ موجود ہے۔مریضوں کے علاج معالجے کے لیے پشاور،ایران اور بھارت جانے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
طالبان کی قیادت نے کمال حکمت و فراست کا مظاہرہ کرتے ہو ئے ملکی معیشت کو ایک حد سے گرنے نہیں دیا ۔ملک میں امن و امان قائم کرنے اور مواصلاتی نظام کو بر قرار رکھنے کے ساتھ ساتھ بنک کاری کے نظام کو بھی سہارا دیا ۔ افغان مرکزی بنک کا سربراہ حاجی محمد ادریس کو پہلے ہی مرحلے میں مقرر کیا گیا اور انھوں نے بنک کا انتظام سنبھالتے ہی تمام بنکوں کو روزانہ کم از کم سرمایہ فراہم کرنا شروع کردیا، البتہ یہ پابندی لگائی کہ ہر فرد اپنے کھاتے سے ہفتے میں دو سو ڈالر یا اس کے برابر افغان کرنسی نکال سکتا ہے،اور یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔ انھوں نے تمام نجی بنکوں کے سربراہوں کو ہدایت کی کہ وہ اپنے ملازمین کو فارغ نہیں کریں گے اور کم از کم نصف تنخواہ کی ادائیگی جاری رکھیں گے ۔اس کے علاوہ کاروباری حضرات کو مزید سہولتیں بھی دی گئیں اور سرکاری ملازمین کو پہلے چند ماہ نصف تنخواہ اور اب مکمل تنخواہیں دینے کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے ۔ اس طرح لاکھوں افراد بے روزگار ہونے سے بچ گئےاور اندرون ملک کاروباری ماحول بحال ہو چکا ہے ۔ بڑے پیمانے پر تعمیراتی کام، خصوصاً شاہراہوں کی تعمیر و مرمت کچھ حد تک بحال ہو چکی ہے اور سرکاری ٹھیکے بھی جاری ہو گئے ہیں ۔البتہ مکمل طور پر اقتصادی ترقی بحال نہیں ہو ئی اور ملک میں مجموعی طور پر غربت اور بے روزگاری میں اضافہ ہوا ہے۔ بنکوں میں ATM کی سہولت ابھی تک بحال نہیں کی جاسکی ہے۔
بیرونی تجارت میں اس وقت سب سے بڑی رکاوٹ بنک کاری کی سہولتوں کی کمی ہے۔ جس سے تاجروں کو بیرونی کرنسی کے کاروباری معاملات میں مشکل درپیش ہے۔سب سے بڑا مسئلہ افغان مرکزی بنک کے بیرونی اثاثہ جات ہیں، جو ۹ ؍ارب ڈالر سے زیادہ ہیں اور جو امریکی بنکوں میں منجمد کردیئے گئے ہیں۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے حال ہی میں اس رقم کو اپنے استعمال میں لانے کا عندیہ دیا ہے ۔اور اس میں سے یک طرفہ اور جبری طور پر نصف رقم ۲۰۰۱ء میں امریکا میں دہشت گردی کے واقعے میںہلاک ہو نے والے امریکی شہریوں کے لواحقین کو دینے کا اعلان کیا ہے۔ یہ ایک بہت بڑی نا انصافی اور سنگین جرم ہے جس کا امریکی حکومت ارتکاب کرنے جارہی ہے۔ اس اعلان سے قبل اقوام متحدہ کے جنرل سیکریٹری اناتیونیو گیوٹریس نے کئی بار امریکی حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ یہ پابندی ختم کر دے اور افغان قوم کی یہ امانت اسے واپس دے ۔
بھارت نے گذشتہ بیس سال میں صدر اشرف غنی اورحامد کرزئی کی حکومتوں کے ساتھ قریبی تعلقات قائم رکھے اور افغانستان میں اپنے مخصوص مفادات کو تحفظ دینے کے لیے بڑے پیمانے پر تعمیراتی اور رفاہی کام کیے، جس کے نتیجے میں افغان عوام میں بالعموم بھارت کے لیے مثبت جذبات پائے جاتے ہیں، جو اس کی سفارتی حکمت عملی کی کامیابی ہے ۔ بھارت نے سفارتی سطح پر رابطوں کے باوجود اب تک طالبان حکومت کو تسلیم نہیںکیا ۔ یہ بڑی عجیب و غریب صورتِ حال ہے کہ ایک ایسی حکومت کو تسلیم نہیں کیا جا رہا، جس نے گذشتہ چار عشروں سے ایک شورش زدہ ملک میں مکمل امن و امان اور مرکزی حکومت کی رٹ قائم کردی ہے، جو اس سے پہلے ظاہر شاہ کی بادشاہت کے بعدکبھی بھی قائم نہیں ہوئی تھی۔ درحقیقت حکومت کو اپنی تمام تر صلاحیتوں اور خوبیوں کے باوجود صرف اس لیے تسلیم نہیں کیا جا رہا کہ وہ اسلامی نظریے اور عقیدے کی بنیاد پر قائم ہے۔
پاکستانی حکومت کے علاوہ تمام سیاسی و دینی جماعتوں ،خدمت خلق کی تنظیموں ،سماجی اداروں اور کاروباری تنظیموں اور شخصیات کو اس نازک موقع پر افغانستان کے عوام کا ساتھ دینا چاہیے۔ افغان عوام ایک عرصے سے پاکستان میں مہاجرین کی حیثیت سے رہتے چلے آ رہے ہیں۔ ان میں سے اب کئی خاندانوں کا دوسرا گھر پاکستان ہی ہے۔ اس طرح ہزاروں پاکستانی بھی افغانستان میں ملازمت یا کاروبار کرتے ہیں ۔پاکستان اور افغانستان کے درمیان صدیوںسے ثقافتی ،مذہبی،قبائلی اور تجارتی روابط ہیں۔ضرورت اس امرکی ہے کہ ان روابط کو مزید مستحکم کیا جائے۔ اس کی ایک بہترین مثال حال ہی میں خیبر میڈیکل یونی ورسٹی، پشاور کا اقدام ہے کہ اس کے وائس چانسلر ڈاکٹر ضیا ء الحق نے افغان حکومت کے محکمۂ تعلیم کے وفد کی آمد کے موقعے پر اعلان کیا کہ وہ کابل میں افغان طلبہ و طالبات کی پیشہ ورانہ تربیت کے لیے میڈیکل اور نرسنگ کالجز پر مشتمل کیمپس قائم کریں گے ۔اس کے علاوہ پاکستان میں میڈیکل اداروں میں زیر تعلیم افغان طلبہ و طالبات کو فیسوں میں رعایت دینے کا بھی وعدہ کیا گیا ہے۔لازماً یہ اقدام اُٹھانے چاہییں کہ پاکستان کے تمام اعلیٰ تعلیمی اداروں میں افغان طلبہ و طالبات کو تعلیمی وظائف پر داخلے دیئے جائیں۔ اسی طرح عسکری اور دیگر تربیتی اداروں میں بھی افغانو ں کو آنے کا موقع دیا جائے۔تجارتی سرگرمیاں بڑے پیمانے پر بحال کی جائیں، اور ہر ممکن طریقے سے پاکستانی اور افغان تاجروں کو آسانیاں فراہم کی جائیں تاکہ افغانستان میں معاشی استحکام پیدا ہوسکے۔ وزارتِ خزانہ کا یہ فیصلہ قابل قدر ہے کہ افغانستان کے ساتھ تجارت میں غیر ملکی کرنسی کے بجائے ملکی کرنسی استعمال کی جائے گی ۔
گذشتہ دنوں پاک افغان سرحد پر باڑھ لگانے کے معاملے پر دو مقامات پر افغان طالبان کی جانب سے مزاحمت کے واقعات سامنے آئے، جس سے تنائو کی کیفیت پیدا ہوئی۔ لیکن طالبان کی مر کزی قیادت نے فراست سے ان واقعات کا بر وقت نوٹس لیتے ہو ئے ذمہ دار افراد کو سزا دی۔ پاک افغان تعلقات میں ایک اور اہم مسئلہ ’تحریک طالبان پاکستان‘ (ٹی ٹی پی)کی جانب سے پاکستان میں تخریب کاری اور دہشت گردی کے واقعات ہیں، جس میں خاص طور پر پاکستانی فوج اور پولیس کے جواانوں کو نشانہ بنایا جار ہا ہے۔ ان واقعات میں اضافہ قابلِ تشویش ہے، جس کی روک تھام کے لیے ’امارت اسلامی افغانستان‘ کے قائدین بالخصوص وزیر داخلہ سراج الدین حقانی اہم کردار ادا کر رہے ہیں ۔ انھی کے ایما پر حکومت پاکستان اور تحریک طالبان پاکستان کے درمیان بالواسطہ مذاکرات کا سلسلہ بھی چلتا رہا اور ایک موقعے پر سیز فائر کا اعلان بھی ہوا ۔لیکن اب تک صلح کی شرائط پر عدم اتفاق کی وجہ سے کو ئی باقاعدہ معاہدہ وجود میں نہیں آسکا ہے۔
پاکستان کے کئی فلاحی اداروں اور مخیر حضرات نے افغانستان کے عوام کی مدد کی ہے، جن میں ’الخدمت فائونڈیشن پاکستان‘ نمایاں ہے، اور اب تک ۲۱کروڑ مالیت کا سامان، جس میں غذائی اجناس ،گرم ملبو سات اور ادویات ٹرکوں کے ذریعے افغانستان بھیجا جا چکا ہے، جب کہ کابل میں یتیموں کی دیکھ بھال کے لیے آغوش مرکز کے قیام کا منصوبہ بھی بنایا گیا ہے۔ الخدمت فائونڈیشن اور اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن (PIMA) کے تین رکنی وفدنے گذشتہ ماہ کابل کا تفصیلی دورہ کیا اور امارت اسلامی کے وزرا سے ملاقاتیں کیں۔الخدمت نے امدادی سامان کی ایک کھیپ افغانستان روانہ کی ہے۔ لیکن یہ کافی نہیں ہے،مزیدامداداورتعاون درکار ہے۔
اشتہارات کی کمی اور دیگر معاشی مسائل کی وجہ سے نشریات بھی متاثر ہو ئی ہیں ۔نائب وزیر نشریات ذبیح اللہ مجاہد اور ان کے ساتھیوں نے بڑی خوبصورتی سے ملکی اور بین الاقوامی صحافیوں سے معاملات کیے ہیں۔ غیر ملکی خواتین صحافی بھی افغانستان میں موجود ہیں اور بین الاقوامی نشریاتی ادارے براہ راست افغانستان کے شہروں اور دیہات سے رپورٹیں نشر کر رہے ہیں ۔پاکستانی صحافی بھی بڑی تعداد میں افغانستان جارہے ہیں، اور عوامی جذبات کے اظہار پر کوئی پابندی نہیں ہے۔
افغانستان ایک خوب صورت ملک ہے۔ اس میںسیاحت کے فروغ کے لیے اچھے مواقع ہیں، لیکن بدقسمتی سے امریکی پابندیوں،بین الاقوامی پروازوں کی بندش اور بنکاری کی سہولیات کی عدم دستیابی کی وجہ سے حالات معمول پرنہیں آ رہے ۔ افغانستان، پاکستان ،ایران اور وسطی ایشیائی ممالک مل کر ایک وسیع و عریض خطۂ ارضی ہے، جو مستقبل میں بڑے انسانی، مالی اور جغرافیائی وسائل کی بنیاد پر دنیا میں ایک اہم سیاسی و نظریاتی کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔
افغانستان میں معاشی بحالی اور امن و امان کا قیام طالبان حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔ طالبان کی قیادت راسخ العقیدہ علما پر مشتمل ہے اور موجودہ دور کے تقاضوں ،عالمی سیاست کی پیچیدگیوں اور اسلام دشمن قوتوں کی سازشوں سے عہدہ برآ ہو ناان کے لیے ایک مشکل اور صبرآزما جدوجہد کا تقاضا کرتا ہے۔
جب ۲۹فروری ۲۰۲۰ء کو دوحہ میں امریکا اورافغان طالبان کےدرمیان معاہدۂ امن پر دستخط کیے گئے، اس تقریب کی خاص بات امریکا کا طالبان کو برابر کی قوت تسلیم کرنا تھا۔ اس معاہدۂ امن میں بعض ناقابلِ فہم تاریخیں دی گئی تھیں، مثلاً ’’۱۰مارچ کو بین الافغان مذاکرات کا آغاز ہوجائے گا اور اس سے پہلے ۵ہزار طالبان قیدی اور ایک ہزار سرکاری قیدی رہا کردیے جائیں گے‘‘۔اسی طرح دیگر تاریخوں میں ۲۹مئی اور ۲۷؍اگست بھی شامل تھیں، جو سب کی سب گزر چکی ہیں۔ طالبان پر سے بین الاقوامی پابندیاں ہٹانے کی تاریخ بھی گزر گئی، مگر یہ تمام مسائل حل نہ ہوئے لیکن ۱۲ستمبر کو بین الافغان مذاکرات کا آغاز ضرور ہوگیا۔ ان مذاکرات کا بنیادی ایجنڈا شورش زدہ افغانستان میں امن کا قیام ہے،جو گذشتہ چارعشروں سے بدامنی کا شکار ہے، اور وہاں کا ہر شہری ہرصبح اس تمنا اور دُعا کے ساتھ بیدار ہوتا ہے کہ اس کے وطن میں امن کا سورج آج طلوع ہوگا۔
