پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد | اکتوبر۲۰۲۰ | پاکستانیات
قائد اعظم محمد علی جناح نے فروری ۱۹۴۸ء میں امریکی عوام کے نام ریڈیائی پیغام میں پاکستان کے دستور کے بارے میں واضح کیا کہ یہ اسلام کے بنیادی اصولوں کی روشنی میں بنایا جائے گا۔ یاد رہے کہ یہ بیان اس نام نہاد ۱۱؍ اگست ۱۹۴۷ء والی تقریر کے بعد کا ہے جسے جان بوجھ کر بار بار اس طرح پیش کیا جاتا ہے گویا ۱۱؍ اگست کی تقریرہی ان کی وصیت تھی۔ یہاں وہ بیان ملاحظہ فرمایئے جو قائد اعظم نےامریکی عوام سے ریڈیو پر خطاب کرتےہوئے دیا :
The constitution of Pakistan has yet to be framed by the Pakistan Constituent Assembly. I do not know what the ultimate shape of this constitution is going to be, but I am sure that it will be of a democratic type, embodying the essential principles of Islam. Today, they are as applicable in actual life as they were 1300 years ago. Islam and its idealism have taught us democracy. It has taught equality of men, justice and fair play to everybody. We are the inheritors of these glorious traditions and are fully alive to our responsibilities and obligations as framers of the future constitution of Pakistan. In any case Pakistan is not going to be a theocratic state, to be ruled by priests with a divine mission. We have many non-Muslim ___ Hindus, Christians and Paresis ___ but they are all Pakistanis. They will enjoy the same rights and privileges as any other citizens and will play their rightful part in the affairs of Pakistan".
مجلس دستور ساز پاکستان کو ابھی پاکستان کے لیے دستور مرتب کرنا ہے۔ مجھے اس بات کا تو علم نہیں کہ دستور کی حتمی شکل کیا ہوگی، لیکن مجھے اس امر کا یقین ہے کہ یہ جمہوری نوعیت کا ہوگا جس میں اسلام کے لازمی اصول شامل ہوں گے۔ آج بھی ان کا اطلاق عملی زندگی میں ویسے ہی ہوسکتا ہے جیسے کہ ۱۳سوبرس قبل ہوسکتا تھا۔ اسلام نے ہرشخص کے ساتھ عدل اور انصاف کی تعلیم دی ہے۔ ہم ان شان دار روایات کے وارث ہیں اور پاکستان کے آیندہ دستور کے مرتبین کی حیثیت سے ہم اپنی ذمہ داریوں اور فرائض سے باخبر ہیں۔ بہرنوع پاکستان ایک ایسی مذہبی مملکت نہیں ہوگی جس پر آسمانی مقصد کے ساتھ پاپاؤں کی حکومت ہو۔ ہمارے ہاں بہت سے غیرمسلم، ہندو، عیسائی اور پارسی ہیں، لیکن وہ سب پاکستانی ہیں۔ انھیں وہ تمام حقوق اور مراعات حاصل ہوں گے جو کسی اور شہری کو حاصل ہوسکتی ہیں اور وہ اُمور پاکستان میں اپنا جائز کردار ادا کرسکیں گے۔(قائداعظم : تقاریر و بیانات، ترجمہ: اقبال احمد صدیقی، جلد چہارم، ص۴۲۱-۴۲۲)
اس بیان میں قائداعظم نے تین بنیادی اصول واضح کر دیے۔ اول یہ کہ چوں کہ دستورسازاسمبلی ابھی دستورر پر کام کر رہی ہے، اس لیےدستور کی آخری شکل وہ ہوگی جو اسمبلی طے کرے گی لیکن اس کی جو بھی شکل ہو گی وہ اسلام کے ابدی اصولوں کے مطابق ہوگی۔دوئم یہ کہ سیاسی نظام نام نہاد مذہبی اجارہ داری، یعنی Theocracy پر مبنی نہیں ہوگا ۔ریاست اسلامی اصولوں کی پابند ہوگی لیکن کسی مخصوص مسلک کی پیروی نہیں کرے گی ۔سوئم یہ کہ اسلامی نظام ریاست میں غیرمسلموں کو ان کے تمام بنیادی حقوق اور تحفظات حاصل ہوں گے۔ یہ وہی تین اہم باتیں ہیں جو قرآن وسنت بار بار دُہراتے ہیں کہ حاکمیت اللہ تعالیٰ کی ہے، کسی انسانوں کے گروہ یا پارٹی کی نہیں ہوسکتی (فرماں روائی کا اقتدار اللہ کے سوا کسی کے لیے نہیں ہے۔اس کا حکم ہے کہ خود اس کے سوا تم کسی کی بندگی نہ کرو۔یہی ٹھیٹھ سیدھا طریق زندگی ہے ، مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔ یوسف ۱۲:۴۰)
