اکتوبر۲۰۲۰

فہرست مضامین

بین الافغان مذاکرات

ڈاکٹر محمد اقبال خلیل | اکتوبر۲۰۲۰ | اخبار اُمت

Responsive image Responsive image

جب ۲۹فروری ۲۰۲۰ء کو دوحہ میں امریکا اورافغان طالبان کےدرمیان معاہدۂ امن پر دستخط کیے گئے، اس تقریب کی خاص بات امریکا کا طالبان کو برابر کی قوت تسلیم کرنا تھا۔ اس معاہدۂ امن میں بعض ناقابلِ فہم تاریخیں دی گئی تھیں، مثلاً ’’۱۰مارچ کو بین الافغان مذاکرات کا آغاز ہوجائے گا اور اس سے پہلے ۵ہزار طالبان قیدی اور ایک ہزار سرکاری قیدی رہا کردیے جائیں گے‘‘۔اسی طرح دیگر تاریخوں میں ۲۹مئی اور ۲۷؍اگست بھی شامل تھیں، جو سب کی سب گزر چکی ہیں۔ طالبان پر سے بین الاقوامی پابندیاں ہٹانے کی تاریخ بھی گزر گئی، مگر یہ تمام مسائل حل نہ ہوئے لیکن ۱۲ستمبر کو بین الافغان مذاکرات کا آغاز ضرور ہوگیا۔ ان مذاکرات کا بنیادی ایجنڈا شورش زدہ افغانستان میں امن کا قیام ہے،جو گذشتہ چارعشروں سے بدامنی کا شکار ہے، اور وہاں کا ہر شہری ہرصبح اس تمنا اور دُعا کے ساتھ بیدار ہوتا ہے کہ اس کے وطن میں امن کا سورج آج طلوع ہوگا۔

بنیادی طور پر مذاکرات میں دو گروہوں کا آمنا سامنا ہے۔ لیکن اگر ان گروہوں کی مذاکراتی ٹیموں کا جائزہ لیا جائے توپوری افغان ملت کی نمایندگی موجود ہے۔ طالبان کے وفد میں کُل ارکان کی تعداد ۲۰ ہے، لیکن کوئی خاتون رکن شامل نہیں، جب کہ افغان حکومت کے وفد میں پانچ خواتین سمیت ارکان کی تعداد بھی ۲۰ ہے۔ حکمت یار کے داماد ڈاکٹر غیرت بہیر کو بھی سرکاری وفد میں شمولیت کی دعوت دی گئی تھی، لیکن انھوں نے معذرت کرلی تھی۔ افغان اعلیٰ امن کمیٹی کے سربراہ ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ نے بھی ۱۲ستمبر کی افتتاحی تقریب میں شرکت کی تھی لیکن وہ خود مذاکراتی وفد میں شامل نہیں۔ افغانستان کی سیاست پر نظر رکھنے والے جانتے ہیں، کہ برسرِ زمین طالبان کےمقابل اصل کرتا دھرتا وہی ہیں۔ صدارتی انتخابات میں شکست کے بعد ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ خودساختہ صدرجمہوریہ بن گئے، لیکن بعد میں امریکی دباؤ پر انھوں نے امن کمیٹی کی صدارت قبول کی، جو ایک اعزازی عہدہ ہے۔ البتہ یہ طے شدہ امر ہے کہ اگر بین الافغان مذاکرات ناکام ہوتے ہیں اور افغان دھڑوں میں جنگ چھڑتی ہے، تو طالبان کا مقابلہ سابقہ شمالی اتحاد کی قوتوں کے ساتھ ہی ہوگا۔