بنیادی طور پر مذاکرات میں دو گروہوں کا آمنا سامنا ہے۔ لیکن اگر ان گروہوں کی مذاکراتی ٹیموں کا جائزہ لیا جائے توپوری افغان ملت کی نمایندگی موجود ہے۔ طالبان کے وفد میں کُل ارکان کی تعداد ۲۰ ہے، لیکن کوئی خاتون رکن شامل نہیں، جب کہ افغان حکومت کے وفد میں پانچ خواتین سمیت ارکان کی تعداد بھی ۲۰ ہے۔ حکمت یار کے داماد ڈاکٹر غیرت بہیر کو بھی سرکاری وفد میں شمولیت کی دعوت دی گئی تھی، لیکن انھوں نے معذرت کرلی تھی۔ افغان اعلیٰ امن کمیٹی کے سربراہ ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ نے بھی ۱۲ستمبر کی افتتاحی تقریب میں شرکت کی تھی لیکن وہ خود مذاکراتی وفد میں شامل نہیں۔ افغانستان کی سیاست پر نظر رکھنے والے جانتے ہیں، کہ برسرِ زمین طالبان کےمقابل اصل کرتا دھرتا وہی ہیں۔ صدارتی انتخابات میں شکست کے بعد ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ خودساختہ صدرجمہوریہ بن گئے، لیکن بعد میں امریکی دباؤ پر انھوں نے امن کمیٹی کی صدارت قبول کی، جو ایک اعزازی عہدہ ہے۔ البتہ یہ طے شدہ امر ہے کہ اگر بین الافغان مذاکرات ناکام ہوتے ہیں اور افغان دھڑوں میں جنگ چھڑتی ہے، تو طالبان کا مقابلہ سابقہ شمالی اتحاد کی قوتوں کے ساتھ ہی ہوگا۔
بین الافغان امن مذاکرات کا ایجنڈا تو طالبان امریکا معاہدہ ہی میں طےکردیا گیا تھا۔ دفعہ نمبر۴ میں تحریر ہے: ’’مستقل اور جامع فائربندی‘ بین الافغان مذاکرات اور صلاح کاروں کا ایک بنیادی نکتہ ہوگا۔ شرکا مستقل اور جامع فائربندی کی تاریخ اور طریقۂ کار پر بحث کریں گے، جس میں مشترکہ نظام کے نفاذ کا اعلان اورافغانستان میں مستقبل کا سیاسی نقشۂ کار شامل ہیں‘‘۔ آگے چل کر معاہدے کے تیسرے حصے کی شق نمبر۳ میں بات واضح کی گئی ہے کہ ’’ریاست ہاے متحدہ (امریکا) نئی افغان اسلامی حکومت جو بین الافغان مذاکرات اور تصفیہ کے بعد وجود میں آئے گی، اس کے ساتھ مالی تعاون جاری رکھے گا، اور اس کے اندرونی معاملات میں دخل انداز نہیں ہوگا‘‘۔
لیکن اس شق سے پہلےشق نمبر۲ بھی اہم ہے ، جس میں کہا گیا ہے: ’’ریاست ہاے متحدہ (امریکا) اور امارت اسلامی افغانستان آپس میں مثبت تعلقات قائم کریں گے اورچاہیں گے کہ ریاست ہاے متحدہ اورامارت اسلامی افغانستان باہم معاملات طے کرنے کے بعد بننے والی افغان اسلامی حکومت کے تعلقات اور بین الاقوامی مذاکرات کےنتائج مثبت ہوں گے‘‘۔ یعنی مذاکرات سے پہلے ہی اس کے مثبت نتائج اورنئی افغان حکومت کے قیام کا اعلان ۲۹فروری ہی کو کردیا گیا تھا، تو سوال پیدا ہوتا ہے پھر مذاکرات کس موضوع پر ہورہے ہیں اور مذاکرات کاروں کے ذمے کیا ایجنڈا ہے؟ فائربندی اور نئی حکومت کاڈھانچا کیا ہوگا؟ اگر اس ترتیب کو بدل دیا جائے، تو پہلے بات چیت آیندہ حکومتی ہیئت پر ہی ہوگی۔ اوراس کو طے کرنے کے بعد فائربندی کی نوبت آئے گی۔ ظاہر ہے حکومتی وفد کا مطالبہ تو یہ ہوگا اور ہے کہ پہلے جنگ بندی کردی جائے۔ ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ نے اپنی افتتاحی تقریر میں اسی نکتے پر زوردیا۔ اگرچہ مذاکرات کے تیسرے ہی دن ننگرھار صوبے میں سرکاری فوجی اور طالبان جنگجوؤں کے درمیان لڑائی چھڑگئی، اور اس میں درجنوں انسانی جانوں کا نقصان ہوا۔ پہلے حملے کا الزام دونوں طرف سے لگایا گیا۔
طالبان کی جانب سے مذاکرات کا آغاز مستقبل کے حکومتی نظام کے بارے تجاویز سے کیا گیا۔افغان طالبان کی یہ سوچی سمجھی رائے تھی کہ چونکہ امریکا نےافغانستان پر جارحیت کرکے ان سے حکومت چھینی تھی اورگذشتہ دو عشروں سے امریکی قبضے کے خلاف مزاحمتی جنگ بھی انھوں نے لڑی ہے، اس لیے مذاکرات بھی ان سے کیےجائیں اور حکومت بھی ان کے حوالے کی جائے۔ صدرٹرمپ نے (بادل نخواستہ) بالآخر ان کے ان دونوں مطالبات کو تسلیم کیا۔ ان سے دوسال مذاکرات کرکے ان کے ساتھ تمام معاملات طے کیے، اور اس کو ایک باقاعدہ معاہدے کےتحت دستخط کرکے اپنے آپ کو پابند کیا۔ البتہ دوسرے مطالبے کے لیے بین الافغان مذاکرات کا مرحلہ طے کیا گیا جس سے گزرکرافغانستان میں امارتِ اسلامی قائم ہوجائے گی۔
اس پورے عرصے میں طالبان کے بارے میں یہ سمجھاجاتا تھا کہ وہ ایک سخت گیر، بے لچک اورمتشدد گروہ ہے، جو صرف جنگ کی زبان جانتا ہے، لیکن امریکی نمایندے زلمے خلیل زادے کے ساتھ مذاکرات میں مُلّا عبدالغنی برادر کی سربراہی میں طالبان تحریک کی قیادت نے ثابت کیا، کہ وہ جس طرح جنگی رُموز سے بخوبی آگاہ ہیں اسی طرح سفارتی اُمور بھی جانتے ہیں۔ مخالف فریقوں کے درمیان مذاکرات میں اصل بات دونوں طرف کے مفادات کا تحفظ، اس کا ادراک اور متبادل تجاویز پیش کرنا ہوتا ہے۔ اس فن کا مظاہرہ انھوں نے امریکا کے ساتھ مذاکرات میں بھی کیا اور افغان دھڑوں کے ساتھ گفتگو کے آغاز میں بھی کیا۔ شنید یہ ہے کہ انھوں نے اپنی حکومت بنانے کا مطالبہ نہیں کیا بلکہ یہ کہا کہ امارت اسلامی کی صدارت/امارت ایک غیرجانب دار فرد کے سپرد کی جائے جو دونوں فریقوں کو قابلِ قبول ہو۔ البتہ ان کا دوسرا مطالبہ یہ ہے کہ وزارتِ دفاع سمیت پانچ اہم وزارتیں ان کے سپرد کی جائیں۔ بہرکیف طالبان آیند ہ حکومت میں اپنی مضبوط پوزیشن دیکھنا چاہتے ہیں اور یہ ان کا حق ہے۔
طالبان کے مدِمقابل ڈاکٹر اشرف غنی افغانستان میں قوم پرست پختونوں، سیکولر عناصر اور سابقہ کمیونسٹوں کی نمایندگی کرتے ہیں۔ ان کی صدارت کا دوسرادور گزر رہا ہے۔ ایک ماہر معیشت کی حیثیت سے انھوں نے افغان عوام سے جو وعدے کیے تھے، وہ پورے نہیں ہوئے۔ اگر وہ تاریخ میں اپنا نام اچھے الفاظ سے یاد رکھناچاہتے ہیں تو انھیں اس موقع کو ضائع نہیں کرنا چاہیے۔
افغان طالبان کے مُلّا عبدالغنی برادر کو بھی مذاکرات کو کامیاب بنانے کا چیلنج درپیش ہے۔ پوری افغان قوم اس کامیابی کے لیے دعاگو اور پُراُمید ہے۔ اس موقع پرجنوبی افریقہ کے رہنما نیلسن منڈیلا کی مثال پیش نظر رہے۔انھوں نےجب ۲۷سالہ قید سے رہائی کے بعد ملک میں افریقن نیشنل کانگریس کی حکومت قائم کی تو مقامی لوگوں میں سفیدفام اقلیت کے خلاف نفرت اپنے عروج پر تھی اور انتقام کا جذبہ عام تھا۔لیکن نیلسن منڈیلا نے اعلان کیا کہ ہمیں اپنے وطن کو آباد کرنا ہے، اور اس کے لیے ہمیں سفیدفام لوگوں کی اتنی ہی ضرورت ہے جتنی مقامی لوگوں کی۔ یوں انھوں نے تمام مظالم کو بھلاکر ایک ترقی یافتہ ملک کی بنیاد رکھی۔ مُلّا عبدالغنی برادرنے خودمختاراور مضبوط اسلامی ملک بنانے کا ارادہ ظاہر کیا ہے، اور پوری دنیا کےمسلمان اس ارادے کی تکمیل میں ان کے لیے دعاگو ہیں۔ مذاکرات کا یہ عمل طویل ،صبرآزما اور پیچیدہ ہوسکتا ہے۔ طالبان کو اس میں قدرے بہتر حیثیت حاصل ہے اور وہ پُراعتماد بھی ہیں۔
افغان جہادکے دنوں میں ایک میڈیکل ڈاکٹر کی حیثیت سے ۱۹۸۳ء تا ۱۹۹۲ء کئی بار افغانستان جانا ہوا۔ روسی بمباری سے افغانستان کا دیہی علاقہ مکمل طور پر برباد ہوچکا تھا۔ ان علاقوں سے اکثریت پاکستان ہجرت کر گئی تھی۔ پھر جب افغان مجاہدین نے حکومت قائم کرنے کی ناکام کوشش کی، تو بڑے شہروں کابل،جلال آباد،گردیز،چغہ سرائے وغیرہ جانا ہوا، جہاں تباہی کے مناظر عام تھے۔ شاہراہیں ،پُل، باغات، عمارات زمیں بوس ہوتی گئیں اور غربت و افلاس میں مزید اضافہ مشاہدہ میں آتا رہا۔ ۱۹۹۴ء سے طالبان کی آمد کے ساتھ امن آیا، لیکن کچھ ہی عرصے بعد امریکی قیادت میں ناٹو افواج نے رہی سہی کسر نکال دی۔ ہرافغان کے دل کی آواز ہے کہ غیر ملکی مداخلت یقینا ختم ہو نی چاہیے، اس کے بغیر ملک میں امن قائم نہیں ہو سکتا۔
ماضی کی طویل خانہ جنگی کے بعد اگر پھر نئی خانہ جنگی ہوئی تو یہ ایک بڑاالمیہ ہوگا۔ یہی سوال تمام افغانوں اور ان کے بہی خواہوں کو پریشان کیے ہوئے ہے۔ اسی لیے جب ۲۹ فروری ۲۰۲۰ء کو ایک طویل انتظار کے بعد قطر میں ایک تاریخی امن معاہدہ طے پایا، تو اس پر افغان عوام نے کوئی پُرجوش استقبال نہیں کیا، حالانکہ سب کی خواہش تھی کہ طالبان اور امریکا کے درمیان امن مذاکرات کامیابی سےہم کنار ہوں۔افغانستان میںمنعقد ہونے والے گذشتہ تمام صدارتی انتخابات کے تمام امیدواروں نے عوام سے یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ ملک میںامن قائم کرنے کے لیے طالبان سے مذاکرات کریں گے۔حامد کرزئی اور اشرف غنی اس وعدے کی بنیاد پر انتخابی مہم چلاتے رہے کہ ’’ہمارا اصل کام امن کا قیام ہوگا۔ ہم طالبان سے اپیل کرتے تھے کہ وہ مذاکرات کریں‘‘۔ لیکن طالبان کا موقف یہ تھا کہ ۲۰۰۱ء میں جب امریکی افواج نے افغانستان پر نائن الیون کے واقعے کو بنیاد بناکر دھاوا بولا، تو اس وقت افغانستان میں مُلّا عمر کی قیادت میں امارت اسلامی قائم تھی، جس کو ختم کرکے ایک کٹھ پتلی حکومت قائم کی گئی۔چونکہ گذشتہ دوعشروں میں طالبان کی امارت اسلامی، غیر ملکی قبضے کے خلاف مزاحمت کا کردار ادا کرتی رہی ہے۔اس لیے جب بھی قابض فوج افغانستان چھوڑے تو اسے ہم سے بات کر کے معاملات طے کرنا ہوں گے۔ آخرکار امریکی صدربارک اوباما نے ۲۰۰۸ء میں افغانستان سے فوجی انخلا اور طالبان سے مذاکرات کا اصولی فیصلہ کیا۔لیکن انھیں فیصلے پر عمل درآمد میں متعدد اندرونی مزاحمتوں کا سامنا رہا۔ پھر صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے صدارتی انتخابات جیتنے کے بعد انخلا کی حکمت عملی پر کام شروع کیا۔ امریکی افواج اور اتحادیوں کے تحفظ اور واپسی کے لیے طالبان سے مذاکرات کی کڑوی گولی نگلنے کی کوشش کی۔