قرآن و سنت نے غیر مسلموں کو ان کے مذہبی معاملات میں مکمل آزادی دی ہے اور بنیادی انسانی حقوق جان ،مال ،عزّت، مذہبی آزادی کے قیام کو مقاصد شریعت قرار دیا ہے (تمھارے لیے تمھارا دین ہے اور میرے لیے میرا دین۔الکافرون ۱۰۹:۶)۔ مستشرقین اور اکثر مغرب زدہ مسلمان دانش وَر یورپ کی تاریخ اور فکر کے تناظر میں بار بار یہ بات دُہراتے ہیں کہ اسلامی ریاست میں یورپ کی طرح ایک مذہبی یا مسلکی گروہ کی اجارہ داری ہو گی۔ اسلامی ریاست میں Theocracy نہ ہونے کو معروف اسکالر علامہ اسد یوں بیان کرتے ہیں:
Since every adult Muslim has the right to perform each and every religious function,no person or group can legitimately claim to possess any special sanctity by virtue of religious functions entrusted to them. Thus the term "theocracy" as commonly understood in the West is entirely meaningless within the Islamic environment.
چونکہ ہر بالغ مسلمان کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ ہرطرح کی مذہبی رسم ادا کرسکے، لہٰذا کوئی فرد یا گروہ قانونی طور پر اس بات کا دعویٰ نہیں کرسکتا کہ اسے مذہبی رسومات کی ادایگی کے لیے خصوصی استحقاق دیا گیا ہے۔ لہٰذا ’تھیاکریسی‘ کی اصطلاح جیساکہ عموماً مغرب میں سمجھی جاتی ہے، اسلامی تصور میں مکمل طور پر بے معنی ہے۔ (Principles of State and Government in Islam،ص ۲۱)
نہ صرف علامہ اسد بلکہ مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودی پاپائیت (تھیاکریسی) کی مخالفت کرتے ہوئے حاکمیت الٰہی کے اصول کو یوں واضح کرتے ہیں:
اسلامی ریاست جس کا قیام اور فروغ ہمارا نصب العین ہے، نہ تو مغربی اصطلاح کے مطابق مذہبی حکومت (Theocracy) ہے اور نہ جمہوری حکومت (Democracy) بلکہ وہ ان دونوں کے درمیان ایک الگ نوعیت کا نظام سیاست و تمدن ہے۔ جو ذہنی اُلجھنیں آج کل مغربی تعلیم یافتہ لوگوں کے ذہن میں ’اسلامی ریاست‘ کے تصور کے متعلق پائی جاتی ہیں وہ دراصل ان مغربی اصطلاحات کے استعمال سے پیدا ہوتی ہیں جو لازماً اپنے ساتھ مغربی تصورات اور پیچھے مغرب کی تاریخ کا ایک پورا سلسلہ بھی اُن کے ذہن کے سامنے لے آتی ہیں۔ مغربی اصطلاح میں مذہبی حکومت دو بنیادی تصورات کا مجموعہ ہے:
۱-خدا کی بادشاہی قانونی حاکمیت (Legal Sovereignty) کے معنی میں، اور
۲- پادریوں اور مذہبی پیشواؤں کا ایک طبقہ جو خدا کا نمایندہ اور ترجمان بن کر خدا کی اس بادشاہی کو قانونی اور سیاسی حیثیت سے عملاً نافذ کرے۔
ان دو تصورات پر ایک تیسرے امرِواقعی کا بھی اضافہ ہوا ہے، اور وہ یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام انجیل کی اخلاقیات کے سوا کوئی قانونی ہدایت نامہ چھوڑ کر نہیں گئے، اور سینٹ پال نے شریعت کو لعنت قرار دے کرعیسائیوں کو احکامِ تورات کی پابندی سے آزاد کردیا۔ اب اپنی عبادت، معاشرت، معاملات اور سیاست وغیرہ کے لیے عیسائیوں کو قوانین و احکام کی جو ضرورت پیش آئی اسے ان مذہبی پیشواؤں نے اپنے خودساختہ احکام سے پورا کیا اور ان احکام کو خدائی احکام کی حیثیت سے منوایا۔