بین الافغان امن مذاکرات کا ایجنڈا تو طالبان امریکا معاہدہ ہی میں طےکردیا گیا تھا۔ دفعہ نمبر۴ میں تحریر ہے: ’’مستقل اور جامع فائربندی‘ بین الافغان مذاکرات اور صلاح کاروں کا ایک بنیادی نکتہ ہوگا۔ شرکا مستقل اور جامع فائربندی کی تاریخ اور طریقۂ کار پر بحث کریں گے، جس میں مشترکہ نظام کے نفاذ کا اعلان اورافغانستان میں مستقبل کا سیاسی نقشۂ کار شامل ہیں‘‘۔ آگے چل کر معاہدے کے تیسرے حصے کی شق نمبر۳ میں بات واضح کی گئی ہے کہ ’’ریاست ہاے متحدہ (امریکا) نئی افغان اسلامی حکومت جو بین الافغان مذاکرات اور تصفیہ کے بعد وجود میں آئے گی، اس کے ساتھ مالی تعاون جاری رکھے گا، اور اس کے اندرونی معاملات میں دخل انداز نہیں ہوگا‘‘۔

لیکن اس شق سے پہلےشق نمبر۲ بھی اہم ہے ، جس میں کہا گیا ہے: ’’ریاست ہاے متحدہ (امریکا) اور امارت اسلامی افغانستان آپس میں مثبت تعلقات قائم کریں گے اورچاہیں گے کہ ریاست ہاے متحدہ اورامارت اسلامی افغانستان باہم معاملات طے کرنے کے بعد بننے والی افغان اسلامی حکومت کے تعلقات اور بین الاقوامی مذاکرات کےنتائج مثبت ہوں گے‘‘۔ یعنی مذاکرات سے پہلے ہی اس کے مثبت نتائج اورنئی افغان حکومت کے قیام کا اعلان ۲۹فروری ہی کو کردیا گیا تھا، تو سوال پیدا ہوتا ہے پھر مذاکرات کس موضوع پر ہورہے ہیں اور مذاکرات کاروں کے ذمے کیا ایجنڈا ہے؟ فائربندی اور نئی حکومت کاڈھانچا کیا ہوگا؟ اگر اس ترتیب کو بدل دیا جائے، تو پہلے بات چیت آیندہ حکومتی ہیئت پر ہی ہوگی۔ اوراس کو طے کرنے کے بعد فائربندی کی نوبت آئے گی۔ ظاہر ہے حکومتی وفد کا مطالبہ تو یہ ہوگا اور ہے کہ پہلے جنگ بندی کردی جائے۔ ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ نے اپنی افتتاحی تقریر میں اسی نکتے پر زوردیا۔ اگرچہ مذاکرات کے تیسرے ہی دن ننگرھار صوبے میں سرکاری فوجی اور طالبان جنگجوؤں کے درمیان لڑائی چھڑگئی، اور اس میں درجنوں انسانی جانوں کا نقصان ہوا۔ پہلے حملے کا الزام دونوں طرف سے لگایا گیا۔

طالبان کی جانب سے مذاکرات کا آغاز مستقبل کے حکومتی نظام کے بارے تجاویز سے کیا گیا۔افغان طالبان کی یہ سوچی سمجھی رائے تھی کہ چونکہ امریکا نےافغانستان پر جارحیت کرکے ان سے حکومت چھینی تھی اورگذشتہ دو عشروں سے امریکی قبضے کے خلاف مزاحمتی جنگ بھی انھوں نے لڑی ہے، اس لیے مذاکرات بھی ان سے کیےجائیں اور حکومت بھی ان کے حوالے کی جائے۔ صدرٹرمپ نے (بادل نخواستہ) بالآخر ان کے ان دونوں مطالبات کو تسلیم کیا۔ ان سے دوسال مذاکرات کرکے ان کے ساتھ تمام معاملات طے کیے، اور اس کو ایک باقاعدہ معاہدے کےتحت دستخط کرکے اپنے آپ کو پابند کیا۔ البتہ دوسرے مطالبے کے لیے بین الافغان مذاکرات کا مرحلہ طے کیا گیا جس سے گزرکرافغانستان میں امارتِ اسلامی قائم ہوجائے گی۔