بالآخر ’امارت اسلامی افغانستان‘ کے نمایندے مُلّا عبدالغنی برادر اور ’ریاست ہاے متحدہ امریکا‘ کے نمایندے کے زلمے خلیل زادے نے ایک امن معاہدے پر دستخط کردیے۔ اس موقعے پر دونوں فریقوں نے معاہدے کے لیے پاکستان کے کردار اور مصالحانہ کوششوں کی تعریف کی ۔ اس معاہدے پر مختصر بات کرنے سے پہلے متن کا مطالعہ مفید ہوگا، یہ معاہدہ ۱۲سال کے طویل ترین بحث و مباحثے کے بعد حتمی شکل میں سامنے آیا ہے، اور بہ یک وقت انگریزی، پشتو، دری، [فارسی] میں جاری کیا ہے۔
’’معاہدہ براے بحالی امن افغانستان، مابین امارت اسلامی افغانستان، جس کو ریاست متحدہ [امریکا] ایک مملکت کے طور پر تسلیم نہیں کرتی اور طالبان کے نام سے جانے جاتے ہیں، اور ریاست متحدہ ۲۹ فروری ۲۰۲۰ء بمطابق ۵ رجب ۱۴۴۱ہجری قمری کیلنڈر اور۱۰ حوت ۱۳۹۸ ہجری شمسی کیلنڈر‘‘ یہ ایک جامع امن معاہدہ کیا ہے، جس کے چار حصے ہیں :
۱- ضمانتوںاور عمل درآمد کا نظام، جس سے سرزمین افغانستان کو کسی گروہ اور فرد کو ریاست متحدہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف استعمال سے روکا جائے گا ۔
۲۔ ضمانتوں اور عمل درآمد کے نظام الاوقات کے تحت افغانستان سے تمام غیر ملکی افواج کے انخلا کا اعلان۔
۳- ضمانتوںاور غیر ملکی افواج کے انخلا کے نظام الاوقات کا اعلان، بین الاقوامی گواہوں کی موجودگی میںکہ سرزمین افغانستان ریاست متحدہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف استعمال نہ ہو اور امارت اسلامی افغانستان جس کو ریاست متحدایک مملکت کے طور پر تسلیم نہیں کرتی اور طالبان کے نام سے جانے جاتے ہیں، بین الافغان مذاکرات افغان گروہوں کے ساتھ ۱۰مارچ ۲۰۲۰ء شروع کرے گا، بمطابق ۱۵ رجب ۱۴۴۱ ہجری قمری کیلنڈر اور ۲۰حوت ۱۳۹۸ ہجری شمسی کیلنڈر۔
۴- مستقل اور جامع فائر بندی بین الافغان مذاکرات اور صلاح مشوروں کا مرکزی نکتہ ہو گا، جس میں مشترکہ نظام نفاذ کا اعلان اور افغانستان میں مستقبل کا سیاسی نقشۂ کار شامل ہیں ۔
یہ چاروں حصے مربوط ہیں اور عمل درآمد متفقہ نظام الاوقات اور متفقہ شرائط پر ہو گا:
___ درج ذیل میں معاہدے کے پہلے اور دوسرے حصے کے نفاذ کا متن ہے:
دونوں فریقوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ان دونوں حصوں کے نفاذ کا انحصار ایک دوسرے پر ہے۔ امارت اسلامی افغانستان جس کو ریاست متحدہ ایک مملکت کے طور پر تسلیم نہیں کرتی اور طالبان کے نام سے جانے جاتے ہیں، کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے زیر اثر علاقوں میں ان پر عمل کرائے اور جب تک افغانستان میں بین الافغان مذاکرات کے ایک نئی عبوری افغان اسلامی حکومت قائم نہیں ہو جاتی۔
ریاست متحدہ افغانستان سے تمام امریکی و اتحادی فوجی قوت بشمول تمام غیرسفارتی سول افراد،نجی سیکورٹی،ٹھیکے دار،تربیتی عملہ،مشیر اور دیگر معاون عملے کا انخلا ۱۴ ماہ میں یقینی بنائے گی، جس کا اعلان اس معاہدے میں کیا گیا ہے۔اور اس سلسلے میں درج ذیل اقدامات اٹھائیں گے:
(الف) ریاست متحدہ اور اس کے اتحادی پہلے ۱۳۵ دنوں میں یہ اقدامات کریں گے:
۱- (امریکا) اپنے فوجیوں کی تعدادکو گھٹا کر(۸,۶۰۰) تک لائے گا اور اسی تناسب سے اتحادی فوجوں کی تعداد بھی کم کی جائے گی۔
۲- ریاست متحدہ اور اس کے اتحادی (۵) فوجی اڈوں سے مکمل انخلا کریں گے۔
(ب) امارت اسلامی افغانستان جس کو ریاست متحدہ ایک ریاست کے طور پر تسلیم نہیں کرتی اور طالبان کے نام سے جانے جاتے ہیں، کے عملی اقدامات اور معاہدے کی پابندی کو دیکھتے ہوئے ریاست متحدہ اور اس کے اتحادی درج ذیل کام کریں گے:
۱- ریاست متحدہ اور اس کے اتحادی ساڑھے ۹ ماہ میں افغانستان سے بقیہ انخلا مکمل کریں گے۔
۲ - اسی طرح ریاست متحدہ اور اس کے اتحادی، تمام بقیہ فوجی اڈوں سے انخلا مکمل کریں گے۔
(ج)ریاست متحدہ پابند ہے کہ وہ فوری طور پر تمام دیگر متعلقہ فریقوں کے ساتھ ایک منصوبے پر کام کرے، تاکہ جلد ازجلد جنگی اور سیاسی قیدیوں کی رہا ئی عمل میں لائی جا سکے، جس میں تعاون اور منظوری تمام متعلقہ فریق دیں گے۔ امارت اسلامی افغانستان جس کو ریاست متحدہ ایک ریاست کے طور پر تسلیم نہیں کرتی اور طالبان کے نام سے جانے جاتے ہیں، کے ۵ ہزار تک کے قیدیوں کو رہا کیا جائے گا، جب کہ دوسرے فریق کے ۱۰۰۰ (ایک ہزار) قیدیوں کی رہائی ۱۰مارچ ۲۰۲۰ء تک عمل میں آئے گی۔جو بین الافغان مذاکرات کا پہلا دن ہوگا۔ بمطابق ۱۵رجب ۱۴۴۱ ہجری قمری کینڈر اور ۲۰ حوت ۱۳۹۸ ہجری شمسی کیلنڈر۔متعلقہ فریقین کا یہ عزم ہے کہ آیندہ ۳ ماہ میں تمام قیدیوں کو رہا کر دیا جائے گا۔
ریاست متحدہ اس عمل کو مکمل کرنے کی پابند ہے ۔امارت اسلامی افغانستان جس کو ریاست متحدہ ایک ریاست کے طور پر تسلیم نہیں کرتی اور طالبان کے نام سے جانے جاتے ہیں، اس امر کے پابند ہیں کہ رہا شدہ قیدی اس معاہدے پر عمل کرنے کے پابند ہوں گے اور وہ ریاست متحدہ اور اس کے اتحادیوں کے لیے کو ئی خطرہ نہیں بنیں گے۔
(د)بین الافغان مذاکرات کے آغاز پر ریاست متحدہ، امارت اسلامی افغانستان جس کو ریاست متحدہ ایک ریاست کے طور پر تسلیم نہیں کرتی اور طالبان کے نام سے جانے جاتے ہیں، اس کے ارکان کے خلاف سروں پر مقرر کیے جانے والے انعامات کی فہرست کو ختم کرنے اور دیگر پابندیوں کو ختم کرنے کے لیے ۲۷ ؍اگست۲۰۲۰ء کا ہدف رکھا گیا ہے،بمطابق ۸محرم ۱۴۴۲ ہجری قمری کیلنڈر اور ۶سنبلہ ۱۳۹۹ ہجری شمسی کیلنڈر ۔
(ح)بین الافغان مذاکرات کے آغاز پر ریاست متحدہ، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے دیگر ارکان کے ساتھ مل کر ایسے سفارتی اقدامات کرے گی، جس سے امارت اسلامی افغانستان جس کو ریاست متحدہ ایک ریاست کے طور پر تسلیم نہیں کرتی اور طالبان کے نام سے جانے جاتے ہیں، کے ارکان کے نام پابندیوں کی فہرست سے نکالے جاسکیں، اس ارادے کے ساتھ کہ یہ ہدف ۲۹مئی ۲۰۲۰ء تک حاصل ہو جائے،بمطابق ۶ شوال ۱۴۴۱ ہجری قمری کیلنڈر اور ۹ جوزہ ۱۳۹۹ ہجری شمسی کیلنڈر۔
(و) ریاست متحدہ اور اس کے اتحادی، کو ئی بھی ایسی دھمکی یا طاقت کا استعمال نہیں کریں گے، جس سے افغانستان کی سیاسی آزادی اور جغرافیائی سالمیت متاثر ہو تی ہو اور نہ اس کے داخلی معاملات میں مداخلت کریں گے۔
اس معاہدے کے اعلان کے ساتھ ہی امارت اسلامی افغانستان جس کو ریاست متحدہ ایک مملکت کے طور پر تسلیم نہیں کرتی اور طالبان کے نام سے جانے جاتے ہیں، درج ذیل اقدامات اٹھائے گی، تاکہ کسی بھی گروہ یا فرد بشمول القاعدہ کو روکے گی، جوافغانستان سرزمین کو ریاست متحدہ اور اس کے اتحادیوں کی سلامتی کے لیے خطرہ کا باعث ہو۔
۱- امارت اسلامی افغانستان جس کو ریاست متحدہ ایک مملکت کے طور پر تسلیم نہیں کرتی اور طالبان کے نام سے جانے جاتے ہیں، اپنے ارکان اور دیگر افراد اور گروہوں بشمول القاعدہ کو اجازت نہیں دیں گے کہ وہ افغان سرزمین کو ریاست متحدہ یا اس کےاتحادیوں کی سلامتی کے خلاف استعمال کرسکے۔
۲- امارت اسلامی افغانستان جس کو ریاست متحدہ ایک مملکت کے طور پر تسلیم نہیں کرتی اور طالبان کے نام سے جانے جاتے ہیں، ان عناصر کو ایک واضح پیغام دے گی جو ریاست متحدہ اور اس کے اتحادیوں کی سلامتی کے لیے ایک خطرہ ہیں کہ ان کے لیے افغانستان میں کو ئی جگہ نہیں ہے، اور امارت اسلامی افغانستان جس کو ریاست متحدہ ایک مملکت کے طور پر تسلیم نہیں کرتی اور طالبان کے نام سے جانے جاتے ہیں، کے ارکان کو ہدایت کرے گی کہ وہ کسی ایسے گروہ یا افراد سے تعاون نہ کریں، جو ریاست متحدہ اور اس کے اتحادیوں کی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں۔
۳- امارت اسلامی افغانستان جس کو ریاست متحدہ ایک مملکت کے طور پر تسلیم نہیں کرتی اور طالبان کے نام سے جانے جاتے ہیں، بھی ایسے گروہ یا افراد کو روکے گی، جو ریاست متحدہ اور اس کے اتحادیوں کے سلامتی کے لیے خطرہ ہو، نیز ایسے افراد کو بھرتی،تربیت اور چندہ جمع کرنے سے بھی معاہدے کے قواعد کے مطابق روکے گی۔
۴- امارت اسلامی افغانستان جس کو ریاست متحدہ ایک مملکت کے طور پر تسلیم نہیں کرتی اور طالبان کے نام سے جانے جاتے ہیں، اس امر کے پابند ہوں گے کہ جو لوگ افغانستان میں پناہ اور رہایش کے خواہش مند ہوں گے، بین الاقوامی مائیگریشن قوانین کے مطابق اور اس معاہدے کے مطابق ایسے افراد ریاست متحدہ اور اس کے اتحادیوں کی سلامتی کے خلاف خطرہ نہ بنیں گے۔
۵- امارت اسلامی افغانستان جس کو ریاست متحدہ ایک مملکت کے طور پر تسلیم نہیں کرتی اور طالبان کے نام سے جانے جاتے ہیں، کسی کو بھی ویزہ ،پاسپورٹ ،سفری پرمٹ یا دیگر قانونی دستاویزات فراہم نہیں کرے گا، جو ریاست متحدہ یا اس کے اتحادیوں کے لیے خطرے کا باعث بنے۔
۱- ریاست متحدہ اس معاہدے کی توثیق کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے رجوع کر ے گی۔
۲- ریاست متحدہ ، امارت اسلامی افغانستان جس کو ریاست متحدہ ،ایک ریاست کے طور پر تسلیم نہیں کرتی اور طالبان کے نام سے جانے جاتے ہیں، آپس میں مثبت تعلقات قائم کریں گے اور چاہیں گے کہ معاملات طے پانے کے بعد بننے والی افغان اسلامی حکومت کے تعلقات اور بین الافغان مذاکرات کے نتائج مثبت ہوںگے۔