اسلام میں اس مذہبی حکومت (Theocracy) کا صرف ایک جزآیا ہے، اور وہ ہے خدا کی حاکمیت کا عقیدہ۔ اس کا دوسرا جز اسلام میں قطعاً نہیں ہے۔ رہا تیسرا جز، تو اس کے بجائے یہاں قرآن اپنے جامع اور وسیع احکام کے ساتھ موجود ہے، اوراس کی تشریح کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایسی قولی اور عملی ہدایات موجود ہیں جن کی روایات میں سے صحیح کو غلط سے ممیز کرنے کے مستند ذرائع ہمیں حاصل ہیں۔ ان دو مآخذ سے جو کچھ ہمیں ملے صرف وہی من جانب اللہ ہے۔ اس کے سوا کسی فقیہ، امام،ولی یا عالم کا یہ مرتبہ نہیں ہےکہ اس کے قول و فعل کو حکمِ خداوندی کی حیثیت سے بے چون و چرا مان لیا جائے۔ اس صریح فرق کے ہوتے ہوئے اسلامی ریاست کو اصطلاح میں ’مذہبی حکومت‘ (Theocracy)کہنا قطعاً غلط ہے۔(اسلامی ریاست، ص ۴۷۹-۴۸۰)
قائد اعظم، علامہ اقبال، علامہ اسد اور مولانا مودودی کے تحریری بیانات میں یہ یکسانیت ظاہر کرتی ہے کہ جس شخص نے بھی اسلام کا مطالعہ کیا ہے، وہ یہ بات جانتا ہے کہ نظام شریعت اور اسلامی ریاست نہ تھیا کریسی یا کسی فرقہ کی جابرانہ حکومت ہے، نہ لادینی مغربی جمہوریت بلکہ شریعت کے اعلیٰ عالم گیر انسانی اخلاقی اصولوں کے نفاذ کا نام ہے۔مغرب زدہ دانش وَروں کا یہ واہمہ کہ اسلامی ریاست کا مطلب ’ملاؤں‘یا ’طالبان‘ کی حکومت ہے، ایک بے معنی اور بے حقیقت دماغی خلل ہے۔
گویا ایک عرصہ سے جو واویلا مچایا جاتا ہے کہ شریعت کا نفاذ ہوا تو بیچارے غیرمسلم مارے جائیں گے، ان کے حقوق سلب ہو جائیں گے، قائداعظم، علامہ اقبال، علامہ اسد اور مولانا مودودی کے تحریری بیانات اس غبارے کی ہوا نکال کر اسلامی ریاست کے منفرد ہونے کو وضاحت سے بیان کر دیتے ہیں۔ ان حقائق کے باوجود اگر کوئی نام نہاد،’آزاد خیال دانش وَر‘یہ کہتا ہے کہ اسلامی ریاست ’مولویوں کے ٹولے‘ کی حکومت ہوتی ہے تو وہی جائزہ لے کہ وہ کہاں تک آزاد خیال ہے؟ کہاں تک خود ساختہ تصور ہی میں گم ہے اور نہ حق تک پہنچنے کی کوشش پر آمادہ ہے اورنہ اپنی رائے پر نظرثانی اورغور کرنے کے لیے تیار ہے۔ شاید ایسی ہی صورتِ حال میں قرآن حکیم نے یہ کہا کہ ’’ان کے پاس دل ہیں، مگر وہ سوچتے نہیں ۔ان کے پاس آنکھیں ہیں، مگر وہ ان سے دیکھتے نہیں۔ ان کے پاس کان ہیں مگر وہ ان سے سنتے نہیں۔ وہ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گئے گزرے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو غفلت میں کھوئے ہوئے ہیں‘‘۔(الاعراف ۷:۱۷۹)
مناسب ہو گا کہ علامہ اقبال کے ایک رفیق کار جن کا تذکرہ نامعلوم وجوہ کی بنا پر تاریخ پاکستان پر لکھی گئی کتب میں کہیں نظر نہیں آتا، حالاں کہ وہ تحریک پاکستان کے فکری قائدین میں سے تھے۔ پاکستان بننے کے بعد لاہور میں انھوں نے قومی تعمیر نوکےادارہ کے سربراہ کے طور پر جو خدمات انجام دیں، اور بعدازاں پیدایشی طور پر یورپی باشندہ کے ہونے کے باوجود اقوام متحدہ میں پاکستان کے پہلے سفیر مقرر ہوئے،یعنی نومسلم علامہ محمداسد۔ وہ قائد اعظم کی زندگی میں یہ بات تحریراً اپنےرسالے عرفات میں طبع کرتے ہیں :