اس پورے عرصے میں طالبان کے بارے میں یہ سمجھاجاتا تھا کہ وہ ایک سخت گیر، بے لچک اورمتشدد گروہ ہے، جو صرف جنگ کی زبان جانتا ہے، لیکن امریکی نمایندے زلمے خلیل زادے کے ساتھ مذاکرات  میں مُلّا عبدالغنی برادر کی سربراہی میں طالبان تحریک کی قیادت نے ثابت کیا، کہ وہ جس طرح جنگی رُموز سے بخوبی آگاہ ہیں اسی طرح سفارتی اُمور بھی جانتے ہیں۔ مخالف فریقوں کے درمیان مذاکرات میں اصل بات دونوں طرف کے مفادات کا تحفظ، اس کا ادراک اور متبادل تجاویز پیش کرنا ہوتا ہے۔ اس فن کا مظاہرہ انھوں نے امریکا کے ساتھ مذاکرات میں بھی کیا اور افغان دھڑوں کے ساتھ گفتگو کے آغاز میں بھی کیا۔ شنید یہ ہے کہ انھوں نے اپنی حکومت بنانے کا مطالبہ نہیں کیا بلکہ یہ کہا کہ امارت اسلامی کی صدارت/امارت ایک غیرجانب دار فرد کے سپرد کی جائے جو دونوں فریقوں کو قابلِ قبول ہو۔ البتہ ان کا دوسرا مطالبہ یہ ہے کہ وزارتِ دفاع سمیت پانچ اہم وزارتیں ان کے سپرد کی جائیں۔ بہرکیف طالبان آیند ہ حکومت میں اپنی مضبوط پوزیشن دیکھنا چاہتے ہیں اور یہ ان کا حق ہے۔

طالبان کے مدِمقابل ڈاکٹر اشرف غنی افغانستان میں قوم پرست پختونوں، سیکولر عناصر اور سابقہ کمیونسٹوں کی نمایندگی کرتے ہیں۔ ان کی صدارت کا دوسرادور گزر رہا ہے۔ ایک ماہر معیشت کی حیثیت سے انھوں نے افغان عوام سے جو وعدے کیے تھے، وہ پورے نہیں ہوئے۔ اگر وہ تاریخ میں اپنا نام اچھے الفاظ سے یاد رکھناچاہتے ہیں تو انھیں اس موقع کو ضائع نہیں کرنا چاہیے۔

افغان طالبان کے مُلّا عبدالغنی برادر کو بھی مذاکرات کو کامیاب بنانے کا چیلنج درپیش ہے۔ پوری افغان قوم اس کامیابی کے لیے دعاگو اور پُراُمید ہے۔ اس موقع پرجنوبی افریقہ کے رہنما نیلسن منڈیلا کی مثال پیش نظر رہے۔انھوں نےجب ۲۷سالہ قید سے رہائی کے بعد ملک میں افریقن نیشنل کانگریس کی حکومت قائم کی تو مقامی لوگوں میں سفیدفام اقلیت کے خلاف نفرت اپنے عروج پر تھی اور انتقام کا جذبہ عام تھا۔لیکن نیلسن منڈیلا نے اعلان کیا کہ ہمیں اپنے وطن کو آباد کرنا ہے، اور اس کے لیے ہمیں سفیدفام لوگوں کی اتنی ہی ضرورت ہے جتنی مقامی لوگوں کی۔ یوں انھوں نے تمام مظالم کو بھلاکر ایک ترقی یافتہ ملک کی بنیاد رکھی۔ مُلّا عبدالغنی برادرنے خودمختاراور مضبوط اسلامی ملک بنانے کا ارادہ ظاہر کیا ہے، اور پوری دنیا کےمسلمان اس ارادے کی تکمیل میں ان کے لیے دعاگو ہیں۔ مذاکرات کا یہ عمل طویل ،صبرآزما اور پیچیدہ ہوسکتا ہے۔ طالبان کو اس میں قدرے بہتر حیثیت حاصل ہے اور وہ پُراعتماد بھی ہیں۔