۳- ریاست متحدہ نئی افغان اسلامی حکومت جو بین الافغان مذاکرات اور تصفیہ کے بعد وجود میں آئے گی، کے ساتھ مالی تعاون جاری رکھے گا اور اس کے اندرونی معاملات میں دخل انداز نہیں ہو گا۔
اس معاہدے پر دوحہ قطر میں دستخط کیے گئے۔۲۹ فروری ۲۰۲۰ء بمطابق ۵ رجب ۱۴۴۱ہجری قمری کیلنڈر اور۱۰ حوت ۱۳۹۸ ہجری شمسی کیلنڈر، پشتو ، دری اور انگریزی زبانوں میں بیک وقت جس کا ہر ایک متن مصدقہ ہے۔
اس معاہدے کے متن میں ۱۶ مرتبہ ایک ہی جملہ لکھا گیا ہے:’’امارت اسلامی افغانستان جس کو ریاست متحدہ ایک مملکت کے طور پر تسلیم نہیں کرتی اور طالبان کے نام سے جانے جاتے ہیںــ‘‘۔ یاد رہے ۲۰۰۱ء میںجب امریکا، افغانستان پر قابض ہوا تو یہاں اسلامی امارت قائم تھی، جس کو زبردستی ہٹایا گیا اور اب جب آپ اپنی غلطی تسلیم کرتے ہیں تو آپ کو اس امارت اسلامی کو تسلیم کرنا پڑے گا۔چنانچہ درمیانی راستہ یہ نکالا کہ ’امارت اسلامی‘ کی اصطلاح کو تو مان لیا گیا، لیکن اس کے ساتھ امریکی مذاکرات کاروں نے یہ اضافہ کیا ’’ جس کو امریکا ایک ریاست یا مملکت کے طور پر تسلیم نہیں کرتی‘‘۔طالبان کے لیے تو یہ امر باعث اطمینان رہا کہ ان کو برابر کے فریق کے طور پر تسلیم کرلیا گیا، جو مسلّمہ بین الاقوامی روایات کے عین مطابق ہے، کہ قابض غیر ملکی فوج اپنی شکست تسلیم کرکے جب انخلا کرتی ہے، تو وہ مزاحمت کاروں سے اسی طرح کا معاہدہ کرتی ہے۔ اگر پوری طرح تسلیم نہیں کیا جاتا تو متن کی بعض دفعات سے اشارہ ملتا ہے، خاص طورپر جب امارت اسلامی سے مطالبہ ہو تا ہے کہ وہ کسی ایسے شخص کو ویزہ یا پاسپورٹ نہیں دیں گے، جو امریکا کے لیے خطرہ بنے۔ اس طرح معاہدے میں جارح طاقت کی حیثیت سے امریکا نے نہ اپنی غلطی تسلیم کی اور نہ افغان قوم سے ان مظالم اور قتل عام پر معافی مانگی، جو گذشتہ ۱۹سال میں امریکی اور اس کے اتحادی افواج کی جارحیت کے نتیجے میں وقوع پذیر ہوئے۔
اس معاہدے کے شروع میں ضمانتوں کا ذکر ہے، لیکن آگے اس کی تفصیل نہیں دی گئی۔ جس سے یہ امکان ہے کہ معاہدے کے علاوہ بھی کوئی خفیہ دستاویز بنائی گئی ہے ۔معاہدے میں بین الافغان مذاکرات کے آغاز اور دونوں طرف سے قیدیوں کو رہا کرنے کے لیے ۱۰ مارچ کی تاریخ دی گئی تھی، جو خاموشی سے گزر چکی ہے،جب کہ امریکی پابندیوں کے خاتمے کے لیے ۲۹مئی اور اقوام متحدہ کی پابندیوں کے لیے۲۷ ؍اگست مقرر کی گئی ہے، جو الٹی ترتیب ہے۔ بین الافغان مذاکرات کے انعقادکی ذمہ داری اگرچہ امریکی حکومت نے قبول کی ہے، البتہ اس کو کا میابی سے ہم کنار کرنے میں یقینا طالبان کلیدی اہمیت کے حامل ہیں۔ طالبان کے موجودہ سربراہ مُلّا ہیبت اللہ ہیں جو روپوش ہیں، انھوں نے کامیابی سے تحریک طالبان کی رہنمائی کی ہے اور اپنی صفوں میں اتحاد قائم رکھا ہے۔
مستقبل کے امکانات: افغانستان کا کُل رقبہ ۶۵۲۲۳۷ مربع کلو میٹر ہے۔محتاط اندازوں کے مطابق تقریباً ۵۰فی صد علاقہ طالبان کے زیر کنٹرول ہے۔ ان کے انتظامی ادارے اور عدالتیں کام کر رہی ہیں۔ باقی علاقوں میں بھی ان کے اثرات محسوس کیے جا سکتے ہیں۔جنگی صلاحیت میں ان کی سب سے بڑی کمزوری فضائی قوت کا نہ ہونا ہے۔طالبان کا دوسرا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ان کی اکثریت کا تعلق پختون آبادی ہی سے ہے۔ افغانستان ایک کثیر القومی وطن ہے، جس میں ۴۵ فی صد پختون،۲۰ فی صد تاجک، ۲۰ فی ہزارہ، ۹ فی صد ازبک، ترکمان اور ۳ فی صد دیگر قومیتیں ہیں۔
افغانستان میں طالبان کے بعد دوسرا بڑا فریق سابقہ شمالی اتحاد ہے، اور کم از کم چارصوبوں پر ان کا قبضہ ہے۔آج کل ان کی قیادت ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کے پاس ہے۔ صدارتی انتخابات ۲۰۱۵ء کے پہلے مرحلے میں انھوں نے ۴۵ فی صد ووٹ لے کر ڈاکٹر اشرف غنی کو شکست دےدی تھی، لیکن دوسرے مرحلے میں، ڈاکٹر اشرف غنی، طالبان کی درپردہ حمایت سے مکمل پختون آبادی کے ووٹ لے کر کامیاب قرار پائے۔ بعد میں عبداللہ عبداللہ حکومت میں چیف ایگزیکٹیو کی حیثیت سے، امریکی ایما پر شامل ہو گئے تھے۔ ۲۰۱۹ء کے انتخابات میں انھوں نے پختون ووٹ بھی حاصل کیے تھے۔ کُل۲۷ لاکھ ووٹ ڈالے گئے، اس میں سے ۹ لاکھ ووٹ انھوں نے حاصل کیے، جب کہ ۱۰ لاکھ ووٹ جو ضائع کیے گئے، ان میں بھی اکثریت ان کے ووٹوں کی تھی۔ اب انھوں نے اشرف غنی کے مقابلے میں صدر جمہوریہ بننے کا اعلان کردیا ہے اور ۶ صوبوں میں اپنے گورنر بھی مقرر کر دیے ہیں۔صدر اشرف غنی کی مخالفت میں ان کو ایک اہم شخصیت ازبک رہنما رشید دوستم کی بھی حمایت حاصل ہے، جو دشت لیلیٰ میں ہزاروں طالبان قیدیوں کےسفاکانہ قتل میں ملوث تھے، اور ایک مؤثر قوت رکھتے ہیں اور اسلحے کا بھی بڑا ذخیرہ رکھتے ہیں۔
تیسرا اہم گروہ ہزارہ شیعہ قبیلہ ہے، جو افغانستان کے ایک مرکزی صوبے بامیان پہ قابض ہے۔گذشتہ دنوں کابل میں ان کے سابق رہنما عبدالکریم خلیلی کی برسی کے موقعے پر ایک بڑے اجتماع پر حملہ ہوا تھا، جس میں ۵۰ سے زائد شرکا جاں بحق ہو ئے تھے۔ اس حملے کی ذمہ داری داعش نے قبول کی تھی۔ ہزارہ قبیلہ بھی طالبان کے مقابلے میں شمالی اتحاد کا ساتھ دے گا۔
چوتھا اہم گروپ گل بدین حکمت یار اور حزب اسلامی پر مشتمل ہے۔ گذشتہ صدارتی انتخابات میں وہ تیسرے نمبر پر رہے۔ ملک کے طول و عرض میں انھوں نے مؤثر انتخابی مہم چلائی۔ روسی جارحیت کے دوران افغان جہاد میں یہ مجاہدین کا سب سے بڑا گروپ تھا، لیکن بعد میں شمالی اتحاد سے جنگ کے دوران اور پھر طالبان کی آمد سے ان کی پوزیشن کمزور ہو تی گئی۔گذشتہ سال انھوں نے اشرف غنی حکومت کے ساتھ صلح کا معاہدہ کر لیااور انتخابی عمل میں بھی حصہ لیا۔ حزب اسلامی ایک نظریاتی حیثیت سے اہمیت رکھتی ہے اور قومی ایشو ز پر اپنی آزاد راے کا اظہار بھی کرتی ہے۔
۲۰۰۵ء میں حامد کر زئی نے اپنے دورِ صدارت کے آخری زمانے میں امریکا کےساتھ ایک دفاعی معاہدے پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا تھا، جس میں امریکی افواج کو پانچ مستقل اڈے دینے کی بات کی گئی تھی۔تاہم، بعد میں آنے والے صدر اشرف غنی نے اپنے دور کے آغاز میں ہی امریکی دباؤ پر دستخط کر دیے تھے۔
صدر اشرف غنی کی قیادت میں افغان حکومت اس معاہدے کی تیسری اہم فریق ہے، جو مذاکرات سے باہر رکھی گئی۔ لیکن معاہدے کے نفاذ میں ان کا اہم کردار ہے۔ملک کے بڑے شہروں پر ان کا اقتدار قائم ہے۔ تین لاکھ افغان فوج اور ایک لاکھ کی تعداد میں افغان پولیس ان کی حکم کے تابع ہے۔ وہ خود تو ایک ماہر معیشت اور علمی شخصیت ہیں اور پختون قبیلے احمد زئی سے تعلق رکھتے ہیں، لیکن کوئی جنگی پس منظر نہیں رکھتے۔ حالیہ انتخابات نے ان کو خاصا کمزور کر دیا ہے۔ انھوں نے اس بار صرف ۹ لاکھ ووٹ حاصل کیے، جب کہ کل ووٹرز کی تعداد ۹۶لاکھ ہے۔ ۱۸ ستمبر ۲۰۱۹ء کو ہونے والے صدارتی انتخاب کا نتیجہ ۵ ماہ بعد مشتہر کیا گیا اور اس طرح ان کو ۵۰ فی صد ووٹ دے کر پہلے مرحلے میں کامیاب قرار دیا گیا۔ انھوں نے ۹ مارچ۲۰۲۰ء کو جب صدارتی محل میں صدر جمہوریہ کا حلف اٹھایا، تو اس وقت صدارتی محل ہی کے قریبی بلاک میں ان کے مقابل امیدوار عبدا للہ عبد اللہ نے بھی صدارتی حلف اٹھایا۔ اشرف غنی کے ایک اور حلیف اور ان کے ساتھ پہلے صدارتی دور میں نائب صدر عبد الرشید دوستم بھی ان سے قریب ہی رہایش پذیر ہیں۔ ان کے مسلح گارڈ برسرِعام اپنی قوت کا اظہار کرتے ہو ئے نظر آتے ہیں۔ان حالات میں آنے والے بین الافغان مذاکرات میں اشرف غنی ایک کمزور پوزیشن میں نظر آرہے ہیں۔ ڈاکٹر عبدا للہ عبداللہ گروپ نے مذاکرات میں اس طرح شرکت کا عندیہ دیا ہے کہ ان کا نمایندہ وفد شریک ہوگا، لیکن وہ اشرف غنی کے سرکاری وفد کا حصہ نہیں ہوں گے۔
اشرف غنی نے طالبان قیدیوں کی رہائی میں تاخیر کا حربہ استعمال کرکے پورے معاہدے کو کمزو ر کر دیا۔ معاہدے کے مطابق ۱۰ مارچ ۲۰۲۰ء کو دونوں طرف سے قیدیوں کی رہائی کا عمل شروع ہونا تھا اور بین الافغان مذاکرات کا نکتہ آغاز تھا،لیکن یہ دونوں کام مؤخر ہو گئے۔
’قطر امن معاہدے‘ کو کامیاب بنانے میں حکومت پاکستان بہت اہم کردار رہا ہے۔جس کا اعتراف معاہدے کی تقریب میں ہی عالمی میڈیا کے سامنے دونوںفریقوں کے نمایندوں نے کیا تھا۔ اس اعترافِ حقیقت کا نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان کی مخالف لابیاں ہر جگہ اس کا توڑ کرنے کے لیے متحرک ہو گئیں ۔ بھارتی میڈیا نے تو اس کے خلاف بولنا ہی تھا کہ بھارت کے پاکستان دشمن مفادات افغانستان میں جنگی صورتِ حال کے برقرار رہنے سے جڑے ہو ئے ہیں۔لیکن امریکا میں موجود بھارت نواز اور پاکستان دشمن صحافتی اور بااثر حلقوں نے بھی اس تخریب پسندانہ کام میں اپنا حصہ ڈالا۔ ایک عرصے سے تمام بڑے امریکی دانش وَر،جنگی ماہرین اور تھنک ٹینک محسوس کر رہے تھے کہ امریکا کسی طریقے سے افغانستان کی اس نام نہاد ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ سے نکل آئے۔ اسی طرح دُوراندیش حلقے سمجھتے ہیں کہ ’داعش‘ کے لیے بھی پُرامن اور طالبان کا افغانستان قابلِ قبول نہیں ہوگا۔پاکستان میں تنگ نظر قوم پرست عناصر بھی اس کھیل میں بھارت کے وکیل صفائی بلکہ ہراوّل دستے کا کردار ادا کرتے نظر آتے ہیں ۔