… I do believe (and have believed for about fourteen years) that there is no future of Islam in India until Pakistan becomes a reality and that if it becomes a reality here, it might bring about a spiritual revolution in the whole Muslim world by proving it is possible to establish an Ideological, Islamic polity in our times no less than it was possible thirteen hundred years ago. But ask yourselves: Are all leaders of Pakistan movement, and the intelligentsia which forms its spearhead, quite serious in their avowals that Islam and nothing but Islam, provides the ultimate inspiration of their struggle?? Are they really aware of what it implies when they say, the objective of Pakistan is la ilaha illa‘Allah?? Do we all mean the same when we talk and dream of Pakistan??
میرا عقیدہ ہے (اور گذشتہ چودہ سال سے میں اس عقیدے پر قائم ہوں) کہ ہندستان میں اسلام کا کوئی مستقبل نہیں، ماسوا اس کے کہ پاکستان ایک حقیقت بن کرقائم ہوجائے۔ اگر پاکستان واقعی قائم ہوجاتا ہے تو پورے عالمِ اسلام میں ایک روحانی انقلاب آسکتا ہے، یہ ثابت کرنے کے لیے کہ جس طرح تیرہ سو سال پہلے ایک نظریاتی، اسلامی ہیئت حاکمہ قائم کرنا ممکن تھا، کم و بیش اسی طرح آج بھی ممکن ہے لیکن ہمیں ایک سوال کا جواب دینا ہوگا : کیا تحریک پاکستان کے تمام قائدین، اور اہلِ دانش جو تحریک کے ہراول ہیں، کیا وہ اپنے ان دعوؤں میں سنجیدہ اور مخلص ہیں کہ اسلام، اور صرف اسلام ہی ان کی جدوجہد کا اوّلین محرک ہے؟ جب وہ یہ کہتے ہیں کہ ’’پاکستان کا مطلب کیا ’لا الٰہ الا اللہ ‘ تو کیا وہ اس کا مطلب بھی جانتے ہیں کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں؟ پاکستان کا نظریہ اور پاکستان کا خواب کیا ہم سب کے ذہنوں میں ایک ہی ہے، یا مختلف و متفرق ہے؟(’ہم پاکستان کیوں بنانا چاہتے ہیں؟‘ محمد اسد ایک یورپین بدوی، ترتیب و تدوین: محمد اکرام چغتائی، ص ۲۹۳)
یہ بات یاد رہے علامہ اسد کی یہ تحریر مئی ۱۹۴۷ء کی ہے جو رسالہ عرفات میں لاہور سےطبع ہوئی ۔ یہ الفاظ کسی ’فرقہ وارانہ گروہ‘کے دباؤ میں نہیں کہے گئے۔ یہ الفاظ قائداعظم کے مکمل علم کے ساتھ کہے گئے اور ان الفاظ کو تحریر کرنے والا کوئی بند ذہن کا دینی مدرسہ کا فارغ نہیں بلکہ ایک ایسا شخص ہے جس کی علمیت سے علامہ اقبال اور قائد پوری طرح آگاہ تھے ۔اس لحاظ سے ان کی تحریر قائد کی فکر کی آواز بازگشت کہی جا سکتی ہے ۔
علامہ اسد آگے چل کر مزید وضاحت سے تحریک پاکستان کا مقصد واضح کرتے ہیں:
In the Pakistan movement, on the other hand, there undoubtedly exists such a direct connection between the people’s attachments to Islam and their political aims. Rather more than that the practical success of this movement is exclusively due to our people’s passionate, if as yet inarticulate desire to have a state in which the forms and objectives of government would be determined by the ideological imperatives of Islam – a state ,that is, in which Islam would not be just a religious and cultural “label” of the people concerned, but the very goal and purpose of the state-formation. And it goes without saying that an achievement of such an Islamic state –the first in the modern world would revolutionize Muslim political thought everywhere,and would probably inspire other Muslim peoples to strive toward similar ends; and so it might become a prelude to an Islamic revolution in many parts of the world.
بلاشبہہ اس تحریک میں اسلام سے جذباتی وابستگی اور اسلامی سیاسی نظام میں آپس میں گہرا تعلق ہے۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ اس تحریک کی عملی کامیابی کا سبب ہمارے عوام کی یہ جذباتی خواہش (اگرچہ مبہم) ہے کہ ایک ایسی ریاست قائم کی جائے، جہاں حکومت کی اشکال و اغراض اسلام کے اصول و احکام کے مطابق ہوں، ایک ایسی ریاست جہاں اسلام عوام کے مذہبی و ثقافتی روایات کا محض ٹھپہ نہیں ہوگا بلکہ ریاست کی تشکیل و تاسیس کا بنیادی مقصد ہوگا۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ ایک ایسی نئی اسلامی ریاست___ جو جدید دُنیا میں پہلی ریاست ہوگی___ تمام اسلامی ملکوں کے سیاسی افکار میں انقلاب برپا کردے گی، اور دوسرے اسلامی ملکوں کے عوام میں بھی تحریک پیدا کرے گی کہ وہ ایسے ہی نصب العین کے لیے جدوجہد کریں، اور یوں یہ ریاست (پاکستان) دُنیا کے اکثر حصوں میں تجدید و احیاے اسلام کی عالم گیر تحریک کا پیش خیمہ بن جائے گی۔(ایضاً، ص ۲۹۶)
پاکستان کے اسلامی ریاست ہونے اور صرف نظام اسلامی کے لیے قائم کیے جانے کو واضح الفاظ میں بیان کرتے ہوئے علامہ اسد بات کو آگے بڑھاتے ہیں:
It is, thus, quite legitimate to say that the Pakistan movement contains a great promise for an Islamic revival, and as far as I can see it offers almost the only hope of such a revival in a world that is rapidly slipping away from the ideals of Islam. But the hope is justified only so long as our leaders, and masses with them, keep the true objective of Pakistan in view and do not yield to the temptation to regard their movement just another of the many "national" movements so fashionable in the present day Muslim world a danger which, I believe is very imminent.
اس لیے مجھے یہ کہنے میں باک نہیں کہ تحریک پاکستان احیاے اسلام کے لیے زبردست امکان کا درجہ رکھتی ہے اور جہاں تک میری نظرجاتی ہے، تحریک ِ پاکستان ایک ایسی دُنیا میں تجدید و احیاے اسلام کی ’واحد اُمید‘ ہے جو بڑی تیزی سے اسلامی مقاصد سے دُورہٹتی جارہی ہے۔ لیکن یہ ’واحد اُمید‘ بھی اس اعتبارپر قائم ہے کہ ہمارے قائدین اور عوام قیامِ پاکستان کا اصل مقصد اپنی نظروں سے اوجھل نہ ہونے دیں، اور اپنی تحریک کو ان نام نہاد ’قومی‘ تحریکوں میں شامل کرنے کی ترغیب میں نہ آئیں جو آئے دن جدید دُنیاے اسلام میں اُبھرتی رہتی ہیں۔ یہ ایک بہت بڑا خطرہ ہے، اور مجھے کبھی کبھی اس کے رُونما ہونے کا خدشہ صاف نظر آتا ہے۔(ایضاً، ص ۲۹۶-۲۹۷)
مزید لکھتے ہیں:
In short, it is the foremost duty of our political leaders to impress upon the masses that the objective of Pakistan is the establishment of a truly Islamic polity; and that this objective can never be attained unless every fighter for Pakistan – man or women, great or small –honestly tries to come closer to Islam at every hour and every minute of his or her life that, in a word, only a good Muslim can be a good Pakistani.