مراد یہ ہے کہ موجودہ حالات میں معمولی سی غلطی بھی افغانستان کو ایک بار پھر ہولناک تصادم کی طرف دھکیل سکتی ہے۔ ہم افغان قوم اور اس کی قیادتوں سے ہوش مندی اور وسیع النظر فیصلوں کی توقع رکھتے ہیں۔
ایک طرف ۲۳ ستمبر ۲۰۱۶ء کو افغان حکومت اور حزب اسلامی کے درمیان طے پانے والے معاہدے پر عمل درآمد کا آغاز ہوا، تو دوسری طرف پاکستان میں فروری کے دوران پانچ دن میں دہشت گردی کے آٹھ واقعات نے غم و اندوہ کی فضا طاری کردی۔ یوں افغانستان سے آنے والے دہشت گردوں کی نشان دہی سے پاک افغان تعلقات میں ایک بار پھر کشیدگی پید اہوگئی۔ چوں کہ حزبِ اسلامی (حکمت یار) اور کابل حکومت کے درمیان امن معاہد ہ ایک مثبت پیش رفت ہے، جس کی تمام امن پسند قوتوں اور پاکستان اور افغانستان کے بہی خواہوں نے تعریف کی ہے۔ اس لیے بجاطور پر یہ اُمید ہوچلی تھی کہ شاید اسی طرح افغانستان کے ایک اہم اور بنیادی فریق افغان طالبان کے ساتھ بھی مثبت مذاکرات کا سلسلہ شروع ہو سکے گا۔ لیکن عین اسی وقت پاکستان میں خوں ریزی کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوگیا، جس کے بارے میں یقینی شواہد موجود ہیں کہ اس کو افغانستان میں موجود ’پاکستانی طالبان‘ کی قیادت کنٹرول کر رہی ہے۔ غالباً یہ پہلی بار ہوا ہے کہ پاکستانی فوج نے افغانستان کے صوبے کنڑ میں مخصوص ٹھکانوں پر گولہ باری کی ہے، جس سے ایک بار پھر سرحدوں پر جنگی صورت حال پیدا ہوگئی ہے۔
اس افسوس ناک فضا میں مثبت خبر یہ ہے کہ گذشتہ سال افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی کی قیادت میں افغان حکومت اور گلبدین حکمت یار کی قیادت میں حزب اسلامی افغانستان کے درمیان طے پانے والے معاہدے پر عمل د رآمد شروع ہو گیا ہے اور ایک بڑی پیش رفت کے طور پر حکمت یار اور ان کی پارٹی کا نام اقوام متحدہ کی جانب سے جاری کردہ بلیک لسٹ سے نکال دیا گیا۔
چھے سال کے طویل مذاکراتی عمل کے بعد طے پانے والا یہ معاہدہ ۲۵نکات پر مشتمل ہے۔ مبصرین اس امن معاہدے کو افغان حکومت کی ایک بڑی کامیابی قرار دے رہے ہیں۔ افغانستان کئی عشروں سے جنگ کا شکار ہے۔ ۱۹۷۳ء میں ظاہر شاہ کی بادشاہت کے خاتمے اور سردار دائود کی حکومت کے برسرِاقتدار آنے کے بعد سے افغانستان میں جنگ و جِدل کا دور شروع ہوا ۔ ۱۹۷۸ء کے اوائل میں کمیونسٹوں کی باہمی جنگ ِ اقتدار نے افغانستان کو خونیں دلدل میں پھنسا دیا۔ تب اشتراکی روسی وزیر خارجہ نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اعلان کیا تھا کہ: ’’کمیونسٹ نظام افغانستان کے لیے ناگزیر ہے کوئی اس کو نہیں بدل سکتا‘‘۔ لیکن پھر دنیا نے ان کمیونسٹ افواج کی رخصتی کا منظر بھی دیکھا۔ افغان مجاہدین کی قربانیوں سے کمیونسٹ نظام زمین بوس ہوا۔ مشرقی یورپ اشتراکی روسی سلطنت کی گرفت سے آزاد ہوا، دیوارِ برلن ٹوٹ گئی ، جرمنی یک جا ہوگیا، لیکن اس کا ثمر خود افغانستان کو نہ مل سکا اور ان کے باہمی اختلافات نے افغانستان میں تباہی و بربادی کا سلسلہ جاری رکھا۔
پھر طالبان کی آمد سے وقتی طور پر ملک میں امن قائم ہوا۔ لیکن نائن الیون کے افسوس ناک واقعے کے بعد افغانستان کے لیے ایک اور تباہی و بربادی کا سامان تیار ہوا، اور وحشیانہ امریکی بم باری نے افغانستان کے طول و عرض میں بربادی مسلط کردی۔ افغانستان کے چپے چپے پر افغان طالبان نے مزاحمت جاری رکھی، جب کہ بعض مقامات پر حزب اسلامی کے حُریت پسند بھی نبرد آزما تھے۔ ان کے برعکس ایک خطرناک تنظیم داعش نے حال ہی میں افغانستان میں قدم جمانے شروع کیے، جس سے افغانستان کا مستقبل مخدوش ہوتا نظر آرہا تھا ۔ اس تناظر میں کابل حکومت اور حزبِ اسلامی کا معاہدہ خوش گوار ہوا کے جھونکے کی مانند ہے، جس پر افغان عوام نے بجاطور پر خوشی کا اظہار کیا۔
ڈاکٹر اشرف غنی کی حکومت بھی مختلف الخیال افراد اور گروہوں پر مشتمل ہے ۔ اس میں: سابقہ کمیونسٹ ، خلقی ، پرچمی، شعلی ،ملتی ،پختون قوم پرست ، تاجک ، ازبک ، ہزارہ ، سبھی شامل ہیں۔ ان سب نے اس معاہدے کا خیر مقدم اور اس کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔
ڈاکٹر اشرف کے اتحادی ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ نے واشگاف الفاظ میں اعلان کیا کہ: ’’میں چاہتا ہوں کہ یہ معاہدہ کامیاب ہو۔ افغانستان میں امن قائم کرنا اور عوام کو ترقی و سلامتی سے ہم کنار کرنا اس کے بغیر ممکن نہیں ہے ۔ ہم طالبان کے ساتھ بھی مذاکرات اور امن معاہدہ چاہتے ہیں‘‘۔ اسی طرح استاد عبدالرب رسول سیاف نے کہا: ’’ہم کابل میں امن کی خاطر غیرملکیوں کی موجودگی برداشت کررہے ہیں۔ حکمت یار تو ہمارے بھائی ہیں، ان پر بھلاکون اعتراض کرسکتا ہے‘‘۔ پختون قوم پرست جو ایک طویل عرصے سے حکمت یار کے مخالف رہے ہیں، وہ بھی قومی وحدت اور تعمیر کی خاطر ان کا ساتھ دینے کے لیے تیار ہیں۔ کیوںکہ ان کے خیال میں موجودہ کش مکش میں زیادہ نقصان پختون آبادی کا ہی ہو رہا ہے۔ تاہم، بعض مغرب زدہ این جی اوز کے افراد اور اسی فکر کی حامل چند خواتین نے کابل میں اس معاہدے کے خلاف مظاہر ے بھی کیے ہیں۔
ڈاکٹر اشرف غنی کی حکومت نے مارچ ۲۰۱۶ء سے کابل میں باقاعدہ رسمی مذاکرات کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ کابل حکومت کی سنجیدگی کو دیکھتے ہوئے حزبِ اسلامی نے اپنا سب سے دیرینہ مطالبہ کہ ’غیر ملکی افواج کا حتمی اخراج‘ میں ترمیم کرتے ہوئے اس کو معاہدہ کی بنیادی شرائط میں رکھنے کے بجاے معاہدے کا ایک مقصد اورنصب العین قرار دیا ۔ مئی ۲۰۱۶ء میں بالآخر معاہدے کے ایک مسودے پر اتفاق کر لیا گیا، جو حزبِ اسلامی کے نمایندے کریم امین اور حکومت کے نمایندے پیر سید احمد گیلانی نے تیار کرکے دونوں اطراف کے قائدین کی خدمت میں پیش کیا تھا ۔ یاد رہے کہ سیّداحمد گیلانی بھی روس کے خلاف جہاد میں ایک دھڑے کے سربراہ تھے اور اس طرح گلبدین حکمت یار کے ہم رکاب رہے تھے ۔
۲۲ستمبر ۲۰۱۶ء کو کابل میں ایک تقریب کے دوران ابتدائی مسودے پر دستخط ہوئے۔ معاہدے کے حتمی مسودے کو انجینیر حکمت یار کے پاس دستخط کے لیے بھیجا گیا، جو افغانستان میں کسی خفیہ مقام پر مقیم ہیں۔ بالآخر ۲۹ستمبر کو کابل کے صدارتی محل میں تقریب منعقد ہوئی ۔ اس تقریب سے گلبدین حکمت یار نے ویڈیو لنک کے ذریعے ۳۶منٹ خطاب کرتے ہوئے اس امن معاہدے پر اطمینان کا اظہار کیا۔ انھوں نے طالبان کو بھی مشورہ دیا کہ وہ افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کریں اور امن و سلامتی کا راستہ اپنائیں۔ ساتھ اپنے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ سیاسی طور پر امریکی افواج کو افغانستان سے نکالنے کے لیے اپنی جدو جہد جاری رکھیں گے، اور ملک میں نمایندہ جمہوری حکومت کے قیام کی اہمیت اور عمل پر کوئی لچک نہیں دکھائیں گے۔
افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی نے اس موقعے پر اپنے خطاب میں اس معاہدے کو ایک بڑی کامیابی اور افغان دستور اور آئین کا تقاضا قرار دیا ۔ انھوں نے کہا کہ: ’’یہ پورا مذاکراتی عمل دوافغان گروپوں کے درمیان افغانستان کے اندر ہوا ہے، جس میں کوئی غیر ملکی شامل نہیں ہوا، جو افغانوں کا ایک بڑا کارنامہ ہے، جس سے ملک میں امن قائم ہوگا‘‘۔
معاہدے کے اہم نکات میں حکومت کے ذمے یہ کام ہے کہ گلبدین حکمت یار اور حزبِ اسلامی پر بین الاقوامی پابندیوں کا خاتمہ ،ان پر عائد کردہ تمام الزامات اور مقدمات کا خاتمہ، حزبِ اسلامی کے ارکان اور مجاہدین کو افغانستان کے قومی سلامتی کے اداروں میں مقام دینا اور ان ۲۰ہزار افغان مہاجرین خاندانوں کی باعزت افغانستان واپسی کا انتظام کرنا جو پشاور کے نصرت مینہ اور شمشتو کیمپوں میں آباد ہیں۔
اس کے مقابلے میں حزبِ اسلامی نے اپنے ذمے جو کام لیے ہیں، ان میں سب سے اہم نکتہ جنگی حالت سے دست برداری اور ملک کے دستور و قانون کی پاس داری ہے ۔ وہ کسی اور گروپ کی بھی جنگی تیاریوں میں مدد نہیں کریں گے ۔ مکمل اور دیرپا جنگ بندی پر عمل کریں گے اور اپنا اسلحہ حکومت کے حوالے کردیں گے اور اپنے طور پر کسی بھی قسم کی جنگی کارروائیوں میں شرکت نہیں کریں گے ۔ ملک میں موجود جمہوری اداروں کا احترام کریں گے اور ان کی مخالفانہ تحریکوں کا ساتھ نہیں دیں گے۔
امریکا نے تو حکمت یار کے سر کی قیمت ۲۵ملین ڈالر لگا رکھی تھی، لیکن اس دوران روس اور فرانس نے حکمت یار کو اقوام متحدہ کی بلیک لسٹ سے نکالنے پر اپنے تحفظات کا اظہار کر دیا۔ اس عرصے میں اقوام متحدہ کا ایک وفد کابل آیا اور اس نے افغان انتظامیہ اور حزبِ اسلامی کے نمایندوں سے معلومات حاصل کیں ۔ پھر حزبِ اسلامی نے مؤثر سفارت کاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے، خود روسی اور فرانسیسی حکومتوں پر اپنا موقف واضح کیا، جس کے نتیجے میں ان کے تحفظات دُو ر ہوئے اور اقوام متحدہ نے ۴فروری ۲۰۱۷ء کو گلبدین حکمت یار اور ان کی پارٹی پر عائد پابندیاں ختم کر دیں۔ اس طرح یہ امید کی جاتی ہے کہ وہ مارچ میں جلال آباد کابل میں منظر عام پر آجائیں گے۔ جس طرح ہم پہلے عرض کر چکے ہیں کہ یہ افغانستان میں ایک اہم پیش رفت ہو گی، جس سے مثبت توقعات وابستہ کی جاسکتی ہیں اور سرزمینِ افغانستان پر بھارت کی بڑھتی ہوئی تزویراتی پیش رفت میں بھی رکاوٹ پیدا کی جاسکے گی۔
پاکستان میں افغانستان کے متعین سفیر۴۸سالہ ڈاکٹر حضرت عمر ضاخیلوال کے بیانات گذشتہ چند دنوں میں بہت اہمیت اختیار کر گئے ہیں۔ چھے ماہ قبل جب ان کی تعیناتی عمل میں آئی تھی اور انھوں نے نسبتاً خاموش طبع جانان موسیٰ زئی کی جگہ لی تو اس وقت کسی کو اندازہ نہ تھا کہ یہ شخصیت آنے والے دنوں میں دو برادر اور ہمسایہ پڑوسی ممالک کے درمیان تعلقات میں اتنا اہم اور کلیدی کردار ادا کرے گی ۔
نئے صدر ڈاکٹر اشرف غنی نے، جو خود بھی ماہر اقتصادیات ہیں اور امریکا ہی سے کرزئی حکومت کے دور میں آئے تھے، ان کو اپنی ٹیم میں شامل کیا ۔ انھوں نے اس چار ملکی امن گروپ (QCG)میں افغانستان کی نمایندگی کی جو طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کی راہ ہموار کرنے کے لیے تشکیل دیا گیا تھا ۔ اس میں افغانستان اور پاکستان کے علاوہ امریکا اور چین بھی شامل ہیں۔ اسی گروپ کی کوششوں سے گذشتہ سال پاکستان میں طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کا اعلا ن کیا گیا تھا لیکن پھر طالبان کے سربراہ ملا عمر کی وفات کی خبر آئی یا لائی گئی اوران مذاکرات کو سبوتاژ کر دیا گیا۔ اس سال پھر جب پاکستان نے امن مذاکرات کے لیے طالبان سے رابطے کیے تو اس پر افغان حکومت نے سخت رد عمل کا اظہار کیا اور پاکستان کو کسی قسم کے مذاکراتی عمل سے منع کر دیا جو بڑا عجیب و غریب رویہ تھا۔ لیکن اب، جب کہ گذشتہ ماہ نوشکی میں طالبان رہنما ملا اختر منصور کو ڈرون حملے کے ذریعے مار دیا گیا اور اب طور خم میں افغان فورسز نے جارحانہ رویہ اختیا ر کیا تو صورت حال کچھ واضح ہوتی جا رہی ہے ۔ ماہِ اپریل میں افغان سفیر کا یہ بیان ریکارڈ پر ہے کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کی راہ ہموار ہو چکی ہے اور ہم بہت جلد افغان رہنمائوں کے ساتھ براہ راست امن مذاکرات شروع کر دیں گے ، جب کہ قطر میں مقیم افغان طالبان کی مذاکراتی ٹیم کے سربراہ محمد نعیم نے اس کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ ہم کو اپنی قیادت کی جانب سے ایسی کوئی اطلاع موصول نہیں ہوئی ہے۔ اس لیے مذاکرات کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اب انھی افغان سفیر کا تازہ ترین ارشاد ہے کہ اگر پاکستان نے طور خم سرحد پر گیٹ کی تعمیر کا کام ترک نہ کیا تو اس کو سنگین نتائج بھگتنے ہوں گے ۔ وہ پہلے بھی اس طر ح کے تندوتیز بیانات دے چکے ہیں۔
مجاہدین اور طالبان کے دور حکومت میں یہ موقع تھا کہ ڈیورنڈ لائن کا مسئلہ بھی باہم مذاکرات کے ذریعے حل کر لیا جاتا لیکن اس کے لیے دونوں جانب سے کوئی پیش رفت نہ کی گئی ۔ اب، جب کہ کابل میں افغان حکومت دوبارہ پختون قوم پرستوں کے ہاتھ میں آچکی ہے تو اس مسئلے پر بات چیت مشکل تر ہوگئی ہے ۔ یہ ہے اصل میں طور خم کے سرحدی تنازعے کا پس منظر جس پر کوئی بھی کھل کر بات نہیں کرتا۔ جب افغان سفیر حضرت عمر کے حوالے سے پاکستانی میڈیا نے یہ خبر نشر کی کہ وہ گیٹ کی تنصیب کے لیے آمادہ ہو گئے ہیں تو اسی وقت افغان میڈیا میں ان کے خلاف ایک شور سا اُٹھ گیا کہ عمر نے افغان ملت کے ساتھ دغا بازی کر کے امیر عبدالرحمن کی یاد تازہ کر دی ہے ۔ پاکستانی اداروں نے کہا کہ وہ ۱۰۰میٹر پاکستانی حدود کے اندر گیٹ کی تعمیر کے لیے تیار ہوئے تھے، جب کہ عملاً گیٹ ۳۷میٹر اندر بنایا جانے لگا جس پر افغان فوجیوں نے فائرنگ شروع کر دی، یعنی معاملہ صرف چند میٹر کا تھا۔ کئی قیمتی جانیں اس کی نذر ہو گئیں اور دو برادر ہمسایہ ملکوں کے درمیان ایک جنگی صورت حال پیدا ہو گئی ۔پاکستانی فوجی آفسر میجر علی جواد چنگیزی جو ایک خوب صورت انسان تھے ان میںشامل ہیں۔
مسئلہ صرف چند میٹر کا نہیں ہے بلکہ افغانستان کے mindsetکا ہے جو کسی بھی صورت گیٹ کی تعمیر کے لیے تیار نہیں اور اس کا اظہار اب افغان سفیر اپنے بیانات کے ذریعے کر رہے ہیں۔ پاکستان کے مشیر امور خارجہ سرتاج عزیز نے اب جا کر یہ بیان دیا ہے کہ انھوں نے افغانستان کے وزیر خارجہ صلاح الدین ربانی اور قومی سلامتی کے مشیر حنیف اتمر کو دعوت دی ہے کہ وہ پاکستان آکر اس قضیے پر مذاکرات کریں اور اس کا کوئی حل نکالیں۔ صلاح الدین سابقہ افغان صدر اور جمعیت اسلامی افغانستان کے سربراہ استاد برہان الدین ربانی مرحوم کے صاحبزادے ہیں جنھوں نے روسی تسلط کے خلاف جہاد افغانستان کی قیادت پاکستان میں بیٹھ کر کی تھی اور بعد میں نجیب انتظامیہ کے خاتمے پر ایک معاہدے کے تحت صبغتہ اللہ مجددی کے بعد افغانستان کے صدر بن گئے تھے لیکن معاہدے کی پابندی نہ کی اور کئی سال تک افغانستان کے صدر رہے ۔ یہاں تک کہ طالبان نے آکر ان کی حکومت ختم کی ۔ حنیف اتمر کا پس منظر یہ ہے کہ وہ سابقہ کمیونسٹ کے طور پر مشہور ہیں۔ وہ ڈاکٹر نجیب اللہ کے ساتھیوں میں سے تھے اور جب نجیب انتظامیہ نے حضرت مجددی کو اقتدار منتقل کیاتو اس عمل میں حنیف اتمر شامل تھے ۔
چین اور بھارت یہ کردار ادا کر سکتے ہیں۔ چین افغانستان کے سیاسی معاملات میں مداخلت نہیں کرنا چاہتا، البتہ اقتصادی اور ترقیاتی منصوبوں میں دل چسپی رکھتا ہے ۔ جلال آباد سے کابل تک دو رویہ ہائی وے کی تعمیر ایک چینی کمپنی کر رہی ہے ۔ البتہ بھارت کا افغانستان میں کردار بہت اہم ہے اور وہ آیندہ بھی افغانستان میں اور اس سے آگے بڑھ کر وسط ایشیا میںاپنے لیے تجارتی منڈیوں کا حصول چاہتا ہے ۔
پاکستان اور افغانستان کے درمیان تجارتی و کاروباری تعلقات کسی بھی اور ملک کے مقابلے میں بڑھ کر ہیں۔ کئی معاہدے بھی ہو چکے ہیں۔ مشترکہ چیمبر آف کامرس بھی ۲۰۱۰ء میں بناہے۔ افغانستان کی درآمد میں پاکستان کا حصہ ۹ئ۲۵فی صد ہے، جب کہ برآمدات میں ۳ئ۲۳ فی صد ہے۔ دونوں کے درمیان APTTAکا نیا تجارتی معاہدہ بھی ہواہے ۔ باہمی تجارت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے جس کا کل حجم ۲۵۰۹ ملین ڈالر سے بڑ ھ چکا ہے اور پاکستان کے حق میں ہے ۔
پاکستان نے افغانستان کی تعمیر نو میں بھی اپنا حصہ ڈالا ہے ۔ پاکستان نے اس مد میں ۳۳۰ملین ڈالر خرچ کیے ہیں جو بھارت کے ۲بلین ڈالر کے مقابلے میں بہت کم ہیں ۔ جلال آباد طورخم روڈ کی تعمیر پاکستان کا منصوبہ تھا ۔ تعلیم کے میدان میں پاکستان کے منصوبوں میں کابل میں رحمن بابا اسکول ، کابل یونی ورسٹی میں علامہ اقبال فیکلٹی ، جلال آباد میں سر سید فیکلٹی اور بلخ میں لیاقت علی خان فیکلٹی کی تعمیر شامل ہے ۔ اسکولوں کے طلبہ کے لیے کتب اور کاپیوں کی فراہمی، ۵۰؍ایمبولینس گاڑیاں، ۲۰۰ٹرک اور ۱۰۰بسیں بھی عطیہ کی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ بھی تیل ، گیس، معدنیات او ربجلی کے منصوبوں میں پاکستان نے امداد بہم پہنچائی ہے ۔ مستقبل میں پاک افغان باہمی تعلقات اور تجارت کے فروغ کے بے پناہ امکانات موجود ہیں۔ پاک چائنا کاریڈور کے مغربی روٹ کو افغانستان سے منسلک کرنے کا آپشن موجود ہے ۔ اس کے علاوہ پاکستان کے ریلوے کا نظام جو ۱۱ہزار۷ سو ۷۸ کلومیٹر طویل انگریز دور کا تعمیر کردہ ہے پہلے ہی طور خم تک پہنچایا گیا تھا ۔ اس کو اگر افغانستان تک پہنچا دیا جائے اور پھر اس سے آگے وسط ایشیا کے ریلوے نظام سے جوڑ دیا جائے تو اس پورے خطے کی تقدیر بدل سکتی ہے ۔ چین اس عظیم منصوبے میں بھی دل چسپی لے رہا ہے ۔
ڈاکٹر اشرف غنی نے برسرِ اقتدار آنے کے بعد نومبر ۲۰۱۴ء کو پاکستان کا دورہ کیا اور پاکستان کے لیے نیک خواہشات اور اچھے و مثبت جذبات کا اظہار کیا ۔ پاکستانی قیادت نے بھی بھر پور جواب دیا اور پاکستانی وزیر اعظم میاں نواز شریف نے افغان حکومت کو مکمل حمایت کی یقین دہانی کروائی ۔ افغانستان میں امن کا قیام اور اس کی سلامتی پاکستان کے لیے بہت اہمیت کی حامل ہے ۔ روسی افواج کے انخلا کے بعد افغانستان جس بری طرح سے باہمی جنگ وجدل اور شکست وریخت سے دو چار ہوا، امریکی انخلا کے بعد اس کا اعادہ نہیں ہونا چاہیے ۔ افغانستان میں متحارب گروپوں کے درمیان انٹرا افغان مذاکرات اور اس کے نتیجے میں جنگ کا خاتمہ اور امن و سلامتی کا قیام جتنا افغانستان کے لیے لازمی ہے اتنا پاکستان کی بھی ضرورت ہے ۔ ایسے موقعے پر طورخم سرحد پر خونچکاں واقعہ ناقابلِ برداشت اور خطرناک مضمرات کا حامل ہے ۔
پاکستان کے وزیر اعظم میاں نواز شریف کے عارضہ قلب اور سرجری کے دوران اور بعد میںملکی انتظام اور انصرام چلانے والی کوئی شخصیت نظر نہیں آئی جو بہت بڑا قومی مسئلہ ہے ۔ وفاقی وزیر جنرل عبدالقادر بلوچ نے ایک اخباری بیان میں طورخم واقعے کو بھارت کی سازش قرار دیا لیکن اس کا توڑ کیا ہے اور کون کرے گا؟ اس کا جواب کسی کے پاس نہیں ۔ افواج پاکستان کے سپہ سالار جنرل راحیل شریف اپنا بھر پور کردار ادا کر رہے ہیں لیکن سیاسی قیادت کا کردار مختلف اور دوسرے انداز میں ہوتا ہے ۔ سفارتکاری کی اہمیت دنیا میں ایک مسلّمہ حقیقت تسلیم کی جاتی ہے ۔ بین الاقوامی مسائل کا حل حکمت عملی اور لچک دار رویے سے ہی ممکن ہوتا ہے ۔
اس دور میں مسلم اُمت ایک کرب اور تکلیف سے دو چار ہے ۔ ہر جانب خون خرابہ اور تباہی و برباد ی کی خبریں ہیں۔ عراق و شام میں ایک خوف ناک صورت حال پیدا ہو چکی ہے ۔ اس موقعے پر پاکستان اور افغانستان کے درمیان تصادم ایک اور المیہ کو جنم دے سکتا ہے ۔ کروڑوں انسانوں کی زندگیوں کو خطرہ لاحق ہے۔ اس لیے پاکستان اور افغانستان دونوں اطراف کی قیادت کو ان خطرات کے سد باب کے لیے سنجیدگی سے کام کرنا ہوگا۔ ضروری ہے کہ فوری اقدامات اٹھائے جائیں۔ پاکستان اور افغانستان کا مفاد ایک ہے اور ہم سب اس کے امین ہیں۔