مختصر یہ کہ اب یہ ہمارے سیاسی رہنماؤں کا فرض ہے کہ وہ عوام کو بار بار تلقین کریں کہ حصولِ پاکستان کا مقصد ایک سچی اسلامی ہیئت حاکمہ کا قیام ہے اور یہ مقصد کبھی حاصل نہیں ہوسکتا، جب تک تحریک ِ پاکستان کا ہرکارکن، وہ مرد ہو یا عورت، بڑا ہو یا چھوٹا، دیانت داری سے اپنی زندگی کو ہرگھنٹے، اور ہرمنٹ اسلام کے قریب سے قریب تر لانے کی کوشش نہ کرے گا، کیونکہ ایک اچھا مسلمان ہی ایک اچھا پاکستانی بن سکتا ہے۔(ایضاً، ص ۳۰۶)
علامہ اسد کے خدشات درست ثابت ہوئے کہ مسلم لیگ میں جو لوگ اپنے مفادات کے لیے شامل ہوگئے تھے اور ایسے ہی وہ نوکرشاہی جسے انگریزکے تربیتی اداروں نے آداب حکومت سکھائے تھے اور ان کے ذہن میں یہ بات بٹھا دی تھی کہ مذہب اور دنیا دو الگ دائرے ہیں جو کبھی آپس میں نہیں ملتے اور دونوں کو کبھی آپس میں ملنا بھی نہیں چاہئیے۔ مذہب ایک’ ذاتی معاملہ‘ہے اور یہ مسجد ، چرچ اور مندر تک محدود ہونا چاہیے۔ بقیہ تمام معاملات انگریز کے دیئے ہوئے ’روشن اصولوں‘ سے طے ہونے چاہییں، چنانچہ ایسی بیوروکریسی اور سیاستدانوں سے امید رکھنا کہ وہ قائد کے انتقال کے بعد تصور پاکستان کے نفاذ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں گے ایک واہمہ سے زیادہ نہیں کہا جاسکتا۔
ہر وہ شخص جو معروضی طور پر پاکستان کی تاریخ کا مطالعہ کرے گا یہ کہنے پر مجبور ہوگا کہ اگر ۱۹۳۳ءمیں ظفراللہ خان نے چودھری رحمت علی کے اور علامہ اقبال کے تصور قیام پاکستان کو غیر عملی قرار دے کر رد کر دیا تھا تو کیا سرحدی کمیشن کے سربراہ کی حیثیت سے وہ پاکستان کی حدود کا تعین ایمانداری سے کر سکتے تھے؟ اگر غلام محمد ،اسکندر مرزا اور دیگر افراد نے سازشوں کے ذریعے ملک کے نظریاتی تشخص کو دبانا بلکہ تبدیل کرنا چاہا تو ایسے افراد سے کوئی اور توقع کی جاسکتی تھی؟ تاریخ کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ علامہ اسد کے خدشات درست تھے اور یہی وہ بات ہے جو مولانا مودودی نے کہی تھی کہ ہمارا مقصد محض ایک خطے کا حصول نہیں ہونا چاہیے بلکہ خطے کے حصول کے ساتھ ایسے افراد کی تیاری اور کردار سازی ہونا چاہیے جو اس خطے کو صحیح معنی میں قائداعظم اور علامہ اقبال کے تصور کی مثال بنا سکیں ۔علامہ اسد اس پہلو پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں:
To a Muslim who takes Islam seriously every political endeavour, must in the last resort ,drive its sanctions from religion , just as religion can never remain aloof from politics: for the simple reason that Islam, being concerned not only with our spiritual development but with the manner of our physical , social and economic existence as well , is a “political” creed in the deepest morally most compelling sense of this term. In other words, the Islamic religious aspect of our fight for Pakistan must be made predominant in all the appeals which Muslims leaders make to the Muslims masses. If this demand is neglected, our struggle cannot properly fulfill its historic mission.