۲۸ستمبر۲۰۱۵ء کو قندوز پر طالبان کا قبضہ ایک طویل منصوبہ بندی کا نتیجہ تھا ۔ یہ ۲۰۰۱ء کے بعد ان کی ایک بڑی جنگی کامیابی تھی ۔ قندوز افغانستان کے شمال میں ملک کا پانچواں بڑا شہر ہے جس کی آبادی ۵ئ۳ لاکھ ہے ۔ اگر چہ یہ قبضہ عارضی تھا اور محض چند روز تک محدود رہا، لیکن اس نے واشنگٹن میں پینٹاگان کے بزرجمہروں کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا ۔ عالمی نشریاتی اداروں نے اس کو ایک بڑی خبر کے طور پر نمایاں طور پر پیش کیا۔ سی این این کے بین الاقوامی تبصرہ نگار نک روبرٹسن نے اس کو طالبان کے لیے ایک بڑا انعام قرار دیا۔ افغانستان میں امریکی اور ناٹو افواج کے تدریجی انخلا کے بعد ماہ جنوری میں صدر باراک اوباما نے امریکی پالیسی کی وضاحت کرتے ہوئے کانگریس سے اپنے کلیدی خطاب میں کہا تھا کہ: ’’اب ہم خود افغانستان کا گشت کرنے کے بجاے افغان سیکیورٹی فورس کو استعمال کریں گے، جن کی ہم نے خوب تربیت کی ہے‘‘۔ لیکن قندوز کی حد تک افغان فوج یہ ذمہ داری پورا نہ کر سکی، جب کہ شہر سے محض تین کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ایئرپورٹ پر ہزاروں کی تعداد میں لڑاکا امریکی فوج موجود تھی ۔نک روبرٹسن نے طالبان کی جنگی حکمت عملی بتاتے ہوئے کہا کہ وہ اس سال ماہ اپریل سے اس کا م پر لگے ہوئے تھے اور عید کی چھٹیوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے شہر میں آہستہ آہستہ داخل ہوئے اور بڑا حملہ کر دیا۔
افغانستان کی وزارت داخلہ کے ترجمان صدیق صدیقی نے سب سے پہلے دنیا کو یہ خبر سنائی کہ: ’’طالبان نے ۱۰مختلف اطراف سے شہر پر حملہ کیا اور گو رنر ہائوس اور پولیس ہیڈ کوارٹرپر پیرکی صبح ہی قبضہ کر لیا تھا۔ افغان آرمی کے جنرل مراد علی نے الزام لگایا کہ ان میں غیر ملکی ازبک بھی شامل تھے۔ افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اپنے ٹویٹر اکائونٹ میں لکھا کہ: ’’طالبان قندوز میں افغان آرمی کا صفایا کر رہے ہیں۔ عام شہریوں سے کہا کہ وہ اپنے گھروں تک محدود رہیں‘‘۔
l طالبان کی حکمت عملی: طالبان شمالی افغانستان کے کمانڈر حاجی قادر نے جن کا تعلق شمالی صوبے بدخشان سے ہے دعویٰ کیا کہ ہم نے گذشتہ سال ہی یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ جنوب کے بجاے شمال کی طرف جنگ پر توجہ دی جائے گی ۔ اس لیے ہم نے چار شمالی صوبوں پر قبضے کا منصوبہ بنایا ہے ۔ واقعی ایسا لگتا ہے کہ قندوز پر قبضہ ایک طویل حکمت عملی کا حصہ ہے ۔ کیونکہ جب افغان آرمی نے قبضہ چھڑانے کے لیے نقل و حرکت شروع کی تو اس کو جگہ جگہ مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ قندوز کی جانب رواں افغان فوجی کانوائے بغلان صوبے میں رکاوٹوں اور حملوں کی وجہ سے مشکلات سے دوچار ہوئے۔ سڑک پر پتھر اور ریت کی بوریاں رکھ دی گئی تھیں۔ طالبان نے صرف قندوز شہر پر قبضہ نہیں کیا بلکہ قندوز صوبے کے ایک اہم ضلع چارد رہ پر بھی قبضہ کیا جہاں سے افغانستان کی ایک اہم شاہراہ گزرتی ہے، جو مزار شریف کو قندوز سے ملاتی ہے۔
قندوز شہر پر طالبان کا قبضہ عارضی تھا اورصرف تین دن تک رہا ۔ اس دوران طالبان شہراور بازار کے اہم مقامات پر موجود رہے ۔ ان کے جھنڈے عمارتوں پر لہراتے رہے اور وہ گھر گھر تلاشی لیتے رہے ۔ جمعرات کے دن افغان حکومت نے اعلان کیا کہ وہ شہر میں واپس داخل ہو چکی ہے اور اس نے طالبان کو وہاں سے نکال دیا ہے ۔ اس دوران ہزاروں لوگ قندوز سے نکل گئے۔ انھوں نے ایئر پورٹ کا رخ کیا، جہاں سیکیورٹی فورسز بڑی تعداد میں موجود تھیں ۔ شہر کی بجلی کاٹ دی گئی تھی ۔ مقامی ٹی وی ا سٹیشن اور ریڈیو کی نشریات بند ہو گئیں تھیں۔ طالبان کی قابض فوجوں نے ایسے افراد کی فہرستیں تیار کیں، جو ان کو مطلوب تھے اور ان کی تلاش میں وہ گھروں پر چھاپے مارتے رہے۔ طالبان لائوڈ سپیکر وں پر دکان داروں کو ہدایات دیتے رہے کہ وہ دکانیں کھول دیں۔
طالبان نے قندوز کے اس عارضی قبضے سے کیا حاصل کیا ؟ ان کے کیا اہداف تھے اور وہ اس کے حصول میں کس حد تک کامیاب ہوئے ؟
ایک مقصد تو بڑا واضح طور پر نظر آیا کہ انھوں نے قندوز جیل میں بند اپنے ۶۰۰ساتھیوں کو چھڑا لیا جو کافی عرصے سے وہاں قید تھے۔دوسرا بڑا فائدہ ان کو بھاری تعداد میں اسلحے کی صورت میں ہوا جو انھوں نے سیکڑوں گاڑیوں میں ڈال کر اپنے ٹھکانوں کو روانہ کیا ۔ ان میں وہ بکتر بند امریکی ساختہ گاڑیاں بھی بڑی تعداد میں شامل تھی جو افغان آرمی اور پولیس کے زیر استعمال رہتی ہیں۔ مال غنیمت میں ۱۵۰ گاڑیوں کے علاوہ بھاری مشین گنوں، مارٹر توپوں ،کلاشنکوف رائفلوں اور بارودی مواد کے بڑے ذخیرے طالبان کے ہاتھ لگے۔ تیسری ا ہم چیز جو طالبان کے ہاتھ آئی وہ بھاری رقوم اور غیر ملکی کرنسی ہے، جو قندوز شہر کے بنکوں اور خزانے میں موجود تھی۔ افغان آرمی نے جب قندوز پر دوبار قبضہ کیا تو انھوں نے ۲۰۰طالبان مجاہدین کو مارنے کا دعویٰ کیا لیکن طالبان اپنا نقصان بہت کم بتاتے ہیں۔
قندوز ہسپتال بین الاقوامی نوبل انعام یافتہ ادارہ Médecins Sans Frontières International (MSF) چلاتی ہے۔ سرحدی پابندیوں سے آزاد طبی امداد کا یہ ادارہ بنیادی طور پر فرانسیسی این جی او ہے۔ کئی یورپی ملکوں میں اس کی شاخیں قائم ہیں جو پوری دنیا میں شورش زدہ علاقوں میں کام کرتی ہے ۔ قندوز ہسپتال شمالی افغانستان میں اہم ترین طبی مرکز تھا جس سے کئی صوبوں کے عوام استفادہ کرتے ہیں۔ اس جنگ کے دوران بھی انھوں نے اپنی خدمات جاری رکھیںاور زخمی شہریوں ، بچوں ،عورتوں کو طبی امداد بہم پہنچاتے رہے ۔ ہسپتال میں عملے کی تعداد ۲۰۰تھی۔ امریکی حکام نے بعد میں یہ وضاحت پیش کی کہ ہم سے افغان آرمی نے درخواست کی تھی کہ ہسپتال کے احاطے میں طالبان چھپے ہوئے ہیں، اس کو ہدف بنایا جائے ۔ چنانچہ ہم نے فضائی کارروائی کی ۔ لیکن یہ معذرت بذات خود ایک بڑے جرم کا اعتراف ہے کہ یہ کارروائی سوچ سمجھ کر کی گئی اور اس دوران ہسپتال انتظامیہ بھی افغان حکومت سے اپیل کرتی رہی کہ میڈیکل عملے کے ارکان اور مریض مر رہے ہیں،لیکن پھر بھی حملہ جاری رہا ۔ یہ سفاکانہ حملہ مسلّمہ بین الاقوامی اصولوں کی کھلی خلاف ورزی اور جنگی جرم ہے جس کا ارتکاب امریکی افواج نے کیا۔ امریکی صدر نے رسماً دوحرفی معذرت پیش کی۔ ایم ایس ایف نے احتجاجاً اپنی خدمات واپس لے لی ہیں۔
قندوز میں افغان آرمی کی شکست کابل حکومت کے لیے لمحۂ فکریہ ہے ۔ اس نے امریکی معاونت سے ملک میں ایک اتحادی سیاسی حکومت تو بنالی ہے لیکن وہ افغانستان کو ایک مؤثر اور مضبوط قیادت فراہم کرنے میں کامیاب نظر نہیں آتی۔ طالبان کی اٹھان اور ان کی جنگی حکمت عملی کے مقابلے میں کابل کی افواج کی کمزوریاں اس حکومت کے لیے بہت بڑا چیلنج ہیں۔ لاکھوں کی تعداد میں افغان فوج اور پولیس کی موجودگی میں ایک بڑے شہر پر قبضہ اس کے لیے ایک بڑا تازیانہ ہے، اور ملک میں حکومت کی گرفت کمزور ہونے کے امکان کو بڑھاتا ہے ۔
مُلّا محمد عمر کے دوسال پہلے انتقال کی خبر نے بھی طالبان کی کمزور ی میں اضافہ کیا اور اب داعش افغان نوجوانوں کو جگہ جگہ بھرتی کر رہی ہے۔ بعض مقامات پر طالبان تحریک سے مڈبھیڑ بھی ہو رہی ہے ۔غالباً طالبان کی نئی جنگی حکمت عملی اور مہم جوئی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ زیادہ بڑی سرگرمیاں دکھا کر افغانستان میں جہاد سے منسلک عنصر کو اپنے سے جوڑ کر رکھنا چاہتی ہے ۔ اس طرح وہ نہ صرف افغانستان میں اپنی پوزیشن برقرا ر رکھنا چاہتے ہیںبلکہ غیر ملکی افواج کے مکمل انخلا اور امریکی دل چسپی کی کمی کی صورت میں ملکی اقتدار پر قبضے کی اپنی خواہش کو بھی پورا کرنا چاہتے ہیں۔
پاکستان اور چین کی کوششوں سے افغان حکومت اور طالبان کے نمایندوں کے درمیان مذاکرات کا جو سلسلہ شروع ہو اتھا، بدقسمتی سے اس کے دوبارہ احیا کے امکانات معدوم ہو تے جارہے ہیں۔ افغان حکومت واضح طور پر پاکستان مخالف جذبات کی اسیر نظر آتی ہے ۔اس میں یقینا بھارتی لابی کا بھی کردار ہو گا جو افغانستان کے معاملات میں پاکستان اور چین کی شرکت نہیں چاہتی۔ تاہم کابل کی قیادت کو یقینا یہ بات سمجھنی ہو گی کہ پاکستان سے دُوری او ربگاڑ پیداکر کے وہ پاکستا ن سے زیادہ اپنے مفادات کو نقصان پہنچا رہی ہے، جس کے دور رس نتائج ہو ںگے۔ بلاشبہہ طالبان تحریک اس وقت اتنی قوت نہیں رکھتی کہ وہ بڑے شہروں پر مستقل قبضہ کر سکے، لیکن وہ ایک مستقل مزاحمتی تحریک کی حیثیت سے بھی اگر اپنی حیثیت بر قرار رکھتی ہے تو پھر افغانستان میں امن و سلامتی کا قیام محض ایک خواب ہی رہے گا۔
افغانستان کے نئے صدر اشرف غنی نے سب سے پہلے جس ملک کا غیر ملکی دورہ کیا وہ چین تھا اور اس کے بعدپاکستان آئے ۔ اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں۔ اس لیے کہ اشرف غنی صاحب انتخابات سے پہلے اور بعد میں بھی جس فراست اورعملیت پسندی کا مظاہرہ کررہے ہیں اس کا تقاضا یہی تھا کہ ہندستان سے پہلے اس پڑوسی ملک میں آئیں جو ان کے ملک میں غلط یا صحیح سب سے زیادہ موضوع بحث رہتاہے ۔