ایک مسلمان کے نزدیک ، جس کے لیے اسلام ہی اس کا جینا مرنا ہے، ہر سیاسی تحریک کو اپنی سند ِ جواز مذہب سے حاصل کرنی چاہیے، کیونکہ مذہب سیاست سے الگ نہیں ہوسکتا، اور اس کی وجہ بڑی سادہ ہے، یہ کہ اسلام صرف ہمارے روحانی ارتقا سے غرض نہیں رکھتا، بلکہ ہماری جسمانی، معاشرتی اوراقتصادی زندگی سے بھی پورا پورا تعلق رکھتا ہے۔ اسلام ہمارا مکمل ضابطۂ حیات ہے،جس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کے لیے، پاکستان کی حمایت میں، پاکستان کی خاطر مسلم عوام سے مسلم رہنما جو پُرزور اپیلیں کرتے رہتے ہیں، ان کا پہلا حوالہ پاکستان میں اسلام کا دینی و مذہبی پہلو ہونا چاہیے۔ اگر اس اندرونی آواز اور مطالبے کو نظرانداز کیا گیا تو ہماری جدوجہد اپنے تاریخی مشن کو پورا نہ کرسکے گی۔(ایضاً، ص ۳۰۴)
علامہ اسداور قائد اعظم کی فکر میں اس یکسانیت کے باوجود دستور ساز اسمبلی کے اراکین میں وہ لوگ بھی شامل تھے جو قائد اعظم کے تصور پاکستان پر یقین رکھتے تھے اور وہ بھی جو اپنے مفادات کے لیے مسلم لیگ میں شامل ہو گئے تھے،اور ان کی وفاداریاں مروجہ نظام کے ساتھ تھیں۔ علامہ اسد کو ان حقائق کا پورا علم تھا ۔چنانچہ اس اندورونی تضاد یا فکری انتشار کو سمجھتے ہوئے لکھتے ہیں:
The need for ideological, Islamic leadership on the part of our leaders is the paramount need of the day. That some of them -though by far not all are really aware of their great responsibility in this respect is evident, for example, from the splendid convocation address which Liaquat Ali Khan,the Quaid-e-Azam's principle lieutenant, delivered at Aligarh a few month ago. In that address he vividly stressed the fact that our movement drives its ultimate inspiration from the Holy Qur’an and that, therefore, the Islamic State at which we are aiming should drive its authority from the Shari‘ah alone. Muhammad Ali Jinnah himself has spoken in a similar vison on many occasions. Such pronouncements, coming as they do from the highest levels of Muslim League leadership go a long way to clarify the League‘s aims. But a clarification of aims is not enough. If these ideal aims are to have a practical effect on our politics, the high command of the league should insist on a more concrete elaboration, by a competent body of our intellectual leaders,of the principles on which Pakistan should be built.