ڈاکٹر اشرف غنی نے کرسیِ صدارت سنبھالتے ہی ایسے اقدامات کیے جس سے ان کے مصالحانہ رویے اور عملیت پسندی کا اظہار ہوتا ہے ۔ ایک زیرک سیاستدان کی خوبی یہی ہوتی ہے کہ وہ موقعے کا انتظار کرتا ہے اور موقع ملتے ہی فیصلے کرنے سے دریغ نہیں کرتا ۔ چنانچہ ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ سے مصالحت کرنے کے فوراًبعد انھوں نے امریکا کے ساتھ دوطرفہ معاہدے پر دستخط کرنے میں دیر نہیں لگائی جس کا عرصے سے امریکی حکومت کو انتظار تھا ۔ لیکن یہ مصالحانہ رویہ صرف طاقت ور حریفوں کے ساتھ تھا ۔ حکومتی اداروں اور اہلکاروں پر انھوں نے فوراًہی گرفت مضبوط کی۔ کابل میں موجود سرکاروں شعبوں پر چھاپے مارنے کا سلسلہ شروع کیا اور چند ہی دنوں میں ان کی کایا پلٹ گئی۔ اب آپ کو طورخم بارڈر عبور کرتے ہی ایک مختلف کلچر نظر آئے گا۔ سرکاری افسر ہویا ملازم، کام پر لگ گیا ۔ وہ خود دن میں۱۸گھنٹے کام کررہے ہیں اور اپنے اسٹاف کے آرام سے بیٹھ رہنے کے روادار نہیں۔
پاکستان کا دورہ اور پاکستان کے ساتھ افغانستان کے جملہ معاملات طے کرنا ہی ان کی ترجیحات میں شامل تھا۔ اس لیے پہلی فرصت میں ایک بھاری بھر کم وفد کے ساتھ دورے پر آئے۔ افغان صحافتی حلقوں نے ۱۳۰؍افراد پر مشتمل وفد کے حجم پر اعتراض کیا لیکن وہ جو کہتے ہیں نا کہ He means business، یعنی وہ پاکستان سے کچھ چاہتاہے ۔ ہوسکتاہے کہ پہلے دورے میں وہ متنازع اُمور نہ چھیڑیں، تاہم روزمرہ کے معاملات پر وہ سنجیدگی سے بات کرنا چاہتے تھے ۔ ظاہر ہے پاکستان کی اہمیت افغانستان کے لیے ہر دوسرے ملک سے سوا ہے ۔ اگر طورخم پھاٹک چندگھنٹوں کے لیے بند ہوجاتا ہے تو کابل کے بازار میں ملک پیک کی قیمت بڑھ جاتی ہے اور کرنسی مارکیٹ مندی پڑجاتی ہے ۔ صدر کے وفد میں چیف آف اسٹاف جنرل شیرمحمدکریمی، وزیردفاع بسم اللہ محمدی اوروزیر خزانہ عمرزخی خیل سمیت سینیرافغان دفاعی حکام بھی شامل تھے۔
اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کا پروگرام تھا کہ ہر سطح پر پاکستانی اور افغانی قیادت کو باہم مربوط کیا جائے، ذہنی دُوری ختم کی جائے اور قربت پید اکی جائے ۔وہ پاکستان سے فوری طور پر کوئی مراعات لینے کے موڈ میں نہیں تھے بلکہ تعلقات بنانے آئے تھے ۔ اعتماد سازی کا عمل چاہتے تھے۔ کرزئی حکومت کا المیہ یہ تھا کہ وہ پاکستان مخالف رجحانات کی اسیربن گئی تھی اور گاہے بہ گاہے اس کا اظہار بھی ہوتا تھا ۔ اس کا افغانستان کوکوئی فائدہ نہ ہوا بلکہ دونوں پڑوسی ممالک میں دُوریاں پیدا ہوئیں جس کا فائدہ ہندستان نے اٹھایا اور اس کا اثر ورسوخ غیر معمولی حدتک بڑھ گیا ۔ اب ایسا بھی نہیں کہ ڈاکٹر اشرف غنی پاکستان سے تعلقات بنانے کی قیمت پر بھارت سے بگاڑ پیدا کریں گے۔ ان کی عملیت پسندی کا تقاضایہ ہے کہ وہ ہر ایک فریق سے اس کی اپنی حیثیت کے مطابق معاملہ کریں۔ کوئی بھی کابل حکومت پاکستان سے تعلقات بگاڑکر افغانستان میں ترقی اور امن وسلامتی کا خواب نہیں دیکھ سکتی ۔
ڈاکٹر اشرف غنی نے صدر پاکستان ممنون حسین اور وزیر اعظم میاں نوازشریف سے ملاقاتوں میں طالبان کا ایشواس طرح نہیں اٹھا یا جس طرح اس سے پہلے افغان حکومتیں اٹھاتی رہی ہیں۔ اگر وہ ایسا کرتے بھی تو اس کا جواب دینا پاکستا نی قیادت کے لیے زیادہ مشکل نہیں تھا ۔ البتہ ہوسکتا ہے کہ یہ محض اتفاق ہو کہ امریکی انتظامیہ نے نئی افغان حکومت کے سربراہ کے دورۂ پاکستان سے محض ۱۰دن پہلے ایک خفیہ پرانی رپورٹ نشرکردی جس میں حسب سابق پاکستانی جاسوسی اداروں پر افغانستان میں حکومت مخالف گروہوں کی پشت پناہی کا الزام لگایا گیا تھا۔ ہوسکتا ہے کہ اس رپورٹ کا مقصد پاکستانی حکومت کو دبائو میں لانا ہو تاکہ وہ ڈاکٹر اشرف غنی کے مطالبات بآسانی تسلیم کرے ۔ حالانکہ پاکستانی قوم سب سے زیادہ اس کی متمنی ہے کہ افغانستان میں امن وامان قائم ہو اور ایک منتخب نمایندہ حکومت ملک میں سیاسی استحکام پیدا کرے ،متحارب افغان گروہوںمیں مصالحت ہوجائے اور پاکستان میں موجود افغان مہاجر آبادی اپنے ملک واپس جاسکے۔
افغان صدارتی دورے کی ایک اہم پیش رفت پاکستان مسلح افواج کی قیادت سے اس کا براہ راست مکالمہ ہے ۔ اس سے پہلے پاکستان کے سالار جنرل راحیل شریف نے کابل کا ایک روزہ دورہ کیا ۔ یہ ایک ایسا خیرسگالی دورہ تھا جس کی عرصے سے ضرورت تھی۔ اس کی حیثیت محض علامتی نہ تھی بلکہ پاکستانی اور افغانی فوج کے درمیان تعلقات کی بحالی ایک زمینی حقیقت ہے۔
جنرل راحیل شریف نے اس دورے میں افغان فوج کوتربیت کی سہولتیں پہنچانے کی پیش کش بھی کی تھی ۔ پاک آرمی دنیا میں عسکری اور پیشہ ورانہ صلاحیت کے لحاظ سے ایک اعلیٰ مقام رکھتی ہے ۔ ایبٹ آباد کی کاکول اکیڈمی دنیا میں عسکری تربیت کا ایک منفرد ادارہ ہے۔ اس لیے افغان آرمی کے افسران کے لیے اس کے دروازے کھولنا ایک اہم پیش رفت ہے ۔ اب تک افغان آرمی کی تربیت کاکام مغربی افواج کے ماہرین نے سرانجام دیا ہے ۔ بھارت نے بھی اس میں اپنا حصہ ڈالا ہے اور کئی سطح پر افغان عسکری اہلکار وہاں تربیتی کورسز میں شرکت کررہے ہیں ، جب کہ زیادہ قریب پاکستان ادارے اس ’ثواب‘ سے محروم رہے ہیں ۔ حالیہ دورے میں افغان صدر نے اس پیش کش کو قبول کرنے کا اعلان کیا ہے جس کے لیے تفصیلات بعد میں طے کی جائیں گی ۔ انھوں نے جی ایچ کیو جاکر پاکستانی کمانڈر انچیف سے ملاقات کی اور یادگارِ شہدا پر پھول بھی چڑھائے ۔
افغان صدر کے سہ روزہ دورے کے اختتام پر جو اعلامیہ جاری کیا گیا ہے اس میں پاکستان اور افغانستان کے دوطرفہ تجارت کو بڑھانے اور تعلقات کو فروغ دینے کے عزم کا اظہار کیا گیا ہے ۔ وزیر اعظم پاکستان اور صدر افغانستان نے مشترکہ پریس کانفر نس سے خطاب بھی کیا ۔ میاں نواز شریف نے کہا کہ پاکستان افغانستان میں امن عمل کے لیے افغان طالبان سے مذاکرات کے حوالے سے اشرف غنی کے پروگرام کاحامی ہے ۔ یادرہے کہ ڈاکٹر اشرف غنی نے اپنی انتخابی مہم کے دوران باربار افغان طالبان کے ساتھ با معنیٰ مذاکرات کا ارادہ ظاہر کیا تھا اور اب بھی ایسا کرنے کا عزم رکھتے ہیں۔ مشیرخارجہ سرتاج عزیزنے بھی اس کی وضاحت کرتے ہوئے میڈیا کو بتایا کہ پاکستان افغانستان میں امن کے قیام میں اپنا کردار اداکرنا چاہتا ہے لیکن مسلح افغان گروہوں کے ساتھ اس کے تعلقات اب اس درجے کے نہیں کہ وہ ان پر کوئی دبائو ڈال سکے۔
پاکستان اور افغانستان نے باہمی تجارت کے ایک معاہدے پر دستخط کیے جسکی تفصیلات کے لیے ماہِ دسمبر میں باقاعدہ مذاکرات کیے جائیں گے۔جن اہم تجارتی منصوبوں پر گفتگو ہوئی اس میں وسط ایشیائی ممالک سے بجلی اور گیس کے ترسیل کے معاہدے اور کاسا1000اور تاپی بھی شامل ہیں جو بین الممالک اور علاقائی تجارتی منصوبے ہیں ۔ ایک اور اہم منصوبہ پاکستان سے ریل کی پٹڑی کو افغانستان اورپھر وسط ایشیائی ممالک تک توسیع دینے کا منصوبہ ہے جو بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ گرم سمندروں سے پاکستان کے ذریعے مواصلاتی رابطے ان ممالک کے لیے بہت اہم ہے۔ یہ اس خطے کا پورا نقشہ بدل سکتے ہیں ۔ چین بھی ان رابطوں میں دل چسپی رکھتاہے۔ اس لیے کراچی کے بعد گوادر کی بندرگاہ پاکستان کے لیے بے پناہ تزویراتی اہمیت کی حامل ہے ۔
میاں نواز شریف نے افغان صدر کو خوش آمدید کہتے ہوئے دوجملے ایسے کہے جو اس تعلق کی گہرائی کو ظاہر کرتے ہیں جو دونوں ممالک کے درمیان موجود ہے ۔ انھوں نے کہا کہ ہم اشرف غنی کو ان کے دوسرے گھر پاکستان میں خوش آمدید کہتے ہیں۔ اور یہ کہ افغانستان کے دوست ہمارے دوست، جب کہ اس کے دشمن ہمارے دشمن ہیں۔ اشرف غنی نے جواب میں کہا کہ ماضی کو بھول کر مستقبل پر نظر رکھنی چاہیے ۔ انھوں نے تجارت سے متعلق حالیہ سمجھوتے کے بارے میں کہا کہ ۱۳سال کا سفر تین دن میں طے ہوا۔ گویا دونوں ممالک کی باہمی تجارت میں جورکاوٹیں ہیں ان کو دور کرلیا گیا ہے ۔ انھوں نے وزیراعظم پاکستان کو دورۂ افغانستان کی دعوت بھی دی ۔
افغان صدر نے دورۂ پاکستان کے دوران جن قومی رہنمائوں کو شرفِ ملاقات بخشا ان میں نیشنل عوامی پارٹی کے صدر اسفندیار ولی اور ان کے ہمراہ افراسیاب خٹک ، پختونخوا ملّی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خا ن اچکزئی اور قومی وطن پارٹی کے صدر جناب آفتاب خان شیر پائو قابل ذکر ہیں ۔ جو سب کے سب پختون قوم پرست لیڈر شمار کیے جاتے ہیں ۔ ان کے علاوہ پیپلز پارٹی کے رہنمائوں میں اعتزاز احسن ، فیصل کریم کنڈی ، فرحت اللہ بابر اور شیریں رحمن صاحبہ نے بھی ان سے ملاقات کی ۔ کسی بھی دینی یا مذہبی پارٹی کے سربراہ سے ان کی ملاقات نہ ہوئی ۔
پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات کی بہت ساری جہتوں میں ایک نکتہ یہ بھی ہے کہ یہ دونوں ان ۱۳ممالک کی فہرست میں شامل ہیں جن کو دنیا میں سب سے زیادہ امریکی مالی تعاون حاصل ہے۔امریکی بالادستی عسکری اور معاشی دونوں میدانوں میں فیصلہ کن حیثیت رکھتی ہے۔ امریکی چھتری تلے ان ممالک کی قیادت کے لیے ایسے فیصلے کرنا جو مستقبل میں ان کی معاشی وسیاسی آزادی کا سبب بنیں ناممکن نہیں تو مشکل ضرو ر ہیں۔ پھر بھی قیادت کا استحکام اور تسلسل اس منزل کی طرف سفر جاری رکھ سکتا ہے ۔
آخر میں ڈاکٹر اشرف غنی کے بارے میں ایک افواہ جو کابل کے ٹیکسی ڈرائیوروں میں عام ہے سنتے جائیے ۔ ڈاکٹر اشرف غنی اچھا آدمی ہے، محنت کررہاہے لیکن وہ ایک ایسی جان لیوا بیماری میں مبتلاہے جس کی وجہ سے اس کے پاس وقت بہت کم ہے ۔