ہمارے لیڈروں کے لیے اسلامی و نظریاتی قیادت کی ضرورت آج کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ اگر سب رہنما نہیں،تو گنتی کےچند رہنما ایسے ضرور موجود ہیں جو وقت کی اس اہم ضرورت سے پوری طرح باخبر بھی ہیں اور اس ذمہ داری سے پوری طرح عہدہ برآ بھی ہورہے ہیں۔ مثال کے طور پر چند سال قبل مسلم یونی ورسٹی، علی گڑھ کے شان دار جلسہ تقسیم اسناد کے موقع پر قائداعظم کے دست ِ راست لیاقت علی خان صاحب نے جو خطبۂ صدارت پیش کیا، انھوں نے بڑے زوردار طریقے سے اس حقیقت کو اُجاگر کیا کہ تحریک ِ پاکستان کے محرکات کا اصل سرچشمہ قرآنِ مجید ہے۔ لہٰذاہم جس اسلامی ریاست کے قیام کے لیے جدوجہد کررہے ہیں ، وہ اپنی سند اختیار و مجاز صرف شریعت سے حاصل کرے گی۔ قائداعظم محمدعلی جناح نے بھی متعدد موقعوں پر ایسے ہی اندازِ فکر میں خطاب کیا ہے۔ ایسے بیانات و خطبات چونکہ مسلم لیگ کی ہائی کمان کی طرف سے آتے ہیں، اس لیے مسلم لیگ کے مقاصد و اغراض کی تشریح و ترجمانی ہوجاتی ہے، لیکن محض تشریح و ترجمانی کافی نہیں۔ اگر مسلم لیگ کے اسلامی اغراض و مقاصد کو ہماری سیاست پرعملاً اثرانداز ہونا ہے تو مسلم لیگ کی ہائی کمان کو زیادہ ٹھوس بنیاد پروضاحت و تشریح کا طریقہ اختیارکرنا چاہیے۔ اس کام کی خاطر اربابِ دانش کی ایک بااختیار مجلس بنانی چاہیے۔ جو ان اصولوں کی مناسب وضاحت و تشریح کرنے کا فریضہ انجام دے، جن پر پاکستان کی بنیاد استوار کی جائے گی۔(ایضاً، ص ۳۰۴-۳۰۵)
It is quite possible that before these lines appear in print the Quaid-e -Azam will have sent forth a call to the Muslim nation to establish a constituent assembly for Pakistan or if this has not been done so for, is bound to be done in the very near future. Hence Muslim legislators and intellectuals must make up their minds here and now as to what sort of political structure, what sort of society, and what sort of national ideals they are going to postulate. The fundamental issue before them is simple enough; shall our state be just another symbol of the world wide flight from religion, just one more of the many "Muslim" states in which Islam has no influence whatever on the community’s social and political behavior or shall it became the most exciting, the most glorious experiment in modern history, our first step on the road which Greatest Man has pointed out to mankind? shall Pakistan only become a means of "national" development of Muslims in certain areas of India - or shall it herald, to all over the world , the majestic rebirth of Islam as practical political proposition.
یہ عین ممکن ہے کہ اس مضمون کے شائع ہونے سے پہلے ہی قائداعظم نے پاکستان کی دستور ساز اسمبلی قائم کرنے کا مژدہ مسلمانانِ ہند کو دے دیا ہو، اور اگر ابھی تک ایسا نہ ہوسکا تو بہت جلد اس کا اعلان منظرعام پر آجائے گا۔لہٰذا مسلمان واضعین قانون اور اربابِ دانش کو فوراً ذہنی طور پر خود کو تیار کرلینا چاہیے کہ نئی اسلامی ریاست کا سیاسی نظام کیا ہوگا، کس نوعیت کا معاشرہ استوار کرنا ہوگا، اور قومی مقاصد کیا ہوں گے؟ ان کے سامنے جو مسئلہ درپیش ہے، وہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے بالکل سادہ ہے: کیا ہماری ریاست مذہب سے عالمی دُوری کی ایک اور علامت ہوگی، ان مسلم ریاستوں میں ایک اور مسلم ریاست کا اضافہ، جن میں اسلام کا کوئی اثراور عمل دخل نہیں ہے۔ نہ سیاسی نظام کی تشکیل میں نہ معاشرتی طرزِعمل میں۔ یا پھر یہ جدید تاریخ میں ایک نہایت پُرجوش اور انتہائی شان دار تجربہ ہوگا، اس شاہراہ میں پہلا قدم جو انسانِ کامل نے پوری انسانیت کو دکھائی تھی؟ کیا پاکستان برعظیم ہندستان کے چند خاص علاقوں میں مسلمانوں کی قومی ترقی کا ایک ذریعہ ہوگا، یا پھر پاکستان ایک عملی سیاسی نظریے کے طور پر پوری دُنیا میں اسلام کی تجدید و احیا کی علَم برداری کرے گا؟(ایضاً، ص ۳۰۵)۔(جاری)